Print this page

امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں اتحاد

Rate this item
(0 votes)

امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں اتحاد

اسلامي فرقوں كے درميان سياسي اختلافات كي وجہ سے زيادہ گہرے ہوجانے والے نظرياتي اور عقائدي اختلافات كو مدنظر ركهتے ہوئے اتحاد كي راہ ميں دو طرح كے اقدام كئے گئے: بعض افراد نے تقريب مذاہب كا بيڑا اپنے سر اٹها ليا جس ميں شيعہ حوزہ ہائے علميہ اور الازهريونيورسٹي نے اپني علمي حيثيت و منزلت كے مطابق اتحاد كي راہ ميں قدم آگے بڑهائے۔ دوسرے بعض افراد نے بهي مذہبي اختلافات كے سلسلہ ميں گفتگو سے پرہيز كركے سياسي اتحاد برقرار كرنے كي كوشش كي اور مسلمانوں كي بےنظير طاقت كو مدنظر قرار ديا۔

• اتحاد؛ كاميابي كا ضامن

جن اسلامي دانشوروں نے معاشرے ميں اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كي ہے ان ميں سے آيت اللہ بروجردي جيسي كاميابي كم ہي افراد كو ملي۔ افسوس كہ دونوں مذاہب ميں متعصب اور تفرقہ پسند افراد نيز مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كے لئے استعماري سازشوں كي وجہ سے بہت سي جگہوں پر اتحاد كے سلسلہ ميں كي جانے والي كوششيں ناكامياب رہيں۔ مسئلہ اتحاد بين المسلمين كا تعلق صرف اسلامي جمہوريہ كے قيام سے نہيں ہے بلكہ امام خميني(رہ) نے اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے اس كي جانب متوجہ كيا تها:

’’ہميں كاميابي كي اس كليد يعني اتحاد كلمہ اور قرآن مجيد پر اعتماد كي حفاظت كرني چاہئے اورہم سب لوگ شانہ بہ شانہ ہو كر قدم آگے بڑهائيں اور ايران ميں اسلامي جمہوريہ قائم كريں" (۱)

آپ نے اسلامي انقلاب كي كاميابي كے بعد بهي اس اہم مسئلہ كي جانب اشارہ فرمايا اور كہا:"اگر ہم اتحاد كلمہ اور اسلامي زندگي كي اس خصوصيت كہ جسميں تمام چيزِيں شامل ہيں، كا خيال ركهيں تو ہم آخر تك كامياب رہيں گے اور اگر خدانخواستہ وہ اس ميں خلل ڈاليں يا ہم سستي كا مظاہرہ كريں اور انكا مقابلہ نہ كريں يا اپنے طور پر يہ سوچ كر بيٹهے رہيں كہ ہم كامياب ہيں اور اس طرح سست ہوجائيں تو مجهے اس بات كا ڈر ہے كہ كہيں وہ انہي مسائل كو دوسرے نتائج كے ساته ہمارے سامنے نہ لے آئيں۔ اگر ہم استقامت كا مظاہرہ كريں اور اپنے پاس موجود افراد وطن كي صورت ميں موجود اس طاقت كي حفاظت كريں ، اتحاد كلمہ كي حفاظت كريں تو ہم سب كامياب رہيں گے"۔ (2)

امام خميني (رہ) اتحاد بين المسلمين كو اسلامي نظام كي علت وجود اور علت بقاء جانتے ہيں اور اسي عنصر كو مسلمانوں كي بقاء كا ضامن سمجهتے ہيں:"اگر مسلمان اس عزت و عظمت كو دوبارہ حاصل كرليں جو انہيں صدراسلام ميں حاصل تهي ، اسلام اور اتحاد كو مدنظر قرار ديں ، وہ اسلام كے سلسلہ ميں ہونے والا اتفاق نظر ہي تها كہ جسكي وجہ سے وہ غيرمعمولي طاقت و شجاعت كے مالك بن گئے تهے"۔ (3)

• اتحاد ايك شرعي فريضہ

امام (رہ) كے فرض شناس نظريہ كے مطابق سياسي اقدام بنيادي طور پر شرعي ذمہ داري ہے۔ اسي وجہ سے بہت سے سياسي مسائل ميں شركت مثلاً انتخابات ميں شركت يا مظاہروں اور اجلاس كے ذريعہ نظام كي حمايت جو سياسي دانشوروں كي نگاہ ميں لوگوں كے "حقوق" ميں سے ہيں، امام(رہ) كے نظريہ كے مطابق عوام كا فريضہ بهي ہے۔ آپ اتحاد پر توجہ نہ كرنے اور اسے ترك كرنے كو "گناہ كبيرہ" اور "عظيم جرم" شمار كرتے ہيں:"اگر كبهي ايسا اتفاق پيش آئے تو وہ بهي جرم ہے۔ آج اتحاد كو كمزور كرنا بہت بڑا جرم ہے"۔ (4)

يہي مسئلہ اس بات كا باعث بنا كہ امام اتحاد كي حفاظت اور اختلاف سے پرہيز كي خاطر (رہ) بہت سے مسائل يا امور كے سلسلہ ميں سكوت اختيار فرمائيں جو آپكے نظريہ كے موافق نہيں تهے ليكن عہديداران حكومت اور ذمہ دار افراد اس پر متفق تهے بلكہ آپ نے ايسے مواقع پر اتحاد كي فضا كو مزيد مستحكم كيا۔ آپ فرماتے ہيں:"ہم اپني خواہشات نفساني سے مكمل طور پر پرہيز نہيں كرسكتے ہيں ، ہمارے پاس ايسي طاقت نہيں ہے، ليكن اتني طاقت تو ہے كہ اسكا اظہار نہ كريں۔ ہم بات پر قادر نہيں ہيں كہ اگر كسي كے واقعاً مخالف ہيں تو دل ميں بهي مخالفت نہ ركهيں ليكن اس بات پر قادر ہيں كہ ميدان عمل ميں اسكا اظہار نہ كريں"۔ (5)

امام خميني(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد كي حدود

امام(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد بہت وسيع حدود پر مشتمل ہے جس ميں داخلي قوتوں اور امت مسلمہ كا اتحاد شامل ہے۔ اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے داخلي عناصر كے سلسلہ ميں امام (رہ) كي نگاہ ميں سب سے اہم چيز ملك كے ديني اور ثقافتي عناصر كا آپسي اتحاد تها۔ آپ نے خداداد ذكاوت و ذہانت كي بنياد پر اس بات كي كوشش كي كہ داخلي گروہوں اور طاقتوں كے درميان اتحاد برقرار كريں كہ جنميں سے بعض كي جانب اشارہ كيا جارہا ہے:

• مدرسہ اور يونيورسٹي كا اتحاد

امام(رہ) كي شخصيت ايسي تهي كہ آپ كو مدرسہ اور يونيورسٹي كي زيادہ تر شخصيات مانتي تهيں اسي وجہ سے آپ ہميشہ ان دونوں طبقوں كے درميان اختلاف كے خطرہ كے سلسلہ ميں متوجہ كرتے تهے۔آپ فرماتے ہيں:"ہم نے متعدد سال كي زحمتوں كے بعد يونيورسٹيز كو علماء، ديني مدارس اور طلاب ديني سے نزديك كيا ہے۔ ان مختلف طبقوں كو ايك دوسرے كے نزديك كيا ہے اور ہميشہ اس بات كي تاكيد كي ہے كہ اپنے درميان اتحاد كلمہ برقرار ركهئے تاكہ آپ خدمات انجام دے سكيں"۔(6)

اسكے بعد آپ مدرسہ اور يونيورسٹي كي مہارت كے سلسلہ ميں اشارہ فرماتے ہيں اور بعض افراد كو اسلامي مسائل كا ماہر اور بعض كو ملكي امور اور سياسي مسائل كا ماہر بتاتے ہيں نيز اسي وجہ سے دونوں كو مستقبل كي كاميابي كے لئے ضروري جانتے ہيں۔ آپ انقلاب اسلامي كے سلسلہ ميں اپني ايك تجزياتي گفتگو كے درميان فرماتے ہيں:"اگر اس تحريك كا نتيجہ صرف علماء اور روشن خيال افراد كا اتحاد ہو تب بهي مناسب ہے"(7) آپكے مطابق مدرسہ اور يونيورسٹي كو اپني صلاحتيوں كے مطابق ايك دوسري كي تكميل كرني چاہئے اور انقلاب و نظام كے آخري ہدف كي راہ ميں قدم بڑهانا چاہئے۔ اسي وجہ سے آپ فرماتے ہيں:"ہم سب اس حقيقت سے واقف ہيں كہ يہ دو مركز درحقيقت ايك شجرہ طيبہ كي دو شاخيں ہيں اور ايك جسم كے دو ہاته ہيں كہ اگر يہ اصلاح كي كوشش كريں ،اپنے معنوي عہد و پيمان كي حفاظت كريں ، ايك دوسرے كے شانہ بہ شانہ خدمت خدا اور خلق خدا كے لئے قيام كريں تو قوم كو مادي اور معنوي دونوں اعتبار سے كمال كي منزلوں تك پہنچاديں گے اور ملك كي آزادي اور اسكے استقلال كي حفاظت كريں گے"۔ (8)

انقلاب كي كاميابي كے بعد داخلي عناصر ميں اختلافات كے حالات زيادہ فراہم ہوگئے اسي طرح جنگ كے دوران مليٹري، سپاہ اور كميٹي كے درميان اختلاف بهي بہت اہم تها۔ امام(رہ) ہميشہ عسكري طاقتوں كے اتحاد اور انكے "يدواحدہ" ہونے پر تاكيد كرتے تهے اور انكے اختلاف كو جنگ ميں شكست كے مترادف سمجهتے تهے۔ دوسري جانب اسلامي ملك ميں موجود مختلف قوميتوں اور لہجوں نے بهي قومي اور مذہبي اختلافات كي راہ ہموار كردي تهي۔ كردستان، سيستان، تركمن صحرا وغيرہ كا بحران؛ ان سب كا تعلق امت مسلمہ كو منتشر كرنے اور اسكے درميان مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كي خاطر تها۔ امام خميني(رہ) نے اپني گفتگو كا ايك محور ان گروہوں ميں اتحاد اور ساري ايراني عوام كے مسلمان ہونے پر تاكيدكو قرار ديا۔

انقلاب كي كاميابي كے بعد حكومت اور عوام كا اتحاد، حكومت كے مختلف شعبوں كے درميان اتحاد، سياسي پارٹيوں كےدرميان اتحاد اور انہيں اسلام كے محورپر متحد كرنے كے سلسلہ ميں امام (رہ) نے خاص توجہ دي۔

بيروني معاملات ميں بهي مسلمانوں اور مستضعفوں كے درميان اتحاد آپكي ديرينہ آرزو تهي جسكے متعلق آپنے انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بہت زيادہ تاكيد فرمائي۔

اسرائيل كے مقابلہ ميں اتحادبين المسلمين

امام خميني(رہ) كے بيانات اور تحريروں كے درميان بہت سے ايسے موضوعات ملاحظہ كئے جاسكتے ہيں جنكے ذيل ميں آپ نے اسرائيل سے مقابلہ كرنے كے لئے مسلمانوں كے متحد ہونے كي تاكيد كي ہے اور مظلوم فلسطيني عوام پر اس غاصب حكومت كے مظالم بيان كئے ہيں ۔ قابل توجہ بات يہ ہے كہ آپ ان بيانات كا تعلق انقلاب اسلامي كي كاميابي كے صرف بعد كے دور سے نہيں ہے بلكہ اس سے پہلے بهي آپ ان مسائل كي جانب افراد كو متوجہ كرتے رہتےتهے۔ آج مظلوم فلسطيني قوم پر صہيونيوں كے مظالم اور اسلامي ممالك كي مجرمانہ خاموشي كو مدنظر ركهتے ہوئے آپ كے ان اقدامات كي اہميت دوچنداں ہوجاتي ہے۔

ايك ايسا وقت تها جب صہيوني گماشتے ايران ميں حكمراني كررہے تهے اور انتہائي مخفيانہ طور پر كام كرنے والي جاسوسي تنظيم "ساواك" صہيوني ماہروں كے زير تعليم و نگراني كام كررہي تهي۔ ايران ميں انكانفوذ بے مثال تها۔ اگرچہ آپ عراق ميں جلاوطني كي زندگي گزار رہے تهے ليكن وہاں سے آپ نے بہ كمال شجاعت يہ پيغام ديا:

"غيروں كا نشانہ قرآن اور علماء ہيں ․․․ ہم امريكا اور فلسطين كے يہوديوں كي خاطر ذلت برداشت كريں! قيد و بند كي صعوبتيں تحمل كريں اور سزائے موت كا سامنا كريں اور اس طرح غيروں كے مفادات كي قرباني بنتے رہيں!"(9) ميں اپني شرعي ذمہ داري ادا كرتے ہوئے ايراني عوام اور مسلمانان عالم كو متوجہ كرتا ہوں كہ قرآن اور اسلام خطرے ميں ہے، ملك كا استقلال اور اسكا اقتصاد صہيونيوں كے قبضہ ميں ہے"۔ آپ صہيونيوں كے جرائم طشت از بام كرنے كي توجہ سے جيل جاتے ہيں، جلاوطن ہوتے ہيں ليكن آپ اس سلسلہ ميں كوئي كوتاہي نہيں كرتے ہيں۔ ايك دوسري جگہ آپ فرماتے ہيں:

"ميں تقريباً بيس سال عالمي صہيونيت كے خطرات كي جانب متوجہ كررہا ہوں اور ميں آج بهي دنيا كے تمام آزادي طلب انقلابوں اور ايران كے انقلاب اسلامي كے لئے اسكے خطرہ كو پہلے سے كم نہيں سمجهتا ہوں۔ دنيا كو نگلنے كا ارادہ كرنے والي ان جونكوں نے مختلف حربے اپنا كر مستضعفين عالم كے خلاف اقدام اور قيام كيا ہے۔ دنيا كي آزاد قوموں كو ان خطرناك سازشوں كے مقابلہ ميں شجاعت و دليري كے ساته كهڑے ہوجانا چاہئے"۔ (10) دوسري جانب فلسطين كي مظلوم عوام كي حمايت ميں مسلمانوں كو بيدار كرنے كے لئے روز قدس (ماہ مبارك رمضان كا آخري جمعہ) كا اعلان آپ كے اہم كارناموں ميں ہے۔

اقسام اتحاد

مجموعي طور پر امت مسلمہ كے تين طرح كے اتحاد كا تصور كيا جاسكتا ہے:(11)

اتحاد مطلق

اتحاد مطلق سے مراد ہے عقايد ، احكام اور اسلامي تعليمات كے تمام اصول و فروع ميں متفق ہونا۔ (12)

خصوصيات اور كفيات ميں آزادي فكر و نظر نيز اسلام كے بنيادي اصولوں ميں استدلال كي اہميت كو مدنظر ركهتے ہوئے يہ اتحاد ناممكن ہے۔ بالخصوص مختلف سليقوں اور طرز فكر كے باعث دانشوروں ميں اختلاف نظر، اسلامي مآخذ كے سلسلہ ميں معلومات كي كمي و زيادتي اور استدلال و مسائل كو سمجهنے ميں موثر ذہانت و ذكات كے اختلاف كو مدنظر ركهتے ہوئےيہ اتحاد غيرعملي ہے۔

مصلحتي اور وقتي اتحاد

وقتي اتحاد ديني تعليمات سے قطع نظر بيروني عوامل كي وجہ سے وجود ميں آتا ہے۔ كبهي كبهي ايسا ہوتا ہے كہ ان عناصر سے اسلامي سماج كو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ عام طور پر سنگين حالات ميں فرقہ وارانہ اختلافات بالائے طاق ركه دئے جاتے ہيں اور لوگوں ميں ايك قسم كا اتحاد پيدا ہوجاتا ہے۔ چونكہ اس طرح كا اتحاد بيروني عوامل سے موثر ہوتا ہے اور ديني تعليمات سے اسكا تعلق نہيں ہوتا ہے اس لئے ان عوامل كے ختم ہوتے ہي يہ اتحاد بهي ختم ہوجاتا ہے۔ جس طرح اسلامي سماج كے دانشوروں اور عوام كے درميان "اتحاد مطلق" كا تصور غيرمعقول ہے اسي طرح مختلف مذاہب كے وقتي اور مصلحتي اتحاد كي بنياد پر دائمي اتحاد برقرار ہونے كي توقع بيجا ہے۔

عاقلانہ اتحاد

عاقلانہ اتحاد جزئي مسائل اور انتخاب دلائل ميں آزادي فكر و نظر كي بنياد پر وجود ميں آتا ہے جس سے مراد يہ ہے كہ سارے اسلامي معاشروں كے عقائد كي بنياد پر اسلام كي عمومي تعليمات كو برتري حاصل ہو اور فردي عقائد و نظريات، قومي رسومات اور فروعات ميں ہر گروہ اور فرد كے اجتہاد سے پرہيز كرنا۔

عاقلانہ اتحاد تك رسائي كے لئے سب سے پہلي چيز اسلامي دانشوروں اور مفكروں كي وسعت فكر و نظر اور فرقہ وارانہ تعصب كے تنگ و تاريك اور غيرمنطقي دائرے سے باہر نكلنا ہے۔ اسلام نے اپنے وسيع دامن ميں جس طرح "محمد بن طرخان فارابي" كو جگہ دي ہے اسي طرح "ابن سينا، رشد، ابن مسكويہ، ابوريحان بيروني، حسن بن هيثم، محمد بن زكريا، جلال الدين محمد مولوي، ميرداماد، صدرالمتالهين "اور انكے جيسے بہت سے افراد كو انكے مختلف افكار و نظريات كے ساته اپني آغوش ميں پروان چڑهايا ہے۔ (13)

اس سلسلہ ميں قابل توجہ بات يہ ہے كہ اسلام صرف شيعہ اور اہل سنت ميں تقسيم نہيں ہوتا ہے بلكہ يہ عظيم دين دسيوں مذاہب پر مشتمل ہے ․․․․اس كے علاوہ كبهي دانشوروں اور صاحبان فكر و نظر نے ايك دوسرے كي تكفير نہيں ہے۔ (14)

دوسري جانب بعض افراد نے اتحاد كو بعض دوسرے مفاہيم مثلاً "آئيڈيولوجكل اتحاد"(فكري اتحاد) "اسٹراٹيجك اتحاد"(اتحادبحيثيت پاليسي ) اور "ٹيكٹكل اتحاد"(اتحادن بحيثيت تدبير) ميں تقسيم كيا ہے۔ (15) "آئيڈيولوجكل اتحاد" سے مراد تمام مذاہب كے درميان يكساں عقائد كا ہونا ہے۔ اس طرح كا اتحاد ماركسسزم ميں پايا جاتا ہے اور كميونسٹي حكومتوں كے مدنظر بهي يہي اتحاد تها۔

اسٹراٹيجك اتحاد عقيدہ كي بنياد پر نہيں ہوتا ہے بلكہ اسكا تعلق عملي اتحاد سے ہے۔ اسي طرح ٹيكٹكل اتحاد محدود وقت كے لئے كسي خاص راہ حل اور تدبير كي صورت ميں برقرار ہوتا ہے۔ اجتماعي اور سماجي ميدان ميں ڈيالكٹك تضاد اتحاد كي اس قسم كے ساته هماهنگ ہے۔ (16)ميدان جنگ ميں لوگوں كے سامنے مشتركہ دشمن ہوتا ہے ايسے وقت ميں جب تك يہ مشتركہ دشمن ختم نہ ہوجائے اس طرح كا اتحاد كارآمد ہوتا ہے۔

اب ہميں يہ ديكهنا ہوگا كہ امام خميني(رہ) كے مدنظر اتحاد كي كون سي قسم ہے۔ آپ كے بيانات سے اس بات كو بخوبي درك كيا جاسكتا ہے كہ آپ كے نزديك نظرياتي اور سياسي اختلاف نظر قدرتي ہے :"فقہائے كرام كي كتابيں عسكري، ثقافتي ، سياسي ، اقتصادي اور عبادي ميدانوں ميں اختلاف نظر سے بهري ہوئي ہيں․․ اسلامي حكومت ميں اجتہاد كا دروازہ ہميشہ كهلا رہنا چاہئے اور انقلاب و نظام كا تقاضا يہ ہے كہ فقہي ميدانوںميں مختلف فقہي نظريات سامنے آئيں چاہے وہ ايك دوسرے كے بالكل متضاد ہوں اور كسي كو اس سے روكنے كا نہ حق ہے اور نہ طاقت۔ (17) لہذا آپ كے نطريہ كے مطابق اختلاف نظر نہ صرف يہ كہ قدرتي اور فطري ہے بلكہ مختلف عقائد سے روكنا جائز نہيں ہے۔

اسي طرح يہ بهي سمجها جاسكتا ہے كہ بعض موقعوں پر امام نے تدبيري اتحاد كي جو تجاويز دي ہيں يہ ہر جگہ آپ كے مدنظر نہيں ہے اور اسے آپكےحقيقي اور مكمل نظريہ كے طور پر نہيں ديكها جاسكتا ہے۔ لہذا ہميں كہنا ہوگا كہ امام(رہ) كے زيادہ تر مدنظر جو اتحاد ہے وہ "اسٹراٹيجك اتحاد"(اتحادبحيثيت پاليسي )اور عاقلانہ اتحاد ہے۔ مثال كے طور پر جب امام خميني(رہ) اہل سنت كے ساته اتحاد كي گفتگو كرتے ہيں تو اس سے انكي مراد عقائد ميں يكسانيت (اتحاد مطلق) نہيں ہے بلكہ مشتركہ عقائد كي بنياد پر ميدان عمل ميں اتحاد ہے۔ مثلاً آپ حج كے دنوں ميں اہل تشيع كو تاكيد كرتے تهے كہ وہ اہل سنت كے ساته نماز جماعت ميں شركت كريں۔ آپ ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں:"حكومت اور سماج كي شناخت اہم ہے جسكي بنياد پر اسلامي نظامسلمانوں كے حق ميں مفيد طريق كاراپنا سكتا ہے كہ اسلوب و عمل ميں اتحاد ضروري ہے"۔ (18)

بہ الفاظ ديگر آپ اختلافات كو "عقائدي" اور "سياسي" اختلاف نظر ميں تقسيم كرتے ہيں اور سياسي اختلاف نظر كو قبول كرتے ہيں۔ عقائد ميں اتحاد سے مراد اسلام كے عمومي اور مشتركہ اصولوں پر اتحاد ہے نہ كہ اسكي تفصيلات اور انكے طريق نفاذ پر كيونكہ ايسي جگہوںپر اختلاف نظر اسلامي نظام ميں خلل كا باعث نہيں بنتا ہے۔

آخري بات يہ ہے كہ امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں نوعيت اتحاد (مختلف ميدانوں ميں اسكي وسعت كو مدنظر ركهتے ہوئے)كي خاص بنياديں ہيں اور ہميں آپكے زاويہ نظر كے مطابق ہي اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كرنا چاہئے نہ يہ كہ جہاں جہاں آپ نے لفظ اتحاد استعمال كيا ہے انكے سلسلہ ميں عمومي حكم صادر كرديا جائے۔ يہ وہي اتحاد ہے جسے "عاقلانہ اتحاد" يا "اسٹراٹيجك اتحاد" كا نام ديا جاسكتا ہے۔

دوسري بات يہ ہے كہ اتحاد كے سلسلہ ميں امام خميني(رہ) كے بيانات كو صرف مصلحت كا تقاضا اور بلند خيالي نہيں سمجهنا چاہئےبلكہ آپكے يہ افكار حقيقت پسندي پر استوار ہيں۔ جيسا كہ ہم نے پہلے كہا ہے اتحاد ان مسائل ميں سے ہے جن پر انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بهي اسلامي نظام كي قيام كے دوران امام خميني(رہ) نے بہت زيادہ توجہ دي ہے اور تاكيد فرمائي ہے۔ آج ممالك كو درپيش مشكلات كے راہ حل كے طور پر دوسري تمام چيزوں سے زيادہ اندرون ملك ميں"قومي اتفاق" كے نام سے اور عالمي سطح پر ممالك كے درميان مشتركہ امور ميں "اسلامي ممالك كا آپسي ميلان" كے عنوان سے اتحاد پر توجہ دي جارہي ہے۔ واقعا جمہوريت پر مبني كوئي سياسي نظام نظرياتي اختلافات كے باوجود ملكي مفادات اور عمومي اصولوں كے سلسلہ ميں قومي اتحاد كے بغير قابل تصور ہے؟ اور كيا اسلامي ممالك بغير متحد ہوئے اسرائيل كا مقابلہ كرنے كي صلاحيت و طاقت ركهتے ہيں؟

مآخذ:

۱۔ امام خميني(رہ) ، صحيفۂ نور، جلد ۲۲، ص۲۰۱

2۔ ايضاً، جلد ۵، ص ۲۵۰

3۔ ايضاً، جلد۸، ص۲۳۵

4۔ ايضاً، جلد ۱۲، ص ۱۱۸

5۔ ايضاً، جلد۲۰، ص۷۴-۷۲

6۔ ايضاً،جلد ۴، ص۹۲

7۔ ايضاً،جلد ۱۹، ص۱۰۴

8۔ نوروز ۱۳۴۲ كي مناسبت سے امام خميني(رہ) كا پيغام، انديشہ ہاي امام خميني(رہ) سے ماخوذ، جلد اول، سازمان تبليغات اسلامي، سال ۱۳۶۸

9۔ صحيفۂ نور، جلد ۱۴، مذكورہ ماخذ

10۔ محمد تقي جعفري، مقدمہ كتاب "استراتژي وحدت در انديشہ سياسي اسلام، دكتر سيد احمد موثقي، جلد اول، مركز انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، سال ۱۳۷۷

11۔ ايضاً، ص ۲۹

12۔ ايضاً، ص۳۱

13۔ ايضاً

14۔ كاظم قاضي زادہ، انديشہ فقہي سياسي امام خميني، مركز تحقيقات استراتژيك رياست جمہوري، طبع اول، سال ۱۳۷۷، ص۴۴۸

15۔ ايضاً

16۔ صحيفۂ نور، جلد ۲۱، ص۴۷-۶۶

17۔ ايضاً، جلد۲، ص۴۷

مآخذ: مجلہ حوزہ پگاہ حوزہ شمارہ ۱۷۴

Read 3202 times