Print this page

امام خمینی اور زہد و رہبانیت کا تصور

Rate this item
(0 votes)
امام خمینی اور زہد و رہبانیت کا تصور

دنیا سے لگاؤ یا دنیا سے اجتناب کا موضوع قدیم زمانے سے محتلف ادیان و مذاہب اور انسانی ثقافتوں میں زیر بحث رہا ہے۔ بعض انسانی مکاتب فکر یا الہیٰ ادیان نجات اور سعادت کو دنیا سے اجتناب، تہجد اور زہد میں تلاش کرتے ہیں۔ حتی کہ ریاضت اور عبادتگاہ میں رہنے کو دین داری، خود سازی، عرفان اور تزکیہ نفس قرار دینے لگے۔ اس کے مقابلے میں بعض آئيڈیالوجیز اور ثقافتوں مثلاً سرمایہ داری میں دنیا پرستی کو سراہا گيا ہے اور یہی چیز ان سماجوں کے زوال کا سبب بنی ہے۔ دین اسلام کی ایک ممتاز اور منفرد خصوصیت دنیا سے متعلق اس کا زاویۂ نگاہ ہے۔ دنیا کے بارے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا پرستی سے بھی اجتناب کیا جائے اور رہبانیت سے بھی۔ اسلام کا ایسے مکاتب فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو انسانوں کو خانقاہوں اور عبادتگاہوں تک محدود اور انہیں انسانی زندگی کے امور اور سماجی ذمے داریوں سے دور کر دیتے ہیں۔ اسلام اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ تمام انسانوں اور مومنین کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیوی امور پر توجہ اور ان کو اہمیت دیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ دنیا اور مادیات کی چمک دمک کو انسان کے تکامل اور اس کی پیشرفت سے مانع جانتا ہے۔

قرآن کریم کی مختلف آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ دنیوی نعمتوں سے وابستگی اور دنیا پرستی انسان کے اخلاقی زوال کا سبب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اسلام کا نظریہ افراط و تفریط سے پاک اور ایک جامع نظریہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ دنیوی نعمتوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیئے، لیکن ان کے ساتھ لگاؤ نہیں ہونا چاہیئے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اور مومنین کو سب سے پہلی تاکید یہی کی ہے کہ وہ دنیوی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں۔ اسلام کے نزدیک الہیٰ نعمتوں سے ہمکنار ہونا انسان کے معنوی تکامل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اس نظریئے کی اہمیت اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے، جب ہم اس بات کو جان لیں کہ صدر اسلام میں اور بعض سابقہ ادیان الہیٰ مثلاً عیسائیت کی پیروی میں یا صوفیا کی ثقافت سے متاثر ہو کر بعض مومنین رہبانیت اور الہیٰ نعمتوں سے استفادہ نہ کرنے کو اللہ تعالیٰ سے قرب کا راستہ سمجھتے تھے۔

ایک مسلمان رات دن عبادت میں مصروف رہتا تھا اور عبادت کی وجہ سے وہ زندگی اور گھر والوں کے امور سے غافل ہوچکا تھا، رسول اکرم (ص) نے اس سے فرمایا کہ جان لو کہ خدا نے مجھے رہبانیت کے لئے نہیں بھیجا ہے۔ میری شریعت فطری اور آسمانی شریعت ہے۔ میں خود نماز پڑھتا ہوں، روزے رکھتا ہوں، اپنی زوجہ کے ساتھ ہمبستری کرتا ہوں۔ جسے میرے دین کی پیروی کرنی ہے، اسے میری سنت کو قبول کرنا ہوگا، شادی اور میاں بیوی کی ہمبستری میری سنت میں سے ہے۔" قرآن کریم نے الہیٰ نعمتوں سے استفادہ کرنے کو خدا کو نہ بھلانے اور شیطان کی پیروی نہ کرنے سے مشروط کیا ہے اور مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: "اور جو اس نے رزق حلال و پاکیزہ دیا ہے، اس کو کھاؤ اور اس خدا سے ڈرتے رہو، جس پر ایمان رکھنے والے ہو۔" ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: "اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و طیب ہے، اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کی اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔"

رہبانیت اور دنیا سے دوری کے مقابلے میں اسلام نے اپنے پیرووں کو زہد کی دعوت دی ہے۔ بعض افراد نے زہد کا ترجمہ دنیا سے اجتناب کیا ہے جبکہ اس کا صحیح ترجمہ دنیا سے اجتناب کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک زاہد انسان دنیا پر توجہ تو دیتا ہے لیکن اسے اپنا منتہائے مقصود نہیں سمجھتا ہے، بلکہ اسے ایک اہم ذریعے جتنی اہمیت دیتا ہے۔ راہب اور زاہد دونوں ہی تارک الدنیا ہوتے ہیں، جبکہ زاہد جس دنیا کو چھوڑتا ہے، اس سے مراد نعمتوں اور دنیوی آسائشوں میں منہمک رہنا اور انہی امور کو اپنی آرزو قرار دینا ہے اور جس دنیا کو راہب چھوڑتا ہے، وہ کام، فعالیت اور سماجی ذمے داری سے عبارت ہے۔ لہذا ایک زاہد، راہب کے برخلاف اپنے تمام سماجی کام اور اجتماعی ذمے داریوں کو انجام دیتا ہے اور زہد نہ صرف سماجی ذمے داریوں کے منافی نہیں ہے بلکہ وہ ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے کا مناسب ذریعہ ہے۔ دنیا میں زہد کا ایک اثر معنویات کے ساتھ انسان کی محبت ہے۔ انسان جس قدر مادیات میں اپنی دلچسپی کم کرتا ہے اور دنیا سے اس کی محبت میں کمی واقع ہوتی ہے، اسی قدر اس کی معنویات کے ادراک کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو شخص مادیات اور دنیوی امور میں جکڑا رہتا ہے، وہ معنویت کے بحر بیکراں کے بارے میں نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

امام خمینی (رہ) ایسے انسان تھے، جنہیں زہد کی صفت کا حامل قرار دے سکتے ہیں۔ آپ نہ صرف زبانی طور پر اور عقیدے کے اعتبار سے بلکہ اپنے عمل اور کردار میں بھی زہد کا مکمل نمونہ تھے۔ آپ دوسروں کو بھی اسی کی دعوت دیتے تھے۔ آیت اللہ جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ "جب امام خمینی (رہ) درس اخلاق دیتے تھے تو وہ دنیا پرستی کی بہت مذمت کرتے تھے، بعض اوقات درس ختم ہونے کے بعد انسان دنیا سے اس قدر بے اعتنا ہو جاتا تھا کہ دنیا اس کے نزدیک ایک ٹوٹے ہوئے کوزے جیسی ہوتی تھی، جس پر کوئی شخص توجہ ہی نہیں دیتا ہے۔" امام خمینی (رہ) نے آیت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد دنیوی امور کے بارے میں پریشان ہونے والے طلاب کو بلند ہمتی سے کام لینے، دنیا کو غیر اہم جاننے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی نصیحت فرمائی۔ حجۃ الاسلام زین العابدین باکویی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ آيت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد حوزہ علمیہ قم میں چالیس دن تک چھٹیاں کر دی گئیں۔ تعطیلات کے بعد پہلے دن جب درسوں کا سلسلہ شروع ہوا تو امام خمینی (رہ) نے مسجد اعظم میں طالب علموں کو نصیحت کی کہ اپنے رزق کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں، طالب علموں نے کہا کہ آیت اللہ بروجردی وفات پاچکے ہیں، اب ہم کیا کریں؟ تو امام خمینی (رہ) نے فرمایا: "آپ لوگوں کی ہمت اس قدر بلند ہونی چاہیئے کہ دنیا کی اہمیت گھاس کے ایک پتے کے برابر بھی نہ ہو۔"

امام خمینی (رہ) نے دنیا کے غیر اہم ہونے کی وضاحت کرنے کے لئے اس کے لغوی معنی کی جانب اشارہ کیا اور اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: "دنیا کی اس قدر مذمت کی گئی ہے کہ اس کا نام تک ذکر نہیں کیا گيا بلکہ کنائے سے کام لیتے ہوئے لفظ دنیا یعنی پست کے ساتھ اسے تعبیر کیا گيا ہے۔ بالکل ان برے مقامات کی طرح کہ جن کا نام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ کنائے کے ساتھ ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔" امام خمینی (رہ) دنیا پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے طالب علموں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ نہ صرف اپنی آخرت کو دنیا پر قربان نہ کریں بلکہ اپنے دین کو بھی دوسروں کی دنیا پر قربان نہ کریں۔ آیت اللہ بنی فضل اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ مقدس اسلامی تحریک کی ابتدا میں جن دنوں امام خمینی (رہ) کی مرجعیت اور قیادت اپنے عروج پر تھی، آپ نے اپنے گھر کے بعض افراد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر دنیا اور قیادت ہو بھی تو وہ تمہارے لئے نہیں ہے۔ اگر تم عقلمند ہو تو میری دنیا کے لئے اپنا دین داؤ پر نہ لگاؤ۔ اپنے دین کو مستحکم اور مضبوط رکھو. امام خمینی (رہ) طالب علموں کو زہد کی رغبت دلاتے ہوئے انہیں متنبہ کرتے تھے کہ دینی طالب علموں کا دنیا کی جانب رجحان دین پر ضرب لگنے کا سبب بنتا ہے۔ آیت اللہ حسین مظاہری نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ امام خمینی (رہ) ہمیشہ طالب علموں سے فرماتے تھے کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ اسلام کو تم لوگوں سے کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 602 times