سلیمانی

سلیمانی

صنعا : یمن پر سعودی اتحاد کی جارحیت میں 4 ہزار بچوں سمیت 18 ہزار افراد شہید ہوگئے انسانی حقوق و ترقی کے مرکز عین الانسانیہ نے یمن پر سعودی اتحاد کی 26 سو روزہ جارحیت میں ہوئے نقصانات کے اعداد و شمار جاری کردئے سعودی عرب نے امریکی حمایت اور متحدہ عرب امارات و چند دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر مارچ 2015 سے یمن کو وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔رپورٹ کے مطابق جارحیت میں 46 ہزار 374 افراد شہید اور زخمی ہوئے جن میں سے 17ہزار 775 افراد شہید اور 28 ہزار 599 زخمی ہوئے ۔شہدا میں 4 ہزار 28 بچے شامل ہیں 4 ہزار 599 بچے زخمی ہوئے ۔رپورٹ کے مطابق 1307 مرد شہید ہوئے ہیں اور 21 ہزار 91 دیگر زخمی ہوئے ہیں جبکہ اس دوران 2 ہزار 440 عورتیں شہید اور 2193 زخمی ہوئیں. سعودی اتحاد نے یمن کے پندرہ ہوائی اڈوں، سولہ بندرگاہوں، 342 بجلی گھروں، 614 مواصلاتی مراکز،2 ہزار 185 پانی کے ذرائع اور ڈیم، 2095 سرکاری تنصیبات اور 6 ہزار 827 پلوں اور راستوں کو نشانہ بنایا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران 5 لاکھ 90 ہزار 770 مکانات، 1662 مساجد، 182 تعلیمی مراکز، 376 سیاحتی مراکز، 413 اسپتالوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

 ولی امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ تعلیم دینے کے لحاظ سے اللہ تعالی ، تمام انبیاء، اولیاء ،صلحاءاور ممتاز شخصیات استاد اور معلم ہیں۔ اساتذہ اور معلمین کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں اللہ تعالی علم و دانش عطا کرتا ہے وہ علم دینے والا ہے لہذا اللہ تعالی بھی استاد اور معلم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام مشائخ، علماء، دانشوراور ممتاز شخصیات جیسے استاد شہید مطہری بھی استاد اور معلم ہیں۔انہوں نے آنے والی نسلوں کی ہدایت ، تعلیم و تریب کو اساتذہ کے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہاکہ اساتذہ سے ملاقات کا مقصد ان کے کردار کو اجاگر کرنا اور عوامی سطح پر استاد کی قدر ومنزلت کو قائم اور برقرار رکھنا ہے تاکہ استاد اور اس کے خاندان دونوں کو اس کے کام پر فخر ہو اور معاشرے میں بھی استاد کے کام کو فخر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ولی امر مسلمین نے اسلامی تہذیب و تمدن کی تشکیل کے طویل المدتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی وسائل کسی بھی تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ ہوتے ہیں اور نئی اسلامی تہذیب کے بانی وہ نسل ہے جو اس وقت اساتذہ کے ہاتھ میں ہے، اس نقطہ نظر سے بھی استاد کی قدر و منزلت اہمیت کی حامل ہے۔ اس عظیم مقصد کے ساتھ اس نسل کو ایرانی اسلامی تشخص، مضبوط اور گہرے اعتقادات، خود اعتمادی، خود سازی سے آراستہ ہونا چاہیے اور مشرق و مغرب کی فرسودہ تہذیبوں کے بارے میں آگاہ اور باخـبر ہونا چاہیے۔ انہوں نے اساتذہ کی زحمات اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یقینی طور پر مطلوبہ صورتحال کے حصول کے لیے موجودہ مسائل و مشکلات کو تدبر، تلاش و کوشش، جدوجہد اور صبر سے حل کرنے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے صور اور النبطیہ میں منعقد ہونے والے انتخاباتی سیمینار سے خطاب میں کہا کہ بعض سیاسی گروہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن میں مزاحمت ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اپنی انتخابی کانفرنسوں میں لبنانی عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرے گی۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ سیاسی گروہ  اس مسئلے کو کم ترین ترجیحات سے بھی ہٹا کر دیکھتے ہیں۔

 

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ان گروہوں نے کچھ مہینے پہلے کی مزاحمت کے ہتھیار کو اپنی انتخاباتی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا وہ لوگ جو مزاحمت کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں اور حزب اللہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فلسطین میں غاصب عبوری صیہونی حکومت وقت سے ہی جنوب کے مسائل سے آگاہ نہیں ہیں۔

 

حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے تاکید کی کہ انہیں ایام میں صیہونی حکومت کی تشکیل ہوئی تھی اور چند مہینوں کے بعد ہی "حولا" گاؤں میں قتل عام ہوا اور متعدد جنوبی دیہات غیر آباد ہو گئے لیکن کچھ سیاست دان اب بھی اسرائیل کو دشمن نہیں مانتے اور یہ قبول نہیں کرتے کہ وہ لبنانی پانی اور گیس پر نظر گڑائے ہوئے ہیں۔

 

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان میں سے ایک سیاستدان نے 2006 میں ایک جلسے کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل نے لبنان پر حملہ نہیں کیا ہے اور یہ لبنان کے لیے خطرہ نہیں ہے اور اسے اس سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ شخص یا تو جاہل ہے یا اس نے جاہل ہونے کا ڈرامہ کیا ہے۔

 
 

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- جیو نیوز  کے مطابق الجزیرہ اور فلسطین کی وزارت صحت نے شیریں ابو اقلاح کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے خاتون صحافی شیریں ابو اقلاح کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کی وجوہات تو سامنے نہیں آ سکی ہیں تاہم سامنے آنے والی ویڈیوز کے مطابق خاتون صحافی کے سر پر گولی ماری گئی۔ 

 

صیہونی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق شیریں ابو اقلاح الجزیرہ کی عربی سروس کی ممتاز صحافی تھیں۔

غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شیریں ابواقلاح کی فورسز کی فائرنگ سے موت پر اسرائیل کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی । ہم روز انہدام جنت البقیع پر عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہیں۔کیا انہدام جنت البقیع کا مسئلہ کسی خاص گروہ سے مخصوص ہے ؟ کیا یہ صرف شیعوں سے مخصوص ہے ؟ یا ہر محب اہل ابیت علیہم السلام سے مربوط ہے ؟ بعض اسلامی دانشوروں کے بقول " انہدام جنت البقیع کا مسئلہ بھی روز قدس کی طرح صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ عالم اسلام سے مربوط ہے"۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف روضوں کو خراب کر دیا تھا۔ ان بارگاہوں میں امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اعداد وشمار کے مطابق ہزاروں صحابی اس مقدس زمین میں مدفون ہیں، ان میں سب سے پہلے نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار معصوم اولاد ؛ حضرت امام حسن بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام، حضرت علی ابن حسین سید ساجدین امام زین العابدین علیھماالسلام، حضرت محمد ابن علی الباقر علیھما السلام، اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق علیھما السلام بھی اس ارض مقدس میں مدفون ہیں۔ ان چار معصوم اماموں کی قبور ایک ساتھ ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت اہم اور بڑی شخصیات بھی وہاں مدفون ہیں جیسے حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ابراہیمؑ، حضرت محمد بن حنفیہؓ، حضرت حسن بن حسنؑ بن علیؑ، حضرت عقیلؓ بن ابی طالب حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؑ، حضرت علیؑ کی زوجہ ام البنین فاطمہ ؓالکلابیہ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ابتدائی اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے حضرت عثمان بن مضعونؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، اسی طرح تمام ازواجؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبروں کو(سوائے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ کی قبر جو جنت المعلیٰ مکہ میں موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓبنت حارث کی قبر جو کہ وادی سرف مکہ مکرمہ سے ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال میں مدینہ منورہ کی طرف میں موجود ہے )بھی اس کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔ اسی طرح بقیع میں پہلے صحابی حضرت اسعد بن زرارہ انصاری اور آخری صحابی سہل بن سعد الساعدی کی قبریں بھی موجود ہیں۔ پیامبر فرمایا کرتے تھے" کہ مجھ پر وحی آئی ہے کہ میں اس قبرستان میں جاوں اور مرحومین کے لئے دعا کروں"۔تاریخ گواہ ہے کہ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی بار سنہ 1220ھ میں اور دوسری بار سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ اس بنا پر شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو “یوم انہدام جنۃ البقیع” مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔

وہابیت کیا ہے اور اس کے عقاید کیا ہیں؟
انہدام جنت البقیع کو سمجھنے کے لئے وہابیوں کے عقاید کا جاننا بہت ضروری ہے وہابیت ایک تاریک وسیاہ فکر رکھنے والا فرقہ ہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا اعتقادات اور تبلیغات پر ایمان رکھتا ہے، اس کی بنیاد اور ترویج ایسے لوگوں نے رکھی اور جو کسی بھی صورت میں دین مقدس اسلام کی بھلائی اور خیرخواہی نہیں چاہتے تھے، انہوں نے اپنی فقہی مسائل اور طرز عمل میں کتاب الٰہی،اور سیرت وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف کیا، ایسے راستوں کا انتخاب کیا جس میں اپنی رائے اور فقہ سے اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کی تکفیر، قبروں کا انھدام، معصوم لوگوں کے سروں کو قطع کرنا، فصلوں اور نسلوں کو ختم کرنا جیسے دہشت اور وحشت پر مشتمل عقائد پائے جاتے ہیں اس کی واضح مثال آپ طول تاریخ میں خاص کر عصور متاخرہ اور حالیہ سالوں میں مشاہدہ کرسکتے ہیں، ان لوگوں نے اقوام عالم میں اسلام کا ایک مسخ شدہ چہرہ پیش کیا اور ہر طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ زمان حال میں اگر ان کی تخریبی کاروائیوں اور انسانیت سوز مظالم کو ملاحظہ کیا جائے تو ان کے افکار اور عقائد بڑی آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
انہوں نے سر عام اپنے عقیدے سے اختلاف رکھنے والوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو مسمار، انبیاء کرام علیھم السلام اور صلحاء کےمقدس مقامات کو منھدم، بے گناہ مجبور ومقہور خواتین کو اسیر، اور اسیروں کو زندہ جلانا جیسے مظالم کی انتہا کردی، جو دین اسلام کے مسلمہ اصولوں جیسے عفو درگزر، رحم، شفقت، احترام انسانیت، محبت واخوت وغیرہ کے سراسر خلاف تھے، ان تخریبی کاروائیوں کے ذریعے دین مقدس اسلام کے امن وآشتی اور محبت و احترام پر مبنی تعلیمات اور اصولوں کو غیر مسلمانوں کی نگاہ میں مشکوک قرار دیدیا اوران تمام تخریبی اور دہشت گردی کے جواز کے لیے دلیل کے طور شرک وکفر کا سہارا لیا، اور یہ اعلان کیا کہ توحید صرف وہی ہے جو ان کی سمجھ میں آئی ہوئی ہے، اس کے علاوہ جو بھی اسلامی فرقے ہیں وہ سب گمراہ اور شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ سارے استعماری سازشوں اور اسلامی دشمنی میں سرانجام دیا گیا اور ظاہرا اسلام کو بدنام کرنے لیے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی گئیں۔
ان کی فکری پستی اور عقیدتی انحراف کی علامات اور نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمدا مسلمانوں کی قبروں کو منھدم اور سطح زمین کے برابر کرنے کے قائل ہیں چاہیے وہ جنت البقیع ہو، یا کوئی اور قبرستان، وہ قبروں کے نشانات کو مٹانے، لوگوں کو قبروں کی زیارات کرنے سے روکنے، اور مقدس مقامات کی توہین اور ہتک حرمت کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی غلط عقیدہ کی وجہ سے ۱۲۲۰ ہجری میں مدینہ منورہ پر یلغار کیا، ان کے محافظین کو قتل، مقدس آثارِدینیہ کو منہدم، اور عظیم اسلامی تاریخی درسگاہوں کو کو تباہ کردیا۔ اس ناپاک اور مذموم مقاصد پر مشتمل حملہ آور ہجوم نے مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں بخشا، وہاں پر موجود تبرکات، قیمتی اشیاء، جواہرات کو لوٹ لیا، اور بقیع میں موجود تمام مقدس مقامات کو منھدم کردیا، من جملہ چار معصوم اماموں کے مقدس مزارات کو بھی تباہ کردیا۔ اسی طرح ایک اور تخریبی حرکت اور دھاوا سن !۱۳۴۴ ھجری میں بھی دہرایا گیا، اور پہلی تخریب کاری کے بعد جو مقدس مقامات دوبارہ سے تعمیر کی گئی تھی انہیں پھر سے منھدم کرکے سطح زمین کے برابر کردیا ۔یہاں تک مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبہ اور ضریح مبارک کو منھدم کرنے کی دھمکی مسلسل دی گئی اور ابھی تک دی جارہی ہے، اگر باقی مسلمانوں کے رد عمل کا خوف نہ ہوتا تو شاید ابھی تک منھدم کرچکے ہوتے۔
اس بنا پر علماء اسلام نے آٹھ شوال کو یوم الھدم کے عنوان سے یاد کیا ہے اور یہ مسلمانوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ مجالس عزا میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں اور ہر سال آٹھ شوال کو مجالس کے انعقاد اور مرثیہ خوانی کے ذریعے آئمہ بقیع کی یاد مناتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ وقت جلد آئے کہ جب مزارات کی تعمیر نو کا مطالبہ عملی ہو سکے۔

تحریر: محمد جواد حبیب

Tuesday, 10 May 2022 08:30

جامع مسجد دهلی نو

مسجد جهان‌نما یا جامع شهر دهلی نو عالم اسلام کی خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ مذکورہ مسجد ستارویں عیسوی کو گورکانی سلسلے کے پانچویں شہنشاہ شاہ جھان کے حکم پر سنگ مرمراور دیگر نادر پتھروں سے تعمیر کی گیی ہے۔ اس مسجد میں دومینار، تین گنبد اور بعض چھوٹے مینار شامل ہیں جو ہر دیکھنے والے کی نظر کو جذب کرلیتے ہیں۔/

 
 

ان خیالات کا اظہار سید "ابراہیم رئیسی" نے آج کی شام کو ٹیلی وژن سے عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اور ریال اور تیل کی فروخت کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کہ دوگنا ہو چکے ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا ہے کہ ہماری تیل کی فروخت دوگنی ہوچکی ہے اور ہمیں اس شعبے میں کوئی خدشہ نہیں ہےـ نیز ایرانی غیر ملکی تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر ہے کہ گزشتہ کی صورتحال سے مختلف ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس رقم میں اضافے کا امکان بھی ہے۔

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ اُسی وقت حکومت کی پہلی فکر؛ ویکسین کی فراہمی، ویکسینیشن اور عوام کی جانوں کا تحفظ تھی، جو اللہ رب العزت کی مدد اور ایرانی حکومت اور عوام کے تعاون سے اس شعبے میں کامیاب ہوگئے اور آج کورونا سے متاثرہ افراد کی روزانہ شرح اموات 700 سے 7 تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کامیاب اور موثرعوامی ویکسینیشن کے بعد کاروبار اور سائنسی اور تعلیمی مراکز کے دوبارہ کھلنے کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج درآمدات سے مناسب ویکسین فراہم کرنے کے علاوہ، ہمارے پاس ویکسین تیار کرنے اور یہاں تک کہ برآمد کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت بھی ہے جو کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایک اعزاز ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ 13ویں حکومت کے پہلے دنوں کی ایک اور تشویش اشیا کے ذخیرے کے بارے میں تھی جو کہ حکومت کی کوششوں سے بنیادی اشیا کے ذخیرے کی پریشانیوں کو مختصر مدت میں ختم کر دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں ملکی ریال اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی شدید خدشات پائے جاتے تھے اور کوششوں اور اقدامات سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔

جدہ : سعودی حکومت نے رواں سال 65 برس سے زائد عمر کے افراد پر حج کرنے پر پابندی لگادی۔ سعودی وزارت حج و عمرہ کے نئے قواعد و ضوابط کے مطابق رواں سال صرف حج ویزہ پر گئے ہوئے غیر ملکیوں کو سنتِ ابراہیمی ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔ وزٹ ویزہ یا ٹوور ویزہ حج کے لیے کارآمد نہیں ہوں گے۔ تمام حجاج کیلئے ویکسین سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 65 برس مقرر کی گئی ہے اس سے زائد عمر کے افراد حج کے اہل نہیں ہوں گے۔

Tuesday, 10 May 2022 07:36

بشار اسد تہران میں

ایکنا نیوز- امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی رہنما، ممتاز معالج، سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ستائیسویں برسی کی مناسبت سے لاہور کی محمدی مسجد میں خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔

 تقریب کا اہتمام "محمد علی نقوی ویلفیئر ایسوسی ایشن" (ماوا) کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر ثاقب اکبر نقوی، سید وجاہت حسین نقوی، سید علی رضا نقوی، علامہ غلام شبیر بخاری، احمد رضا خان، افسر رضا خان، کرنل (ر) عارف حسین، علامہ محمد رضا عابدی، سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ، سید نثار ترمذی، اقرارالحسن، علامہ حسن رضا ہمدانی سمیت شہید کے رفقاء، سینیئر رہنماوں اور عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جب کہ  نقابت کے فرائض سید انجم رضا نے ادا کئے۔

 

مقررین نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی انسانیت کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا، انہوں نے قوم کی بیداری کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں، بش جب دورہ پاکستان پر آیا تو شہید نے مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ پر مردہ باد امریکہ کو طویل بینرز لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، شہید نے نوجوانوں میں انقلابی روح بیدار کی، جس کی بدولت آج بھی پورے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صالح اور باکردار نوجوان انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید نے آئی ایس او پاکستان کی شکل میں ایسا پودا لگایا جو آج ایک گھنا اور تناور درخت بن کر نسل نوء کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کر رہا ہے۔

 

مقررین کا کہنا تھا کہ جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، قوم میں شہادت کو شوق بیدار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ شہادت اختیاری تھی، انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا، اس کے باوجود وہ دن رات انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیک وقت درجنوں منصوبوں پر کام کر رہے تھے، کم سونا اور کم کھانا ان کی عادت بن چکی تھی اور وہ خدا کے حقیقی اور سچے عاشق بن کر وہ قرب خدا حاصل کر چکے تھے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو فکر دی، آج اس پر عمل پیرا ہونیوالے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی تنتالیس برس کی عمر میں شہید ہو گئے، مگر ان کے منصوبوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے فرد واحد ہو کر اتنے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے تھے۔

 

مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نقوی نے جو فکر دی اس پر عمل کیلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا اور اس فکر کو مزید آگے بڑھانا ہوگا، ہم فکرِ شہید کے امین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید تمام شعبوں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی مکمل آگاہ تھے، وہ چاہتے تھے، ملی اخبارات و جرائد بھی ملک کی تربیت اور آگاہی میں کردار ادا کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہفت روزہ "رضا کار" کے آفس میں آکر ٹیم کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید کے تعلیمی میدان میں منصوبے لائق تحسین ہیں، طب کے شعبہ میں بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہین۔

مقررین نے کہا کہ شہید آج بھی اپنے رفقاء کیساتھ رابطے میں ہیں، شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ زندہ ہیں، ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے درمیان موجود ہیں۔ 

ایکنا نیوز- امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی رہنما، ممتاز معالج، سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ستائیسویں برسی کی مناسبت سے لاہور کی محمدی مسجد میں خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔

 تقریب کا اہتمام "محمد علی نقوی ویلفیئر ایسوسی ایشن" (ماوا) کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر ثاقب اکبر نقوی، سید وجاہت حسین نقوی، سید علی رضا نقوی، علامہ غلام شبیر بخاری، احمد رضا خان، افسر رضا خان، کرنل (ر) عارف حسین، علامہ محمد رضا عابدی، سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ، سید نثار ترمذی، اقرارالحسن، علامہ حسن رضا ہمدانی سمیت شہید کے رفقاء، سینیئر رہنماوں اور عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جب کہ  نقابت کے فرائض سید انجم رضا نے ادا کئے۔

 

مقررین نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی انسانیت کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا، انہوں نے قوم کی بیداری کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں، بش جب دورہ پاکستان پر آیا تو شہید نے مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ پر مردہ باد امریکہ کو طویل بینرز لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، شہید نے نوجوانوں میں انقلابی روح بیدار کی، جس کی بدولت آج بھی پورے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صالح اور باکردار نوجوان انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید نے آئی ایس او پاکستان کی شکل میں ایسا پودا لگایا جو آج ایک گھنا اور تناور درخت بن کر نسل نوء کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کر رہا ہے۔

 

مقررین کا کہنا تھا کہ جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، قوم میں شہادت کو شوق بیدار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ شہادت اختیاری تھی، انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا، اس کے باوجود وہ دن رات انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیک وقت درجنوں منصوبوں پر کام کر رہے تھے، کم سونا اور کم کھانا ان کی عادت بن چکی تھی اور وہ خدا کے حقیقی اور سچے عاشق بن کر وہ قرب خدا حاصل کر چکے تھے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو فکر دی، آج اس پر عمل پیرا ہونیوالے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی تنتالیس برس کی عمر میں شہید ہو گئے، مگر ان کے منصوبوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے فرد واحد ہو کر اتنے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے تھے۔

 

مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نقوی نے جو فکر دی اس پر عمل کیلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا اور اس فکر کو مزید آگے بڑھانا ہوگا، ہم فکرِ شہید کے امین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید تمام شعبوں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی مکمل آگاہ تھے، وہ چاہتے تھے، ملی اخبارات و جرائد بھی ملک کی تربیت اور آگاہی میں کردار ادا کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہفت روزہ "رضا کار" کے آفس میں آکر ٹیم کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید کے تعلیمی میدان میں منصوبے لائق تحسین ہیں، طب کے شعبہ میں بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہین۔

مقررین نے کہا کہ شہید آج بھی اپنے رفقاء کیساتھ رابطے میں ہیں، شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ زندہ ہیں، ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے درمیان موجود ہیں۔