سلیمانی

سلیمانی

خاتم الانبیاء ہیڈ کوارٹرز کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد نے اسرائیل اور امریکا کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

جنرل راشد نے پیر کے روز کہا، "اگر اس طرح کے خطرات عملی ہو جاتے ہیں، تو اسلامی جمہوریہ کی مسلح افواج استعمال شدہ آپریشنل منصوبوں کے مطابق فوری طور پر جارحیت کی اصل، تمام مراکز، اڈوں، راستوں اور حملوں کے لیے استعمال ہونے والی جگہوں پر حملہ کر دیں گی۔"

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری اور فوجی اڈوں کو کوئی خطرہ امریکہ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ 

گزشتہ ہفتے متعلقہ ریمارکس میں، ایک ایرانی سیکورٹی اہلکار نے بھی اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی بھی برے اقدام کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایران کی جانب سے جوابی اقدامات کو متحرک کرے گا جس سے نہ صرف ویانا مذاکرات اور تہران اور ایران کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔ 

"اگر غیر مصدقہ اطلاعات کہ اسرائیل ایران کے خلاف برے اقدامات کا مطالعہ کر رہا ہے، درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ انتقامی اقدامات کو متحرک کرے گا جس سے ایران-آئی اے ای اے تعلقات اور امریکہ پر ردعمل آئے گا کیونکہ اسرائیل ویانا مذاکرات میں موجود امریکہ اور مغربی ریاستوں کا سٹریٹجک پارٹنر ہے"۔ 

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں اسرائیلی وزیر دفاع کی طرف سے اس سلسلے میں فوجی یونٹوں کو حکم دینے کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اس حکومت کی مذموم کارروائیوں کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، مذاکرات پر ضرب لگانے کا مقصد ہے۔

 صیہونی حکومت ویانا مذاکرات میں موجود امریکہ اور مغربی ممالک کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور اس طرح کی کارروائی، جس کا مقصد ایران پر مذاکرات میں مغربی مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے دباؤ، یقیناً امریکا پر اثر پڑے گا۔

سیکورٹی اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ اگر صیہونی حکومت کا ہدف ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کوئی بھی شیطانی اقدام کرنا ہے تو اس کا آئی اے ای اے کے ساتھ ایران کے تعاون پر بھی منفی اور عبرتناک اثر پڑے گا۔

اہلکار نے زور دے کر کہا کہ ایرانی فوج اور سیکورٹی فورسز اس کا سامنا کرنے کے کسی بھی امکان پر سنجیدگی سے غور کریں گی۔

اسرائیل نے حال ہی میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں ویانا مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں، ایران کی میزائل اور ڈرون صلاحیتوں کو مسلسل سامنے لا کر، یہ دعویٰ کر کے کہ ایران خطے میں بدنیتی سے کام کر رہا ہے، اور آخری لیکن پرانی باتوں کا سہارا لے کر۔ ایران پر الزام ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

تل ابیب کی حکومت نے ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کی دھمکی بھی دی ہے جبکہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے نام نہاد آپشن کو "دوسرے طریقوں سے سفارت کاری" کے طور پر استعمال کیا ہے۔

اس ماہ کے شروع میں متعلقہ ریمارکس میں ایرانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایران کے خلاف فوجی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی رہنما خوف کے مارے ایسے بیانات دیتے ہیں۔

"صیہونیوں کی ڈرائیونگ خوف اور دہشت سے تعلق رکھتی ہے، کیوں کہ اس منحوس حکومت کے رہنما جانتے ہیں کہ اگر وہ اس طرح کے اقدام کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں، تو انہیں متناسب جواب ملے گا جو ان کے وجود کو جلد ختم کر دے گا۔" موسوی نے ایرانی بحریہ کی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے متعلق نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا.
 

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ڈپٹی چیف آف آپریشنزاور مشترکہ مشقوں کے ترجمان  جنرل عباس نیلفروشان نے کل صبح خلیج فارس کے ساحلوں، آبنائے ہرمز اور ہرمزگان، بوشہر اور خوزستان صوبوں کے عمومی علاقے پر پانچ روز تک پیغمبر اعظم (ص) 17 نامی مشترکہ مشقوں کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پیغمبر اعظم نامی مشترکہ فوجی مشقوں میں جدید ترین ہتھیاروں کے تجربات کئے جائیں گے۔

مشترکہ فوجی مشقوں کے ترجمان نے مزید کہا کہ پیغمبر اعظم 17 نامی فوجی مشق کا " یا فاطمہ زہرا (س) " اقتدار، سکیورٹی ، دفاعی تیاری اور ہمدلی و اتحاد کے  نعرے سے آغاز ہوا۔ جنرل نیلفروشان نے کہا کہ اس مشق میں ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی تمرین کی جائے گي اور جدید ترین جنگي وسائل کا استعمال کیا جائےگا۔ یہ مشق 5 دن تک جاری رہےگی۔

 ایرانی وزیر خارجہ کے سنئیر مشیر اور سوئڈن کے خصوصی نمائندے برائے یمنی امور نے ایک ملاقات میں یمن کی اندرونی اور بیرونی مسائل سمیت ایران اور سوئڈن کے باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

رپورٹ کے مطابق، سوئڈن کے خصوصی نمائندے برائے یمنی امور "پیتر سمنی" نے آج بروز ہفتے کو ایک ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سنئیر مشیر برائے سیاسی امور "علی اصغر خاجی" سے ملاقات اور گفتگو کی۔

اس ملاقات میں دونوں فریقین نے یمن کی اندرونی اور بیرونی مسائل سمیت ایران اور سوئڈن کے باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

سویڈن کے خصوصی نمائندے برائے یمنی امور کی تازہ ترین علاقائی مشاورت، اسلامی جمہوریہ ایران کی یمنی عوام کیخلاف ناکہ بندی کے اختتام، جنگ بندی اور امن عمل کے قیام اور صافر نامی ٹینکر سے تیل کے رساؤ کے خطرے کو ختم کرنے کی کوششیں، خاجی اور سویڈش نمائندے کے درمیان ہونے والی گفتگو کے اہم موضوعات میں سے تھے۔

اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ کے سنئیر مشیر برائے سیاسی امور نے یمنی بحران کے سیاسی حل، یمن انٹراڈائیلاگ اور تمام سیاسی دھاروں اور گروہوں کی شرکت سے ایک جامع حکومت کے قیام پر زور دیا۔

در این اثنا سویڈن کے خصوصی نمائندے نے یمن اور خطے میں امن کے قیام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم کردار پر بھی زور دیتے ہوئے جنگ بندی، اقتصادی ناکہ بندی کے اختتام اور یمن میں سیاسی مذاکرات کی بحالی پر اقوام متحدہ کی کوششوں کی وضاحت کی۔

 نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے میری فاطمہ (س) کو اذيت پہنچائی  اسے نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنجائی اور خدا کو اذيت پہنچانے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حضرت فاطمہ زھرا(س) جود و سخا اور اعلیٰ افکارمیں اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئینہ دار تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العالمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، ذکیہ،خیر النساء اور بتول ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا مظہرہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا ۔ کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں لہذااس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدابھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے  رشد  پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے نجات دلائی۔

حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں پیغمبر اسلام (ص) کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا س سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا س سے ملنے کے لئے جاتے تھے .

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً

" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "

" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."

" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "

" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "

" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .

  افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے بعدِ رسول اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ۔پھر  آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا  نہیں کیا گیا بلکہ  جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم (س)کے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں  اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم (س)  کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ

صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا  صبّت علی الایّام صرن لیالیا

یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات  میں تبدیل ہو جاتے۔

سیدہ عالم  کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک،  فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول خدا (ص)نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ آپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے  کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک با قی رہا .

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کے ساتھ مرتے دم تک بات نہیں کی اور وصیت فرمائی کہ ظالموں کو ان کے جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور یہی وجہ ہے کہ بی بی دوعالم وشہزادی کونین کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا گیا اور نبی کریم (ص) کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر مبارک آج بھی پوشیدہ ہےجس سے پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ (س) پر ہونے والے مظالم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

 نائیجیریا میں اسلامی تحریک (IMN) کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی نے کہا ہے کہ اسلامی تحریک ایک نظریہ ہے اور اس پر کبھی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

"آئی ایم این کوئی نام نہیں ہے، یہ ایک نظریہ ہے جیسے اسلامی بیداری، اسلامی نظریہ، اسلامی تعلیم، یا اسلامی فلسفہ۔ یہ ایک طرح کا تصور ہے، ہم نے اسے کبھی نام کے طور پر استعمال نہیں کیا، اور تحریک پر کبھی پابندی یا پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ "،

شیخ زکزاکی نے کہا کہ IMN کو کالعدم قرار دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ کسی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے، جو کہ نائجیریا کے آئین کے خلاف ہے۔

اپنے تبصرے میں ایک اور جگہ کہا، "میری بیوی اور میرے جسم میں اب بھی گولیاں ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اہلیہ کے جسم میں مکمل گولی لگی ہے جسے ڈاکٹرز نکال نہیں سکے۔

"لیکن، ملک سے باہر کے ماہرین وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکتے ہیں۔"

دسمبر 2015 میں، نائجیریا کی فوج نے نائیجیریا کی ریاست کدونا کے زاریا قصبے میں حسینیہ بقیہ اللہ کے مذہبی مرکز اور شیخ زکزاکی کے گھر پر چھاپہ مارا، جس میں سیکڑوں بے ہتھیار شہریوں کو ہلاک کر دیا، جن میں خواتین اور بچے بھی تھے۔

اگست 2019 میں ہندوستان میں طبی علاج کے لیے منسوخ شدہ سفر کے دوران، نائجیریا کی اتھارٹی نے ان کے بین الاقوامی پاسپورٹ ضبط کر لیے۔ اس نے انہیں واپس کرنے سے انکار کردیا حالانکہ کدونا اسٹیٹ ہائی کورٹ نے 28 جولائی 2021 کو ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
 

 نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے میری فاطمہ (س) کو اذيت پہنچائی  اسے نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنجائی اور خدا کو اذيت پہنچانے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حضرت فاطمہ زھرا(س) جود و سخا اور اعلیٰ افکارمیں اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئینہ دار تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العالمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، ذکیہ،خیر النساء اور بتول ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا مظہرہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا ۔ کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں لہذااس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدابھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے  رشد  پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے نجات دلائی۔

حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں پیغمبر اسلام (ص) کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا س سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا س سے ملنے کے لئے جاتے تھے .

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً

" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "

" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."

" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "

" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "

" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .

  افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے بعدِ رسول اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ۔پھر  آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا  نہیں کیا گیا بلکہ  جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم (س)کے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں  اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم (س)  کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ

صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا  صبّت علی الایّام صرن لیالیا

یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات  میں تبدیل ہو جاتے۔

سیدہ عالم  کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک،  فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول خدا (ص)نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ آپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے  کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک با قی رہا .

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کے ساتھ مرتے دم تک بات نہیں کی اور وصیت فرمائی کہ ظالموں کو ان کے جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور یہی وجہ ہے کہ بی بی دوعالم وشہزادی کونین کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا گیا اور نبی کریم (ص) کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر مبارک آج بھی پوشیدہ ہےجس سے پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ (س) پر ہونے والے مظالم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان پاکستان میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد روانہ ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس کل  پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 17 ویں غیر معمولی اجلاس میں افغانستان میں انسانی صورتحال کے بارے میں  تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

غیر معمولی اجلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے نمائندے، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سمیت بین الاقوامی اداروں کے نمائندے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے 57 رکن ہیں اور یہ تنظیم اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہے

امریکی وزارت جنگ نے افغانستان میں دس افغان شہریوں منجملہ سات بچوں کا قتل عام کرنے والے کسی بھی امریکی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی تادیبی اقدام عمل میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی وزیر جنگ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں ۲۹ اگست کے حملے کے سلسلے میں کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔

امریکی فضائیہ کے تفتیشی امور کے عہدیدار جنرل سامی دی سعید نے جو اس سانحے کی تحقیقات پر مامور بھی تھے، نومبر کے مہینے میں دعوی کیا تھا کہ اس حملے سے جنگی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے البتہ کچھ شواہد اس بات کے ملے ہیں کہ کمانڈروں سے اس حملے کے سلسلے میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔

اس فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت کی صورت حال کو درک کیا جائے تو اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ فوجیوں پر کافی دباؤ رہا ہے اس لئے اس قسم کی غلطیوں پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل سینٹکام کی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ اس حملے میں ایک امدادی کارکن اور اس کے گھرانے کے نو افراد مارے گئے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں نے جس گاڑی کو نشانہ بنایا اس کا ڈرائیور امریکی کمپنی میں بجلی کے ایک انجیئر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور اس کا نام زمری احمدی تھا جبکہ داعش و دہشت گردی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

تقریب اجنسی

بین الاقوامی امور کے ماہرابوالفضل ظہرہ وند  نے ایران کے خلاف اسرائيل کی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی دھمکیاں نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ ایران کا مقابلہ کرنے کی اسرائیل میں ہمت اور ظرفیت نہیں ہے۔

ابو الفضل ظہرہ وند نے مہر نیوز سے گفتگو میں ویانا مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ویانا مذاکرات میں اپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں اور استقامت کے ساتھ اپنے برحق مؤقف پر قائم ہیں۔

ظہرہ وند نے مہر سے گفتگو میں مغربی ممالک کے متضاد بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف مغربی ممالک ایران کے منطقی اور اصولی مؤقف کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل نے ایران کی مذاکراتی ٹیم پر دباؤ ڈالنے کے لئے نفسیاتی جنگ شروع کردی ہے اور وہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے تمام وسائل سے استفادہ کررہے ہیں۔ انھوں نے نفسیاتی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے 7 صنعتی ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔

ظہرہ وند نے مغربی ممالک اور اسرائیل کی نفسیاتی جنگ کو شکست خوردہ قراردیتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کے پاس سفارتی کاری کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں۔ اگر اسرائیل نے ایران پر جنگ مسلط کی تو اسے بحیرہ روم کی طرف بھاگنا پڑےگا۔

انھوں نے کہا کہ ایران نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اقتصاد کو ویانا مذاکرات سے منسلک نہیں کرےگا۔ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کی پابندیوں کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔

اٹلی میں ایران کے سابق سفیر نے مہر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک اچھی طرح جانتے ہیں خطے میں جنگ کی گنجائش نہیں ہے، خطے میں اگر امریکہ کے کسی فوجی اڈے کے لئے کوئي ناخوشگوار حادثہ پیش آگیا،  تو عرب ممالک کا تمام سرمایہ برباد ہوجائےگا۔

انھوں نے مہر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی ممالک میں اتنی ہمت ہوتی تو وہ افغانستان کو موجودہ بحران اور دلدل میں چھوڑ کر فرار نہ کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف مغربی ممالک کی نفسیاتی جنگ شکست سے دوچار ہوجائے گی اور ایران اپنے حقوق کے حصول کے لئے مغربی ممالک کے دباؤ میں نہیں آئےگا۔


اسلامی جمہوریہ ایران کے ادارۂ جوہری توانائی کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ ایران نے طے شدہ فریم ورک سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا اور 90 فیصد یورینیئم کی افزودگی کا دعوی سراسر جھوٹ ہے۔

انہوں نے آئی آر آئی بی سے انٹرویو میں ملک کی پرامن جوہری سرگرمیوں کے بارے من گھڑت باتوں اور یورینیئم کی 90 فیصد افزودگی کے دعوے کے بارے میں کہا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے جسکا بے بنیاد ہونا واضح ہو چکا ہے خاص طور پر دشمن اور صیہونی حلقے ایسی من گھڑت باتیں کر رہے ہیں۔

محمد اسلامی نے کہا کہ ایران ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے آئی اے ای اے کے اصول وضوابط کے تحت کام کرتا ہے اور قوانین کے مطابق ایران کی جوہری سرگرمیوں پر جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نگرانی کر رہی ہے اور ہم نے کبھی بھی مقررہ فریم ورک سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا ۔