سلیمانی

سلیمانی

چین کی  وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کی طرف سے منعقدہ نام نہاد “جمہوریت  سمٹ” کے بارے میں کہا کہ نام نہاد”جمہوریت سمٹ”کا اصل مقصد  جمہوریت کو آلہ کار اور ہتھیار بنا کر اور  جمہوریت کے نام پر جمہوریت مخالف کام کرنا ، تقسیم اور تصادم کو ہوا دینا ، ملکی تضادات اور مسائل کو  دوسروں پر منتقل کرنا، دنیا میں امریکی تسلط کو برقرار رکھنا، اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنا ہے۔

امریکہ کے اقدامات تاریخی رجحان کے خلاف ہیں اور انہیں عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترجمان نے نشاندہی کی کہ امریکہ ’’جمہوریت کا مینارہ‘‘ نہیں ہے اور امریکی جمہوریت جمہوریت کے مرکزی نظریے سے ہٹ چکی ہے۔

پیسے کی سیاست، شناخت کی سیاست، پارٹی دشمنی، سیاسی پولرائزیشن، سماجی ٹوٹ پھوٹ، نسلی تنازعات، اور امیر اور غریب کے درمیان پولرائزیشن جیسے مسائل کے ساتھ آج کی امریکی جمہوریت خراب حالت میں ہے۔

متعلقہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 72فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ اب دوسرے ممالک کے لیے “جمہوری ماڈل” نہیں رہا جس کی تقلید کی جا سکتی ہے، اور 44فیصد عالمی جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ عالمی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ترجمان نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ چین تمام بنی نوع انسان کے لیے امن، ترقی، انصاف، جمہوریت اور آزادی کی مشترکہ اقدار  اور  بین الاقوامی تعلقات کی جمہوری اقدار کو فعال طور پر فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔

چین  ہر قسم کی سوڈو ڈیموکریسی،  جمہوریت دشمنی اور جمہوریت کی آڑ میں سیاسی جوڑ توڑ کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور  بنی نوع انسان کے  ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کرتا رہےگا۔

جرمنی میں یمنیوں نے جارحیت کے جرائم کی مذمت کی ہے۔

 جرمنی کی ریاست شلس وِگ ہولسٹے میں یمنی کمیونٹی نے ایک اجتماع کا اہتمام کیا، جس میں یمن کے خلاف امریکی حمایت یافتہ جارحیت کے جرائم کی مذمت کی گئی۔

 کمیونٹی نے یمن میں شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کو مسلسل نشانہ بنانے کی مذمت کی جو کہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔احتجاجی مظاہرے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں یمنی عوام پر جارحیت ختم کرنے اور محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے ایسے جرائم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی کی مذمت کی۔

 بیان میں اتحادی ممالک اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں کو یمنی عوام کے مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ایم ایم

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کی جوہری معاہدے میں واپسی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب وہ ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللهیان نے اخبار کامرسنٹ  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہر چند کہ یورپ نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا لیکن ایران نے نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر قانونی یکطرفہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے مذاکرات کے دروازے کو بند نہیں کیا اور ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلئے نتیجہ خیز گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق صورتحال اس لئے بن گئی کہ امریکہ نے جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

واضح رہے کہ ویانا میں 29 نومبر کو ایران کی تجویز پر غور کرنے کے لئے ورکنگ گروپس کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے ۔ اس سے قبل ایران نے پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں دو سندیں پیش کیں ۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے دفتر کے مسئول، حجت الاسلام والمسلمین آقای محمدی گلپائیگانی نے ایران کے مشہور اخبار روزنامہ کیھان کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ جب رہبر انقلاب کی خدمت میں آئے اور آپ کی رہائشگاہ کو دیکھا تو ان کے لئے باعث تعجب اور ناقابل یقین تھا کہ رہبر ایران ایسے مکان میں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ انتہائی قیمتی تحفے اپنے ساتھ لائے تھے، لیکن آپ نے ان تمام ہدایا کو فروخت کرکے ان پیسوں سے غریبوں کے لئے مکانات بنائے ہیں۔ حجت الاسلام محمدی گلپایگانی نے مجمع عمومی نمایندگان طلاب و فاضلاء کی نشست، جو کہ جامعہ مدرسین کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی، سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں 30 سال سے رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ ہوں، اب تو کافی عمر بھی ہوچکی ہے (اب تو آرام کا وقت بھی نزدیک آپہنچا ہے) اور ریٹائرمنٹ کا وقت بھی نزدیک ہے۔۔۔۔

میں ہمیشہ رہبر معظم انقلاب کی طرف سے حوزہ کے بزرگان کی خدمت میں آتا جاتا ہوں۔ ایک دن میں حضرت آقا کے حکم پر آیت اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی رحمة اللہ عليہ کی خدمت میں پہنچا اور ان سے کہا کہ اگر کوئی کام وغیرہ ہے تو فرمائیں، ہم نمٹا دیں گے۔۔۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں کوئی غیر قانونی کام، خلاف شرع کام حکومت سے دیکھوں اور میرا تذکر دینا حکومت اسلامی کو کمزور کرنے کا سبب نہ بنے تو کہہ دیتا ہوں۔ اگر دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ میری وجہ سے۔۔۔ میرے تذکر کی وجہ سے نظام اسلامی کمزور ہو رہا ہے تو نہیں کہتا بلکہ خاموش رہتا ہوں۔۔۔۔ چونکہ نظام اسلامی کی تضعیف اور اس نظام کو کمزور کرنا حرام ہے۔ انہوں نے کہا آپ "اشِدّاء عَلَی الکُفّار رُحَماء بَینہُم" ہیں، میں نے ایک بار بھی ان میں خوف و ڈر نہیں دیکھا۔

ان کی بڑی خصوصیات میں سے ایک اپنی اولاد کی بہترین تربیت ہے۔ آپ کے 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ ان کی بہترین تربیت زبان زدعام و خاص ہے۔ ان کے سب بیٹے کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بچوں نے ہمیشہ بیت المال کا مکمل خیال رکھا ہے، یہاں تک کہ دفتر سے ایک فوٹو کاپی بھی کروائی تو اس کے پیسے ادا کرتے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے بیٹوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اعلیٰ علمی مدارج کی تشویق کرتے ہیں۔ آپ کا ایک بیٹا انتہائی عظیم شخصیت کا مالک ہے، حالانکہ ان کی عمر بھی اتنی نہیں۔ آقای محمدی نے واضح کیا کہ آپ کی سادہ زیستی، تجملات کے ساتھ مقابلہ، دنیاداری سے اجتناب بارز ترین خصوصیات میں سے ہے۔ آپ معمولی اشارے پر بہت سی چیزوں کے مالک بن سکتے ہیں، لیکن آپ نے کبھی ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں دی۔۔۔۔

انہوں نے سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ کی ایران آمد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی بادشاہ نے رہبر انقلاب کے پاس آنے کے بعد جب آپ کی رہائشگاہ کو دیکھا تو تعجب کیا اور ان کے لئے قابل یقین نہیں تھا کہ رہبر ایران ایسے گھر میں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ آپ کے لئے بہت سارے قیمتی ہدایا لائے۔ آپ نے ان سب کو بیچ کر غریبوں کے لئے رہایشگاہیں بنوائیں۔ آپ کو مختلف مقامات سے ہدایا آتے ہیں، لیکن آپ کسی کو بھی اپنے استعمال میں نہیں لاتے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود
حضرت آقا سے سنا کہ اگر سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو پیکان (بہت پرانے ماڈل کی بہت کم قیمت کی ٹیکسی) میں ادھر اُدھر جاتا۔ آپ کے دفتر میں کچھ گاڑیاں ہیں، ان کو استعمال میں لاتے ہیں اور ہر 6 ماہ بعد ان گاڑیوں کے تیل اور تعمیری پیسے ادا کرتے ہیں۔

دفتر کے مسئول نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نماز تہجد اور شب بیداری آپ کی بڑی عادات میں سے ہیں۔ آپ اہل دعا اور مناجات ہیں۔ ہمیشہ اذان صبح سے پہلے خدا کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتے ہیں۔ کبھی شب بیداری ترک نہیں ہوتی ہے۔ آپ دعاوں کے ساتھ بہت زیادہ اُنس رکھتے ہیں۔ خصوصاً صحیفہ سجادیہ اور دعای مکارم الاخلاق کے ساتھ بہت زیادہ مانوس ہیں۔ آقای گلپائیگانی نے کہا کہ آپ محو اہل بیت علیہم السلام ہوتے ہیں۔۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا اور امام زمانہ (ع) سے بہت زیادہ متوسل ہوتے ہیں۔ آقای محمدی نے سب سے اپیل کی کہ رہبر انقلاب کی سلامتی اور طول عمر کے لئے دعا کریں، تاکہ اس پرچم اسلام کو اپنےحقیقی وارث کے حوالے کرسکیں۔

بشکریہ! روزنامہ کیھان

ترجمہ و ترتیب: محمد علی شریفی
بشکریہ:اسلام ٹائمز

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کے ساتھ ملاقات میں عراق اور شام میں داعش کی اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کی شکست سے امریکہ کو شدید غصہ ہے اسی وجہ سے امریکہ خطے میں داعش کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ شام کو کمزور کرکے خطے میں اسرائیل کی بالا دستی قائم  کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس سلسلے میں اسے داعش دہشت گردوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ شمخانی نے شام پر اسرائیل کے مسلسل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اب فلسطین اور لبنان کے بعد شام کو بھی مسلسل اپنے وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائيل خطے اور عرب ممالک کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

شامی وزیر خارجہ فیصل مقداد نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ اسرائيل مسلسل شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے لیکن شامی عوام امریکہ اور اسرائیل کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے خلاف استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی قومی سلامتی کے مشیرشیخ طحنون بن زاید اسلامی جمہوریہ ایران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران ، خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی سلامتی کی حمایت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کو مشترکہ فہم اور ادراک تک پہنچنا چاہیے اور اغیار کے اشاروں پر ایکدوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں ہمسایہ ، عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا اور مضبوط و مستحکم بنانا شامل ہے۔ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے گمراہ کن پروپیگنڈہ پر توجہ مبذول نہیں کرنی چاہیے۔ اسرائیل خطے میں اپنے شوم منصوبوں کو فروغ دینا چاہتا ہے، جبکہ ایران ہمسایہ ممالک کی ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے اور ان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے۔

اس ملاقات میں متحدہ عرب امارات کی قومی سلامتی کے مشیر طحنون بن زاید نے دونوں ممالک کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس خطے کے فرزند ہیں ہماری سرنوشت ایکدوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں اور صدر سید ابراہیم رئيسی کے دورہ امارات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہوجائےگا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں فلسطینی تنظیم حماس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کو اسرائيل کے ساتھ سیاسی تعلقات برقرار کرنے کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے۔ ترکی کے شہر استنبول میں"  پیشگامان فلسطین " کے عنوان سے بارہواں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے ضمن ميں فلسطینی تنظیم حماس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو اسرائیل کے سات سفارتی تعلقات قائم کرنے کو روکنا چاہیے اور اس سلسلے میں گمراہ کوششوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا سلسلہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیےکیونکہ اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کا سلسلہ شر اور شرارت پر مبنی ہے۔

اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائيل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں نظر ثانی کریں اور فلسطینی عوام کی پشت میں خنجر گھونپنے سے باز رہیں۔

حماس کے رہنما نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دوسرے اسلامی ممالک سے بھی اپنی فوجیوں نکالنے پر مجبور ہوجائےگا جس کے نتیجے میں خطے میں امریکی اتحادی کمزور ہوجائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بیت المقدس کی آزادی اور اسلامی مزاحمت کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المقدس اور مسجد الاقصی کی اہمیت کو مد نظر رکھیں، اسلامی مزاحمت کی بھر پور حمایت کریں اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو روکنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے بین الاقوامی منظر نامے پر ایران کی بے مثال طاقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

آئی آر جی سی کے کمانڈر نے کہا، "دشمن نے اس کے بجائے اقتصادی جنگ اور ایران کے خلاف پابندیوں کا سہارا لیا ہے۔"

جنرل سلامی نے کہا کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن میز سے باہر ہے، کیونکہ ملک غیر ملکی جارحیت کا شکار ہونے کے لیے اتنا طاقتور ہو چکا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: رہبر معظم کا وژن دشمن کو پست اور کمزور کرنا تھا اور اس ہنر نے دشمن کے راستے کو مسدود کردیا اور دشمن کے میز سے ہر آپشن کو ہٹا دیا۔

جنرل سلامی نے مزید کہا کہ "آج کا اسلامی، انقلابی ایران طاقتور ہے اور کوئی بھی دشمن جانتا ہے کہ یہ علاقہ قابلِ قبضہ نہیں ہے… اور اب انہوں نے اقتصادی جنگ اور پابندیوں کا سہارا لیا ہے،" جنرل سلامی نے مزید کہا۔

گزشتہ ماہ متعلقہ تبصروں میں، جنرل سلامی نے کہا کہ واشنگٹن ایرانی قوم کے خلاف اپنی سازشوں میں شکست کو برقرار رکھنے کا عادی ہے، اور امریکہ سے ایران کا چوری شدہ تیل کا سامان واپس لے کر آئی آر جی سی بحریہ کی حالیہ فتح کو سراہا۔

امریکیوں کو ایرانی قوم کے ہاتھوں شکست کھانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، لیکن انھوں نے ابھی تک اچھی طرح سے سبق سیکھنا ہے، جنرل سلامی نے سابق صدر کے سامنے منعقدہ عالمی استکبار کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی ریلی اور یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ تہران میں امریکی سفارت خانہ جسے اب جاسوسوں کا اڈہ کہا جاتا ہے۔

سلامی نے زور دے کر کہا کہ دنیا میں جنگوں کو ہوا دینے کے لیے امریکی تسلط پسندانہ چالوں کے بارے میں بھی کہا کہ دنیا کے 40 حصوں میں 40 سے زیادہ بڑی جنگیں دنیا میں امریکیوں کی سیاست کا نتیجہ ہیں۔

جنرل سلامی نے کہا کہ امریکہ یورپ، افریقہ، جنوبی امریکہ، مشرق بعید، مغربی ایشیا اور روس کے بہت سے ممالک کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے اور مزید کہا کہ امریکہ کی جنگوں سے دنیا میں 80 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔

میجر جنرل سلامی کے مطابق امریکہ نے عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا تاکہ پوری دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے تاہم ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکیوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے سے روک دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے خطے میں امریکی سازشوں کو ناکام بنایا۔

سلامی نے مزید کہا، "آج ہم علاقائی سیاست کے مرکز میں امریکہ کو نہیں دیکھتے اور خطے میں امریکی اتحادیوں کا اس ملک کی پالیسی پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔"

انہوں نے بحیرہ عمان میں ایرانی آئل ٹینکر کو چرانے کی امریکہ کی حالیہ کوشش کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ امریکیوں نے ایرانی آئل ٹینکر کو چرانے کی کوشش کی تاہم سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے دستے موقع پر پہنچ گئے۔ ایرانی قوم کے مفادات کا دفاع۔

انہوں نے کہا کہ ایران خطے کو سلامتی فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے، انہوں نے علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ سلامتی کے لیے بیرونی طاقتوں کے بجائے ایران پر انحصار کریں۔

"ان لوگوں سے مدد لینے کی ضرورت نہیں ہے جو اپنی حفاظت کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔"

عراق کے سیاستدان نے کہا ہے کہ اس ملک سے غیر ملکی افواج کو نکل جانا چاہئیے۔

المعلومه کی رپورٹ کے مطابق عراق کے سیاستدان محمد نوری العبد ربه نے کہا ہے کہ عراق میں دہشتگردانہ حملوں کو روکنے کیلئے ہمیں غیر ملکی فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق کے پاس دہشتگردی پر قابو پانے کی بھر پور صلاحیت اور طاقت ہے۔

اس سے قبل عراقی پارلیمنٹ میں الفتح الائنس کے صدر ہادی العامری نے کہا تھا کہ عراق کی بنیادی آئین میں اس ملک میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی ھمسایہ ممالک کیلئے بھی خطرہ ہیں۔

واضح رہے کہ عراقی عوام اور سیاسی دھڑے ایک عرصے سے امریکی دہشتگردوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور عراقی پارلیمنٹ پانچ جنوری دو ہزار بیس کو امریکہ کے فوجی نما دہشتگردوں کے انخلا کی قرار داد بھی پاس کر چکی ہے۔


جہالت انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے اور جاہل انسان کے ہاتھوں میں مقدسات اور مذہب کا جام تھما دیا جائے تو ایسا انسان انتہائی مہلک ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمیں سیالکوٹ میں دیکھنے کو ملا۔ راجکو فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن شہری انجینئر پریانتھا کمارا نے فیکٹری میں لگا ایک صفحہ اتار کر پھاڑ پھینکا، جس پر یاحسینؑ لکھا تھا۔ بس پھر وہاں موجود ملازمین کے مذہبی جذبات برانگیختہ ہوئے اور وہ احتجاج کے لیے نکل پڑے۔ غلطی تو پریانتھا نے کی کہ ایک صفحہ جو شاید مسلمانوں کے لیے بہت اہم تھا، اس کو کم اہم جان کر اس نے پھاڑ دیا۔ فیکڑی ورکرز نے کمارا سے معافی کا مطالبہ کیا، تاہم وہ اپنے عہدے کے زعم میں فیکڑی ورکرز کی بات کو غیر اہم جان کر بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کی یہ حرکت فیکٹری میں آگ کی مانند پھیل گئی۔ مجھے یقین ہے کہ اکثر کو تو یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ توہین کیا ہوئی ہے، تاہم مسلمان نکلے، پہلے تو احتجاج کیا اور پھر خود ہی انصاف کرنے کے لیے فیکٹری میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ناقابل بیان ہے۔ پریانتھا کو زد و کوب کرنے کے بعد اس کی لاش کو چوک میں رکھ کر جلا دیا گیا۔

یہ واقعات اس سرعت سے ہوئے کہ پولیس اور سکیورٹی اداروں کو  بھی حالات کی سنگینی کا علم نہ ہوسکا۔ فیکٹری میں کچھ پولیس تو موجود تھی، تاہم وہ پریانتھا کو ہلاکت سے نہ بچا سکی۔ پریانتھا پاکستان میں 8 برس سے کام کر رہا تھا، یعنی وہ پاکستانی معاشرے اور اپنے ملازمین کی ذہنی کیفیت سے آگاہ تھا، تاہم اس نے بے احتیاطی کی، جس کے نتیجے میں یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، پریانتھا کی جان کا ضیاع، اس کے اہل خانہ پر گزرنے والی تکلیف اپنی جگہ، تاہم اس عمل سے پاکستان، مسلمانوں اور اسلام کو جتنا نقصان پہنچا ہے، اس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ اب تو دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سری لنکا میں رہنے والے پاکستانیوں نیز مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔

فیکٹری ورکر اور ان کے ساتھ جمع ہونے والے لوگ اگرچہ اس واقعہ میں براہ راست طور پر ملوث ہیں، تاہم اس واقعہ میں ہم فقط ان فیکٹری ورکز کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے، بحیثیت معاشرہ ہم سب ہی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔ احتجاج کرنے والے مولانا خادم حسین رضوی کی زبان پر جاری رہنے والے اس بیان کو دہرا رہے تھے ’’جس نے نبی ؐ کی توہین کی، اس کی سزا موت ہے‘‘، اسی طرح مظاہرین وہی نعرے لگا رہے تھے جو عموماً تحریک لبیک کے دھرنوں میں سننے کو ملتے ہیں، یعنی ورکرز ذہنی اور فکری طور پر مولانا خادم کی سوچ سے ہم آہنگ لوگ تھے۔ ان میں سے ہر کوئی غازی بننے کے چکر میں تھا۔ گالیاں بھی دیتے تھے اور مارتے بھی تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو قتل کرنے کی بعد اس کی لاش کو جلا دیا گیا اور انتہائی ڈھٹائی سے اس کی جلتی ہوئی لاش کے پاس سیلفیاں بنائی گئیں، نشریاتی اداروں کو انٹرویوز دیئے گئے۔ کسی کے چہرے پر ذرہ بھر ندامت نہ تھی کہ ان سے کتنا بڑا جرم سرزد ہوگیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ میں فیکٹری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ذمہ دار ہیں، جنہوں نے حالات کی سنگینی کو نہ سمجھا اور بروقت کارروائی نہ کی۔ اس واقعہ میں حکومت وقت بھی ذمہ دار ہے، جس نے گذشتہ دنوں تحریک لبیک کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور ان کو کالعدم سے دوبارہ ہیرو بنایا۔ اس واقعہ میں ہماری عدالتیں بھی ذمہ دار ہیں، جن کے سامنے توہین کے کیسز لائے جاتے ہیں اور وہ اس پر جلد منصفانہ فیصلے نہیں کرتے، تاکہ کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہو؛۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں توہین دین اور توہین مقدسات کا مسئلہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔ آئین پاکستان میں توہین مذہب اور مقدسات بالخصوص توہین رسالت ؐ کے حوالے سے قانون سازی موجود ہے، تاہم نہ تو توہین کا مقدمہ قائم کرنے کا کوئی منصفانہ نظام وضع ہے اور نہ ہی ان مقدمات پر بروقت فیصلے کیے جاتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1967ء سے 2014ء تک تقریباً 1300 افراد پر توہین سے متعلق مقدمات قائم ہوئے، جن میں سے فقط 80 افراد کو سزا سنائی گئی ہے۔باقی مقدمات اب تک فیصلوں کے منتظر ہیں۔ اکثر مقدمات میں بیرونی قوتیں دخل اندازی کرتی ہیں اور حکومت نیز عدالتوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ نرم فیصلہ کیا جائے۔ پاکستان میں اس حساس ترین مسئلے کے حوالے قوانین اکثر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مذہبی تنظیمیں ان  قوانین کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین اکثر اقلیتوں کے استحصال اور بعض اوقات ذاتی عناد کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ مذہبی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قوانین کے خلاف سازش رچا رہی ہیں، جسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یوں ایک قانونی اور سماجی مسئلہ سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے اور اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو پاتی۔ مقدمات کی بہتات، عدالتوں کی سست روی، انسانی حقوق کی تنظیموں کی بیان بازی، بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے سبب عوام میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ معاملہ حکومت اور عدالت کے اختیار سے باہر ہے، لہذا وہ خود ہی انصاف کی تلوار ہاتھوں میں تھامے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔

اسی تاثر کے سبب ایک رپورٹ کے مطابق 1987ء سے 2017ء تک 75 کے قریب افراد توہین کے الزام میں عوام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اسلام اور وطن عزیز کی عزت کا درد رکھنے والے افراد خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، ان کو اس سلسلے میں اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قانونی اور سماجی مسئلے کو سیاسی مسئلہ نہ بنائیں۔ کم از کم ایک ایسی چیز رہنے دیں، جس میں قانون پر عمل ہوتا ہوا نظر آئے۔ توہین کے مقدمات اور الزامات جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بجا طور پر اعتراض اٹھاتی ہیں، ان کو درج کروانے کے لیے جلد از جلد واضح اور شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے، تاکہ یہ الزام لگانا اتنا آسان نہ ہو، جتنا ہمیں سیالکوٹ اور اس طرح کے کئی ایک واقعات میں نظر آیا۔ اسی طرح وہ مقدمات جن پر تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں، ان کے بارے میں کسی بھی دباؤ کو قبول کیے بغیر منصفانہ فیصلے کیے جائیں اور ان فیصلوں پر عملدآمد کو یقینی بنایا جائے، تاکہ آئندہ کسی کو بھی قانون سے کھیلنے نیز وطن عزیز اور اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی جرات نہ ہو۔

علماء کو بھی چاہیئے کہ وہ اس حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے ذمہ داری کا ثبوت دیں، معاشرے کی ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے بیانات داغیں، تاکہ کسی بھی انسانی جان کا ضیاع ان کے کھاتے میں نہ آئے۔ حالیہ واقعہ کے حوالے سے حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ فی الفور متاثرہ خاندان سے اپنے سفارت خانے کے ذریعے رابطہ کرے اور ان سے بحیثیت حکومت معافی طلب کرے نیز ان کو اس قیمتی جان کے ضیاع پر ہرجانہ ادا کرے، تاکہ متاثرہ خاندان اور سری لنکن سرکار کی اذیت کا کچھ مداوا ہوسکے۔ ملک میں موجود مذہبی تنظیمیں جو بیانات کی حد تک اس واقعے کی مذمت کر رہی ہیں، ان کو بھی چاہیئے کہ وہ کھل کر سامنے آئیں اور اس واقعہ کی مذمت میں پریس کانفرنسیں کریں، تاکہ عوام میں نچلی سطح تک یہ پیغام جائے کہ سیالکوٹ میں ہونے والا واقعہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے، تاکہ آئندہ ایسے واقعات وقوع پذیر نہ ہوں۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ ہمیں دین مبین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تحریر: سید اسد عباس
بشکریہ:اسلام ٹائمز