سلیمانی

سلیمانی

ج کے زمانے ميں سب ہي ’’گھرانے‘‘ کے متعلق باتيں کرتے ہيں اور سب ہي کو اس بارے ميں تشويش لاحق ہے۔ معاشرتي اور تاريخي علوم کے ماہرين کسي بھي معاشرے کي سب سے پہلي اور بنيادي ترين شکل ’’گھرانے‘‘ کو قرار ديتے ہيں۔ اس طرح ماہرين نفسيات بھي انسانوں کے نفساني حالات کي جڑوں کوا ’’گھرانے‘‘ ميں ہي تلاش کرتے ہيں۔ جب کہ تربيت کے شعبے سے منسلک مفکرين اور دانش مند حضرات ’’گھر‘‘ کو ہي تربيتي امور کا مرکز جانتے ہيں اور اجتماعي مصلح حضرات بھي ہر قسم کي اصلاح طلب تبديلي و انقلاب کو ’’گھرانے‘‘ سے ہي مربوط قرار ديتے ہيں اور
سچ مچ، گھرانے کي اہميت کتني زيادہ ہے؟
اسلام کي اس بارے ميں کيا نظر ہے؟
کس طرح ايک ’’گھرانے‘‘ کي بنيادوں کو مستحکم بنايا جا سکتا ہے؟
اور ، اور، اور
اسلام اور معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت اور اس کے مختلف اثرات کو اسلام کے مايہ ناز مفکر اور فلسفہ شناس دانشمند کي حيثيت سے اپنے ہر دلعزيز قائد و رہبر سے سننا اس عظيم بنياد کو رکھنے والے نوجوانوں کے لئے راہ گُشا ہے۔

کلمہ طيبہ يا پاک بنياد

گھرانہ ’’کلمہ طيبہ‘‘ ١ کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير و برکت اور نيکي ہي ملتي رہتي ہے اور وہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے۔ کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے۔ يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات۔

انساني معاشرے کي اکائي

جس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ’’سيل‘‘ يا ’’خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے کہ ان خليوں کي نابودي،خرابي اور بيماري خود بخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے۔ اگر ان اکائيوں ’’خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے۔ اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ’’گھرانہ‘‘ کہتے ہيں۔ ہر گھر اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے۔ جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقيناًصحيح و سالم ہو گا۔

اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ

اگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہو جائيں، مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں، آپس ميں خوش رفتاري، اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اور اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہترصورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوجائے گا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہو تو وہ ايسے معاشروں کي باآساني اصلاح کر سکتا ہے۔ ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آ جائيں وہ بھي معاشرے کي اصلاح نہيں کر سکتے۔
١ سورہ ابراہيم کي آيت ٢٤ کي طرف اشارہ ہے کہ ارشاد رب العزت ہے : ’’اللہ تعاليٰ نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کي ہے جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان ميں پھيلي ہوئي ہوں اور اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل بھي لے کر آتا ہے‘‘۔
ہر وہ ملک کہ جس ميں گھرانے کي بنياديں مضبوط ہوں تو اس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً معنوي اور اخلاقي مشکلات اس مستحکم اور صحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہو جائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي۔ يہ بندھن اور ملاپ اور زندگي کا نيا روپ دراصل خداوند عالم کي بڑي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور اُس کے اسرارِ خلقت ميں سے يک سرّ ہے۔ اسي طرح معاشروں کي صحت و سلامتي اور اصلاح و بہتري نيز ان کے بقا اور دوام کا دارو مدار اسي ازدواجي زندگي پر ہے۔
اگر ايک گھرانہ صحيح صورت ميں تشکيل پائے اور منطقي، عقلي اور اخلاقي اصول دونوں مياں بيوي پر حاکم ہوں اور وہ گھر، خدا او ر شريعت مقدسہ کے معيّن شدہ اصولوں کے مطابق چلے تو يہ گھرانہ اصلاح معاشرہ کي بنياد قرار پائے گا نيز اس معاشرے کے تمام افراد کي سعادت کي بنياد بھي يہي گھر بنے گا۔
گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں، حالاتِ زمانہ ان کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرہ اچھي طرح اصلاح پا سکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد پا سکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں۔

اچھے گھرانے سے محروم معاشرہ نفسياتي بيماريوں کا مرکز ہے

اچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا۔ ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد آساني سے حاصل نہيں ہو پاتے يا اس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا ان کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں۔ ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پا سکتے۔
صحيح و سالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں، نہ نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے۔ جب کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوي بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کا بھي فقدان ہو گا اور گذشتہ نسل کے اچھے اور قيمتي تجربات بھي اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہو سکتے ہيں۔ جب ايک معاشرے ميں اچھا گھرانہ موجود نہ ہو تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے والا کوئي مرکز موجود نہيں ہے۔
ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا کم ہيں يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيں تو وہ فنا اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں۔ ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار ان معاشروں سے زيادہ ہيں کہ جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيںاور مرد و عورت گھرانے جيسے ايک مظبوط مرکز سے متصل ہيں۔

غير محفوظ نسليں

انساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر و قيمت کا حامل ہے۔ آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي، فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کے لئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور تعليم و تربيت کے ميدان ميں نہ ہي کوئي چيز بھي گھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے۔ جب خانداني نظامِ زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کے لئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق وجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي بھي نعم البدل نہيں ہوسکتا۔
’’گھرانہ‘‘ ايک امن و امان کي داوي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اور والدين اس پر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي، فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے ان کي پرورش اور رُشد کا انتظام کر سکتے ہيں۔ ليکن جب خانداني نظام ہي کي بنياديں کمزورپڑ جائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہو جاتي ہيں۔
انسان، تربيت، ہدايت اور کمال و ترقي کے لئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول ميں ہي حاصل کئے جا سکتے ہيں۔ ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچيں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ايسے ماحول کا وجود لازمي ہے کہ جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور ايک انسان اپنے بچپنے سے ہي صحيح تعليم، مددگار نفسياتي ماحول اور دو فطري معلّموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالَمِ دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں۔
اگر معاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہو تو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہو جائيں گے اور اس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا۔ يہي وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پُر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت، بے عيب پرورش اور نفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشو و نما تک نہيں پہنچ سکتي ہے۔ انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اسي وقت کامل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے۔ ايک مناسب اور اچھے نظام زندگي کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات ١ سے سرشار ہوں گے۔
ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوتي ہے۔ ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين کہ جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد کہ جو اس معاشرے کي آنے والي نسل ہے۔

اچھے گھرانے کي خوبياں

ايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پُر خلوص جذبات و احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو کہ ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں، ايک دوسرے کي فعاليت، کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کے آرام و سکون اور بہتري و بھلائي کو مدّنظر رکھيں۔ يہ سب پہلے درجے پر ہيں۔
١ ماہرين نفسيات اس بات کے قائل ہيں اور ہماري احاديث و روايات بھي اس مطلب پر تاکيد کرتي ہيں کہ گھر ميں والدين کا اپني اولاد سے ہمدردي، محبت، شفقت اور مہرباني و پيار سے پيش آنا بچوں کي تربيت اور ان کي نشو و نما ميں بہت زيادہ موثر ہے۔ والدين کا خشک رويہ بچوں سے مہرباني، ہمدردي، اور پيار و محبت کو سلب کر لے گا اور وہ بچے سخت مزاج، ناقص اور نا ہموار طبيعت کے مالک ہوں گے۔ (مترجم)
دوسرے درجے پر اس گھرانے ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کے لئے وہ احساس ذمّہ داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے انہيں صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں۔ ان کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ ان کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے سلامتي اور بہتري تک پہنچیں، انہيں بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودّب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو برے کاموں کي طرف قدم بڑھانے سے روکيں اور بہترين صفات سے ان کي روح کو مزيّن کريں۔ ايک ايسا گھر دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کر سکتا ہے۔ چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي اچھي تربيت پاتے ہيں اور بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں۔ جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استقلال، فکري آزادي، احساس ذمہ داري، پيار و محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي و نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو گا تو وہ کبھي بد بختي و روسياہي کے شکل نہيں ديکھے گا۔

اچھے خانداني نظام ميں ثقافت کي منتقلي کي آساني

ايک معاشرے ميں اس کي تہذيب و تمدّن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے۔
رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے۔ اس کا سبب بھي يہي ہے کہ اگر ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپني تاريخي اور ثقافتي خزانوں اورورثہ کو بخوبي احسن اگلي نسلوںں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے۔ چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جن ميں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل پيش آتے ہيں۔
اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہش مند ہے کہ وہ اپنے ذہني اور فکري ارتقائ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں کو منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معنيٰ ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام زندگي کے ذريعے ہي ممکن ہے۔ گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اور تاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے۔ يہ والدين ہي ہيں کہ جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنّع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات، عقائد اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں۔

خوشحال گھرانہ اور مطمئن افراد

اسلام ’’گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتاہے اور گھرانے پر اس کي نظر خاص الخاص اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہيں کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے۔ اسي لئے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار ديا گيا ہے۔
اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت، دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے انس و الفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اسے روحاني سکون نصيب ہو۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ ميں خوشحال گھرانہ اور اسي ليے اسلام اس مرکز ’’گھرانے‘‘ کو اس قدر اہميت ديتا ہے۔
قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد و عورت کي تخليق، ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريکِ حيات بننے کو مياں بيوي کے لئے ايک دوسرے کے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے۔
قرآن ميں ارشاد ِ خداوندي ہے کہ ’’وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ ١
----------

١ سورہ اعراف ١٨٩
جنسی اخلاق کا اسلام اور مغرب میں تصور- مصنف: شھید مرتضی مطھری
جنسی اخلاق دراصل عام اخلاق ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ ان انسانی عادات‘ جذبات اور رجحانات پر مشتمل ہوتا ہے جن کا تعلق جنسی خواہشات سے ہو۔
عورت کا مرد سے شرمانا‘ مرد کی غیرت‘ بیوی کی شوہر سے وفاداری اور عزت و ناموس کی حفاظت‘ مخصوص اعضاء کا ستر‘ غیر محرموں سے عورت کا بدن چھپانا‘ زنا کی ممانعت‘ غیر عورتوں سے لمس اور نظربازی کے ذریعے لذت حاصل کرنے کی ممانعت‘ محرموں سے شادی پر پابندی‘ ماہواری کے دنوں میں بیوی سے ہمبستری پر پابندی‘ فحش تصاویر کو شائع نہ کرنا‘ تجرد مقدس ہے یا ناپاک‘ یہ تمام مسائل جنسی اخلاق و عادات کا حصہ ہیں۔

ویل ڈیورنٹ کا نظریہ
جنسی اخلاق کا تعلق چونکہ انسانی اخلاق سے ہے اور اس میں (اثرانداز ہونے کی) غیر معمولی طاقت بھی موجود ہے‘ لہٰذا وہ ہمیشہ سے اخلاق کا بہترین حصہ شمار ہوتا چلا آ رہا ہے‘ ویل ڈیورنٹ لکھتا ہے:
"جنسی تعلقات کی نگہداشت ہمیشہ سے اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی رہی ہے‘ کیونکہ محض تولید نسل کی خواہش نہ صرف شادی کے دوران میں بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف اس خواہش میں شدت و حدت سے اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں قانون شکنی اور فطری طریقے سے انحراف سے سماجی اداروں میں بدنظمی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔"(تاریخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۶۹)

جنسی اخلاق کا سرچشمہ
یہاں سے ابتدائی طور پر جو علمی اور فلسفی بحث چل نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ جنسی اخلاق کا سرچشمہ کیا ہے؟ عورت میں حیاء اور عفت کی خصوصیات کس طرح پیدا ہوتی ہیں؟ مرد اپنی عورت کے معاملے میں اتنا غیرت مند کیوں ہے؟ کیا یہ غیرت دوسرے لفظوں میں وہی "حسد" تو نہیں جس کی انسان مذمت کرتا ہے اور استثنائی طور پر صرف اپنی بیوی کے معاملے میں اس جذبے کو قابل تعریف سمجھتا ہے یا یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے؟ اگر وہی "حسد" ہے تو اسے مستثنیٰ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اگر یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے تو اس کی کیا توجیہہ ہو گی؟ اسی طرح عورت کے ستر کھولنے‘ فحاشی‘ محارم سے شادی کرنے وغیرہ کو کیوں برا سمجھا گیا ہے؟ کیا ان سب کا سرچشمہ خود فطرت اور طبیعت ہے؟ کیا فطرت اور طبیعت نے اپنے مقاصد کے حصول اور انسانی زندگی کو منظم کرنے کے لئے‘ جو کہ فطرتاً معاشرتی زندگی ہے‘ انسان میں مذکورہ بالا جذبات اور احساسات پیدا کئے؟ یا اس کے دوسرے اسباب ہیں‘ یعنی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ جذبات انسانی روح پر اثرانداز ہوتے رہے اور بتدریج انسانی اخلاق اور ضمیر کا حصہ بن گئے؟
اگر جنسی اخلاق کا سرچشمہ طبیعت اور فطرت ہے تو موجودہ دور میں قدیم اور وحشی قبائل‘ جن کا طرز زندگی ہنوز سابقہ اقوام کی طرح ہے‘ کیوں ان خصوصیات سے بے بہرہ ہیں؟ جو کم از کم ایک مہذب انسان میں پائی ہیں۔ بہرحال اس کا سرچشمہ اور مقصد کوئی بھی ہو اور انسانیت کا ماضی کچھ بھی رہا ہو‘ ہمیں اس پر شک کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انسان جنسی رویے کے بارے میں کونسا راستہ اختیار کرے جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے؟
کیا قدیم جنسی نظام اخلاق ہی برقرار رکھا جائے یا اسے فرسودہ سمجھ کر اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جائے؟
ویل ڈیورنٹ اگرچہ اخلاق کی بنیاد فطرت کی بجائے ان واقعات پر رکھتا ہے جو تلخ‘ ناگوار اور ظالمانہ رہے ہیں‘ تاہم اسے دعویٰ ہے کہ اگرچہ قدیم جنسی اخلاقی نظام میں قباحتیں موجود ہیں لیکن چونکہ وہ راہ تکمیل میں مناسب تر انتخاب کا مظہر ہے‘ لہٰذا بہتر ہے اس کی حفاظت کی جائے۔
ویل ڈیورنٹ بکارت کے احترام اور شرم و حیاء کے احساس کے بارے میں لکھتا ہے:
"قدیم سماجی عادات و اطوار اس انسانی مزاج کا آئینہ دار ہیں‘ جو ان میں کئی صدیاں گزر جانے اور بے شمار غلطیاں کرنے کے بعد پیدا ہوئے‘ لہٰذا کہنا پڑے گا کہ اگرچہ بکارت کے احترام اور حیاء کا جذبہ نسبی امور ہیں اور شادی کے ذریعے عورت کو خرید لینے سے متعلق ہیں اور اعصابی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں‘ تاہم ان کے کچھ سماجی فوائد بھی ہیں۔ ان عوامل کا شمار جنسیت کی بقاء کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہوتا ہے۔"(تاریخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۸۴)
فرائیڈ اور اور اس کے شاگردوں کا نظریہ (ویل ڈیورنٹ سے) مختلف ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنسی معاملات میں قدیم اخلاقی نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جانا چاہئے۔ فرائیڈ اور اس کے ہم نواؤں کے خیال میں قدیم جنسی اخلاق کی بنیاد "محدودیت" اور "ممانعت" پر رکھی گئی ہے۔ آج انسان کو جن پریشان کن مسائل کا سامنا ہے وہ اسی ممانعت‘ محرومیت اور خوف کے لامتناہی سلسلے سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ وحشتیں ان مسائل کو مزید الجھا دیتی ہیں جو ان پابندیوں کے باعث انسانی ضمیر پر مسلط ہو چکی ہیں۔

رسل کا نظریہ
رسل نے جدید اخلاق کا جو تصور دیا ہے اس کی بنیاد بھی مذکورہ دلائل ہی پر ہے‘ وہ بزعم خود اس جنسی اخلاق کے فلسفہ کا دفاع کرتا ہے جس میں شرم‘ عفت‘ تقویٰ‘ عزت (لیکن بقول رسل "حسد") وغیرہ احساسات کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا‘ انہیں وہ "تابو" کہتا ہے۔
برائی اور رسوائی کا تاثر اور مفہوم دینے والے اعمال کی وہاں کوئی جگہ نہیں‘ وہاں محض عقل و فکر پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ رسل جنسی محدودیت کا صرف اسی حد تک قائل ہے جس قدر بعض غذائی پرہیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تابو (ممنوع و مقدس) اخلاق کے بارے میں ایک سوال:
"کیا آپ ان لوگوں کو کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے جو جنسی مسائل کے بارے میں کوئی صحیح اور دانشمندانہ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟"
کے جواب میں کہتا ہے:
"اب جنسی اخلاق کے مسئلے پر بھی دوسرے مسائل کی طرح بحث و تمحیص کی ضرورت ہے‘ اگر کسی فعل کے ارتکاب سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچتا تو ہمارے پاس کوئی جواز نہیں کہ ہم اس کے ارتکاب کی مذمت کریں۔"(جہانی کہ من می شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)

ایک دوسرے سوال:
"آپ (رسل) کے نظریے کے مطابق آبرو پر حملے کی مذمت کرنی چاہئے‘ لیکن آپ عصمت کے منافی ان افعال کی مذمت نہیں کرتے جو چنداں نقصان دہ نہ ہوں؟"
کے جواب میں رسل کہتا ہے:
"ہاں ایسی ہی ہے‘ ازالہ بکارت افراد کے درمیان ایک (قسم کا) جسمانی تجاوز ہے‘ لیکن اگر ہم عصمت کے منافی مسائل سے دوچار ہوں تو ہمیں موقع و محل کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسے حساس وقت پر کیا ہمارے پاس مخالفت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں یا نہیں؟"(جہان کہ من می شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)
ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے کہ حیاء وغیرہ قسم کے جذبات جنہیں آج جنسی اخلاق کا نام دیا جاتا ہے‘ فطری ہیں یا غیر فطری؟ کیونکہ یہ ایک مفصل بحث ہے‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ خیال نہ کیا جائے کہ علوم نے واقعی اتنی ترقی کر لی ہے کہ ان جذبات کے سرچشمے کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ اس موضوع پر جو کچھ کہا گیا ہے وہ محض مفروضات ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان مفروضات کو تراشنے والوں کے نظریات میں بھی یکسانیت موجود نہیں ہے‘ مثلاً فرائیڈ کے ہاں حیاء پیدا ہونے کا جو سبب ہے وہ رسل کے ہاں نہیں ہے‘ جبکہ ویل ڈیورنٹ کوئی دوسرا مقصد بتاتا ہے‘ ہم طوالت کے خوف سے ان اختلاف اور تضادات کا ذکر نہیں کرتے۔ ان احساسات کو غیر طبیعی ثابت کرنے کے لئے مذکورہ فلاسفہ کا رجحان ہی دراصل ان احساسات کی صحیح تشریح میں ناکامی کا سبب ہے۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ احساسات کسی طرح بھی فطری نہیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ فرد اور معاشرے کی اصلاح اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے جذبے سے دوسرے امور کی طرح ان کے متعلق بھی کوئی رائے قائم کریں‘ لہٰذا اس بارے میں عقل و منطق کیا حکم عائد کرتی ہے؟ کیا عقل یہ بات قبول کرتی ہے کہ مکمل روحانی سکون اور معاشرتی خوشحالی حاصل کرنے کے لئے تمام حدیں پھلانگ جانی چاہئیں اور سب سماجی پابندیاں اٹھا لینی چاہئیں؟ عقل اور منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ جنسی تعلقات کو فحش قرار دینے والی خرافات اور روایات کے خلاف جنگ لڑی جائے اور آزادی و آزادانہ پرورش کے نام پر (جنسی) خواہش کے لئے پریشان کن‘ گناہ آلود اور ہیجان انگیز سامان فراہم نہ کیا جائے۔

جدید جنسی اخلاق کے حامیوں کے نظریات
جدید جنسی اخلاق کے علمبرداروں کے نظریات مندرجہ ذیل تین اصولوں پر مبنی ہیں:
۱۔ ہر فرد کی آزادی اس حد تک ضرور محفوظ رہنی چاہئے جہاں تک وہ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو۔
۲۔ انسان کی خوشحالی کا راز اس میں موجود تمام صلاحیتو ں اور جذبوں کی پرورش میں پنہاں ہے‘ اگر وہ صلاحیتیں اور جذبات سبوتاژ ہو جائیں تو خود پرستی اور اس قسم کی دیگر (نفسیاتی) بیماریاں عود کر آتی ہیں۔ جب خواہشات میں رد و بدل ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران میں وہ درہم برہم ہو جاتی ہیں‘ یعنی بعض خواہشات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور بعض تشنہ رہ جاتی ہیں‘ لہٰذا خوشحال زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی تمام صلاحیتوں اور خواہشات کی یکساں طور پر پرورش ہو۔
۳۔ قناعت اور سیری سے اشیاء کی طرف انسانی رغبت کم ہوتی ہے‘ جبکہ ممانعت سے یہ رغبت بڑھتی ہے۔ جنسی مسائل اور ان کے ناخوشگوار نتائج سے مکمل طور پر انسانی توجہ ہٹانے کے لئے واحد صحیح راستہ یہی ہے کہ تمام (جنسی) پابندیاں اٹھا لی جائیں اور انسان کو آزادی دے دی جائے‘ کیونکہ فتنہ پھیلانا‘ کینہ رکھنا اور انتقام لینا بگڑے ہوئے جنسی اخلاق کی علامتیں ہیں۔
نئے جنسی نظام اخلاق کی بنیاد مذکورہ تینوں اصولوں پر رکھی گئی ہے‘ ہم آگے چل کر ان پر سیر حاصل بحث کریں گے۔

نئے جنسی اخلاق کا تنقیدی جائزہ
قدیم جنسی اخلاق کے بارے میں جدید اخلاقی نظام کے حامیوں کے نظریات اور جنسی اخلاق کی اصلاح کے لئے تجاویز کا ذکر کئے بغیر مذکورہ اصولوں پر بحث کرنا چنداں مفید نہ ہو گا۔
محدود معلومات رکھنے والے لوگ ممکن ہے بحث کے ہمارے موجودہ طریقے کو غیر ضروری اور غیر مفید سمجھیں‘ لیکن ہمارے خیال میں موجودہ معاشرے میں اس قسم کے مسائل پر بحث کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف نامور فلاسفہ اور مفکرین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں‘ بلکہ نوجوانوں کی محفلوں میں بھی زیرموضوع رہے ہیں۔ اکثر نوجوان جن کی فکری صلاحیتیں محدود ہیں اور وہ زیربحث مسائل کا منطقی تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ ممکن ہے ان افکار کو پیش کرنے والے فلاسفہ کی شہرت اور شخصیت سے مرعوب ہو کر انہیں سو فیصد درست اور منطقی سمجھ بیٹھیں۔
لہٰذا قارئین کو اس پس منظر سے پوری طرح آگاہ کرنا ضروری ہے کہ جنسی افکار کا جو سیلاب مغرب سے آیا ہے اور ہمارے نوجوان ان افکار کی صرف ابجد سے واقف ہوئے ہیں اور "آزادی" اور "مساوات" کے خوش نما نعروں سے متاثر ہو کر انہیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں‘ کہاں جا کر رکے گا؟ کب ختم ہو گا؟ کیا انسانی معاشرہ اس طوفان میں اپنا سفری جاری رکھ سکے گا یا یہ آدمی کے قد سے بڑا لباس ہے؟ یہ راستہ انسانی تباہی پر تو ختم نہیں ہو گا؟
اس کشمکش میں (چاہے اختصار کے ساتھ) ان مسائل پر بحث کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
جنسی اخلاق کی اصلاح کے مدعی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قدیم جنسی اخلاق کے جو اسباب اور سرچشمے تھے وہ اب کلی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا ختم ہو رہے ہیں‘ لہٰذا اب جبکہ وہ حالات و اسباب ہی موجود نہیں تو کیوں نہ اس اخلاقی نظام کو بھی خیرباد کہہ دیا جائے جس میں خشکی اور سختی کے سوا کچھ نہیں۔
اس اخلاق کی تخلیق کے باعث ان امور کے علاوہ بعض ایسے جاہلانہ اور ظالمانہ واقعات بھی موجود ہیں جو انسان کی ذاتی حیثیت‘ مساوات اور آزادی کے منافی ہیں‘ لہٰذا انسانیت اور مساوات کی خاطر بھی ایسے اخلاقی نظام کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مدعی قدیم جنسی اخلاق پیدا ہونے کے جو اسباب گنواتے ہیں‘ یہ ہیں:
"مرد کی عورت پر حاکمیت‘ مردوں کا حسد‘ اپنے باپ ہونے کا اطمینان حاصل کرنے کے لئے مرد کی کوششیں‘(یعنی ایک مرد کی بیوی سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے‘ اس کے بارے میں شوہر کو یہ اطمینان ہو کہ وہی اس کا باپ ہے۔مترجم) جنسی رابطے کے ذاتاً فحش ہونے کے بارے میں راہبانہ اور مرتاضانہ نظریات‘ ماہواری کی وجہ سے عورت کو اپنی ناپاکی کا احساس اور اس مدت میں مرد کی عورت سے کنارہ کشی‘ انسانی تاریخ میں مرد کی طرف سے عورت کو پہنچنے والی ایذائیں اور آخرکار وہ معاشی اسباب جو عورت کو ہمیشہ سے مرد کا دست نگر بنائے رکھے ہیں۔"
جیسا کہ ظاہر ہے یہ عوامل ظلم و ستم یا خرافات کا نتیجہ ہیں‘ چونکہ پہلے پہل زندگی محدود تھی‘ لہٰذا اس ماحول میں ایسے افکار قبول کر لئے جاتے تھے لیکن اب مرد کی عورت پر حاکمیت ختم ہو چکی ہے۔ جدید طب کی ایجاد کردہ مانع حمل ادویہ سے پدری اطمینان حاصل کر لیا جاتا ہے‘ لہٰذا اب ضروری نہیں رہا کہ قدیم وحشیانہ طریقہ ہی اپنایا جائے‘ اب راہبانہ اور مرتاضانہ عقائد دم توڑ رہے ہیں۔ ماہواری کی وجہ سے عورت کو اپنی نجاست کا جو احساس ہوتا ہے اسے (طبی) معلومات بڑھا لینے سے ختم کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ یہ معمول کا ایک جسمانی عمل ہے۔ ایذا رسانی کا دور بھی ختم ہو گیا‘ جو معاشی اسباب عورت کو غلام بنائے ہوئے تھے اب ان کا بھی کوئی وجود نہیں رہا اور آج کی عورت نے اپنا معاسی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت بتدریج اپنے (سماجی) اداروں کو وسعت دے رہی ہے جو عورت کو دورانِ حمل‘ وضع حمل اور دودھ پلانے کے دنوں میں اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور اسے مرد سے بے نیاز کرتے ہیں‘ اس طرح دراصل باپ کی جگہ خود حکومت لے لیتی ہے۔ حسد کو اخلاقی ورزشوں سے ختم کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا ان تبدیلیوں کے ہوتے ہوئے قدیم اخلاقی نظام پر پابند رہنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
یہ وہ اعتراضات ہیں جو قدیم جنسی اخلاق پر کئے جاتے ہیں اور انہی دلائل کی موجودگی میں جنسی اخلاق کی اصلاح کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

 

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال "" حُسن خلق ""ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظیم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ""حُسن خلق"" كے اعلى درجہ پر فائز ہو سكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كر رہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :
""كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے ؟ صحابہ نے عرض كى : ""اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_"" تو آپ (ص) نے فرمايا :
""جس كا اخلاق بہت اچھا ہے""_1
آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:
""خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے " ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے""_2
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
""خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :
""خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلا ديتا ہے""_3
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:
""بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے""_4

3)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ""اخلاق حسنہ"" كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں " اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:

1_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نو سال تك خدمت كى "ليكن اس طويل عرصے ميں حضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ""تم نے ايسا كيوں كيا؟"" _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالت مآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:
""اسے كوئي چيز دے دو""_
چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:
""انّك لَعلى خُلق: عظيم"" 5
""بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں""_

2_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا " ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:
""آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں""_
امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:
""و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ""6
""جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے""_
ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا :
كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_
جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :
""ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں " اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے" اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے""_
اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا " امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :""ميں نے جو كچھ كہا " غلط كہا" بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں"ہاں " ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ""_7

حوالہ جات:

1_ اصول كافى (مترجم ) ج2، ص 84يا تحف العقول ص48
2_ تُحف العقول ، ص28
3_ تحف العقول _ ص 28_ بحارالانوار ج 71، ص 383
4_ وسائل الشيعہ ج8، ص 56_ تحف العقول ص 48
5_منتہى الآمال، ج ا ، ص 31_ سورہ قلم ، آيت 4
6 _ سورہ آل عمران آيت 134
7_منتہى الآمال، ج3 ، ص 5_ مطبوعہ انتشارات جاويدان