Print this page

الغدیر اور اسلامی اتحاد

Rate this item
(0 votes)
الغدیر اور اسلامی اتحاد

ہمارے زمانے کے مصلحین اور روشن فکر دانشوراسلامی فرقوں کے اتحاد ویکجہتی کو ملت اسلامیہ کی بنیادی ترین ضرورتوں میں شمارکرتے ہیں بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ دشمن چاروں طرف سے اسلام ومسلمین پر حملے کررہا ہے اور مختلف وسائل و ذرایع استعمال کرکے مسلمانوں کے درمیان پرانے اختلافات کو دوبارہ ھوادیکر نۓ طریقوں سے ان کو تفرقہ و تشتت میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے بنیادی طور پر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ شارع مقدس اسلام نے اتحاد کو نہایت اھمیت دی ہے اور اتحاد کو اسلام کے اھم ترین مقاصد میں شامل کیا ہے اس امر کی گواہی قرآن و سنت بھی دے رہے ہیں بنابریں بعض لوگوں کے ذھن میں یہ سوال آسکتاہے کہ “الغدیر”جیسی کتاب کی اشاعت کہ جس کا موضوع مسلمانوں کا بنیادی اختلافی مسئلہ ہے کیا اسلامی اتحاد جیسے مقدس و اعلی ھدف میں رکاوٹ نہیں ہے؟ اس سوال کا واضح واطمئنان بخش جواب دینے کے لۓ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلامی اتحاد کا مفہوم کیا ہےاور اس کی حدود کہاں تک ہیں اسکے بعد ہم گرانقدر کتاب الغدیر اور اس کے جلیل القدر مصنف علامہ امینی رضوان اللہ علیہ کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔

 
اسلامی اتحاد :-

اسلامی اتحاد سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اسلامی مذاھب میں ایک کا انتخاب کیا جاۓ اور دیگر مذاھب کو کنارےلگادیا جاۓ ،یا یہ مراد ہے کہ تمام مذاھب کے اشتراکات کو لیکر مفترقات کو مسترد کردیا جاے اورایک نیا مذھب بنایا جاے کہ اس طرح سارے مذاھب کالعدم ہوجائیں ؟یا اتحاد اسلامی سے مراد مذاھب کا اتحاد نہیں بلکہ مسلمانوں کا اتحاد ہے ؟وہ اس طرح سے کہ اسلامی مذاھب کے پیرو اپنے اختلافات کو ہاتھ لگاے بغیر مشترکہ دشمن کے مقابل متحد ہوجائیں۔
اسلامی اتحاد کے مخالف اتحاد کو غیر منطقی اور غلط معنی میں پیش کرکے کہتے ہیں کہ اتحاد سے مراد مذاھب کا اتحاد ہے تاکہ پہلے ہی مرحلے میں وہ شکست سے دوچار ہوجاے۔
صاف روشن ہے کہ علماء اور روشن فکراسلامی دانشوروں کے نزدیک اتحاد یہ نہیں ہے کہ تمام مذاھب کو ملاکر ایک کردیا جاے یاتمام مذاھب کے مشترکات کو لےلیا جاے یا ان کے مفترقات کو ترک کردیا جاے کیونکہ یہ نہ معقول ہے نہ منطقی بلکہ ان لوگوں کے کہنے کا یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لۓ متحد اور ایک ہوجانا چاہیے ۔
مسلمان علماء اور دنشوروں کا کہنا ہےکہ مسلمانوں کے پاس اتحاد کے بہت سے اسباب ہیں جو مسلمانوں کے اتحاد کا باعث بن سکتے ہیں سارے مسلمانان ایک خدا ،ایک رسول پر ایمان رکھتے ہیں سارے مسلمانوں کی ایک کتاب ہے یعنی قرآن کریم ،اور سب کا قبلہ بھی ایک ہی ہے سارے مسلمان ایک ساتھ ایک دن اور ایک ہی جگہ پر حج بجالاتے ہیں ان کی عبادات و معاملات کے احکام ایک جیسے ہیں کچھ جزئی امور میں اختلاف کے علاوہ ان کے مابین اختلاف نہیں ہے مسلمان ایک ہی نظریہ کائینات رکھتے ہیں ان کی ایک ہی تہذیب و تمدن ہے اور سب اس عظیم تہذیب و تمدن میں برابر کے شریک ہیں ۔
ان تمام امور میں اتحاد مسلمانوں کو امت واحدہ میں تبدیل کرسکتاہے اوروہ ایسی عظیم طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں جس کے سامنے دنیا کی تمام طاقتیں جھکنے کو مجبور ہوجائیں گی ۔
قرآن کریم نے اتحاد پر بے حد زور دیا ہے قرآن کے صریحی حکم کے مطابق مسلمان بھائی بھائی ہیں اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں انہیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہیں تاہم مسلمان ہرطرح کے وسائل وذرایع کے مالک ہونے کے باوجود ان سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟
علماء کی نظر میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان اتحاد کے لۓ اپنے مذھب کے اصول و فروع پر کسی طرح کا سمجھوتہ کریں اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہےکہ اپنے اصولی اور فروعی اختلافات کے سلسلے میں بحث واستدلال اور تحقیقات نہ کریں بلکہ اتحاد کے لۓ جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ ہےکہ مسلمان یہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے کے جذبات مجروح نہ ہوں ،ایک دوسرے کو برابھلا نہ کہیں ،ایک دوسرے پر تہمت وبہتان نہ لگائیں اور کم ازکم ان اصولوں کی پابندی کریں جو اسلام نے غیر مسلمانوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے وضع کۓ تھے ۔
اتحاد کے بارے میں بعض لوگ یہ منفی سوچ رکھتے ہیں کہ جو مذاھب صرف فروع میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے شافعی اور حنفی وہ آپس میں ایک ہوسکتے ہیں لیکن جو مذاھب اصول میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ان کے مابین اتحاد ممکن نہیں ہے ،اس فکر کے حامل لوگوں کا کہنا ہےکہ اصول مذھب بہم پیوستہ تعلیمات کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک اصل پرلچک دکھانے سے گویا سارے اصول ناکارہ ہوجاتے ہیں ۔
علماءو دانشور ان لوگوں کویہ جواب دیتے ہیں کہ ضروری نہیں ہےکہ ہم اصول دین کو بہم پیوستہ اصولوں کا مجموعہ سمجھیں اور “یا سب یا کچھ بھی نہیں “کے اصول کی پیروی کریں بلکہ یہاں پر یہ قاعدہ لاگوکیا جاے گا کہ المیسور لایسقط بالمعسور،ومالایدرک کلہ لایترک کلہ یعنی ناممکن امر کی بناپر ممکن امر کو ترک نہیں کیا جاسکتاہے اور جس چیزکو مکمل طرح سے درک(حاصل ) نہیں کیاجاسکتا اسے مکمل طرح سے چھوڑابھی نہیں جاسکتا ۔
اس سلسلے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت ہمارے لۓبہترین نمونہ عمل ہے آپ نے مسلمانوں کو تفرقہ و تشتت سے بچانے کے لۓ ایسا بے مثال منطقی اور معقول موقف اپنایا تھا جو آپ کی عظیم شخصیت کے شایان شان تھا،آپ نے اپنے حق کی بازیابی کے لۓ اپنی طاقت بھر کوشش کی امامت کے احیاء کے لۓ کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن کبھی بھی “یا سب یا کچھ نہیں “کے اصول پر عمل نہیں کیا بلکہ برعکس مالایدرک کلہ لایترک کلہ کے اصول کو اپنی روش کی بنیاد قراردیا۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے حق کے غاصبوں کے خلاف قیام نہیں کیا اور آپ کا قیام نہ کرنا مجبوری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ آپنے سوچ سمجھ کر یہ موقف اختیار کیا تھا،آپ موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ شہادت آپ کی دیرینہ آرزو تھی اور آپ نے فرمایا ہے کہ آپ موت سے اس طرح مانوس تھے جس طرح بچہ اپنی ماں کے دودھ سے مانوس ہوتاہے ،حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ان حالات میں ترک قیام بلکہ تعاون ضروری ہے آپ نے متعدد مرتبہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے ،مالک اشتر کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ فامسکت یدی حتی رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام و اھلہ یدعون الی محق دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ فخشیت ان لم انصر الاسلام و اھلہ اری فیہ ثلمااوھدما تکون المصیبۃ بہ علی اعظم من فوت ولایتکم التی انما ھی متاع ایام قلائل “ان حالات میں میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھایہانتک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مٹاڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوۓ میں اسلام ومسلمین کی مدد نہ کرونگا تو یہ میرے لۓ تمہاری خلافت کے ہاتھ سے چلے جانے سے بڑی مصیبت ہوگی جوکہ چند دنوں کا اثاثہ ہے”۔
چھ افراد پر مشتمل شوری میں عثمان کے خلیفہ چنے جانے کے بعد آپ نے شوری کو مخاطب کرکے کہا کہ لقد علمتم انی احق الناس بھامن غیری واللہ لاسلمن ماسلمت امور المسلمین ولم یکن فیھا جورالاعلی خاصۃ (خطبۃ 72 )”تم جانتے ہوکہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتاہے خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امورکا نظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتارہونگا تاکہ (اس صبرپر)اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب وزینت و آرائیش کو ٹھکرادوں جس پر تم مرمٹے ہو”۔
ان امور سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے کبھی بھی یا سب کچھ یا کچھ نہیں کے اصول پر عمل نہیں کیا بلکہ اس طرزفکر کو مسترد کیا یہاں اس مختصر مقالے میں اتحاد قائم رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام کےاقدامات کااحصاء نہیں کیاجاسکتا آپ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں ان امور کا تفصیل سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔

 

 
علامہ امینی

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علامہ امینی کتاب الغدیر کے مولف کی سوچ کیا ہے اور کیا وہ صرف تشیع میں اتحاد کو منحصر سمجھتے ہیں یا یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلامی اتحاد کا دائرہ وسیع تر ہے اور کلمہ شہادتین کی ادائیگی کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق بن جاتے ہیں اور قرآن کے مطابق ان کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم ہوجاتاہے۔
علامہ امینی نے اتحاد کے بارے میں اپنے نظریات متعدد مرتبہ بیان کۓ ہیں اور یہ بھی واضح الفاظ میں بیان کردیا ہےکہ الغدیر جیسی کتاب اتحاد بین المسلمین میں مثبت کردار کی حامل ہے ۔
علامہ امینی نے دشمنوں کی صف یا خود اپنے حلقے میں موجود اعتراض کرنے والوں کا جواب دیتے ہوے عالم اسلام میں کتاب الغدیر کی افادیت اور مثبت کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ہمارا یہ کام خدمت دین اعلاے کلمہ حق اور امت اسلامی کو زندہ کرنے کے لۓ ہے علامہ امینی الغدیرکی تیسری جلد میں نقدواصلاح کے زیر عنوان ابن تیمیہ ،آلوسی ،اور قصیمی کی یہ افتراپردازی کہ شیعہ اھل بیت کے بعض افراد جیسے زید بن علی کو دوست نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ “اس طرح کے جھوٹے الزامات اور تہمتیں فساد کاباعث ہوتی ہیں اور امت اسلامی میں دشمنی پھیلاتی ہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہیں امت کو متشتت کردیتی ہیں اور مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہیں”
علامہ امینی الغدیر کی تیسری جلد میں سید رشید رضا کے ان الزامات کا جواب دیتے ہیں کہ شیعہ مسلمانوں کی ہرشکست سے خوش ہوتے ہیں یہانتک کہ ایران میں روس کےہاتھوں مسلمانوں کی شکست کا بھی جشن منایا گیاتھا علامہ امینی ان الزامات کا جواب دیتے ہو‌ۓ لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹے الزامات خود سید رشید رضا کی ذھنی اپچ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات عراق و ایران کے شیعہ مسلمانوں پر لگاے جاتے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں کا سفر کرنے والے سیاحوں مستشرقین اور اسلامی ممالک کےنمائندوں کو ایسی کوئی چیزنہیں دکھائی دی ،شیعہ بلااستثناء تمام مسلمانوں کے جان و مال و آبرو کو محترم سمجھتاہے اور جب بھی عالم اسلام میں کسی بھی علاقے اور کسی بھی فرقے پر براوقت پڑا ہے اھل تشیع نے ان کے ساتھ غم بانٹا ہے شیعہ نے کبھی بھی اسلامی اخوت کو جس پرقرآن و سنت نے تاکید کی ہے عالم تشیع میں محدود نہیں سمجھا ہے اور اتحاد کےسلسلے میں شیعہ وسنی میں کبھی فرق نہیں کیا ہے ۔
علامہ امینی اپنی کتاب کی تیسری جلد میں قدماءکی بعض کتابوں جیسے ابن عبدربہ کی عقد الفرید ،ابوالحسین خیاط معتزلی کی الانتصار ،ابومنصوربغدادی کی الفرق بین الفرق ،محمد بن عبدالکریم شہرستانی کی الملل والنحل ،ابن تیمیہ کی منھاج السنۃ ،ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ اور بعض متاخرین کی کچھ کتابیں جیسے شیخ محمد خضری کی الامم الاسلامیہ ،احمد امین کی فجرالاسلام ،محمد ثابت مصری کی الجولۃ فی ربوع الشرق الادنی ،قصیمی کی الصراع بین الاسلام والوثنیہ والشیعہ وغیرہ پر تنقید کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ ان کتابوں پر تنقید کرنے سے ہماراھدف یہ ہے کہ ہم عالم اسلام کو خبردار کریں مسلمانوں کو بیدار کریں کہ یہ کتابیں عالم اسلام کے لۓ شدید ترین خطرات کاباعث ہیں کیونکہ اسلامی اتحاد کونشانہ بنایا ہواہے ان سے مسلمانوں کی صفوف میں شگاف پڑجائیں گے ان کتابوں کی طرح سے کوئی اور شی مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچاتی اور ان کے رشتہ اخوت کو پارہ نہیں کرتی ۔
علامہ امینی نے اپنی گرنقدر کتاب کی پانچویں جلد میں نظریۃ کریمہ کی زیرعنوان مصر کے ایک مصنف کے تعریفی خط کا جواب دیا ہے جس سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہےکہ آپ اتحاد بین المسلمین کے بڑے حامیوں میں سے تھے علامہ امینی لکھتے ہیں کہ “مذاھب کےبارے میں آراءو نظریات کا اظہار کرنا آزاد ہے اس سے رشتہ اخوت اسلامی کو کہ جس پر قرآن نے انماالمومنوں اخوہ کی مھرلگائی نقصان نہیں پہنچتا گرچہ علمی بحث ومباحثہ ،کلامی ومذھبی مجادلہ اپنے عروج ہی کوکیوں نہ پہنچاہو،وہ لکھتے ہیں اس سلسلے میں ہمارے لۓ ماسلف بالخصوص صحابہ وتابعین کی سیرت نمونہ عمل ہے۔
علامہ امینی لکھتے ہیں کہ ہم مصنفین ومولفین جو دنیا کہ گوشہ وکنار میں ہیں ہم اصول وفروع میں تمام اختلافات کے باوجودایک جامع مشترکہ قدر کےحامل ہیں اور وہ خداورسول پر ایمان جوہمارےوجود میں رچابساہے اور یہی اسلام کی روح اور کلمہ اخلاص ہے “
علامہ امینی لکھتے ہیں کہ ہم اسلامی مصنفین سب کے سب پرچم اسلام کے تحت زندگی گزاررہے ہیں اور قرآن و رسالت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں اپنافریضہ اداکررہے ہیں ہمارا پیغام یہ ہےکہ ان الدین عنداللہ الاسلام اور ہمارانعرہ یہ ہےکہ لاالہ الااللہ ومحمد رسول اللہ جی ہاں ہم حزب اللہ ہیں اور اس کے دین کےحامی ہیں ۔
علامہ امینی اپنی کتاب کی آٹھویں جلد میں “الغدیر یوحد الصفوف فی الملاء الاسلامی “کے زیر عنوان اسلامی اتحاد میں کتاب الغدیر کے کردار پرروشنی ڈالتے ہیں اس باب میں وہ ان لوگوں کے الزامات کاجواب دیتے ہیں جوغدیر کو مسلمانوں کےدرمیان تفرقہ کا سبب سمجھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ الغدیر سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتاہے اور مسلمان ایک دوسرے کےقریب آتےہیں اس کے بعد غیر شیعہ علماء کے اعترافات نقل کرتےہیں اور آخر میں شیخ محمد سعید دحدوح کا خط بھی قارئین کی سامنے پیش کرتے ہیں۔
ہم اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ اسلامی اتحاد میں الغدیر کے کردارکے بارے میں علامہ امینی کے سارے نظریات پیش کرنا ہمارے لۓ ناممکن ہے البتہ یہ بتاتے چلیں کہ الغدیر کا ترجمہ بہت سی عالمی زبانوں میں ہوچکاہے
اسلامی اتحاد میں الغدیر اس طرح مفید ثابت ہوئی ہےکہ سب سے پہلے اھل تشیع کا نقطہ نظر بیان کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہےکہ اسلام کا یہ بڑا فرقہ پروپگینڈوں کے برخلاف سیاسی نسلی اور خاندانی مسائل کی بناپر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ اھل تشیع قرآن و سنت پر استوار مستحکم نظریاتی نظام کے حامل ہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ الغدیر اس وجہ سے بھی اتحاد کےلۓ مفید ہےکہ اھل تشیع پر عائد دسیوں بےبنیاد الزامات کا مستدل جواب پیش کرتی ہے جن کو پڑہ کرمنصف مزاج لوگ یقینا اس نتیجہ پر پہنچتے ہونگے کہ الزام تراشی سے صرف اور صرف دشمنان دین کے مفادات فراہم ہوتے ہیں اور امت اسلامیہ میں تفرقہ پھیلتا ہے ،تیسری بات یہ ہےکہ الغدیر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کوجوکہ اسلام کی مظلوم ترین شخصیت ہے اور جو تمام مسلمانوں کارہبر بننے کے قابل ہے ان کی اور ان کی ذریت کی شناخت کرواتی ہے ۔

 

 
الغدیر کے بارے میں علماء اسلام کے نظریات ۔

عالم اسلام کے علماء اور دانشورجو تعصب سے مبرا ہیں الغدیر کے بارے میں وہی نظریات رکھتے ہیں جوہم نے بیان کۓ ہیں ۔
محمدعبدالغنی حسن مصری الغدیر کی پہلی جلد طبع دوم کے مقدمے پر تقریظ میں لکھتے ہیں کہ خدا آپ کی اس غدیر کو کہ جس میں صاف وشفاف پانی ہے شیعہ اور سنی بھائیوں کےدرمیان صلح ودوستی کا باعث قراردے کہ وہ متحد ہوکر امت واحدہ کی بنیاد رکھیں ۔
مصر کے الکتاب رسالے کے مدیر عادل غضبان الغدیر کی تیسری جلد کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب اھل تشیع کی منطق کوواضح کرتی ہے اور اھل سنت اس کتاب کےذریعے شیعہ فرقے کے بارے میں صحیح شناخت حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ شیعوں کی شناخت سے شیعہ سنی نظریات قریب آئیں گے اور مجموعی طور سے سب ایک صف میں آجائیں گے ۔
جامع الازھر کے شعبہ اصول دین میں فلسفہ کے استاد ڈاکٹر محمد غلاب الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمےمیں لکھتے ہیں کہ”آپکی کتاب بہت مناسب وقت میں مجھے موصول ہوئی کیونکہ میں اس وقت مسلمانوں کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اوریہ چاھتاہوں کہ اھل تشیع کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کروں آپ کی کتاب سے مجھے بڑی مدد حاصل ہوگی اور میں شیعوں کےبارے میں دوسروں کی طرح غلطیاں نہیں کرونگا ۔
ڈاکٹر عبدالرحمن کیالی حلبی الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمے میں دور حاضر میں مسلمانوں کےانحطاط کےاسباب کاذکر کرتے ہوۓ اس انحطاط سے نجات حاصل کرنے کی راہوں کی نشاندھی بھی کرتے ہیں ان میں ایک راہ وصی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شناخت کو بھی قراردیتے ہیں وہ کہتے ہیں “کتاب الغدیر اور اس کے مستدل مطالب ایسے مطالب ہیں جن سے ہرمسلمان کو آگاہ ہونا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہوکہ مورخین نے کس طرح غلطیان کی ہیں اور حقیقت کہاں ہے کیاہے ہمیں اس کتاب کے ذریعے ماضی کی تلافی کرنی چاہیے اور کوشش کرکے اتحاد قائم کرنا چاہیے تاکہ اجر وثواب کے مستحق بن سکیں ۔
جی ہاں یہ تھی علامہ امینی کی نظر اتحاد اور عالم اسلام میں الغدیر کے مفید کردار کے سلسلے میں رضوان اللہ علیہ

Read 835 times