Print this page

جناب میمونہ کی سیرت

Rate this item
(1 Vote)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب میمونہ حارث بن حزن کی بیٹی تھیں- وہ جناب عباس بن عبدالمطلب کی شریک حیات، جناب ام فضل کی بہن تھیں- جناب میمونہ کی والدہ خولہ {ھند} بنت عوف تھیں جو ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں- خولہ مکہ کی بہترین عمر رسیدہ خاتون مانی جاتی تھیں، کیونکہ اس کے داماد بہترین افراد تھے، جن میں عباس بن عبدالمطلب ، جعفر بن ابیطالب، حمزہ بن عبدالمصلب اور سر انجام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قابل ذکر ہیں-

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا، عباس بن عبدالمطلب کی بیوی لبابہ ام فضل، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ سید الشہداء کی بیوی، سلمی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچیرے بھائی جعفر بن ابیطالب کی بیوی، اسماء اور ام المومنین میمونہ وہ چار عورتیں ہیں، جنھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار با ایمان خواتین کے طور پر معرفی کیا ہے- سلمی نے بھی اپنے شوہر حمزہ کے ساتھ اسلام قبول کیا-

جناب میمونہ نے ایام جاہلیت میں اپنے شوہر مسعود بن عمرو ثقفی سے جدائی اختیار کرکے ابورہم بن عبدالعزی سے ازدواج کی اور ابو رہم کی وفات تک اس کے عقد میں تھیں-

صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد، سنہ ۷ھجری کے ماہ ذیقعدہ میں، مشرکین کے ساتھ قرار داد کے مطابق پیغمبر اسلام{ص} نے دوہزار مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ بجا لانے کے لئے مکہ مکرمہ کا تین روزہ سفر کیا- اس سفر کے دوران مسلمانوں کے قابل رشک جلال و عظمت نے مکہ کے باشندوں پر عجیب اثر ڈالا-

پیغمبر اسلام {ص} کی تشریف آوری کے بارے میں جناب میمونہ باخبر ھوئیں- وہ چاہتی تھیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ ازدواج کریں، اس لئے اس مطلب کو اپنی ہمراز بہن، ام فضل کے پاس اظہار کیا، جو جناب عباس بن عبدالمطلب کی بیوی تھیں- ام فضل نے یہ مطلب اپنے شوہر کے پاس بیان کیا-

جناب عباس پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور برہ {میمونہ} کے بارے میں بات کی، جو اک مسلمان اور مومنہ خاتون تھیں اور یہ بھی بتایا کہ برہ{ میمونہ} کے شوہر ابر رہم وفات پا چکے ہیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} سے سوال کیا کہ: آپ {ص} میمونہ سے ازدواج کرنا چاہتے ہیں؟ رسول خدا{ص} نے اس تجویز ک موافقت فرمائی اور اپنے چچیرے بھائی جناب جعفر بن ابیطالب کو خواستگاری کے لئے جناب میمونہ کے پاس بھیجا، جب جعفر ان کے پاس پہنچے اس وقت جناب میمونہ اونٹ پر سوار تھیں، اور جعفر نے رسول خدا {ص} کے لئے خواستگاری کی- میمونہ نے جواب میں کہا کہ: اونٹ اور جو کچھ اونٹ پر ہے وہ خدا اور اس کے رسول {ص} کے لئے ہے-

مکہ کے لوگوں نے سرگوشیاں کیں کہ میمونہ انتظار نہ کرسکیں اس لئے انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور پیغمبر خدا {ص} کے لئے ھبہ کیا- خداوند متعال نے لوگوں کی ان سرگوشیوں کے جواب میں مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی: " یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِی آتَیْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَیْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالاتِکَ اللَّاتِی هَاجَرْنَ مَعَکَ و َامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَنْ یَسْتَنْکِحَهَا خَالِصَةً لَکَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِی أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُمْ لِکَیْلا یَکُونَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِیماً" }الأحزاب: ۵۰.}

"اے پیغمبر، ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دےدیا ہے اور کنیزوں کو جنھیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنھوں نے آپ کے ساتھ ھجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے- ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقت نہ ھو اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے-

پیغمبر اسلام {ص} کے چچا، عباس بن عبدالمطلب کی تجویز پر مکہ اور مدینہ کے درمیان " سرف" کے مقام پر جناب عباس بن عبدالمطلب کے توسط سے پیغمبر اسلام اور جناب میمونہ کے درمیان عقد کے مراسم انجام پائے اور جناب میمونہ پیغمبر اسلام {ص} کے عقد میں قرار پائیں-

بہت سے مفسرین کے بیان کے مطابق جناب میمونہ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں پیش کیا ہے- چونکہ جناب میمونہ ایک با ایمان خاتون تھیں اور پیغمبر اکرم{ص} کے ساتھ ان کی یہ محبت ایمان پر مبنی تھی، اس لئے پیغمبر اسلام {ص} نے ان کے ساتھ ازدواج کی- قابل بیان ہے کہ جناب میمونہ، خاندان کے لحاظ سے ایک خاص حیثیت رکھتی تھیں اور یہ ازدواج پیغمبر اکرم {ص} اور مکہ اور قریش کے بڑے قبائل کے درمیان مستحکم پیوند کا سبب بن سکتی تھی-

صلح حدیبیہ کے معاہدے کے مطابق پیغمبر اسلام {ص} تین دن سے زیادہ مدت تک مکہ میں نہیں ٹھہر سکتے تھے، تیسرا دن گزرنے کے بعد مکہ والوں نے آپ {ص} سے کہا کہ آپ {ص} اب مکہ میں نہیں ٹھہرسکتے ہیں-

حضرت محمد مصطفے {ص} چاہتے تھے کہ اس با فضیلت خاتون کے ساتھ ازدواج کے سلسلہ میں ایک ولیمہ کا اہتمام کرکے قریش کے بزرگوں اور جناب میمونہ کے رشتہ داروں کو دعوت دیں اور ان کے ساتھ روبرو بیٹھ کر گفتگو کرکے اختلافات کو دور کریں، لیکن قریش والوں نے یہ بات نہیں مانا –

چوتھے دن کی صبح کو حویطب بن عبدالعزی، جو بعد میں مسلمان ہدا، مشرکین کے کئی افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم {ص} کے پاس آگیا اور کہا: " مقررہ مدت ختم ھوچکی ہے، یہاں سے چلے جاو- سہیل بن عمرو بھی قریش کے چند افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم {ص} کے پاس آگیا اور کہا: آپ کی مہلت ختم ھوئی ہے، اس سے زیادہ مکہ میں نہ رہنا-

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" اس میں کیا حرج ہے کہ میں آپ کے شہر میں شادی کی تقریب منعقد کروں اور آپ لوگوں کو ولیمہ کے طور پر کھانا کھلاوں ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ: " لاحاجہ لنا فی طعامک فاخرج عنا" " ہمیں آپ کی مہمانی اور کھانے کا احتیاج نہیں ہے اور ہمارے شہر سے فورا چلے جاو"-

رسول اللہ {ص} نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ {ص} اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے چلے گئے اور اپنے غلام ابو رافع کو مکہ میں رکھا تاکہ وہ جناب میمونہ کو اپنے ساتھ مدینہ لے آئے- پیغمبر اسلام {ص} کا جناب میمونہ سے ازدواج کرنا، قبیلہ ھلالی سے غیر معمولی نزدیکی کا سبب بنا- اور اس کے بعد قبیلہ ھلالی کے افراد نے گروہ گروہ صورت میں اسلام قبول کیا- اور رسول خدا {ص} کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے، اور جہاں بھی رسول خدا {ص} چلے جاتے تھے، وہ بھی آپ {ص} کے رکاب میں آگے بڑھتے تھے-

شادی کی ابتداء میں جناب میمونہ کا نام " برہ" تھا، لیکن شادی کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے ان کا نام میمونہ رکھا، جس کے معنی مبارک و برکت ہے-

پیغمبر اسلام {ص} کی سیرت یہ تھی کہ جن مواقع پر کسی کے نام کو تبدیل فرماتے تھے، تو اچھا اور نیک نام کا انتخاب فرماتے تھے-

جناب میمونہ ایک سچی اور با ایمان خاتون تھیں اور مسجد النبی میں کافی نمازیں پڑھتی تھیں- ایک دن جناب میمونہ کا ایک رشتہ دار ان کے پاس آگیا، اور اس کے منہ سے شراب کی بدجرآتما تھی، جناب میمونہ نے غضبناک ھوکر کہا: خدا کی قسم اگر فورا دور نہ ھو جاو گے تو تم پر حد جاری کی جائے گی اور تمھیں دوبارہ میرے پاس آنے کا حق نہیں ہے، اور وہ شخص بھاگ گیا-

پیغمبر اسلام {ص} نے جناب میمونہ کے بارے میں فرمایاہے:" خداوند متعال نے تیرے دل کوبا ایمان بتایا ہے اور تیرا امتحان کیا ہے-" میمونہ کے بارے میں پیغمبر اسلام {ص} کا یہ کلام ان پر آپ {ص} کے اعتماد کی دلیل ہے-

پیغمبر اسلام {ص} نے میمونہ اور ان کی بہنوں کے مقام و منزلت اور اعتقادی و معنوی حیثیت کے بارے میں فرمایا ہے:" مومنین بہنیں"

مومن بہنوں سے مراد، پیغمبر خدا {ص} کی بیوی ام المومنین میمونہ، ان کی بہن ام فضل بنت حارث یا ان کی بہن سلمی بنت حارث { جناب حمزہ کی شریک حیات} اور ان کی سوتیلی بہن اسما بنت عمیس ہے – جناب میمونہ، جنگ تبوک میں مجاہدین کے صفوں میں سرگرم عمل تھیں اور زخمیوں اور بیماروں کی نرسنگ اور دلجوئی کرتی تھیں اور راہ خدا میں کافی خدمات انجام دے رہی تھیں- نقل کیا گیا ہے کہ جناب میمونہ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لئے خواتین نرسوں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کی مدد کے لئے میدان کارزار میں سرگرمی کے ساتھ حاضر ھوتی تھیں، حتی ایک بار میدان جنگ میں زخمیوں کے لئے پانی لاتے ھوئے دشمنوں کے تیر کا نشانہ بنیں اور زمین پر گرگئیں-

جس وقت پیغمبر اسلام {ص} شدید بیمار ھوئے، آپ {ص} جناب میمونہ کے گھر پر تشریف فرماتے تھے اور وہاں سے آپ {ص} کو جناب عائشہ کے گھر میں منتقل کیا گیا- جناب عائشہ اس سلسلہ میں کہتی ہیں: پیغمبر اکرم {ص} کی بیماری میمونہ کے گھر میں شروع ھوئی اور آپ {ص} نے اپنی بیویوں سے اجازت حاصل کی تاکہ میرے گھر میں آپ {ص} کی تیماری داری کی جائے، آپ {ص} کی بیویوں نے بھی اس کی موافقت کی-

میمونہ ایک پاک دامن خاتون تھیں، علمائے رجال انھیں علم حدیث میں قابل اعتماد راوی جانتے ہیں اور انھیں پیغمبر اکرم {ص} کے صحابیوں میں شمار کرتے ہیں- جناب میمونہ نے رسول خدا {ص} اور اپنے بھانجے، ابن عباس" وغیرہ سے روایتیں نقل کی ہیں- جناب میمونہ کے مقام و منزلت کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس کلام سے پہچانا جاسکتا ہے، کہ آپ{ع} نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے نقل کرکے فرمایا ہے کہ عورتوں کے احکام کو جناب میمونہ کی زبان سے نقل کیا گیا ہ اور اس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو جناب میمونی کی زبان سے نقل کرتے ہیں-{ من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱ ص، ۵۴}

جناب عائشہ سے مندرجہ ذیل روایت نقل کی گئی ہے: " اما انھا من اتقانا للہ و او صلنا للرحیم" وہ {میمونہ} ہم سب سے پرہیزگارتر اور صلہ رحم اور اپنے خویش و اقارب کا حق ادا کرنے میں سب سے پیش قدم تھیں-

ام المومنین جناب میمونہ خاندان زہراء {س} کے محبین میں سے تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں بھی کچھ احادیث ان سے نقل کی گئی ہے-

جناب میمونہ نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپ {ع} کی فضیلت کے بارے میں فرمایا ہے: خدا کی قسم وہ ہر گز گمراہ نہیں ھوئے تھے اور کوئی ان کے ذریعہ گمراہ نہیں ھوا ہے- جناب میمونہ نے اس کلام کو تین بار دہرایا-

جناب میمونہ کی ازدواج اور وفات کی جگہ:

جناب میمونہ تقریبا تین سال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی کی- کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} کی وفات کے بعد جناب میمونہ چالیس سال تک زندہ تھیں-

جناب میمونہ ساتوین ھجری، ماہ ذیقعدہ میں مکہ مکرمہ سے پانچ کلو میٹر دور " سرف" کے مقام پر پیغمبر اکرم {ص} کے عقد میں قرار پائیں- بعد میں اس جگہ پر ایک کمرہ اور بقعہ تعمیر کیا گیا- سنہ ۶۱ھجری میں یزید بن معاویہ کی خلافت کے زمانے میں جناب میمونہ جب مکہ سے واپس آرہی تھیں، اتفاق سے اسی جگہ، جہاں پر پیغمبر اسلام {ص} سے شادی کی تھی، ۸۱ سال کی عمر میں دار فانی کو وداع کیا- ان کے بھانجے بن عباس نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور اسی بقعہ میں انھیں سپرد خاک کیا گیا-

Read 4444 times