Print this page

جناب زینب بنت جحش کی سیرت

Rate this item
(1 Vote)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جناب زینب بنت جحش، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شریک حیات تھیں- ان کے والد جحش بن رئاب تھے اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب، یعنی رسول خدا{ص} کی پھپھی تھیں- ھجرت کے پانچویں سال رونما ھونے والے اہم واقعات میں سے ایک واقعہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب زینب بنت جحش سے ازدواج کرنا تھا-

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ام المومنین جناب زینب بنت جحش سے ازدواج کرنے کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ان کے پہلے شوہر، زید بن حارثہ سے ان کی ازدواج کی داستان بیان کی جائے-

کہا جاتا ہے کہ جس دوسرے مرد نے رسول خدا {ص} پر ایمان لایا، وہ زید بن حارثہ تھا- زید بن حارثہ بعثت سے کئی سال قبل ام المومنین حضرت خدیجہ{س} کے گھر میں ایک غلام کی حیثیت سے آگیا تھا اور رسول خدا {ص} نے انھیں حضرت خدیجہ سے لے کر آزاد کیا اور اس کے بعد اسے اپنا بیٹا کہا اور مکہ کے لوگ بھی، اس کے بعد اسے زید بن محمد {ص} کہتے تھے-

زید کی اسیری اور غلامی کی داستان:

زید، قبیلہ کلب کا ایک جوان تھا- ان کے قبیلہ اورایک دوسرے عرب قبیلہ کے درمیان لڑائی کے نتیجہ میں زید کو اسیر کیا گیا اور اسے عکاظ کے بازار میں فروخت کرنے کے لئے رکھا گیا اور حضرت خدیجہ {س} کے بھتیجے، حکیم بن حزام نے، حضرت خدیجہ {س} کی طرف سے ایک غلام خرید نے کی سفارش پر، زید بن حارثہ کو خریدا اور حضرت خدیجہ {س} کے لئے اسے مکہ لے آیا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ {س} کو اپنی شریک حیات قرار دیا، آنحضرت{ص} زید سے پیار و محبت کرنے لگے یہاں تک کہ اسے " زید الحب" کہنے لگے- حضرت خدیجہ {س}نے جب اس قسم کی محبت کا مشاہدہ کیا، تو زید کو آنحضرت {ص} کی خدمت میں بخش دیا-

ایک زمانہ گزرنے کے بعد قبیلہ بنی کلب کے کچھ افراد حج انجام دینے کے لئے مکہ آگئے، اور انھوں نے وہاں پر زید کو دیکھا اور اسے پہچان لیا اور زید نے بھی انھیں پہچان لیا اور کہا کہ: میں بخوبی جانتا ھوں کہ میرے ماں باپ نے میرے فقدان کی وجہ سے جزع و فزع کیا ہے اور اس کے ضمن میں اپنی صحت و سلامتی اور خوشحال ھونے کے بارے میں چند اشعار کہے اور خداوند متعال کا شکر بجا لایا کہ اسے پیغمبر اکرم {ص} کے گھر میں قرار دیا ہے:

"فانّی بحمد اللّه ِ فی خیرٍ اُسْرَةٍ کرامٍ مَعَدٍّ کابرا بعد کابر."

بنی کلب کے افراد نے زید کے زندہ ھونے اور اس کی حالت کی خبر، اس کے والدین کو پہنچا دی- زید کے والد اور چچا فدیہ دے کر زید کو آزاد کرانے کے لئے پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کہا: اے فرزند عبدالمطلب؛ اے فرزند ہاشم؛ اے اپنی قوم کے سرادر کے فرزند؛ ہم اپنے بیٹے کے بارے میں آپ سے گفتگو کرنے کے لئے آئے ہیں،جو آپ کے پاس ہے- ہم پر مہربانی اور احسان کرنا اور فدیہ حاصل کرکے اسے آزاد کرنا- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسے آزاد کروں؟ انھوں نے کیا: زید بن حارثہ کو- پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا: آپ لوگ کیوں کوئی دوسری تجویز پیش نہیں کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کونسی تجویز؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: اسے بلا ئیے اور اسے اپنا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیجئے- اگر اس نے آپ لوگوں کو اختیار کیا، تو وہ آپ کا ہے اور اگر مجھے اختیار کیا، تو خدا کی قسم جو مجھے ترجیح دیدے، میں اس کے بارے میں کسی صورت میں اور کسی قیمت پر معاملہ نہیں کروں گا- انھوں نے کہا: آپ {ص} نے ہمارے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی بات کی ہے اور ہم پر احسان کیا ہے-

پیغمبر اسلام {ص} نے زید کو بلایا اور فرمایا: کیا ان کو جانتے ھو؟ اس نے جواب میں کہا: جی ہاں، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں- پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: میں وہی ھوں جسے تم نے پہچانا اور جس کے ساتھ تم نے ہم نشینی کی ہے- مجھے اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا- زید نے کہا: میں ان کو نہیں چاہتا ھوں – میں کسی کو بھی آپ {ص} پر ترجیح دینا نہیں چاہتا ھوں- آپ {ص} میرے لئے میرے باپ اور چچا ہیں- زید کے والد اور چچا نے کہا: اے زید؛ تم پر افسوس ھو؛ کیا تم غلامی کو آزاد ھونے اور اپنے باپ اور چچا پر ترجیح دیتے ھو؟ زید نے جواب میں کہا: جی ہاں، یہ شخص ایسی خصوصیات کے مالک ہیں کہ میں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دیتا ھوں- جب رسول خدا {ص} نے اس کا مشاہدہ کیا، اسے حجر اسماعیل میں لے جاکر اعلان کیا: اے حضار؛ گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے، اسے مجھ سے وراثت ملے گی اور مجھے اس سے وراثت ملے گی- جب زید کے باپ اور چچا نے اس امر کا مشاہدہ کیا، تو وہ خوشحال ھوکر اپنے وطن کی طرف لوٹے-

حضرت محمد مصطفے {ص} کے رسالت پر مبعوث ھونے اور اس واقعہ کو چند سال گزرنے کے بعد، سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵ اور ۶ " اُدعوُهم لِآبائِهِم هُوَ اَقسَطُ عِندَاللَهِ فَاِن لَم تَعلَموُا اَبآئَهُم فَاِخوانُکُم فی الدین وَ مَوالیکُم وَ لَیسَ عَلَیکُم جُناح فیما اَخطاتُم بِهِ وَ لَکِن ما تَعَمَدَت قُلوبُکُم وَکان اللهُ غَفورا رَحیما " و " اَلنَبی اَولی بِالمومِمنین مِن اَنفُسِهِم وَ اَزواجُهُ اُمَهَتُهُم وَ اوُلوا الاَرحامِ بَعضُهُم اَولی بِبَعض فی کِتَب الله مِنَ المُومنین وَ المُهَجِرین الا اَن تَفعَلوا اِلی اَولیائِکُم مَعروفا کان ذَلِکَ فی الکِتَبِ مَسطُورا"{ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ھو تو یہ دین میں تمھارے بھائی اور دوست ہیں اور تمھارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ھوگئی ہے البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ھو جو تمھارے دلوں نے قصدا انجام دی ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے- بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے اور ان کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاو کرنا چاھوتو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتاب خدا میں لکھی ھوئی موجود ہے} کے مطابق یہ حکم منسوخ ھوا اور قرار پایا منہ بولے بیٹوں کو اپنے اصلی باپ کے نام سے پکارا جائ اور اس کے بعد زید کو زید بن حارثہ کے نام سے پکارا گیا-

زینب بنت جحش سے زید بن حارثہ کی ازدواج:

رسول خدا{ص} نے زید سے محبت کی بناپر فیصلہ کیا کہ زید کے لئے ایک شریک حیات کا انتخاب کریں اور اسی وجہ سے کسی کو زینب بنت جحش کے پاس خواستگاری کے لئے بھیجا- زینب اور ان کے رشتہ داروں نے پہلے خیال کیا کہ شاید پیغمبر {ص} نے اپنے لئے خواستگاری کی ہے اور خوشحال ھوکر مثبت جواب دیا – لیکن جب انھیں معلوم ھوا کہ یہ خواستگاری زید بن حارثہ کے لئے ہے، تو پشیمان ھوکر آنحضرت {ص} کو پیغام بھیجا کہ یہ ازدواج ہمارے خاندان کی شان و حیثیت کے خلاف ہے اور اس طرح اس رشتہ کے لئے آمادہ نہیں ھوئی اور جب سورہ احزاب کی ۳۶ ویں آیت":وَ ما کان لِمومِن وَ لا مومِنَه اِذا قَضَی اللهُ وَ رَسوُلُهُ اَمرا اَن یَکُونَ لَهُمُ الخِیَرَهُ مِنَ اَمرِهِم وَ مَن یَعصِ اللهَ وَ رَسُولَهُ فَقَد ضَلَ ضَلَلا مُبینا"{ اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ھوئی گمراہی میں مبتلا ھوگا} نازل ھوئ، تو زینب بنت جحش نے اس ازدواج کے لئے اپنی رضامندی کا اعلان کیا اور اس طرح زید کی شریک حیات بنیں-

ایک مدت کے بعد ان دو کے درمیان کچھ مشکلات پیدا ھوئے- زید نے پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں شکایت کی اور زینب بنت جحش کو طلاق دینا چاہا- لیکن پیغمبر اسلام {ص} نے اسے صبر و تحمل کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا: " اپنی شریک حیات کو نہ چھوڑنا :" اَن زیدا جاء یشکوا زوجتُهُ فَجَعَلَ النَبی یقُولُ: اِتَقِ الله وَ اَمسِک عَلیک زوجک" ایک مدت کے بعد زید پھر سے پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں آگیے اور خبر دیدی کہ ان کے اور زینب کے درمیان روابط انتہائی حد تک خراب ھوئے ہیں اور دونوں طلاق کے نتیجہ پر پہنچے ہیں- اس وقت پیغمبر اسلام {ص} پر وحی نازل ھوئی اور خداوند متعال نے یوں ارشاد فرمایا: وَ اِذ تَقول لِلَذی اَنعَمَ اللهُ عَلَیهِ وَ اَنعَمت عَلَیهِ اَمسِک عَلَیکَ زَوجَکَ وَ اتَقِ اللهَ وَ تُخفی فی نَفسِکَ ما اللهُ مُبدیهِ وَ تَخشَی النَاسَ وَ اللهُ اَحَقُ اَن تَخشَهُ فَلَمَا قَضَی زَید مِنهَا وَطَرا زَوَجنَکَهَا لِکَی لایَکونَ عَلَی المومنینَ حَرَج فی اَزوَاجِ اَدعِیائِهِم اِذا قَضَوا مِنهُنَ وَطَرا وَکان اَمرُ اللهِ مَفعُولا}( احزاب،۳۷ }اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اور اللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ھوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمھیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ھوکر رہتا ہے}

جس چیز کو پیغمبر اسلام {ص} لوگوں کے خوف سے چھپاتے تھے، وہ کیا تھی؟ خداوند متعال ایک حکم کو ثابت کرنا چاہتا تھا اور لوگوں کو ایک دوسرا طریقہ کار سکھانا چاہتا تھا، جو ایام جہالت کے احکام و آداب کے خلاف تھا- اگر عرب کسی کو منہ بولا بیٹا بناتے تھے، اسے اپنی نسبت دیتے تھے اور اس کو اس کے اصلی باپ سے منسوب نہیں کرتے تھے- اس امر کا سورہ احزاب کی آیت نمبر ۴۰ میں ذکر کیا گیا ہے:" ما کان مُحَمَد اَبا اَحَد مِن رِجَالِکُم وَلَکِن رَسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَبیینَ وَ کانَ اللهُ بِکُلِ شَی ء عَلیمَا" {محمد تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے} خداوند متعال اس رسم و رواج کو خاتمہ بخش کر اسلام میں نئے معارف کی بنیاد ڈالنا چاہتا تھا- بہر حال زینب بنت جحش زید بن حارثہ سے جدا ھوئیں-

زینب بنت جحش سے رسول خدا {ص} کی ازدواج:

خداوند متعال نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی فرمایا کہ چونکہ زینب نے خدا کی رضامندی کے لئے عربوں کے رسوم اور اپنی مرضی کے خلاف ایک ایسے شخص سے ازدواج کی تھی جو اس کے مقام و منزلت سے پست تر تھا، اس لئے خدا وند متعال نے اسے اکرام بخشا ہے اور وہ آپ {ص} کی بیوی بن جائے گی-

جناب زینب بنت جحش مہاجر خاتون تھیں اور ان کا تعلق مکہ کے شریف خاندان سے تھا- انھوں نے ھجرت کےتیسرے یا پانچویں سال میں، وحی الہی کے مطابق ۳۵ سال کی عمر میں رسول خدا {ص} سے ازدواج کی- زینب بنت جحش نے اس نعمت کے شکرانہ کے طور پر دو مہینے تک روزے رکھے-

جناب زینب بنت جحش، پیغمب اسلام {ص} کے ساتھ ازدواج کرنے کے بعد فخر و مباہات کا اظہار کرتی تھیں اور پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں سےبار ہا خطاب کرکے فرماتی تھیں:" میں آپ خواتین سے فرق رکھتی ھوں، کیونکہ آپ کو آپ کےخاندان والوں نے پیغمبر اکرم {ص} کے عقد میں قرار دیا ہے، لیکن مجھے خداوند متعال نے سات آسمانوں سے پیغمبر اسلام {ص} کے عقد میں قرار دیا ہے-" فکانت تفخر علی ازواج النبی "ص" و تقول: زوجکن اهالیکن و زوجنی الله من فوق السموات"

جناب عائشہ کہتی ہیں:" پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں میں سے زینب کے علاوہ کوئی میرا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں-"

رسول خدا {ص} اپنی اس بیوی کو " آواہ" کہتے تھے، یعنی متواضع اور متفرح – جناب عائشہ، ان کے بارے میں یوں کہتی ہیں:" :" ما رایتُ امراه قط خیرا فی الدین من زینب ، و اتقی لله، و اصدق حدیثا، و اوصَلُ للرحم، و اعظم امانه و صدقه " " میں زینب سے دیندار تر، باتقوی تر، صادق تر، ارحام دوست تر، امین تر اور زیادہ صدقہ دینی والی کسی عورت کو نہیں جانتی ھوں-"

جناب زینب صالح اور پرہیزگار ھونے کے ضمن میں ایک محنت کش اور فعال خاتون تھیں- وہ چمڑے کی رنگسازی کرنے اور سلائی میں مہارت رکھتی تھیں اور وہ روزہ داری اور شب بیداری میں مشہور تھیں-

دستکاری کی ماہر تھیں اور اس سے حاصل کی گئی کمائی کو فقراء اور محتاجوں میں صدقہ کے طور پر تقسیم کرتی تھیں، ان سب سے بالا تر یہ کہ وہ احادیث کی راوی تھیں اور انھوں نے پیغمبر اسلام {ص} سے گیارہ ہزار احادیث نقل کی ہیں-

پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد جناب زینب کی زندگی:

پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت جناب زینب کے زیادہ خصوصیات کی مالک ھونے کی دلیل یہ تھی وہ حضرت خدیجہ {س} کے بعد دولتمند ترین خاتون تھیں اور فقیروں اور حاجتمندوں کی کافی مدد کرتی تھیں-

خداوند متعال نے جناب زینب بنت جحش کے خاندان کو دولت عطا کرکے، جناب زینب کی حالت بہتر بنائی تھی اور خدا کی یہ عنایت اس کے لئے مسلسل جاری تھی- جناب زینب چمڑے کے کام اور چٹائی بننے میں ماہر تھیں اور اس سے حاصل کی گئی کمائی کو فقیروں اور محتاجوں میں صدقہ کے طور پر تقسیم کرتی تھیں اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتی تھیں-

ایک دن پیغمبر اسلام {ص} اپنی بیویوں کے ساتھ تشریف فرماتھے، کہ فرمایا: " آپ میں سےجس کا ہاتھ دراز تر ہے وہ سب سے پہلے بہشت میں مجھ سے ملحق ھوگی-"

پہلے مرحلہ میں، پیغمبر اسلام {ص} کی اس فرمائش سے سبوں نے اس کے ظاہری معنی لئے اور اپنے ہاتھ باہر نکال کر دیکھنے لگیں کہ کس کا ہاتھ دراز تر ہے، لیکن بعد میں معلوم ھوا کہ پیغمبر اکرم {ص} کا مراد وہ ہے کہ جو ان میں سے زیادہ تر راہ خدا میں انفاق کرتی ہے- جناب زینب بنت جحش، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد برابر با تقوی تھیں اور فقراء اور محتاجوں کی مدد کرتی تھیں- جناب زینب کی سخاوت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے دوسرے خلیفہ، جناب عمر بن خطاب کے زمانہ میں پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کو ملنے والے وظیفہ سے استفادہ نہیں کیا ہے- لیکن ایک سال ان سے بارہ ہزار درہم وصول کرکے یتیموں میں تقسیم کیے اور دعا کی:" خداوندا؛ اس کے بعد مجھے عمر کے وظیفہ کا محتاج نہ بنانا، کیونکہ مال فتنہ ہے-"

پیغمبر اسلام {ص} کی بیویوں کو، جناب زینب بنت جحش کے سنہ ۲۰ ھجری میں ۵۲ سال کی عمر میں اس دنیا سے رحلت کرنے کے بعد معلوم ھوا کہ وہ سب سے سخاوتمند تر تھیں، کیونکہ رحلت کے بعد انھوں نے کوئی درہم و دینار اپنے پیچھے نہیں چھوڑا تھا اور اپنی پوری دولت راہ خدا میں صرف کی تھی-

ام المومنین جناب زینب بنت جحش کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے-

ترتیب و پیشکش: شہیدہ بزرگی

Read 4202 times