Print this page

جناب سودہ کی سیرت

Rate this item
(2 votes)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جناب سودہ، اہل مکہ اور قبیلہ قریش کے زمعہ بن قیس کی بیٹی تھیں- ان کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام {ص} کے جد امجد تک پہنچتا ہے- جناب سودہ کے والد ان افراد میں سے تھے، جنھوں نے ابتداء میں پیغمبر اسلام {ص} کی دعوت کو قبول کرکے اسلام لایا تھا-

جناب سودہ نے پہلے اپنے چچیرے بھائی، سکران بن عمرو بن عبدالشمس سے ازدواج کی اور اس سے ان کے ہاں عبدالرحمن نامی ایک بیٹا پیدا ھوا تھا-

ظہور اسلام اور رسول خدا{ص} کی دعوت کے بعد پہلے خود سودہ مسلمان ھوئیں اور اس کے بعد ان کا شوہر بھی مسلمان ھوا اور کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو اذیت و آزار کا سلسلہ شروع ھونے کے بعد اس میاں بیوی نے بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ھجرت کی-

مکہ میں مسلمانوں کی فتحیابی اور مکہ کے باشندوں کےاسلام قبول کرنے کی خبر سننے کے بعد مسلمان حبشہ سے مکہ کی طرف واپس لوٹے- اس سفر میں جناب سودہ کے شوہر وفات پا گئے- لیکن جناب سودہ کو معلوم ھوا کہ مکہ میں مسلمانوں کی فتحیابی کی خبر صحیح نہیں تھی بلکہ مکہ کے کفار نے مسلمانوں کو اذیت و آزار پہچانے میں شدت اختیار کی ہے، تو انھیں شوہر کی رحلت کی مصیبت کے علاوہ اپنے کافر خاندان کے برتاو کےبارے میں سخت پریشانی ھوئی-

اس زمانہ میں کسی عورت کا تنہا اور بے سرپرست ھونا بھی نا پسند اور خطرناک سمجھا جاتا تھا، اس لئے ایسے تنہا افراد مجبور تھے کہ اپنے آپ کو اپنے قبیلہ یا قبیلہ کے سردار کی پناہ میں قرار دیں تاکہ دوسروں کے خطرے سے محفوظ حالت میں زندگی گزار سکیں-

پیغمبر اسلام {ص} سے ازدواج کرنے کی تجویز:

مذکورہ حوادث اور ان نا گفتہ بہ حالات اور غم و اندوہ والے ایام میں پیغمبر اسلام {ص} کے چچا ابو طالب رحلت کرگئے اور تھوڑی مدت کے بعد حضرت خدیجہ کبری{س} بھی اس دارفانی کو وداع کرگئیں اور پیغمبر اسلام {ص} اپنے چچا اور شریک حیات، حضرت خدیجہ کے فقدان کی وجہ سے انتہائی غمگین ھوئے-

پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ{س} کی وفات کے بعد ایک سال تک اپنے لئے کسی شریک حیات کا انتخاب نہیں کیا- رسول خدا {ص} کے صحابی فکر مند تھے اور رسول خدا {ص} کے ہاں حضرت خدیجہ {س} کے مقام و منزلت سے آگاہ ھونے کے پیش نظر اس کوشش میں تھے کہ آنحضرت {ص} کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی جدائی کے غم کو ہلکا کردیں، اس سلسلہ میں جناب عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم کو پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں بھیجا، یہ ایک با ایمان اور ہمدرد خاتون تھیں-

خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ {ص} سے ملاقات کے دوران آنحضرت {ص} سے کہا: " اے رسول خدا {ص} ہم دیکھ رہے ہیں، خدیجہ کے فراق نے آپ {ص} کو محزون و غمگین بنایا ہے- رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا کہ :" جی ہاں، وہ میری اولاد اور خاندان کی ماں تھیں"

خولہ نے کہا: اے رسول خدا {ص} آپ {ص} کیوں ازدواج نہیں کرتے ہیں؟

پیغمبر خدا {ص} نےکچھ دیر تک خاموشی اختیار کی، آپ {ص} کی آنکھیں پر نم ھو گئیں، اس کے بعد فرمایا: کیا خدیجہ کے بعد بھی کوئی ہے؟

خولہ نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر کہا: کیا میں آپ {ص} کے لئے خواستگاری کرسکتی ھوں؟

سر انجام رسول خدا{ص} نے اپنے لئے خواستگاری کے لئے خولہ بنت زمعہ کی تجویز سے موافقت کی- خولہ ایک مسن خاتون تھیں-

اس کے بعد خولہ بنت زمعہ، جناب سودہ کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ: آپ کے لئے خوشخبری لائی ھوں کہ آج کا دن اپنی ماں سے متولد ھونے کے بعد آپ کی زندگی کا بہترین دن ہے- جناب سودہ نے کہا : کیوں؟

خولہ نے جواب میں کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھیجا ہے تاکہ آپ سے خواستگاری کروں-

سودہ نے کہا: کیا رسول خدا{ص} میرے ساتھ ازدواج کریں گے؟ خولہ نے کیا: جی ہاں، انھوں نے آپ کا نام لیا اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے-

سودہ نے مسن ھونے اور بیوہ ھونے کے باوجود اپنے باپ کے احترام میں کہا کہ: پس میں اپنے باپ سے اجازت حاصل کرتی ھوں-

خولہ کہتی ہیں کہ: میں سودہ کی خواستگاری کے لئے ان کے والد کے پاس گئیں اور کہا: محمد بن عبداللہ {ص} آپ کی بیٹی سودہ کے بارے میں خواستگاری کرنا چاہتے ہیں-

سودہ کے باپ نے کہا: محمد {ص} ایک کریم و عظیم شخصیت ہیں، لیکن ذرا دیکھو کہ سودہ کیا کہتی ہے-

جب سودہ نے اپنی مکمل رضامندی کا اظہار کیا تو ان کے باپ نے کہا: محمد {ص} سے کہنا کہ خواستگاری کے لئے تشریف لائیں- یہ مبارک رشتہ بعثت کے بعد دسویں سال کے رمضان المبارک میں منعقد ھوا اور اس کے بعد تقریبا تین سال تک آنحضرت {ص} نے کوئی دوسری شادی نہیں کی-

اس مسن خاتون سے پیغمبر اسلام {ص} کی شادی اہل مکہ کے لئے حیرت و تعجب کا باعث بنی اوراس کے ضمن میں آنحضرت {ص} کو اذیت و آزار نہ پہنچانے کا سبب بھی بنی-

سودہ کا بھائی عبد بن زمعہ، مسلمان ھونے کے بعد اظہار افسوس کرتا تھا کہ جب اس کی بہن سودہ کی پیغمبر {ص} سے شادی ھوئی تو وہ دیوانہ ھوکر اسے ایک بڑی مصیبت سجھتا تھا-

اس ازدواج کے بعد، سودہ بنت زمعہ کے قبیلہ کے افراد نے ، رسول خدا {ص} کے درمیان محبت و الفت ایجاد ھونے اور آنحضرت {ص} کے حسن اخلاق کے دلدادہ ھونے کی وجہ سے جوق در جوق اسلام قبول کیا-

یہ ازدواج ھجرت سے ایک سال پہلے واقع ھوئی- سودہ، فاطمہ زہراء {س} اور ام کلثوم کی پرورش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی تھیں-

کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} نے مکہ میں تین خواتین سے ازدواج کی ہے ، جناب خدیجہ، جناب سودہ، اور جناب عائشہ- اس کے بعد باقی ازدواج مدینہ منورہ میں کی ہیں-

رسول خدا {ص} کو خوشحال رکھنے کے لئے جناب سودہ کی کوششیں:

سیرت کی بعض کتابوں کے مطابق، جناب سودہ، آنحضرت {ص} سے عمر میں کافی تفاوت رکھتی تھیں، لیکن ایک مومنہ اور با وقار خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے ساتھ کافی مہربانی سے پیش آتی تھیں-

ام المومنین جناب سودہ ہمیشہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنے کردار و رفتار سے آنحضرت {ص} کو خوشحال رکھیں، مسن ھونے کے باوجود آنحضرت {ص} کی خدمت میں شوخ مزاج تھیں-

جناب سودہ کا پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں خوش آیند مسائل کو خندہ پیشانی کے ساتھ پیش کرنا مختلف صورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہ سب، پیغمبر اسلام {ص} کو خوشحال کرنے کے لئے ان کی کوششوں کی دلیل ہے-

رسول خدا {ص} نے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنے اور مدینہ میں قیام کرنے کے بعد زید بن حارثہ کو ان کے غلام ابا رافع کے ساتھ دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا تاکہ فاطمہ زہراء {س} جناب ام کلثوم، جناب سودہ ، جناب ام ایمن حبشیہ { زید بن حارثہ کی بیوی} اور اسامہ بن زید کو مدینہ لائیں-

زید بن حارثہ نے اپنی ماموریت انجام دی اور انھیں حارثہ بن نعمان کے گھر میں رکھا-

ذہبی کہتے ہیں: " پیغمبر اسلام {ص} نے مدینہ میں پہلا گھر سودہ کے لئے تعمیر کیا اورآنحضرت نے تین سال تک کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی-"

بعض روایات کے مطابق ، حضرت خدیجہ {س} کے بعد پیغمبر {ص} کی بیویوں میں سخاوت مند ترین بیوی جناب سودہ تھیں- ابن سعد نے محمد بن سیرین سے نقل کیا ہے کہ: عمر نے درہموں سے بھرے ایک برتن کو جناب سودہ کی خدمت میں بھیجا- جناب سودہ نے کہا: یہ کیا ہے؟ کہاگیا کہ: یہ درہم ہیں- پس انھوں نے انھیں محتاجوں میں تقسیم کیا-

جناب سودہ کا بعض جنگوں میں پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ حضور:

بعض روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سودہ، جنگ خیبر جیسی بعض جنگوں میں پیغمبر اسلام {ص} کے ہمراہ تھیں-

ابن سعد اپنی کتاب " طبقات" میں کہتے ہیں:" پیغمبر اسلام {ص} نے جنگ خیبر میں جناب سودہ کو ستر"وسق" خرما اور بیس"وسق" جو دئے{وسق یعنی ایک اونٹ بار}- اس سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سودہ جنگ خیبر میں پیغمبر اکرم {ص} کے ہمراہ تھیں-

اختلاف کا پیدا ھونا:

جب پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں، پیغمبر اکرم {ص} کے نفقہ ادا کرنے کے طریقہ کار سے ناراض ھو گئیں اور زیادہ نفقہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو رسول خدا {ص} نے انھیں آپ {ص} کے ساتھ رہنے یا طلاق حاصل کرنے میں اختیار دیا تو خداوند متعال کی طرف سے یہ آیتیں نازل ھوئیں: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا. وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا»(احزاب/28ـ29{ پیغمبر آپ اپنے بیویوں سے کہہ دیجئے اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ھوتو آو میں تمھیں متاع دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ھو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے}

جناب سودہ، ان آیات کو سننے کے فورا بعد رسول خدا{ص} کی خدمت میں حاضر ھوئیں اور کہا: میں کچھ نہیں چاہتی ھوں-

جناب عائشہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ: " سودہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں پیغمبر اکرم {ص} انھیں مسن ھونے کی وجہ سے طلاق نہ دیں-"

جناب سودہ، جناب عائشہ کے مقا بلے میں ان کی نانی کے مانند تھیں اور انھوں نے بارہا یہ آرزو کی تھی کہ خداوند متعال مجھے قیامت کے دن پیغمبر اسلام {ص} کی شریک حیات کے عنوان سے محشور کرے-

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جناب سودہ اور پیغمبر اکرم {ص} کے درمیان کچھ مسائل پیدا ھوئے تھے اور پیغمبر اکرم {ص} انھیں طلاق دینا چاہتے تھے – جناب سودہ نے پیغمبر اکرم {ص} سے کہا: اے رسول خدا {ص} مجھے طلاق نہ دینا ، تاکہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں شمار ھو جاوں اور پیغمبر اسلام {ص} نے انھیں طلاق نہیں دیا-

حجتہ الوداع میں جناب سودہ کا اقدام:

حجتہ الوداع میں جناب سودہ بھی پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے ہمراہ بیت الحرام کی زیارت کے لئے مشرف ھوئی تھیں اور پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد، چونکہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں میں بیٹھیں، اس لئے وہ اس کے بعد مکہ نہیں گئیں- حاجی کےلئے واجب ہے کہ حالت احرام میں جب عرفات سے فارغ ھو جائے، تو مزدلفہ جاکر نماز صبح تک وہاں پر وقوف کرے اور اس کے بعد آگے بڑھے- حجتہ الوداع میں جب جناب سودہ، پیغمبر اسلام{ص} کے ہمراہ حج کا فریضہ انجام دے رہی تھیں، وہ چل نہیں سکتی تھیں، کیونکہ جناب سودہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں اور بڑی مشکل سے چل سکتی تھیں- انھوں نے رسول خدا {ص} کی خدمت عرض کی: اے رسول خدا{ص} میں یہاں پر { مزدلفہ میں} صبح تک نہیں رہ سکتی ھوں- رسول خدا {ص} نے انھیں آگے بڑھنے کی رخصت دیدی تاکہ صبح اور ازدحام ھونے سے پہلے رمی جمرات بجا لاکر واجب طواف بجا لائے- اور جناب سودہ کا یہ عمل معذور افراد کے لئے اس کام کے جواز کا سبب بنا-

دوسرے خلیفہ جناب عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے دوران ایک بار پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کوخانہ خدا کی زیارت کرنے کی اجازت دیدی اور جناب سودہ اور زینب بنت جحش کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} کی سب بیویاں خانہ خدا کی زیارت کے لئے گئیں، لیکن آنحضرت {ص} کی ان دو بیویوں نے کہا کہ، ہم رسول خدا {ص}کے بعد کسی مرکب پر سوار نہیں ھوں گیں- جناب سودہ نے کہا کہ میں گھر میں رہنا چاہتی ھوں ، کیونکہ خداوند متعال نے مجھے اس کا حکم دیا ہے-

جناب سودہ کی خدا اور اس کے پیغمبر{ص} کی اطاعت:

سیوطی لکھتے ہیں:" وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّة الأولى"والی آیت کے نازل ھونے کے بعد جب جناب سودہ سے کہا گیا کہ آپ کیوں حج بجا لانے کے لئے نہیں جاتی ہیں؟ تو انھوں نے جواب میں کہا: میں نے حج اور عمرہ بجا لایا ہے اور خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلوں اور گھر میں ہی رھوں-

لکھا گیا ہے کہ جناب سودہ گھر سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ ان کا جنازہ ان کے گھر سے باہر لایا گیا-

جناب سودہ کی وفات:

جناب سودہ نے خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی اور انھیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-

Read 3798 times