Print this page

سلام خاک نشینوں پہ سوگواروں کا!!!

Rate this item
(0 votes)
سلام خاک نشینوں پہ سوگواروں کا!!!


آسمان سے آگ برساتا سورج اب مغرب میں اتر رہا تھا۔ گرم ہوا کے صحرائی بگولے ٹیلوں، میدانوں اور راستوں پر چکراتے پھر رہے تھے۔ پریشان حال، غم زدہ اور مظلوم قیدیوں کا قافلہ انسانی شکل والے درندوں اور سفاک قاتلوں میں گھرا ہوا کربلا سے گزر کر منزل قادسیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کوفے میں اسیران کربلا کو ایک بے سایہ قید خانے میں قید کیا گیا، جہاں دن بھر چلچلاتی دھوپ ہوتی اور رات بھر آسمان سے شبنم کے آنسو گرا کرتے۔ قیدیوں کو کھانے پینے کے لیے اتنا ہی دیا جاتا تھا کہ ان کی سانسیں چلتی رہیں۔ اسی قید خانے کے قریب ہی وہ جگہ تھی، جہاں بیس پچیس سال پہلے جناب زینب بنت علی علیہ السلام نے اپنے والد کے دور خلافت کے زمانے میں کوفے کی عورتوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینے کے لیے ایک درسگاہ قائم کی تھی۔

کبھی وہ اس شہر میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ رہا کرتی تھیں اور آج اسی شہر کے ایک قید خانے میں قید تھیں اور لوگ ان کے گھرانے سے اپنی عقیدت و محبت تک کو چھپانے پر مجبور تھے۔ ان تمام مشکلات، مسائل اور مصائب کے باوجود شام غریباں سے اب تک کوئی رات ایسی نہیں گزری تھی کہ جناب زینب بنت علی نے نماز شب نہ ادا کی ہو۔ عاشور کی رات امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنی بہن کو وصیت کی تھی "بہن! نماز شب میں مجھے نہ بھولنا"رات کے آخری پہر میں جناب زینب تیمم کرکے نماز شب ادا کرتیں، اپنے مظلوم بھائی کو یاد کرکے زار و قطار آنسو بہاتیں اور بارگاہ الہیٰ میں مناجات کرتیں۔

امام زین العابدین قید خانے کے الگ کونے میں عبادت میں مصروف رہتے۔ کبھی وہ اپنے بابا کو یاد کرتے، کبھی اپنے بھائیوں کو۔ بنو ہاشم کے ایک ایک فرد کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھومتا تو ان کا دل پھٹنے لگتا۔ وہ اپنی چیخوں کو بمشکل روکتے اور قریب سوئی ہوئی بہن کے معصوم چہرے پر نظر ڈالتے۔ چاند کی روشنی میں جناب سکینہ علیہ السلام کے رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں چمکتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ امام زین العابدین دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے اور شب بھر، سجدہ شکر بجا لاتے اور رب سے مناجات کرتے۔

اللہ کی حمد و ثناء کی یہ آوازیں، رات کے سناٹے میں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ قید خانے کے اردگرد بنے ہوئے مکانوں تک جاتیں تو اونگھتے ہوئے لوگ اٹھ جاتے۔ عورتیں سروں کو ڈھانپ کر رونے لگتیں، نوجوان بے قراری سے کروٹیں بدلنے لگتے۔ ایسے قیدی انہوں نے کہا دیکھے تھے، جو مصائب و مشکلات کے اس آخری درجے میں بھی اپنی راتیں اللہ کی حمد و ثناء اور شکر کے سجدوں میں گزارتے ہوں! صبر، برداشت، اپنے مالک کی ذات پر کامل یقین اور اس کی مرضی پر راضی رہنے والے یہ قیدی انہیں فرشتوں سے بھی زیادہ معصوم لگنے لگے تھے۔ قید خانے سے رات کے سناٹے میں پھیلنے والی حمد و ثناء کی ان مقدس آوازوں نے پہلے قریبی گھروں کو منور کیا۔ پھر ان آوازوں کے تذکرے سینہ بہ سینہ شہر کے دوسرے گھروں، گلیوں اور بازاروں تک پہنچ گئے۔

بشیر بن خزیم اسدی کہتا ہے کہ میں نے جناب سیدہ زینب بنت علی کو اس حالت میں دیکھا کہ بخدا! ان سے زیادہ باحیاء مستور کو بولتے نہیں دیکھا۔ گویا وہ زبان علی ابن ابی طالب سے بول رہی ہیں اور جب انہوں نے فرمایا: لوگو! خاموش ہو جاؤ! تو لوگوں کے سانس تک رک گئی اور اونٹوں کے گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز تک بند ہوگئی۔ ان قیدیوں کی شعلہ فشاں تقریریں بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتی تھیں اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی دعائیں بھی دلوں کو نرم کرتی جا رہی تھیں۔ یزیدی پروپیگنڈے کے پردے چاک ہوتے جا رہے تھے۔ حق جیت رہا تھا، باطل ہارتا جا رہا تھا۔

ان قیدیوں نے رسول اللہ سے اپنی نسبت کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی کردار و عمل سے بھی اپنی عظمت ثابت کر دی تھی۔ کوفے کے لوگوں کو اسلام کے نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے مکروہ چہرے اب صاف نظر آنے لگے تھے۔ "وہ لوگ جنہوں نے رسول کے بیٹے کو قتل کیا ہے، کیا قیامت کے روز حسین ابن علی علیہ السلام کے جد سے شفاعت کی امید کرسکتے ہیں۔؟ خدا کی قسم اللہ کے رسول ہرگز ان کی شفاعت نہیں کریں گے۔ قاتلان حسین ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور وہ لوگ جو قاتلان حسین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، کیا بروز حشر پیغمبرِ اسلام کا سامنا کر پائیں گے۔؟

تحریر: سویرا بتول

Read 781 times