Print this page

سب انقلابی فاطمی و زاہرائی ہیں

Rate this item
(0 votes)
سب انقلابی فاطمی و زاہرائی ہیں

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور استقامت و مقاومت کا نظریہ باہم جڑے ہوئے ہیں۔ استقامت و مزاحمت کے مفہوم کو سیرت فاطمہ (ع) سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے کہ فاطمہ زہراء اسوہ استقامت و مقاومت ہیں۔ خداوند عالم نے مجھ حقیر پر بہت بڑا لطف فرمایا کہ زندگی کے شب و روز میں عصر حاضر کی استقامت و مقاومت کی بڑی بڑی شخصیات کو دیکھنے، ملنے اور ان سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔ امام خمینی (رح) سے لیکر شہید سید حسن نصراللہ، شہید قاسم سلیمانی، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے نہ صرف بالمشافہ ملنے بلکہ ان کو درک کرنے کا موقع ملا۔ ان میں سے ہر ایک دور حاضر کا استقامت و مقاومت کا مضبوط قلعہ اور بلند و بالا پہاڑ ہے۔ ان شخصیات کی زندگیوں کے سرسری مطالعہ سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ان کی زندگیاں طاغوتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت و استقامت کا استعارہ ہیں۔ آج استقامت و مقاومت کا نام آتا ہے تو ان شخصیات کے روشن و مقدس چہرے آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے شروع ہو جاتے ہیں۔

ایک اور حقیقت جس کو باآسانی درک کیا جاسکتا ہے، وہ ان شخصیات کے عمل و کردار میں اسوہ فاطمی (ع) کا گہرا عمل دخل ہے۔ ان میں سے ہر شخصیت کو کسی نہ کسی مرحلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے متوسل ہوتے دیکھا یا سنا ہے۔ مشکل ترین لمحات میں حضرت زہرا (س) کی پناہ لینا ان کا وطیرہ تھا۔ حاج قاسم سلیمانی کی تو یہ ویڈیو فلم بھی اکثر قارئین کی نظروں سے گزری ہوگی، جس میں آپ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ "جب بھی ہم جنگ کی سختیوں میں، شدید دباؤ میں آتے اور کچھ نہ کرسکتے تو ہماری پناہ حضرت زہرا (س) تھیں۔" یہی تشبیہ ہم نے سید حسن نصراللہ اور مزاحمتی کمانڈروں کے بارے میں کئی بار سنی ہے۔ ایک مشہور مثال 33 روزہ جنگ کی ہے، جس میں مجاہدین نے حضرت زہرا (س) کے وجود اقدس کو محسوس کیا اور حزب اللہ کے مجاہدین کو فتع و نصرت کی بشارت دی۔

حزب اللہ کے جنوبی علاقے کے کمانڈر جناب حاجی ابوالفضل بیان کرتے ہیں۔ مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد میں تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کچھ دیر لیٹ گیا۔ میں نے خواب میں حضرت زینب (ع) کو دیکھا اور ان سے کہا کہ وہ حزب اللہ کی افواج کی حمایت کے لیے کچھ کریں۔ آپ نے اپنی والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اپنا مسئلہ ان کو بتائیں۔ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں گیا اور ان سے شکایت کی۔ آپ  نے کہا: "خدا تمہارے ساتھ ہے، ہم بھی آپکے لیے دعا کرتے ہیں۔" میں نے پھر اصرار کیا، آپ  نے کہا: اچھا  دیکھتے ہیں۔ تیسری بار اصرار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ دشمن کے کم از کم ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرائیں، جو فوج کو ہمارے علاقے میں اتار رہے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: "بہت اچھا!" اسی وقت آپ نے اپنی چادر کے نیچے سے ایک رومال نکال کر اوپر پھینکا اور فرمایا: "تمہاری خواہش پوری ہوگئی۔"

میں اٹھا، دوسرے کمرے میں گیا، جہاں کمانڈروں کا ایک گروپ موجود تھا اور خواب کا  واقعہ بیان کیا۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی، وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے فون اٹھایا، چند الفاظ بولے اور وہ سجدے میں گر گیا۔ سجدے میں خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد کہا دشمن کا ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس لمحے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے رومال کو آسمان پر پھینکا، اسی لمحے دشمن کے ایک ہیلی کاپٹر کو حزب اللہ کے ایک دستے نے معجزانہ طور پر نشانہ بنایا۔ جس شخص نے ہیلی کاپٹر کو مار گرایا تھا، وہ اس کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: میں کمرے میں تھا اور میرے ذہن میں میزائل لے کر باہر جانے کا خیال آیا۔ میں باہر نکلا، مجھے لگا کہ میزائل سگنل دے رہا ہے، لیکن آسمان پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں نے فائر کیا، اچانک میں نے دیکھا کہ آسمان پر کسی چیز نے آگ پکڑ لی اور وہ اسرائیلی ہیلی کاپٹر تھا۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ء میں ایران میں ایک شماریاتی مطالعہ یا دوسرے لفظوں میں سروے کیا گیا، جس سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جہاد کے لیے شہداء کا سب سے بڑا محرک امام حسین (ع) کی ذات تھی۔ لیکن مجاہدین کے لئے سب سے بڑا سہارا حضرت زہرا (س) تھیں، جن سے مجاہدین توسل کرتے تھے۔ اس تعلق کی انتہاء ہم رہبر معظم انقلاب کے اس بیان میں دیکھتے ہیں: "میں ہر سال اپنے ملک کے لئے آئندہ ایک سال کا رزق فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سوگ کے ایام میں حاصل کرتا ہوں۔" اس رشتے و تعلق کا راز کیا ہے۔؟ ہمارے مجاہدین، بزرگان اور روحانی پیشوا اتنے "زہرائی" و "فاطمی" کیوں ہیں۔؟ اس تعلق کو سمجھنے کے لیے ہمیں قدرے گہرائی میں جانا ہوگا اور انقلاب اور حضرت زہرا (س) کے درمیان تعلق کو سمجھنا ہوگا۔

آئیے رہبر انقلاب کے بیان کا حوالہ دیتے ہیں۔ جہاں وہ کہتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے حضرت زہرا (س) کا نام محفلوں میں تھا، لیکن اتنا گہرا، وسیع اور دلوں سے اٹھنے والا نہیں تھا۔ عراق ایران جنگ یعنی اس دفاع مقدس کے دوران، کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپریشن کا کوڈ "یا زہرا" یا ہیڈ بینڈ "یا زہرا" ہونا چاہیئے؛ لیکن لوگوں نے خود ایسا کیا۔ یہ ایک خدائی سلسلہ اور واقعہ تھا۔ مجاہدین کی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے عقیدت کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا۔ اس تعلق کا راز ایک لفظ میں ہے: "کوثر،" سورہ کوثر کفار کے اس طعنے کے جواب میں کہ "تم ابتر ہو۔" نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ہم نے تمہیں کوثر دیا ہے۔" یعنی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو وسعت و عظمت بخشی۔ کوثر کا مطلب ہے، وہ جو ضرب کرتا ہے، بڑھاتا ہے، جاری رکھتا ہے اور بہاؤ پیدا کرتا ہے۔

حضرت زہرا (س) "کوثر ہدایت" ہیں۔ اسلامی انقلاب بھی کوثر ہے۔ یہ ایک قوم کو بڑھاتا، بلند کرتا، زندہ کرتا اور سربلند کرتا ہے۔ عظیم انقلابی کوثر ہیں۔ کوثری و فاطمی  ایسے ہی ہوتے ہیں۔ حاج قاسم، سید حسن، شہداء۔۔۔۔ سب کی ایک مشترک خصوصیت ہے: سخت گرفتاری اور مشکلات میں دین کی ترویج، ولی حق کا ساتھ دینا، مظلوم کا دفاع کرنا اور ظالم کے مقابلے میں کھڑا ہونا۔ شہداء کو حضرت زہراء کا سب سے زیادہ سہارا تھا، کیونکہ شہداء نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو درک کیا۔ ہر شہید ہدایت کی شمع ہے، جس طرح حضرت زہرا ؑ ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ مقاومت و استقامت کی ثقافت حضرت زہراء کی ثقافت ہے۔ مجاہد و شہداء کا مطلب ہے "کوثر بننا": پھیلنا، بڑھنا، بلند ہونا۔ لیکن یہ ایک شخص میں کیسے شکل اختیار کرتا ہے؟ اس کا جواب سورہ کوثر کی دوسری آیت میں ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور اپنے آپ کو قربان کرو۔" محبت اور نفرت کا مطلب ہے، ولایت سے محبت اور دشمن سے نفرت۔

جب ایک مجاہد ان دو مقدس احساسات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو وہ زہرائی بن جاتا ہے۔ وہ ہدایت یافتہ اور رہنمائی کرتا ہے۔ وہ  قیام کرتا ہے، اٹھتا ہے اور وسعت اختیار کر جاتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے فیوضات ایک چھوٹے سے مجموعے میں جو پوری انسانیت کے مجموعے کے مقابلے میں چھوٹا شمار ہوتا ہے، محدود نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی نگاہ ڈالیں تو پوری بشریت حضرت فاطمہ زہرا کی ممنون احسان نظر آئے گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ حقیقت ہے۔ بشریت جس طرح اسلام کی مرہون منت ہے، قرآن کی مرہون منت ہے، انبیاء اور پیغمبران خدا اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرہون منت ہے، اسی طرح حضرت فاطمہ زہراء کی مرہون منت ہے۔ آج بھی اسی طرح ہے اور حضرت فاطمہ زہراء کی معنویت و نورانیت روز بروز آشکارا تر ہوگی اور بشریت اس کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گی۔

بھائیو، جو ہمارا فریضہ ہے، وہ یہ ہے کہ خود کو اس خاندان کے (محب ہونے کے) لائق بنائیں۔ یقیناً خاندان رسالت اور اس خاندان سے وابستہ افراد سے منسوب ہونا اور ان کے عقیدت مند کے طور پر معروف ہونا دشوار ہے۔ ہم زیارت میں پڑھتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت اور آپ کی دوستی سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ خیر کثیر جس کی خوش خبری خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس سورہ مبارکہ میں دی اور فرمایا کہ "انّا اعطینک الکوثر" جس سے مراد حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں، درحقیقت تمام نیکیوں اور خیر کا مجموعہ ہے کہ دین نبوی کے سرچشمے سے پوری بشریت اور تمام خلائق کے لئے جاری ہے۔

بہت سوں نے اس کو چھپانے اور اس کی نفی کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ "واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون" ہمیں خود کو اس مرکز نور سے قریب کرنا چاہیئے اور مرکز نور سے قریب ہونے کے لئے نورانی ہونا شرط ہے۔ صرف محبت کے دعوے سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے خود کو نورانی بنائیں۔ وہ عمل جو محبت، ولایت اور ایمان کا لازمہ اور تقاضا ہے۔ اپنے عمل کے ذریعے اس خاندان سے خود کو وابستہ کریں۔ آئیے اس مقدس محبت اور نفرت کو اپنے قلب و ذہن اور روح و رواں میں زندہ اور محفوظ رکھیں۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 8 times