Print this page

مذہب اشعری اور معتزلہ میں تبدیلیاں

Rate this item
(3 votes)

ابوالحسن اشعری نے چوتھی ہجری کے شروع میں مذہب معتزلہ کے خلاف قیام کیا اور اپنے کلامی نظریات کو منتشر کرنا شروع کیا.

انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں مشاہدہ کیا کہ ان کے بہت سے شاگر ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ ان کے نظریات کو اہل حدیث کی ظاہرگرائی اور معتزلہ کی عقل گرائی کے مقابلہ میں پناہ گاہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری نے چوتھی ہجری کے شروع میں مذہب معتزلہ کے خلاف قیام کیا اور اپنے کلامی نظریات کو منتشر کرنا شروع کیا ،انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں مشاہدہ کیا کہ ان کے بہت سے شاگر ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ ان کے نظریات کو اہل حدیث کی ظاہرگرائی اور معتزلہ کی عقل گرائی کے مقابلہ میں پناہ گاہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے : مکتب اشعری خود اس کے موسس کے سامنے تاسیس ہوگیا اور اسی روز سے اس مذہب کی مخالفتیں بھی شروع ہوگئیں ۔

دوسروں سے پہلے معتزلیوں نے ان کی مخالفت شروع کی کیونکہ یہ اپنے مذہب کے دیرینہ شاگرد سے ناراض تھے ۔ ان کے علاوہ اہل حدیث اور حنبلیوں نے بھی ان کی مخالفت کی اور کہا : یہ نیا آدمی کون ہے جو معتزلہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے بھی اس بات کی جرائت نہیں کرتا کہ کم یا زیادہ دینی نصوص و ظواہر سے استناد کرے؟

دوسری طرف جب اشعری بصرہ اور بغداد میں دینی عقاید کی اصلاح کررہے تھے ، اسی وقت سمرقند (اسلامی سرزمین کے مشرق میں واقع ہے)میں ابومنصور ماتریدی (متوفی ۳۳۳) نے اشعری سے مشابہ نظریات کے ساتھ ظہور کیا، اور اس کے نزدیکی شاگردوں نے مذہب اشعری کو ایک ناقص اورناموفق اصلاح کے عنوان سے شمار کیا اور ان کے مذہب کو محافظ اور ابن الوقت سے متہم کیا اوروہ عقاید ماتریدی سے دفاع کرتے تھے کیونکہ ماتریدی کو اہل تسنن کا احیاء کرنے والا سمجھتے تھے ۔

۲۔ سیاسی تبدیلیاں اور مذہب اشعری کا سرکاری ہونا

سیاسی نقطہ نظر سے سلجوقیوں(تقریبا پانچویں صدی کے نصف میں) کو حکومت ملنے تک مکتب اشعری کی اچھی حالت نہیں تھی کیونکہ ان سے پہلے ایک صدی سے زیادہ (۳۲۱ ۔ ۴۴۷) آل بویہ نے حکومت کی ، آل بویہ کی حکومت کے دوران معتزلہ اچھی حالت میں تھے اور اشاعرہ کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ، کیونکہ آل بویہ ایک طرف تو مذہب شیعہ کی پیروی کرتے تھے اور معتزلہ سے دفاع کرتے تھے اور دوسری طرف ان میں سے بعض اہل علم و فضل و ادب ، آزاد اندیشی سے دفاع کرتے تھے ۔ اس وجہ سے دربار آل بویہ میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ نے زیادہ رونق پائی ۔ ابن العمید اور اسی طرح صاحب بن عباد، آل بویہ کے دانشمند وزیر اشعریوں کے مخالف تھے ۔

سلجوقیوں کو حکومت ملنے کے بعد اشعریوں کی حالت بھی بدل گئی اور مذہب اشعری کو اہل سنت کے درمیان ایک ممتاز مقام مل گیا کیونکہ سلجوقی وزیر نظام الملک(متوفی ۴۸۵) نے حکم دیا کہ بغداد اور نیشاپور کے دونوں مدرسوں میں مذہب اشعری کے مطابق تعلیم دی جائے ۔اس کے بعد سے اشعری مذہب ، اہل سنت کا قانونی مذہب شمار ہونے لگا ، اشاعرہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالف کلامی فرقوں سے جنگ کرنا شروع کریا ۔

ان کی مخالفت کی وجہ کلامی نظریات کے علاوہ سیاسی علت بھی تھی کیونکہ بعض جگہوں پر جہاں ان کے مخالف بعض حکومتوں کی حمایت کررہے تھے وہیں وہ ان کی مدافع حکومتوں سے جنگ بھی کررہے تھے ۔

ہانری کورین فرانسوی نے غزالی کی مخالفت کے سلسلہ میں باطنیان اور فلاسفہ سے کہا ہے :

غزالی کی باطنیان اور فلاسفہ سے دشمنی اصل میں حکومت فاطمی قاہرہ سے دشمنی کرنا تھا کیونکہ وہ فلاسفہ کی حکومت کی حفاظت کررہے تھے اور باطنی کے اصول وعقاید سے اپنے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔

” تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے بھی غزالی کی باطنیہ سے مخالفت کے متعلق کہا ہے : اسلام کو زنادقہ اور مجوس کے مقابلہ میں باطنیہ سے زیادہ خطرہ نہیں تھا بلکہ اگر خطرہ تھا تو وہ اسلام سے زیادہ خلافت کو خطرہ تھا ۔ غزالی نے باطنیہ کے مقابلہ میں جو جنگ شروع کی تھی اس میں دین سے زیادہ سیاسی پہلو پایا جاتا تھا ۔ یہ بات ان کی کتاب ” المستظھریہ“ یا فضائح الباطنیہ و فضائل المستظھریہ“ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔

۳۔ اشاعرہ کی عقل محوری

اگر چہ ظاہر پر عمل کرنے والوں (اہل حدیث) کی معتزلہ پر کامیابی کے بعد عقل پر عمل کرنے والوں کا ستارہ غروب ہوگیا لیکن کامل طور سے ختم نہیں ہوا اور یہی نہیں بلکہ صدیوں بعد تک معتزلہ کے ماننے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کا دفاع کرتے رہے بلکہ اشاعرہ کے متکلمین کے درمیان کچھ برجستہ چہرے ایسے تھے جو تفکر عقلائی کے قائل تھے اور بعض جگہوں پر اشاعرہ کے عقاید کی مخالفت کرتے یا اس کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔

الف : خیالی اور عبدالحکیم

”تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے اس متعلق کہا ہے: اشاعرہ کے آسانی سے حاصل شدہ عقاید بہت جلد تبدیل ہوگئے ، یعنی اشاعرہ نے عقل کی طرف رجحان کرلیا ، یہاں تک کہ وہ اس کو نص پر ترجیح دینے لگے، اور جیسا کہ خیالی اور عبدالحکیم نے اپنی کتاب ”عقاید نسفی“ کے حواشی پر کہا ہے: جن جگہوں پر نص ایسی چیز کی حکایت کرتی ہو جس کو عقل منع کرتی ہو تو اس نص کی تاویل کرنا چاہئے کیونکہ عقل ، نقل پر مقدم ہے ، عقل اصل ہے اور نقل فرع ہے کیونکہ نقل ، اثبات صانع ،اثبات عالمیت اور قدرت پر متوقف ہے ۔ لہذا نقل کے ذریعہ عقل کو باطل کرنا ایسا ہے جیسے اصل کو فرع کے ذریعہ باطل کردیا ہو اور یہ عقل و نقل دونوں کو باطل کرنا ہے ۔

ب : شیخ محمد عبدہ

متاخرین اشاعرہ میں عقل پر عمل کرنے والے بہت زیادہ ظاہر ہوئے منجملہ شیخ محمد عبدہ (متوفی۱۳۲۳) بھی ہیں وہ اشاعرہ مذہب کی پیروی کرتے تھے لیکن اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان اختلافی مسائل میں وہ ایسے نظریات کو بیان کرتے تھے جن میں اشاعرہ کی مخالفت عیاں ہوتی تھی۔

بہتر ہے یہاںپر ان کے نظریہ حسن و قبح عقلی (اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان سب سے ہم مسئلہ) کو بیان کیا جائے :

انہوں نے اس آیت ” یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر“ کے تفسیر میں کہا ہے : مشہور یہ ہے کہ عقل سالم اس کو صحیح سمجھتی ہیں اور پاک و پاکیزہ دل ،فطرت و مصلحت سے ہماہنگ ہونے کی وجہ سے اس کوپسند کرتے ہیں اور اس بات کے منکر ہیں کہ عقل سالم اس کا انکار کرتی ہے اور پاک و پاکیزہ دل اس سے متنفر ہیں لیکن ”معروف “ کی تفسیر جس کا شریعت نے حکم دیا ہے اور ”منکر“ کی تعریف جس سے شریعت نے منع کیا ہے اس کی تفسیر واضح ہے ۔اور ہماری اس بات کے معنی حسن و قبلح عقلی کے سلسلہ میں معتزلہ کی طرفداری اور اشاعرہ کی مخالفت نہیں ہے ، ہم ان دونوں نظریوں میں سے ایک حصہ کے موافق اور ایک کے مخالف ہیں ،اس بنیاد پر عقل کی قدرت کو حسن افعال کو درک کرنے میں کلی طور پر انکار نہیں کرتے (جس طرح اشاعرہ منکر ہیں)لیکن کسی چیز کو خداوند عالم کے اوپر واجب بھی نہیں جانتے (جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے) ۔

ج : شیخ شلتوت

اہل سنت کے متاخرین میں عقل پر عمل کرنے والوں میں شیخ شلتوت بھی ہیں، آپ مسئلہ جبر واختیار میں اشاعرہ کے مسئلہ کسب کو جبر کی مشکل حل کرنے کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے :تفسیر کسب یہ ہے کہ فعل کے محقق ہونے میں اس کی قدرت کے موثر ہوئے بغیر، فعل اور قدرت انسان کے درمیان تقارن پایا جائے ، اس کے علاوہ اس کی لغوی اصطلاح اور قرآنی اصطلاح میں ہماہنگی نہ ہو یہ مسئلہ تکلیف کی تصحیح و توجیہ ، اصل عدل(الہی) اور (انسان کی)مسئولیت کی ذمہ دارنہیں ہے کیونکہ مذکورہ مقارنت خداوندعالم کے ذریعہ قدرت انسان کے ظرف میں ایجاد شدہ فعل کے نتیجہ میں واقع ہوئی ہے ،انسان کی مخلوق اور قدرت کے تحت نہیں، تاکہ مصحح انسان کے فعل کی بانسبت ہو اور فعل جس طرح انسان کی قدرت کے ساتھ مقارن ہے اسی طرح سمع و بصر اور علم انسان سے بھی مقارن ہے ۔

اس صورت میں قدرت کوکونسا امتیاز پیایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ فعل کی مقارنت انسان کی اپنے فعل کی طرف نسبت دینا کا سبب ہو ؟

انہوں نے اس متعلق اپنے نظریہ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے:

میرا نظریہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے قدرت اور ارادہ کو عبث و بیہودہ انسان میں خلق نہیں کیا ہے بلکہ یہ دونوں تکلیف و جزائاور انسان کے افعال سے منسوب ہونے کے ملاک پر منحصرہے جب بھی انسان خیر یا شر کے راستہ کوانتخاب کرلے تو خداوند عالم اس کو قہری طور پر اس راستہ پر چلنے سے منع نہیں کرتا ، اگر چہ انسان اور اس کی قدرت و اختیار،خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہیں ۔ وہ اگر چاہے تو کامل طور سے خیر کے جذبہ کو اس سے لے سکتا ہے تاکہ شر اس کی پوری ذات کو گھیر لے ، نیز اگر چاہے تو اس سے شر کے جاذبہ کو سلب کرسکتا ہے تاکہ خوبی اس کی ذات کا احاطہ کرلے ، لیکن مسئلہ تکلیف میں حکمت الہی اور آزمائش اسی چیز کا اقتضاء کرتی ہے جو انسان کے اندر سموئی گئی ہے ۔

اشعری نے ایک نیا طریقہ پیش کیا تاکہ اس کے ذریعہ عقل پر عمل کرنے والوں(معتزلہ) اور ظاہر پر عمل کرنےوالوں( اہل حدیث ) کے درمیان سے تضاد کو برطرف کرے ، اس وجہ سے وہ دونوں گروہوں کےموافق بھی تھے اور مخالف بھی۔ عقل پر عمل کرنے والوں سے اس لئے موفق تھے کہ دینی عقاید کو ثابت کرنے میں عقلی استدلال بدعت اور حرام نہیں ہے بلکہ بہتر اور پسندید ہ ہے اور اس کے متعلق انہوں نے ”استحسان الخوض فی علم الکلام“ جیسی کتاب لکھی ہے جب کہ اہل حدیث علم کلام اور عقلی استدلال کو بدعت اور حرام جانتے تھے ۔

دوسری طرف عقل اور ظواہر دینی کے درمیان تعارض کے وقت ظواہر کو مقدم کرتے تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے صفات ذات اور صفات خبریہ کی بحث میں معتزلہ کے عقاید کی مخالفت کی ، جس طرح سے اصل حسن وقبح عقلی اوراس کی فروعات کو مردود تسلیم کیااور کسی بھی واجب عقلی کو قبول نہیں کیا اور اس متعلق اہل حدیث کے ہمفکر تھے اورچونکہ ظواہر کو محفوظ کرنے میں تاویل کو صحیح نہ سمجھتے ہوئے بعض موارد میں اصل تنزیہ اور صفات جمال جلال سے منافات پائی جاتی تھی لہذا عقلی استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے جدید کلامی فرضیات اختراع کئے ، یا اگر یہ فرضیات پہلے سے بیان شدہ تھے تو ان کو تسلیم کرنے کاحکم دیا یہ فرضیات، علم کلام میں مخصوص عقاید و نظریات کو تشکیل دیتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری کی نئی تخلیقات

الف : خداوند عالم کے ازلی صفات

خداوند عالم علم، قدرت،حیات ، ارادہ وغیرہ جیسے صفات سے متصف ہے ،متکلمین میں سے کسی کو بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صفات ، صفات کمال ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بھی ذکر ہوئے ہیں لیکن اصل بحث خدا وند عالم کے لئے ان صفات کے محقق ہونے کی کیفیت میں ہے کہ کیا ان کی واقعیت عین ذات الہی ہے یا اس کی ذات پر زاید ہیں؟

اکثر معتزلہ ،خداوند عالم کے ازلی صفات کو اس کی عین ذات سمجھتے ہیں اور بعض اہل حدیث (مشبہ) ان صفات کو اس کی ذات سے زائد اور مغایر سمجھتے ہیں اور شیخ اشعری نے بھی نظریہ زائد بر ذات کو انتخاب کیا لیکن اس میں ایک تبصرہ کا اضافہ کیا ، وہ تبصرہ یہ ہے : یہ ازلی صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات، اگر چہ اپنی حقیقت میں قائم بالذات ہیں، جیسا کہ شہرستانی نے کہا ہے:

قال ابوالحسن : الباری تعالی عالم بعلم، قادر بقدرة، حی بحیاة، مرید بارادة، ․․․ قال : و ھذہ الصفات ازلیة قائمة بذاتہ تعالی ، لایقال : ھی ہو، ولا ھی غیرہ، لا ھو، ولا ، لاغیرہ۔

ابوالحسن اشعری نے کہا ہے: خداوند عالم علم زائد کے ذریعہ عالم، قدرت کے ذریعہ قادر، حیات کے ذریعہ حی اور ارادہ کے ذریعہ مرید ہے ،خداوند عالم کے یہ ازلی اور قائم بالذات صفات نہیں کہے جاتے جو عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ہیں ۔

مذکورہ تبصرہ کے متعلق دو نکتوں کو بیان کرتے ہیں:

۱۔ یہ مطلب شیخ اشعری کی فکر کی ایجاد نہیں ہے کیونکہ ان سے پہلے عبداللہ بن کلاب(متوفی ۲۴۰) نے بیان کیا ہے ۔ اشعری نے ”مقالات الاسلامین“ میں ان کے نظریہ کو اس طرح بیان کیا ہے : ” خداوند عالم کے نام اور صفات اس کی ذات میں موجود ہیں، نہ وہ خود ہیں اور نہ ان کے علاوہ کچھ اورہے ، یہ ذات حق کے ساتھ ثابت ہیں، لیکن صفتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ثابت ہونا جائزنہیں ہے ، اشعری کے نقل کے مطابق سلیمان بن جریر زیدی نے بھی خداوند عالم کے صفات کے متعلق یہ بات کہی ہے ۔

۲۔ اشعری کا اس بات سے ہدف یہ ہے کہ لزوم تعدد قدماکے مشہور اعتراض کے ذریعہ ان لوگوں کا جواب دیں جو صفات کے زائد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، کیونکہ مذکورہ اعتراض اس بات پر مبتنی ہے کہ ذات ، صفات سے جدا ہے جیسا کہ ابن خلدون نے معتزلہ کی طرف سے ذات پر صفات کے زاید ہونے کے نظریہ کو تعدد قدما کے اعتراض کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہا ہے :

” وھو مردود بان الصفات لیست عین الذات و لا غیرھا“ مذکورہ اعتراض وارد نہیں ہے کیونکہ صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ۔

اسی لئے اشعری نے صفات کے منکرین و قائلین کے درمیان درمیانی راستہ کا انتخاب کیا ، تاکہ تعدد قدما کا اعتراض واردنہ ہوسکے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات مذکورہ اعتراض کیلئے صحیح جواب نہیں ہے ، کیونکہ اگر صفات ازلی کی کوئی حقیقت ہو اور وہ حقیقت ذات کی عین حقیقت نہ ہو تو یہ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنے وجود میں ذات سے بے نیاز ہیں یا اس کے محتا ج ہیں؟ پہلی صورت میں تعدد قدما لازم آتے ہیں، اور دوسری صورت میں کس طرح ممکن ہے کہ جس ذات میں صفات نہ ہوں وہ ان کو ایجاد کرے؟

ذات نا یافتہ از ہستی ، بخش

کی تواند کہ شود ہستی بخش؟

ب : صفات خبری

قرآن کریم میں خداوندعالم کیلئے ید، وجہ، استواء برعرش وغیرہ جیسے صفات ذکر ہوئے ہیں ان صفات کو صفات خبریہ کہتے ہیں، اور ان سے مربوط آیات کو آیات متشابہ کہتے ہیں ۔ معتزلہ نے ان آیات کی تفسیر میں تاویل کا سہارا لیا ہے اور اہل حدیث میں سے مجسمہ اور مشبھہ نے ان کے ظواہر سے استفادہ کیا ہے ۔ اشعری نے جس طریقہ کو انتخاب کیا وہ ان دونوں کے درمیان کاطریقہ ہے کیونکہ انہوں نے معتزلہ کی تاویل کو قبول نہیں کیا اور کہا ہے : خداوند عالم میں یقینا مذکورہ صفات پائے جاتے ہیں لیکن ان کی کیفیت کے متعلق بحث کرنا جائز نہیں ہے ۔ پس اس کی کیفیت میں اظہار نظر کئے بغیر اس کے ہاتھ اور چہرہ موجود ہے ۔ اس نظریہ کو خداوند عالم کے صفات میں اشعری کی مشہور اصل کے عنوان سے یاد کی جاتاہے ۔یعنی اس کی کیفیت کے متعلق سوائے کئے بغیر ایمان رکھنا ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشعری نے اس معروف اصل کو ایجاد نہیں کیا ہے ، اہل حدیث اور حنابلہ بھی اس روش سے استفادہ کرتے تھے ۔ شہرستانی نے قرآن کریم کی متشابہ آیات کی تفسیر سے متعلق لکھا ہے :

احمد بن حنبل ، داوٴود بن علی اصفہانی اور سلف کے راہنماؤں نے متقدمین اہل حدیث جیسے مالک ابن انس اور مقاتل بن سلیمان کی روش کو انتخاب کیا ہے اور کہا ہے : جو کچھ قرآن اور سنت میں بیان ہوا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تاویل سے پرہیز کرتے ہیں، اور یقینی طور پر یہ بھی جانتے ہیں کہ خداوند عالم اپنی کسی بھی مخلوق سے مشابہ نہیں ہے ۔

ابن خلدون نے بھی قرآن کریم کی متشابہ آیات کی تفسیر اور صفات خبریہ میں معتزلہ اور مشبھہ کے طریقہ کے خلاف اشعری کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :

” فتوسط بین الطرق و نفی التشبیہ و اثبت الصفات المعنویة و قصرالتنزیہ علی ما قصرہ علیہ السلف “

اشعری نے درمیانی راستہ کو ثابت کیا ہے اور تنزیہ کے سلسلہ میں اسی چیز پر اکتفاء کیا جس پر متقدمین نے اکتفاء کیا تھا ۔

اس طریقہ کو طریقہ تفویض (تاویل کے مقابلہ میں) سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، جیسا کہ شیخ محمد عبدہ نے متقدمین اور متاخرین کے طریقہ کو بیان کیا ہے جس میں کتاب و سنت کی وہ نصوص جو اصل تنزیہ سے منافات رکھتی ہیں، بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

سلف ، اصل تنزیہ سے تفویض کی بنیاد پر دفاع کرتے تھے اور خلف اصل تنزیہ کو تاویل کی بنیاد پر محفوظ کرتے تھے ۔

ج : حدوث و قدم کلام الہی

اہل حدیث اور حنابلہ ، کلام الہی (قرآن کریم) کے قدیم ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور اس کے حادیث ہونے کے اعتقاد کو کفر کا باعث سمجھتے ہیں جیسا کہ احمد بن حنبل نے کہا ہے:

قرآن کریم کلام الہی ہے اور مخلوق نہیں ہے جو بھی قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا معتقد ہو وہ کافر ہے اور جو اس مسئلہ میں توقف کرے اور قرآن کو نہ حادث مانے اور نہ قدیم، اس کی فکر حادث ہونے کے قائلین سے بھی زیادہ خراب ہے ۔

ان کے مقابلہ میں معتزلہ قرآن کریم کے حادث ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کے اس شدید اصرار سے بہت تلخ حوادث رونما ہوئے جو ”محنہ“ کے دور سے مشہور ہے ۔

ابوالحسن اشعری نے اس کلامی اختلاف میں اہل حدیث کے عقیدہ کا دفاع کیا ہے لیکن کلام الہی کے لئے دو چیزوں کے قائل ہوگئے : ایک کلام نفسی اور دوسرے کلام لفظی، اور کہا کہ جو کچھ قدیم ہے وہ کلام نفسی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ وہ ابراز و اظہار کا وسیلہ ہے ۔

شہرستانی نے اشعری کے نظریہ کو کلام الہی کے سلسلہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

انبیاء کے اوپر فرشتوں کے ذریعہ سے جو الفاظ اور عبارتیں وحی ہوتی ہیں وہ کلام کے ازلی ہونے پر دلیلیں اور نشانیاں ہیں اور دلیل و نشانی ، مخلوق اور حادث ہے ، لیکن مدلول ، قدیم اور ازلی ہے، قرائت اور مقروء ، تلاوت اور متلو کے درمیان فرق ذکر اور مذکور کی طرح ہے کہ ذکر حادث لیکن مذکور قدیم ہے ۔ اشعری نے اپنی اس دقت و نظر کو اعمال کرکے حشویہ کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ حروف اور کلمات کو قدیم جانتے ہیں ،لیکن کلام کی حقیقت اشعری کی نظر میں قائم بالنفس کے معنی میں ہے ۔ جو کہ عبارت اور الفاظ کے علاوہ کچھ اور ہے اور عبارت و لفظ اس پر دلیل ہیں، اس بناء پر اشعری کی نظر میں متکلم وہ ہے جس میں صفت کلام، اس کی ذات سے قائم ہو اورمعتزلہ کی نظر میں متکلم وہ ہے جو کلام کو ایجاد کرے ۔

د : خلق افعال و کسب

معتزلہ اور اہل حدیث کے درمیان اختلافات میں سے ایک اختلاف مسئلہ ”قدر“ یا ”خلق اعمال“ ہے معتزلہ نے خداوند عالم کی حکمت و عدل سے دفاع کرنے کی غرض سے مسئلہ قدر کا انتخاب کیا اور انسان کے اختیاری افعال کو خداوندعالم کے ارادہ اور قدر الہی سے باہر سمجھا ہے اس کو اپنے افعال کا خالق تصور کرتے تھے ۔ ان کے مقابلہ میں اہل حدیث نے خداوند عالم کے عام ارادہ اور قدری الہی نیز خالقیت میں اصل توحید کو بچانے کے لئے انسان سے ہر طرح کی خالقیت کی نفی کی ہے اورانسان کے تمام اعمال و افعال کو خدا کی مخلوق سمجھتے ہیں اس عقیدہ کو ”خلق اعمال“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

شیخ اشعری نے مذہب معتزلہ سے دوری کااعلان کرنے کے بعد ”خلق اعمال“ کے عقیدہ کی حمایت ظاہر کی اور جس رسالہ میں اپنے عقاید کو اہل سنت کے نمایندہ کے طور پر لکھا ہے اس میں اس عقیدہ کی تصریح کرتے ہوئے کہا : ” ان اعمال العباد مخلوقہ للہ مقدورة“۔

بندوں کے افعال ، خداوند عالم کی مخلوق اور مقدور ہیں ۔

لیکن اصل اختیار کی توجیہ اور نظریہ جبرکے برے نتائج سے رہائی حاصل کرنے کیلئے نظریہ ”کسب“ کا انتخاب کیا یہ نظریہ ان سے پہلے حسین نجار اور ضرار بن عمرو کے ذریعہ بیان ہوچکا تھا ۔

حقیقت کسب کی تفسیر میں اشعری متکلمین اور اساتید نے مختلف نظریات بیان کئے ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ مشہور نظریہ یہ ہے کہ کسب یعنی انسان کے فعل کا اس کی قدرت اور ارادہ کے ساتھ مقارن ہونا ہے اس بات کی طرف توجہ کئے بغیر کہ اس کی قدرت اور اس کے ارادہ کا اس کو محقق کرنے میں کوئی اثر نہیں ہے ،جیسا کہ قوشجی نے کہا ہے:

” والمراد بکسبہ ایاہ مقارنتہ لقدرتہ و ارادتہ من غیر ان یکون ھنالک منہ تاثیر او مدخل فی وجودہ سوی کونہ محلا لہ “

کسب سے مراد انسان کے فعل اور اس کی قدرت و ارادہ میں مقارنت کا پایاجانا ہے ، اس چیز کی طرف توجہ کئے بغیر کہ انسان فعل کی پیدائش میں اس کا ظرف اور پیدائش کے علاوہ کوئی اور اثر رکھتا ہو ۔

نظریہ ”کسب“ پر صرف اشاعرہ نے ہی تنقید نہیں کی ہے کہ بلکہ معتزلہ کے بعض محققین نے بھی اس کو غلط بیان کیا ہے اور مبہم و معمہ جیسے نظریات میں ابوہاشم اور طفرہ ونظام کو بھی شمار کیا ہے ۔

احمد امین مصری نے اس کو نظریہ جبر میں ایک نئی تعبیر کے عنوان سے جانتے ہوئے کہا ہے: ” وھو ۔ کما تری۔ لایقدم فی الموضوع و لا یوخر، فھو شکل جدید فی التعبیر عن الجبر“ ۔ اس نظریہ نے (جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں) جبر کے موضوع میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے بلکہ اس کی نئی تعبیر ہے ۔

مآخذ :

کتاب فرق و مذاہب کلامی، ص ۱۸۷و ۱۹۵۔

Read 5847 times