Print this page

ماتریدیہ

Rate this item
(2 votes)

فرقہ ماتریدیہ سرزمیں ماوراء النھرمیں وجود میں آیا ہے جب ماوراء النھر کو مسلمانوں نے فتح کیا تو اس میں نیم خودمختار حکومتیں قائم ہوگئیں عباسی حکمران مامون نے بنی اسد بن سامان کو اس سرزمین کے بعض حصوں پر حکومت کے لۓ منتخب کیا۔

 

ماتریدیہ فرقے کا بانی ابومنصور ماتریدہ ہے جس کی پیدائیش 238 ہجری قمری اور وفات 333 ہجری قمری میں ہوئي ابو منصور ذکاوت و نبوغ و جدل میں کافی مہارت رکھتے تھے انہون نے اپنے فرقے کی تاسیس میں بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا ہے ان میں محمد بن مقاتل رازی ،ابو نصر عیاضی ،ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی اور نصیر جن یحی بلخی قابل ذکر ہیں ۔

ابو منصور نے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کرنے کے علاوہ بہت سے شاگردوں کی تربیت کی ہے ان میں ابوالقاسم حکیم سمرقندی ،علی رستغفنی ،ابو محمد عبدالکریم بردوی اور احمد عیاضی قابل ذکر ہیں ۔

ابو منصور نے تاویلات قرآن کے بارے میں ایک تاویلی تفسیر لکھی ہے اور علم کلام میں کتاب التوحید تحریر کی ہے جس میں مختلف فرقوں کے کلامی آراء کا ذکر کیا ہے ان کی دو اور کتابیں ہیں جس کے نام شرح فقہ الاکبر اور رسالۃ فی العقیدہ ہے ان کی فقہی کتابوں میں ماخذالشرایع والجدل قابل ذکر ہیں ۔

ماتریدیہ کی مشہورشخصیتیں

1- ابو یسر بزدوی

2-ابولمعین نسفی

3 -نجم الدین نسفی

4 -نورالدین صابونی

 

ماتریدیہ کی کلامی روش کے بارے مین تین قول ہیں ۔

1- ماتریدیہ کی روش اشعری کی طرح ہے

2 -ان کی روش معتزلہ سے نزدیک ہے

3 -اشعری اور معتزلہ کے مابین ہے

 

ماتریدیہ کے نزدیک عقل و سمع دین و شریعت کے سمجھنے کے دو اہم منابع ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت حصول نقل سے پہلے عقل سے ثابت ہوتی ہے اور ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرے اسی بناپر حسن و قبح عقلی پر بھی یقین رکھتے ہیں ،ان کے دیگر نظریات بطور اختصار حسب ذیل ہیں ۔

ماتریدیہ اور ابومنصور کا عقیدہ ہےکہ نصوص کو ان کے حقیقی معنی پر حمل کرنے سے تجسم و تشبیہ لازم آتی ہے بنابریں قرآن و حدیث میں مجاز کا استعمال ہواہے لھذا تاویل و تفویض ایسے اصول ہیں جن پر ماتریدیہ کے اصول عقائد استوار ہیں

 

ماتریدیہ کی نظر میں توحید کی کئي قسمیں ہیں ۔

1- توحید در صفات یعنی خدا کی کس صفت میں اس کا کوئي نظیر نہیں ہے ۔

2-توحید در ذات یعنی ذات خداوندی میں کثرت نہیں ہے ۔

3 -توحید در افعال یعنی نفی خدا اپنے افعال کی انجام دہی میں غیر خدا سے تاثیر قبول نہیں کرتا ہے ۔

4- توحید ربوبی یعنی انسان کے لۓ خدا کی معرفت فطری معرفت سے مکمل نہیں ہوتی اور اسے صرف عقل سے ہی مکمل کیا جاسکتا ہے ۔

 

تکلم خداوند

خدا کےتکلم پر ماتریدیہ جو دلیل لاتے ہیں وہ عقلی دلیل ہے جو جسب ذیل ہے ۔

کلام صفات مدح و کمال میں سے ہے اور خدا متعال حی و قدیم ہے اور اس کے قدم کی شرط میں سے ہے کہ تمام کمالات کا ثبوتا حامل ہو لھذا اس کا متکلم ہونا ضروری ہے ورنہ اس میں نقص لازم آے گا ۔

 

نبوت

اثبات نبوت اور عوام کا اسے قبول کرنا نبی کی طرف سے معجزہ پیش کۓ جانے پر اور اس کی طرف سے چلینج قبول کرنے پر منحصرہے ماتریدیہ کے نزدیک اولیاء کی کرامات بھی یہی حکم رکھتی ہی‍ں ۔

قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کے کلامی فرقوں میں ماتریدیہ کلام شیعہ سے سب سے زیادہ نزدیک ہے اوراس وقت مذھب اشعری کے بعد اہل سنت کا دوسرا کلامی مکتب ہے اور اہل سنت کی ایک بڑی تعداد بالخصوص مذھب حنفی کے پیرو کلام ماتریدی کی اتباع کرتے ہیں ۔

 

ماخذ

1 -الماتریدیہ دراسۃ وتقویما ڈاکٹر احمد بن عوض اللہ الحربی

2 -آراء ابن منصور الماتریدیہ الکلامیہ القاسم بن حسن

3 -ابکار والافکار الآمدی

4- تاویلات اہل السنۃ لابی منصور الماتریدی

5- رسالۃ فی الخلاف بین اشاعرہ والماتریدیہ محمد بن محمد بن شرف الخلیلی۔

Read 5782 times