Print this page

اشاعرہ

Rate this item
(10 votes)

ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات سیکھے ۔ اپنے علم میں غوروفکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان پر تنقید کی ۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کے کلامی نظریات کے ماننے والوں کو اشاعرہ کہا جاتا ہے، اشعریوں کی پیدائش کی جب تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں معتزلہ کا سب سے بڑا دخل رہا ہے ، چونکہ معتزلہ نے حقیقت کو کشف کرنے میں تغیر و تبدل کو ملاک قرار دیدیا تھا اس کے علاوہ ان کے فقہاء اور محدثین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوگئے تھے اور اس طرح ان کے درمیان اشعریوں کا ایک نیا فرقہ بن گیا ۔

سنتی عقاید کے لئے عقلی دلیل قائم کرنے کو اشاعرہ قبول کرتے تھے اور تیسری صدی کے آخر میں مندرجہ ذیل تین علماء نے اس روش پر بہت زیادہ کام کیا :

۱۔ بغداد میں ابوالحسن اشعری ۔

۲۔ مصر میں طحاوی (م ۳۳۱) ۔

۳۔ سمرقند میں ابومنصور ماتریدی (م ۳۳۳) ۔

اگر چہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا لیکن ان سب میں جو چیز مشترک تھی وہ معتزلہ کا مقابلہ تھا ۔

ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات سیکھے ۔ اپنے علم میں غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان پر تنقید کی ۔ ان کے پہلے عقاید میں سے کچھ عقیدے مندرجہ ذیل ہیں :

خلق قرآن (قرآن کریم کا مخلوق ہونا) ، خدا کا دکھائی نہ دینا، خداوند عالم کی طرف شرور کی نسبت دینے سے پرہیزکرنا وغیرہ۔ کتاب ”الابانة میں اشعری نے معتزلہ پر بہت زیادہ تنقید کی ہے ،اس کتاب میں معتزلہ کو قرآن کی تاویل کرنے والا بیان کیا ہے اور اپنے متعلق کہا ہے کہ ہم قرآن کریم ، سنت نبوی اور احمدبن حنبل کے طور طریقہ پر چلتے ہیں ۔ ابن عساکر نے ان کی ۹۸ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے چار کتابیں بہت زیادہ مشہور ہیں :

۱۔ اللمع فی الرد ع لی اھل الزیغ والبدع

۲۔ الابانة فی اصول الدیانة۔

۳۔ استحسان الخوض فی علم الکلام ۔

۴۔ مقالات الاسلامیین و اختلاف مصلین ۔

شروع کی تین کتابیں علم کلام اور چوتھی کتاب علم فرق کے بارے میں لکھی ہیں ۔

اشعری کے نظریات: اشعری نے عقلی اور نقلی روش کو معتدل روش کے عنوان سے انتخاب کیا ، مثلا وہ توحید کے مسئلہ میں ذات پر صفات کے زائد ہونے کے قائل تھے اور ان کے نظریات میں میانہ روی پائی جاتی تھی ۔ اشاعرہ ، وجود خدا کو تین طریقوں سے ثابت کرتے ہیں : روش نقلی، روش عقلی اور گذشتہ صوفی علماء کی روش(جیسے غزالی اور فخر الدین رازی) ۔فخر الدین رازی کے نظریہ کی بنیاد پر اشاعرہ خدا وند عالم کے وجود کے اثبات کے لئے دو فلسفی دلیلیں یعنی برہان امکان اجسام (ذوات) اور برہان امکان اعراض (صفات) اور دو کلامی دلیلیں یعنی برہان اجسام اور برہان اعراض سے استفادہ کرتے ہیں ۔خداوند عالم کی شناخت کے سلسلہ میں بعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ ممکن امر نہیں ہے (جوینی اور غزالی) اور دوسرے بعض لوگ جیسے باقلانی وغیرہ اس کے ممکن ہونے کے قائل ہیں ۔

صفات خدا وند :

خداوند عالم کے صفات یا ثبوتی ہیں یا سلبی ہیں یا انسانوں کے صفات (جیسے آنکھ اور ہاتھ) کی طرح ہیں ۔ اشعریوں کا عقیدہ ہے کہ آخری صفات کو بلاکیف (بغیر کیفیت )کی صورت میں قبول کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کی ماہیت ہمارے لئے معین نہیں ہے ۔

جبر و اختیار :

اس مسئلہ میں اشاعرہ نے دونوں پہلو یعنی قضا و قدر الہی کی رعایت کی ہے اور اختیار انسان یعنی ”نظریہ کسب“ کو جو کہ ایک قرآن لفظ ہے ، انتخاب کیا ہے اور خود اشعری کی تفسیر یہ ہے : قدرت کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ قدرت قدیم جو کہ خدا وندعالم سے مخصوص ہے ۔اور مخلوق میں فعل موثر ہے ۔

۲۔ قدرت حادث جو کہ بندوں سے مخصوص ہے اور اس کا فائدہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے اندر آزادی کا احساس کرتا ہے ، لہذا کسب فعل یعنی مخلوق کا فعل قدرت کے خلق کے ساتھ انسان میں حادث ہوتا ہے اگر چہ اشعری خود کسب کو بھی خدا کی مخلوق جانتے ہیں اوران کا عقیدہ ہے : جو فعل کو کسب کرتا ہے وہ ایسی جگہ ہے جہاں پر خداوند عالم فعل کو محقق کرتا ہے اور کسب کرنے والا ایک وسیلہ کے ذریعہ عمل کرتا ہے ۔

حسن وقبح فعل :

اشعری نے حسن و قبح کے تین مختلف معنی بیان کرنے کے بعد تیسرے معنی کو صحیح تسلیم کیا ہے ، یہ تین معنی یہ ہیں :

۱۔ کمال اور نقص ۔ ۲۔ مصلحت اور مفسدہ ۔ ۳۔ مدح و ذم کا مستحق ہونا ۔ کوئی بھی فعل اپنے آپ مدح اور ذم کا اقتضاء نہیں کرتا اور صرف شارع کی امر و نہی کے ذریعہ ایسی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے ۔

جہان شناسی :

الف : جہان کی بناوٹ :

اشاعرہ کا عقیدہ ذرہ گرائی(جوہر فرد) کے نظریہ کو قبول کرتا ہے ، اشاعرہ کو اس نظریہ کی روشنی میں یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ حدوث جہان کے راستہ سے خداوند عالم کی ذات کوصرف ذات قدیم کے عنوان سے ثابت کریں ۔

ب : جہان کا محکم و استوار نہ ہونا :

اشاعرہ دنیا کی ناپائداری کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جس سے اعراض کو ناپائدار اور جوہر کو باقی رہنے والا جانتے ہیں ۔ اس نظریہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اشاعرہ اس کے ذریعہ خداوند عالم کی ذات کو قدیم اور اس دنیا میں اس کے ہمیشہ موثر ہونے کو ثابت کرتے ہیں ۔

انسا شناسی :

اس میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں :

الف : انسان کی حقیقت جوہر جسمانی ہے (جوینی) ۔

ب : انسان ایک روحانی حقیقت ہے (باقلانی) ۔

مذہب اشعری کے بزرگ علماء:

اس سلسلہ میں کتاب ”التمہید“ کے مولف ابوبکر باقلانی کا نام لیا جاسکتا ہے ، اس مذہب کے دوسرے علماء غزالی، امام الحرمین جوینی، بیضاوی، سید شریف جرجانی وغیرہ ہیں ۔

اس مقالہ کے آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس کلامی فرقہ نے مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اثر چھوڑا ہے ، اگر چہ خود ان کے زمانہ میں اشعری کا ستارہ زیادہ نہ چمک سکا ، در واقع دوسرے مذاہب کی مخالفت اور اہل حدیث سے بحث و مجادلہ کی وجہ سے یہ مذہب بالکل مہجور ہوگیا ، لیکن بعد میں خصوصا امام الحرمین جوینی کے بعد اور خواجہ نظام الملک طوسی کے زمانہ میں سلجوقیوں کی حمایت کی وجہ سے اہل سنت والجماعت میں کلامی نظریات پر اشعری گری کو غالب حاصل ہوگیا اور آج بھی پوری دنیا میں اکثر اہل سنت مسلمان خصوصا شافعی اور حنفیوں کی ایک کثیر تعداد کلامی لحاظ سے اشعری مذہب کی پیروی کرتے ہیں ۔

Read 7713 times