Print this page

امام رضا (ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں رہبر معظم انقلاب کا تاریخی پیغام

Rate this item
(1 Vote)
امام رضا (ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں رہبر معظم انقلاب کا تاریخی پیغام

1984 میں منعقد ہونے والی عالمی امام رضا (ع) کانگریس کے لئے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ـ جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے ـ کا تاریخی پیغام ملاحظہ ہو جس میں آپ نے امام رضا (ع) کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کیا ہے.

رہبر معظم کا پیغام عالمی امام رضا (ع) کانگریس کے نام:

امام رضا علیہ السلام کی ایام ولادت میں آپ (ع) کے آستان مبارک میں آپ (ع) کی علمی حیات کے بارے میں کانگریس کا انعقاد ائمۂ معصومین علیہم السلام کے روشن چہروں کو مزید عیاں کرنے اور ان عظیم الشان پیشواؤں کی کارناموں سے بھرپور مگر پرمشقت زندگی کی شناخت کی جانب ایک نیا قدم ہے. ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ائمہ علیہم السلام کی زندگی کی صحیح طور پر شناخت حاصل نہیں کی جاسکی ہے؛ حتی کہ مصائب اور صعوبتوں کے باوجود ان کے جہاد کی عظمت شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے بھی روشن نہیں ہوسکی ہے.

ائمۂ طاہرین کی زندگی کے جس اہمترین پہلو کی طرف شائستہ انداز میں توجہ نہیں ہوئی ہے وہ ان کے "شدید سیاسی جدوجہد" کا عنصر ہے. پہلی صدی ہجری کی ابتدا ہی میں اسلامی خلافت سلطنت کی پیرایوں میں ڈھل گئی اور اسلامی امامت جابرانہ بادشاہت میں تبدیل ہوئی. ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے سیاسی حالات کے تناسب سے ہی اپنی سیاسی جدوجہد کو شدت بخشی. اس جدوجہد کا اہم ترین اور بنیادی مقصد اسلامی نظام اور امامت کے اصول پر مبنی حکومت کی تأسیس تھا.

تاریخ، ہارون عباسی کے دور میں امام رضا علیہ السلام کی دس سالہ زندگی اور اس کے بعد خراسان [میں مأمون] اور بغداد [میں امین] کے درمیان ہونے والی پانچ سالہ لڑائیوں کے بارے میں ہمیں کوئی خاص بات نہیں بتا سکی ہے؛ لیکن تدبر و تفکر کے ذریعے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام  اس پندرہ سالہ عرصے میں اہل بیت (ع) کی اسی طویل المدت جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے جو عاشورا کے بعد شروع ہوئی تھی اور ان ہی اہداف کے حصول کے لئے کوشاں تھے.

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اختصار کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کے واقعے پر روشنی ڈالی جائے:

اس واقعے میں امام ہشتم علی‌ بن ‌موسی ‌الرضا علیہ السلام ایک عظیم تاریخی تجربے سے گذرے اور آپ کو ایک خفیہ سیاسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں کامیابی یا ناکامی تشیع کی مقدر کی ترسیم میں مؤثر ہوسکتی تھی. مأمون امام ہشتم (ع) کو خراسان بلوا کر کئی اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا: سب سے پہلا اور سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع کی تند و تیز اور انقلابی سیاسی جدوجہد کو ایک پر امن اور بے خطر سیاسی سرگرمیوں میں تبدیل کیا جائے.... اہل تشیع تقیّہ کی حکمت عملی سے استفادہ کرتے ہوئے انتھک اور کبھی نہ ختم ہونے والی سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے تھے؛ دو اہم خصوصیات والی یہ جدوجہد خلافت کی بساط لپیٹنے میں اہم کردار ادا کررہی تھی اور وہ دو خصوصیات مظلومیت اور تقدس سے عبارت تھیں... مآمون اس اقدام کے ذریعے اہل تشیع کی جدوجہد کو ان دو مؤثر خصوصیات سے خالی کرنا چاہتا تھا. کیونکہ جن لوگوں کا زعیم و قائد خلافت کی مشینری کا ممتاز فرد اور وقت کے مطلق العنان بادشاہ کا ولیعہد ہو وہ لوگ مظلوم یا مقدس نہیں ہوتے.

مآمون کا دوسرا ہدف اہل تشیع کے اس اعتقاد کو غلط ظاہر کرنا تھا کہ اموی اور عباسی خلافتیں شرعی اور قانونی حیثیت نہیں رکھتیں اور اس طرح و ان دو خلافتوں کو قانونی حیثیت دینا چاہتا تھا.

تیسرا ہدف امام (ع) کو اپنے اداروں کے قابو میں لانا چاہتا تھا کیوں کہ امام (ع) ہر قسم کی جدوجہد اور حکومت کی مخالفت کا محور سمجھے جاتے تھے.  اور اگر امام (ع) ان کے قابو میں آتے تو سرکردہ علوی رہنما، انقلابی افراد اور جنگجو مجاہدین بھی حکومت کے قابو میں آسکتے تھے.

چوتھا ہدف یہ تھا کہ امام علیہ السلام جو ایک عوامی شخصیت، لوگوں کا قبلۂ امید اور سوالات و شکایات کا مرجع تھے کو حکومتی گماشتوں کی نگرانی میں لایا جائے اور رفتہ رفتہ ان کا عوامی چہرہ مخدوش کیا جائے اور ابتداء میں امام (ع) اور عوام اور دوسرے مرحلے میں امام (ع) اور عوام کی عقیدت و محبت کے درمیان فاصلے کی دیواریں کھڑی کی جائیں.

پانچواں ہدف یہ تھا کہ مأمون امام (ع) کو ولیعہد بنا کر اپنے لئے معنوی اور روحانی لبادہ تیار کرنا چاہتا تھا. فطری امر تھا کہ اس وقت کی دنیا میں لوگ اس کی تعریف و تمجید کرتے جس نے پیغمبر خدا (ص) کے ایک فرزند اور ایک مقدس اور معنوی شخصیت کو اپنا ولیعہد مقرر کیا تھا اور اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو اس منصب سے محروم رکھا تھا اور ہمیشہ صورت حال یہی ہے کہ جب دیندار لوگ دنیا پرستوں کی قربت حاصل کریں تو دینداروں کی حیثیت مجروح ہوجاتی ہے اور دنیا پرستوں کی حیثیت بہتر ہوجاتی ہے. مأمون کا چھٹا ہدف یہ تھا کہ اس کے اپنے خیال میں، امام (ع) ولیعہد بن کر اس کی خلافت کی توجیہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے والی شخصیت میں تبدیل ہوجاتے. امرِ مسلم ہے کہ اگر علم و تقوی کے لحاظ سے امام (ع) کے رتبے کی کوئی شخصیت ـ جو عوام کی نظر میں رسول خدا (ص) کے فرزند کی حیثیت سے بے مثال حرمت و آبرو کے مالک تھے ـ حکومت وقت کے دور میں رونما والے حوادث اور واقعات کی توجیہ کرنے لگتی تو کوئی بھی مخالف صدا اس حکومت کی شرعی اور قانونی حیثیت کو مخدوش کرنے کے قابل نہ رہتی. یہی وہ ناقابل تسخیر حصار تھا جو خلافت کی خطاؤں اور خلیفہ بھونڈے اعمال کو آنکھوں سے پوشیدہ رکھ سکتا تھا.اس سیاسی چال کے مد مقابل امام علیہ السلام کی تدبیریں اور پالیسیاں: 1- جب امام علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلوایا گیا، تو آپ (ع) نے مدینہ کے ماحول کو اپنی ناپسندیدگی اور کراہیت سے پر کردیا؛ حتی کہ امام (ع) کے اردگرد موجود افراد نے یقین کرلیا کہ امام رضا علیہ السلام کو وطن سے دور کرنے کے سلسلے میں مأمون کا ارادہ بدنیتی پر مبنی ہے.

امام (ع) نے مأمون کے حوالے سے اپنی منفی نگاہ اہل مدینہ کو پہنچا دی تھی. رسول خدا (ص) کے حرم سے وداع کرتے وقت، اہل خاندان سے وداع کرتے وقت، مدینہ سے نکلتے وقت، طواف کعبہ کے وقت جو آپ (ع) نے بعنوان طواف وداع انجام دیا ـ، قول و فعل کے ذریعے، دعا اور اشک و آہ کے زبانی آپ (ع) نے سب پر ثابت کیا کہ یہ سفر موت کا سفر ہے [اور اس سفر سے زندہ لوٹ کر آنے کی کوئی امید نہیں ہے]. مأمون اپنی سازش کے تحت جن لوگوں کو امام علیہ السلام  کی نسبت بدظن اور اپنی نسبت پراعتماد کرنا چاہتا تھا ان کے دل ۔ سازش پر عملدرآمد کرنے کے ابتدائی لمحوں سے ہی ۔ مأمون کی نفرت اور اس کی نسبت بداعتمادی سے مالامال ہوگئے جو ان کے امام کو ظالمانہ انداز سے ان سے جدا کرکے قتلگاہ کی طرف لی جانا چاہتا تھا. 2- جب مأمون کے دارالحکومت ـ شہر مرو MARV ـ میں مأمون نے ولایت عہدی کی تجویز پیش کی تو امام (ع) نے یہ عہدہ قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا اور جب تک مأمون نے آپ (ع) کو قتل کی دھمکی نہیں دی تھی امام نے یہ منصب قبول نہیں کیا تھا. یہ بات سب تک پہنچ گئی تھی کہ امام علیہ السلام نے مأمون کی جانب سے ابتداء میں خلافت کی پیشکش اور بعد میں ولیعہدی کی پیشکش ٹھکرا دی ہے.

حقیقت کچھ یوں تھی کہ سرکاری اہلکاروں کو مأمون کی چالوں کا علم نہیں تھا چنانچہ انہوں نے امام (ع) کے انکار کی خبر علاقے میں پھیلادی حتی مأمون کے وزیر فضل بن سہل نے سرکاری اہلکاروں کے ایک گروہ سے کہا کہ "میں نے آج تک خلافت کا عہدہ اتنا خوار و بے مقدار نہیں دیکھا تھا کہ امیرالمؤمنین (مأمون) علی بن موسی الرضا کو اس عہدے کی پیشکش کررہے ہیں اور علی بن موسی اس پیشکش کو مسترد کررہے ہیں!!.

3- تاہم علی‌بن‌موسی‌الرضا علیہ السلام نے ولایتعہدی کی پیشکش قبول کرلی اور شرط یہ رکھی کہ حکومت کے کسی بھی مسئلے میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ و صلح اور تقرری اور معزولی جیسے مسائل میں کوئی حکم نہیں دیں گے اور کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور مأمون ـ جو تصور کرتا تھا کہ یہ شرط ابتدائی مرحلے میں قابل برداشت ہے اور وہ رفتہ رفتہ امام (ع) کو سلطنت کے امور میں داخل کردے گا ـ یہ شرط قبول کرنے پر آمادہ ہوا. ظاہر ہے کہ اگر یہ شرط باقی رہتی تو مأمون کا منصوبہ خاک میں مل جاتا اور اس کے بیشتر اہداف و مقاصد حاصل نہ ہوتے. 4- مگر ان حالات سے امام علیہ السلام نے جو فائدہ اٹھایا وہ ان تمام مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

امام (ع) نے ولایتعہدی کا منصب قبول کرکے ایک ایسا اقدام کیا جو سنہ 40 ہجری میں اہل بیت (ع) کی خلافت کے خاتمے کے بعد ائمۂ طاہرین (ع) کی حیات طیبہ تک اور حتی سلسلۂ خلافت کے خاتمے تک بے مثال اور بے بدیل تھا اور وہ اقدام یہ تھا کہ آپ (ع) نے اسلامی قلمرو کی وسعتوں میں شیعہ امامت کا مدعا آشکار کردیا اور تقیہ کے دبیز پردوں کو چاک کرکے تشیع کا پیغام تمام مسلمانوں تک پہنچایا. خلافت کا بلند منبر آپ (ع) کے ہاتھ آگیا تھا اور امام (ع) نے اس منبر سے استفادہ کرکے ان حقائق کو آشکار کردیا جو ائمۂ طاہرین  150 برسوں تک تقیہ کے پس پردہ خاص افراد اور اصحاب و انصار کے سوا کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکے تھے.

Read 1317 times