Print this page

اسلامی جمہوریہ میں مذہب کا لیبل لگا کر بہائیوں کی اقتصادی و سیاسی تخریب کاریاں

Rate this item
(0 votes)
اسلامی جمہوریہ میں مذہب کا لیبل لگا کر بہائیوں کی اقتصادی و سیاسی تخریب کاریاں

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے سیاسی شعبے کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ، جب سے بہائی فرقے نے سسٹمیٹک طریقے سے کام کرنا شروع کیا ہے تب سے لیکر اب تک جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی مختلف شعبوں میں جاسوسی کی ہے وہیں اسلامی جمہوریہ کی معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایران کے مارکٹ کو تباہ کرنے اور کساد بازاری کو عام کرنے کے جرم میں وقتا فوقتا ایران کی عدلیہ کی جانب سے جن مجرموں پر لگام کسی گئی ان میں کافی نام ایسے ہیں جنکا تعلق اسی بہائی فرقے سے ہے، اس فرقے نے اپنے وجود میں آنے کے بعد سے ہی اقتصادی میدان میں کبھی واسطہ کے طور پر یا کبھی بلاواسطہ اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے اپنا اثر رسوخ قائم کرنے کی ہمیشہ تگ و دو کی، چاہے وہ ’’عبدالکریم ایادی‘‘ کی بات جسکے مشاغل کی تعداد ۸۰ تک پہنچ چکی تھی اور جس نے شہنشاہی حکومت میں اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو جاری رکھا یا پھر اس دور سے گزشتہ چند مہینوں میں بہائیوں کے اول درجے کے صاحبان اقتدار کے گھر سے جڑے فرد خاص (ع خ) کی جانب سے عینکوں کی غیر قانونی تجارت ہو، جب بھی ہم اسلامی جمہوریہ کی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں کی فہرست کو دیکھتے ہیں تو اسی فرقے کے نقوش ہمیں دکھائی دیتے ہیں جس نے بہت ہی منظم طریقے سے اسلامی جمہوریہ ایران کی معیشت کو تباہ کرنے کی غرض سے اقتصادی میدان میں اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک دی ، کالے دھن کی بات ہو، یا غیر قانونی طور پر درآمد و برآمدات کا معاملہ، ذخیرہ اندوزی و احتکار ہو یا کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرنے کا معاملہ موجودہ سالوں میں جیسے جیسے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اقتصادی جنگ تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اس فرقے کے لوگو ں نے متحدہ طور پر اسلامی انقلاب کے خلاف اپنی کارگزاریوں کو بڑھا دیا اور اقتصادی جنگ کے محاذ پر فرنٹ لائن پر آکر دشمن کا ساتھ دیا ۔
چنانچہ گزشتہ چند مہینوں کے اندر بھی دیکھا جائے تو ہمیں انکی تباہ کاریوں کی ایک طولانی فہرست نظر آئے گی چاہے وہ ’’مثقال‘‘ نامی مرکز کی تشکیل ہو جس نے مجازی فضا میں ایک سائٹ بھی لانچ کی اور ایک ٹیلگرام کا چینل بھی بنایا جس کے ذریعہ ’’ مثقال ‘‘نامی صرافی کا سینٹر چلانے والوں کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو آنلائن کرنسی کی قیمت کی نشاندہی کی جائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایران میں اس صرافی سینٹر نے اپنے پاوں پسار لئے ،جب لوگوں کی توجہات کو اس سینٹر نے حاصل کر لیا اور لوگ اس کے ذریعہ کرنسی کی قیمتوں کو معلوم کرنے لگے تو اس صرافی سینٹر نے اپنے تجزیوں ، رپوٹوں اور اپنے تشہیری اعلانات کے بل پر ایرانی بازار میں کرنسی کی خرید و فروخت کی ایسی بھوک پیدا کر دی کہ پورا بازار آشفتہ حالی کا شکار ہو گیا جس کے چلتے قیمتوں شدید اتار چڑھاو دیکھنے میں آیا ، اس دوران جو قابل غور بات رہی وہ یہ تھی کہ میں ۲۰۱۱؁ کے دوران جب امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں اور کرنسی کا مارکیٹ اتھل پتھل ہو کر رہ گیا اس دور میں جمشید بسم اللہ اور حمید مظلومی و دیگر کچھ لوگو ں کو معیشت میں خلل اندازی کے جرم کے تحت گرفتار کیا گیا اور مثقال سائٹ کے کرتا دھرتا ’’شہنام گلشنی ‘‘ کو بھی گرفتار کر کے پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن تعجب کی انتہا نہ رہی کہ کس طرح یہ لوگ جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ کچھ ہی مہینوں کے بعد’’ شہنام ‘‘کو ترکی میں دیکھا گیا ہے۔
’’شہنام گلشنی ‘‘ بہائی فرقے کا ایک ممبر ہے اور اس نے اپنی بیو گرافی میں اس بات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے کہ وہ بہائی ہے یہاں تک کہ ’’شہنام گلشنی ‘‘ کا دعوی ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا سینٹرل بینک بھی کرنسی کی قیمتوں کو اسکی سائٹ ’’مثقال‘‘ سے لیتا رہا ہے اگرچہ اس دعوے کی تصدیق مشکل ہے لیکن اس سے اتنا تو پتہ چلتا ہی ہے کہ ’’مثقال ‘‘ سائٹ کا خمار کس طرح لوگوں پر چھایا ہوا تھا، اور آج بھی اپنے اسی اثر و رسوخ کی بنا پر بیرونی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اس نے کرنسی کے غبارے میں خوب ہوا بھری ہوئی ہے ۔
اسکے علاوہ دیگر اور بھی بہائی فرقے سے متعلق افراد کو مختلف مقامات پر غیر قانونی تجارت کرتے پکڑا گیا ہے ، جیسا کہ کچھ ہی عرصے قبل ایک عینکوں کی کھیپ کو پکڑا گیا جسے غیر قانونی طریقے سے اسلامی جمہوریہ میں لایا گیا تھا ۔
گزشتہ چند مہینوں میں بہائی فرقے کے ایک کلیدی اور ممتاز حیثیت کے حامل شخص کو ایران کے شہر ’’مہاباد‘‘ میں رنگے ہاتھوں دھر دبوچا گیا یہ وہ شخص ہے جسکا تعلق اسرائیل میں فرقہ بہاہیت کی اعلی کمان سے ہے اور اسکے رشتہ دار بھی اسرائیل میں بہائیوں کے صدر دفتر سے جڑے رہے ہیں ۔
اسی طرح روز مرہ کی ضرورت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کے جرم میں ایک اور بہائی کو پکڑا گیا نیز کچھ اور بہائیوں کو مختلف چیزوں کے مارک کو تبدیل کر کے نئے مارک چسپاں کر کے انہیں مارکٹ میں فروخت کرنے پر پکڑا گیا جنکا مقصد ایران کے بازار کو تباہ کرنا تھا۔ کیایہ تعجب کا مقام نہیں ہے کہ جس ملک میں رہتے ہیں اسی کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور جب ایران کا ہر طرف سے اقتصادی محاصرہ کر لیا گیا ہے تو یہ دشمن کے محاذ پر اسکا کام کر رہے ہیں اور جب انہیں کوئی سزا سنائی جاتی ہے تو دنیا بھر کا میڈیا شور مچانے لگتا ہے کہ ایران میں مذہبی آزادی پر قدغن ہے ۔ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اگر انکے عقائد کی بات کی جائے تو یہ بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ اسلحہ رکھنے تک کو منع کر دیا ہے گو کہ اتنا دنیا میں امن و سلامتی کی انہیں فکر تھی کہ انہیں کسی انسان کا اپنے ساتھ اسلحہ کا رکھنا بھی گوارا نہیں تھا جہاں انکے پیغمبر کا یہ حکم انکے لئے باعث افتخار ہے اور یہ خود کو دنیا میں ایسے مظلوموں کے طور پر پیش کرتے ہیں جو امن و چین کے خواہاں ہیں اور ایران میں اپنی آزادی کی محدودیت کا رونا روتے ہیں وہیں یہ بات کس قدر تعجب کی ہے کہ انکے گھروں میں غیر قانونی اسلحوں کے ذخیرے ملتے ہیں اور جنگی آلات کو یہ گھروں میں چھپا کر رکھتے ہیں ۔اور انکی ان کارگزاریوں سے وقتا فوقتا پردہ اٹھتا رہتا ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبہ جنوبی خراسان کے شہر سربیشہ کے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکے شہر میں جدید ساخت کے غیر قانونی اسلحوں کی ایسی کھیپ کو ضبط کیا گیا ہے جنکا استعمال جنگوں میں ہوتا ہے ، اسی طرح اسلامی جمہوریہ کے دیہات ’’دستجرد‘‘ میں بھی اسی قسم کے اسلحوں کو ضبط کیا گیا جہاں بہائی فرقے کی میٹنگیں ہوا کرتی تھیں اور زور وشور کے ساتھ اس علاقے میں انکا کام جاری تھا لیکن علاقے کے مقامی لوگوں کی فراست و سمجھداری کی وجہ سے ایک ایسے گھر کی تلاشی لی گئی جہاں بہائی فرقہ کے لوگوں کا جم گھٹا لگتا تھا جسکے نتیجہ میں بہت سا اسلحہ پولیس کے ہاتھوں لگا جبکہ یہ ایسا گھرتھا جسکے مالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں رہائش پذیر ہے ۔
الغرض ایسے بہت سے نمونے مل سکتے ہیں جہاں واضح طور پر یہ دشمن کے پانچویں ستون کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہوئے بھی وہی کام کر رہے ہیں جنکا اوپر سے آرڈر ہوتا ہے ، چاہے اقتصادی مسائل ہو یا قومی سلامتی کے مسائل ہر جگہ انکی تخریب کارانہ کاروائیاں نظر آتی ہیں اور یہ ہر ایک مقام پر اسرائیل کے مفاد میں کام کرتے نظر آتے ہیں، رہتے اسلامی جمہوریہ ایران میں ہیں لیکن فکر انہیں اسرائیل کی ستاتی ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا مذہب سے لینا دینا نہیں ہے یہ مذہب کے لبادے میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن کا ایک سیاسی مہرہ ہیں۔ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف خفیہ و آشکار طور پر بر سرپیکار ہیں اور جب انہیں دھر دبوچا جاتا ہے تو اپنے مذہب کی دہائی دینے لگتے ہیں جب کہ انکا مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے انکا مذہب بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ مسلمانوں کی طاقت کو بانٹ کر انہیں تحفظ دیتے ہوئے اسلام کے خلاف استعمال کیا جائے اور یہ کام بہت تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے ۔

Read 966 times