غزہ میں نہتے فلسطینی عوام کے خلاف جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے بعد عالمی سطح پر صہیونی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ جیسے اتحادی ملک میں بھی عوامی سطح پر تل ابیب کے جارحانہ اقدامات کی مذمت کی جارہی ہے۔
امریکی تحقیقی ادارے نے حالیہ سروے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں عوامی سطح پر اسرائیلی حکومت کے خلاف ناپسندیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، بالخصوص 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد یہ رجحان مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
"پی یو" ریسرچ سینٹر کی تازہ ترین رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچاس فیصد سے زائد امریکی شہری اسرائیل کے حوالے سے منفی رائے رکھتے ہیں۔ صرف 45 فیصد امریکیوں کا اسرائیل سے متعلق تاثر مثبت ہے۔
یہ اعداد و شمار گزشتہ برس کے نتائج سے نمایاں طور پر مختلف ہیں۔ 2022 میں اسی ادارے کے ایک سروے میں 55 فیصد امریکیوں نے اسرائیل کے لیے مثبت رائے ظاہر کی تھی، جب کہ 42 فیصد کی رائے منفی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل سے متعلق اس بدلتی ہوئی رائے کی دو اہم وجوہات ہیں:
1. عمر رسیدہ ڈیموکریٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل سے حد سے زیادہ قریبی تعلقات پر نالاں ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ حکومت نے اسرائیل کو حد سے زیادہ مراعات دی ہیں۔
2. نوجوان ریپبلکنز، جنہوں نے اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی حملوں کو قریب سے دیکھا اور دنیا بھر میں ان مظالم کے خلاف بڑھتی ہوئی آوازوں سے متاثر ہوکر اسرائیل کے حوالے سے منفی سوچ اپنائی ہے۔
اس بارے میں مرکز برائے جمہوریت مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر سیٹ بینڈر کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کے خیالات میں یہ تبدیلی گزشتہ دو دہائیوں سے جاری تھی، تاہم حالیہ عرصے میں نوجوان ریپبلکنز کی حمایت میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے امریکی عوام کو مجبور کیا کہ وہ صہیونی حکومت کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ حالیہ سروے کے مطابق ڈیموکریٹک ووٹرز میں 69 فیصد افراد اسرائیل کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ 2022 کے مقابلے میں 16 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جوبائیڈن کے دور میں اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے معمر ڈیموکریٹس کی بھی رائے بدل چکی ہے۔ اب 66 فیصد معمر ڈیموکریٹس اسرائیل سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں، جو گزشتہ تین برسوں میں 22 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
دوسری جانب اگرچہ ریپبلکن جماعت میں اسرائیل کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم 37 فیصد ریپبلکنز بھی اب اسرائیل سے متعلق منفی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ شرح 2022 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی بالخصوص نوجوان ریپبلکنز کی اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔
ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ نامی ادارے میں فلسطین و اسرائیل امور کے نگراں ایڈم شپیرو کا کہنا ہے کہ اب امریکی مین اسٹریم میڈیا کی اسرائیل نواز پالیسی عوامی رائے پر ویسا اثر نہیں ڈال پا رہی جیسا ماضی میں ڈالتی تھی، کیونکہ عوام سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع سے غزہ کے حقائق تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس رجحان سے فلسطینی عوام کی حمایت میں سرگرم امریکی طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کی اسرائیلی مظالم کے خلاف کوششوں کی کامیابی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شپیرو نے مزید کہا کہ عراق و افغانستان جنگوں کے تلخ تجربات کے بعد امریکی عوام اب اپنی فوج کو بیرونی تنازعات میں ملوث دیکھنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطی میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری ڈیوڈ میک نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کی لہر بہت تیزی سے ختم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں پر اسرائیلی جارحیت، نیز غرب اردن اور جنوبی لبنان میں جاری مظالم نے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو اسرائیل سے بدظن کر دیا ہے۔ تاہم عوامی رائے میں اس واضح تبدیلی کے باوجود امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ابھی تک کوئی نمایاں فرق نہیں آیا۔ کانگریس کی اکثریت خصوصا ڈیموکریٹک پارٹی کے برنی سینڈرز جیسے معدود ارکان کے سوا پارٹی اراکین کی اکثریت اب بھی اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد دینے کی حامی دکھائی دیتی ہے۔
امریکی تحقیقی ادارے نے حالیہ سروے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں عوامی سطح پر اسرائیلی حکومت کے خلاف ناپسندیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، بالخصوص 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد یہ رجحان مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
"پی یو" ریسرچ سینٹر کی تازہ ترین رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچاس فیصد سے زائد امریکی شہری اسرائیل کے حوالے سے منفی رائے رکھتے ہیں۔ صرف 45 فیصد امریکیوں کا اسرائیل سے متعلق تاثر مثبت ہے۔
یہ اعداد و شمار گزشتہ برس کے نتائج سے نمایاں طور پر مختلف ہیں۔ 2022 میں اسی ادارے کے ایک سروے میں 55 فیصد امریکیوں نے اسرائیل کے لیے مثبت رائے ظاہر کی تھی، جب کہ 42 فیصد کی رائے منفی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل سے متعلق اس بدلتی ہوئی رائے کی دو اہم وجوہات ہیں:
1. عمر رسیدہ ڈیموکریٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل سے حد سے زیادہ قریبی تعلقات پر نالاں ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ حکومت نے اسرائیل کو حد سے زیادہ مراعات دی ہیں۔
2. نوجوان ریپبلکنز، جنہوں نے اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی حملوں کو قریب سے دیکھا اور دنیا بھر میں ان مظالم کے خلاف بڑھتی ہوئی آوازوں سے متاثر ہوکر اسرائیل کے حوالے سے منفی سوچ اپنائی ہے۔
اس بارے میں مرکز برائے جمہوریت مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر سیٹ بینڈر کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کے خیالات میں یہ تبدیلی گزشتہ دو دہائیوں سے جاری تھی، تاہم حالیہ عرصے میں نوجوان ریپبلکنز کی حمایت میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے امریکی عوام کو مجبور کیا کہ وہ صہیونی حکومت کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ حالیہ سروے کے مطابق ڈیموکریٹک ووٹرز میں 69 فیصد افراد اسرائیل کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ 2022 کے مقابلے میں 16 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جوبائیڈن کے دور میں اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے معمر ڈیموکریٹس کی بھی رائے بدل چکی ہے۔ اب 66 فیصد معمر ڈیموکریٹس اسرائیل سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں، جو گزشتہ تین برسوں میں 22 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
دوسری جانب اگرچہ ریپبلکن جماعت میں اسرائیل کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم 37 فیصد ریپبلکنز بھی اب اسرائیل سے متعلق منفی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ شرح 2022 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی بالخصوص نوجوان ریپبلکنز کی اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔
ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ نامی ادارے میں فلسطین و اسرائیل امور کے نگراں ایڈم شپیرو کا کہنا ہے کہ اب امریکی مین اسٹریم میڈیا کی اسرائیل نواز پالیسی عوامی رائے پر ویسا اثر نہیں ڈال پا رہی جیسا ماضی میں ڈالتی تھی، کیونکہ عوام سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع سے غزہ کے حقائق تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس رجحان سے فلسطینی عوام کی حمایت میں سرگرم امریکی طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کی اسرائیلی مظالم کے خلاف کوششوں کی کامیابی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شپیرو نے مزید کہا کہ عراق و افغانستان جنگوں کے تلخ تجربات کے بعد امریکی عوام اب اپنی فوج کو بیرونی تنازعات میں ملوث دیکھنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطی میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری ڈیوڈ میک نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کی لہر بہت تیزی سے ختم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں پر اسرائیلی جارحیت، نیز غرب اردن اور جنوبی لبنان میں جاری مظالم نے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو اسرائیل سے بدظن کر دیا ہے۔ تاہم عوامی رائے میں اس واضح تبدیلی کے باوجود امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ابھی تک کوئی نمایاں فرق نہیں آیا۔ کانگریس کی اکثریت خصوصا ڈیموکریٹک پارٹی کے برنی سینڈرز جیسے معدود ارکان کے سوا پارٹی اراکین کی اکثریت اب بھی اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد دینے کی حامی دکھائی دیتی ہے۔