پروپیگنڈا جنگ کے دوران اہم ترین ہتھیار ہوتا ہے اور سادہ لوح عوام بڑی آسانی سے اس ہتھیار کا شکار ہو کر دشمن کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جدید دنیا میں جنگوں کا انداز یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا میدانی جنگ کی بجائے نفسیاتی جنگ کے حربے زیادہ استعمال کرتی ہے۔ ہم بہت جذباتی اور جلد باز لوگ ہیں، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، جہاں ہر قسم کی مستند اور غیر مستند خبروں کا ایک بے انتہا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، جس کی دسترس ہر کہ و مہ تک ہوتی ہے، جس وجہ سے ہر کوئی بزعم خود دفاعی تجزیہ کار بنا ہوتا ہے۔ بعض بلکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی ادھوری معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جانے انجانے میں اپنے ہی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد تین قسم کے گروہ سامنے آئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے، جو ایران کے اندھے حامی ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی تحقیق کے جنگ سے متعلقہ ہر چھوٹی بڑی خبر اپنا فریضہ سمجھ کر پھیلاتے ہیں۔ ان میں بالخصوص ایسی خبروں کی بہتات ہوتی ہے کہ ایران نے دھاوا بول دیا ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا گروہ ایران کے اندھے دشمنوں کا ہے، جن کا موقف یہ ہے کہ ایران کے مخالف خواہ یزید ہی کیوں نا ہو، وہ یزید کا ساتھ دیں گے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مستضعف، متعصب، تنگ نظر اور انتہائی جاہل ہیں، سو لائقِ ذکر نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کا ایک بڑا بزرگ کہہ گیا تھا کہ "ایہہ وچوں رلے ہوئے ہن جدوں ایران حملہ کرے یا مخالف تے میری قبر تے۔۔۔۔" شہری حفاظت کے پیش نظر اس وصیت پر تو عمل کرنا خاصا مشکل ہے۔
بہرحال تیسرا گروہ خاصا معتدل تو ہے مگر وہ بھی اکثر و بیشتر جذبات کا اور دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس گروہ میں کئی دانشوران موجود ہیں، جو اپنی فہم و دانش کے مطابق جنگی حکمت عملی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جنگ ان کی اسٹریٹیجی کے مطابق ہو۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر طعن و تشنیع اور مختلف انداز میں طنز کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں، جو صرف اٹینشن سیکنگ اور زیادہ سے زیادہ آڈینس کے لیے کبھی کبھار چول تک بھی مار دیتے ہیں کہ اس سے فالوورز میں اضافہ ہوگا۔ بعض حمایت میں ان سے آگے نکل جاتے ہیں اور خود کو ان کے دفاعی ماہرین وغیرہ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے ہیں۔ لگے ہوتے ہیں کہ یوں ہوتا تو یوں نہ ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو یہ ہو جاتا اور اس جیسی کئی بے تکی باتیں۔
یہاں ایک نکتے کا ذکر بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں کے لیے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ جنگ ہماری سمجھ بوجھ کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی اور نا ہی جن پر جنگ مسلط ہوئی ہے، وہ ان چیزوں سے واقف نہیں، جن سے ہمارے دانشور آگاہ ہیں۔ فیلیر ہے یا پھر جو کچھ، ایسے وقت میں دشمن کی زبان بولنا دشمن کو مضبوط کرنا، اسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اس حساس ترین وقت میں اپنی دانش جھاڑ کر دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اپنے برادر اسلامی ملک کا کم از کم اخلاقی سطح پر تو ساتھ دیں۔ جذباتیت سے ہٹ کر عقلی بنیادوں پر بھی اگر غیر جانبداری سے تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو ماضی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریک خواہ کوئی بھی ہو، اگر وہ انسان دشمن عناصر کے خلاف مخلصانہ بنیادوں پر استوار ہو تو پھر کامیاب ہو کر رہتی ہے۔
اسرائیل کی غزہ پہ جاری جارحیت کس سے عیاں ہے؟ اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی آج کس صاحب عقل سے ڈھکی چھپی ہے، سو ایسے میں ایران حق پر ہے اور اس کا ساتھ دینا ہر باشعور شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ ایران کا مخالف خطے بھر میں بدامنی کا باعث ہے اور یہ آگ اگر آج نا روکی گئی تو پھر کئی بلکہ سارے گھر زد میں آئیں گے اور ہمارا مکان بھی یہیں ہے۔ لہذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آگ کے بھڑکنے سے پہلے ہی اس پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان نے بھی اس موقع پر اپنے ہمسایہ ملک کی حمایت اور جارح ملک کی مذمت کی ہے۔ رہی بات ایران کی مضبوطی کی تو ساشے پیک تجزیہ کار اور سستے دانشوروں کی کل معلومات کا حدود اربعہ سوشل میڈیا ہے اور ان کی دوڑ ایک سائٹ سے دوسری سائٹ تک ہے۔
یہ ہرگز نہیں جانتے کہ جس ملک میں انقلاب کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھماکہ ہوا اور تمام اراکین شہید ہوگئے، جن میں انقلاب کے اولین لوگ بھی شامل تھے، کہنے والے کہتے رہے کہ اب انقلاب ختم، اس پر مجھے جمی کارٹر کا جملہ یاد آرہا ہے کہ "لیکن خدا خمینی کے ساتھ تھا" انقلاب مزید مضبوط ہوا اور اتنا زیادہ مضبوط ہوا کہ خمینی جیسے مرد درویش کا نعرہ "لا شرقیہ ولا غربیہ سپر پاور ہے خدا" آج ہمیں عملی صورت میں نظر آتا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت پر پھر مجھ ایسے نوجوان انقلابیوں نے یاسیت کا اظہار کیا اور ابراہیم رئیسی و دیگر شہداء کی مرتبہ بھی ایک طبقے کا یہی رویہ رہا کہ اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو فلاں ڈھمکاں۔۔۔ اسی طرح باقی شہادتوں پر بھی یہی رویہ اور اب بھی یہی کہ کیڑے نکال رہے ہیں، گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر جبکہ حق تو یہ بنتا ہے کہ اخلاقی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سطحی طور سے دیکھنے کے عادی ہیں اور فوراً رائے قائم کر لیتے ہیں، جبکہ تحریک اور پھر الہیٰ تحریکوں میں جیت اور ہار کے پیمانے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جو درس انقلاب دیا تھا، اس کے ماننے والے اپنی کامیابی و ناکامی اسی پیمانے پر پرکھتے ہیں، ایسے میں افراد کے جانے سے نظام یا نطریہ دھڑام سے گر نہیں جاتا بلکہ زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لیڈر یا بڑی شخصیات بننے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے اور ان نقصان کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا، مگر ایسے میں برادر بزرگوار ارشاد حسین ناصر کا ایک خوبصورت ترین جملہ یاد آرہا ہے کہ "اگر یہ لوگ شہید نہ ہوں تو باعث حیرت ہے، شہادت کے متلاشی، شہادت کیلئے تڑپنے والے اپنے مقصد کو پاگئے۔ اپنے رفقاء کے بغیر جینا دشوار ہوتا ہے۔"
سو ان لوگوں کا نقصان اپنی جگہ، مگر انہوں نے اپنا کام کر دیا، منزل حاصل کر لی اور اپنی جگہ جانشین بھی تیار کر گئے۔ سید حسن کی شہادت سے بظاہر حزب کمزور لگ رہی ہوگی ہمیں، مگر وہ اپنے نظریات پر پختگی سے کاربند کھڑے ہیں۔ اسی طرح اب کی شہادتوں سے بھی گھبرا کر مزاحمت کی کمزوری کا رونا الاپ کر اپنی مایوسی کا اطلاق مقاومت پر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مقاومت کے تمام بلاکس ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر ہم جو نادانستگی میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، آخر کب عقل کا استعمال کریں گے۔؟ آخر میں فیسبکی دانشوروں کے لیے جن کا کام سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کرنا ہے، آیت اللہ خمینی کا فرمان اگر سمجھ آجائے تو افاقہ ہوگا۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کہا تھا کہ بھلے ایران یا میں ختم ہو جاوں تو کیا!!!!!! اسلام ختم ہو جائے گا۔؟ کیا راہِ شہادت ختم ہو جائے گی۔؟ ہم سے بہتر ایمان، عقیدہ اور جذبہ رکھنے والے آجائیں گے۔ ہم سب یا تو الہیٰ وعدہ کو مان لیں کہ آخری فتح حق کی ہے۔ یا باطل کی بیعت کرلیں اور زندہ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد تین قسم کے گروہ سامنے آئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے، جو ایران کے اندھے حامی ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی تحقیق کے جنگ سے متعلقہ ہر چھوٹی بڑی خبر اپنا فریضہ سمجھ کر پھیلاتے ہیں۔ ان میں بالخصوص ایسی خبروں کی بہتات ہوتی ہے کہ ایران نے دھاوا بول دیا ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا گروہ ایران کے اندھے دشمنوں کا ہے، جن کا موقف یہ ہے کہ ایران کے مخالف خواہ یزید ہی کیوں نا ہو، وہ یزید کا ساتھ دیں گے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مستضعف، متعصب، تنگ نظر اور انتہائی جاہل ہیں، سو لائقِ ذکر نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کا ایک بڑا بزرگ کہہ گیا تھا کہ "ایہہ وچوں رلے ہوئے ہن جدوں ایران حملہ کرے یا مخالف تے میری قبر تے۔۔۔۔" شہری حفاظت کے پیش نظر اس وصیت پر تو عمل کرنا خاصا مشکل ہے۔
بہرحال تیسرا گروہ خاصا معتدل تو ہے مگر وہ بھی اکثر و بیشتر جذبات کا اور دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس گروہ میں کئی دانشوران موجود ہیں، جو اپنی فہم و دانش کے مطابق جنگی حکمت عملی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جنگ ان کی اسٹریٹیجی کے مطابق ہو۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر طعن و تشنیع اور مختلف انداز میں طنز کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں، جو صرف اٹینشن سیکنگ اور زیادہ سے زیادہ آڈینس کے لیے کبھی کبھار چول تک بھی مار دیتے ہیں کہ اس سے فالوورز میں اضافہ ہوگا۔ بعض حمایت میں ان سے آگے نکل جاتے ہیں اور خود کو ان کے دفاعی ماہرین وغیرہ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے ہیں۔ لگے ہوتے ہیں کہ یوں ہوتا تو یوں نہ ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو یہ ہو جاتا اور اس جیسی کئی بے تکی باتیں۔
یہاں ایک نکتے کا ذکر بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں کے لیے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ جنگ ہماری سمجھ بوجھ کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی اور نا ہی جن پر جنگ مسلط ہوئی ہے، وہ ان چیزوں سے واقف نہیں، جن سے ہمارے دانشور آگاہ ہیں۔ فیلیر ہے یا پھر جو کچھ، ایسے وقت میں دشمن کی زبان بولنا دشمن کو مضبوط کرنا، اسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اس حساس ترین وقت میں اپنی دانش جھاڑ کر دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اپنے برادر اسلامی ملک کا کم از کم اخلاقی سطح پر تو ساتھ دیں۔ جذباتیت سے ہٹ کر عقلی بنیادوں پر بھی اگر غیر جانبداری سے تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو ماضی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریک خواہ کوئی بھی ہو، اگر وہ انسان دشمن عناصر کے خلاف مخلصانہ بنیادوں پر استوار ہو تو پھر کامیاب ہو کر رہتی ہے۔
اسرائیل کی غزہ پہ جاری جارحیت کس سے عیاں ہے؟ اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی آج کس صاحب عقل سے ڈھکی چھپی ہے، سو ایسے میں ایران حق پر ہے اور اس کا ساتھ دینا ہر باشعور شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ ایران کا مخالف خطے بھر میں بدامنی کا باعث ہے اور یہ آگ اگر آج نا روکی گئی تو پھر کئی بلکہ سارے گھر زد میں آئیں گے اور ہمارا مکان بھی یہیں ہے۔ لہذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آگ کے بھڑکنے سے پہلے ہی اس پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان نے بھی اس موقع پر اپنے ہمسایہ ملک کی حمایت اور جارح ملک کی مذمت کی ہے۔ رہی بات ایران کی مضبوطی کی تو ساشے پیک تجزیہ کار اور سستے دانشوروں کی کل معلومات کا حدود اربعہ سوشل میڈیا ہے اور ان کی دوڑ ایک سائٹ سے دوسری سائٹ تک ہے۔
یہ ہرگز نہیں جانتے کہ جس ملک میں انقلاب کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھماکہ ہوا اور تمام اراکین شہید ہوگئے، جن میں انقلاب کے اولین لوگ بھی شامل تھے، کہنے والے کہتے رہے کہ اب انقلاب ختم، اس پر مجھے جمی کارٹر کا جملہ یاد آرہا ہے کہ "لیکن خدا خمینی کے ساتھ تھا" انقلاب مزید مضبوط ہوا اور اتنا زیادہ مضبوط ہوا کہ خمینی جیسے مرد درویش کا نعرہ "لا شرقیہ ولا غربیہ سپر پاور ہے خدا" آج ہمیں عملی صورت میں نظر آتا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت پر پھر مجھ ایسے نوجوان انقلابیوں نے یاسیت کا اظہار کیا اور ابراہیم رئیسی و دیگر شہداء کی مرتبہ بھی ایک طبقے کا یہی رویہ رہا کہ اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو فلاں ڈھمکاں۔۔۔ اسی طرح باقی شہادتوں پر بھی یہی رویہ اور اب بھی یہی کہ کیڑے نکال رہے ہیں، گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر جبکہ حق تو یہ بنتا ہے کہ اخلاقی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سطحی طور سے دیکھنے کے عادی ہیں اور فوراً رائے قائم کر لیتے ہیں، جبکہ تحریک اور پھر الہیٰ تحریکوں میں جیت اور ہار کے پیمانے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جو درس انقلاب دیا تھا، اس کے ماننے والے اپنی کامیابی و ناکامی اسی پیمانے پر پرکھتے ہیں، ایسے میں افراد کے جانے سے نظام یا نطریہ دھڑام سے گر نہیں جاتا بلکہ زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لیڈر یا بڑی شخصیات بننے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے اور ان نقصان کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا، مگر ایسے میں برادر بزرگوار ارشاد حسین ناصر کا ایک خوبصورت ترین جملہ یاد آرہا ہے کہ "اگر یہ لوگ شہید نہ ہوں تو باعث حیرت ہے، شہادت کے متلاشی، شہادت کیلئے تڑپنے والے اپنے مقصد کو پاگئے۔ اپنے رفقاء کے بغیر جینا دشوار ہوتا ہے۔"
سو ان لوگوں کا نقصان اپنی جگہ، مگر انہوں نے اپنا کام کر دیا، منزل حاصل کر لی اور اپنی جگہ جانشین بھی تیار کر گئے۔ سید حسن کی شہادت سے بظاہر حزب کمزور لگ رہی ہوگی ہمیں، مگر وہ اپنے نظریات پر پختگی سے کاربند کھڑے ہیں۔ اسی طرح اب کی شہادتوں سے بھی گھبرا کر مزاحمت کی کمزوری کا رونا الاپ کر اپنی مایوسی کا اطلاق مقاومت پر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مقاومت کے تمام بلاکس ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر ہم جو نادانستگی میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، آخر کب عقل کا استعمال کریں گے۔؟ آخر میں فیسبکی دانشوروں کے لیے جن کا کام سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کرنا ہے، آیت اللہ خمینی کا فرمان اگر سمجھ آجائے تو افاقہ ہوگا۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کہا تھا کہ بھلے ایران یا میں ختم ہو جاوں تو کیا!!!!!! اسلام ختم ہو جائے گا۔؟ کیا راہِ شہادت ختم ہو جائے گی۔؟ ہم سے بہتر ایمان، عقیدہ اور جذبہ رکھنے والے آجائیں گے۔ ہم سب یا تو الہیٰ وعدہ کو مان لیں کہ آخری فتح حق کی ہے۔ یا باطل کی بیعت کرلیں اور زندہ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
تحریر: سید محمد تعجیل مہدی