Print this page

ایران کے خلاف اسرائیلی شطرنج کا کھیل ناکام ہوگیا

Rate this item
(0 votes)
ایران کے خلاف اسرائیلی شطرنج کا کھیل ناکام ہوگیا

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: پروفیسر لانا راوندی روسی اکیڈمی آف سائنسز کے شعبہ مشرق وسطی کی سربراہ اور سینیئر محققہ نے مهر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران پر کی جانے والی جارحیت کے وسیع پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا۔ ان کے مطابق تل ابیب کو امید تھی کہ وہ ایران میں نظام کی تبدیلی کا تجرباتی منصوبہ بہت جلد کامیاب کر لے گا، لیکن ان کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔

ذیل میں اس روسی خاتون محقق کا تفصیلی انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے:

مہر نیوز: آپ کے خیال میں وہ کون سا عامل تھا جس نے صہیونی حکومت کو ایران پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا؟

لانا راوندی: میرے خیال میں کوئی بھی غیرجانبدار مبصر اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اخلاقی، قانونی اور سفارتی اقدار کو پار کردیا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکا کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضہ کریں اور جو بھی شخص یا قوت ان کے منصوبوں کے لیے رکاوٹ بنے، سرنگوں کر دیں اور یقینا اس میں اسلامی جمہوری ایران بھی شامل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مہذب ممالک بھی اسرائیل کے اس عمل کا ساتھ دے رہے ہیں اور ایک واضح جارحیت کو دفاع اور ضرورت جیسے الفاظ میں توجیہہ فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی وسیع پیمانے پر جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کو نہ صرف اپنی حکومت کے انتہا پسند عناصر کی حمایت حاصل ہے بلکہ اسرائیلی معاشرے کے ایک بڑے حصے کی بھی پشت پناہی حاصل ہے، جو طویل عرصے سے ایران کو تباہ کرنے کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے بہت منظم طریقہ اختیار کیا ہے۔ فضائی بمباری، زمینی کارروائیاں، اور حزب اللہ و ایران کی حامی جماعتوں کے خلاف کارروائیاں یہاں تک کہ انہوں نے شام میں تکفیری عناصر کے اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار کی۔

نتن یاہو نے جب غزہ میں ۶۰ فیصد سے زیادہ مکانات کو تباہ کر دیا اور حماس کو کمزور کر لیا تو اس کے بعد انہوں نے ایران کی حکومت کے خلاف براہ راست کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام میں ایک خودمختار ملک کی سرزمین پر حملہ کیا گیا، تہران کے رہائشی علاقوں پر بمباری کی گئی، اور سیکڑوں بےگناہ شہری شہید ہوئے۔ اگرچہ وہ ظاہری طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے نعرے استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد ایران میں ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو اسرائیلی ریاست کے سیاہ عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے یعنی وہ جو چاہے اپنے ہمسایوں کے ساتھ کرے۔

نیتن یاہو کو امید تھی کہ وہ یہ کام تیزی سے مکمل کر لیں گے، لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ البتہ جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ وہ گروہ جو ایران میں نظام کی تبدیلی کا یہ تجرباتی منصوبہ لے کر آگے بڑھا تھا، وہ اتنی آسانی سے شکست کو تسلیم نہیں کرے گا۔

مہر نیوز: جنگ کے آغاز پر بین الاقوامی برادری اور بڑی طاقتوں کی ابتدائی ردعمل کس حد تک مؤثر تھا؟

لانا راوندی: کیا اس بات پر تعجب ہونا چاہیے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت کی؟ کم از کم ان کے حکومتی رہنماؤں نے تو ایسا ہی کیا۔ یورپی یونین کے اہم ممالک کے سربراہان، مثلاً جرمن چانسلر فریڈرک مَرتس، نے واضح طور پر اس بات کا خیر مقدم کیا کہ اسرائیل اچانک حملے اور سلسلہ وار سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مغرب کا گندا کام سرانجام دے رہا ہے۔

توقع کے مطابق روس اور چین نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی۔ ایران کے ہمسایہ ممالک جیسے آرمینیا، ترکی اور پاکستان بھی ان کی مذمت میں شامل ہوگئے۔ تاہم شامی حکام نے خاموشی اختیار کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض شامی صحافی، جو حکومتی حلقوں سے قریب سمجھے جاتے ہیں، درحقیقت اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر مزید حملے کرے۔ یہی نہیں، ان صحافیوں نے گزشتہ خزاں میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں بھی اسرائیل کی کامیابی کی امید ظاہر کی اور جنوبی لبنان پر اسرائیلی بمباری کے دوران عام شہریوں کے قتل عام کے واضح شواہد کو جھٹلانے کی کوشش کی۔

دوسری جانب قطر نے زیادہ محتاط اور تعمیری موقف اختیار کیا۔ قطر نے سفارتی طور پر فعال کردار ادا کیا اور مغرب و ایران، دونوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھے۔ قطری حکام نے روس اور چین کے ساتھ مل کر جھڑپوں کو روکنے میں مدد فراہم کی۔

مہر نیوز: امریکہ جنگ کے کس مرحلے میں شامل ہوا اور اس کا مقصد کیا تھا؟

لانا راوندی: بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ۲۲ جون کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے میں اسرائیل کے ساتھ شامل ہوئے، اگرچہ نیتن یاہو کی ٹیم نے اس سے بھی بڑے پیمانے پر امریکی شرکت کی توقع کر رکھی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آغاز ہی سے اسرائیلی حملے میں شامل تھا، کیونکہ اس نے اسرائیل کو عملی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ بعض ماہرین کے مطابق اس منصوبہ بندی کا آغاز دس سال یا اس سے بھی پہلے ہو چکا تھا۔

اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح امریکہ سے اسلحہ، مالی وسائل، انٹیلیجنس معلومات اور سفارتی تحفظ حاصل کیا۔ آخرکار وہ دونوں اتحادی ہیں، لہٰذا اس سے مختلف رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

مہر نیوز: کیا اس مداخلت سے عالمی طاقتوں کے درمیان کسی نئے اتحاد کی تشکیل ہوئی ہے؟

لانا راوندی: فی الحال اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ہم اب تک یہ بھی نہیں جانتے کہ دونوں طرف کتنا نقصان ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس مرحلے پر کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی کیونکہ بظاہر لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انتظار کرتے ہیں کہ کچھ وقت گزرے، حالات واضح ہوں اور دھول بیٹھے۔ مغرب ہمیشہ اسرائیل کا حامی رہا ہے اور ایران کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ روس ایران کی حمایت کرتا ہے، لیکن وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مواقع اور یوکرین کے مسئلے کے حل کی امید بھی رکھتا ہے، اسی لیے ممکن ہے کہ وہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ براہِ راست تصادم سے گریز کرے۔ اسی طرح چین بھی امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے وہ ایران کی حمایت کو کچھ حد تک محدود کر رہا ہو۔

مہر نیوز: کیا امریکہ کا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ جنگ کے فوجی یا سیاسی توازن میں تبدیلی کا سبب بنا؟

لانا راوندی: ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ کا حملہ ایک بڑی کاروائی تھی۔ امریکی میڈیا نے اس حملے کو ایک ناقابل یقین کارنامہ قرار دیا مثلا اس کے طویل فاصلے تک پرواز، نشانے کی درستگی اور تکنیکی مہارت پر مبنی بمباری پر مبالغہ کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کارنامہ جتنا مؤثر دکھایا گیا، اتنا مؤثر نہیں تھا اگرچہ ابھی تک تمام تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ اس حملے نے فوجی-سیاسی توازن پر زیادہ اثر نہ ڈالا ہو۔

امریکہ کی بمباری غالباً ایک اختتامی شو سے زیادہ کچھ نہ تھی ایسا اقدام جس سے امریکہ اور اسرائیل کو یہ موقع مل جائے کہ وہ جنگ کو ختم کر دیں، اس سے پہلے کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں۔ اس نے مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل کے ممکنہ حملوں پر بھی کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

مہر نیوز: آخرکار وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے دونوں فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کیا؟

لانا راوندی: اگرچہ امریکہ نے اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے اور برطانیہ نے جنگی طیارے اسرائیل کی حفاظت کے لیے میدان میں اتار دیے تھے، پھر بھی ایرانی میزائل اسرائیل کے علاقوں کے اندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے تھے اور اسرائیل کو ایسے پیمانے پر نقصان پہنچا رہے تھے، جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ، جنگ کی لاگت بھی بہت زیادہ تھی، اور امریکی و اسرائیلی افواج کے میزائل ذخائر ختم ہونے کے قریب تھے۔ میں نے کئی مختلف تجزیے سنے کہ اسرائیل اپنے فضائی دفاع کو کتنے دنوں تک جاری رکھ سکتا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی تجزیہ چند ہفتوں سے آگے نہیں جاتا تھا۔ اس کے برعکس، ایران کے پاس میزائلوں کی کسی کمی کے آثار نہیں تھے۔ پھر لڑائی کے آخری دنوں میں ایسا محسوس ہوا کہ آگ پھیل رہی ہے۔ انصاراللہ یمن نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی سابقہ مفاہمت کو اب تسلیم نہیں کرتی۔ قطر میں واقع امریکی فوجی اڈہ ایرانی میزائلوں کی زد میں آیا اور ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی عملی جامہ پہننے کے قریب تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ بھی اس جھگڑے کو خطرناک سطح تک لے جانے کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ جلد از جلد ایک حل چاہتے تھے۔

اسی دوران روس، چین، قطر، ترکی، آذربائیجان اور دیگر ممالک نے سفارتی طور پر جنگ کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ تل ابیب اور واشنگٹن بھی ممکنہ طور پر اس بات سے فکرمند تھے کہ روس اور چین کے ساتھ تعلقات مزید پیچیدہ نہ ہو جائیں خاص طور پر جب کہ یہ دونوں ملک کھل کر ایران کی حمایت کر رہے تھے۔

مہر نیوز: کریملن کے نقطۂ نظر سے، کیا ماسکو نے اس تنازعے کے خاتمے میں ثالثی کا کردار ادا کیا؟

لانا راوندی: جی ہاں، روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تجویز پیش کی کہ وہ اس تنازعے کے حل میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم روس صرف اسی صورت میں ثالثی پر آمادہ تھا جب باضابطہ طور پر اس سے درخواست کی جائے۔ وہ خود کو کسی پر مسلط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ روسی وزیر دفاع اور دیگر اعلی حکام نے ۱۳ جون کو جھڑپوں کے آغاز ہی سے ایران میں ہونے والے بھاری جانی نقصان پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔

روسی قیادت اور اعلی سفارت کاروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی سخت زبان میں مذمت، اور یہ اشارہ کہ اگر جنگ شدت اختیار کرے تو روس ممکنہ طور پر مداخلت کر سکتا ہے ان اقدامات نے ممکن ہے کہ نیتن یاہو کے جنگی جنون کو کم کردیا ہو۔

 
Read 13 times