Print this page

غیر مسلح کرنے کی ناقابل حصول آرزو

Rate this item
(0 votes)
غیر مسلح کرنے کی ناقابل حصول آرزو

قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد عبرانی ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر فلسطین میں اسلامی مزاحمت خاص طور پر حماس کے غیر مسلح ہونے پر بات کرنا شروع کر دی ہے۔ اس وقت تقریباً تمام اسرائیلی تجزیہ کاروں اور سابقہ سیکیورٹی عہدیداروں کے دریان اس تلخ حقیقت کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنا محض ایک وہم ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہ خبردار کر رہے ہیں کہ حماس سے متعلق زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے غزہ جنگ کے بعد کے لیے بنائے جانے والا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اس بارے میں شاباک کے سابق افسر ایلا لوتان نے کہا: "جو بھی یہ سوچتا ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دے گی وہ شدید وہم کا شکار ہے۔" اس کے بقول غزہ میں آزاد ہونے والی فلسطینی قیدیوں کے پرتپاک استقبال نے ثابت کر دیا ہے کہ حماس اب بھی طاقتور اور اثرورسوخ کی حامل ہے۔
 
ہتھیار، اسلامی مزاحمت کا تشخص
غزہ کی گذشتہ جنگوں میں حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حالیہ جنگ کے بعد نہ صرف اپنا فوجی اور سیکورٹی ڈھانچہ محفوظ رکھا ہے بلکہ میدان جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات، عوامی حمایت، زیر زمین سرنگوں کے پیچیدہ نیٹ ورک، مقامی سطح پر ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت اور نامنظم جنگ کی جدید حکمت عملیوں کی مدد سے نہ صرف غاصب صیہونی فوج کا مقابلہ کیا ہے بلکہ ان پر برتری بھی حاصل کی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے کہ حماس کی ڈیٹرنس پاور میں نہ صرف کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ دباو اور چند سالوں پر مبنی محاصرے کے باوجود بڑھی بھی ہے۔ تل ابیب نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز سنٹر (INSS) سمیت مختلف اسرائیلی فوجی ذرائع نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل حماس کی فوجی طاقت اور کمانڈ لائن کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
 
اسرائیلی فوجی ذرائع اس حقیقت کا بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ حماس کو نہ ہی رضاکارانہ طور پر اور نہ ہی طاقت کے زور پر غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حماس کی کامیابی کا راز مذہبی سوچ اور اعتقادات میں بھی پوشیدہ ہے۔ یہ گروہ اپنے ہتھیاروں کو صرف ایک عارضی ذریعے کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی اعتقادی اور مذہبی تشخص کا حصہ بھی جانتا ہے۔ حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کی نظر میں غیر مسلح ہو جانے کا مطلب خود کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارنیگی اور چیٹم ہاوس جیسے متعدد مغربی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اس بات پر زور دیتی ہیں کہ حماس کی نظر میں ان کے ہتھیار دشمن کے مقابلے میں مشروعیت اور سیاسی بقا کے ضامن ہیں۔ ان تحقیقاتی مراکز کی نظر میں کسی قسم کا بین الاقوامی سیاسی دباو یا ہتھکنڈہ حماس کو غیر مسلح نہیں کر سکتا۔
 
صیہونی ماہرین کی وارننگ
حماس کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنے اور غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کے سب سے بڑے مخالفین صیہونی رژیم کے قریبی مشیران ہیں۔ مثال کے طور پر تل ابیب یونیورسٹی میں فلسطین اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مائیکل میلشتاین نے صیہونی چینل 12 سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوشش مستقبل میں سب سے بڑا سیاسی مائن فیلڈ ثابت ہو گی۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ ابہامات اور خطرات سے بھرا پڑا ہے اور حماس نے واضح طور پر غیر مسلح ہونے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے بقول یہ تنظیم کسی صورت بھی غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہو گی اور یہ مسئلہ اسرائیل کے اندر شدید بحران اور اسرائیلی معاشرے میں شدید مایوسی پھیل جانے کا باعث بن سکتا ہے۔
 
میلشتاین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ قطر اور مصر سمیت عرب ممالک ایک درمیانہ راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کی بجائے اس کی جارحانہ صلاحیتوں کو کم کرنے پر ہی اکتفا کیا جائے۔ اس کے بقول یہ حکمت عملی اس حقیقت کے حقیقت پسندانہ ادراک کا نتیجہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح ہونے پر مجبور کر دینا ناممکن ہے۔ میلشتاین نے مزید کہا کہ اسلامک جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد نخالہ نے آزاد ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے غزہ میں موجودگی برقرار رکھنے پر زور دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تناو جاری رہے گا اور مزاحمتی گروہ اسرائیل کا مقابلہ جاری رکھیں گے۔ اسی طرح صیہونی چینل 12 کے فوجی تجزیہ کار نیر دوری نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو فوجی مرحلے سے نکل کر سیاسی مرحلے میں داخل ہو جانا چاہیے کیونکہ ہر غلطی ماضی جیسی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
 
چھپے رستم
غزہ میں جنگ بند ہو جانے کے بعد عزالدین قسام بٹالینز کے ان مجاہدین کی قدردانی کرنے کا وقت فراہم ہو چکا ہے جنہوں نے نظروں سے اوجھل ہو کر مزاحمت کا سلسلہ باقی رکھا ہے۔ اس بارے میں "سایہ یونٹ" حماس کی ملٹری ونگ کا وہ ماہر ترین یونٹ ہے جس کے مجاہدین نے طوفان الاقصی آپریشن میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس یونٹ نے انتہائی کٹھن اور خطرناک حالات میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت کی ذمہ داری کامیابی سے انجام دی اور صیہونی رژیم سے ڈیل کرنے کے لیے ان یرغمالیوں کو حماس کے قبضے میں رکھا۔ یہ یونٹ ماہر ترین اور اعلی ترین تربیت کے حامل مجاہدین پر مشتمل ہے جنہوں نے جنگ کے دوران صیہونی رژیم پر اپنی انٹیلی جنس برتری بھی ثابت کر دیا ہے۔ اس یونٹ کی بنیاد 2006ء میں اسرائیلی فوجی گیلعاد شالیط کی گرفتاری کے بعد عمل میں آئی تھی۔

تحریر: سید رضا حسینی

Read 13 times