Print this page

ایران کا مصنوعی ذہانت (AI) انقلاب ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے Featured

Rate this item
(0 votes)
ایران کا مصنوعی ذہانت (AI) انقلاب ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے

ایران غیر معمولی عجلت کے ساتھ عالمی مصنوعی ذہانت (AI) کی دوڑ میں داخل ہوچکا ہے۔ تہران اس ٹیکنالوجی کو محض سائنسی یا معاشی ترجیح نہیں سمجھتا، بلکہ اسے قومی طاقت، اندرونی کنٹرول اور اسرائیل و امریکا جیسے حریفوں کے خلاف مستقبل کی حکمتِ عملی کے ایک اہم ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ شدید پابندیوں اور گہرے معاشی دباؤ کے باوجود، ایران کے اعلیٰ حکام اور سلامتی ادارے اب کھل کر AI کو ایک ایسا شعبہ قرار دے رہے ہیں، جس پر ملک کو خود انحصار حاصل کرنا ہوگا اور جس میں مغربی پلیٹ فارمز پر انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ مستقبل میں ان تک رسائی محدود یا بند کی جا سکتی ہے۔ حکومتی، تعلیمی اور عسکری ادارے اب باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، تاکہ مقامی AI صلاحیتیں تیار کی جائیں، قومی پلیٹ فارمز بنائے جائیں اور بالآخر ایران کے سائبر اور عسکری نظاموں میں AI کو مکمل طور پر ضم کیا جائے، جن میں جارحانہ (offensive) صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔

اعلیٰ قیادت کی سطح پر ہدایات
سیاسی سطح پر رہبرِ انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای نے AI کی ترقی کو ذاتی طور پر ایک اسٹریٹجک ہدایت بنا دیا ہے۔ 2024ء کے بعد سے وہ مسلسل خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں کوئی بین الاقوامی ادارہ، جوہری نگرانی کے نظام کی طرز پر۔۔۔ ایران کی جدید AI تک رسائی محدود کرسکتا ہے۔ ان کے مطابق ایران کو لازماً خود مختار AI صلاحیتیں پیدا کرنا ہوں گی اور صرف غیر ملکی نظاموں کا "صارف" بن کر نہیں رہنا چاہیئے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے بھی اسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے قانون سازی اور ایک قومی AI خاکے (blueprint) کی ضرورت پر زور دیا ہے، جو تحقیقی اداروں، وزارتوں اور مجلس (پارلیمنٹ) کو ایک متحد فریم ورک میں جوڑ دے۔

حکام اور اداروں کا وسیع نیٹ ورک
سابق نائب صدر محمد مخبر AI تعلیم، نوجوانوں کی تربیت اور ’’نالج بیسڈ کمپنیوں‘‘ کے لیے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری پر زور دیتے ہیں۔ ایرانی ایسوسی ایشن برائے مصنوعی ذہانت کے سیکرٹری خبردار کرتے ہیں کہ ہارڈویئر اور سافٹ ویئر پر پابندیاں پہلے ہی پیش رفت میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور اگر مغربی ممالک نے AI ٹیکنالوجی پر اسی طرح قدغن لگائی، جیسے جدید ہتھیاروں پر لگائی گئی تھی، تو یہ تقریباً مکمل ناکہ بندی کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ پاسدارانِ انقلاب (IRGC) سے وابستہ ماہرینِ تعلیم AI تحقیق کو براہِ راست فوجی حکمتِ عملی سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ AI میدانِ جنگ میں فیصلوں کی رفتار کو غیر معمولی حد تک تیز کرسکتی ہے۔

عسکری میدان میں AI
فوجی کمانڈر اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ مرحوم IRGC کمانڈر حسین سلامی AI کو نہایت درست نشانہ بندی (precision targeting) کے لیے ناگزیر قرار دے چکے ہیں، خصوصاً بحری جنگ میں۔ IRGC نیوی کا دعویٰ ہے کہ وہ AI کو میزائل اور فضائی نظاموں میں ضم کر رہی ہے، جبکہ بری فوج اب ایسے کسی بھی ساز و سامان کی خریداری سے انکار کر رہی ہے، جو "سمارٹ" نہ ہو۔ ایران کے سلامتی اداروں کے نزدیک AI محض ایک تکنیکی انقلاب نہیں بلکہ ایک عسکری انقلاب ہے اور ان کے خیال میں ایران اس سے پیچھے رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ادارہ جاتی پیش رفت
ادارہ جاتی سطح پر بھی ایران تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جون 2024ء میں مجلس نے ’’قومی دستاویز برائے مصنوعی ذہانت‘‘ کی منظوری دی، جو خامنہ ای کے وژن کو بنیاد بناتے ہوئے انفراسٹرکچر، انسانی وسائل، بین الاقوامی تحقیقی قیادت اور معاشی استحکام کے اہداف طے کرتی ہے۔ 2025ء کے اواخر میں ایک ’’قومی تنظیم برائے مصنوعی ذہانت‘‘ قائم کی گئی، جو صدارتی دفتر کے تحت کام کرے گی، ضابطہ کاری (regulation) کو مربوط کرے گی اور عالمی سطح پر ایران کی نمائندگی کرے گی۔ تہران نے ایک مقامی تجرباتی AI پلیٹ فارم بھی لانچ کیا ہے، جسے طب، ٹرانسپورٹ اور تعلیم جیسے شعبوں میں استعمال کیا جا رہا ہے اور جس کا مقصد مغربی نظاموں پر انحصار کم کرنا ہے۔

ہیکنگ، فِشنگ اور گمراہ کن معلومات
اگرچہ ایرانی حکام "دفاعی سائبر استعمال" پر زور دیتے ہیں، لیکن مغربی ٹیکنالوجی کمپنیاں ایرانی کوششوں میں واضح اضافہ رپورٹ کرچکی ہیں، جن کا مقصد AI کو جارحانہ سائبر سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا ہے۔ مائیکروسافٹ، گوگل اور اوپن اے آئی (OpenAI) سب نے انکشاف کیا ہے کہ ایران بڑے لسانی ماڈلز (LLMs) کو ہیکنگ، فِشنگ، گمراہ کن معلومات اور سافٹ ویئر کمزوریوں کی تلاش کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ غلط معلومات پھیلانے والا گروپ STORM-2035 نے 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران AI ٹولز استعمال کرتے ہوئے کثیر لسانی مواد تیار کیا، جو سماجی تقسیم کو ہوا دیتا اور ایران نواز بیانیے کو فروغ دیتا تھا۔ یہ گروپ خود کو مقامی شہری ظاہر کرتے ہوئے امریکا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے سامعین کو نشانہ بناتا رہا۔

ایک اور IRGC سے منسلک کردار CyberAv3ngers نے کمرشل AI ٹولز کے ذریعے صنعتی کنٹرول سسٹمز کو اسکین کیا، بدنیتی پر مبنی کوڈ کو چھپایا اور اہداف کی فہرست وسیع کی۔ گوگل کے Gemini پلیٹ فارم نے بھی ایسے ایرانی اقدامات کی نشاندہی کی، جن میں اسرائیلی دفاعی نظام، سیٹلائٹ انفراسٹرکچر، ڈرون ٹیکنالوجی اور عبرانی زبان میں فِشنگ کی کوششیں شامل تھیں، یعنی AI ماڈلز سے عملی طریقۂ کار سیکھا جا رہا تھا۔ ایرانی گروپ APT-42 نے AI نظاموں کو دھوکہ دے کر "ریڈ ٹیم" طرز کی حملہ آور رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ تمام مثالیں ایران کی بڑھتی ہوئی مہارت کے ساتھ ساتھ اس کی حدود کو بھی ظاہر کرتی ہیں: ایران اب بھی بڑی حد تک مغربی AI ماڈلز پر انحصار کرتا ہے، کیونکہ اس کے مقامی پلیٹ فارمز ان کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں۔ خودمختار AI پر سیاسی زور دراصل تہران کے اس خوف کی عکاسی کرتا ہے کہ کہیں غیر ملکی نظام مستقبل میں ایران کو مکمل طور پر باہر نہ کر دیں۔

عالمی رجحانات اور مستقبل کے خدشات
ایران کی سمت عالمی رجحانات سے مطابقت رکھتی ہے، جہاں AI پر مبنی سائبر کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، چاہے وہ شمالی کوریا کی مالی دھوکہ دہی ہو یا مختلف ریاستوں کی خفیہ اثرانداز مہمات۔ تہران موجودہ ماڈلز کا مطالعہ کر رہا ہے اور انہیں اپنی جغرافیائی سیاسی کشمکش کے مطابق ڈھال رہا ہے۔ اگرچہ ایران میں AI کے بیشتر استعمالات ابھی تجرباتی مرحلے میں ہیں، لیکن جو انفراسٹرکچر اب تعمیر ہو رہا ہے، وہ مستقبل میں اسلامی جمہوریہ کو خودکار سائبر ہتھیاروں، اثرانداز مہمات اور میدانِ جنگ میں AI کے نئے اوزار فراہم کرسکتا ہے، خصوصاً اسرائیل اور مغرب کے ساتھ آئندہ تصادمات میں۔

نتیجہ
ایران کی AI مہم کو محض بیانات یا نعرہ بازی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔ یہ ایک گہرا اسٹریٹجک قومی منصوبہ ہے، جو ایران کی معیشت، حکمرانی، عسکری حکمتِ عملی اور خارجہ پالیسی کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے اور حیران کن رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔

نوٹ:
اس تجزیئے کا مکمل نسخہ ڈاکٹر آوی داویدی نے Jerusalem Institute for Strategy and Security کے لیے تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر آوی داویدی Times of Israel کے فارسی ایڈیشن کے مدیر ہیں، تل ابیب یونیورسٹی کے Elrom Air and Space Research Center میں سینیئر محقق اور Ono Academic College میں MBA پروگرام کے لیکچرر ہیں

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

Read 12 times