Print this page

ایران کا شاہد-136 ڈرون، کم خرچ مگر مؤثر ہتھیار، عالمی طاقتوں کے لیے نیا چیلنج

Rate this item
(0 votes)
ایران کا شاہد-136 ڈرون، کم خرچ مگر مؤثر ہتھیار، عالمی طاقتوں کے لیے نیا چیلنج

ایران کا شاہد-136 ڈرون عالمی سطح پر جنگی حکمت عملی کے قواعد بدلنے والا ایک اہم عنصر بن کر ابھرا ہے، جس نے بڑی عسکری طاقتوں کو میدان جنگ میں برتری کے طریقے دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عالمی اسلحہ سازی کے منظرنامے میں جہاں امریکہ، چین اور روس کو ہمیشہ عسکری جدت کے رہنما سمجھا جاتا رہا ہے، وہاں ایران کا شاہد-136 ایک غیر معمولی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ ڈرون چھوٹا، کم خرچ اور عملی مؤثریت کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس نے جدید جنگ کی معیشت اور حکمت عملی کو نئی شکل دی ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے کے بعد یہ نظام اب عالمی سطح پر معروف ہوچکا ہے اور بڑی عسکری صنعتیں اس کی نقل پر مجبور ہیں، جو ایرانی جدت کی اثر پذیری کو ظاہر کرتا ہے۔

شاہد-136 50 ہارس پاور پسٹن انجن سے چلتا ہے، 40 کلوگرام کا وارہیڈ لے جاسکتا ہے اور تقریباً 2000 کلومیٹر تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فی یونٹ تخمینہ لاگت 20 ہزار سے 50 ہزار ڈالر کے درمیان ہے، جو مہنگے فضائی دفاعی نظاموں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کم پیداوار لاگت اور زیادہ روک تھام لاگت کے اس فرق نے ایران کو عالمی ڈرون جنگ میں منفرد مقام پر پہنچا دیا ہے۔

شاہد-136 کے اثرات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہی طاقتیں جو کبھی ایران کو ثانوی کردار سمجھتی تھیں، اب اس کی ٹیکنالوجی کو اپنا رہی ہیں۔ امریکہ، جو ہمیشہ "یہاں ایجاد ہوا" کے اصول پر کاربند رہا ہے، نے پینٹاگون کے "اسکارپین اسٹرائیک" ٹاسک فورس کے ذریعے اس کا ریورس انجینئرڈ ورژن متعارف کرایا ہے۔ اس نئے نظام کی قیمت بھی ایرانی ماڈل کے قریب بتائی جاتی ہے اور اسے "سوارم کوآرڈینیشن" کے لیے بہتر بنایا گیا ہے۔ یہ پیش رفت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ واشنگٹن کی وسیع تکنیکی صلاحیتیں بھی شاہد-136 جیسے کم خرچ مگر مؤثر خطرے کے سامنے محدود ہوگئی ہیں۔

روس دنیا کے بڑے ڈرون بنانے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے اس کے باوجود ماسکو نے ایران کی جدید ٹیکنالوجی کو اپنے "گرین-2" ڈرون میں شامل کیا ہے۔ اس میں بہتر انجن، ریڈار سے بچنے والا مواد، مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام اور جدید اینٹی-جیمنگ آلات لگائے گئے ہیں تاکہ یوکرین کے میدانِ جنگ میں موجود سخت فضائی دفاعی نظام کا مقابلہ کیا جاسکے۔ روس کے پاس اپنے ڈرون پروگرام موجود ہیں، لیکن شاہد-136 نے اس کی ایک بڑی ضرورت پوری کی ہے۔ ایک سستا، لمبے فاصلے تک جانے والا اور استعمال کے بعد ضائع ہونے والا حملہ آور ڈرون جو مغربی دفاعی نظام کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

چین بھی اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ اس نے "لانگ M-9" ڈرون کا تجربہ کیا ہے جس کا ڈیزائن اور عمل شاہد-136 سے ملتا جلتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بیجنگ بھی سمجھتا ہے کہ کم خرچ اور بڑے پیمانے پر تیار کیے جانے والے ڈرون مستقبل کی جنگوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔

یہ سب مثالیں ایک حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ بڑے بجٹ رکھنے والے ممالک اکثر اپنے نظام کی سست روی اور زیادہ لاگت کی وجہ سے محدود رہ جاتے ہیں، جبکہ ایران نے پابندیوں کے باوجود خود انحصاری پر زور دے کر ایک ایسا ماڈل بنایا ہے جو سادہ مگر مؤثر ہے اور میدان جنگ میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ یوں شاہد-136 صرف ایک ڈرون نہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ضرورت اور حکمتِ عملی کبھی کبھار دولت اور وسائل پر بھاری پڑجاتی ہے۔

اس ڈرون کی وسیع پیمانے پر نقل بنانا اور خریدنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جدید جنگ کا انداز بدل رہا ہے۔ اب جنگی معیشت مہنگی ٹیکنالوجی کے بجائے تعداد اور کم خرچ ہتھیاروں پر زیادہ انحصار کررہی ہے۔ شاہد-136 دشمن کے دفاعی نظام کو مفلوج کردیتا ہے اور اسے مہنگے ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے پرانی سوچ ختم ہوجاتی ہے کہ صرف جدید ٹیکنالوجی ہی میدانِ جنگ میں برتری دیتی ہے۔

شاہد-136 نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جدت صرف امیر ممالک کا حق نہیں۔ ایران نے وسائل کی کمی کو اپنی طاقت بنایا اور ایسا ڈرون تیار کیا جس کی اب دنیا کی بڑی فوجیں نقل کر رہی ہیں اور اپنا رہی ہیں

Read 10 times