الجزیرہ نیوز کے مطابق، دو انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حکام کو شہریت منسوخ کرنے کے لیے دیے گئے اختیارات میں اضافے کے باعث برطانیہ میں لاکھوں مسلمان اپنی شہریت سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ رپورٹ برطانیہ کی نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم رنی میڈ ٹرسٹ (Runnymede Trust) اور غیر سرکاری تنظیم ریپریو (Reprieve) نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیرِ داخلہ کے تخمینے کے مطابق برطانیہ میں تقریباً 90 لاکھ افراد قانونی طور پر اپنی شہریت کی منسوخی کے خطرے میں ہیں۔
رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 13 فیصد بنتی ہے اور شہریت منسوخی کے یہ اختیارات غیر متناسب طور پر ان برادریوں کو متاثر کرتے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ طریقۂ کار جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ سے تعلق رکھنے والی برادریوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہا ہے اور یہ اختیارات مسلم معاشروں کے لیے ایک "منظم خطرہ" بن چکے ہیں۔
رپورٹ کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت برطانوی شہریت اس صورت میں بھی منسوخ کی جا سکتی ہے کہ کسی فرد کا کسی دوسرے ملک سے کوئی حقیقی تعلق نہ ہو، بشرطیکہ اسے اس ملک کی شہریت کے لیے اہل سمجھا جائے۔
رپورٹ کے مطابق، وہ افراد جن کے روابط پاکستان، بنگلہ دیش، صومالیہ، نائجیریا، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے ہیں، سب سے زیادہ کمزور اور خطرے سے دوچار ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر پانچ غیر سفید فام افراد میں سے تین افراد کو اپنی شہریت کھونے کا خطرہ لاحق ہے، جبکہ سفید فام برطانوی شہریوں میں یہ شرح پانچ میں سے ایک ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ 2010ء سے اب تک "عوامی مفاد" سے متعلق وجوہات کی بنیاد پر 200 سے زائد افراد کی شہریت منسوخ کی جا چکی ہے، جن کی بھاری اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اس رپورٹ کو تیار کرنے والی دونوں تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ شہریت منسوخی کا عمل فوری طور پر روکا جائے، برطانوی شہریت کے قانون میں متعلقہ شق کو ختم کیا جائے اور جن افراد کی شہریت ان اختیارات کے تحت منسوخ کی گئی ہے، ان کے حقوق بحال کیے جائیں۔/