اکیسویں صدی کا آغاز جس سب سے ہولناک حقیقت کے ساتھ ہوا، وہ دہشت گردی کا وہ عفریت تھا، جس نے ریاستوں کو کمزور، معاشروں کو خوف زدہ اور انسانیت کو یرغمال بنا لیا۔ مذہب کے نام پر قتل، نفرت کو نظریہ اور تشدد کو سیاست بنانے والی تنظیموں نے مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی امن کو براہِ راست خطرے میں ڈال دیا۔ ایسے ہی ایک پُرآشوب اور تاریک عہد میں کچھ شخصیات تاریخ میں محض کردار ادا نہیں کرتیں بلکہ وہ انسانی ضمیر کی نمائندہ بن جاتی ہیں۔ شہید قاسم سلیمانیؒ انہی شخصیات میں شامل تھے، جن کی شہادت کو 2026ء میں چھ برس مکمل ہو رہے ہیں، مگر جن کا نام آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انسانی اقدار کی بقاء کے حوالے سے ایک مضبوط حوالہ ہے۔ حاج قاسم سلیمانیؒ کو محض ایک عسکری کمانڈر کے طور پر دیکھنا ان کی شخصیت کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ وہ اس نسل کے رہنماؤں میں سے تھے، جنہوں نے طاقت کو اخلاق کے تابع رکھنے کی کوشش کی۔
جب داعش اور دیگر انتہاء پسند تنظیموں نے عراق اور شام میں قتل عام، ثقافتی تباہی اور مذہبی نفرت کا بازار گرم کیا۔ عبادت گاہیں، بازار، تعلیمی ادارے اور تاریخی ورثہ ان کی درندگی کا نشانہ بنے، تو یہ صرف ایک علاقائی بحران نہیں رہا بلکہ انسانی تہذیب کے وجود پر حملہ بن گیا۔ ایسے میں قاسم سلیمانی کی قیادت میں سامنے آنے والی مزاحمت کا مقصد محض عسکری غلبہ نہیں بلکہ انسان کی جان، عزت اور شناخت کا تحفظ تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاج قاسم سلیمانیؒ کا امتیاز یہ تھا کہ وہ اسے صرف بندوق کی جنگ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اگر دہشت گردی کے نام پر شہری آبادی، عورتوں، بچوں اور کمزور طبقات کی جانیں بے وقعت ہو جائیں تو ایسی جنگ خود دہشت گردی کی ایک نئی شکل بن جاتی ہے۔ اسی لیے ان کی حکمتِ عملی میں مقامی سماج، مذہبی حساسیتوں اور انسانی جان کے احترام کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔ ان کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کا مقصد شہروں کو بچانا، معاشروں کو ٹوٹنے سے روکنا اور ریاستی نظم کو دوبارہ کھڑا کرنا تھا۔
شہید قدس حاج قاسم سلیمانی ؒکی بصیرت صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ دہشت گردی کو زندہ رکھنے والے عوامل سیاسی، معاشی اور نظریاتی ہوتے ہیں، اس لیے اس کا مقابلہ بھی ہمہ جہتی ہونا چاہیئے۔ اسی سوچ کے تحت وہ عسکری محاذ کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی سرگرم رہے۔ مختلف ممالک اور قوتوں کے درمیان رابطہ، باہمی اعتماد اور مشترکہ خطرات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ان کے کردار کا اہم حصہ تھا۔ وہ خاموشی سے اتحاد بناتے اور انتشار کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ فرقہ واریت کو دہشت گردی کی سب سے خطرناک خوراک سمجھتے ہوئے قاسم سلیمانی نے امتِ مسلمہ کے درمیان اتحاد اور باہمی احترام پر مسلسل زور دیا۔ ان کا عملی رویہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ مسلکی تقسیم سے اوپر اٹھ کر مشترکہ انسانی اور اسلامی اقدار کو مقدم رکھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف مسالک اور قومیتوں میں ان کے لیے احترام پایا جاتا ہے اور انہیں ایک ایسے رہنماء کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو نفرت نہیں بلکہ وحدت کی بات کرتا تھا۔ فلسطین شہید قاسم سلیمانی ؒکی فکر کا ایک مستقل اور گہرا حوالہ تھا۔ ان کے نزدیک فلسطین محض ایک سیاسی تنازع نہیں بلکہ عالمی ضمیر کا امتحان تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی، جب تک طاقت کے نام پر کی جانے والی ریاستی جارحیت اور مظلوم اقوام کے حقوق کی پامالی پر بھی سوال نہ اٹھایا جائے۔ فلسطینی عوام کے ساتھ ان کی وابستگی دراصل اسی انسانی اصول کی توسیع تھی۔
شہید قاسم سلیمانیؒ کی زندگی کا اخلاقی محور ولایتِ فقیہ سے ان کی غیر متزلزل وابستگی تھی۔ رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ساتھ ان کا تعلق محض عسکری نظم و ضبط کا نہیں بلکہ فکری ہم آہنگی اور مقصد کی یکسانیت کا رشتہ تھا۔ وہ خود کو ہمیشہ نظام کا خادم اور ایک سپاہی سمجھتے رہے، نہ کہ طاقت کا مرکز۔ یہی سوچ انہیں ذاتی مفاد، شہرت اور اقتدار کی خواہش سے دور رکھتی تھی۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کے باوجود قاسم سلیمانیؒ کی ذاتی زندگی سادگی کی مثال تھی۔ نہ شاہانہ طرزِ زندگی، نہ نمود و نمائش۔ وہ عام سپاہیوں کے ساتھ بیٹھتے، شہداء کے خاندانوں سے براہِ راست ملتے اور خود کو جواب دہ سمجھتے تھے۔ یہ سادگی دراصل ان کی اخلاقی قوت کی علامت تھی۔
3 جنوری 2020ء کو بغداد میں کیا جانے والا امریکی ڈرون حملہ نہ صرف ایک شخص کی ہلاکت تھا بلکہ بین الاقوامی قوانین، ریاستی خود مختاری اور انسانی اقدار کے لیے ایک خطرناک مثال بھی۔ ایک خود مختار ملک کی سرزمین پر ایک اعلیٰ عہدیدار کا ماورائے عدالت قتل اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ جب طاقت قانون سے بالاتر ہو جائے تو سب سے پہلے انسانیت پامال ہوتی ہے۔ اسی لیے اس اقدام کو دنیا کے مختلف حلقوں میں غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر جمہوری قرار دیا گیا۔ آج، چھ برس بعد، شہید قاسم سلیمانیؒ اس لیے زندہ ہیں کہ ان کی جدوجہد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انسانی اقدار کے ساتھ جوڑتی ہے۔
وہ ہمیں یہ سوال یاد دلاتے ہیں کہ امن صرف طاقت سے نہیں بلکہ انصاف، اخلاق اور انسانی وقار کے احترام سے قائم ہوتا ہے۔ انہیں جسمانی طور پر خاموش کیا جا سکتا تھا، مگر اس فکر کو نہیں، جو انسانیت کے دفاع کو اپنا مقصد بنائے۔ ہم انسانیت کے اس عظیم علمبردار اور آپ کے رفقاء بالخصوص شہید ابو مہدی المہندس کو اُن کی چھٹی برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ عالم انسانیت کو بالعموم، ملت اسلامیہ، ایرانی عوام اور مقام معظم رہبری سید علی خامنہ ای کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ شہید سلیمانی ؒ اور آپ کے رفقاء بالخصوص شہید ابو مہدی المہندس کے درجات بلند تر فرمائے۔
تحریر: مجتبیٰ علی