Print this page

امام علی علیہ السلام ؛ نومسلم خاتون کی نگاہ میں

Rate this item
(0 votes)

زینب بوٹلر ولندیزی نو مسلم خاتون ہیں جو اسلام اختیار کرنے کے بعد دینی و ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئی ہیں. اکیڈمک تعلیم بھی انہوں نے علوم انسانی (Humanities) کے مضمون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے. وہ شادی شدہ ہیں اور دو فرزندوں کی ماں ہیں اور پرمشغلہ خاندانی زندگی کے با وجود «حضرت فاطمة الزہراء (س)» کے نام پر ایک دینی - ثقافتی ادارے کی تأسیس کی کوشش کر رہی ہیں.

یہ انٹرویو «شناخت علی (ع)» کے بارے میں ہے. جنہیں خدا و محمد (ص) کے بغیر کسی نے نہیں پہچانا:

سوال: آج کل کے نوجوانوں کے جذبات و احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے علی (ع) کیونکر ان کے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں؟

بوٹلر: امام علی (ع) پہلے مرد ہیں جنہوں نے پیغمبر (ص) کی اطاعت و پیروی کی ہے جبکہ ان کی عمر ایک قول کے مطابق 9 سال سے زیادہ نہ تھی اور یہی حقیقت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ہر زمانے اور ہر جگہ نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں. امام علی (ع) اس چھوٹی سی عمر میں اسلام کے انتخاب و اختیار کرنے کی جرأت کے حامل تھے حالانکہ اس وقت ان سے پہلے صرف دو مسلمان موجود تھے.

انہوں نے اپنی نوجوانی پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گذار دی اور بہترین و برترین مثال و نمونہ و اسوہ حسنہ کے عنوان سے اسلام و اسلامی اقدار، سماجی و روحانی اخلاقیات رسول خدا (ص) سے سیکھے جو خُلق عظیم کے مالک و اسوہ حسنہ کا مصداق اولین تھے.

امام علیہ السلام نے انسانوں کے عہد شباب، نوجوانوں کے اخلاقیات اور نوجوانوں کو درپیش مختلف سماجی و اخلاقی مراحل کے لئے فصیح ترین و بلیغ ترین جواہر کلام کی صورت میں نہایت عمدہ نصیحتیں چھوڑ رکھی ہیں اور ان میں سے بہت سی احادیث میں نوجوانوں کے وجد و ہیجان اور نوجوانانہ جذبات کو قابو میں رکھنے کی ترکیبیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور ہم بھی بآسانی ان دروس کو سیکھ سکتے ہیں جو آپ کو کسی ماہر نفسیات کے کلینک کسی صوفی و ژندہ پوش تارک دنیا کے ڈیرے پر دیکھنے اور سیکھنے کو نہیں ملتیں.}

سوال: عام لوگوں میں علی (ع) کی کون سی خصوصیت ان کے ہردلعزیز و مقبول عام ہونے کا باعث ہوئی ہے ؟

بوٹلر: میں امام علی (ع) کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں ان کے عظیم کارناموں کی خاطر، درست کردار کی خاطر، ان کی شجاعت کی خاطر اور ان کے صبر و بردباری کی خاطر.

حضرت علی(ع) کیاست و فراست اور روشن بینی کے ساتھ دشمنوں کی سازشوں کے سامنے رد عمل دکھایا کرتے اور صبر و استقامت کو پیشہ کیا کرتے تھے.

سوال: اگر اہل مغرب کو علی (ع) کا تعارف کرانا چاہیں تو کرنا چاہئے؟

بوٹلر: بے شک حضرت علی (ع) دیگر مسلمان مجاہدین کے ہمراہ دشمن کے خلاف شدیدترین انداز میں نبردآزما ہوا کرتے تھے مگر ان کے جذبات و احساسات کبھی بھی «انسانی حقوق» کے سلسلے میں ان کے احساس ذمہ داری پر غلبہ نہ پاسکے؛ وہ دشمن کے انسانی حقوق کا بھی پاس رکھا کرتے تھے.

امام علی(ع) اور ان کے اہل خاندان کئی روز تک بھوکے رہتے تھے صرف اس لئے کہ وہ غرباء و مساکین اور دردمندوں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور اپنا کھانا انہیں کھلایا کرتے تھے.

اور یہ بات خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اپنے اوپر لازم سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کو جو نصیحتیں فرمایا کرتے تھے، سب سے پہلے خود ان پر عمل پیرا ہوں.

سوال: آج کے نوجوان کیونکر امام علی علیہ السلام کی زندگی سے درس حاصل کرسکتے ہیں؟

بوٹلر: امام علی علیہ السلام نے نصایح، گوہرہائے سخن, اور زندگی کے مختلف پہلؤوں کے بارے میں کثیر معلومات ہمارے لئے چھوڑ رکھی ہیں؛ ہم امام علیہ السلام کی تعلیمات کے ذریعے خداوند علیم کی بارے میں آگہی حاصل کرسکتے ہیں. امام علی اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہما کے دشمن بھی بہت تھے جو اسلام کو نابود کردینا چاہتے تھے یا پھر اسلام کی تعلیمات و احکام و اہداف میں تحریف کرنا چاہتے تھے لیکن امام علی علیہ السلام [اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا] نے اسلام کا دفاع کیا اور اس راہ میں قوت بیان اور شمشیر کا استعمال کیا اور اسی اسلام پر جان بھی نچھاور کردی.

امام علی علیہ السلام کے نصایح ایسے بڑے بھائی کے نصائح ہیں جو بہت زیادہ عالم و آگاہ بھی ہو اور خیرخواہ و ہمدرد بھی؛ امام علیہ السلام ان سب احکام کی وضاحت کرتے ہیں جو خداوند عالم کے احکام ہیں اور خداوند عالم ہم سے ان کی تعمیل کی توقع رکھتا ہے اور ساتھ ہی ہمیں سوچنے کا موقع بھی دیتے ہیں اور ہمیں موقع دیتے ہیں کہ ان احکام کو اپنی زندگی پر لاگو کریں اور زندگی کو ان احکام و تعلیمات سے ہماہنگ کریں اور زندگی میں ان تعلیمات کو بروئے کار لانے کی روش بھی سیکھ لیں تا کہ انشاء اللہ تمام امور میں بہترین فیصلے کرسکیں.

Read 3366 times