Print this page

ابوایوب انصاری (رح)

Rate this item
(0 votes)

ابوايوب انصاري كي مزار سلطان ايوب مسجد استنبول میں

 

نام و نسب

آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عبد عوف بن غنم بن مالک بن النجار تھا اور ابو ایوب انصاری کے نام سے مشہور تھے اور آپ کو قبیلہ خزرج میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کی ماں ھند بنت سعید بن عمرو بن امرو القیس تھا۔

 

۱: پیغمبر اکرم (ص) کے سب سے پہلے میزبان

تاریخی منابع میں ملتا ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ میں تشریف لے گئے اور تمام قبائل اور طوائف نے آپ کو اپنے گھروں میں لے جانے کی کوشش کی لیکن پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے سواری کی لگام کو اس کی گردن میں ڈال دیا اور فرمایا: جہاں میری سواری مجھے لے جائے گی میں وہی قیام کروں گا۔

پیغمبر اکرم (ص) کی سواری اتنے سارے عاشقوں اور چاہنے والوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی صرف جناب ابو ایوب کے گھر کے پاس بیٹھ گئی۔ جو اس وقت مدینہ کے سب سے زیادہ فقیر شخص تھے پیغمبر اکرم(ص) سواری سے اترے اور ان کے گھر میں رہائش اختیار کی۔

لوگوں نے آپ کو گھیرلیا اور ہر کوئی آپ کو اپنے گھر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا اتنے میں جناب ابو ایوب کی ماں پیغمبر اکرم (ص) کا سامان سفر اٹھا کر اپنے گھر میں لے گئی۔

پیغمبر اکرم (ص) جو لوگوں کے ہجوم میں تھے فرمایا: میرا سامان کہاں گیا؟ عرض کیا: ابو ایوب کی ماں اپنے گھر لے گئیں ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: المرء مع رحلہ۔ انسان اپنے سامان کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ اس طریقہ سے حضرت رسول خدا(ص) جناب ابو ایوب کے گھر مہمان ہو گئے۔ اور جب تک آپ کے لیے ایک کمرہ اور مسجد نہ بن جاتی آپ انہیں کے گھر میں سکونت پذیر رہے۔

 

ابو ایوب انصاری کے گھر کے واقعات

جناب ابو ایوب کا گھر دو منزلہ تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) کے ان کے گھر میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے دوسری منزل میں زندگی بسر کرنا اپنے لیے جائز نہیں سمجھا۔ لہذا انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ اوپر والی منزل کو پسند کریں گے یا نیچے والی کو میں نہیں چاہتا آپ سے اوپر والے طبقہ میں زندگی بسر کروں۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: چونکہ لوگ مجھ سے ملنے آئیں گے اس وجہ سے نیچے والا حصہ میرے لیے مناسب ہے۔ ابوایوب کہتے ہیں اس وجہ سے میں اور میری والدہ اوپر والے حصے میں رہ رہے تھے۔

ہم جب بھی کنویں سے ڈول کے ذریعہ پانی کھینچتے تھے تو یہ محتاط رہتے تھے کہ کبھی پانی کا کوئی قطرہ رسول خدا(ص) کے اوپر نہ پڑ جائے۔ جب ہم زینہ چڑھ کر اوپر جاتے تھے تو ایسے چلتے تھے کہ کبھی ہمارے قدموں کی آواز سے رسول خدا کو اذیت نہ ہو۔ اور اوپر والی چھت پر اس طریقہ سے رہتے تھے کہ کبھی ہمارے چلنے کی آواز بھی آپ (ص) کے کانوں تک نہ جانے پائے۔

جب کھانا پکاتے تھے تو گھر کا دروازہ بند کر دیتے تھے تاکہ دھواں سے پیغمبر(ص) کو اذیت نہ ہو۔ ایک دن پانی والا برتن گرا اور اس سے پانی بہہ گیا۔ ماں جلدی سے اٹھیں اور گھر میں پڑا ہوا ایک کپڑا اٹھا کر پانی پر ڈال دیا تاکہ پانی کا کوئی قطرہ نیچے نہ جانے پائے۔

 

۲: نقل حدیث

جناب ایوب کی ایک صفت یہ تھی کہ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) سے احادیث کو بھی نقل کیا ہے۔ محدثین نے ابو ایوب انصاری کی روایات کو کافی اہمیت دی ہے۔

آپ نے رسول خدا (ص) سے نزدیک ہونے کی وجہ سے مختلف موضوعات پر کافی مقدار میں روایات نقل کی ہیں اس وجہ سے آپ کا نام میں بھی راویوں کی فہرست میں درج ہوا ہے اور صحابہ اور تابعین نے آپ سے روایات کو بیان کیا ہے۔

ابن عباس، ابن عمر، براء بن عازب، ابو امامه، زيد بن خالد جهنى، مقدام بن معدى كرب، انس بن مالك، جابر بن سمره، عبد الله بن يزيد خطمى، سعيد بن مسيب،عروه، سالم بن عبد الله، عطاء بن يسار، عطاء بن يزيد،، افلح، موسى بن طلحه، عبد الله بن حنين، عبد الرحمن بن ابى ليل، ابو عبد الرحمن حبلى، عمر بن ثابت، جبير بن نفير، ابو دهم سماعى، ابو سلمه عبد الرحمن، قرشع الضبى، محمد بن كعب و قاسم بن ابو عبد الرحمن نے ابو ایوب انصاری سے روایات نقل کی ہیں۔

بعض محققین نے جناب ابو ایوب سے نقل شدہ روایات کی تعداد ایک سو پچپن بتائی ہے جن میں سے سات موارد صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بہت سارے اماميه منابع و ماخذ جیسے کتاب خصال، وسائل الشیعہ میں ابو ایوب انصاری کی روایات دکھائی دیتی ہیں۔

 

3: اقدار کا پاس و لحاظ

۱: ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے ابو ایوب نے فرمایا: آپ کا اخلاق کس درجہ پر پہنچا ہے؟

ابو ایوب نے جواب دیا: «لااوذى جارا فمن دونه و لا امنعه معروفا اقدر عليه‏»

میں نے طے کیا ہے کہ کبھی بھی پڑوسی یا کسی دوسرے شخص کو اذیت نہ کروں اور جتنا میری توان میں ہے اس سے محروم نہ کروں۔

۲: ایک پیغمبر اکرم (ص) نے ابو ایوب کو دیکھا کہ دسترخوان پر گری ہوئی غذا کو کھا رہے ہیں۔ آپ ان کے اس کام سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا: «بورك لك و بورك عليك و بورك فيك‏» مبارک ہو تمہیں، تمہارے اوپر اور تمہارے اندر۔

ابو ایوب نے کہا: اے رسول خدا(ص)! یہ دعا میرے علاوہ بھی کسی اور کو بھی شامل ہو گی؟ فرمایا: جو بھی ایسا کرے گا وہ بھی اس کو پا لے گا جو میں نے کہا ہے خداوند عالم دیوانگی، جذام،برص اور بے عقلی کو اس سے دور کر دے گا۔

۳: امام علي (ع) فرماتے ہیں: ایک دن ابو ایوب انصاری پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پہنچے اور کہا: اے رسول خدا(ص)! کوئی نصیحت کیجیے شاید میں اس پر عمل کر سکوں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں پانچ چیزوں کی نصیحت کرتا ہوں:

۱۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی امید نہ رکھو اس یہی عین بے نیازی ہے۔

۲۔ جتنا ممکن ہو لالچ اور طمع سے دوری اختیار کرو کہ یہی عین قفر ہے۔

۳۔ نماز کو اس طریقہ سے ادا کرو کہ گویا یہ آخری نماز ہے۔

۴۔ ایسا کام نہ کرو کہ اس کے بعد معذرت خواہی کرنا پڑے۔

۵۔ اور جو کچھ اپنے لیے پسند کرتے ہو دوسروں کے لیے بھی پسند کرو۔

 

4: جانثار سپاہی

جناب ابو ایوب کے اندر اطاعت اور بندگی کی جو روح پائی جاتی تھی اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تمام جنگوں میں موجود رہتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہے اور جنگ جمل، صفین اور نہروان میں بھی شرکت کی۔

ابراہیم بن علقمہ کا کہنا ہے کہ ایک دن ابو ایوب انصاری سے میں نے کہا: اے ابو ایوب! خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ تمہارے اوپر ایسی نظر کرم کی جو کسی پر نہیں کی۔ تم پیغمبر اکرم (ص) کے میزبان تھے۔ لیکن کیوں تم نے علی(ع) کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ بھی جنگوں میں شریک ہوئے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی؟

ابوایوب نے جواب دیا:خدا کی قسم ایک دن اسی گھر پر جہاں تم لوگ بیٹھے ہو پیغمبر اکرم(ص) تشریف فرما تھے اور کوئی بھی گھر میں نہیں تھا۔ علی آپ (ص) کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور میں بائیں طرف۔ انس بن مالک سامنے کھڑے ہوئے تھے کہ اتنے میں دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: انس دیکھو دروازے پر کون ہے؟ انس دروازے پر دیکھنے گئے تو عمار یاسر دروازے کے پیچھے تھے۔ پیغمبر نے فرمایا: عمار کے لیے دروازہ کھول دو۔ عمار پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا۔

پیغمبر نے خوش آمدید کہنے بعد فرمایا: اے عمار میرے بعد بہت ناگوار حوادث وجود پائیں گے یہاں تک کہ بعض مسلمان ایک دوسرے پر تلوار چلائیں گے اور ایک گروہ دوسرے سے برائت چاہےگا۔

اے عمار! اگرتم نے اس دن کو دیکھا تو اس کا ساتھ دینا جو میرے دائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔

اے عمار! اگر سب لوگ راستے سے ہٹ جائیں تو تم اسی راستے پر چلنا جس پر علی چلیں۔

اے عمار! کبھی بھی علی تمہیں راہ ہدایت سے منحرف نہیں کریں گے اور گمراہی کی طرف ہدایت نہیں کریں گے۔

اے عمار! علی کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

آخر کار

ابو ایوب اکیاون ہجری میں شہر قسطنطنیہ کے نزدیک بیمار ہو گئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ابوايوب انصاري كي مزار – استنبول تركي

Read 4505 times