Print this page

" صدق الله العظیم یا صدق الله العلی العظیم "

Rate this item
(3 votes)
" صدق الله العظیم یا صدق الله العلی العظیم "

 

بعض اھل سنت کے برادران بالخصوص عرب ممالک کے برادران اھل سنت کے درمیان یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ اھل تشیع، قرآن کریم کی تلاوت کے بعد "صدق اللہ العظیم" کی جگہ "صدق اللہ العلی العظیم" استعمال کرتے ہیں اور ان کا قصد یہ ہوتا ہے کہ (نعوذ باللہ) حضرت علی کو خدا کے برابر شمار کرتے ہیں۔

آیا اھل تشیع "صدق اللہ العلی العظیم" سے یہی مراد لیتے ہیں یا اس کا مطلب کچھ اور ہے؟

مختصر جواب
مذکورہ بالا اشکال کاملا جھوٹ ہے اور شیعوں پر لگانے والی تھمتوں میں سے ایک ہے اور یہ اسلام دشمن عناصر کا ساختہ اشکال ہے جس کے زریعے اسلام دشمن عناصر مسلمانوں  میں تفرقہ ڈالنا چاہتا ہے۔

 

تفصیلی جواب
قرآن کریم میں دونوں کلمہ "العظیم" اور "العلی" آیا ہے اور قاریان قرآن کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ تلاوت کے آخر میں کلمہ "صدق اللہ" کے ساتھ کلمہ "العظیم" یا "العلی العظیم" استعمال کرتے ہیں۔ یعنی تلاوت کے آخر میں یا "صدق اللہ العظیم" کہتے ہیں یا "صدق اللہ العلی العظیم" کہتے ہیں۔

ان دونوں کلموں کو قرآن سے لیا گیا ہے اور کلمہ "العلی" یہاں پر کلمہ اللہ کی صفت ہے نہ اسم خاص، جس کا معنی یہ ہے ( خداے بلند و برتر نے سچ فرمایا)۔ کلمہ علی اور عظیم دونوں اللہ کی صفت ہے لھذا جو مقام اور حیثیت کلمہ عظیم کی ہے وہی مقام اور حیثیت کلمہ علی کی ہے اور کسی بھی صورت میں کلمہ علی سے مراد امام علی فرزند ابی طالب نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی صفت ہے۔

پس کلمہ "صدق اللہ العلی العظیم" کی نسبت یہاں صرف خداوند متعال سے ہے اورکسی فرد سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے، یہ پورا کلمہ قرآن مجید میں کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے مثلا سورہ بقرہ آیہ 225 میں آیا ہے کہ "وھو العلی العظیم" اسی طرح سورہ شوری آیہ 4 میں آیا ہے کہ "لہ ما فی السموات و ما فی الارض و هو العلی العظیم "

جو قرآن کی تلاوت کی روش سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کی ابتداء میں "اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم" یعنی خداند سے شیطان کی شر سے پناہ مانگتے ہیں اور تلاوت کے آخر میں "صدق اللہ العلی العظیم" کہکر جو کچھ تلاوت کی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان دو جملوں سے اس کے علاوہ کچھ اور مراد نہیں لیا جاتا ہے۔

البتہ کوئی فرق نہیں ہے کہ تلاوت کے آخر میں "صدق اللہ العظیم" کہے (کہ جو برادران اھل سنت کے ہاں رائج ہے) یا "صدق اللہ العلی العظیم" کہے ( کہ جو برادران اھل تشیع کے ہاں رائج ہے) دونوں عبارتوں کا مطلب قرآن کی تصدیق کرنا ہے۔

حضرت امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ جو بھی سورہ شمس کی تلاوت کریں تو آخر میں "صدق اللہ و صدق رسولہ" کہے۔   (التهذیب، شیخ طوسی، ج2، ص 297)

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب بھی امام سجاد (ع) سورہ قدر کی تلاوت فرماتے تھے تو آخرمیں "صدق الله عز وجل أنزل الله القرآن في ليلة القدر‌" فرماتے تھے۔  (اصول کافی، ج1، 248)

جب رھبر معظم حضرت آیۃ اللہ خامنائی سے سوال کیا گیا کہ قرآن کی تلاوت کے بعد "صدق اللہ العظیم" کہا جاے یا "صدق اللہ العلی العظیم" کہا جاے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دونوں دردست ہے اور دونوں قرآن مجید میں آیا ہے۔

بعض اساتید اور مصر کے مشہور قراء (جیسے حصان اور محمد بدر حسین) نے قرآن کی تلاوت کے آخر میں "صدق اللہ العلی العظیم" کہا ہے۔

اسی طرح بعض قاریان قرآن جیسے استاد محمود رمضان، محمد عبدالعزیز حصان ، محمد بدرحسین، هاشم هیبه ، احمد رزیقی ، فتحی قندیل ... نے قرآن کی تلاوت کے بعد "صدق اللہ العلی العظیم" کہا ہے جسے نیچے دیے گیے انٹرنیٹ ایڈریس سے سنا جا سکتاہے۔

 

استاد محمود رمضان / انعام 103-95
http://s1.picofile.com/file/8228237942/MahmudRamazan_Anam95_103.Mp3.html

استاد محمد عبدالعزیز حصان / شعراء 92-51
http://s3.picofile.com/file/8228237284/Hassan_Shoara51_92.Mp3.html

استاد محمد بدر حسین / نبأ، طارق، علق
http://s3.picofile.com/file/8228236592/BadrHosein_Naba_Tareq_Alaq.Mp3.html

استاد فتحی قندیل / قیامه، نصر
http://s3.picofile.com/file/8228425718/FathiQandil_Qiamat_Nasr.Mp3.html

استاد احمد الرزیقی / صافات 115-75
http://s3.picofile.com/file/8229540850/Rozeyqi_Safat.mp3.html

استاد هاشم هیبه/ طه 23-1
http://s3.picofile.com/file/8229540468/Hayba_Taha.Mp3.html

 

 

استاد محمد طوخی / بقره، قدر، اخلاص

http://s1.picofile.com/file/8228238400/Toukhi_Baqare_Qadr_Ekhlas.Mp3.html

اسی طرح بعض ایرانی قاریوں نے قرآن کی تلاوت کے بعد "صدق اللہ العظیم" کہا ہے کہ جسے انٹرنیٹ میں سرچ کیا جا سکتا ہے۔

Read 9519 times