Print this page

ولايت اور ہجرت

Rate this item
(0 votes)
ولايت اور ہجرت

ررر



اقتباس از چھ تقريريں امامت و ولايت کے موضوع پر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي
ترجمہ سيد سعيد حيدر زيدي


ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں ۔پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيںمومنين کي صف ميںموجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘مومن اور غير مومن صفوںکے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے ۔
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس يت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات ا عليہ کے قصّے کي جانب
١۔تمہارا ولي امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت ِ رکوع ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
اشارہ کيا تھا ۔
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے۔کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘

مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں۔ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے۔ يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميںکي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے۔

انفرادي ہجرت
ايک انسان کو طاغوت اور شيطان کي ولايت کے تحت نے سے کيوںبچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ايک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہيں کہ پ فوراً اپنے ذہن ميں اس سوال کا اِس انداز سے تجزيہ و تحليل کيجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامي اور مذہبي تعليمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکيں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جيسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن ميں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کي گنجائش رہے گي۔
سوال يہ ہے کہ :کيا طاغوت کي حکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا ؟
کيا يہ ممکن نہيںہے کہ ايک مسلمان شيطان کي ولايت کے تحت زندگي بسر کرے ‘ ليکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ايسا ہوسکتا ہے يا نہيں ؟
کيا يہ ممکن ہے کہ: انساني زندگي کے تمام پہلوؤں اور اسکي حيات کے تمام گوشوں پر ايک غير الٰہي عامل کي حکمراني ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کي فکروں کي تنظيم و تشکيل اور اُن کا انتظام وانصرام ايک غير الٰہي عامل کے ہاتھ ميں ہو‘يہي غير الٰہي عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھي کبھي اِس رُخ پر اور کبھي اُس رُخ پر دھکيل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتي اور شيطاني عوامل کے قبضہ قدرت ميںزندگي بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھي ہو۔
کيا يہ چيزممکن ہے ‘يا ممکن نہيں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کي کوشش کيجئے اور اپنے ذہن ميں اِس کا جواب تيار کيجئے ‘ديکھئے يہ ہوسکتا ہے يا نہيں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دينے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزيہ وتحليل کرناضروري ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کيا يہ ممکن ہے کہ کوئي انسان شيطان کي ولايت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھي ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہيںاور ہميں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزيہ و تحليل کريں ‘ اور ديکھيں کہ اِن کے کيا معني ہيں ؟
پہلا جز يہ ہے کہ کوئي شخص شيطان کي ولايت کے تحت ہو۔
شيطان کي ولايت کے تحت ہونے کے کيا معني ہيں ؟
اگر ولايت کے اُن معني کو جو ہم نے يات ِقرني سے اخذ کئے ہيں ‘ ’’ولايت ِشيطان ‘‘ کي عبارت کے پہلوميں رکھيں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولايت ِ شيطان سے کيا مراد ہے ۔
ولايت ِ شيطان سے مراديہ ہے کہ شيطان (شيطان کے اُنہي مجموعي معني کے مطابق جنہيں ہم نے بارہا بيان کيا ہے ) انسان کے وجود ميںپائي جانے والي تمام توانائيوں ‘ صلاحيتوں ‘ تخليقي قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شيطان کے معين کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت ميں ہو جس کا تعين شيطان نے کيا ہے‘ اُس انسان کي طرح جو کوہساروں سے نيچے بہنے والے سيلاب کي لپيٹ ميں ہو۔ اس انسان کو يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ سخت اور کھردري چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ اس پاني ميں بہتے ہوئے گہرے گڑھے ميں جاپڑے ‘اُسے يہ بات پسند نہيںہوتي کہ پاني کي ان موجوں کے درميان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود يہ کہ اُسے پسند نہيں ہوتا ليکن پاني کا يہ تيز و تند ريلا بغير اُسکي مرضي کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھي مارتا ہے‘وہ کبھي اِس طرف اور کبھي اُس طرف سہارا بھي ليتا ہے ‘راستے ميں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کي کوشش بھي کرتا ہے ‘ليکن پاني کا تيز بہاؤ اُسے بے اختيار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان اسي قسم کي چيز ہے ۔
لہٰذا يت ِ قرن کہتي ہے:
’’وَجَعَلْنہُمْاٰا اَئِمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِ۔‘‘
’’ايسے رہنمااور قائدين بھي ہيں جو اپنے پيروکاروں اور زيرِ فرمان افراد کو دوزخ کي گ اور بد بختي کي طرف کھينچے لئے جاتے ہيں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ يت ٤١)
قرنِ مجيد کي ايک دوسري يت فرماتي ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کيا تم نے اُن لوگوں کو نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کا کفران کيا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کيا ‘کيا تھي؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کي قدرت کا مظہر ہے‘دنيوي طاقتيں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کي نعمت‘انسانوں کي بکثرت صلاحيتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ ميں رکھنے کي نعمت ‘ يہ سب کي سب چيزيں نعمت ہيں اور ايسے سرمائے ہيں جو انسان کے لئے خير کا سرچشمہ ہوسکتے ہيں ۔
اِ س يت ميں جن افراد کي جانب اشارہ کيا گيا ہے اُن کي فرمانروائي ميںزندگي گزارنے والاہر انسان ايک عظيم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترين درجات تک رسائي پاسکتاتھا۔ليکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کيااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہيںاستعمال نہيںکيا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپني قوم اور اپنے زيرِ فرما ن لوگوں کو نيستي و نابودي اور ہلاکت کے گڑھے کي طرف لے گئے)
جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہيں جہنم کي طرف لے گئے ‘ جس ميں الٹے منھ پھينکے جائيں گے اور يہ کيسي بُري جگہ اور ٹھکانہ ہے)
يہ يت امام موسيٰ ابن جعفر عليہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھي اور ہارون کو يہ بات باور کرائي کہ تو وہي شخص ہے جو اپني قوم کو اور اپنے پ کو بد ترين منزل اورمہلک ترين ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کيا تھا کہ کيا ہم کافر ہيں ؟ اُسکي مراد يہ تھي کہ کيا ہم خدا ‘ پيغمبر اور دين پر عقيدہ نہيں رکھتے ہيں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب ميں اِس يت کي تلاوت فرمائي ‘تاکہ اسے يہ بات ذہن نشين کراديں کہ کافر فقط وہي شخص نہيں ہوتا جو صاف اور صريح الفاظ ميں خدا کاانکار کرے‘ يا قرن کوجھٹلائے ‘ يا پيغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھيک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کي بہترين قسم سے ہے جو صريحاً اپني بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے ميںاپنے موقف کا اچھي طرح تعين کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظيم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے ميسّر ہيںاور اُنہيں غلط راستے ميں استعمال کرے ۔ايسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم ميںجھونک ديتا ہے ۔
طاغوت کي ولايت ايسي ہي چيز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کي ولايت ميںزندگي بسر کرتا ہے‘ اُسے گويااپنے اوپر کوئي اختيارحاصل نہيں ہوتا ۔ہماري مراد يہ نہيں ہے کہ وہ با لکل ہي بے اختيار ہوتا ہے ۔بعد ميں جب ہم يہ قرن کے معني بيان کريں گے‘ تو اس نکتے کي تفسير واضح ہوجائے گي۔ البتہ وہ شخص سيلابي ريلے کي زد پرہوتا ہے اوراُس ميں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ ليکن نہيں مار پاتا ‘ وہ ديکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کي طرف جارہے ہيں اور اُسے بھي اپني طرف کھينچ رہے ہيں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}ليکن بے بس ہوتا ہے{
کيا پ کبھي کسي مجمع ميں پھنسے ہيں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ايک طرف ہوجائيں ‘ ليکن مجمع پ کو ايک تنکے کي طرح اٹھا کر دوسري طرف پھينک ديتا ہے ۔
ايسا شخص جو طاغوت کے زيرِ ولايت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نيک بن جائے ‘ صالح زندگي بسر کرے ‘ ايک انسان کي طرح زندگي گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
ليکن ايسانہيں کر سکتا ۔
يعني معاشرے کا ريلا اسے کھينچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھي نہيں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھي ہے‘ توسوائے اپني قوت کے زياں کے اسے کچھ نتيجہ حاصل نہيں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہيں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھي زيادہ تکليف دہ بات يہ ہے کہ کبھي کبھي وہ اپني حالت کو بھي نہيں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہيں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتي مچھليوں کو ديکھا ہے يا نہيں ۔کبھي کبھي ايک جال ميں ہزاروں مچھلياں پھنس جاتي ہيں ‘ جنہيں سمندر کے وسط سے ساحل کي طرف کھينچ کر لاتے ہيں ‘ليکن اُن ميں سے کوئي مچھلي يہ نہيں جانتي کہ اُسے کہيں لے جايا جارہا ہے ‘ ہر ايک يہ تصور کرتي ہے کہ وہ خود اپنے اختيار سے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے ۔ليکن درحقيقت وہ بے اختيار ہوتي ہے ‘اُسکي منزل وہي ہوتي ہے جس کي جانب جال کا مالک وہ شکاري اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلي نظام کا غير مرئي جال انسان کو اس سمت کھينچتا ہے جس سمت اس جال کي رہنمائي کرنے والے چاہتے ہيں۔اس نظام ميں زندگي گزارنے والا انسان بالکل نہيں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھي کبھي تو وہ اپني دانست ميں يہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کاميابي کي منزل کي طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہيں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کي طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
يہ ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان ہے ۔
يہ پہلي عبارت اُن دو عبارتوں ميں سے ايک تھي جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال يہ تھا کہ کيا طاغوت اور شيطان کي ولايت اورحکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کي ولايت اور حکومت ميں زندگي گزارنے کو سمجھ ليا ہے۔ يعني يہ جان ليا ہے کہ اِس سے کيا مراد ہے۔اگر ہم اِسکي تفسير کرنا چاہيں ‘تو ايک مرتبہ پھر تاريخ کي طرف پلٹ سکتے ہيں ۔
پ ديکھئے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے ميں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ ديکھئے اُس دور کے اسلامي معاشرے ميں علم ودانش کي کيسي عظيم لہر اُٹھي تھي‘کيسے کيسے عظيم اطبّاپيدا ہوئے تھے ‘ زبان داني اور عموي علمي افلاس کے اُس دور ميں عالمِ اسلام ميں کيسے عظيم مترجمين پيدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قديم تہذيبوں کے عظيم ثار کو عربي زبان ميں ترجمہ کيااور اُن کي نشر و اشاعت کي ۔مسلمان تاريخ‘حديث ‘ علومِ طبيعي ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطيفہ ميںبھي انتہائي ممتازمقام کے مالک تھے ۔ يہاں تک کہ ج بھي جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کي مانند ايک شخص‘ ياکوئي اور مصنف اورمستشرق ان ظاہري باتوں کو ديکھتاہے ‘تو اسلام کي دوسري‘ تيسري اور چوتھي صديوںکو اسلام کے عروج کي صدياں قرار ديتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھي صدي ہجري ميںتاريخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ايک کتاب لکھي ہے ۔ايک ايسا تمدن جسے وہ ايک عظيم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھي صدي ہجري کواس عظيم تمدن کي صدي بيان کرتا ہے۔ مجموعي طور پر جب کوئي يورپي مستشرق دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکي وجہ يہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامي معاشرے ميںحيرت انگيزگرمياں‘ صلاحيتيں اورلياقتيں ظاہر ہوئي تھيں۔
ليکن ہم پ سے سوال کرتے ہيں کہ يہ تمام سرگرمياں اور صلاحيتيں‘جو اس دورميں ظاہر ہوئيں ‘ کيا ان کا نتيجہ اسلامي معاشرے اور انسانيت کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدياں گزر چکي ہيں‘اور ہم اس زمانے کے بارے ميں کسي تعصب کا شکار نہيں ہيں اور غير مسلم دنيا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کي بنياد رکھي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کي تشکيل کي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبيعيات کے ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام دئيے۔ ليکن کيا خود اپنے حلقوں ميں ہم حق و انصاف کے ساتھ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحيتوں کا نتيجہ ٹھيک ٹھيک ‘ برمحل اور انسانيت اور اسلامي معاشرے کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج دس صدياں گزرنے کے بعداسلامي معاشرے کے پاس اُس ميراث ميں سے کيا باقي ہے ؟ اور کيوں باقي نہيں ہے ؟
خر وہ علمي اورتہذيبي دولت ہمارے لئے کيوںباقي نہ بچ سکي ؟
ہم دس صدي پہلے کے اُس تابناک معاشرے کي طرح ج کيوںدنيا ميںدرخشاں اور جلوہ نما نہيں ؟ کيا اسکي وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمياں اور جلوہ نمائياں طاغوت کي حکمراني ميں رہتے ہوئے تھيں ۔

من ن نگين سليمان بہ ہيچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قيادتوں نے اسلامي معاشرے کے ساتھ کھيل کھيلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور يہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسي خليفہ کے دورِ اقتدار ميں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر يہ حکمراں طبيعيات ‘ رياضي‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے ميدانوں ميں علمي ترقي کي بجائے ‘فقط اتني اجازت ديتے کہ علوي حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کي حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامي معاشرے کي تمام قوتيں اور صلاحيتيں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ ميں جائيں‘ پورے اسلامي معاشرے کي سرگرميوں کاتعين امام جعفر صادقٴ کريں۔ اس صورت ميں اگر مسلمان علمي اور ادبي لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنيا ئے اسلام فخروناز کرتي ہے سو سال پيچھے بھي رہتے ‘ تب بھي يہ انسانيت کے فائدے ميں ہوتا۔ انسانيت ترقي کرتي‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامي معاشرے کي صلاحيتيں اور قوتيں صحيح راہ ميں استعمال ہوتيں۔ پھر يہ صورت نہ رہتي کہ کتابيں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے ميدانوں ميںترقي کو بامِ عروج پر پہنچا ديتے‘ ليکن انفرادي اور اجتماعي اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور ميںپايا جانے والا طبقاتي فرق ج بھي تاريخ ميں بطور يادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کي دنيا کے غليظ اور ذلت ميز تمدن کي طرح‘ کہ ج کي بڑي حکومتيں عقلوں کو دنگ کر دينے والي اپني ايجادات پر تو فخر کرتي ہيں‘ مثلاً کہتي ہيں کہ ہم نے فلاں دوا ايجاد کي ہے ‘ فلاں کام کيا ہے‘ علمي لحاظ سے فلاں شعبے ميں ترقي کي ہے‘ ليکن يہ حکومتيں انساني اقدار اور اخلاقي اعتبار سے اب بھي ہزار ہا سال پراني تاريخ جيسے حالات ميں زندگي بسر کر رہي ہيں ۔ ج بھي بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھي غريب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ايک في صد انسان دولت کي فراواني کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ اسکے باوجود يہ حکومتيں اپني سائنسي ترقي پر نازاں ہيں۔
دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري کا عظيم اسلامي تمدن اسي صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور ميںبہت زيادہ علمي ترقي ہوئي ‘ليکن امير طبقے کا راج تھا‘ عيش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانيت اور انساني فضيلتوںسے بے خبري اور طبقاتي اونچ نيچ انتہائي درجے پر موجود تھي۔ اُس زمانے ميں بھي ايک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائي ديتے تھے‘ تودوسري طرف بسيار خوري بہت سے لوگوں کي موت کا سبب بنتي تھي۔
خر کيا وجہ تھي کہ اُس دور کا اسلامي معاشرہ اپني علمي سرگرميوں اور نشاط کے باوجودانساني فضائل وکمالات کاگلستاںنہيں بن سکا ؟
دوسري اور تيسري صدي ہجري سے تعلق رکھنے والي جن شخصيتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کيا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنيا ميں قابلِ افتخار ہستيوں کے ساتھ پيش کر سکتے ہيں‘وہ لوگ ہيںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کي۔ مثال کے طور پر معلي بن خنيس کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں بيچ بازار ميں سولي پر لٹکا يا گيا۔ يحييٰ ابن امِ طويل کا نام ليا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پير کاٹ ديئے گئے ‘جن کي زبان کھينچ لي گئي۔ محمدا بن ابي عمير کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں چار سو تازيانے مارے گئے ۔يحييٰ ابن زيدکا نام ليا جاسکتا ہے‘ جنہيںصرف اٹھارہ برس کے سن ميں خراسان کي پہاڑيوں ميںشہيد کيا گيا ۔زيد بن علي کا نام ليا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولي پر لٹکائے رکھا گيا ۔
يہ وہ ہستياں ہيں جن کے ناموں کو ہم ج دنيائے انسانيت کے قابلِ فخر افراد کي فہرست ميںجگہ دے سکتے ہيں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئي تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کيا ہے‘بلکہ يہ اُس تمدن کے مخالفين ميں سے تھے ۔
پس ديکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شيطان کي حکمراني ہوتي ہے اور جن کے معاملات کي باگ ڈورطاغوتي اور شيطاني ہاتھوں ميں ہوتي ہے‘اُن معاشروں ميں زندگي بسر کرنے والے افراد کي قوتيںاستعمال ہوتي ہيں‘ اُن کي صلاحيتيں بروئے کارتي ہيں‘ ليکن بالکل اُسي طرح جيسے ج کي متمدن دنيا ميں کام تي ہيں‘اُسي طرح جيسے اب سے دس گيارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام ميں کام ميں تي تھيں۔يہ ساري ترقياں اُسي طرح بے قيمت ہيں جيسے اعليٰ اقدار اورانساني فضيلتوںکي نظرميں چوري سے کمايا ہوا مال بے حيثيت ہوتاہے۔ يہ ہوتي ہے طاغوت کي ولايت اورحکومت۔
ان خصوصيات کے ساتھ کيا طاغوت کي حکومت کے تحت ايک مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کي جاسکتي ہے ؟
ذرا ديکھتے ہيںکہ دراصل مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني کيا ہيں ؟
مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني ہيں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحيتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکي تمام چيزوں کا خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکي جان کا خدا کے اختيار ميں ہونا ‘اُسکي فکر اور سوچ کا خدا کے اختيار ميں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھي ہمارے پاس معاشرے اورمدنيت کي صورت ميںموجود اجتماعات اور طاغوتي نظاموں سے سرکشي اختيار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کي طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کي مثاليں موجود ہيں۔
پہلي مثال پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کے زمانے ميں مدينہ کے معاشرے کي ہے۔ مدينہ ايک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ايک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھي اٹھتا راہِ خدا ميں اٹھتا۔وہاں اگر يہودي اور عيسائي بھي اسلامي حکومت کے زيرِ سايہ زندگي بسر کرتے تھے‘ تو اُن کي زندگي بھي اسلامي زندگي تھي۔ اسلامي معاشرے ميںعيسائي اور يہودي اہلِ ذمہ افراد بھي اسلام کي راہ پر گامزن ہوتے ہيں۔ايسے معاشرے ميںاعمال کے لحاظ سے ايک شخص يہودي ہوتا ہے‘ ليکن معاشرے کے ايک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہيں زيادہ مسلمان ہوتاہے جوايک جاہلي نظام کے تحت زندگي بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پيغمبر۰ ميں مال و دولت ‘نيزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انساني اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھي راہِ خدا ميںہوتے تھے ۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں بھي کم و بيش يہي صورت تھي ۔اِس لئے کہ امير المومنين ٴ حاکمِ الٰہي اور ولي خدا ہونے کے ناطے پيغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ ليکن وہ ايک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پيچيدگيوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگراميرالمومنين ٴکي جگہ خود پيغمبر اسلا۰م بھي ہوتے اور پچيس سال بعدايک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو يقيناً انہي مشکلات کا سامنا کرتے جو امير المومنين ٴ کو درپيش تھيں ۔

گروہي ہجرت
گروہي صورت ميں ہجرت کي تاريخي مثال ‘ ائمہ اہلِ بيت ٴ کے ماننے والے شيعوں کي ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگيا اور ہم تفصيل کے ساتھ امامت کي بحث تک نہيں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولايت کے بعد امامت کي گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے ميں شيعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور يہ بات واضح کرتے کہ شيعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شيعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کي نوعيت کيا ہوا کرتي تھي ۔ليکن اب ہم مجبورہيں کہ اسے اجمالي طور پر عرض کريں ۔
شيعہ بظاہر طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرتے تھے ‘ ليکن باطن ميں طاغوتي نظام کے يکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے ميں بطورِمثال اُس گروہ کا نام ليا جاسکتا ہے جو حسين ابن علي ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سيلاب کامقابلہ کيا اور اس سيلابي ريلے کي مخالف سمت چلے جو انہيں اپنے ہمراہ بہاکرليجانا چاہتا تھا۔يہ تاريخ ميں گروہي ہجرت اور انقلاب کي مثالوں ميں سے ايک مثال ہے ۔ليکن عام افراد ‘ اور کلي طور پر عرض کريں کہ ايک فرد کسي طاغوتي معاشرے ميں زندگي بسر کرتے ہوئے مسلمان باقي نہيں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکي قوتيں اور اُسکي تمام تر صلاحيتيں احکامِ الٰہي کے تابع نہيں رہ سکتيں ۔ايساہونامحال ہے ۔
اگر ايک مسلمان طاغوتي ماحول اور طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرے‘ تو بہر حال اسکي اسلاميت کا ايک حصہ طاغوت کي راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فيصدبندہ نہيں ہوسکتا ۔
اصولِ کافي جو شيعوں کي معتبر ترين اور قديم ترين کتابوں ميں سے ہے‘ اُس ميں اِس }درجِ ذيل{ حديث کو کئي طريقوں سے نقل کيا گيا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے ميں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغير خدا کي عبادت کي ‘‘ ميںمطالعہ کيجئے‘اس روايت ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِيي اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِي اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً۔‘‘(۲)
عجيب حديث ہے ‘يہ حديث کہتي ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولي کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيں ‘ اہلِ نجات ہيں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور نجي افعال ميں کبھي کبھار گناہوں ميں بھي مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شيطان اور طاغوت کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہيں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور شخصي کاموں ميں نيکو کار اور عملِ صالح انجام دينے والے ہي کيوں نہ ہوں ۔يہ انتہائي عجيب بات ہے ۔اگرچہ حديث کو کئي طريقوں سے بيان کيا گيا ہے‘ ليکن سب يہي ايک معني ديتے ہيں ۔
ہم ہميشہ اس حديث کے مفہوم کي وضاحت ميں ايک ايسي گاڑي کي مثال پيش کرتے ہيں جس ميں پ مثلاً نيشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر يہ گاڑي نيشاپور کي طرف چلے گي‘ تو پ لازماً اپني منزل پر پہنچ جائيں گے اور اگر مثلاً طبس يا قوچان کي طرف جائے گي‘ تو لازماً پ اپني منزل (نيشا پور ) نہيں پہنچ سکيں گے ۔
اب اگر نيشاپور جا نے والي گاڑي ميں سوار مسافر ايک دوسرے کے ساتھ انساني داب کے ساتھ ميل جول رکھيں گے ‘ تو کيا خوب ‘ اور اگر انساني داب اور نيکي و احسان کے ساتھ باہم ميل جول نہيںرکھيںگے ‘تب بھي خرکار نيشا پور تو پہنچ ہي جائيںگے ۔ وہ اپني منزل پر جا پہنچيں گے‘چاہے انہوں نے راستے ميں کچھ بُرے کام بھي کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھي ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہيں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔ليکن منزل پربہرحال پہنچ جائيں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑي جسے پ کو نيشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نيشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑي کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ايک دوسرے کے ساتھ انتہائي احترام ميز سلوک کريں‘ايک دوسرے کے ساتھ خنداں پيشاني سے ميل جول رکھيں اور يہ ديکھيں کہ يہ گاڑي نيشاپور کي بجائے قوچان کي طرف جارہي ہے ‘ ليکن يہ ديکھنے کے باوجود کسي ردِ عمل کا اظہار نہ کريں ‘ تو ٹھيک ہے کہ يہ لوگ بہت اچھے انسان ہيں‘ايک دوسرے کے لئے انتہائي مہربان ہيں ‘ ليکن کيا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکيں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہيں۔
پہلي مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور ايک امين شخص تھا ‘ ايک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہيں منزلِ مقصود پر پہنچاديا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً ۔جبکہ دوسري مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور راستے ہي سے واقف نہ تھا ‘ امين نہيں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاري تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان ميں کوئي کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کي خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑي ميں سوار لوگ کسي صورت اپني منزل پر نہيں پہنچ سکيں گے ۔اگرچہ يہ لوگ گاڑي کے اندر باہم انتہائي مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ ليکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کريںگے ‘ اپني منزل نہيںپا سکيں گے۔
لہٰذا‘ايک ايسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ ميں ہو‘وہ اُس گاڑي کي مانند ہے جسے ايک غير امين ڈرائيور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے ميں زندگي بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپني منزل تک نہيں پہنچ سکيںگے اور مسلمان نہيں رہ سکيں گے ۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ اِن حالات ميں مسلمانوں کو کيا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کريم کي يت ديتي ہے ‘ اور کہتي ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظٰلِمِيْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کريم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپني ہر چيز پر ظلم کيا ہے‘ جب اُن کي موت قريب تي ہے ‘ تو اُن کي روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہيں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال ميں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سماني فرشتہ يہ ديکھتاہے کہ اس انسان کي حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبيب يا اُس جراح کي مانند جو ايک بيمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ يہ ديکھتا ہے کہ بيمار کي حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مايوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاري يہ حالت کيسے ہو گئي ؟
ہميں يہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بيچارے کي بري حالت پر‘ اسکي روح کي خستگي پر ‘ اس بدبختي اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہيںاور اس سے کہتے ہيں : تم نے کہاں زندگي بسر کي ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کيا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنيا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب ميں کہتے ہيں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمين پر جن لوگوں کے درميان زندگي بسر کررہے تھے ‘ ان ميں لاچار تھے ‘ ہم بے اختيار عوام ميں سے تھے ۔
مستضعفين معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہيں جن کے اختيار ميں معاشرہ نہيں ہوتا ۔ يہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہيں ۔يہ لوگ معاشرے کي پاليسيوں‘اسکي راہ وروش‘ اسکي سمت و جہت ‘اسکي حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکي سر گرميوں کے سلسلے ميں کوئي اختيار نہيںرکھتے ۔
جيسا کہ ہم نے پہلے عرض کيا‘يہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہيںجہاں اُن کي رسي کھينچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پيچھے چلے جاتے ہيں‘ انہيں کہيں جانے اور کچھ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں ہوتا ۔
نرسري کلاس کے چند بچوں کو فرض کيجئے ۔اُن بچوں کو نہيں جن کي عمر سات برس ہوچکي ہے ‘ کيونکہ ج کل سات برس کے بچوں کي نکھيں اور کان بھي ان باتوں سے بہت اچھي طر ح شنا ہيں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پيشِ نظر رکھئے ‘ جنہيں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کي مانند ج نرسري اسکولوں ميں بٹھا ديتے ہيں ۔ہميں وہ مکتب ياد تا ہے جس سے ہم چھٹي کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہميں سمجھ نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں جارہے ہيں ‘ بچوں کو بھي پتا نہيں ہوتا تھا کہ کون سي چيز کہاں ہے ۔ايک مانيٹر‘ يا ايک ذرا بڑا لڑکا ہماري رہنمائي کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہميں با لکل خبر ہي نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں چلے جارہے ہيں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہيں يا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہيں۔ اب اگرکبھي اُس مانيٹر کا دل چاہتا کہ ہميں گلي کوچوں ميں پھرائے‘ تويکبارگي ہم ديکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہيں۔
زمين پر مستضعف لوگ وہ ہيں جنہيں ايک معاشرے ميں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کي کوئي خبر نہيں ہوتي ۔نہيں جانتے کونسي چيز کہاں ہے ۔ نہيں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہيں اور يہاں سے چل کر کہا ں پہنچيں گے ‘ اور کون انہيں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح يہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائيں‘اور اگر نہ جائيں تو انہيں کيا کام کرنا چاہئے۔
انہيں بالکل پتا نہيں ہوتا ‘ با لکل بھي متوجہ نہيں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بيل کي طرح جس کي نکھيں بند ہوتي ہيں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسي طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر يہ حيوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پيرس ميں ہونا چاہئے۔ ليکن جب غروبِ فتاب کے قريب اُسکي نکھيں کھولتے ہيں‘ تو وہ ديکھتا ہے کہ وہ تووہيں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہيں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہيں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ يہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحيح نظام پر نہيں چلائے جاتے‘ اور انسان کي کسي حيثيت اور قدر و قيمت کے قائل نہيں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہيں جو انسان اور انسان کي رائے کي عزت اور احترام کے قائل ہيں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہيںرکھتي جس کے قائد پيغمبر۰ ہيں‘جن سے قرنِ کريم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِي الْاَمْر۔(۴)باوجود يہ کہ پ خدا کے رسول ہيں ‘ باوجود يہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کي ضرورت نہيں‘پھر بھي پ کو حکم ديا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کريں اور اُنہيں عزت واحترام ديں ‘ اُنہيں حيثيت ديں۔ ايسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہيں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ يا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہيں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہيں ۔ وہ کہتے ہيں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ(ہم زمين پرمستضعفين ميں سے تھے )اُنہوں نے ہميں اسي طرح کھينچا‘ اُٹھايااور پٹخ ديا ‘ہميںقدموں تلے پامال کيا‘بے برو کيا۔ليکن ہميں پتا ہي نہيںچلا۔ وہ يہ عذرپيش کرتے اوريہ جواب ديتے ہيں۔
ان کے جواب ميںملائکہ کہتے ہيں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
کيا پروردگار کي زمين يہيں تک محدود تھي ؟
کيا پوري دنياصرف اسي معاشرے تک محدود تھي جس ميں تم مستضعف بنے زندگي بسر کر رہے تھے؟
کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي ‘ کہ تم اس قيد خانے سے نکل کر ايک زاد خطہ ارضي ميں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کي عبادت کرسکتے‘ايک ايسي سرزمين پرجہاں تم اپني صلاحيتوں کا استعمال صحيح راستے پر کر سکتے ۔
کيا دنيا ميں ايسي کوئي جگہ نہيں تھي ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کي منطق اورعقلمند انسانوں کي منطق بالکل يکساں ہے۔ انسان کي عقل بھي يہي کہتي ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
’’کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا‘وہ بيچارے کيا کہيں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئي معقول جواب نہيں ہے۔لہٰذا قرنِ کريم ان بيچاروں کے انجام کے بارے ميں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفين جن کي قوتيںاور صلاحيتيں طاغوتوں کے ہاتھ ميں تھيں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوريہ انسان کے لئے کيسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ يہاں بھي ايک استثنا پايا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہيں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلي نظام کي اس قيد سے نجات نہيں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہيں‘کچھ بوڑھے ہيں ‘کچھ بچے ہيں ‘کچھ عورتيں ہيں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہيں ہے ۔
لہٰذا يہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہيں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّ لااَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعيف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئي چارہ نہيں اور جن سے کچھ نہيں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کي عبوديت کي سر زمين کي جانب نے کي کوئي راہ نہيں‘ اور جو کچھ نہيں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَي اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہيںکر سکتے‘ اميد ہے خدا وند ِمتعال اُنہيں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے يہ خطاب حجت ہے‘يہ نہ سمجھيں اور اُن کے ذہن ميں يہ خيال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختي‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگي‘اوروہ بار بار اپنے پ سے يہ نہ پوچھيں کہ مثلاً ہمارا کيا بنے گا؟کيا ہم کچھ کر بھي سکيں گے يا نہيں؟ کيا کچھ حاصل بھي ہو گا يا نہيں؟
ايسے لوگوں کے جواب ميں قرنِ مجيد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً۔‘‘ ’’اور جو بھي راہِ خدا ميں ہجرت اختيار کرتا ہے ‘ وہ زمين ميں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔يت ١٠٠ )
دنيا اسکے لئے پرواز کا ايک کھلاسمان ثابت ہوتي ہے‘ اور وہ زادي کے ساتھ اس ميں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلي ميں ہم کتنا ہي اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہيں اُڑ سکتے تھے ‘ ليکن اب ايک حيرت انگيز وسيع و عريض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائي دورکے بيچارے مسلمان مسجد ميں بڑي مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ايماني زيادہ ہي جوش مارتا تو مسجد الحرام ميںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہيںبُري طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور ميں{يہي مسلماني کي انتہا تھي ‘ اس سے زيادہ نہيں۔ليکن جب ان لوگوں نے ہجرت کي اور زاد
سر زمين ميں ‘ اسلامي معاشرے اور ولايت ِالٰہي کے تحت زندگي بسر کرنے لگے ‘ تو ديکھا کہ يہ ايک عجيب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۔(۵)
يہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ يہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذريعے متعين اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا ميں زيادہ جدو جہد اور زيادہ خدا کي عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خداميں خرچ کرے‘ وہ زيادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکي معاشرے ميں ‘ اگر کسي کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا ميں ايک درہم ديا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ايذا پہنچائي جاتي تھي ‘ شکنجوں ميں کس کر اسے گ سے جلايا جاتا تھا۔ ليکن جب انہوں نے راہِ خدا ميں ہجرت کي‘ اور مدينۃ الرسول ميں چلے ئے ‘ تو ديکھا کہ کيسي کھلي فضا اور پرواز کي جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً(اورجو کوئي راہِ خدا ميں اور الٰہي اور اسلامي معاشرے کي طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا ميں دار الکفر سے دار الھجرہ کي جانب حرکت کي ‘ اور درميانِ راہ ميں خدا نے تمہاري جان لے لي ‘ تب کيا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کيونکہ تم نے اپنا کام کر ديا‘ جو فريضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے ديا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کي ۔اسلام يہي چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپني توانائي کے مطابق‘ جتني وہ صلاحيت رکھتا ہے اتني ‘ اور جتني اسکي استطاعت ہے اتني راہِ خدا ميں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِہ مُہَاجِرًا اِلَي اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَي اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کيونکہ يہ گفتگو ولايت کے موضوع پر خري گفتگو ہے ‘ يہ بحث تقريباً دھي باقي رہتي ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہيں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غير خدا کي ولايت ‘ شيطان اور طاغوت کي ولايت سے دارالہجرہ ‘ دارالايمان ‘ولايت ِالٰہي کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ امام کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ پيغمبر اور ولايت ِ ولي الٰہي کے زيرِ فرمان سرزمين کي جانب ہوتي ہے ۔ليکن اگردنيا ميں ايساکوئي خطہ ارضي موجود نہ ہو‘ تو کيا کيا جانا چاہئے ؟
کيا دارالکفرہي ميں پڑے رہنا چاہئے؟
يا ايک دارالہجرہ ايجاد کرنے کے بارے ميں سوچنا چاہئے ؟
خود پيغمبر اسلام ۰نے بھي ہجرت کي ۔ليکن پيغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ايک دارالہجرہ موجودنہيں تھا‘پ نے اپني ہجرت کے ذريعے ايک دارالہجرہ ايجاد کيا ۔
کبھي کبھي يہ بات ضروري ہو جاتي ہے کہ لوگوں کا ايک گروہ اپني ہجرت کے ذريعے دارالايمان کي بنياد رکھے ‘ايک الٰہي اور اسلامي معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنين وہاں ہجرت کريں۔

حوالے
١۔ کيا تم نے ان لوگوں کاحال نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبديل کر ديا اور اپني قوم کو ہلاکت کے سپرد کر ديااور دوزخ جو بد ترين ٹھکانہ ہے ‘ اس ميں جاپڑے ۔(سورہ ابراہيم ١٤۔يت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس نہيں کرتا جو ايسے امام کي تابع ہو جو خدا کي طرف سے نہيں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال ميں نيکو کار اور پرہيز گار ہو۔ بے شک خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کي جانب سے مقرر کردہ امام کي تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافي ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہيں ‘جب فرشتے اُن کي روح قبض کرتے ہيں‘ تو اُن سے پوچھتے ہيں: تم کس حال ميںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہيں: ہم زمين ميں لاچار بنا ديئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہيں: کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترين منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔يت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورميںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔يت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔يت٦١
۶۔اور جوکوئي خدا اور رسول کي جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے ميں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔يت ١٠٠)


اقتباس از چھ تقريريں امامت و ولايت کے موضوع پر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي
ترجمہ سيد سعيد حيدر زيدي


ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں ۔پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيںمومنين کي صف ميںموجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘مومن اور غير مومن صفوںکے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے ۔
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس يت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات ا عليہ کے قصّے کي جانب
١۔تمہارا ولي امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت ِ رکوع ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
اشارہ کيا تھا ۔
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے۔کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘

مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں۔ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے۔ يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميںکي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے۔

انفرادي ہجرت
ايک انسان کو طاغوت اور شيطان کي ولايت کے تحت نے سے کيوںبچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ايک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہيں کہ پ فوراً اپنے ذہن ميں اس سوال کا اِس انداز سے تجزيہ و تحليل کيجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامي اور مذہبي تعليمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکيں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جيسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن ميں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کي گنجائش رہے گي۔
سوال يہ ہے کہ :کيا طاغوت کي حکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا ؟
کيا يہ ممکن نہيںہے کہ ايک مسلمان شيطان کي ولايت کے تحت زندگي بسر کرے ‘ ليکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ايسا ہوسکتا ہے يا نہيں ؟
کيا يہ ممکن ہے کہ: انساني زندگي کے تمام پہلوؤں اور اسکي حيات کے تمام گوشوں پر ايک غير الٰہي عامل کي حکمراني ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کي فکروں کي تنظيم و تشکيل اور اُن کا انتظام وانصرام ايک غير الٰہي عامل کے ہاتھ ميں ہو‘يہي غير الٰہي عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھي کبھي اِس رُخ پر اور کبھي اُس رُخ پر دھکيل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتي اور شيطاني عوامل کے قبضہ قدرت ميںزندگي بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھي ہو۔
کيا يہ چيزممکن ہے ‘يا ممکن نہيں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کي کوشش کيجئے اور اپنے ذہن ميں اِس کا جواب تيار کيجئے ‘ديکھئے يہ ہوسکتا ہے يا نہيں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دينے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزيہ وتحليل کرناضروري ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کيا يہ ممکن ہے کہ کوئي انسان شيطان کي ولايت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھي ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہيںاور ہميں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزيہ و تحليل کريں ‘ اور ديکھيں کہ اِن کے کيا معني ہيں ؟
پہلا جز يہ ہے کہ کوئي شخص شيطان کي ولايت کے تحت ہو۔
شيطان کي ولايت کے تحت ہونے کے کيا معني ہيں ؟
اگر ولايت کے اُن معني کو جو ہم نے يات ِقرني سے اخذ کئے ہيں ‘ ’’ولايت ِشيطان ‘‘ کي عبارت کے پہلوميں رکھيں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولايت ِ شيطان سے کيا مراد ہے ۔
ولايت ِ شيطان سے مراديہ ہے کہ شيطان (شيطان کے اُنہي مجموعي معني کے مطابق جنہيں ہم نے بارہا بيان کيا ہے ) انسان کے وجود ميںپائي جانے والي تمام توانائيوں ‘ صلاحيتوں ‘ تخليقي قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شيطان کے معين کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت ميں ہو جس کا تعين شيطان نے کيا ہے‘ اُس انسان کي طرح جو کوہساروں سے نيچے بہنے والے سيلاب کي لپيٹ ميں ہو۔ اس انسان کو يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ سخت اور کھردري چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ اس پاني ميں بہتے ہوئے گہرے گڑھے ميں جاپڑے ‘اُسے يہ بات پسند نہيںہوتي کہ پاني کي ان موجوں کے درميان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود يہ کہ اُسے پسند نہيں ہوتا ليکن پاني کا يہ تيز و تند ريلا بغير اُسکي مرضي کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھي مارتا ہے‘وہ کبھي اِس طرف اور کبھي اُس طرف سہارا بھي ليتا ہے ‘راستے ميں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کي کوشش بھي کرتا ہے ‘ليکن پاني کا تيز بہاؤ اُسے بے اختيار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان اسي قسم کي چيز ہے ۔
لہٰذا يت ِ قرن کہتي ہے:
’’وَجَعَلْنہُمْاٰا اَئِمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِ۔‘‘
’’ايسے رہنمااور قائدين بھي ہيں جو اپنے پيروکاروں اور زيرِ فرمان افراد کو دوزخ کي گ اور بد بختي کي طرف کھينچے لئے جاتے ہيں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ يت ٤١)
قرنِ مجيد کي ايک دوسري يت فرماتي ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کيا تم نے اُن لوگوں کو نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کا کفران کيا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کيا ‘کيا تھي؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کي قدرت کا مظہر ہے‘دنيوي طاقتيں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کي نعمت‘انسانوں کي بکثرت صلاحيتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ ميں رکھنے کي نعمت ‘ يہ سب کي سب چيزيں نعمت ہيں اور ايسے سرمائے ہيں جو انسان کے لئے خير کا سرچشمہ ہوسکتے ہيں ۔
اِ س يت ميں جن افراد کي جانب اشارہ کيا گيا ہے اُن کي فرمانروائي ميںزندگي گزارنے والاہر انسان ايک عظيم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترين درجات تک رسائي پاسکتاتھا۔ليکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کيااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہيںاستعمال نہيںکيا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپني قوم اور اپنے زيرِ فرما ن لوگوں کو نيستي و نابودي اور ہلاکت کے گڑھے کي طرف لے گئے)
جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہيں جہنم کي طرف لے گئے ‘ جس ميں الٹے منھ پھينکے جائيں گے اور يہ کيسي بُري جگہ اور ٹھکانہ ہے)
يہ يت امام موسيٰ ابن جعفر عليہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھي اور ہارون کو يہ بات باور کرائي کہ تو وہي شخص ہے جو اپني قوم کو اور اپنے پ کو بد ترين منزل اورمہلک ترين ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کيا تھا کہ کيا ہم کافر ہيں ؟ اُسکي مراد يہ تھي کہ کيا ہم خدا ‘ پيغمبر اور دين پر عقيدہ نہيں رکھتے ہيں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب ميں اِس يت کي تلاوت فرمائي ‘تاکہ اسے يہ بات ذہن نشين کراديں کہ کافر فقط وہي شخص نہيں ہوتا جو صاف اور صريح الفاظ ميں خدا کاانکار کرے‘ يا قرن کوجھٹلائے ‘ يا پيغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھيک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کي بہترين قسم سے ہے جو صريحاً اپني بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے ميںاپنے موقف کا اچھي طرح تعين کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظيم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے ميسّر ہيںاور اُنہيں غلط راستے ميں استعمال کرے ۔ايسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم ميںجھونک ديتا ہے ۔
طاغوت کي ولايت ايسي ہي چيز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کي ولايت ميںزندگي بسر کرتا ہے‘ اُسے گويااپنے اوپر کوئي اختيارحاصل نہيں ہوتا ۔ہماري مراد يہ نہيں ہے کہ وہ با لکل ہي بے اختيار ہوتا ہے ۔بعد ميں جب ہم يہ قرن کے معني بيان کريں گے‘ تو اس نکتے کي تفسير واضح ہوجائے گي۔ البتہ وہ شخص سيلابي ريلے کي زد پرہوتا ہے اوراُس ميں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ ليکن نہيں مار پاتا ‘ وہ ديکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کي طرف جارہے ہيں اور اُسے بھي اپني طرف کھينچ رہے ہيں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}ليکن بے بس ہوتا ہے{
کيا پ کبھي کسي مجمع ميں پھنسے ہيں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ايک طرف ہوجائيں ‘ ليکن مجمع پ کو ايک تنکے کي طرح اٹھا کر دوسري طرف پھينک ديتا ہے ۔
ايسا شخص جو طاغوت کے زيرِ ولايت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نيک بن جائے ‘ صالح زندگي بسر کرے ‘ ايک انسان کي طرح زندگي گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
ليکن ايسانہيں کر سکتا ۔
يعني معاشرے کا ريلا اسے کھينچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھي نہيں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھي ہے‘ توسوائے اپني قوت کے زياں کے اسے کچھ نتيجہ حاصل نہيں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہيں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھي زيادہ تکليف دہ بات يہ ہے کہ کبھي کبھي وہ اپني حالت کو بھي نہيں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہيں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتي مچھليوں کو ديکھا ہے يا نہيں ۔کبھي کبھي ايک جال ميں ہزاروں مچھلياں پھنس جاتي ہيں ‘ جنہيں سمندر کے وسط سے ساحل کي طرف کھينچ کر لاتے ہيں ‘ليکن اُن ميں سے کوئي مچھلي يہ نہيں جانتي کہ اُسے کہيں لے جايا جارہا ہے ‘ ہر ايک يہ تصور کرتي ہے کہ وہ خود اپنے اختيار سے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے ۔ليکن درحقيقت وہ بے اختيار ہوتي ہے ‘اُسکي منزل وہي ہوتي ہے جس کي جانب جال کا مالک وہ شکاري اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلي نظام کا غير مرئي جال انسان کو اس سمت کھينچتا ہے جس سمت اس جال کي رہنمائي کرنے والے چاہتے ہيں۔اس نظام ميں زندگي گزارنے والا انسان بالکل نہيں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھي کبھي تو وہ اپني دانست ميں يہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کاميابي کي منزل کي طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہيں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کي طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
يہ ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان ہے ۔
يہ پہلي عبارت اُن دو عبارتوں ميں سے ايک تھي جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال يہ تھا کہ کيا طاغوت اور شيطان کي ولايت اورحکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کي ولايت اور حکومت ميں زندگي گزارنے کو سمجھ ليا ہے۔ يعني يہ جان ليا ہے کہ اِس سے کيا مراد ہے۔اگر ہم اِسکي تفسير کرنا چاہيں ‘تو ايک مرتبہ پھر تاريخ کي طرف پلٹ سکتے ہيں ۔
پ ديکھئے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے ميں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ ديکھئے اُس دور کے اسلامي معاشرے ميں علم ودانش کي کيسي عظيم لہر اُٹھي تھي‘کيسے کيسے عظيم اطبّاپيدا ہوئے تھے ‘ زبان داني اور عموي علمي افلاس کے اُس دور ميں عالمِ اسلام ميں کيسے عظيم مترجمين پيدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قديم تہذيبوں کے عظيم ثار کو عربي زبان ميں ترجمہ کيااور اُن کي نشر و اشاعت کي ۔مسلمان تاريخ‘حديث ‘ علومِ طبيعي ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطيفہ ميںبھي انتہائي ممتازمقام کے مالک تھے ۔ يہاں تک کہ ج بھي جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کي مانند ايک شخص‘ ياکوئي اور مصنف اورمستشرق ان ظاہري باتوں کو ديکھتاہے ‘تو اسلام کي دوسري‘ تيسري اور چوتھي صديوںکو اسلام کے عروج کي صدياں قرار ديتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھي صدي ہجري ميںتاريخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ايک کتاب لکھي ہے ۔ايک ايسا تمدن جسے وہ ايک عظيم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھي صدي ہجري کواس عظيم تمدن کي صدي بيان کرتا ہے۔ مجموعي طور پر جب کوئي يورپي مستشرق دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکي وجہ يہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامي معاشرے ميںحيرت انگيزگرمياں‘ صلاحيتيں اورلياقتيں ظاہر ہوئي تھيں۔
ليکن ہم پ سے سوال کرتے ہيں کہ يہ تمام سرگرمياں اور صلاحيتيں‘جو اس دورميں ظاہر ہوئيں ‘ کيا ان کا نتيجہ اسلامي معاشرے اور انسانيت کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدياں گزر چکي ہيں‘اور ہم اس زمانے کے بارے ميں کسي تعصب کا شکار نہيں ہيں اور غير مسلم دنيا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کي بنياد رکھي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کي تشکيل کي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبيعيات کے ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام دئيے۔ ليکن کيا خود اپنے حلقوں ميں ہم حق و انصاف کے ساتھ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحيتوں کا نتيجہ ٹھيک ٹھيک ‘ برمحل اور انسانيت اور اسلامي معاشرے کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج دس صدياں گزرنے کے بعداسلامي معاشرے کے پاس اُس ميراث ميں سے کيا باقي ہے ؟ اور کيوں باقي نہيں ہے ؟
خر وہ علمي اورتہذيبي دولت ہمارے لئے کيوںباقي نہ بچ سکي ؟
ہم دس صدي پہلے کے اُس تابناک معاشرے کي طرح ج کيوںدنيا ميںدرخشاں اور جلوہ نما نہيں ؟ کيا اسکي وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمياں اور جلوہ نمائياں طاغوت کي حکمراني ميں رہتے ہوئے تھيں ۔

من ن نگين سليمان بہ ہيچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قيادتوں نے اسلامي معاشرے کے ساتھ کھيل کھيلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور يہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسي خليفہ کے دورِ اقتدار ميں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر يہ حکمراں طبيعيات ‘ رياضي‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے ميدانوں ميں علمي ترقي کي بجائے ‘فقط اتني اجازت ديتے کہ علوي حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کي حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامي معاشرے کي تمام قوتيں اور صلاحيتيں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ ميں جائيں‘ پورے اسلامي معاشرے کي سرگرميوں کاتعين امام جعفر صادقٴ کريں۔ اس صورت ميں اگر مسلمان علمي اور ادبي لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنيا ئے اسلام فخروناز کرتي ہے سو سال پيچھے بھي رہتے ‘ تب بھي يہ انسانيت کے فائدے ميں ہوتا۔ انسانيت ترقي کرتي‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامي معاشرے کي صلاحيتيں اور قوتيں صحيح راہ ميں استعمال ہوتيں۔ پھر يہ صورت نہ رہتي کہ کتابيں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے ميدانوں ميںترقي کو بامِ عروج پر پہنچا ديتے‘ ليکن انفرادي اور اجتماعي اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور ميںپايا جانے والا طبقاتي فرق ج بھي تاريخ ميں بطور يادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کي دنيا کے غليظ اور ذلت ميز تمدن کي طرح‘ کہ ج کي بڑي حکومتيں عقلوں کو دنگ کر دينے والي اپني ايجادات پر تو فخر کرتي ہيں‘ مثلاً کہتي ہيں کہ ہم نے فلاں دوا ايجاد کي ہے ‘ فلاں کام کيا ہے‘ علمي لحاظ سے فلاں شعبے ميں ترقي کي ہے‘ ليکن يہ حکومتيں انساني اقدار اور اخلاقي اعتبار سے اب بھي ہزار ہا سال پراني تاريخ جيسے حالات ميں زندگي بسر کر رہي ہيں ۔ ج بھي بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھي غريب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ايک في صد انسان دولت کي فراواني کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ اسکے باوجود يہ حکومتيں اپني سائنسي ترقي پر نازاں ہيں۔
دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري کا عظيم اسلامي تمدن اسي صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور ميںبہت زيادہ علمي ترقي ہوئي ‘ليکن امير طبقے کا راج تھا‘ عيش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانيت اور انساني فضيلتوںسے بے خبري اور طبقاتي اونچ نيچ انتہائي درجے پر موجود تھي۔ اُس زمانے ميں بھي ايک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائي ديتے تھے‘ تودوسري طرف بسيار خوري بہت سے لوگوں کي موت کا سبب بنتي تھي۔
خر کيا وجہ تھي کہ اُس دور کا اسلامي معاشرہ اپني علمي سرگرميوں اور نشاط کے باوجودانساني فضائل وکمالات کاگلستاںنہيں بن سکا ؟
دوسري اور تيسري صدي ہجري سے تعلق رکھنے والي جن شخصيتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کيا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنيا ميں قابلِ افتخار ہستيوں کے ساتھ پيش کر سکتے ہيں‘وہ لوگ ہيںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کي۔ مثال کے طور پر معلي بن خنيس کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں بيچ بازار ميں سولي پر لٹکا يا گيا۔ يحييٰ ابن امِ طويل کا نام ليا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پير کاٹ ديئے گئے ‘جن کي زبان کھينچ لي گئي۔ محمدا بن ابي عمير کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں چار سو تازيانے مارے گئے ۔يحييٰ ابن زيدکا نام ليا جاسکتا ہے‘ جنہيںصرف اٹھارہ برس کے سن ميں خراسان کي پہاڑيوں ميںشہيد کيا گيا ۔زيد بن علي کا نام ليا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولي پر لٹکائے رکھا گيا ۔
يہ وہ ہستياں ہيں جن کے ناموں کو ہم ج دنيائے انسانيت کے قابلِ فخر افراد کي فہرست ميںجگہ دے سکتے ہيں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئي تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کيا ہے‘بلکہ يہ اُس تمدن کے مخالفين ميں سے تھے ۔
پس ديکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شيطان کي حکمراني ہوتي ہے اور جن کے معاملات کي باگ ڈورطاغوتي اور شيطاني ہاتھوں ميں ہوتي ہے‘اُن معاشروں ميں زندگي بسر کرنے والے افراد کي قوتيںاستعمال ہوتي ہيں‘ اُن کي صلاحيتيں بروئے کارتي ہيں‘ ليکن بالکل اُسي طرح جيسے ج کي متمدن دنيا ميں کام تي ہيں‘اُسي طرح جيسے اب سے دس گيارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام ميں کام ميں تي تھيں۔يہ ساري ترقياں اُسي طرح بے قيمت ہيں جيسے اعليٰ اقدار اورانساني فضيلتوںکي نظرميں چوري سے کمايا ہوا مال بے حيثيت ہوتاہے۔ يہ ہوتي ہے طاغوت کي ولايت اورحکومت۔
ان خصوصيات کے ساتھ کيا طاغوت کي حکومت کے تحت ايک مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کي جاسکتي ہے ؟
ذرا ديکھتے ہيںکہ دراصل مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني کيا ہيں ؟
مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني ہيں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحيتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکي تمام چيزوں کا خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکي جان کا خدا کے اختيار ميں ہونا ‘اُسکي فکر اور سوچ کا خدا کے اختيار ميں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھي ہمارے پاس معاشرے اورمدنيت کي صورت ميںموجود اجتماعات اور طاغوتي نظاموں سے سرکشي اختيار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کي طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کي مثاليں موجود ہيں۔
پہلي مثال پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کے زمانے ميں مدينہ کے معاشرے کي ہے۔ مدينہ ايک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ايک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھي اٹھتا راہِ خدا ميں اٹھتا۔وہاں اگر يہودي اور عيسائي بھي اسلامي حکومت کے زيرِ سايہ زندگي بسر کرتے تھے‘ تو اُن کي زندگي بھي اسلامي زندگي تھي۔ اسلامي معاشرے ميںعيسائي اور يہودي اہلِ ذمہ افراد بھي اسلام کي راہ پر گامزن ہوتے ہيں۔ايسے معاشرے ميںاعمال کے لحاظ سے ايک شخص يہودي ہوتا ہے‘ ليکن معاشرے کے ايک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہيں زيادہ مسلمان ہوتاہے جوايک جاہلي نظام کے تحت زندگي بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پيغمبر۰ ميں مال و دولت ‘نيزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انساني اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھي راہِ خدا ميںہوتے تھے ۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں بھي کم و بيش يہي صورت تھي ۔اِس لئے کہ امير المومنين ٴ حاکمِ الٰہي اور ولي خدا ہونے کے ناطے پيغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ ليکن وہ ايک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پيچيدگيوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگراميرالمومنين ٴکي جگہ خود پيغمبر اسلا۰م بھي ہوتے اور پچيس سال بعدايک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو يقيناً انہي مشکلات کا سامنا کرتے جو امير المومنين ٴ کو درپيش تھيں ۔

گروہي ہجرت
گروہي صورت ميں ہجرت کي تاريخي مثال ‘ ائمہ اہلِ بيت ٴ کے ماننے والے شيعوں کي ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگيا اور ہم تفصيل کے ساتھ امامت کي بحث تک نہيں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولايت کے بعد امامت کي گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے ميں شيعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور يہ بات واضح کرتے کہ شيعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شيعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کي نوعيت کيا ہوا کرتي تھي ۔ليکن اب ہم مجبورہيں کہ اسے اجمالي طور پر عرض کريں ۔
شيعہ بظاہر طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرتے تھے ‘ ليکن باطن ميں طاغوتي نظام کے يکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے ميں بطورِمثال اُس گروہ کا نام ليا جاسکتا ہے جو حسين ابن علي ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سيلاب کامقابلہ کيا اور اس سيلابي ريلے کي مخالف سمت چلے جو انہيں اپنے ہمراہ بہاکرليجانا چاہتا تھا۔يہ تاريخ ميں گروہي ہجرت اور انقلاب کي مثالوں ميں سے ايک مثال ہے ۔ليکن عام افراد ‘ اور کلي طور پر عرض کريں کہ ايک فرد کسي طاغوتي معاشرے ميں زندگي بسر کرتے ہوئے مسلمان باقي نہيں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکي قوتيں اور اُسکي تمام تر صلاحيتيں احکامِ الٰہي کے تابع نہيں رہ سکتيں ۔ايساہونامحال ہے ۔
اگر ايک مسلمان طاغوتي ماحول اور طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرے‘ تو بہر حال اسکي اسلاميت کا ايک حصہ طاغوت کي راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فيصدبندہ نہيں ہوسکتا ۔
اصولِ کافي جو شيعوں کي معتبر ترين اور قديم ترين کتابوں ميں سے ہے‘ اُس ميں اِس }درجِ ذيل{ حديث کو کئي طريقوں سے نقل کيا گيا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے ميں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغير خدا کي عبادت کي ‘‘ ميںمطالعہ کيجئے‘اس روايت ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِيي اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِي اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً۔‘‘(۲)
عجيب حديث ہے ‘يہ حديث کہتي ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولي کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيں ‘ اہلِ نجات ہيں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور نجي افعال ميں کبھي کبھار گناہوں ميں بھي مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شيطان اور طاغوت کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہيں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور شخصي کاموں ميں نيکو کار اور عملِ صالح انجام دينے والے ہي کيوں نہ ہوں ۔يہ انتہائي عجيب بات ہے ۔اگرچہ حديث کو کئي طريقوں سے بيان کيا گيا ہے‘ ليکن سب يہي ايک معني ديتے ہيں ۔
ہم ہميشہ اس حديث کے مفہوم کي وضاحت ميں ايک ايسي گاڑي کي مثال پيش کرتے ہيں جس ميں پ مثلاً نيشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر يہ گاڑي نيشاپور کي طرف چلے گي‘ تو پ لازماً اپني منزل پر پہنچ جائيں گے اور اگر مثلاً طبس يا قوچان کي طرف جائے گي‘ تو لازماً پ اپني منزل (نيشا پور ) نہيں پہنچ سکيں گے ۔
اب اگر نيشاپور جا نے والي گاڑي ميں سوار مسافر ايک دوسرے کے ساتھ انساني داب کے ساتھ ميل جول رکھيں گے ‘ تو کيا خوب ‘ اور اگر انساني داب اور نيکي و احسان کے ساتھ باہم ميل جول نہيںرکھيںگے ‘تب بھي خرکار نيشا پور تو پہنچ ہي جائيںگے ۔ وہ اپني منزل پر جا پہنچيں گے‘چاہے انہوں نے راستے ميں کچھ بُرے کام بھي کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھي ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہيں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔ليکن منزل پربہرحال پہنچ جائيں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑي جسے پ کو نيشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نيشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑي کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ايک دوسرے کے ساتھ انتہائي احترام ميز سلوک کريں‘ايک دوسرے کے ساتھ خنداں پيشاني سے ميل جول رکھيں اور يہ ديکھيں کہ يہ گاڑي نيشاپور کي بجائے قوچان کي طرف جارہي ہے ‘ ليکن يہ ديکھنے کے باوجود کسي ردِ عمل کا اظہار نہ کريں ‘ تو ٹھيک ہے کہ يہ لوگ بہت اچھے انسان ہيں‘ايک دوسرے کے لئے انتہائي مہربان ہيں ‘ ليکن کيا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکيں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہيں۔
پہلي مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور ايک امين شخص تھا ‘ ايک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہيں منزلِ مقصود پر پہنچاديا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً ۔جبکہ دوسري مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور راستے ہي سے واقف نہ تھا ‘ امين نہيں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاري تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان ميں کوئي کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کي خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑي ميں سوار لوگ کسي صورت اپني منزل پر نہيں پہنچ سکيں گے ۔اگرچہ يہ لوگ گاڑي کے اندر باہم انتہائي مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ ليکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کريںگے ‘ اپني منزل نہيںپا سکيں گے۔
لہٰذا‘ايک ايسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ ميں ہو‘وہ اُس گاڑي کي مانند ہے جسے ايک غير امين ڈرائيور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے ميں زندگي بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپني منزل تک نہيں پہنچ سکيںگے اور مسلمان نہيں رہ سکيں گے ۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ اِن حالات ميں مسلمانوں کو کيا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کريم کي يت ديتي ہے ‘ اور کہتي ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظٰلِمِيْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کريم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپني ہر چيز پر ظلم کيا ہے‘ جب اُن کي موت قريب تي ہے ‘ تو اُن کي روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہيں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال ميں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سماني فرشتہ يہ ديکھتاہے کہ اس انسان کي حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبيب يا اُس جراح کي مانند جو ايک بيمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ يہ ديکھتا ہے کہ بيمار کي حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مايوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاري يہ حالت کيسے ہو گئي ؟
ہميں يہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بيچارے کي بري حالت پر‘ اسکي روح کي خستگي پر ‘ اس بدبختي اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہيںاور اس سے کہتے ہيں : تم نے کہاں زندگي بسر کي ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کيا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنيا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب ميں کہتے ہيں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمين پر جن لوگوں کے درميان زندگي بسر کررہے تھے ‘ ان ميں لاچار تھے ‘ ہم بے اختيار عوام ميں سے تھے ۔
مستضعفين معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہيں جن کے اختيار ميں معاشرہ نہيں ہوتا ۔ يہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہيں ۔يہ لوگ معاشرے کي پاليسيوں‘اسکي راہ وروش‘ اسکي سمت و جہت ‘اسکي حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکي سر گرميوں کے سلسلے ميں کوئي اختيار نہيںرکھتے ۔
جيسا کہ ہم نے پہلے عرض کيا‘يہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہيںجہاں اُن کي رسي کھينچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پيچھے چلے جاتے ہيں‘ انہيں کہيں جانے اور کچھ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں ہوتا ۔
نرسري کلاس کے چند بچوں کو فرض کيجئے ۔اُن بچوں کو نہيں جن کي عمر سات برس ہوچکي ہے ‘ کيونکہ ج کل سات برس کے بچوں کي نکھيں اور کان بھي ان باتوں سے بہت اچھي طر ح شنا ہيں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پيشِ نظر رکھئے ‘ جنہيں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کي مانند ج نرسري اسکولوں ميں بٹھا ديتے ہيں ۔ہميں وہ مکتب ياد تا ہے جس سے ہم چھٹي کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہميں سمجھ نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں جارہے ہيں ‘ بچوں کو بھي پتا نہيں ہوتا تھا کہ کون سي چيز کہاں ہے ۔ايک مانيٹر‘ يا ايک ذرا بڑا لڑکا ہماري رہنمائي کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہميں با لکل خبر ہي نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں چلے جارہے ہيں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہيں يا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہيں۔ اب اگرکبھي اُس مانيٹر کا دل چاہتا کہ ہميں گلي کوچوں ميں پھرائے‘ تويکبارگي ہم ديکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہيں۔
زمين پر مستضعف لوگ وہ ہيں جنہيں ايک معاشرے ميں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کي کوئي خبر نہيں ہوتي ۔نہيں جانتے کونسي چيز کہاں ہے ۔ نہيں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہيں اور يہاں سے چل کر کہا ں پہنچيں گے ‘ اور کون انہيں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح يہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائيں‘اور اگر نہ جائيں تو انہيں کيا کام کرنا چاہئے۔
انہيں بالکل پتا نہيں ہوتا ‘ با لکل بھي متوجہ نہيں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بيل کي طرح جس کي نکھيں بند ہوتي ہيں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسي طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر يہ حيوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پيرس ميں ہونا چاہئے۔ ليکن جب غروبِ فتاب کے قريب اُسکي نکھيں کھولتے ہيں‘ تو وہ ديکھتا ہے کہ وہ تووہيں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہيں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہيں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ يہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحيح نظام پر نہيں چلائے جاتے‘ اور انسان کي کسي حيثيت اور قدر و قيمت کے قائل نہيں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہيں جو انسان اور انسان کي رائے کي عزت اور احترام کے قائل ہيں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہيںرکھتي جس کے قائد پيغمبر۰ ہيں‘جن سے قرنِ کريم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِي الْاَمْر۔(۴)باوجود يہ کہ پ خدا کے رسول ہيں ‘ باوجود يہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کي ضرورت نہيں‘پھر بھي پ کو حکم ديا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کريں اور اُنہيں عزت واحترام ديں ‘ اُنہيں حيثيت ديں۔ ايسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہيں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ يا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہيں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہيں ۔ وہ کہتے ہيں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ(ہم زمين پرمستضعفين ميں سے تھے )اُنہوں نے ہميں اسي طرح کھينچا‘ اُٹھايااور پٹخ ديا ‘ہميںقدموں تلے پامال کيا‘بے برو کيا۔ليکن ہميں پتا ہي نہيںچلا۔ وہ يہ عذرپيش کرتے اوريہ جواب ديتے ہيں۔
ان کے جواب ميںملائکہ کہتے ہيں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
کيا پروردگار کي زمين يہيں تک محدود تھي ؟
کيا پوري دنياصرف اسي معاشرے تک محدود تھي جس ميں تم مستضعف بنے زندگي بسر کر رہے تھے؟
کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي ‘ کہ تم اس قيد خانے سے نکل کر ايک زاد خطہ ارضي ميں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کي عبادت کرسکتے‘ايک ايسي سرزمين پرجہاں تم اپني صلاحيتوں کا استعمال صحيح راستے پر کر سکتے ۔
کيا دنيا ميں ايسي کوئي جگہ نہيں تھي ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کي منطق اورعقلمند انسانوں کي منطق بالکل يکساں ہے۔ انسان کي عقل بھي يہي کہتي ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
’’کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا‘وہ بيچارے کيا کہيں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئي معقول جواب نہيں ہے۔لہٰذا قرنِ کريم ان بيچاروں کے انجام کے بارے ميں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفين جن کي قوتيںاور صلاحيتيں طاغوتوں کے ہاتھ ميں تھيں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوريہ انسان کے لئے کيسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ يہاں بھي ايک استثنا پايا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہيں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلي نظام کي اس قيد سے نجات نہيں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہيں‘کچھ بوڑھے ہيں ‘کچھ بچے ہيں ‘کچھ عورتيں ہيں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہيں ہے ۔
لہٰذا يہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہيں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّ لااَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعيف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئي چارہ نہيں اور جن سے کچھ نہيں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کي عبوديت کي سر زمين کي جانب نے کي کوئي راہ نہيں‘ اور جو کچھ نہيں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَي اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہيںکر سکتے‘ اميد ہے خدا وند ِمتعال اُنہيں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے يہ خطاب حجت ہے‘يہ نہ سمجھيں اور اُن کے ذہن ميں يہ خيال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختي‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگي‘اوروہ بار بار اپنے پ سے يہ نہ پوچھيں کہ مثلاً ہمارا کيا بنے گا؟کيا ہم کچھ کر بھي سکيں گے يا نہيں؟ کيا کچھ حاصل بھي ہو گا يا نہيں؟
ايسے لوگوں کے جواب ميں قرنِ مجيد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً۔‘‘ ’’اور جو بھي راہِ خدا ميں ہجرت اختيار کرتا ہے ‘ وہ زمين ميں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔يت ١٠٠ )
دنيا اسکے لئے پرواز کا ايک کھلاسمان ثابت ہوتي ہے‘ اور وہ زادي کے ساتھ اس ميں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلي ميں ہم کتنا ہي اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہيں اُڑ سکتے تھے ‘ ليکن اب ايک حيرت انگيز وسيع و عريض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائي دورکے بيچارے مسلمان مسجد ميں بڑي مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ايماني زيادہ ہي جوش مارتا تو مسجد الحرام ميںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہيںبُري طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور ميں{يہي مسلماني کي انتہا تھي ‘ اس سے زيادہ نہيں۔ليکن جب ان لوگوں نے ہجرت کي اور زاد
سر زمين ميں ‘ اسلامي معاشرے اور ولايت ِالٰہي کے تحت زندگي بسر کرنے لگے ‘ تو ديکھا کہ يہ ايک عجيب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۔(۵)
يہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ يہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذريعے متعين اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا ميں زيادہ جدو جہد اور زيادہ خدا کي عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خداميں خرچ کرے‘ وہ زيادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکي معاشرے ميں ‘ اگر کسي کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا ميں ايک درہم ديا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ايذا پہنچائي جاتي تھي ‘ شکنجوں ميں کس کر اسے گ سے جلايا جاتا تھا۔ ليکن جب انہوں نے راہِ خدا ميں ہجرت کي‘ اور مدينۃ الرسول ميں چلے ئے ‘ تو ديکھا کہ کيسي کھلي فضا اور پرواز کي جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً(اورجو کوئي راہِ خدا ميں اور الٰہي اور اسلامي معاشرے کي طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا ميں دار الکفر سے دار الھجرہ کي جانب حرکت کي ‘ اور درميانِ راہ ميں خدا نے تمہاري جان لے لي ‘ تب کيا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کيونکہ تم نے اپنا کام کر ديا‘ جو فريضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے ديا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کي ۔اسلام يہي چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپني توانائي کے مطابق‘ جتني وہ صلاحيت رکھتا ہے اتني ‘ اور جتني اسکي استطاعت ہے اتني راہِ خدا ميں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِہ مُہَاجِرًا اِلَي اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَي اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کيونکہ يہ گفتگو ولايت کے موضوع پر خري گفتگو ہے ‘ يہ بحث تقريباً دھي باقي رہتي ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہيں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غير خدا کي ولايت ‘ شيطان اور طاغوت کي ولايت سے دارالہجرہ ‘ دارالايمان ‘ولايت ِالٰہي کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ امام کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ پيغمبر اور ولايت ِ ولي الٰہي کے زيرِ فرمان سرزمين کي جانب ہوتي ہے ۔ليکن اگردنيا ميں ايساکوئي خطہ ارضي موجود نہ ہو‘ تو کيا کيا جانا چاہئے ؟
کيا دارالکفرہي ميں پڑے رہنا چاہئے؟
يا ايک دارالہجرہ ايجاد کرنے کے بارے ميں سوچنا چاہئے ؟
خود پيغمبر اسلام ۰نے بھي ہجرت کي ۔ليکن پيغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ايک دارالہجرہ موجودنہيں تھا‘پ نے اپني ہجرت کے ذريعے ايک دارالہجرہ ايجاد کيا ۔
کبھي کبھي يہ بات ضروري ہو جاتي ہے کہ لوگوں کا ايک گروہ اپني ہجرت کے ذريعے دارالايمان کي بنياد رکھے ‘ايک الٰہي اور اسلامي معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنين وہاں ہجرت کريں۔

حوالے
١۔ کيا تم نے ان لوگوں کاحال نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبديل کر ديا اور اپني قوم کو ہلاکت کے سپرد کر ديااور دوزخ جو بد ترين ٹھکانہ ہے ‘ اس ميں جاپڑے ۔(سورہ ابراہيم ١٤۔يت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس نہيں کرتا جو ايسے امام کي تابع ہو جو خدا کي طرف سے نہيں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال ميں نيکو کار اور پرہيز گار ہو۔ بے شک خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کي جانب سے مقرر کردہ امام کي تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافي ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہيں ‘جب فرشتے اُن کي روح قبض کرتے ہيں‘ تو اُن سے پوچھتے ہيں: تم کس حال ميںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہيں: ہم زمين ميں لاچار بنا ديئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہيں: کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترين منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔يت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورميںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔يت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔يت٦١
۶۔اور جوکوئي خدا اور رسول کي جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے ميں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔يت ١٠
Read 1634 times