Print this page

سيد قطب

Rate this item
(0 votes)

ہمیں ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافي مانگنے پر ابھارتے ہيں- قسم بخدا اگر معافي کے چند الفاظ مجھے پھانسي سے نجات بھي دے سکتے ہوں تو ميں تب بھي يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا- ميں اسي حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضي ہو اور ميں اس سے راضي ہوں

عالم اسلام کے درخشندہ ستارے

"انقلاب مصر کا ميرابو" سيد قطب شہيد، جس نے سرمايہ دارانہ اور جاگير دارانہ نظام کے خلاف تحرير کا وہ طوفان برپا کيا کہ جس نے مصر کے ساتھ ساتھ دنيا بھر ميں قائم استبدادي معاشروں ميں کھلبلي مچا دي- سيد قطب کي تحريروں کا مطالعہ کرنے سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ آپ اس امر پر يقين رکھتے تھے کہ اگر صدر اول کا اسلامي معاشرہ ايک جداگانہ نظام کے تحت ترقي اور نمو پا سکتا ہے تو آج بھي اسلامي معاشرے کو وجود ميں لانے کے ليے جاہلانہ معاشروں سے جدا رکھنا لازم ہے- سيد قطب کا تعارف اس مضمون ميں بعد کي سطروں ميں آئے گا، تاہم ان کے نظريات کو جاننے کے ليے ہم ان پر لگنے والي فرد جرم کا جائزہ ليتے ہيں-

"ہمارا دعويٰ ہے کہ مغرب ميں جمہوريت کا ديواليہ نکل چکا ہے، لہذا اب اس کے پاس ايسي اقدار نہيں رہيں کہ انسانيت کي خدمت ميں پيش کر سکے- مارکسزم کے بارے ميں بھي اس کي رائے يہ ہے کہ مشرقي کيمپ کا يہ نظريہ اب پسپا ہو رہا ہے- اس نظريے کي انساني فطرت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ کشمکش جاري ہے- ہم يہ فيصلہ ديتے ہیں کہ انسانيت کو ايک نئي قيادت کي ضرورت ہے جو مادي تہذيب يورپي ترقي کے مقام پر قائم اور بحال رکھتے ہوئے مزيد نشو نما دے سکے- ہم کہتے ہیں کہ يورپ کي علمي تحريک اپنا کردار ادا کر چکي ہے اور اب اس کے پاس کوئي سرمايہ حيات نہيں رہا- يہي حال وطني اور قومي نظريات کا ہے- لہذا امت مسلمہ کے وجود کو بحال کيا جانا ناگزير ہے- ہم يہ دعويٰ کرتے ہیں کہ دنيا جاہليت کے اندر غرق ہے- اس جاہليت نے اللہ کے اقتدار اور حاکميت پر غاصبانہ قبضہ کيا ہوا ہے- ہم قرآن کو عقيدے کا بنيادي ماخذ قرار ديتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جاہلي معاشرے سے نجات حاصل کريں-

ہمارا بيان ہے کہ محمد (ص) بھي عرب قوميت کي تحريک برپا کرکے عربوں کو اپنے گرد جمع کر سکتے تھے، ليکن يہ درست نہيں تھا کہ انسان کو رومي و فارسي طاغوت کے چنگل سے نکال کر عرب طاغوت کے چنگل ميں پھنسا ديا جاتا- ہمارا بيان ہے کہ جس زمانے ميں محمد (ص) دين اسلام لے کر آئے تھے، اس وقت عرب معاشرہ انتہائي بگاڑ کا شکار تھا- تقسيم دولت اور عدل و انصاف کا نظام تباہ ہو چکا تھا- محدود اقليت مال و دولت اور تجارت کي اجارہ دار بني ہوئي تھي اور سودي کاروبار کے ذريعے اپنے سرمائے ميں مزيد اضافہ کر رہي تھي-

ہم لکھتے ہیں کہ جس جاہليت سے رسول خدا (ص) کو سامنا تھا وہ کوئي مجرد معاشرہ نہ تھي، بلکہ ايک متحرک اور توانا معاشرہ تھي، جبکہ قوم معاشرے کے بزرگوں کے سامنے سرنگوں تھي- پس انسان کي پوري زندگي خدا کي جانب لوٹ جاني چاہيے- جاہلي معاشرے ميں سے ايک ايسا متحرک اور توانا معاشرہ ابھرنا چاہيے تھا جو جاہلي معاشرے سے الگ تھلگ اور مستقل ہو اور اس کي قيادت اس وقت رسول خدا (ص) سے مخصوص تھي، تاہم آپ کے بعد ہر وہ قيادت اس معاشرے کا نظام سنبھال سکتي ہے جو انسانيت کو صرف اللہ کي الوہيت، حاکميت، اقتدار اور شريعت کے آستانے پر جھکائے- اسلامي تہذيب کبھي بھي محض عربي تہذيب يا قومي تہذيب نہ تھي بلکہ يہ ہميشہ سے اسلامي اور نظرياتي تہذيب ہے-

ہماری يہ رائے ہے کہ وہ معاشرہ جس ميں اجتماعي زندگي رائے اور انتخاب کي آزادي پر استوار ہو، متمدن و مہذب معاشرہ ہوتا ہے، اور وہ معاشرہ جس کي تشکيل ميں لوگوں کي آزادي رائے کا دخل نہ ہو پسماندہ معاشرہ ہوتا ہے- جسے اسلامي اصطلاح ميں جاہلي معاشرہ کہا جاتا ہے-"

يہ ہے وہ فرد جرم جو سيد قطب شہيد کي کتب سے کشيد کرکے ان پر لگائي گئي-

قارئين کرام، آپ کي معلومات پر انحصار کرتے ہوئے ميں آپ کے اذہان کو اس امر کي جانب متوجہ کرنا چاہوں گا کہ عالم اسلام کي نشاة ثانيہ کے ليے اٹھنے والي ہر آواز اسي لب و لہجہ کي مالک تھي، اقبال کا کلام ہو يا سيد جمال الدين کے اقوال، شيخ شلتوت کي تقارير ہوں يا امام خميني کے نظريات، ہميں ان تمام موارد ميں يہي فکر و نظر کار فرما نظر آتي ہے، جو اس بات کي غماز ہے کہ اسلام کي حقيقي تعليمات سے کسب فيض کرنے والے ابطال اسلام دنيا کے کسي کونے کے باسي ہوں ان کي منہج اور نظريہ ايک ہي ہے-

سيد قطب کي ولادت مصر کے ضلع اسيوط کے قريہ موشا کے ايک ديندار گھرانے ميں ہوئي- آپ کے والد حاجي ابراھيم قطب زراعت پيشہ انسان تھے، جن کي ذات کے بارے ميں شہيد قطب اپني کتاب "مشاہد القيامة في القرآن" ميں لکھتے ہيں

بابا! ميں اپني اس کاوش کو آپ کي روح کي نذر کرتا ہوں- ميں بچہ تھا کہ آپ نے ميرے احساس و وجدان پر يوم آخرت کا خوف نقش کر ديا- آپ نے کبھي ميري سرزنش نہيں کي بلکہ ميرے سامنے اس طرح زندگي گزاري کہ قيامت کي باز پرس کا احساس آپ کے وجود پر طاري رہتا تھا- آپ کے قلب و ضمير اور زبان پر ہر وقت خدا کا ذکر جاري رہتا- آپ برائيوں سے درگزر کرتے حالانکہ آپ ان کا جواب دينے کي طاقت رکھتے تھے- بسا اوقات آپ اپني ضرورت کي اشيا دوسروں کو دے ديتے حالانکہ آپ کو خود ان کي شديد حاجت ہوتي تھي-

سيد قطب شہيد پر اپني ابتدائي پرورش کا اس قدر اثر تھا کہ اپني دوسري کتاب "التصوير الفني في القرآن" کا انتساب اپني والدہ کو کرتے ہوئے کہتے ہيں

اے ماں! تيري خواہش تھي کہ اللہ ميرے سينے کو کھول دے اور ميں قرآن حفظ کر لوں اور اللہ مجھے خوش الحاني سے نوازے- اے ماں! تيرا ننھا بچہ تيرا جوان لخت جگر آج تيري تعليم و تربيت کي طويل محنت کا ثمرہ تيري خدمت ميں پيش کر رہا ہے- اس کاوش ميں اگرچہ حسن ترتيل کي کمي ہے، تاہم يہ کاوش حسن تاويل کي نعمت سے پر ہے-

سيد قطب نے ابتدائي تعليم اپنے آبائي علاقے ميں ہي حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم يعني جامعہ الازھر کا رخ کيا- گريجوايشن کے بعد سيد قطب اسي ادارے ميں بطور معلم بھرتي ہوئے- سيد قطب کو کچھ ہي عرصے بعد انسپکٹر آف سکول لگا ديا گيا اور آپ اعلٰي تعليم کے ليے امريکہ چلے گئے- سيد قطب 1945ء ميں اخوان المسلمين ميں شامل ہوئے- حسن البنا شہيد کي شہادت اور اخوان کي مرکزي قيادت کي اسيري اخوان کے ليے ايک کٹھن دور تھا، تاہم صعوبتوں کا يہ سلسلہ فوجي حکومت کے قيام سے دوچند ہو گيا- اخوان عوام ميں تو بے حد مقبول تھي، تاہم حکومت اور اس کے حواريوں کو ايک آنکھ نہ بھاتي تھي- 1952ء سے پہلے تک سيد قطب شہيد اخوان کے ايک عام کارکن تھے، تاہم 1952ء کے بعد آپ کو اخوان کي مجلس عاملہ کا رکن چنا گيا اور دعوت و تبليغ کا انچارج بنا ديا گيا- سيد قطب شہيد جريدة الاخوان المسلمين کے رئيس التحرير بھي رہے-

جمال عبد الناصر اور انگريز حکومت کے مابين ہونے والے 1954ء کے معاہدے کي مخالفت کے سبب اس جريدے کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمين پر پابندي عائد کر دي گئي اور مرکزي قيادت کو ايک مرتبہ پھر اسيري اور تختہ دار کا سامنا کرنا پڑا- گرفتار شدگان ميں سيد قطب بھي شامل تھے- سيد قطب کو پندرہ سال قيد با مشقت سنائي گئي، تاہم کچھ ہي عرصے بعد جمال عبدالناصر کا ايک نمائندہ قطب شہيد کے پاس معافي نامے کے ساتھ آيا، جس کے جواب ميں قطب شہيد نے کہا:

مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافي مانگنے پر ابھارتے ہيں- قسم بخدا اگر معافي کے چند الفاظ مجھے پھانسي سے نجات بھي دے سکتے ہوں تو ميں تب بھي يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا- ميں اسي حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضي ہو اور ميں اس سے راضي ہوں-

سيد قطب نے دس سال زندان ميں گزارے، اس عرصے ميں آپ نے اپني معرکۃ آرا تصنيف "في ظلال القرآن" مکمل کي- يہ تفسير اب تک متعدد زبانوں ميں ترجمہ ہو چکي ہے- بہرحال سيد قطب کو 1964ميں مصر کے سابق صدر کي سفارش پر رہا کر ديا گيا- تاہم يہ رہائي ايسي نہ تھي کہ جس ميں آپ کو نقل و حرکت کي مکمل آزادي حاصل ہوتي- سيد قطب کو ايک سال بعد دوبارہ گرفتار کيا گيا اور 1966 ميں فوجي عدالت ميں مقدمہ چلا کر تختہ دار پر لٹکا ديا گيا-

Read 2815 times