ایران کے اہل سنت کے حق میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خدمات

Rate this item
(6 votes)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

«إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» (انبیا/92).

(بیشک یہ تمھارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کرو)(1)

 

 

در اسلام‏ بین شیعه و سنى ابداً تفرقه نیست؛ بین شیعه و سنى نباید تفرقه باشد. باید وحدت کلمه را حفظ کنید. ما با آنها برادر هستیم، آنها با ما برادر هستند.

"ا سلاممیں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بالکل کوئی فرق نہیں ہے،اور شیعوں اور اہل سنت کے درمیان فرق ہونا بھی نہیں چاہئے ، ہمیں اتحاد و یکجہتی کا تحفظ کر نا چاہئے – ہم ان کے بھائی ہیں اور وہ ہمارے بھائی ہیں – "

( امام خمینی رحمت اللہ علیہ)(2)

 

 

 

 

 

 

 

«یحرم النیل من رموز إخواننا السنة فضلاً عن اتهام زوجه النبی بما یخل بشرفها بل هذا الأمر ممتنع على نساء الأنبیاء وخصوصاً سیدهم الرسول الأعظم».« امام خامنه ای مدظله العالی»

"اہل سنت کے بزرگوں اور ان کے مقد سات کی بے احترامی کرنا، خاص کر رسول اکرم(ص) کی اہلیہ پر بد کرداری کا الزام لگانا حرام ہے ۔ کیونکہ یہ امر انبیاء کی بیویوں خاص کرسید المرسلین(ص) کے بارے میں نا ممکن ہے- "

(امام خامنہ ای مد ظلہ العالی)

 

 

 

 

 

 

 

مقدمہ

ایران کی سر زمین ، قدیم زمانہ سے مختلف اقوام، ملتوں اور مذہبی فرقوں کے لئے پر امن زندگی بسر کرنے کا گہوارہ رہی ہے- اس ملک کو اس بات پر فخر و مباہات ہے کہ اس سر زمین کے مختلف مذاہب و ادیان سےتعلق رکھنے والے محبان وطن کے لئے صدیوں سے دوستی و برادری کے ماحول میں امن و امان اور آرام و آسائش کے سائے میں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا ہے- اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اسلامی اتحاد کے مسئلہ پر تاکید فرماتے ہوئے اس سرزمین میں زندگی بسر کرنے والے مختلف اسلامی فرقوں کے پیرووں کے لئے پرامن ماحول میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کے مزید مواقع فراہم کئے- اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور نظام کے حکام نے بھی اقلیتوں کےلئے امن و سلامتی اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی انتھک کوششیں کی ہیں اور ان عزیزوں کےلئے ملک کی سیاسی اور سماجی سر گرمیوں میں شرکت کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں- ایران کےآئین کے بارے میں 1979ء میں ملک گیرریفرنڈم ہوا اور یہ آئین لوگوں کے 2 ۔99 فی صدی ووٹوں سے پاس ہوا- اس آئین میں اقلیتوں کے حقوق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- اور اس کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری اہتمام کیا گیا ہے-

ایران میں سکونت پذیر اقلیتوں میں سے ایک برادران اہل سنت ہیں، انھوں نے انقلاب کے دوران اور انقلاب کی کامیابی کے بعد مختلف مراحل میں اسلامی نظام کے تحفظ اور اس کے ماحصل کی پاسداری کے سلسلے میں کلیدی رول ادا کیا ہے – اسلامی نظام اپنی اس سرزمین کے باشندوں کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے اور اس ملک کے تمام باشندے آئین کے مطابق اپنے حقوق کے حقدارہیں اور استعماری طاقتوں کی طرف سے شیعوں اور اہل سنت کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی سازشوں پر سازشیں کی گئیں لیکن خوش قسمتی سے ان کی تمام سازشیں ناکام ہوئی ہیں اور ان دشمنوں کی طرف سے برادران اہل سنت کو نظام کے مسئولین سے بدظن کرنے کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے ہیں- ممکن ہے کچھ لوگ صحیح معلومات کے فقدان اور دشمنوں کی طرف سے غلط اطلاعات فراہم کرنے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر غلط فہمیوں سے دوچار ہوئے ہوں، ہم نے اس مقالہ میں اسلامی انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد ایران میں اہل سنت کے حالات اور ایران میں اہل سنت کے حق میں اسلامی جہوریہ ایران کی خدمات پر اعداد و شمار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے- اس مقالہ می ایران کے ان صوبوں کو مد نظر رکھا گیا ہے جن میں برادران اہل سنت کی قابل لحاظ آبادی ہے-

------------------------------

بنیادی آئین

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ نمبر 12 کے مطابق ملک کا سرکاری مذہب " اسلام " ہے اور اگر چہ ملک کی قطعی اکثریت کے جعفری مسلک کے پیرو ہونے کی وجہ سے ، جعفری مسلک سرکاری مذہب شمار ہوتا ہے، لیکن ملک کے آئین کے مطابق دوسرے اسلامی مذاہب من جملہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی مذاہب کا پورا پورا احترام ہے اور ان مذاہب کے پیرو اپنی مذہبی تقریبات اور رسم و رسومات اپنی فقہ کے مطابق انجام دینے میں آزاد ہیں اور ان کی دینی تعلیم و تربیت اور فقہی مسائل ( جیسے ازدواج، طلاق، وراثت اور وصیت) کے بارے میں ہماری عدالتوں میں دعوی کرنے کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور جن علاقوں میں مذکورہ مذہب میں سے جس مذہب کی اکثریت ہو، اس میں علاقائی قوانین، وہاں کی شوری کے توسط سے اسی مذہب کے مطابق نافذالعمل ہوں گے-

ملک کے آئین کی مذکورہ دفعہ سے دوسرے اسلامی مذاہب کے پیروں کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی اس کار کردگی کی غمازی ہوتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کے پیروں کے حقوق کی رعایت کی جاتی ہے جس کی دوسرے اسلامی ممالک میں کم مثال ملتی ہے- اس بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران نے جو حقوق مدنظر مسلمانوں کے لئے مقرر کئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

احترام: ایک ملک کے باشندوں کے درمیان پر امن روابط بر قرار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں- اس سلسلہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین تمام مسلمانوں کے درمیان پر امن اور برادرانہ روابط قائم کرنے اور ہر قسم کے اختلافات سے پرہیز کرنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تاکید کرتا ہے- اس بنا پر دوسرے اسلامی مذاہب کے پیرووں کی ہر قسم کی بے احترامی کرنا قانونی طور پر منع ہے-

مذہبی تقریبات منعقد کرنے میں آزادی:

مذہبی تقریبات منعقد کرنا، عبادی پہلو کے علاوہ سیاسی حالت کے بھی حامل ہوتے ہیں- جس معاشرہ میں مختلف فرقے اور مذاہب ہوں ان میں اس قسم کی تقریبات منعقد کرنا ، مختلف گروہوں اورفرقوں کے درمیان مخاصمت حتی کہ کینہ اور دشمنی پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں- اس لئے بہت سی حکومتوں میں اس قسم کی تقریبات منعقد کرنے کے سلسلہ میں پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں، اور اقلیتیں ان پابندیوں اورمحدودیتوں کے خلاف رد عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران میں تمام اسلامی مذاہب کے پیروکار حتی کہ غیر مسلم اقلیتوں کے پیرو بھی اپنے مذہبی رسومات اور تقریبات منعقد کرنے میں پوری پوری آزادی رکھتے ہیں اور ان کا احترام کیا جاتا ہے-

دینی تعلیم و تربیت اور پرسنل لاکی قانونی حیثیت: تمام اسلامی فرقے قرآن مجید اور سنت نبی اکرم (ص) کی تعلیمات اور احکام کے تابع ہیں- مذہبی آزادی کا تقاضا ہے کہ تمام اسلامی مذاہب کے پیرو اس سلسلہ میں اپنے خاص حقوق اور امکانات کے حامل ھوں- اس اعتبار سے آئین کی دفعہ نمبر 12 میں ان مذاہب کی فقہ اور ان کی دینی تعلیم کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور حکومت پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ ان مذاہب کے پیرووں کے لئے اس سلسلہ میں ضروری امکانات فراہم کرے-

علاقائی حقوق کی قانونی حیثیت: ملک کے بعض علاقوں کے باشندوں کی اکثریت جو کسی خاص اسلامی مذہب کے پیرووں پر مشتمل ہے- آئین نے ایسے علاقوں کی شوری کو وہاں کے اکثریتی باشندوں کے اعتقادات کے مطابق اسلامی تعلیمات کے دائرے میں قوانین بنانے کا اختیار دیا ہے-

سیاسی اور اداری حقوق:

ملک کے آئین کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ حقوق کے علاوہ تمام اسلامی مذاہب کے پیرووں کے لئے کچھ مزید امتیازات کی بھی رعایت کی گئی ہے جو حسب ذیل ہیں:

الف) آئین کی دفعہ نمبر 20 کے مطابق، سیاسی احزاب ، جمعیتیں ، سیاسی انجمنیں اور صنفی اور اسلامی انجمنیں تشکیل دینے کی آزادی-

ب) آئین کی دفعہ نمبر 64 کے مطابق اسلامی شوری ( پارلیمنٹ) کا نمایندہ بننے کا حق -

ج) آئین کی دفعہ نمبر 19 اور 20 کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے تمام انسانی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق میں ملک کے سب باشندوں کا مساوی ہونا-

-------------------------------------

 

ملک کی جغرافیائی حالت اور آبادی کا پھیلاو

ہمارے اہل سنت ہم وطن اکثر صوبہ سیستان و بلوچیستان، صوبہ کردستان ، صوبہ مغربی آذر بائیجان، صوبہ خراسان رضوی، صوبہ شمالی خراسان، صوبہ جنوبی خراسان، صوبہ بوشہر، صوبہ فارس کے جنوب میں اور صوبہ گلستان کے مشرق میں رہائش ہذیر ہیں- اس کے علاوہ ان کی ایک قلیل تعداد صوبہ گیلان اور بعض دوسرے صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے- ملک کے مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہمارے اکثر سنی بھائی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں-

صوبہ سیستان و بلوچیستان کے زاہدان، چابہار، ایرانشہر،خاش، سراوان، سرباز اور کنارک نامی شہروں میں اکثر اہل سنت رہتے ہیں- آبادی کے لحاظ سے اہل سنت کی آبادی والا دوسرے نمبر کا حامل صوبہ ایران کے مغرب میں عراق کی سرحد سے ملحق صوبہ کردستان ہے – اس صوبہ میں رہنے والے اکثر اہل سنت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں- اس صوبہ کے سندج، سردشت، مریوان، بانہ اور نقدہ نامی شہروں میں ہمارے اکثر سنی بھائی رہتے ہیں- ایران کی مغربی سرحد پر عراق اور ترکیہ سے ملحق مغربی آذر بائیجان کے صوبہ کے شہر مہاباد اور اشنویہ میں بھی بعض اہل سنت بھائی زندگی بسر کرتے ہیں- ایران کے ترکمن اہل سنت ایران کے شمال مشرقی صوبہ گلستان کے بندر ترکمن نامی شہر میں رہتے ہیں- اس صوبہ میں اکثر اہل سنت ترکمن ہیں-

----------------------

دینی مدارس

آئین کی دفعہ نمبر 12 کے مطابق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے سنجیدہ اہتمام کے مطابق، اہل سنت بھائیوں کے لئے دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی نہ صرف کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اس امر کی زبردست کوششیں کی جارہی ہیں کہ برادران اہل سنت کو اپنی فقہ و عقائد کے مطابق دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے سلسلہ میں ہر ممکن امکانات اور وسائل فراہم کئے جائیں- اس سلسلہ میں مختلف سنی آبادی والے علاقوں میں دینی مدارس کی تشکیل اور ان کے اعداد و شمار کا ایک جائزہ ایک واضح ثبوت ہے- یہاں تک کہ بعض سنی علاقوں میں سنی بھائیوں کے دینی مدارس کی تعداد وہاں کی آبادی کی بہ نسبت شیعہ آبادی والے ایسے علاقوں سے کئی گنا زیادہ ہے- اہل سنت کے دینی مدارس کے سلسلہ میں پروگرام مرتب کرنے کی شوری تشکیل دینے کا منصوبہ اس امر کو وقت کی ضرورت کے مطابق انجام پانے کا سبب بنا ہے- رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نظریہ کے مطابق تمام دینی مدارس (حوزہ علمیہ) من جملہ شیعہ اور سنی دینی مدارس کو علمی اور رفاہی خدمات مہیا کرنے کے سلسلہ میں" شورائے عالی انقلاب فرھنگی" نے اہل سنت کے دینی مدارس کے پروگرام کو تشکیل دینے کے لئے شوری کی منظوری دی ہے – اس شوری کا کئی سنی علماء پر مشتمل مرکزی دفتر تہران میں ہے اور یہ دفتر ملک کے تمام سنی آبادی والے علاقوں کے ضروریات اور امور کی تلاش و کوشش کرتا ہے-

------------------------------------

دینی مدارس کو خدمات پیش کرنے کا مرکز

دینی طلاب، خداوند متعال پر توکل کرکے، دینی علوم حاصل کرنے کے لئے اس راہ میں گامزن ہوتے ہیں اور کسی قسم کی مادی توقع نہیں رکھتے ہیں، لیکن دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پورا وقت صرف کرنے ، فارغ البال اور آسودہ خاطر ھونے کی ضرورت ھوتی ہے اور یہ حالت مالی مشکلات کو حل کرنے سے انجام پاتی ہے- اہل سنت کے دینی مدارس کے طلاب کے مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ملکی پیمانے پر تشکیل پائے دینی مدارس کو خدمات فراہم کرنے کے مرکز نے ذمہ داری سنبھالی ہے اور تمام اہل سنت طلاب کو رفاہی خدمات فراہم کرنے کے زمرے میں قرار دیا ہے- ان خدمات میں، بیمہ عمر، بیمہ تکملہ،بینک کی سہولیت، ازدواج کا قرضہ، (حج) عمرہ کاکوٹا ، عیال بار طلاب کے لئے مالی امداد، دینی مدارس کو کمپیوٹر فراہم کرنا، اور دینی مدارس میں کتابخانہ قائم کرنا وغیرہ شامل ہے- اس وقت اہل سنت کے 30000 سے زائد طالب علم مذکورہ سہولیات سے بہرہ مند ھو رہے ہیں-

اہل سنت کے دینی مدارس کے تمام معلمین اور اساتذہ ، طبقہ بندی کے مطابق یونیورسٹی کے استادوں کے مانند ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کے عمر رسیدہ علماء اور فوت شدہ علماء کو بھی "مرکز خدمات حوزہای علمیہ اہل سنت" کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے- اہل سنت کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلاب اجباری فوجی تربیت سے مستثنی ہیں اور فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کوباضابطہ قانونی اسناد دی جاتی ہیں – اس کےعلاوہ سند یافتہ اہل سنت دینی طالب علموں کومختلف اداروں میں اسی سند کی بناء پرنو کریاں بھی ملتی ہیں اور یہ امر اہل سنت طلاب میں روز بروز اضافہ ہونے کا سبب بنا ہے- اس طرح بعض افراد جو سہولیات فراہم نہ ھونے کی وجہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں نہیں تھے، آج دینی تعلیم حاصل کرنے کو مروجہ اور یونیورسٹی کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل سنت گھرانے اپنی اولاد کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ یونیورسٹی کے بجائے دینی مدارس میں بھیجنے کی ہمت افزائی کرتے ہیں-

صوبہ سیستان و بلو چستان کے دینی مدارس:

صوبہ سیستان و بلو چیستان ایک ایسا صوبہ ہے، جس میں اہل سنت کے سب سے زیادہ دینی مدارس ہیں- صوبہ سیستان و بلو چیستان میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے دینی مدارس کی تعداد بہت کم تھی اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے اکثر شائقین ہندوستان اور پاکستان ہجرت کرتے تھے- اس کے علاوہ اس صوبہ کے محدود دینی مدارس کی کیفیت بھی مختلف محدود یتوں اور اہل سنت کے قبل علماء کی کمی کی وجہ سے پست تھی-

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ اس صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس میں روز افزوں ترقی کی وجہ سے دینی تعلیم کے شائیقین اس مقصد سے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے سے بے نیاز ھوئے اور اسی صوبہ کے مختلف شہروں میں متعد د مدارس تشکیل پائے- اس وقت اس صوبہ کے دینی مدارس ( و مکا تب) اور حوزہ علمیہ کی تعداد ایک سو سے زائد ہے- ان دینی مدارس کی کیفیت میں ترقی اس امر کا سبب بنا ہے کہ آج بہت سے اہل سنت دینی طالب علم دوسرے ممالک، من جملہ افغا نستان اور پاکستان کے صوبہ بلو چستان سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایران کے صوبہ بلوچستان آتے ہیں-

اس صوبہ میں اہل سنت دینی طلاب کی تعداد تقریبا 7000 افراد پر مشتمل ہے، جبکہ انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں طلاب کی تعداد 300 افراد سے زیادہ نہیں تھی-

اس وقت صوبہ سیستان و بلوچیستان کے دینی مدارس میں اہل سنت کو عالی ترین سطح پر دینی تعلیم دی جاتی ہے-

سیستان و بلوچیستان کے صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس کے علاوہ متعدد ثقافتی مراکز بھی سر گرم عمل ہیں، جو برادران اہل سنت کے لئے گونا گوں وسائل سے آراستہ ریڈ نگ روم اور کتابخانوں کے لئے بے مثال خدمات انجام دیتے ہیں-

صوبہ کردستان کے دینی مدارس:

صوبہ کردستان کے شہر مریوان، بانہ،سرد آباد، سندج،سقز اور دیواندارہ میں اس وقت اہل سنت کے 26 دینی مدارس( حوزہ علمیہ) فعال ہیں، ان میں 1300 لڑکے اور لڑکیاں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں اس کے علاوہ اس وقت مزید دس دینی مدارس زیر تعمیر ہیں-

صوبہ مغربی آذر بائیجان کے دینی مدارس:

صوبہ مغربی آذر بائیجان میں اہل سنت بھائیوں کے گیارہ دینی مدارس( حوزہ علمیہ) سر گرم عمل ہیں اس کے علاوہ اس صوبہ کے ارومیہ، بو کان، مہا باد، نقدہ، پیران شہر اور اشنویہ میں بھی اہل سنت کے دینی مدارس قائم ہیں-

صوبہ کرمانشاہ کے دینی مدارس:

اس صوبہ میں اہل سنت کے پندرہ(15) دینی مدارس فعال ہیں جن میں 200 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں اس صوبہ کے بعض شہروں میں چار سے زائد دینی مدارس موجود ہیں-

صوبہ گلستان کے دینی مدارس:

صوبہ گلستان کے مشرق میں اہل سنت کے 120 دینی مدارس( حوزیہ علمیہ) سر گرم عمل ہیں اور اس صوبہ میں اس وقت 3500 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں-

صوبہ خراسان رضوی کے دینی مدارس:

خراسان رضوی کے صوبے میں بھی ہمارے اہل سنت بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام کے پر مہر سائے میں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں- اس صوبہ میں اس وقت 1500 سے زائد اہل سنت طلبہ امن و امان کے ماحول میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بھر پور حمایت اور مدد سے دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں-

صوبہ خراسان جنوبی کے دینی مدارس:

خراسان جنوبی نامی صوبہ میں اہل سنت بھائیوں کے 10 دینی مدارس( حوزیہ علمیہ) ہیں، جن میں تقریبا 200 طلاب، دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں- صوبہ خراسان جنوبی میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے صرف دو دینی مدارس تھے اور ان دو مدارس کو بھی بہت کم سہولیات فراہم تھیں-

صوبہ خراسان شمالی کے دینی مدارس:

صوبہ خراسان شمالی میں اہل سنت کے 30 دینی مدارس( حوزہ علمیہ) ہیں،اور دینی مدارس کی یہ تعداد انقلاب سے قبل والی تعداد سے قابل موازنہ نہیں ہے – اس صوبہ کے مختلف شہروں میں اس وقت تقریبا 1000 طلاب، دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں اور تجربہ کار اساتذہ سے استفادہ کر رہے ہیں-

صوبہ ہرمزگان کے دینی مدارس:

شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے اہل سنت کی ایک تعداد ایران کے جنوب میں صوبہ ہرمزگان کے بندر عباس، قشم، میناب، جاسک، بستک، کیش اور بندر لنگہ وغیرہ نامی شہروں میں خلیج فارس کے ساحل پر رہائش پذیر ہیں- ایران کے دوسرے صوبوں کے مانند اس صوبہ میں بھی برادران اہل سنت کے مخصوص دینی مدارس قائم ہیں-

جبکہ انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں اہل سنت کے مدارس کی تعداد انتہائی کم تھی، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی برکت اور نظام کے مسئولین کی خاص توجہ اور حمایت کے نتیجہ میں اس وقت اس صوبہ میں بہت سے دینی مدارس قائم کئے گئے ہیں- اور ان میں طلاب روزانہ دینی تعلیم و تحقیق میں مشغول ہیں- اس صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس کی تعداد تقریبا 40 ہے-

صوبہ بوشہر کے دینی مدارس:

ہمارے کچھ ہم وطن اہل سنت صوبہ بوشہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں- اس صوبہ میں اہل سنت کے 8 دینی مدارس قائم ہیں ان مدارس میں 1100 دینی طلاب تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں 700 طالبات ہیں-

صوبہ فارس کے دینی مدارس:

اہل سنت بھائیوں نے رہائش کے لئے اس صوبہ کے جنوبی شہروں کو منتخب کیا ہے اس صوبہ میں اس وقت 20 دینی مدارس ( حوزہ علمیہ) ہیں جن میں تقریبا 1000 طلاب زیر تعلیم ہیں-

صوبہ گیلان کے دینی مدارس:

صوبہ گیلان میں بحرخزر کے ساحل پر بسے ہوئے ہمارے اہل سنت ہم وطنوں کے 7 دینی مدارس ہیں اور ان مدارس میں مجموعی طور پر تقریبا 200 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں-

---------------------

مذہبی تقریبات منعقد کرنے کی آزادی

اقلیتوں کے حقوق کے سلسلہ میں ایک اور اہم مسئلہ ان کو مذہبی و دینی تقریبات منعقد کرنے کی آزادی ہے- اس وقت ایران میں اہل سنت کی تقریبا 13000 مسجدیں ہیں اور ایک سادہ محاسبہ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ایران میں اہل سنت کے لئے ہر 500 افراد کے لئے ایک مسجد ہے-

صوبہ سیستان و بلو چیستان:

اہل سنت بھائیوں کی اکثر مسجدیں صوبہ سیستان و بلوچیستان میں فعال ہیں- ایران میں اہل سنت کی نشریات میں شائع شدہ تطبیقی اعداد و شمار اور صوبوں کی سازمان تبلیغات اسلامی کے توسط سے حاصل شدہ مساجد کے بارے میں اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ مسجدوں میں سے اکثر مسجدیں صوبہ سیستان و بلوچیستان میں ہیں،اور اس صوبہ میں اہل سنت کی مسجدوں کی تعداد 3700 ہے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ کردستان ہے، جس میں 2000 مسجدیں ہیں اور تیسرے نمبر پر مغربی آذر بائیجان کا صوبہ ہے، جس میں 1500 مسجدیں ہیں- اس کے بعد صوبہ ہرمزگان، صوبہ گلستان اور صوبہ خراسان ( مجموعا تین صوبوں) میں 746 مسجدیں ہیں اور ان کو چوتھا نمبر حاصل ہے- اس کے بعد صوبہ کرمانشاہ میں 420 مسجدیں، صوبہ بوشہر میں 135 مسجدیں اور صوبہ گیلان میں 95 مسجدیں ہیں اس طرح ان تین صوبوں کو پانچواں نمبر حاصل ہے- صوبہ فارس میں اہل سنت کی 290 مسجدیں ہیں اور اس کے علاوہ صوبہ کرمان اور صوبہ خوزستان میں بھی اہل سنت بھائیوں کی کئی مسجدیں فعال ہیں-

مثال کے طور پر صوبہ سیستان و بلوچیستان کے شہرزاہدان میں انقلاب سے پہلے موجود مسجدوں کی تعداد گزشتہ 32 سال کے دوران دس گنا بڑھ چکی ہے-

صوبہ سیستان و بلوچیستان کے مختلف شہروں میں 400 جہگوں پر اہل سنت کی نماز جمعہ قائم ہے،

جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے صرف گیارہ جگہوں پر نماز جمعہ قائم تھی- اس وقت صرف شہر زاہدان میں12 جگہوں پر نماز جمعہ قائم ہے، جس میں اہل سنت ہم وطنوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے- صوبہ کے تمام اہل سنت ائمہ جمعہ، دینی مدارس کے معلمین، دینی طلاب اور اہل سنت مساجد کے خادمین، بیمہ کے دائرے میں قرار پائے ہیں- ان کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ عیدیانہ بھی دیا جاتا ہے-

جبکہ بہت سے ممالک میں ائمہ جمعہ پر پابندی ھوتی ہے کہ جمعہ کے خطبوں میں حکومت کی طرف سے معین شدہ مطالب کو پڑھیں، لیکن ایران میں جمعہ کے خطبوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے-

صوبہ کردستان:

ایران کے مغرب میں صوبہ کردستان ملک کا دوسرا صوبہ ہے جہاں پر اہل سنت ہم وطن سکونت پذیر ہیں- اس صوبہ کے مختلف شہروں میں 2000سے زائد مساجد فعال ہیں اور ہمارے ہم وطن اہل سنت آزادی کے ساتھ اپنی دینی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں- رہبر معظم انقلاب کے اس صوبہ میں سفر کی برکتوں میں سے ایک کردستان کے اہل سنت علماء کی درخواست پر اہل سنت کے شرعی افق کے مطابق اذان دینا ہے، جس کا صوبہ کردستان کے عوام نے استقبال کیا-

صوبہ مغربی آذر بائیجان:

ایران کا ایک اور صوبہ جس میں اہل سنت ہم وطن زندگی بسر کرتے ہیں، صوبہ مغربی آذر بائیجان ہے یہ صوبہ ایران کے مغرب میں واقع ہے- اس صوبہ میں اہل سنت کی 1500 مسجدیں ہیں-

صوبہ کرمانشاہ:

اس صوبہ میں صدر اسلام سے 1979 عیسوی، یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اہل سنت کی صرف 95 مسجدیں تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی برکت سے اب ان مسجدوں کی تعداد 491 تک بڑھ گئی ہے اور اس طرح ان کی تعداد چار گنی سے زیادہ ھوگئی ہے-

صوبہ کرمانشاہ میں ،جوان رود ،روانسر،پاوہ اور باباجانی نامی شہروں میں اہل سنت رہائش پذیر ہیں اور اس صوبہ میں اہل سنت ہم وطنوں کی 120 نماز جمعہ قائم ہوتی ہیں -

صوبہ ہرمزگان:

اہل سنت کی ایک تعداد، خلیج فارس کے ساحل پر صوبہ ہرمزگان میں رہائش پذیرہے – اعداد و شمار کے مطابق اس صوبہ میں تقریبا1200 مسجدیں ہیں، جن میں اہل سنت ہم وطن نماز ادا کرتے ہیں –

صوبہ گلستان :

صوبہ گلستان میں اہل سنت کی 1500 مسجد یں ہیں اور ان میں ںماز جماعت کے علاوہ روزانہ مذہبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں –

صوبہ بوشہر:

اس صوبہ میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے صرف 3نماز جمعہ کے مراکز تھے لیکن اب ان کی تعداد 34 تک پہنچی ہے-

اس صوبہ میں 57 دائمی اور عارضی ائمہ جمعہ ہیں، حکومت کی طرف سےان سب ائمہ جمعہ کا با ضابطہ بیمہ کیا گیا ہے اور ان کی مالی مدد کی جاتی ہے اور انھیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے-

صوبہ بو شہر کے جزیرہ شیف ( جزیرہ شیخ سعد) میں بندر بوشہر کے نزدیک اہل سنت کی ایک مسجد کا منظر-

-----------------------------------------

سماجی اور سیاسی سرگرمیاں

نویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں ملک کے 6 صوبوں سے 18 اہل سنت نمایندے کامیاب ھوکر پارلیمنٹ میں داخل ھوئے- نویں اور آٹھویں پارلیمنٹ کے منتخب شدہ اہل سنت نمایندوں کے نام، صوبوں کے نام اور حلقہ انتخاب کو مندرجہ ذیل گواشورہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

 

صوبہ کانام حلقہ انتخاب آٹھویں پارلمنٹ کا منتخبہ ممبر نویں پارلمنٹ کا منتخبہ ممبر

کردستان : سقز و بانہ فخر الدین حیدری محسن بیگلری

قروہ اور دھگلان سید عماد حسینی حامد قادر مرزی

مریوان اور سرو آباد اقبال محمدی امید کریمیان

سنندج امین شعبانی امین شعبانی

سنندج عبد الجبار کرمی عبد الجبار کرمی

مغربی آذربائیجان : ارومیہ عابد فتاحی

مھاباد جلال محمود زادہ عثمان احمدی

بو کان محمد قسیم عثمانی محمد قسیم عثمانی

پیران شھر و سردشت محمد علی پرتوی رسول خضری

نقدہ اور وشنویہ علی زنجانی حسنلویی عبد الکریم حسین زادہ

بلوچستان : زاھدان پیمان فروزش ناصرکاشانی

خاش حمید رضا پشنگ حمید رضا پشنگ

سروان عبد العزیز جمشید زھی ھدایت اللہ میر مراد زھی

چابھار،نیکشھر اور کنارک یعقوب جنگال یعقوب جنگال

ایران شھر اورسرباز محمد قیوم دھقانی سعید اربابی

گلستان : مینو دشت اور کلالہ سید نجیب حسینی عبد الکریم رجبی

کرمانشاہ : پاوہ قد رت اللہ حسینی نعمت منو چھری

خراسان رضوی : خواف محمد رضا سجادیان محمود نگھبان سلامی

 

اس کے علاوہ ملک کے عالی ترین مقام یعنی مقام معظم رہبری پر نظارت کرنے والی پارلیمنٹ یعنی" مجلس خبرگان رہبری، میں اہل سنت علماء کے تین نمایندے ہیں، جن کو ہر علاقہ کے لوگ براہ راست ووٹنگ سے منتخب کر تے ہیں-

مختلف سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں ملازمتوں کے سلسلہ میں بھی اہل سنت کے لئے کوئی محدودیت اور رکاوٹ نہیں ہے- جیسا کہ بہت سے سنی نشین علاقوں کے شہروں اور صوبوں میں قابل توجہ کلیدی عہدے اہل سنت کے ہاتھ میں ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت بھائیوں کے لئے فوجی، اطلاعاتی اور امنیتی اداروں میں سر گرم عمل ھونے کے امکانات کی فراہمی قابل توجہ ہے- اس وقت 5000 (پانچ ہزار) سے زائد اہل سنت بھائی صرف کردستان کے سپاہ پاسداران کے رکن ہیں- بعض اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سیستان و بلوچیستان کے 60 فیصد سے زیادہ اسسٹنٹ کمشنر اور 98 فیصد کے قریب میونسپل کونسلر اہل سنت ہیں- اس کے علاوہ اس صوبہ کے شہروں کے قابل توجہ میونسپلٹی چئرمین اہل سنت ہیں- مزید بر آن بہت سے دیہات کے شوری کے فعال ارکان اہل سنت بھائیوں پر مشتمل ہیں- بعض ڈپٹی کمشنر اور ڈائریکٹر اور حتی کہ گورنروں کے معاونین بھی برادران اہل ست ہیں کہ دنیا کے کسی اسلامی ملک میں اس کی مثال نہیں مل سکتی ہے –وزارت تعلیم کی طرف سے صوبہ سیستان و بلوچیستان اور صوبہ کردستان کے بہت سے علاقوں کے ڈائریکٹر اور مدارس کے پرنسپل اہل سنت برادری کے افراد متعین کئے گئے ہیں- سنی نشین علاقوں میں 90 فیصد" شورائے حل اختلاف" کے ارکان قابل اعتماد اہل سنت ہم وطنوں پر مشتمل ہیں اور ان کے لئے صوبہ کی عدلیہ کی طرف سے تعینات ھونے کا حکم صادر کیا گیا ہے- اہل سنت قانون دانوں کو ضرورت کے مطابق عدلیہ کی طرف سے منتخب کر کے عدالتوں میں سرکاری وکیل، تفتیشی اور منصف کے عہدوں پر مقرر کیا جاتا ہے-

-----------------------------------

فلاح و بہبود اور ترقیاتی کاموں کے لئے خدمات

مقالہ کے اس حصہ میں سب سے زیادہ اہل سنت کی آبادی والے صوبوں ، یعنی کردستان اور سیستان و بلو چیستان میں اسلامی انقلاب کی خدمات کی ایک جھلک پیش کی جائے گی:

صوبہ کردستان میں اسلامی انقلاب کی خدمات:

صوبہ کردستان کے ترقیاتی منصوبوں کو تقویت بخشنے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو بڑھاوا دینے سے یہ صوبہ ترقی یافتہ صوبوں میں داخل ھوا ہے – یہ عظیم خدمات تعمیر و ترقی، اقتصادی ترقی، سماجی ترقی، ثقافتی اور زراعت کے میدان کے علاوہ صوبہ میں امن و امان قائم کرنے کے سلسلہ میں واضح طور مشہود ہے- آج وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ صوبہ ہر لحاظ سے ترقی کے منازل طے کر رہا ہے- اور ملک کے ترقی یافتہ صوبوں میں شمار ھوتا ہے- صوبہ کردستان میں ترقی اور امن و امان کا بر قرار ھونا اسلامی جمہوریہ کے نظام کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے- تعمیر و ترقی کی بنیادی راہیں، ان موارد میں سے ایک مورد تھا، جس کی طرف توجہ کرنا صوبہ کردستان میں شدت کے ساتھ محسوس کیا جاتا تھا، یہ وہ موضوع تھا جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے مسئولین نے خاص توجہ دی- اس وقت اس صوبہ کے دیہاتوں کی 2230 کلومیٹرسڑکیں پختہ کی گئی ہیں اور شہروں کی 1750 کلو میٹر سڑکیں پختہ کی گئی ہیں-

ملک کے جاری پانی کا 7 فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے، جو اس صوبہ اور ملک سے باہربہتا ہے- اس صوبہ کے جاری پانی کو روکنے اور ذخیرہ کرنے کے لئے 30 ڈیم تعمیر کئے جانے کا منصوبہ ہے اور ان میں سے 7ڈیم تعمیر ھوئے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جارہا ہے اور مزید کئی ڈیم تعمیر کے آخری مرحلے میں ہیں،

تاکہ صوبہ کے جاری پانی کو ذخیرہ کیا جائے اور اس سے زراعت، آبی جانوروں کی پرورش اور مویشیوں کے لئے استفادہ کیا جائے-

اس صوبہ میں پانی کو ذخیرہ کرنے سے 40 ہزار ہکٹر زمین کی آبیاری کی جارہی ہے- انقلاب سے پہلے اس صوبہ کے صرف 9 دیہاتوں میں بجلی کی سہولیات فراہم تھیں اور اسلامی انقلاب کی برکت سے اس وقت 683 دیہات بجلی کی سہولیات سے بہرہ مند ہیں-

صوبہ کردستان کی ترقی کا ایک اور ثبوت اس صوبہ کے شہر و دیہات میں طبیعی گیس کی پائپ لائن بچھانا ہے- اس صوبہ کے شہروں اور دیہات کی6/99 فیصد آبادی کو گیس کی سہولیات فراہم کرنے کے بعد یہ صوبہ ملک کے تین برتر صوبوں میں شمار ھوا ہے- اس صوبہ میں 624 دیہات ہیں اور ان میں سے 63 فیصد دیہات کو گیس پائپ لائن کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں- اس صوبہ میں (CNG) گیس کے 48 پمپ سٹیشن ہیں- اس کے علاوہ 10 صنعتی قصیوں کو بھی مکمل طور پر گیس کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کی برکت سے اس صوبہ میں چھوٹی بڑی 960 صنعتیں فعال ہیں اور اس طرح ان صنعتوں میں 15870 افراد کے لئے روزگار فراہم ھوا ہے-" قروہ "کے لوہا پگھلانے کے کارخانے میں 70 ہزار ٹن لوہا پیدا ھوتا ہے اور اس کارخانہ میں 1800 افراد کے لئے روزگار فراہم کیا گیا ہے،بیجار کا سیمنٹ بنانے کارخانہ اور سنندج کا ٹریکٹر بنانے کا کارخانہ اس صوبہ کی بڑی صنعتوں میں شمار ھوتے ہیں-

اس وقت اس صوبہ میں 37 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 65 ہزار سے زائد طالب علم 250 مضامین اور مختلف تعلیمی مدارج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں- طالب علموں کی مذکورہ تعداد صوبہ کی کل آبادی کی ساڑھے چار فیصدی ہے- اسلامی انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں صرف 29 فیصدی لوگ تعلیم کی نعمت سے بہرہ مند تھے، اور آج اس صوبہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح 90 فیصدی ہے- انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں صرف 99 ڈاکٹر اور 35 سپیشلسٹ ڈاکٹر تھے لیکن آج اس صوبہ میں 300 سپیشلسٹ ڈاکٹر، 20 سپر سپیشلسٹ اور 35 ڈینٹل سرجن لوگوں کی صحت و سلامتی اور علاج و معالجہ کی خدمات انجام دے رہے ہیں – اس وقت صوبہ میں 621 ہیلتھ یونٹ کے علاوہ ، دیہات میں 75 صحت و سلامتی کے مراکز، شہروں میں 66 ڈسپنسریاں اور 12 ہسپتال ہیں جن میں 1626 بیماروں کے لئے بیڈ فراہم ہیں اور حفظان صحت کے یہ سب مراکز، ڈسپنسریاں اور ہسپتال صوبہ کی میڈیکل یونیورسٹی کے تحت اس علاقہ کے لوگوں میں علاج و معالجہ کی خدمات انجام دے رہے ہیں-

صوبہ سیستان و بلو چیستان میں اسلامی انقلاب کی خدمات:

گزشتہ ( ظالم شاہی) حکومت کے دوران حکام وقت نے اس صوبہ کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی اور اس صوبہ کے دیہات اور دور دراز علاقوں میں تعلیمی مراکز اور مدارس کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس علاقہ کی اکثر آبادی نا خواندہ تھی، کیونکہ اس صوبہ کے 40 سال سے اوپر عمر رکھنے والے لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے-

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ثقافتی مراکز کی تشکیل اور اس صوبہ کے دیہات میں تعلیم و تربیت کو وسعت ملنے کی وجہ سے اس صوبہ کی خواندگی کی شرح بڑھ گئی ہے، اور 1996 ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس صوبہ کے 6سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد 1402680 افراد ہے اور ان میں سے تقریبا 802825 افراد تعلیم یافتہ ہیں-

مردوں کی خواندگی کی شرح عورتوں سے زیادہ ہے، خواندہ افراد کی کل تعداد میں 466338 افراد مرد اور 336487 عورتیں ہیں، جبکہ انقلاب سے پہلے دیہاتوں میں خواتین معلمین کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر خواتین ناخواندہ اور تعلیم کی نعمت سے محروم تھیں-

پہلوی بادشاہ کے دور میں صوبہ سیستان و بلو چیستان میں صرف ایک یونیورسٹی تاسیس کی گئی تھی اور اس میں طالب علموں کی ایک مختصر تعداد کو داخلہ ملتا تھا، اور وہ بھی صرف اسی صوبہ سے مخصوص نہیں ھوتے تھے، بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے بھی تعلق رکھتے تھے- لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس صوبہ میں مذکورہ یونیورسٹی کے علاوہ زاہدان کی میڈیکل یونیورسٹی، پیام نور یونیورسٹی، زاہدان، ایران شہر، زابل اور دوسرے شہروں میں آزاد اسلامی یونیورسٹیاں تاسیس کی جانے کے بعد اس صوبہ کی ثقافتی اور سماجی ترقی کی راہیں کھل گئی ہیں-

 

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد گزشتہ 34 برسوں کے دوران صوبہ سیستان و بلوچیستان کی تعمیر و ترقی پر ایک نظر:

صوبہ سیستان و بلو چیستان 187500 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ھوا ایک وسیع صوبہ ہے، جو ایران کے کل رقبہ کا 11۔4 فیصدی ہے-

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اس صوبہ کی مختلف ابعاد میں تعمیر و ترقی پر ایک سرسری نظر سے اس صوبہ کی پسماندگی اور محرومیت کو دور کرنے میں نظام کی خاص توجہ معلوم ھوتی ہے- اس صوبہ میں خواندگی کی شرح کا انقلاب سے پہلے کی بہ نسبت دس گنا ھوکر 90 فیصدی ھونا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حکومت نے اس علاقہ کی تعلیم و تربیت جیسے بنیادی مسئلہ، کو کتنی اہمیت دی ہے- اس صوبہ کے دیہاتوں کی سڑکوں کا 50 گنا ھونا، پختہ سڑکوں کا چار گنا ھونا ، مچھلیوں کی صید و صیادی میں 75 فیصد کا اضافہ اور صنعتی شہروں کا چار گنا ھونا صوبہ سیستان و بلو چیستان کی نمایاں ترقی کی دلیل ہے- جدید اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبہ سیستان و بلوچیستان میں 3200 مدارس ہیں جن میں 15450 دروس کے کلاس چل رہے ہیں-

اس کے علاوہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس صوبہ میں اعلی تعلیم کے 40 مراکز تاسیس کئے گئے ہیں، جن میں80000 طا لب علم اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں- اس کے علاوہ سڑکوں ،سمندروں، ریل اور ھوائی راہوں کی وسعت، کشتی سازی کی صنعت اور سرحدی بازاروں کو بڑھاوا ملنا بھی صوبہ سیستان و بلو چیستان کی ترقی شمار ھوتی ہے- اس صوبہ میں 2000 سے زائد دیہات ہیں، اور ان میں 85 فیصد سے زائد گاووں میں پینے کے پانی اور حفظان صحت کی سہولیات فراہم ہیں، جبکہ گزشتہ حکومت کے دوران یہ سہولتیں نہ ھونے کے برابر تھیں- اس وقت گاوں تک جانے والی اکثر سڑکیں پختہ کی گئی ہیں- میڈیکل سنٹر، گاوں گاوں میں ڈسپنسریاں، کھیل کے میدان، تعلیمی مراکز، ثقافتی مراکز اور یونیورسٹیوں کی تاسیس اس صوبہ کی ترقی کی نمایاں دلیل ہے- یہ بات قابل ذکر ہے کہ چابہار کی یونیورسٹی میں دنیا بھر کے طالب علموں کو داخلہ ملتا ہے –

اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب کے آغاز سے ہی کم آمدنی والے طبقوں کی حمایت اور مدد کرنے کو اپنے پروگرام کا حصہ قرار دیا ہے اور اس سلسلہ میں رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے حکم سے " امام خمینی امدادی کمیٹی " تشکیل پائی تاکہ معاعشرے کے محتاجوں کی مدد کی جائے- اس کمیٹی نے سنی نشین صوبوں میں نمایاں کارنامے انجام دئے ہیں- ان کارناموں میں 700000 اہل سنت محتاجوں کو اس کمیٹی کی طرف سے مدد ملنا شامل ہے، جن میں صوبہ سیستان و بلو چیستان میں 75000، صوبہ کردستان میں تقریب 50000اور صوبہ آذر بائیجان میں تقریبا30000 اہل سنت گھرانے ہیں جنھیں اس کمیٹی کی طرف سے مدد مل رہی ہے اور یہ لوگ ماہانہ امداد حاصل کر رہے ہیں – اس کمیٹی کی طرف سے کی جانے والی امداد میں کم آمدنی والے خاندانوں کو ماہانہ نقدی امداد، خاندان کی سرپرست عورتوں کو روز گار فراہم کرنا ، مفت قرضہ، طالب علموں کی امداد اور شادی بیاہ کے لئے جہیز فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے- مثال کے طور پر صوبہ کردستان میں ہی 133000 سے زائد کرد اس کمیٹی کی امداد سے بہرہ مند ھوئے ہیں-" امام خمینی امداد کمیٹی" بلا امتیاز سیاست، مذہب اور دین لوگوں کی مدد کرتی ہے اور یہ انقلابی ادارہ معاشرہ کے مختلف طبقات کے محتاجوں کی مدد کرتا ہے- اس مقدس ادارہ کی طرف سے امداد فراہم کرنے میں شیعہ یا سنی ھونا کوئی معیار نہیں ہے اور اس کا سب سے اہم مقصد مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرنا ہے-

آج کل اس کمیٹی کی طرف سے رہائشی مکان تعمیرکرنے، روزگار فراہم کرنے اور ناداروں اورمحتاجوں کی ازدواجی زندگی کے اخراجات برداشت کرنے کی صورت میں وسیع پیمانے پر خدمات فراہم کی جاتی ہیں- اس وقت صوبہ کردستان کی کل آبادی کے دس فیصدی افراد اس کمیٹی کی امداد کے دائرے میں قرار پائے ہیں- اس کے علاوہ تقریبا 17000سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم، 26000 سرپرست خواتین اور پندرہ سال سے کم عمر کے 7000 یتیم مختلف صورتوں میں اس کمیٹی کی امداد سے بہرہ مند ہو رہے ہیں-

" امام خمینی امداد ی کمیٹی" نے تا سیس سے آج تک اس صوبہ کے 18900 بے روزگاروں کو روزگار فراہم کیا ہے-

--------------------

اہل سنت اور اسلامی انقلاب

مقالہ کے اس حصہ میں ہم اسلامی انقلاب کی تشکیل اور اس انقلاب کی کامیابی میں ایران کے اہل سنت ہم وطنوں کے رول پر روشنی ڈالیں گے-

اسلامی انقلاب کے سلسلہ میں اہل سنت بھائیوں کے رول کی مندرجہ ذیل تین حصوں میں تحقیق کی جاسکتی ہے:

1-انقلاب سے پہلے اور مبارزہ کے دوران-

2-دفاع مقدس کے دوران-

3- انتخابات اور مظاہروں میں شرکت-

ایران کے اہل سنت اسلام پسند اور انصاف کے متوالے لوگ ہیں اور شہنشاہی ظالم حکومت کے دوران ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے- اہل سنت ہم وطنوں کا مرکز سے دور دراز علاقوں میں سکونت کرنا اور ظالم حکام، کے، زیادہ تر ملک کے دارالخلافہ کی طرف توجہ دینے کے نتیجہ میں اہسنت ہم وطن فلاح و بہبود کی کم از کم سہولیات سے بھی محروم تھے اور اہل سنت بھائی اس موضوع کو شدت سے محسوس کرتے تھے- شاہ کے زمانہ میں محروم اور پسماندہ علاقوں کی طرف عدم توجہ کی وجہ سے اہل سنت کے لئے سرحدی علاقوں میں زندگی بسر کرنا بہت مشکل امر بن گیا تھا اور اسی لئے لوگوں میں بے چینی اور نا راضگی پھیل چکی تھی- حوزہ علمیہ قم سے شروع کئے گئے امام خمینی کے انقلاب نے مشتاق اہل تسنن کے دلوں میں امید کی کرن روشن کی اور انھوں نے امام ( رح) کو انقلابی تحریک کے عنوان سے اپنا سمجھ کر ان کے مبارزہ کے آغاز سے ہی ان کا ساتھ دیا- شاہ کو یہ امید نہیں تھی کہ اہل سنت انقلابی تحریک کا ساتھ دیں گے جب اس کے برخلاف نتیجہ نکلا تو اہل سنت ،خاص کر ان کے علمائ پر زبردست دباو ڈالا گیا اور بعض مواقع پر ان کے دینی مدرسوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا- صوبہ سیستان و بلو چیستان اور صوبہ خراسان جنوبی کے پہلے درجہ کے اہل سنت علماء کا کھلم کھلا انقلاب کا ساتھ دینا ایسے مسائل میں سے ہے جو تاریخ میں درج ھو چکے ہیں- انقلابیوں کے ساتھ اہل سنت بھائی کی یکجہتی اور حمایت کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک معروف انقلابی شخصیت کو جب شاہ کے زمانہ میں ایران شہر جلا وطن کیا گیا، تو وہاں کے سنی بھائیوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا- شہنشاہی حکام نے انقلابیوں پر دباو ڈالنے اور ان کی صفوں میں اختلاف و افتراق پیدا کرنے کے لئے وقت کے مبارز عالم دین حضرت آیت اللہ خامنہ ای کو ایران شہر جلا وطن کیا اور اس طرح حکومت انقلابیوں کو شکست و ناکامی سے دوچار کرنا چاہتی تھی- ظالم شہنشاہی حکومت خیال کرتی تھی کہ سنی نشین علاقہ ھونے کی وجہ سے ایران شہر آیت اللہ خامنہ ای کی جلا وطنی کے لئے مناسب جگہ ہے اور یہ شیعہ انقلابی و مجاہد عالم دین اس شہر میں سماجی اور اجتماعی لحاظ سے مشکلات سے دو چار ھوں گے، اس لئے انھوں نے انھیں اس شہر میں جلا وطن کیا، لیکن وہ اس امر سے غافل تھے کہ اس شہر کے سنی بھائیوں کی محبت، اخلاص اور جذبات کے نتیجہ میں بہت ہی کم مدت میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای اور وہاں کے سنی بھائیوں کے درمیان مخلصانہ رابطہ بر قرار ھوجائے گا – رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای ایران شہر میں اپنی جلاوطنی کے دوران سنی بھائیوں کے ساتھ اس رابطہ کو آج بھی نیک الفاظ میں یاد فرماتے ہیں:

" میں ایران شہر میں غریب الوطن ہونے کا احساس نہیں کرتا تھا-"

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد:

ایران کے اسلامی انقلاب کی ابتداء میں انقلاب کے دشمن ایسا ظاہر کرتے تھے کہ یہ شیعوں کا انقلاب ہے اور توقع رکھتے تھے کہ ایران کی سنی برادری کے لوگ اس انقلاب کا ساتھ نہیں دیں گے- لیکن اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے قلبی اعتقادات کی بنا پر اس حقیقت کو درک کرلیا تھا اور جب آپ سے ایک انٹریو میں ایک خبر نگار نے یہ سوال پوچھا کہ:" کیا آپ کا انقلاب شیعوں کا انقلاب ہے؟ " تو آپ نے جواب میں فرمایا:" ہمارا انقلاب اسلامی ہے-" امام کے اس جملہ کو سن کر ایران کے اہل سنت بھائیوں کو اطمینان حاصل ھوا کہ یہ انقلاب ان کا اپنا انقلاب ہے اس لئے نظام کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے آگے بڑھنے کو اپنا فریضہ سمجھنے لگے اور اس انقلاب کی حفاظت اور پاسداری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا- اسلامی جمہوریہ کے نظام کی قدروں کی حفاظت اور دفاع کے لئے اہل سنت بھائیوں کی واضح اور فعالانہ ہمراہی، دفاع مقدس کے دوران جنگ میں شرکت کرکے اپنے شیعہ بھائیوں کے دوش بدوش لڑنا ہے- اس امر کا واضح ثبوت سپاہ پاسداران ، فوج اور رضا کاروں میں اہل سنت بھائیوں کی قابل توجہ تعداد کا شامل ھونا ہے- خاص کر کردستان میں" پیشمرگان کرد"نامی کرد مجاہدین نے" کوملہ" جیسے گمراہ اور ملک دشمن عناصر کے خلاف مجاہدانہ کاروائیاں کرکے ملک کو ان کے خطرہ سے بچایا ہے- دفاع مقدس کے دوران 5500 اہل سنت ہم وطنوں کا شہید ھونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ایران کے اہل سنت ، دشمنوں کے پروپیگنڈے اور ریشہ دوانیوں کی زد میں نہیں آئے-

انتخابات اور مظاہروں میں شرکت:

ایک قوم کا اپنی تقدیر سنوارنے میں سرگرم عمل ھونے کا مظہر انتخابات میں شرکت کرناہے-

ایک قوم کا انتخابات میں فعالانہ شرکت کرنا اس قوم کا حاکم نظام کو قبول کرنا شمار ھوتا ہے- اہل سنت کی آبادی والے صوبہ سیسیتان و بلوچیستان اور کردستان کے اسناد گواہ ہیں کہ اہل سنت ہم وطنوں نے انقلاب کے بعد والے انتخابات میں سب سے زیادہ تعداد میں شرکت کی ہے-

انقلاب کے بعد رونما ھونے والے تمام مظاہروں میں اہل سنت نے اپنے شیعہ بھائیوں کے دوش بدوش فعالانہ شرکت کی ہے اور اس طرح اسلامی انقلاب کے تئیں اپنی وفاداری کا اعلان کیا ہے-

Read 11104 times