عورت۔۔۔ امام خمینی﴿رہ﴾ کی نظر میں:
“ ہم چاہتے ہیں کہ عورت، انسانیت کے بلند مقام پر فائز ھو جائے۔ عورت کو اپنے مقدر کے سلسلہ میں مداخلت کرنے کا حق ھونا چاہئے۔ ” ﴿ صحیفہ نور ج ۵، ص ١۵۳﴾
“ انسانی حقوق کے اعتبار سے، مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں انسان ہیں اور عورت کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے سلسلہ میں مرد کے مانند حق ہے، البتہ بعض مواقع پر مرد اور عورت کے درمیان کچھ فرق پائے جاتے ہیں کہ ان کا ان کی انسانی حیثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” ﴿ صحیفہ نور، ج ۳، ص ۴۹﴾
“ مردوں کے مانند عورتیں بھی مستقبل کے اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں برابر کی شریک ہیں، انھیں ووٹ دینے اور ووٹ لینے کا حق ہے۔” ﴿ صحیفہ نور، ج ۴، ص ۲۵۹﴾
“عورت کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ھونا چاہئے، عورتوں کواسلامی جمہوریہ میں ووٹ دینے کا حق ھونا چاہئے، جس طرح مردوں کو ووٹ دینے کا حق ہے ۔ عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ہے۔” ﴿ صحیفہ نور ج١١، ص ۲۵۴﴾
“ آپ ﴿ عورتوں﴾ کو اس قدر میدان عمل میں لازما موجود ھونا چاہئے، جتنے کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ مثال کے طور پر انتخابات ، آج کل ایک ایسا کام ہے، جو انجام پانا چاہئے۔ ۔ ۔انتخابات کے لئے عورتوں کو بھی سرگرمی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، کیونکہ آپ ﴿ عورتوں﴾ اور دوسروں کے درمیان اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے سلسلہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایران کی تقدیر، سب کی تقدیر ہے۔ ۔ ۔اسلام نے آپ کو تحفظ بخشا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کو اسلام کی حفاظت کرنی چاہئے۔ ﴿ صحیفہ نور، ج ١۸، ص ۲٦۳﴾
مقدمہ
***
اسلامی انقلاب کے اسلام کی نورانی تعلیمات سے استفادہ کرتے ھوئے، عورتوں کے لئے کلیدی رول اور مقام و منزلت کو مدنظر رکھا ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک جانب، مختلف سماجی میدانوں میں اہنی طاقت و توانائی کا مظاہرہ کررہی ہیں اور دوسری جانب، گھر کے ماحول میں اپنی اولاد کی تربیت اور ماں اور شریک حیات کا رول ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہیں کرتی ہیں۔ یہ سب خاندان اور خاندان میں عورتوں کے کلیدی رول کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کو اہمیت دینے کا نتیجہ ہے۔
معاشرہ میں عورتوں کا مسئلہ، دوجہت، یعنی خاندان اور معاشرہ کے دائرے میں قابل ذکر ہے۔ عورتوں کے مسائل کے بارے میں اس نظریہ کا سرچشمہ دین مبین اسلام ہے، جو خواتین کی توانائیوں کے ارتقاء اور معاشرہ کی ترقی کا سبب بنا ہے۔ اسلام، خواتین کے لئے انسانی مقام و منزلت کا قائل ہے۔ اس اعتبار سے عورت صاحب کرامت ہے اور خاندان و معاشرہ کا سنگ بنیاد شمار ھوتی ہے۔ اس نظریہ کی بناء پر عورتوں کا سماج کے مختلف شعبوں میں فعال ھونا خاندان کو تشکیل دینے اور اسے استحکام بخشنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔
قابل ذکر بات ہے کہ خاندان، سب سے پہلی سماجی تشکیل ہے ، جس کا معاشرہ کے امن و سلامتی کے سلسلہ میں کلیدی رول ھوتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی ، خاندان کو معاشرہ کا بنیادی خلیہ جانتے ہیں کہ اگر یہ خلیہ صحیح و سالم ھوتو پورا معاشرہ صحیح و سالم ھوگا، موصوف ایک سالم، و صحیح اور بانشاط خاندان سے استفادہ کئے بغیر اسلامی معاشرہ کی ترقی کو ناممکن جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ، آج کے مغربی معاشرے کی مشکل اس معاشرہ کے ذمہ داروں کے، خاندان کے بارے میں نظریہ میں مضمر ہے کہ وہ خاندان کو معاشرہ کی بنیادی اور اہم تشکیل نہیں جانتے ہیں اور عورت کو خاندان سے الگ ایک فرد جانتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں عورت کو خاندان کے آرام و سکون کے مرکز کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب کے نظریہ کے مطابق، اگر آرام بخشنے والی عورت کا رول اور امن و سلامتی بخشنے والے مرد کا رول ایک دوسرے سے ہم آھنگ ھوں، تو ان کے درمیان محبت و الفت پیدا ھوگی۔ اس ہم آھنگی اور یکجہتی کے نتیجہ میں عورت کے لئے گھر سے باہر کی مشکلات قابل برداشت ھوں گی اور عورت معاشرے میں فعال اور موثر رول ادا کرسکتی ہے۔
لیکن عورتوں کی گھر سے باہر سماجی اور روز گار کے سلسلہ کی سرگرمیاں بھی ان کی زندگی کا ایک دوسرا حصہ ہے۔ اسلام کے مطابق عورتیں مختلف علمی، تحقیقاتی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں فعالیت کرسکتی ہیں۔ اسلام نے آج سے چودہ صدی پہلے عورتوں کی اس قسم کی فعالیت کی باضابطہ اجازت دیدی ہے، جبکہ مغربی دنیا میں عورتوں کی سیاسی فعالیت کو بیسوی صدی عیسوی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلام کی تعلیمات کی پیروی کرتے ھوئے عورتوں کو معاشرہ کی نصف حقدار کی حیثیت عطا کی ہے اور خواتین کے رشد و بالیدگی کو ارتقاء بخشنے کے لئے متعدد قوانین پاس کئے ہیں۔ ایرانی خواتین کا یہ اعتقاد ہے کہ ان کی حقیقی ترقی اور رشد و بالیدگی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ عورتوں کو ایک منصفانہ ہمہ پہلو حرکت کے تحت ایک لحاظ سے اپنے انفرادی رشد و بالیدگی کا اہتمام کرنا چاہئے اور دوسری جانب، خاندان کے اصلی محور کے عنوان سے اپنے خاندانی فرائض، یعنی ایک بیوی اور ایک ماں کے رول کو نبھانا چاہئے اور اس کے علاوہ سماجی فعالیتوں میں بھی اپنی توانائی اور سنجیدی کے ساتھ سر گرم عمل ھونا چاہئے۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلامی تعلیمات کی بنا پر خواتین کے بارے میں اس قسم کا نیا نمونہ عمل پیش کیا ہے، کہ جس میں خواتین معاشرہ میں انسانوں کے عنوان سے اپنا رول ادا کرسکتی ہیں۔
اسلامی انقلاب کی روشنی میں جو اہم تبدیلی ایرانی خواتین میں رونما ھوئی، وہ ان کی روحانی اور فکری تبدیلی تھی۔ اس اعتبار سے ہم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس امر کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ایران کی خواتین ۸سالہ دفاع مقدس، ملک کی تعمیر و ترقی اور سائنسی ترقی جیسے میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایرانی خواتین کی ترقی کے بعض نمونوں کے طور پر، نانو ٹیکنالوجی، جوہری ٹیکنالوجی، فضائی ٹیکنالوجی اور سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی نمایاں فعالیتوں اور اختراعات و ایجادات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایرانی خواتین نے اسلامی انقلاب کی ثقافت سے الہام حاصل کرتے ھوئےواضح طور پر ثابت کیا ہے کہ وہ معاشرہ کے تمام سماجی، سیاسی اور اقتصادی وغیرہ شعبوں میں سرگرمی سے موجود ہیں، اور دینی اعتقادات اور اسلامی قدریں نہ صرف ان کی ان فعالیتوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی ہیں، بلکہ ان کی ان سرگرمیوں کو صحیح راہ پر ہدایت کر رہی ہیں۔
پہلی فصل
انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد عورت کے مقام و منزلت کے بارے میں ایک جائزہ
*****
عورتیں، انقلاب سے پہلے:
پہلوی دور میں، ایران کی ترقی اور تعمیر نو کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا، وہ مغرب کا ایک ناقص نمونہ تھا، جو بظاہر مغربی تمدن تک محدود تھا۔ قدرتی طور پر اس دور میں عورتیں بھی اس نمونہ کا ایک حصہ شمار ھوتی تھیں۔ اسی وجہ سے پہلوی دور میں عورتوں کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جاتا تھا جو نہ مکمل طور پر مغربی تمدن کا نمونہ تھا اور نہ ایرانی معاشرہ کی عورتوں سے اس کی کوئی شباہت تھی۔
فطری بات ہے کہ یہ نمونہ، نہ قابل عمل تھا اور نہ قابل قبول، اسی لئے اس نے معاشرہ کی سطح پر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی۔ پہلوی حکومت ہمیشہ اس نمونہ عمل کی حمایت اور پروپیگنڈا کرتی تھی۔ یہ نمونہ عمل، جو بظاہر مغربی تمدن کا چربہ تھا، ملک کے اندر ایک بڑی رکاوٹ سے دو چار ھوا، اور اس کے لئے یہ رکاوٹ دین اسلام کی تعلیم تھی، جو عورت کے مذکورہ نمونہ سے واضح اختلاف رکھتی تھی۔ اسی وجہ سے ابتداء میں ہی، اس مغربی نمونہ عمل اور مذہب کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ پیدا ھوا ، جس کا عروج “ کشف حجاب” یعنی عورتوں سے زبردستی پردہ چھیننا تھا۔
رضا شاہ کا یہ دعوی تھا کہ جب لوگ ایک ہی قسم کا لباس زیب تن کریں، مرد پہلوی ٹوپی پہنین اور عورتیں بے پردہ ھو جائیں اور دینی اعتقادات کے بارے میں سست ھو جائیں، تو وہ متمدن ھوں گے۔ ١۷ دی ١۳۴١ء ھ ش ﴿ ۷جون ١۹٦۲ء﴾ کے دن تہران یونیورسٹی کے مرکزی ہال میں ، بادشاہ کے حضور میں، فارغ التحصیل لڑکیوں کی ڈیپلوما ﴿اسناد﴾ عطا کرنے کی ایک تقریب منعقد ھوئی اور اس تقریب میں تمام عورتیں اور لڑکیاں بے پردہ شریک ھوئیں اور اس کا نام “ عورت کی آزادی اور پردہ اٹھانے کا دن” رکھا گیا۔﴿ واقعہ کشف حجاب ۲۷: ١۳۷۳﴾
صدر اشرف کی کتاب خاطرات﴿ یادیں﴾ میں آیا ہے: “ باپردہ خواتین کو بسوں میں چڑھنے نہیں دیتے تھے اور اور حکومت کے سپاہی سڑکوں اور گلی کوچوں میں با حجاب خواتین کی بے احترامی اور پٹائی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ حتی کہ بعض حکومتی مامور، شہروں اور دیہات میں با پردہ خواتین کے سروں سے زبردستی چادریں چھین کر اسے پارہ پارہ کر دیتے تھے اور اگر عورت بھاگ جاتی تو اس کے گھر تک پیچھا کرتے تھے اور ان عورتوں کے کمروں اور لباس کے صندوق کی تلاشی لیتے تھے اور اگر پردہ نام کی کوئی چادر یا دوپٹا پاتے تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔
اس زمانہ میں، دکھاوے اور ظاہر داری نے حکومت کے بعض اصلی آلہ کاروں خاص کر اشرف پہلوی جیسی اثر و رسوخ رکھنے والی عورتوں کے ذہنوں کو اس قدر متاثر کیا تھا کہ انقلاب کے عروج اور ملت کے قیام کے وقت بھی، لوگوں، خاص کر عورتوں کے اعتراضات پر غور و فکر کرنے کے بجائے ظاہری اصلاحات پر افسوس کرتے تھے۔ پہلوی دور میں لوگوں کے افکار، اذہان، سنتیں، رسومات اور لوگوں کے عادات ایسے بنائے گئے تھے کہ معاشرہ میں عورتوں کی شرکت اور سیاسی فیصلوں میں ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔
پہلوی حکومت کے دوران ہمیشہ یہ کوشش کی گئی کہ عورتوں سے جدت پسند عنصر کے ایک نمونہ کے عنوان سے استفادہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلوی حکومت ، سیاست میں عام لوگوں کو شریک کرنے کی قائل نہیں تھی اور عورتوں کے سیاسی حقوق کا بھی اعتقاد نہیں رکھتی تھی اور اسی وجہ سے پہلوی حکومت کے دوران کبھی عورتیں سیاسی امور میں شرکت نہیں کرسکیں۔ اس کے باوجود، پہلوی حکومت بظاہر کوشش کرتی تھی کہ اپنے بعض سیاسی پروپیگنڈوں کے ذریعہ نہ صرف خود کو عورتوں کے سماجی اور سیاسی حقوق کا علمبردار ظاہر کرے بلکہ یہ دعوی کرتی تھی کہ گونا گون مشکلات اور مخالفتوں کے باوجود، عورتوں کے سماجی اور سیاسی حقوق کی بحالی کے لئے اقدام کرنے کی وہ کوشش کرتی ہے۔
لیکن پہلوی اقتدار کے دوران معاشرہ کی تعمیر نو کے نام پر کچھ اقدامات کئے گئے، ان میں سے بعض تجدد پسندانہ اقدامات کے نتیجہ میں اگر چہ معاشرہ کے بعض مخصوص طبقات کو کچھ امتیازات ملے، لیکن ان اقدامات سے عام لوگوں کے طبقات میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ھوئی۔
قدرتی بات ہے کہ اگر مغربی دنیا سے رابطہ قائم کرنے کی ابتدا سے ہی، اسلام، قوم پرستی اور مغرب کی طرف رجحان کے تین عناصر کو آپس می مناسب طور پر جوڑنے کی کوشش کی جاتی تو ان عناصر کی منطقی اور مناسب ترکیب قومی شناخت اور ترقی کی توانائی کی بنیاد کو مستحکم کرسکتی تھی، لیکن افسوس کہ یہ کام انجام نہیں پایا۔
اسلام کے بجائےبظاہر قوم پرستی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن یہ قوم پرستی بھی حقیقت پسندی اور ملک کے ماضی قریب پرتوجہ دہی جیسی تاریخی واقعییت پر مبنی نہیں تھی، حتی کہ اس طرح کوشش کی جاتی تھی کہ ایران کے ماضی قریب کا انکار کیا جائے۔ قوم پرستی کی اصلی مراد صرف ایران کا اسلام سے قبل والا قدیم تمدن تھا اور اسی مقصد کے لئے ، خاص کر محمد رضا کے دور میں، زبردست کوششیں کی گئیں تاکہ ایران کے اسلام سے پہلے والے قدیم تمدن کو یورپ کے تمدن کے نمونوں سے جوڑا جائے۔
خواتین، انقلاب کے بعد:
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ، ایرانی معاشرہ کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیاں رونما ھوئیں۔ اور اسلامی بنیادوں پر عوامی نظام تشکیل پایا، اور اس کے اصلی نعرے “ استقلال، آزادی جمہوری اسلامی” تھے۔ یہ مسئلہ، بہت سے معیاروں اور نظریات میں گہری تبدیلی کا سبب بنا کہ خواتین کا موضوع بھی اس سے مستثنی نہیں تھا، نتیجہ کے طور پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، معاشرہ میں عورتوں کا نیا ﴿ مثالی﴾ نمونہ پیش کیا گیا، جو پہلوی دور میں نمونہ کے طور پر پیش کی جانی والی عورتوں سے بالکل مختلف تھا۔
نظریات میں تبدیلی:
اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کے بعد لوگوں نے حکومت کے امور میں شرکت کرکے نمایاں رول ادا کیا اور اس نظام کا اسلامی ھونا، نئے نظام اور حکومت کے دین اسلام کے تئیں وفاداری کی علامت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا والوں کے سامنے ایک جدید سیاسی نظام پیش کیا، جس کو ١۳۵۸ ھ ش﴿ مطابق١۹۷۹ء﴾ کے ریفرنڈم میں لوگوں نے۳ﺍ۹۸فیصدی ووٹوں سے منظوری دیدی۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ابتدائی مہینوں اور برسوں کے دوران لوگوں کی طرف سے اسلامی انقلاب کو کامیاب کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی سرگرمیاں اس امر کی گواہ ہیں کہ لوگوں نے اپنے معاشرے کی تقدیر خود سنوار نے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اس سلسلہ میں رہبر انقلاب حضرت امام خمینی ﴿رح﴾ کا یہ جملہ:“ معیار لوگوں کا ووٹ ہے۔” اس نظریہ کو بیان کرتا ہے جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تشکیل پایا ہے اور امام خمینی ﴿رہ﴾لوگوں کے، حکومت میں کلیدی رول ادا کرنے کے قائل تھے۔ یہ نظریہ اس نظریہ کا جانشین بنا، جو انقلاب سے پہلے رائج تھا اور اس نظریہ کا مدعا و مقصد شاہ کی مطلق العنانیت اور معاشرہ کی سیاست اور دوسرے امور میں عام لوگوں کی فعالانہ شرکت کی طرف عدم توجہ تھا۔ عورتوں کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے اور اس مسئلہ کے بارے میں رائج نظریہ کو ان عظیم تبدیلیوں کی روشنی میں زیر تحقیق لانے کی ضرورت ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سیاست اور اجتماعی امور میں عورتوں کی شرکت وسیع پیمانے پر ممکن بن گئی ۔ اس نظریہ کے بارے میں رہبر انقلاب حضرت امام خمینی﴿رح﴾ نے کلیدی اور بنیادی رول ادا کیا ہے۔ انقلاب سے پہلے عورتوں کے مظاہروں میں شرکت کرنے کے سلسلہ میں موصوف کی مکرر تاکیدیں اور نصائح اور اسی طرح اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عورتوں کے لئے ووٹ دینے اور انتخابات میں شرکت کرنے کی تاکیدیں ، عورتوں کے سیاسی حقوق کے بارے میں موصوف کے حقیقی نظریہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ حقیقت میں حقیقی جمہوری اور اسلامی نظام کے متحقق ھونے کے لئے، عورتوں کی شرکت ناگزیر تھی اور اس امر کا متحقق ھونا عورتوں کی سیاست میں شرکت کے سلسلہ میں اسلامی جمہوریہ کے حقیقی نظریہ کا ثبوت ہے۔
اسلامی جمہوریہ کے نظام میں عورتیں، اجتماعات میں شرکت کرنے کے ضمن میں اس فریضہ کی پابند ہیں کہ خصوصی حدود خاص کر مردوں سے رابطہ کے سلسلہ میں اسلامی احکامات کی رعایت کریں۔ اس امر کی واضح تر اور سب سے اہم صورت پردے اور اسلامی لباس کی رعایت کرنا ہے۔ یعنی خواتین ایک جانب، معاشرہ میں فعالانہ شرکت کرتی ہیں اور دوسری جانب، شرعی حدود کی رعایت کرتی ہیں۔
عورتوں کے اجتماعی حقوق اور اجتماعات میں ان کی شرکت کے بارے میں رائج نظریہ میں انقلاب کے بعد تبدیلی ایک بڑے انقلاب کا سبب بنی۔ اس عملی تبدیلی کی تحقیق کے سلسلہ میں چند بنیادی نکات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے:
اول یہ کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک مختلف نظریہ پیش کرنے کا یہ سبب بنا کہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد اجتماعی حقوق کی مالک بنے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر ایران کے جیسے معاشروں میں حکومتیں ہمیشہ اکثر اجتماعی میدانوں میں قابل توجہ رول اور حضور رکھتی ہیں، اس اعتبار سے ان میدانوں میں ہر قسم کی سرگرمیاں، حکومت، ان کے نظریات اور عظیم منصوبوں کے ساتھ چولی دامن کا رابطہ رکھتی ہیں۔
پہلوی دور حکومت میں ، یہی نکتہ اس امر کا سبب بنا کہ اکثر ایرانی عورتیں اپنے مذہبی اعتقادات کی بناء پر حکومت کے تحت مختلف اجتماعی میدانوں میں شرکت کرنے سے اجتناب کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر، علمی، ثقافتی، تعلیمی، ورزشی اور سینما، تھیٹر اور موسیقی وغیرہ جیسے فن کاری کے میدانوں پر چونکہ حکومت کا کنٹرول تھا اور حکومت اپنے نظریات کے مطابق ان شعبوں کو چلانے کی زبردست کوشش کرتی تھی، اس لئے قدرتی بات ہے کہ ایسے پروگراموں میں پاک دامن مسلمان عورتوں کے لئے شرکت کرنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، اسلامی نظام کی تشکیل اکثر ایرانی عورتوں کے لئے مختلف اجتماعی میدانوں میں شرکت کرنے کی رکاوٹیں دور کرنے کا سبب بنی۔ اور اسی وجہ سے معاشرہ کے مختلف اجتماعی میدانوں میں ایرانی خواتین کو وسیع پیمانے پر شرکت کرنے کے مواقع فراہم ھوئے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس انقلاب کو تحفظ بخشنے میں ایرانی خواتین کا تعمیری رول کافی موثر اور نمایاں تھا اور گزشتہ دور میں ان پر ڈھائے گئے مظالم اور ان میں موجود تلاش و کوشش اور جذبہ نقد و نظر کے سبب انھوں نے بدلتے حالات سے ہم آھنگ ھوتے ھوئے نمایاں سرعت عمل کا مظاہرہ کیا۔ اسی تلاش و کوشش اور فعالیتوں کی وجہ سے انھوں نے انقلاب کی کامیابی، اس کے تحفظ اور انقلاب کا دفاع کرنے کے سلسلہ میں بے شمار جاں نثاریاں اور قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی انقلاب نے بھی امام خمینی﴿رح﴾ کے نظریات کے مطابق ایرانی خواتین پر اس قدر اثر ڈالا کہ ان میں اپنی قابلیتوں ، توانائیوں اور صلاحیتوں کو رشد و بالیدگی بخشنے کے مواقع فراہم ھوئے۔
انقلاب کے بعد ایرانی خواتین کو ایک خاص شگوفائی حاصل ھوئی اور وہ آج علمی اور تعلیم و تربیت کے میدانوں میں مردوں کے دوش بدوش آگے بڑھ رہی ہیں۔ انقلاب کے دوران بہت سے ایسے مواقع دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں عورتوں نے مثبت اور کلیدی رول ادا کئے ہیں۔ ایران کی عورتوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حساس مواقع پر معاشرہ کے مختلف میدانوں اور تشکیلات میں ھوشیاری اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ شرکت کرکے دشمنوں کی سازشوں کو نا کام بنانے میں قابل تحسین رول ادا کیا ہے ۔ انقلاب کے بعد ایرانی خواتین کا اجتماعی اور سیاسی مسائل میں شرکت کرنا تعداد اور معیار کے اعتبار سے قابل توجہ ہے۔
ایرانی خواتین کی اسلامی نظام کے مختلف سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی شعبوں میں شرکت اور حصہ داری ، اسلامی انقلاب میں عورت کی شخصیت کی رشد و بالیدگی کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی نظام نے بھی خواتین کے لئے بہت سے تمہیدات کا اہتمام کیا ہے، جن میں، یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کےکوٹا کو بڑھانا، خاص مضامین کو لڑکیوں کے لئے مخصوص قرار دینا، اجتماعی ذمہ داری سونپنا، حدود الہی کو قائم کرنے کی مسؤلیت بخشنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض سونپنا، قائدین کی خیر خواہی کی ذمہ داری اور اسلامی حقوق اور اسلامی معاشرہ کا دفاع کرنے کی ذمہ داری وغیرہ شامل ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایرانی معاشرہ میں مسلمان عورت نے ﴿ اسلامی انقلاب کی طرف سے اس کو شناخت عطا کرنے کے نتیجہ میں﴾ اہم اور مستحکم اقدامات کئے ہیں۔
دوسری فصل
خواتین کی علمی حیثیت اور شرح خواندگی کا جائزہ
*****
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اہم ترین تبدیلیوں میں سے ایک ملک میں اعلی تعلیم کے مختلف مراحل می توسیع و ترقی ہے۔ ثقافتی، اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی ضرورتوں کے پیش نظر تعلیم و تربیت کو توسیع و ترقی دینا، ملک میں انجام پائے اہم ترین اقدامات ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران، ضروری منصوبوں کو عملی جامہ پہناکر کوشش کرتی ہے کہ عام لوگ اعلی تعلیم سے بہرہ مند ھوں اور معاشرہ کے علمی اور تعلیم و تربیت کے شعبے میں عام لوگ خاص کر خواتین کے لئے امکانات فراہم کئے جائیں۔ اس لئے ہم اس سلسلہ میں ایران کی خواتین کی انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کی حالت کا ذیل میں ایک موازنہ پیش کرتے ہیں:
انقلاب کے بعد ایرانی خواتین تعلیم و تربیت اور علمی اعتبار سے ایک مطلوب سطح تک پہنچی ہیں۔
پہلوی دور سے قبل ، ملک میں عام تعلیم اور خواندگی کی شرح کے بارے میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کی اصلی وجہ صحیح اعداد و شمار دستیاب نہ ھونا ہے۔ تاریخی کتابوں کے مطالعہ کی بنا پر ١۳۳۵ ھ ش﴿ ١۹۵٦ء﴾ میں ایران میں عورتوں کی شرح خواندگی صرف ۸ فیصد تھی جو دس سال بعد ۹ﺍ١۷فیصد تک پہنچی اور ١۳۵۴ ھ ش ﴿ ١۹۷۵ء﴾ میں عورتوں کی شرح خواندگی ۵ﺍ۳۵ فیصد تک پہنچی۔ یعنی پہلوی حکومت کے آخری برسوں میں ایران کی تقریبا ٦۵ فیصد عورتیں ان پڑھ تھیں۔
١۳۵۵ ھ ش سے ١۳۸۳ ھ ش ﴿ ١۹۷٦ سے ۲۰۰۴ء تک﴾ ایران میں چھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی خواندگی کی شرح، مردوں میں ۹۳ﺍ۵۰ فیصد اور عورتوں میں ١۹ﺍ ١۲٦ فیصد تک بڑھ گئی تھی۔ اعلی تعلیم کے درجات میں بھی لڑکیوں کے کوٹے میں اضافہ ھوا ہے اور حالیہ برسوں میں یہ شرح ۵ﺍ٦۰ فیصد سے زیادہ ھوئی ہے۔
ایران کی سرکاری مردم شماری کے مرکز کے مطابق ١۳۷۵ ھ ش ﴿ ١۹۹ء﴾ میں چھ سال سے زائد عمر کے باشندوں کی شرح خواندگی ۵١ﺍ۷۹ فیصد تھی جبکہ یہ شرح ١۳۵۵ ھ ش﴿ ١۹۷٦ء﴾میں صرف ۴۷ فیصد تھی۔ ١۳۷۵ھ ش ﴿١۹۹٦ء﴾ میں چھ سال سے زائد عمر کی عورتوں کی شرح خواندگی ۲١ﺍ۷۴ فیصد تھی جبکہ ١۹۳۵ھ ش ﴿ ١۹۵٦ء﴾ میں اسی عمر کی عورتوں کی شرح خواندگی صرف ۴۷ فیصد تھی۔ ایران کے مردم شماری کے مرکز کی اطلاع کے مطابق١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۲۰۰٦ء﴾ میں ایران میں خواندگی کی شرح ۳ﺍ۸۰ اعلان ھوئی ہے، کہ اس سےعورتوں کی شرح خواندگی میں نمایاں اضافہ کی عکاسی ھوتی ہے۔
مندرجہ ذیل گوشوارے میں مختلف سالوں اور صوبوں میں ٦ سال سے زائد عمر کی عورتوں کی شرح خواندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
خواندگی کی شرح:
١۳۵۵ھ ش سے ١۳۸۵ھ ش﴿ ١۹۷٦ء سے ۲۰۰٦ء﴾ تک حسب جنس ٦ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی مختلف شہروں اور دیہات کی سطح پر خواندگی کی شرح کا گوشوارہ:
سال تمام ملک میں |
خواندگی کی شرح |
||
۵ﺍ۴۷ |
۸ﺍ۵۸ |
٦ﺍ۳۵ |
|
١۹۷٦ ء |
۵ﺍ۴۷ |
۸ﺍ۵۸ |
٦ﺍ۳۵ |
١۹۸٦ء |
۷۸ﺍ٦١ |
۲۰ﺍ۷١ |
۰۸ﺍ۵۲ |
١۹۹١ء |
۰۷ﺍ۴۷ |
٦۴ﺍ۸۰ |
۰٦ﺍ٦۷ |
١۹۹٦ء |
۵١ﺍ۷۹ |
٦۷ﺍ۸۴ |
۲١ﺍ۷۴ |
۲۰۰٦ء |
٦١ﺍ۸۴ |
۷۴ﺍ۸۸ |
۳۴ﺍ۸۰ |
شہروں کی سطح پر |
|
|
|
١۹۷٦ء |
۵ﺍ٦۵ |
۴ﺍ۷۰ |
۷ﺍ۵۵ |
١۹۸٦ء |
١١ﺍ۷۳ |
۳٦ﺍ۸۰ |
۴۳ﺍ٦۵ |
١۹۹١ء |
۹۲ﺍ۸١ |
۷۲ﺍ۸٦ |
۷۷ﺍ۷٦ |
١۹۹٦ء |
۷١ﺍ۸۵ |
۵٦ﺍ۸۹ |
۷۷ﺍ۷١ |
۲۰۰٦ء |
۹۳ﺍ۸۸ |
١۹ﺍ۹۲ |
۵۵ﺍ۸۵ |
دیہات کی سطح پر |
|
|
|
١۹۷٦ء |
٦ﺍ۳۰ |
٦ﺍ۴۳ |
۴ﺍ۷۰ |
١۹۸٦ء |
۳۷ﺍ۴۸ |
۹۵ﺍ۵۹ |
۳۳ﺍ۳٦ |
١۹۹١ء |
٦۸ﺍ٦۳ |
٦۰ﺍ۷۲ |
۲۰ﺍ۵۴ |
١۹۹٦ء |
٦١ﺍ٦۹ |
۷۴ﺍ۷٦ |
۴١ﺍ٦۲ |
۲۰۰٦ء |
۲۰ﺍ۷۵ |
۲۲ﺍ۸١ |
۰ﺍ٦۹ |
|
|
|
|
بحوالہ سالنامہ مردم شماری ١۳۸۵۔۔۔۔۔١۳۵۷ ﴿۲۰۰٦ ۔۔۔۔۔١۹۷۸ ء﴾
بحوالہ مرکز امور زنان و خانوادہ ریاست جمہوری
مذکورہ گوشوارہ اور گراف سے معلوم ھوتا ہے کہ ١۳۳۵ سے ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ١۹۷٦ء سے ۲۰۰٦ء﴾ تک ملک میں عورتوں کی شرح خواندگی میں شہر اور دیہات کی سطح پر اضافہ ھوا ہے۔ اس دوران شہروں میں عورتوں کی خواندگی کی متوسط شرح ٦ﺍ۵۳ اور دیہات میں عورتوں کی خواندگی کی متوسط شرح قابل توجہ حد تک ۵ﺍ۲۹٦ فیصد بڑھ چکی تھی۔
اگر چہ مذکورہ اعداد و شمار سے ملک میں عام خواندگی کی شرح کا بڑھنا معلوم ھوتا ہے اور گزشتہ ۲۰ سال کے دوران عورتوں کی خواندگی کی شرح ۳۵ فیصد سے بڑھ کر ۲١ﺍ۷۴ فیصد تک پہنچی ہے۔ عورتوں کی خواندگی کی شرح شہروں میں ۷ﺍ۸١ فیصد اور دیہات میں ۴١ﺍ٦۲فیصد ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اور مردوں کے موازنہ میں ان پڑھ عورتیں ان پڑھ مردوں سے زیادہ ہیں۔ لڑکیوں کا اندراج لڑکوں کی بہ نسبت کم ھوتا ہے۔ ١۳۷۵ ھ ش﴿ ١۹۹٦ء﴾ میں مردوں کی شرح خواندگی ٦٦ﺍ۸۴فیصد تھی۔
شہروں اور دیہاتوں میں خواندہ عورتوں کی تعداد:
|
||
سال |
گاؤں کےعلاقے |
شہریعلاقے |
١۹۷٦ء |
١١۹٦۰۰۰ |
۳۴۸۳۰۰۰ |
١۹۹٦ء |
٦۰۹٦۳٦۹ |
١۲۹۹۵۸۲١ |
١۳۵۵ھ ش﴿ ١۹۷٦ء﴾ میں گاؤں کے علاقوں میں ۲۸ فیصد اور شہری علاقوں کے ۴۰ فیصد پڑھے لکھے افراد“ عورتیں” تھیں۔
ملک میں عام لوگوں کی خواندگی کی شرح بڑھنے کے نتیجہ میں یہ شرح ١۳۷۵ھ ش﴿ ١۹۹٦ء﴾ میں گاؤں اورشہروں کی سطح پر بالترتیب ۳١ فیصد اور ۴۰ فیصد تک بڑھ گئی اور ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ شرح ۳ﺍ۸۰ تک پہنچ گئی۔
اس سلسلہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں تعلیم بالغان کا منصوبہ نمایاں طور پر کامیاب رہا ہے۔
یونیورسٹی طلبہ:
١۳۵۵ ھ ش ﴿ ١۹۷٦ء﴾ میں یونیورسٹی طلبہ کی شرح ٦ﺍ۲۸تھی جو ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۲۰۰٦ء﴾ میں ۳ﺍ۵۰فیصد تک پہنچ گئی یعنی یونیورسٹی طالب علموں میں اس مدت کے دوران ۹ﺍ۷۵ فیصد کا اضافہ ھوا ہے۔
١۳۵۵ ھ ش سے ١۳۸۵ھ ش﴿ ١۹۷٦ء سے ۲۰۰٦ء﴾ تک یونیورسٹی طلبہ کی جنسی اعتبار سے شرح :
ماخذ: مرکز امور زنان و خانوادہ ریاست جمہوری
یہاں پر مناسب ہے کہ ہم یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیم کے مراکز میں کام کرنے والی خواتین ملازمین کی حالت کے بارے میں بھی ایک اشارہ کریں۔ اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ ١۳۵۵ سے ١۳۵٦ ھ ش﴿ ١۹۷٦ سے ١۹۷۷ء﴾ تک یونیورسٹیوں میں صرف ۲۰۵۸ خواتین بعنوان اساتذہ کل وقتی تدریس میں مشغول تھیں، جبکہ ۸٦۔۔ ١۳۸۵ ھ ش﴿ ۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ تعداد ١٦۵۷۹ خواتین تک پہنچی تھی۔
اسکول طالبات:
۵٦۔۔۔ ١۳۵۵ھ ش﴿ ۷۷۔۔۔١۹۷٦ء﴾ کے دوران پرائمری، مڈل، ہائر سیکنڈری اور ٹیچرس ٹریننگ اسکولوں میں سکول طالبات کی تعداد ۲۷۷۷۷۲۴ افراد پر مشتمل تھی اور ٦٦۔۔۔١۳٦۵ھ ش ﴿ ۸۷۔۔۔ ١۹۸٦ء﴾ میں یہ تعداد ۴٦۴۷٦١۲ افراد اور ۷٦۔۔ ١۳۷۵ ھ ش﴿ ۹۷۔۔ ١۹۹٦ء﴾ میں یہ تعداد ۸۵۲١۰٦۸ افراد اور ۸٦۔۔۔ ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۷۔۔۔۲۰۰٦﴾ میں یہ تعداد ۷۲۴۳۲۵۷ تک پہنچی تھی۔ مذکورہ اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ سکول طالبات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ھوا ہے۔
محکمہ تعلیم میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین:
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عورتوں کی تعلیمی قابلیت اور خواندگی میں اضافہ ، اس سلسلہ میں حاصل شدہ اعداد و شمار سے واضح ھوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ١۳۸۵ ھ ش﴿ ۲۰۰٦ء﴾ میں ملک بھر کے طالب علموں میں تقریبا ۴۸ فیصد عورتیں تھیں اور یہ اس حالت میں ہے کہ اس سال ملک کی کل تعلیم یافتہ آبادی کا ۴٦ فیصد عورتوں پر مشتمل تھا کہ انقلاب سے پہلے کی بہ نسبت ١۰ فیصد کا اضافہ ھوا تھا۔
١۳۵۵ھ ش سے ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ١۹۷٦ء سے ۲۰۰٦ء﴾ تک محکمہ تعلیم میں زیرتعلیم طالبات کی نسبت کا گوشوارہ:
تعلیمی سال |
زیر تعلیم طالبات کی تعداد |
محکمہ تعلیم میں زیر تعلیم طالبات کی نسبت |
۷۷۔۔۔۔۔۔۔١۹۷٦ء |
۲۷۷۷۷۲۴ |
۳۷ﺍ۰ |
۸۷۔۔۔۔۔۔۔١۹۸٦ء |
۴٦۴۷٦١۲ |
۰ﺍ۴۲ |
۹۷۔۔۔۔۔۔١۹۹٦ء |
۸۵۲١۰٦۸ |
۴٦ﺍ۰ |
۲۰۰۷۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰٦ء |
۷۰١۷۴۴۸ |
۴۸ﺍ۰ |
ماخذ: وزارت آموزش و پرورش﴿ر۔۔ پ﴾
سازمان آموزش و پرورش استثنائی کشور﴿ر۔۔ پ﴾
وزارت آموزش و پرورش، دفتر آمار وبرنامہ ریزی و بودجہ
مذکورہ اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ محکمہ تعلیم میں طالبات کی عمومی اور خصوصی تعلیم میں کافی ترقی ھوئی ہے۔
عورتوں میں خواندگی کی نسبت:
۵۸۔۔ ١۳۵۵ ﴿۷۹۔۔ ١۹۷٦ء﴾ کے برسوں کے دوران عورتوں میں خواندگی کی نسبت کا گوشوارہ:
تعلیمی سال |
خواندہ عورتوںکی تعداد |
خواندہ مردوں کی تعداد |
کل تعداد |
عورتوں میں خواندگی کی نسبت |
۷۷۔۔۔۔۔۔١۹۷٦ء |
۴٦۷۹۰۸۸ |
۸١۰۷۹۸۷ |
١۲۸۸۷۰۷۵ |
۳٦ﺍ۰ |
۸۷۔۔۔۔۔۔١۹۸٦ء |
۹۸۳۵۲۹۹ |
١۴۷۷۸۷۹٦ |
۲۳۹١۳١۹۵ |
۴١ﺍ۰ |
۹۷۔۔۔۔۔۔١۹۹٦ء |
١۹١١۷۵۵۹ |
۲۲۴٦۴۷١۸ |
۴١۵۸۲۲۷۷ |
۴۵ﺍ۰ |
۰۷۔۔۔۔۔۔۲۰۰٦ء |
۲۵۲۴۷۰۰۰ |
۲۸۸۳۵۰۰۰ |
۵۴۰۸۲۰۰۰ |
۴٦ﺍ۰ |
ماخذ: وزارت آموزش و پرورش﴿ ر۔۔ پ﴾
مرکز آمار ایران
مذکورہ گوشوارہ کے مطابق ۵٦۔۔ ١۳۵۵ھ ش﴿ ۷۷ ۔۔ ١۹۷٦ء﴾کے سال ایران میں خواندہ عورتوں کی شرح ۳٦ فیصد تھی۔ ٦٦۔۔ ١۳٦۵ ھ ش﴿ ۸۷۔۔ ١۹۸٦ء﴾ کے سال ۴١فیصد، ۷٦۔۔ ١۳۷۵ ھ ش﴿ ۹۷۔۔ ١۹۹٦ء﴾ کے سال ۴۵ فیصد تھی اور ۸٦۔۔ ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ کے سال ۴٦ فیصد تھی۔
اعلی تعلیم کے لئے قبول کی گئی خواتین کی نسبت:
۵۹۔۔ ١۳۵۵ھ ش﴿ ۷۹۔۔ ١۹۷٦ء﴾ کے برسوں کے دوران صرف ١۳٦۹۰خواتین کو اعلی تعلیم کے مراکز اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ملا تھا۔ ٦٦۔۔ ١۳٦۵ھ ش﴿ ۸۷۔۔ ١۹۸٦ء﴾کے دوران یہ تعداد ۵١۷۷٦ افراد، ۷٦۔۔ ١۳۷۵ھ ش﴿ ۹۷۔۔ ١۹۹٦ء﴾ میں یہ تعداد١۳۲۲۲۹ افراد اور ۸٦۔۔ ١۳۸۵﴿ ۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ تعداد ۳۸١۸۲٦ افراد تک پہنچی ہے۔
مذکورہ اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی ابتداء میں یونیورسٹیوں میں داخلہ پانے والے طالب علموں کا ایک تہائی حصہ لڑکیوں پر مشتمل تھا اور ۸٦۔۔١۳۸۵﴿ ۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ تعداد مناسب حد تک بڑھ چکی تھی اور ملک کے اعلی تعلیم کے مراکز میں قبول کی گئی عورتوں کی شرح ۵١ فیصد تھی۔
تعلیم کے تمام شعبوں اور ادوار میں طالبات کی شرکت:
۵٦۔۔ ١۳۵۵ ھش ﴿ ۷۷۔۔ ١۹۷٦ء﴾ میں یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طالبات کی تعداد ۴٦۰١۹ تھی۔ ٦٦۔۔ ١۳٦۵ ھ ش ﴿ ۸۷۔۔ ١۹۸٦ء﴾ میں یہ تعداد ٦۲۰۴۹ تھی، ۷٦۔۔ ١۳۷۵ ھ ش ﴿ ۹۷۔۔ ١۹۹٦ء﴾ میں یہ تعداد ۴۵۹۷۵۹ اور ۸٦۔۔ ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ تعداد ١۳۲۷١۷١ تک پہنچ گئی ہے۔
مذکورہ اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ انقلاب کی ابتداء میں یونیورسٹی طلبہ کی کل تعداد کا ایک تہائی حصہ طالبات پر مشتمل تھا۔ ۸٦۔۔ ١۳۸۵ ﴿ ۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ تعداد مناسب حدتک بڑھ گئی، اس طرح کہ اس سال کل یونیورسٹی طلبہ کا نصف سے زیادہ حصہ طالبات پر مشتمل تھا۔
یونیورسٹی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے خواتین کی نسبت:
۸۵۔۔ ١۳۵۵ ھ ش﴿ ۲۰۰٦۔۔ ١۹۷٦ء﴾ تک کے برسوں کے دوران ﴿ آزاد اسلامی یونیورسٹی کے علاوہ﴾ یونیورسٹی بورڈ میں خواتین کی رکنیت کی نسبت حسب ذیل تھی:
تعلیمی سال |
عورتوں کی تعداد |
مردوں کی تعداد |
کل تعداد |
یو نیورسٹی بورڈ کی رکنیت میں خواتین کی نسبت |
۷۷۔۔۔۔۔۔١۹۷٦ء |
۲۰۵۸ |
١١۸۹۴ |
١۳۹۵۲ |
١۴ فیصد |
۸۷۔۔۔۔۔۔١۹۸٦ء |
۲۲۹۳ |
١۲۰۴۸ |
١۴۳۴١ |
١۵ فیصد |
۹۷۔۔۔۔۔۔١۹۹٦ء |
١٦٦۲۷ |
۸٦۵۵۵ |
١۰۳١۸۲ |
١٦ فیصد |
۰۷۔۔۔۔۔۔۲۰۰٦ء |
۴۳۴١۸ |
١٦۹۰۵۵ |
۲١۲۴۷۳ |
۲۰ فیصد |
ماخذ: دانشگاہ آزاد اسلامی، ادارہ کل فناوری اطلاعات و ارتباطات، وزارت علوم و ارتباطات، وزارت علوم ، تحقیقات و فناوری۔
مذکورہ گوشوارہ کے مطابق ۵٦۔۔ ١۳۵۵ ھ ش﴿ ۷۷۔۔ ١۹۷٦ء﴾ میں یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیم کے مراکز میں یونیورسٹی بورڈ میں خواتین رکنیت کی شرح ١۴ فیصد تھی اور٦٦۔۔ ١۳٦۵﴿ ۸۷۔۔ ١۹۸٦ء﴾ میں یہ شرح ١۵ فیصد تک پہنچی، ۷٦۔۔ ١۳۷۵ ﴿ ۹۷۔۔ ١۹۹٦ء﴾ میں یہ شرح ١٦ فیصد تک پہنچی اور ۸٦۔۔١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۰۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں یہ شرح ۲۰ فیصد تک پہنچی تھی۔
مذکورہ اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے بورڈ کے اراکین کی حیثیت سے خواتین کی تعداد نسبتا بڑھ گئی ہے۔
مدیر خواتین ١۳۵۵ سے ١۳۸٦ ھ ش ﴿١۹۷٦ سے ۲۰۰۷ ء تک﴾کے برسوں کے دوران ملک کے مختلف اداروں میں مدیروں، قانون سازوں اور بڑے عہدوں پر فائز افراد کی شرح کی طرف مندرجہ ذیل گوشوارے میں اشارہ کیا گیا ہے:
جنسﺍ سال |
١۹۷٦ء |
١۹۸٦ء |
١۹۹١ء |
١۹۹٦ء |
۲۰۰١ء |
۲۰۰٦ء |
۲۰۰۷ء |
مرد |
۵۲ﺍ۰ |
۴۳ﺍ۰ |
۵۹ﺍ۰ |
۲١ﺍ۲ |
۹ﺍ۲ |
١١ﺍ۲ |
۹۸ﺍ۲ |
عورت |
١١ﺍ۰ |
١٦ﺍ۰ |
١٦ﺍ۰ |
۳۲ﺍ۲ |
۷١ﺍ١ |
۳٦ﺍ۳ |
۴۰ﺍ۲ |
مذکورہ گوشوارہ کے پیش نظر ١۳۵۵ ھ ش ﴿ ١۹۷٦ء﴾ کی مردم شماری کے مطابق ملک کے مختلف اداروں میں بڑے عہدوں پر فائز کل افراد میں عورتوں کی شرح ١۰ﺍ١١ فیصد تھی اور ١۳٦۵ ﴿ ١۹۸٦ء﴾ کی مردم شماری کے مطابق یہ شرح ١۰ﺍ١٦فیصد تک بڑھ گئی، اور ١۳۷۵ ھ ش﴿ ١۹۹٦ء﴾ کی مردم شماری کے مطابق خواتین کے بڑے عہدوں کی شرح ١۹۷٦ کی مردم شماری کے مطابق ١٦ فیصد سے اچانک بڑھ کر ۳۲ فیصد تک پہنچ گئی۔ اور افزائش کا یہ سلسلہ ١۳۸۵ھ ش ﴿ ۲۰۰٦ء﴾ کی مردم شماری میں بھی جاری تھا یہاں تک کہ مردوں سے بھی آگے برھ کر ۳ﺍ۳٦ فیصد تک پہنچا ہے۔
اعداد و شمار کی تحقیق سے معلوم ھوتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خواتین کی تعلیمی سطح کو ارتقاء بخشنے کے لئے خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے۔جس کے نتیجہ میں ١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۲۰۰٦ء﴾ میں ملک میں زیر تعلیم افراد کی کل تعداد میں ۴۸ فیصد خواتین تھیں اور اسی سال ملک کے کل خواندہ افراد میں سے ۴٦ فیصد خواتین تھیں۔
اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ ۴۵۔۔ ١۳۴۴ھ ش ﴿ ٦٦۔۔ ١۹٦۵ ء﴾ میں ایران کی یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیم کے مراکز میں تدریس کرنے والے افراد کی کل تعداد ۲۴۸٦ افراد پر مشتمل تھی کہ اس سلسلہ میں موجود اعداد و شمار کے مطابق ان میں خواتین کی تعداد صرف ۲۳٦ تھی یعنی ۵ﺍ۹ فیصد خواتین تھیں۔ اور ۵۰۔ ١۳۴۹ ھ ش ﴿ ۷١۔۔ ١۹۷۰ء﴾ اور ۵۵۔ ١۳۵۴﴿ ۷٦۔۔ ١۹۷۵ء﴾ کے تعلیمی سالوں میں یہ تعداد بالترتیب ٦۴۷۴اور ١۳۳۹۲تک پہنچی تھی جبکہ ۵۰۔۔ ١۴۴۹﴿ ۷١۔۔ ١۹۷۰ء﴾ کے تعلیمی سال میں عورتوں کا حصہ ۳ﺍ١۲ فیصد تھا اور ۵۵۔۔ ١۳۵۴﴿ ۷٦۔۔ ١۹۷۵ء﴾ کے تعلیمی سال میں عورتوں کا حصہ ٦ﺍ١۳ فیصد تھا ۔ ۵٦۔۔١۳۵۵ ھ ش ﴿ ۷۷۔۔١۹۷٦ء﴾ کے تعلیمیسال میں ملک کے اعلی تعلیم کے مراکز اور یونیورسٹیو میں یونیورسٹی بورڈ کی خواتین اراکین کی شرح١۴ فیصد تھی اور ٦٦۔۔ ١۳٦۵﴿ ۸۷۔۔ ١۹۸٦ء﴾ کے سال میں ١۵ فیصد، ۷٦۔۔ ١۳۷۵﴿ ۹۷۔۔١۹۹٦ء﴾ میں ق٦ ١ فیصد اور ۸٦۔۔١۳۸۵ ﴿ ۰۷۔۔۲۰۰٦ء﴾ میں یہ شرح ۲۰ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
ملک کے اعلی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں خواتین کی تقرری کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد ملک کے اعلی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں کی گئی کل تقرری کا ایک تہائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور ۸٦۔۔١۳۸۵ ھ ش ﴿ ۰۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ میں اس تعداد میں مناسب اضافہ ھوا ہے، اور اس سال کے اعداد و شمار کے مطابق ان اداروں میں کل تقرری کا ۵١ فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ ۸٦۔۔ ١۳۸۵ ﴿ ۰۷۔۔ ۲۰۰٦ء﴾ کے تعلیمی سال میں زیر تعلیم طالبات کی شرح ۵۰ فیصد سے زائد تھی۔ اگر چہ یہ عدد مناسب ترقی کی علامت ہے لیکن فارغ التحصیل خواتین کے بارے میں منصوبہ بند پروگرام کے سلسلہ میں ہمیں غفلت سے کام نہیں لینا چاہئے۔
تعلیم:
ایران کے اسلامی جمہوریہ کے نظام منظورشدہ ١۳۸۳ ھ ش ﴿ ۲۰۰۴ء﴾ میں خواتین کے منشور، حقوق اور مسؤلیتوں سے متعلق تیسری فصل کا دوسرا حصہ خواتین سے مخصوص ہےاور اس کے مطابق خواتین مندرجہ ذیل حقوق کی مالک ہیں:
٭۔ عام خواندگی کا حق، خواتین کی تعلیمی حیثیت کو ارتقاء بخشنا اور ان کے لئے تعلیم و تربیت کے امکانات فراہم کرنا۔
٭۔ بلند ترین سطح تک اعلی تعلیم حاصل کرنے کا حق۔
٭۰۔ بلند ترین سطح تک مہارتوں اور اختصاصی تعلیم کو مقدار و معیار کی صورت میں حاصل کرنے کا حق۔
٭۔ محروم اور پسماندہ علاقوں کی عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں حمایت اور امکانات فراہم کرنے کا حق۔
٭۰۔ درسی پروگراموں اور درسی کتابوں کے متون تدوین کرنے میں مسؤلیت کا حق۔
٭۔ درسی اور تعلیمی متون کی تدوین کرنے کے سلسلہ میں خواتین کو ان کی شان و منزلت کے مطابق شائستہ اور مناسب مقام عطا کرنے کا حق۔
٭۔ تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں پالیسی مرتب کرنے اور فیصلے لینے اور مدیریت کے سلسلہ میں علمی اور ثقافتی فعالیتوں کے لئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خواتین کی شرکت و فعالیت کا حق۔
٭۔ ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ، با استعداد خواتین کی توانائیوں کی جانکاری حاصل کرکے ان کی ہمت افزائی اور حمایت کرنے کا حق۔
٭۔ اپاہج اور جسمانی اور ذہنی طور پر ناقص خواتین کے لئے تعلیم و تربیت اور اعلی تعلیم کے مراحل طے کرنے کے لئے ان کی استعداد کے مطابق مناسب حمایت کرنے کا حق۔
عورتوں کی شرکت کو ارتقاء بخشنے کی پالسیاں، منظورشدہ ١۳۸۴۔ ۷۔ ۲٦﴿ ۲۰۰۵ء﴾:
ملک میں خواتین کے مقام و منزلت کے پیش نظر، اس طرح منصوبہ بندی پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی صلاحیتوں کو شگوفائی بخشنے کے امکانات فراہم ھو جائیں اور مردوں اور عورتوں کے درمیان علمی قابلیت کے فاصلوں کو دور کرکے بہت سے ثقافتی ، اجتماعی اور اقتصادی مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے اور دوسری جانب، تمام خاندان کے افراد اور سماج اس سے استفادہ کرنے میں شریک ھوں ۔ خوش قسمتی سے عورتوں کے لئے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے امکانات فراہم ھوئے ہیں اور تعلیم یافتہ خواتین کو مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت اور توانائیوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم ھوا ہے۔ ثقافتی انقلاب کی شورائے عالی نے اسی بنیاد پر خواتین کی اعلی تعلیم کو ارتقاء بخشنے کے لئے مندرجہ ذیل پالیسیاں منظور کی ہیں:
تعلیمی پروگراموں سے متعلق پالیسیاں:
٭۔ عورتوں کو اعلی تعلیم کے امکانات فراہم کرنے کے لئے تمام علمی سطوح ، من جملہ اعلی تعلیم کےمراکز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر منصوبہ بند پروگرام کے تحت ضروری تدابیر بجا لانا۔
٭۔ عورتوں کی تعلیمی قابلیت اور خصوصی مہارتوں کو مقدار و معیارکے اعتبار سے تقویت بخشنا اور یونیورسٹیوں میں مختلف شعبوں میں خواتین کے کلیدی رول کے مطابق اعلی تعلیم جاری رکھنے کے امکانات فراہم کرنا۔
٭۰۔ عورتوں کی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت کا منصوبہ مرتب کرنا اور ان کے لئے خاندان اور معاشرہ میں ان کے رول کے مطابق مناسب درسی کتابیں تدوین کرنا۔
٭۰۔ عورتوں کی خاندانی ﴿ بیوی اور ماں کی حیثیت سے﴾ مسؤلیت کی متناسب، لائق مہربانی قانونی تدابیر مرتب کرنا۔
٭۔ طالبات کے لئے اپنے ہی محل سکونت میں موجود یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے مناسب تدابیر مرتب کرنا۔
٭۔ خواتین اور خاندان سے متعلق تعلیمی مضامین اور درسی منابع کو مقدار و معیار کے لحاظ سے ارتقاء بخشنا اور انھیں اسلامی بنیادوں پر مرتب کرنا ۔
٭۰۔ ملک کے پسماندہ اور محروم علاقوں کی لڑکیوں کے لئے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے امکانات کو مقدار و معیار کے لحاظ سے ارتقاء بخشنا تاکہ وہ اعلی تعلیم تک رسائی حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کو شگوفائی بخش سکیں۔
تحقیق اور ہنر مندی سے متعلق پالیسیاں:
٭۔ یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیمی مراکز میں یونیورسٹی بورڈ کی خواتین اراکین اور طالبات کو تحقیقی کاموں میں شریک کرنے کے لئے مناسب تدابیر مرتب کرنا۔
٭۔ عورتوں کی ضروریات سے متعلق مسائل، موضوعات، تحقیقات اور تحقیقات کے منابع کے بارے میں امکانات پر خاص توجہ دینا۔
٭۔ تحقیقات اور اختراعات کے شعبے میں کام کرنے والی محقق خواتین کی حمایت کرنا اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اقدام کرنا اور ان کی مادی اور معنوی زندگی کو بہتر بنانا۔
٭۔ یونیورسٹی بورڈ کے اراکین، محققین اور طالبات کے درمیان اور ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور ملک سے باہر علمی مراکز کے درمیان علمی رابطہ کو تقویت بخشنا۔
٭۔ خواتین کی علمی تشکیلات اور انجمنوں کی حمایت کرنا۔
٭۔عورتوں کی ماہر محققین کو جذب کرنے کے لئے مخصوص امکانات مقرر کرنا۔
٭۰۔ تحقیقاتی پارکوں اور قصبوں سے متعلق خواتین محققین کے تحقیقاتی کام کے سلسلہ میں یونیورسٹی بورڈ کی خواتین اراکین کے درمیان تحقیقاتی امور سے متعلق اشتراک کے امکانات کو تقویت بخشنا۔
تیسری فصل
اقتصادی امور میں خواتین کی شرکت
*****
ملک کی ترقی کے سلسلہ میں بنیادی مباحث میں سے ایک بحث، ہر معاشرہ کی انسانی توانائیوں اور استعدادوں سے صحیح اور منطقی استفادہ کرنا ہے۔ اس بنا پر، روزگار، اجتماعی علوم کے قابل توجہ موضوعات میں سے ایک موضوع رہا ہے کہ اس سلسلہ میں کافی مباحث ھوئے ہیں۔ انسانی زندگی کی جدوجہد میں روزگار کے کلیدی رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اسے انسانی اور سماجی روابط کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس جدوجہد کے سلسلہ میں، بلاشک، عورتیں معاشرہ کی ترقی میں براہ راست اثر رکھتی ہیں۔
پہلوی دور:
پہلوی دور میں اقتصادی امور میں عورتوں کی شرکت نہ ھونے کے برابر تھی۔ بہ الفاظ دیگر اس دور میں عورتیں معاشرہ کے عام روزگار میں حاضر نہیں ھوسکتی تھیں۔ اگر چہ عام طور پر عورتوں کا ناخواندہ ھونا اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی، لیکن اس کے باوجود خواندہ اور تعلیم یافتہ عورتوں کی سرکاری اور عام ملازمتوں میں عدم حضور قابل ملاحظہ تھا۔
عورتوں کے برسر روزگارھونے کے سلسلہ میں ١۹۷٦ء سے پہلے کی حالت کے بارے میں کوئی خاص اعداد و شمار پیش نہیں کئے جاسکتے ہیں، لیکن اسی سال یعنی ١۹۷٦ء کی مردم شماری کے مطابق معلوم ھوتا ہے کہ ملک کے برسر روزگار افراد کی کل تعداد میں صرف ۷ﺍ۹ فیصد عورتیں برسر روزگار تھیں۔ لیکن ١۹٦٦ء سے ١۹۷٦ء تک کے برسوں کے دوران برسر روزگار عورتوں کی تعداد میں اضافہ ھوا اور یہ شرح ۷ﺍ۹ فیصد سے بڑھ کر ۲٦ﺍ١۳ فیصد ھوئی اور اس کے بعد پہلوی دور کے آخری برسوں میں یہ شرح ۷۷ﺍ١۳فیصد تک بڑھ گئی۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، ١۹۷٦ء سے ۲۰۰۵ء تک کے برسوں کے دوران مردوں میں اقتصادی فعالیت میں ترقی کی شرح ١٦ﺍ٦ فیصد تھی اور عورتوں میں یہ شرح ٦۲ﺍ۴۴تھی۔
انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد ، خاص کر ٹھونسی گئی جنگ کے دوران عورتوں کے روزگار کا مسئلہ گونا گون نشیب و فراز سے دوچار ھوا۔ اس کے باوجود اسی مدت کے دوران﴿ یعنی ١۹۷٦ء سے ۲۰۰۵ء تک﴾ مردوں میں روزگار کی ترقی کی شرح ۴۴فیصد اور عورتوں میں یہ شرح ۳١ فیصد اعلان کی گئی ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں عورتوں کے روزگار میں ترقی کی شرح ۰۷ﺍ۴۹فیصد تھی، جس سے معلوم ھوتا ہے کہ عورتیں اس شعبے میں کم تر فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
١۹۷٦ء سے ۲۰۰۵ء تک کے برسوں کے دوران نوکریوں میں متوسط طور پر مردوں کی شرح ١١ﺍ۵فیصد تھی اور عورتوں کی شرح ١۸ﺍ۴٦ فیصد تک بڑھ چکی تھی۔ ﴿ بحوالہ: گزارش تحول و ضعیت زنان در سال ١۳۸۵﴿ ۲۰۰۵ء﴾
سالوں اور صوبوں کی تفکیک کے مطابق عورتوں کے روزگار کی شرح کا گوشوارہ:
انقلاب کے بعد ایرانی عورتوں کا برسر روزگار ھونا:
اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلام کے بلند مقاصد کے پیش نظر عورتوں کو معاشرہ میں فعالانہ کردار ادا کرنے کے سلسلہ میں ان کی توانائیوں کو تقویت بخشنے کے لئے خاص اقدامات انجام دئے۔
ایرانی عورتوں نے خاص کر انقلاب کے بعد علم و دانش کے وسائل سے آراستہ ھوکر معاشرہ کے اقتصادی میدان میں قابل توجہ کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے خاندان کے تقدس کو امن و سلامتی اور اجتماعی اعتدال کے بنیادی وسیلہ کے عنوان سے تحفظ بخشنے کے لئے اہتمام کیا ہے تاکہ اس سرزمین کی جاں نثار اور جدو جہد کرنے والی خواتین معاشرہ میں ایک ماں اور بیوی کی حیثیت سے خاندان کو تشکیل دینے میں موثر اور مفید رول ادا کریں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو عورتوں کے روزگار کے مسئلہ کے ضمن میں ملک کی پالیسی مرتب کرنے والوں کے مد نظر ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی سطح پر خاندان کی بنیادوں کے متزلزل ھونے ، اور اخلاقی اور سماجی قدروں کے زوال و نا بود کے تجربہ کے پیش نظر خواتین کے بر سر روزگار مسئلہ کے ضمن میں خاندان کے مسائل کو اہمیت دینے کے منصوبہ کی بھی حمایت کی ہے۔ عورتوں کو برسرکار روزگار لانے کی عالمی تھیوری کے ضعیف پہلو اور کوتاہیاں، عورتوں سے حد اکثر مادی منافع حاصل کرنا ہے۔ یعنی عورتوں کے روزگار کے مسئلہ کو ان کے اصلی فرائض اور تمایلات کی طرف توجہ کئے بغیر اس قسم کے یک جانبہ نظریہ کے نتائج و عوامل، خاندان میں متعدد حرج و مرج اور معاشرہ کے زوال کا سبب ہیں۔ عورتوں کے برسر روزگار کے مسئلہ پر وسیع اور مجموعی نقطہ نظر کو مد نظر رکھنے اور ان کی اقتصادی اور اجتماعی فعالیتوں کے ضمن میں خاندان کے تحفظ کا خیال رکھنے جیسے اہم مسائل کے بارے میں عورتوں کے امور کے سلسلہ میں بین الاقوامی سطح پر منصوبہ بندی کرنے والوں نے غفلت سے کام لیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے مرد و زن کے درمیان توازن اور اعتدال برقرار رکھنے کی بنیاد پر اور عورتوں کی نا قابل انکار خصوصیات کو مد نظر رکھتے ھوئے ان کو اقتصادی میدان میں ایک خاص اور مناسب مقام عطا کیا ہے۔ عورتوں کی توانائیوں اور ان کے نقطہ نظر کو تقویت بخشنے کے یہ معنی ہیں کہ ان کی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ھوئے اور ان کی عورت ذات کی رعایت کرتے ھوئے تعمیر و ترقی میں ان سے استفادہ کیا جائے۔
اسلام میں، عورت کی مالکیت اور برسرروزگار ھونے کے حق کو محترم جانا گیا ہے، لیکن وہ گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اس میں نہ صرف عورتوں کی مصلحت بلکہ مرد اور خاندان کی مصلحت بھی مضمر ہے کہ عورت کو معشیت کے سلسلہ میں مجبورا جدوجہد اور تلاش و کوشش کرنے سے مثتسنی قرار دیا جائے۔ ایک مکمل قانونی تحفظ اور مرد اور عورتوں کی سلسلہ وار ذمہ داریوں کے پیش نظر، خاندانی زندگی میں روحانی تعادل و کمال کو برقرار رکھنے کے لئے، اسلامی تعلیمات کے مطابق اقتصادی ذمہ داریوں اور پریشانیوں سے عورت کو مثتسنی قرار دیا گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب ﴿ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی﴾ ایران کی مسلمان عورتوں کے اقتصادی میدان میں رول کی کیفیت کے بارے میں یوں بیان فرماتے ہیں:
“ ایک ملک عورتوں کے کام کرنے کی توانائیوں سے بے نیاز نہیں ھوسکتا ہے۔ لیکن عورت کی یہ فعالیت عورت کی معنوی اور انسانی کرامتوں اور قدروں کے منافی نہیں ھونی چاہئے۔ عورت کو ذلیل نہیں کیا جانا چاہئے۔”
اسلامی ترقی کی بحث میں، ترقی کی بنیاد الہی تعلیمات کے مطابق انسان کے کمال اور سر انجام معاشرہ کی سربلندی پر مبنی ہے۔ اس ہمہ جہت ترقی کی روشنی میں، اخلاق اور انسان کے اقتصادی منافع کی عدم تفکیک کا مسئلہ نا قابل انکار ہے۔ اس لئے اخلاقیات اور انسان کے اقتصادی منافع کے درمیان چولی دامن کا رابطہ ہے، اور یہ رابطہ مادی نظریہ پر مبنی ترقی اور الہی نظریہ پر مبنی ترقی کو ایک دوسرے سے جدا کرنے میں اہم ترین عامل ہے۔ با مقصد اسلامی ترقی میں ،اخلاق و انصاف کی رعایت کرتے ھوئے اجتماعی توازن کے سب سے اہم عامل کے عنوان سے، عورت کو اہم ترین اجتماعی گروہ ، یعنی خاندان کی سکان گر کے عنوان سے نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خاندان، جو آج عالمی نظام میں حیرت انگیز حد تک زوال سے دوچار ہے، لیکن اسلام کی نظر میں اجتماعی گمراہیوں، جرائم ، نفسیاتی اور اجتماعی مشکلات سے معاشرہ کو بچانے اور اقتصادی سرگرمیوں کے سلسلہ میں اجتماعی تحفظ برقرار کرنے کے لئے خاندان کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران میں عورتوں نے مختلف محرکات کے ساتھ کارو روزگار کے میدان میں سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ شاہ کے زمانہ میں معاشرہ پر حکم فرما مغربی تمدن کا خواتین کے سماج میں فعالیت اور حضور کا مقصد مختلف اور مغربی طرز کا تھا، لیکن انقلاب کے بعد عورتوں نے علمی اور اکاڈیمک تعلیم و تربیت کے میدان میں روز امزون ترقی کی ہے۔ متدین مسلمان عورتوں کے لئے معاشرہ کے اجتماعی ، ثقافتی اور سیاسی مشاغل میں شرکت کا سب سے اہم محرک نظام کی طرف سے اسلامی معاشرہ کے لئے خدمات انجام دینا اور تعلیم و تربیت اور صحت و سلامتی کے سلسلہ میں عورتوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ خود اعتمادی حاصل کرنا اور استعدادوں کو شگوفائی بخشنا، ملک کی تعمیر و ترقی میں تعاون کرنا اور ملک کی تقدیر بنانے میں کلیدی رول ادا کرنا وغیرہ موجودہ معاشرہ میں عورتوں کے کارو روزگار کے سلسلہ میں فعال ھونے کی قابل قبول دلائل ہیں۔
ملک کے بنیادی آئین میں عورتوں کے کسب و کار سے متعلق اصول:
ملک کے بنیادی آئین کے ایک حصہ میں کسب و کار اور شغل کے نمونے بیان کئےگئے ہیں جو کلیات گوئی سے اجتناب کرتے ہوئےصرف عورتوں کے کار و شغل سے متعلق مسائل پر مشتمل ہیں۔ شغل سے متعلق نمونوں اور عورتوں کے مشعلہ سے متعلق اصولوں کو ایک ساتھ رکھنے سے نظام میں عورتوں کے کارو روزگار اور مشعلہ سے متعلق نمونے واضح ھوتے ہیں۔
تمام لوگوں ، من جملہ عورتوں اور مردوں کے حقوق کو پورا کرنا، اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے فرائض میں سے ہے﴿ آئین کی دفعہ نمبر۲۰﴾ ۔ ملک کے بنیادی آئین کے مطابق مذکورہ حقوق کا ایک حصہ عورتوں سے مخصوص ہے، یعنی یہ کہ عورتوں کو مردوں کے مانند کاروروزگار میں حصہ لے کر مشغول ھونے کا حق ہے۔ اس لحاظ سے عورتوں کو کسی ایسے شغل سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے جس کو اپنانے میں انھیں دلچسپی ھو، بشرطیکہ ان کا منتخب کیا گیا شغل اسلامی تعلیمات سے ٹکراؤ نہ رکھتا ھو۔ ﴿ اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کے سلسلہ میں بحث و تمحیص کرنے والی مجلس کی کاروائی کی شرح ص ۳۳۸﴾
اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین میں عورتوں کے مشاغل کے بارے میں مقرر کی گئی خصوصیات مردوں کے لئے مقرر کی گئی خصوصیات سے اختلاف نہیں رکھتی ہیں۔ یہ خصوصیات حسب ذیل ہیں:
٭۔ عورت کی شخصیت اور اس کے مادی اور معنوی حقوق کا احیاء کرنے کے لئے مناسب امکانات فراہم کرنا۔
٭۔ زمانہ حمل کو مناسب صورت میں گزار نے کے لئے ضروری امکانات فراہم کرنا اور اس کے بعد ماں کے رول کی ادائیگی کے لئے مناسب اقدامات انجام دینا۔۴١
بنیادی آئین میں پیش کئے گئے مشاغل کے نمونوں میں سے، عورتوں کو کسی شغل کو اپنانے میں مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ انھیں ایسے کام نہیں سونپے جاسکتے ہیں جن سے ناجائز فائدہ اٹھانا ممکن ھو۔۴۲
ان نمونوں میں، عورتوں کو مردون کے مانند ایسے مشاغل کو منتخب کرنے کا حق ہے، جو ملک کی اقتصادی حالت کو بڑھانے میں مدد گار ھوں اور اس طرح ملک پر اجنبیوں کے اقتصادی تسلط کو روک سکیں اور ملک کو خود کفالتی کے مرحلہ تک پہنچائیں۔۴۳
ملک کا بنیادی آئین پاس کرنے والوں نے اس نکتہ پر تاکید کی ہے کہ عورتیں جائز کسب و کار سے حاصل کی گئی دولت کی خود مالک ہیں اور کوئی انھیں اس مالکیت کے حق سے محروم نہیں کرسکتا ہے۔ ﴿ ایضا دفعہ نمبر ١٦۳﴾
ملک کا بنیادی آئین بنانے والوں نے قاضی کی صفات اور شرائط معین کرنے کا اختیار عام قانون کو دیا ہے۔۴۵
١۳٦١ھ ش ﴿ ١۹۸۲ء﴾ میں جو قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے، اس میں بھی تحریر کیا گیا ہے کہ کہ عدلیہ کے جج ضروری شرائط رکھنے والے مردوں سے منتخب کئے جائیں گے، لیکن بعد والی تبدیلیاں عدلیہ میں عورتوں کے رول میں اضافہ ھونے کا سبب بنی ہیں۔ ١۳۷۴﴿ ١۹۹۵ء﴾ میں تصحیح شدہ مذکورہ قانون کی دفعہ ١ کے تبصرہ نمبر ۵ کے مطابق عورتوں کو قضاوت کے سلسلہ میں مشغلہ کا ایک نیا نمونہ مل گیا اور وہ یہ ہے کہ ضروری شرائط رکھنے والی عورتیں عدلیہ کی مشاورتی عدالتوں اور خاص شہری عدالتوں میں مردوں کے مانند مشاورت، تحقیقی قاضی اور قانونی مشاور جیسے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ: بنیادی آئین میں سماجی حقوق کے سلسلہ میں اور عورتوں کے لئے پیش کئے گئے مشاغل کے نمونے حسب ذیل نکات پر مشتمل ہیں:
٭۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق میں شباہت کی نفی نہیں کرتا ہے۔
٭۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق میں امتیاز کی نفی کرتا ہے۔
٭۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق میں فرق کو قبول کرتا ہے۔
٭۰۔ اسلامی اصولوں کے تحت تفاوت کے مصادیق کو معین کرنا عام قانون کے اختیار میں قرار دیتا ہے۔﴿ بنیادی آئین دفعہ ١۰﴾
خاندان کے دائرے میں مشاغل کے نمونوں سے متعلق اصول:
خاندان، اسلامی معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے اور عورت خاندان کی بنیادی اکائی ہے۔ اس اعتبار سے بنیادی آئین میں خاندان کے موضوع کے بارے میں خاص توجہ دی گئی ہے، ﴿ اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کے سلسلہ میں بحث و تمحیص کرنے والی “ مجلس خبرگان” کی کاروائی کی شرح، ج ١، ص ۴۴۰﴾ اس کے علاوہ آسان صورت میں خاندان کو تشکیل دینے، اس کے تقدس کی حفاظت کرنے اور اسلامی حقوق و اخلاق پر مبنی خاندانی تعلقات کو استوار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے عورتوں کے وہ مشاغل بنیادی آئین کے منظور نظر نہیں ہیں جو خاندان کے تقدس اور خاندانی روابط کو ضرر پہنچاتے ھوں ۔ بنیادی قانون کی “ مجلس خبرگان” میں، مذکورہ دفعہ کو تشکیل دینے کا فلسفہ یوں بیان کیا گیا ہے: “یہ دفعہ خاندانی نظام کو اہمیت دینے کے پیش نظر ہے، جو ایک خاص اجتماعی اور سماجی نظام ہے تاکہ حقیقی معنوں میں خاندان، معاشرہ میں محفوظ رہے اور خاندان کو سست اور کمزور کرنے والے عوامل اور حالات کو ختم کرتا ہے۔ ۔ ۔ اس سلسلہ میں قواعد و ضوابط اور منصوبہ بندی میں چارہ جوئی کی جائے، کیونکہ موجودہ کل پرزے کے مانند زندگی میں عورتوں کو خاندان کے دائرے سے نکال کر کاروروزگار کے دائرے میں جذب کیا جاتا ہے،یہی عورت کا خاندان کے دائرے سے خارج ھوکر کار روزگار کے دائرے میں جذب ھونا، خاندانی کے نظام کو کمزور کرتا ہے اور خاندان کو اپنے حقیقی معنی سے خارج اور نابود کرکے رکھ دیتا ہے۔ اور خاندان کو ایک بڑے معاشرے میں محو کردیتا ہے ۔ یہ دفعہ اس لئے ہے کہ ہم قواعد و ضوابط ، قوانین اور منصوبوں کو ایسے مرتب کریں کہ خاندان ایک بڑے معاشرہ میں حذ ف اور گم نہ ھوجائے بلکہ حقیقی معنوں میں خاندان محفوظ رہے، نہ صرف محفوظ رہے ، بلکہ ایسے امکانات بھی فراہم ھوں ، جو ایک صحیح و سالم اخلاق و فضیلت پر مبنی خاندان کی تشکیل اور اس کی حفاظت کا اہتمام کرسکیں، جس میں مرد، عورتوں ، بچوں اور اس خاندان سے منسوب ہر شخص کی ضروریات فراہم ھو جائیں۔ اس دفعہ میں عورت کے حقوق کو مردوں کے حقوق کے مد مقابل قرار نہیں دیا گیا ہے، بلکہ خاندان کی ایک بنیادی اکائی کے عنوان سے نام لیا گیا ہے اور اس کا اصلی معنی و مفہوم معاشرہ میں خاندان کے حذف اور نابود ھونے کے مقابلے میں ہے۔ البتہ عورت کام کرسکتی ہے، لیکن اس حد میں کہ بچوں کے حقوق پامال نہ ھو جائیں اور اس کے ایک ماں اور شوہرداری کے فرائض کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس قانون کے تحت عورت کو ایسے کاروروزگار میں مشغول ھونے سے روکا گیا ہے، جس سے میاں بیوی، بچہ اور ماں کے درمیان تعلقات، مادری محبت اور اولاد کی تربیت نابود ھو جائے۔﴿ایضا وہی دفعہ﴾ عورت اور خاندان کے بارے میں “ مجلس خبرگان قانون اساسی” کی اس گفتگو اور دوسرے مطالب کی بنا پر ہروہ مشغلہ جسے مرد اختیار کرے! عورت کو بھی ﴿ خاندان کے ایک رکن کی حیثیت سے﴾ اختیار کرنے کا حق ہے۔ بنیادی آئین کے مطابق مرد اور عورت کو خاندان کے دورکن کے عنوان سے یہ حق ہے کہ اپنے سرمایہ، کارخانہ اور کام کے خود مالک ھوں۔ جس طرح ایک مرد نوکری کرسکتا ہے، عورت بھی نوکری کرسکتی ہے، بشرطیکہ وہ کام جائز اور انسانی اصولوں پر مبنی ھو اور اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر استوار ھو اور خاندان میں مرد اور عورت کے فرائض کو نقصان نہ پہنچائے اور مرد اور عورت کے درمیان اختلاف اور دوری کا سبب نہ بنے۔ اگر گھر سے باہر عورت کا کام کرنا، خاندانی نظام کے نابود یا کمزور ھونے کا سبب بنے، تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ عورتوں کے مشاغل کے نمونوں کے سلسلہ میں چونکہ وہ سنگین اور بھاری کام انجام نہیں دے سکتی ہیں یا انجام دینا نہیں چاہتی ہیں، پس انھیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ انھیں ہر اس کام کو انجام دینے کا حق دیا جانا چاہئے، جسے مرد انجام دیتے ہیں۔
۲۰۰۹ء کی مردم شماری کے مطابق، زراعت میں مشغول عورتوں کی شرح ۲۹ﺍ۳فیصد، صنعت میں ۲۵ﺍ۳فیصد اور خدمات میں ۴۵ﺍ۳ فیصد تھی۔ اسی طرح عورتوں کی اجتماعی امور میں شرکت اور غیر سرکاری تنظمیں تشکیل دینے اور ان میں فعالیت کرنے کے سلسلہ میں ۲۰۰۹ء کے اواخر تک عورتوں نے ۹۸۹ تنظیموں کی منظوری حاصل کی ہے اور گزشتہ دس برسوں کے دوران یہ تعداد تقریبا ١۸ گنا ھوئی ہے ۔ قابل غور بات ہے کہ اعداد وشمار سے معلوم ھوتا ہے کہ نوکریوں میں عورتوں کے مشغول ھونے کی شرح کافی بڑھ گئی ہے، اور اس طرح اس شعبہ میں عورتوں کی نوکریوں کی شرح ١۹۷٦ء میں ۵ﺍ١۵ فیصد تھی جو ۲۰۰٦ء میں بڑھ کر ۹ﺍ۹۲ فیصد تک پہنچی ہیں۔
اسی طرح نوکریوں میں عورتوں کے مشعلہ کی شرح ١۵ فیصد بڑھ کر اس وقت تقریبا ۴۵ فیصد ھوچکی ہے۔
ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ عورتوں کی مڈل، ہائرسیکنڈری اور اعلی تعلیم کے شعبوں میں رونما ھونے والی تبدیلیاں انسانی سرمایہ کی حیثیت سے عورتوں کے برسر روزگار آنے کے عوامل ہیں۔ البتہ بعض انجام پائے تجزیوں سے معلوم ھوتا ہے کہ: اگرچہ کچھ برسوں کے دوران عورتوں کے لئے اقتصادی شعبہ میں سرگرم عمل ھونے میں کافی رکاوٹیں پیدا ھوئی ہیں لیکن جنگ کے دوران عورتوں کے مشغلوں میں نہ صرف اضافہ نہیں ھوا ہے بلکہ ١۹۸٦ء میں اس میں تقریبا ۹ فیصد کمی واقع ھوئی ہے۔ حقیقت میں ١۹۸۰ء کی دبائیوں کے دوران عورتوں کے لئے پیدا ھوئی محدودیتوں کے پیش نظربہت سے شعبوں میں نوکریوں سے عورتوں کی چھٹی کی گئی۔ ایران کی مردم شماری کے مرکز کی آخری رپورٹ کے مطابق ایران کے معاشرہ میں عورتوں کے برسر روزگار ھونے کا حصہ انقلاب سے پہلے کی بہ نسبت ۳ فیصد بڑھ گیا ہے، اس طرح ١۹۷٦ء میں مشغول عورتوں کی شرح ١۲ فیصد تھی جو بڑھ کر ١۵ فیصد تک پہنچی ھوئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ، عورتوں کے مشغول ھونے کے سلسلہ میں پیش کئے گئےتجزیوں اور تحقیق سے معلوم ھوتا ہے کہ مختلف شعبوں ، من جملہ صنعت، ایڈ منسٹریشن اور نوکریوں میں عورتوں کی فعالیت نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے، اس طرح عورتوں کے مشاغل کا مشئلہ بہت سے نشیب وفراز سے دوچار ھوا ہے۔
مثال کے طور پر انقلاب کے بعد ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں عورتوں کی مشغولیت صرف ۴ﺍ۲فیصد ت بڑھی تھی جبکہ تجارت اور اقتصاد میں عورتوں کی فعالیت ٦فیصد سے بڑھ کر ١۹۷٦ء کے ۹۳ﺍ١۲ فیصد کے مقابلے میں ، ۲۰۰۵ءمیں ۷ﺍ١۸فیصد تک پہنچی تھی۔
دفاتر اور نوکریوں کے اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ نوکریوں میں عورتوں کی شرح بڑھ گئی ہے، اس طرح کہ عورتوں کی ملازمت اور فعالیت میں ١۴فیصد کا اضافہ ھوا ہے اور ١۹۷٦ءمیں یہ شرح ۵ﺍ١۵ فیصد تھی جبکہ ۲۰۰۵ء میں یہ شرح ۹ﺍ۲۹ فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ اسی طرح خدمات کے شعبے میں بھی عورتوں کی فعالیت ١۵ فیصد بڑھ کر اس وقت تقریبا ۴۵ فیصد تک پہنچی ہے۔
بہت سے ماہرین اس امر کے قائل ہیں کہ کام اور سہولتوں کے حالات، مالی قوت ، کام کی ضرورت، تعلیمی سطح اور خاندانی مسائل اور مشکلات وغیرہ ان دلائل میں سے ہیں، جنھوں نے عورتوں کو ان شعبوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ امر زیادہ سے زیادہ عورتوں کے ان شعبوں میں برسرکار ھونے کا سبب بنا ہے۔
عورتوں کے، نوکریوں میں مشغول ھونے کی تعداد روبہ افزون ہے ایک اور تحقیق سے معلوم ھوتا ہے کہ مشغول عورتیں تقریبا ۲۳ فیصد کے حساب سے سرکاری ملازمتوں کے عنوان سے برسرکار ہیں اور ان میں سے ۷۵ فیصد پرائیوٹ اداروں اور کارخانوں میں کام کرتی ہیں۔ اس طرح پرائیوٹ کارخانوں اور شرکتوں میں بھی اکثر عورتیں منشی، اکاؤنٹنٹ اور ریکارڈ کی مسؤل کے عنوان سے کام کرتی ہیں، یہ وہ مشاغل ہیں جن میں عورتوں کے لئے ترقی کے امکانات موجود ہیں۔
١۹۹٦ء میں عورتوں کی اعلی تعلیم کی شرح ملک کے اعلی تعلیم یافتہ افراد کی کل تعداد کی ۳۳ فیصد تھی جو ۲۰۰٦ء میں بڑھ کر ۷۵ﺍ۴١ فیصد تک پہنچی ہے۔ چونکہ حالیہ برسوں میں یونیورسٹیوں میں داخل ھونے والی طالبات کی تعداد تیزی سے بڑھ چکی ہے، اس لئے توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران بھی عورتوں کی اعلی تعلیم کی شرح حسب معمول بڑھتی رہے گی۔
اس ضمن میں، چوتھے منصوبہ بند پروگرام میں ملک کی فعال آبادی کی سرگرمیوں میں بھی بنیادی تبدیلیاں رونما ھوئی ہیں اور ١۹۹٦ء میں ملک کی کل آبادی میں سے تقریبا ۹۸ﺍ۸ فیصد لوگ اعلی تعلیم یافتہ تھے اور یہ شرح ۲۰۰۴ء میں تقریبا ۸۲ﺍ١۳ فیصد تک پہنچی تھی۔ ١۹۹٦ء میں ملک کی خواتین کی کل آبادی میں تقریبا ۳ﺍ١۷ فیصد عورتیں اعلی تعلیم یافتہ تھیں اور ۲۰۰۴ء میں یہ شرح تقریبا ۴۰ﺍ٦۴ فیصد تک پہنچی۔ ۲۰۰۴ء میں ملک کی کل مشغول عورتوں میں سے ۰۷ﺍ۳۰ فیصد اعلی تعلیم یافتہ عورتیں تھیں۔
یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ھوئی عورتوں کی تعداد میں اضافہ کے پیش نظر، مختلف شعبوں میں اعلی عہدوں پر فائز عورتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ھوا ہے۔
۲۰۰٦ء میں ملک بھر میں زراعت، صنعت اور خدمات کے تین شعبوں میں عورتوں کے برسرکار ھونے کے نمونوں کا موازنہ کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ حالیہ دہائی کے دوران زراعت کے شعبے میں عورتوں کی فعالیت میں کمی واقع ھوئی ہے اور صنعت کے شعبے میں ان کی فعالیت میں اضافہ ھوا ہے اور خدمات کے شعبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
مذکورہ اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ہے کہ اقتصاد کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی فعالیت کے مطابق شہروں میں خدمات کے شعبے سے صنعت کی طرف اور دیہاتوں میں زراعت سے صنعت کی طرف عورتوں کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت خاص کر دیہات میں عورتوں کا صنعت کی طرف میلان قابل توجہ ہے البتہ یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ بہت سی عورتیں دیہاتوں میں قالین بافی اور کپڑے بننے کی صنعتوں میں بھی مشغول ہیں۔
ایک اعتبار سے مشغلے تین حصوں یعنی: سرکاری، پرائیوٹ اور کواپریٹیو میں تقسیم ھوتے ہیں۔ ۲۰۰٦ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پرائیوٹ سیکٹر میں ۷٦ﺍ۴۵فیصد عورتیں اور سرکاری سیکٹر میں ٦۲ﺍ۲۸ فیصد عورتیں مشغول تھیں۔
ملکی پیمانہ پر نوکریوں کے قانون کے مطابق ۲۰۰٦ء میں سرکاری ملازمتوں میں ۷۵۷۵١٦عورتیں برسر روزگار تھیں اور اس تعداد میں ۲۰۰۷ء میں ۰۴ﺍ١۰فیصد کا اضافہ ھوا ہے۔
١۹۸٦ء سے ۲۰۰٦ء تک کے برسوں کے دوران سرکاری اداروں میں عورتوں کی نوکریوں کی شرح ۵ﺍ۷۷تھی۔ اس وقت ملک بھر میں ١٦ ہزار سے زیادہ کواپریٹو سوسا ئیٹیاں ہیں جن میں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ ان کو آپریٹیو سوسائیٹوں میں ۸۵۷۷کواپریٹوسوسائٹیاں یعنی کل تعداد کا ۵۰ فیصد حصہ لڑکیوں سے متعلق ہے، جن میں ۷١٦۰۰۰ لڑکیاں رکنیت رکھتی ہیں۔ لڑکیوں سے متعلق یہ کواپریٹو سوسائیٹیاں اکثر خدمات ، صنعت اور زراعت سے متعلق ہیں۔
عورتوں کی سماجی اور اقتصادی حالت کو ارتقاء بخشنے اور ان کی توانائیوں کو تقویت بخشنے کے لئے کواپریٹیوسوساٴیٹوں کی صورت میں وزارت تعاون نے موثر اقدام کئے ہیں ۔
خاندان کی سرپرست خواتین کو روز گار فراہم کرنا
اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں مرد و زن کے لیے حالات اور دونوں جنسوں کے میلانات کے مطابق روزگار فراہم کرنا معیار ہے تاکہ ہرایرانی خاندان کے لیے روز گار فراہم کرنے اور آمدنی حاصل کرنے میں مرد اور عورتوں کے ساتھ انصاف کیا جاسکے اور اس طرح عورتوں کے لیے روز گار فراہم کرنے میں خاندانی نظام کا تحفظ مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں نظام کے سیاست کاروں کی نظر میں، خاندان کی سرپرست عورتیں ترجیح اور خاص اہمیت کی حامل ھوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں منظور کئے گئےمنصوبے اس امر کے گواہ ہیں کہ ملک کا نظم و نسق چلانے والی سرپرست عورتوں کی مشکلات کو حل کرنے اور انھیں اقتصادی اور نفسیاتی طور پر آرام و سکون بخشنے کے سلسلہ میں کو شاں ہیں ۔ ۲۰۰٦ء میں ملک کے کل خاندانی سرپرستوں میں عورتوں کی شرح۴٦ﺍ۹تھی۔ اس سے معلوم ھوتا ہے کہ گزشتہ تین دہانیوں کے دوران اس شرح میں۲۳ﺍ۲فیصد کا اضافہ ھوا ہے۔ ۲۰۰٦ء میں عورتوں کی کل آبادی کی بہ نسبت خاندان کی سرپرست عورتوں کی شرح ۳١ﺍ٦فیصد تھی اور یہ شرح گزشتہ تین دہاییوں کے دوران ۰١ﺍ١ فیصد بڑھ گئی ہے۔
قابل ذکر بات ہے کہ ۲۰۰٦ء میں خاندان کی سرپرست عورتوں کی کل تعداد ١٦۴١۰۴۴ تھی ان میں سے ١۴ فیصد عورتیں برسر روزگار تھیں ۔ ۴۸ﺍ۲٦ فیصد کسی ملازمت کے بغیر آمدنی رکھتی تھیں، ۳١فیصد خانہ دار تھیں، ۴۹ﺍ۰فیصد بیکار اور ۳١ﺍ١فیصد تعلیم حاصل کرنے میں مشغول تھیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ شہر و دیہات میں خاندان کی سرپرست عورتوں کی عمر ۷۵ سال سے زاید ہے جبکہ یہ عمر دس سال قبل دس سال کم تھی، بہ الفاظ دیگر ١۹۹٦ء کی مردم شماری کےمطابق اکثر سر پرست خواتین کی عمر ٦۵ سال سے زاید تھی اور اس طرح معلوم ھوتا ہے کہ ملک کی خاندان کی سرپرست خواتین کی عمر میں اضافہ ھوا ہے کہ اس سلسلہ میں مناسب منصوبہ بندی کرنا ایک ضروری امر بن جاتا ہے۔
اس وقت بیمہ سے عاری خاندان کی سرپرست خواتین کے بیمہ کی ذمہ داری امام خمینی امدادی کمیٹی اور فلاح و بہبود آرگنائزیشن کوہے، وزارت فلاح و بہبود کی اطلاع کے مطابق ۲۰۰٦ء میں فلاح و بہبود آرگنائزیشن کے تحت ۴۷۰۰۰خاندان کی سرپرست عورتوں اور امام خمینی امدادی کمیٹی کے تحت ۸۴١٦۳٦ خاندان کی سرپرست عورتوں کی امداد کی جاتی تھی۔
بہ الفاظ دیگر ۲۰۰٦ء میں مالی امکانات سے عاری خاندان کی سرپرست عورتوں میں سے مجموعی طور پر ۹۸۸٦۳۹خواتین کو مختلف فلاحی تنظیموں کی طرف سے امداد فراہم کی جاتی تھی۔
خواتین کے شغل کے بارے میں ایران کے ملکی قوانین
بنیادی آیین کی دفعہ نمبر ۴۳ کی شق نمبر ۲ میں آیا ہے کہ۔ حکومت کا فرض ہے کہ تمام لوگوں ﴿ من جملہ مرد اور عورتوں ﴾ کےلئے کام فراہم کرے تاکہ کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والی بے کار عورتوں کے لیے کار روز گار فراہم کیا جاسکے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی اقتصادی ،اجتماعی اور ثقافتی ترقی کے چوتھے منصوبہ بند پروگرام کی مجموعی سیاست میں دو بند ایسے ہیں جو عورتوں کے خاندان سے متعلق مسائل اور ان کی شرکت وغیرہ پر مشتمل ہیں:
الف﴾ عورتوں کی شرکت کو تقویت بخشنے کے لئے ایک جامع منصوبہ کی تدویں، منظوری اور نفاذ کو عمل میں لانا، قوانین و مقررات ، خاص کر شہری قوانین میں ترمیم انجام دینا، عورتوں کی مہارتوں کو معاشرہ کی ضروریات اور تبدیلیوں کے مطابق تقویت بخشنا، شغل پیدا کرنےکے سلسلہ میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار کی شناسایی کرکے اس کو تقویت بخشنا، جنس کی ترکیب کے مطابق کار آمد افراد سے استفادہ کرنا، عورتوں کی زندگی کی کیفیت اور ان کی شائستگی کو تقویت بخشنا۔
ب﴾ خاندان کو تقویت بخشنے کے سلسلہ میں قوانین کو مرتب کرکے ذی صلاح اداروں میں منظوری کے لئے پیش کرنا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے کار روز گار کے قانون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ، اسلام کی نظر میں عورت کے مقام و منزلت کے پیش نظر، ان سے متعلق قوانین کو ایسے تدوین کیا جایے کہ عورتیں مختلف مشاغل میں مشغول ھونے کے باوجود خاندان میں اپنے اہم فرائض انجام دے سکیں۔ اور اس کے ضمن میں عورتوں کی جسمانی اور نفسیاتی خصوصیات کو بھی مدنطر رکھا جاٴے۔
قانون کار کی فصل سوم کی چوتھی بحث میں عورتوں کے کام کرنے کے خاص قوانین حسب ذیل ہیں:
١ ۔ بھاری اور نقصان دہ کام انجام دینے اور حد سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی ممانعت۔ ﴿ دفعہ نمبر ۷۵﴾
۲۔ وضع حمل کےلئے ٦مہینے کی چھٹی﴿ یہ مدت بعد میں ۹ مہینے تک بڑھا دی گیی ہے﴾ ﴿دفعہ نمبر ۷٦﴾
۳۔ جن مواقع پر کام کی نوعیت عورتوں کے لیے سخت ھو، وہاں پر انھیں بہتر اور ہلکا کام سونپا جائے۔ ﴿ دفعہ نمبر ۷۷﴾
۴۔ ایک کارخانہ میں مساوی کام انجام دینے کے لئے عورتوں اور مردوں کو مساوی تنخواہ دی جانی چاہئے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کا امتیاز برتنا ممنوع ہے ۔﴿ دفعہ نمبر ۳۸﴾
اس سلسلہ میں عورتوں کی ثقافتی اور اجتماعی شوری، ١۹۸۸ء میں تشکیل پایی ہے تاکہ عورتوں کے سماجی اور ثقافتی مسایل کے بارے میں پالیسی مرتب کی جایے اور یہ شوری قومی پیمانے پر ثقافتی انقلاب کی شوری کی ایک اکائی کے طورپر عورتوں کے مسایل اور مشکلات کو دور کرنے کے لیے تشکیل پایی ہے اور اس شوری نے عورتوں کے مشاغل کے سلسلہ میں ١۳ دفعات پر مشتمل کچھ قوانین تدوین کیے ہیں اور ان کا نام، “اسلامی جمہوریہ ایران میں عورتوں کے مشاغل سے متعلق پالیسی” ہے۔ اس پالیسی کے قوانین سے متعلق دفعات حسب ذیل ہیں:
دفعہ نمبر ١: عورتوں کے مادری مقام و منزلت، انسانی نسل کی تربیت، گھر کا نظم و نسق چلانے اور ثقافتی رشد و بالیدگی اور اقتصادی میدان میں ان کے رول کی اہمیت کے پیش نظر عورتوں کے خاندان اور گھریلو کام میں ان کی معنوی اور مادی قدر و منزلت کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
دفعہ نمبر ۲: ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور اداروں کے مشاغل میں عورتوں کو ملازمتیں دلانا اور اس سلسلہ میں عورتوں کے خاص حالات اور ضروریات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
دفعہ نمبر ۳: سماجی ذمہ داریوں کو بہتر صورت میں انجام دینے کے لیے خاندان کے افراد کے درمیان تعاون اور ہمکاری انجام دینا ضروری ہے تاکہ خاندان کے نظم و انتظام کو مطلوبہ صورت میں چلایا جاسکے۔
دفعہ نمبر ۴: عورتوں کے لیے کام کا ماحول اور حالات اس طرح فراہم کئے جانے چاہئیں کہ ان کے لیے معنوی، علمی اور جسمانی صورت میں کویی نقصان نہ پہنچے۔
دفعہ نمبر ۵: آبادی کی نصف جمعیت عورتوں پر مشتمل ہونےکی وجہ سے معاشرہ کی اجتماعی اور اقتصادی ترقی میں عورتوں کے رول کے پیش نظر ایڈ منسڑیشن کی طرف سے عورتوں کے لئے کار و روزگار فرہم کرنے کی سہولیات فراہم کی جانی چاہیے اور اس سلسلہ میں ترجیح کے مطابق منصوبہ بند پروگرام مرتب کیا جانا چاہیے اور موجودہ قوانین اور امکانات کے علاوہ عورتوں کو ملازمتوں میں تعینات کرنےکے سلسلہ میں “الف ”اور“ ب ”کے تحت غیر معمولی قوانین اور امکانات بھی مدنظر رکھے جاییں تاکہ دفعہ “ج” کے مطابق عورتیں بھی مردوں کے مانند کسی امتیازی سلوک کے بغیر اپنا مطلوبہ شغل حاصل کرسکیں۔
دفعہ نمبر ٦: تعلیم یافتہ، ماہر اور تجربہ کار عورتوں کی مدیریت کے عہدے اور دوسرے اداری اہم عہدے سونپنے میں ہمت افزایی کی جایے، تاکہ ایڈ منسٹریشن کے کلیدی عہدوں کے بارے میں ان سے استفادہ کیا جاسکے۔
دفعہ نمبر ۷: چونکہ ہر معاشرہ کے تعلیم یافتہ اور ماہر افراد اس معاشرہ کے قابل قدر سرمایہ شمار ھوتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کافی سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے، اس لئے:
اولا: تجربہ کار عورتوں کو مناسب شعبوں میں تعینات کیا جاناچاہئے۔
ثانیا: ماہر، کارشناس اور تعلیم یافتہ عورتوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کےلیے انھیں وسایل فراہم کئے جانے چاہئیں تاکہ وہ خاندان میں اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی سرگرمیوں سے کنارہ کشی نہ کرسکیں۔
دفعہ نمبر۸: تبلیغاتی اداروں اور ذرایع ابلاغ کو منظور شدہ پالیسیوں کے مطابق عورتوں کی ملازمتوں کے بارے میں اس طرح تبلیغ کرنا چاہیے کہ اسلامی اور اقتصادی قدریں مشرقی اور مغربی نام نہاد ترقی کی زد میں نہ آئیں ۔ اس کے ضمن میں عورتوں کی ثقافتی ، اجتماعی، اور ملازمتوں کے سلسلہ میں سرگرمیاں کرنے کی ہمت افزایی کی جانی چاہئے، تاکہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا مناسب رول ادا کرسکیں۔
دفعہ نمبر ۹: مساوی حالات میں کام کی قدر و قیمت معین کرنے میں ، کم از کم مساوی تنخواہیں منظور کی جائیں۔
دفعہ نمبر ١۰: چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام خاندان کی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اس میں عورتوں کے تربیتی اور تعمیری رول کا قائل ہے، اس لیے عورتوں کے لئے مادرانہ شغل کے مناسب قوانین اور ضروری سہولیات کو مدنطر رکھنا چاہئے، جیسے: با تنخواہ چھٹی سے استفادہ کرنا، نوکری کے نسبتاً کم برسوں کے باوجود پنشن کا حق ملنا،مشغلہ کا تحفظ ، بیکاری، بوڑھاپے اور ناتوانی کے دوران سماجی تحفظ کا حق ملنا۔
دفعہ نمبر ١١: ہنر اور آرٹ میں تربیت کے امکانات فراہم کرنا اور مناسب روزگار فراہم کرنا، خاص کر معاشرہ کی پسماندہ، محروم اور خاندان کے اخراجات پورے کرنے والی خواتین کو ترجیح دینا تاکہ وہ اپنی یہ ذمہ داری بخوبی انجام دے سکیں۔
دفعہ نمبر ١۲: خانہ دار ماؤں کے لئے گھر کے ماحول میں ان کی اولاد کے پاس ہی، وقت کی محدودیت کے بغیران کے لیے تنخواہ اور تعاون کی دوسری سہولیات فراہم کرنا۔
دفعہ نمبر ١۳: ملک کی اداری اور روز گار فراہم کرنے کی آرگنایزیشنوںں ، وزارت کار و فلاح و بہبود کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کی ثقافتی اور اجتماعی شوری کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کرکے اس شوری کا لایحہ عمل مرتب کریں تاکہ اس پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جائے اور اس کے علاوہ اس پالیسی سے متعلق گزشتہ دستورالعمل کی طرف بھی توجہ کریں اور نتیجہ سے ملک کی ثقافتی شوری کو باخبر کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ماں اور بچے کی حیات میں حاملگی کے دوران ماؤں کی حمایت میں بعض قوانین منظور کرائے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق عورتوں کے ہر بچے کے وضع حمل کے بعد چھٹی کی مدت ۹ مہینےمعین کی گئی ہے۔
روز گار کے اعتبار سے ایران کی خانہ دار عورتیں:
خانہ دار خواتین کی اصلی سرگرمیوں، جاں نثاری، ایثار اور اولاد کی تربیت اور معاشرہ میں ایک مکمل امن و سلامتی کا احیاء کرنا ہے، من جملہ ایسی پیداوار کو عملی جامہ پہنانا ہے جو بازار میں دستیاب نہیں ھوتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے معاشرہ میں اجتماعی سرگرمیوں میں عورتوں کے قابل قدر اور موثر رول کے پیش نظر روزگار میں مصروف خواتین اور خاندان کی حفاظت کے لئے قوانین اور قواعد و ضوابط مقرر کیے ہیں۔
اس سلسلہ میں کیبنٹ نےخاندان کی بنیادوں کو استحکام بخشنے کے لیے شاغل اور شادی شدہ عورتوں کےلیے کام کے اوقات میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ GNP سے متعلق عالمی اعداد و شمار کے محاسبہ میں، عورتوں سے متعلق شعبہ کو فعال اور غیر فعال دوحصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ فعال حصہ، برسرکار اور بے کار﴿ مشغلہ کی تلاش میں﴾ عورتوں اور غیر فعال حصہ خانہ دار عورتوں، طالبات اور بغیر کام آمدنی حاصل کرنے والی عورتوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ان اعداد و شمار میں قابل توجہ نکتہ فعالیت کے لحاظ سے خانہ دار عورتوں کی نسبتا بڑھتی تعداد ہے۔ خانہ دار خواتین جو معاشرہ میں مختلف اور گونا گون رول ادا کرتی ہیں، اقتصادی اور اجتماعی امور میں موثر ھوتی ہیں۔ یہ عورتیں معاشرہ کے کام کرنے والے افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی شمار ھوتی ہیں۔ اگر چہ ہمسر اور اولاد کی تربیت اور ماں کی حیثیت سے بچوں کی مربی کے عنوان سے عورتوں کی فعالیتوں کی اہمیت اور اثرات کہیں پر درج نہیں ھوتے ہیں، لیکن یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے عورتوں کی اجتماعی سرگرمیوں اور معاشرہ میں برسرکار عورتوں کے خاندان کے تحفظ میں قابل قدر خدمات کے پیش نظر ان کے لیے ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلہ میں خاندان کی بنیادوں کو استحکام اور تقویت بخشنے کے لیے شاغل اور شادی شدہ عورتوں کے کام کی مدت میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عورتوں میں کام کی تخلیق میں وسعت:
حالیہ برسوں میں یونیورسٹی تعلیم کے سلسلہ میں عورتوں اور لڑکیوں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں ٦۵ فیصد سے زیادہ لڑکیاں کامیاب ھوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کے حالات میں کام کی تخلیق میں وسعت، روزگار فراہم کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
عورتوں کی تواناییوں سےصحیح استفادہ کرنے اور اقتصادی ترقی کی غرض سے، عورتوں میں کام کی تخلیق کو تقویت بخشنے کے لیے حکومت کی طرف سے حمایتی پالیسیاں مرتب کی گیی ہیں۔
عورتوں کے کام کی تخلیق کی حالت:
وزارتیں اور سرکاری ادارے، خود اشتغالی ﴿سیلف ایمپلایمنٹ﴾ اسکیموں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ حمایت عام ہے اور عورتیں بھی مردوں کے مانند حتی الامکان اس حمایت سے بہرہ مند ھو رہی ہیں۔ ان حمایتوں کے سلسلہ میں وزارت کار کی سیلف ایمپلایمنٹ اسکیم، کشاورزی بینک کی طرف سے امداد اور وزارت تعاون کی طرف سے حمایت اور امداد کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ کشاورزی بینک اور وزارت تعاون ان کواپریٹیو سوسائٹیوں کی حمایت کرتے ہیں جن میں ۷۰ فیصد رکنیت عورتوں کی ہے۔ اس کے علاوہ ثقافتی، سماجی و صنفی ،تخصصی و خیریہ اور سیاسی شعبوں میں فعالیت کرنے والے غیر سرکاری ادارے بھی عورتوں کی اجتماعی اور اقتصادی فعالیتوں کو تقویت بخشنے کے سلسلہ میں حتی الامکان حمایت کرتے ہیں۔
دیہی خواتین کی تنظیموں کی تشکیل اور ان کی حمایت:
ملک کی کل آبادی میں سے ایک کروڑ بیس لاکھ سے ز١ئد افراد دیہاتی خواتین ہیں۔ ملک کی آبادی کا عورتوں پر مشتمل یہ عظیم حصہ، زراعت کی پیداوار،دستکاری، اور دیہات کی تعمیر و ترقی میں اہم اور موثر رول ادا کرتا ہے۔ دیہاتی خواتین کے لیے تنظیمیں تشکیل دینا، ان کی اقتصادی اور اجتماعی ترقی کے لیے بہترین طریقہ کار ہے، کیونکہ وہ اس طرح ضروری اشیاء کی پیداوار اور دوسری خدمات کوبڑھاوا دےکر دیہی آبادیوں میں سماجی انصاف اور عورتوں کے اقتصادی میدان میں مشارکت کو تقویت بخش سکتی ہیں۔ اس وقت دیہات میں خواتین کی تنظیمیں مختلف صورتوں میں موجود ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری طور پر سر گرم عمل ہیں۔ ان میں سے اہم ترین تنظمیں کواپریٹیو سوسایٹیاں ، صندوق قرض الحسنہ، محلے کے امدادی گروہ اور گھریلو اشیاء بنانے والے چھوٹے کارخانے ہیں۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق دیہی خواتین میں سے تقریبا تین لاکھ بیالیس ہزار عورتیں ۴٦۲کواپریٹیو سوسایٹیوں میں مشغول ہیں۔ ان کواپریٹیو سوسایٹیوں میں سے ١۹٦کواپریٹیو سوسایٹیاں دیہی تعاون تنظیم کے تحت اور ۲٦٦ کواپریٹیو سوسایٹیاں وزارت تعاون کے تحت کام کر رہی ہیں۔
دوسری جانب دیہاتی عورتوں اور لڑکیوں کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دیہی عورتوں کی فلاح و بہبود میں ۲۰۰۰ء سے مختلف پرو جیکٹ تیزی کے ساتھ شروع کیے گیے ہیں اور اس وقت ملک کے ۲۷ صوبوں میں وزارت جہاد کشاورزی کی طرف سے ۲۴۰مالی اعتبار کے صندوق تاسیس کئے گئے ہیں، ان میں سے اکثر صندوقوں کے بجٹ کو خواتین سے متعلق صدر جمہوریہ کا شعبہ پورا کرتا ہے۔
مالی اعتبار کے یہ صندوق ، چھوٹے گروہوں اور کم آمدنی والے افراد سے متعلق ہیں اور ان میں خاص طور پر خاندانوں کی سرپرست اور پسماندہ خواتین کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین سے متعلق حقوق کے منشور اور مسؤلیتوں میں عورتوں اور خاندان کے امور کا مقام:
ملک کی عالی ترین ثقافتی انقلاب کی شوری میں ، عورتوں اور خاندان کے پروگراموں کے بارے میں منظور شدہ منشور سے ، خواتین کے لئے جامع پروگرام کے سلسلہ میں راہنما اور ہدایت گر کے عنوان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بنیادی اصول اور قابل قدر نظریات بیان کئے گئے ہیں، اس سند کی مندرجہ ذیل کارکردگی ملاحظہ ھو:
٭ ۔ اسلام میں فطرت، تخلیق کے مقصد، صلاحیتوں اور امکانات، قدروں، قدروں کو کسب کرنے اور جنس کے امتیاز کے بغیر جزا و سزا پانے کے اعتبار سے خداوند متعال کے پاس مرد و زن یکساں ہیں اور صرف علم و دانش کے سائے میں انسانی قدروں میں رشد و بالیدگی حاصل کرنے اور تقوائے الہی اور ایک شایستہ معاشرہ تعمیر کرنے کی صورت میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرسکتے ہیں۔
٭۔ مرد اورعورت میں فرق حکمت الہی پر مبنی ہے اور حیات بشر کو جاری رکھنے کے عنوان سے یہ فرق ایک ہم آھنگ کلیت کو تشکیل دیتا ہے، تاکہ سر انجام ان دونوں ﴿ مرد و زن﴾ کے درمیان فکری اور جذباتی تناسب کا متقابل رابطہ قایم ھونے سے انسان کی معقول اور بلند حیات ممکن اور جاری رہے۔ لہذا یہ فطری تفاوتیں ان قانونی تفاوتوں کا سرچشمہ ہیں جو عدل الہی پر مبنی ہیں۔ لہذا یہ تفاوتیں عورتوں کی قدر و منزلت کم ھونے یا ان کے ساتھ ظالمانہ امتیازی سلوک کا برتاؤ کرنے کا سبب نہیں بن سکتی ہیں۔ انسانی حقیقت میں زن و مرد کے درمیان مشترکات کی وجہ سے اسلام کے قانونی نظام میں اکثر موقع پر عورت اور مرد یکسان ذمہ داریوں کے مالک ھوتے ہیں۔ حقوق اور مسؤلیتوں میں تفاوت ایک ایسا امر ہے جو مرد کے عورت پر یا عورت کے مرد پر برتری ہونے کا سبب نہیں بن سکتا ہے، بلکہ یہ تفاوت مرد اور عورت کے بارے میں ایک قسم کے خاص قانونی عناوین کا سبب ہے جو ان دونوں جنسوں کے خاندان میں خصوصی رول کے تناسب سے ناقابل تغییر ھوتے ہیں۔ یہ تفاوت اس لحاظ سے ہے کہ خاندان کے لیے مادی اور معنوی امکانات پورے کئے جائیں۔
اگر چہ عورتوں کے لیے قابل تصور حقوق اور مسؤ لیتیں مذکورہ منشور میں ١۴۸ بندوں میں بیان کی گیی ہیں، لیکن طریقہ کار کو مرتب کرتے وقت قابل تصور حقوق اور مسؤلیتوں کے عنوان سے عورتوں کی انفرادی و اجتماعی خصوصیات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔
نظام کی کلی پالیسیوں سے متعلق چوتھے ترقیاتی منصوبے میں عورتوں کے امور کی اہمیت :
اس منصوبہ کی مندرجہ ذیل کلی پالیسی میں خاص طور پر عورتوں کے امور کی طرف توجہ کی گئی ہے:
١۔ ثقافتی، علمی اور ٹیکنالوجی کے قلمرو میں عورتوں کا مقام :
الف﴾ عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں اپنا رول ادا کرنے کے درجہ کو تقویت بخشنے کے لیے ملک کی ظرفیتوں اور امکانات سے منظم طور پر استفادہ کرنا:
٭۔ سافٹ ویر تحریک کو تقویت بخشنا اور تحقیق کے شعبہ کی ترویج کرنا۔
٭۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا، خاص کر جدید ٹیکنالوجی ، من جملہ حیاتیاتی ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ماحولیاتی ٹیکنالوجی، فضایی ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی میں پیشرفت کرنا۔
ب﴾ ملک کے تعلیمی نظام میں اصلاح، من جملہ تعلیم و تربیت ، ہنر کی تعلیم، اعلی تعلیم اور تعلیم و تربیت کے مد نظر منصوبہ بند پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں اقدامات کرنا۔
۲۔ سماجی، سیاسی، دفاعی اور امن و سلامتی کے امور میں عورتوں کا مقام:
الف﴾ سماجی عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے کوششیں کرنا، مساوی امکانات فراہم کرنا اور تعلیم و تربیت ، صحت و سلامتی، غذایی ضروریات پورا کرنے، آمدنی بڑھانے اور اخلاقی فساد سے مقابلہ کرنے کے امور کو تقویت بخشنا۔ ۔
ب﴾ محرومین اور مستضعفین کے حقوق کی حمایت کرنے کے لیے اور فقر و مفلسی سے مقابلہ کرنے کے لیے ، دینی اور انقلابی قدروں کی حفاظت کرتے ھویے عام اداروں ، امور خیریہ کے اداروں کی حمایت کرنا۔
ج﴾ خاندانی نظام اور اس میں عورت کے مقام و منزلت کو تقویت بخشنا اور سماجی، شرعی اور قانونی امور میں عورتوں کے تعمیری رول کی حمایت کرنا۔
د﴾فکری اور علمی رشد و بالیدگی فراہم کرنا اور عورتوں کے مشاغل، ازدواج، رہائش اور نوجوانوں کے سماجی مشکلات کے بارے میں خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔
ھ﴾ مناسب قانونی، عدلیہ اور اداری ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدام کرنا تاکہ منصوبہ بند پروگرام کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
و﴾ تعاون اور عام مشارکت کے جذبہ کو وسعت اور گہرایی بخشنا اور حکومت کو لوگوں کی عظیم صلاحیتوں سے بہرہ مند کرانا۔
ز﴾ علم اور ٹیکنالوجی کو ترقی بخشنے کی صورت میں قومی سلامتی اور اقتدار کو تقویت دے کر، سیاسی مشارکت سے ایران کو عالمی سطح پر بلند مقام تک پہنچانا۔
۳۔سیاسی مناسبات اور خارجی روابط کے امور میں عورتوں کا مقام اور اس سلسلہ میں ان کا رول:
الف﴾ بنیادی آیین کی بناپر عزت، حکمت و مصلحت اور تقویت کی رعایت کرتے ھوئے بین الاقوامی روابط کو مندرجہ ذیل طریقوں سے استحکام بخشنا:
٭۔ علاقایی اور بین الاقوامی سطح پر متقابل تعاون و ہمکاری۔
٭۔ غیر مخاصم ممالک کے ساتھ تعمیری روابط کو تقویت بخشنا۔
٭۔اسلامی ممالک کے درمیان زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
۴۔ اقتصادی امور میں عورتوں کا رول:
الف﴾ ثابت قدمی اور مناسب سرعت کے ساتھ منصوبہ بند پروگرام کے لیے اقتصادی ترقی کو متحقق کرنا۔
٭۔ روز گار فراہم کرنا اور بیکاری کی شرح کو کم کرنا۔
ب﴾ گراں بازاری کو روکنا اور کم آمدنی والے ، پسماندہ اور مستضعف گروھوں کی قوت خرید کو بڑھانا اور معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان مالی تفاوت کو کم کرنا۔
ج﴾ کم آمدنی والے اور محتاج گروھوں کی رہایش کے مشکلات کو دور کرنے کے لیے ان کی حمایت کرنا۔
د﴾ امداد باہمی ﴿ کواپریٹیو﴾ کی ظرفیت اور توانائیوں کو ارتقاء بخشنے کے لیے منابع، اطلاعات، ٹیکنالوجی اورارتباطات کی سہولیات فراہم کرنا اور اقتصادی و مالی رابطوں کو وسعت بخشنا۔
فارغ التحصیل عورتوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کی پالیسیاں:
عورتوں کو اعلی تعلیم میں مشارکت کرنے کی پالیسیوں کی فصل نمبر۷ میں فارغ التحصیل عورتوں کے مشاغل کی طرف خاص توجہ کی گئی ہے، جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا گیا ہے:
١﴾ خاندانی مسؤلیت اور شغل کے مطابق لڑکیوں کے، تعلیم حاصل کرنے کے سلسلہ میں مناسب مضامین کا انتخاب کرنا۔
۲﴾ تربیت یافتہ اور فارغ التحصیل عورتوں سے استفادہ: قومی سرمایہ کے طور پر بہ لحاظ مقدار و معیار ان کی مہارتوں سے استفادہ کرنا تاکہ ترقیاتی منصوبوں میں ان سے مناسب فایدہ حاصل کیا جاسکے۔
۳﴾ یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کی خواتین کے علمی اور ثقافتی تجربوں سے قومی اوربین الاقوامی سطح پر پورا پورا استفادہ کرنا۔
۴﴾ منابع سے استفادہ کرنے اور انھیں ضایع نہ ھونے دینے کے پیش نظر اعلی تعلیم کے نظام سے منصوبہ بند اور مناسب فایدہ حاصل کرنے کے لیے روز گار فراہم کرنے کے سلسلہ میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔
۲۰۰۸ء کی مردم شماری کی اطلاع کے مطابق ایران میں شاغل عورتوں کی شرح ٦ﺍ۸۴ فیصد بتایی گیی ہے کہ یہ تعداد گزشتہ تین دہاییوں ﴿۳۰سال﴾ کی بہ نسبت ۵ﺍ١۳ فیصد بڑھ گیی ہے ۲۰۰٦ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق شاغل عورتوں کی شرح، ملک کے کل شاغل افراد کی بہ نسبت ٦ﺍ١۳ فیصد ہے کہ یہ تعداد گزشتہ دس برسوں کی بہ نسبت ۳ﺍ١۲ فیصد اضافہ ھویی ہے۔ عورتوں کی آبادی کی بہ نسبت شاغل عورتوں کی تعداد زیادہ ھویی ہے۔
عورتوں اور خاندان کے بارے میں تحقیق سے معلوم ھوتا ہے کہ عورتوں کی کل آبادی میں سے ۵۴فیصد عورتیں شادی شدہ ہیں ،عورتوں کی یہی تعداد عورتوں کی گھریلو مسؤلیت کو انجام دیتی ہے۔
اقوام متحدہ کی کام سے متعلق رپورٹ کے مطابق، اقتصادی امور میں اس وقت ایران میں ۳۳ فیصد عورتیں مشارکت انجام دیتی ہیں اور اس کے مطابق ایران مشرق وسطی میں چھٹے نمبر پر ہے، اس طرح گزشتہ ۴۰ سال کے دوران متوسط طور پر ١۵ فیصد کا اضافہ ھوا ہے اور اس اضافہ کا اکثر حصہ حالیہ دہاییوں سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران کے روزگار کو وسعت دینے کے چوتھے اقتصادی، اجتماعی اور ثقافتی منصوبہ بند پلان میں اس پروگرام کے آخر تک عورتوں کی مشارکت کی شرح ۲ﺍ١٦فیصد تک بڑھنے کی امید کی گئی ہے۔
ملک کے اقتصادی امور میں عورتوں کی زیادہ سے زیادہ مشارکت کو ممکن بنانے کے لیے پالیسی اور طریقہ کار:
٭۔ سماجی انصاف قائم کرنے اور صلاحیتوں اور معاشرہ اور خاندان کی مصلحتوں کے مطابق منا سب مواقع فراہم کرنے اور تعلیم، صحت و سلامتی، غذائی ضروریات پورا کرنے، آمدنی بڑھانے اور برائیوں سے جنگ کرنے کے لئے کوششیں کرنا۔ ﴿ پالیسی،بند۔١۲﴾
٭۔ پیداوار بڑھانے کے عوامل﴿ انرجی،سرمایہ، کام کرنے والے افراد، پانی اور خاک وغیرہ﴾ کی رشد و بالیدگی کے لیے مناسب طریقہ کار کو اپنانا اور کام کی تخلیق، ایجادات اور علمی و تحقیقی کاموں کی حمایت اور پشت پناہی کرنا۔ ﴿ پالیسی، بند۔ ۳۷﴾
٭۔ دانش و آگاہی اور انسانی سرمایہ اور جدید ٹیکنالوجی کے منابع پر تکیہ متنوع اقتصاد کے لیے کوشش کرنا۔ ﴿پالیسی،بند۔۳۰﴾
٭۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، حیاتی اور نانو ٹیکنالوجی، ماحولیاتی ٹیکنالوجی، فضایی ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی سے قومی اور علاقایی سطح پر زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے لیے تمہیدات کو مد نظر رکھنا۔ ﴿ پالیسی، بند۔ ۴۳﴾
٭۔ روزگار فراہم کرنے، توانائیوں کو وسعت بخشنے، اجتماعی مشارکت کو تقویت دینے، مشاغل اور زندگی کے سلسلہ میں مہارتوں کی تربیت، خاص کر کم آمدنی والی عورتوں کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے سلسلہ میں منصوبہ بند پروگرام مرتب کرنا۔
٭۔ ثقافت اور آرٹ کے بارے میں قوانین و مقرارت میں اصلاح کرنا، تاکہ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں میں مشارکت کے سلسلہ میں رقابت پیدا ھو جایے۔ ﴿ بند الف، مادہ ١۴۰﴾
بعض پروجیکٹ اور منصوبے:
ساتویں پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کی ایک فرعی کمیٹی کے عنوان سے عورتوں اور خاندان کی کمیٹی تشکیل دی اور یہ کمیٹی ١۰ خواتین پارلیمنٹ ممبروں پر مشتمل تھی۔ غیر ملکی وفود کے ساتھ پارلیمانی آمدورفت کی ذمہ داری اس کمیٹی کو سونپی گیی تھی تاکہ اس موضوع سے متعلق منصوبوں کی نگرانی کی جایے۔
اس دوران عورتوں، خاندان اور بچوں سے متعلق بہت سے منصوبے اور پروجیکٹ منظور کئے گئے، ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کرتے ہیں۔:
گھر میں کام کرنے کے قواعد و ضوابط :
سرکاری ملازمین کے گھر میں کام کرنے کے منصوبے کے سلسلہ میں خواتین ملازموں، خاص کر چھوٹے بچے یا عذر رکھنے والی عورتوں یا خود یا ان کے خاندان کے افراد میں سے کسی کے خاص بیماری میں مبتلا ھونے کے حق تقدم اور ترجیحات کے اقتضاآت کو مد نظر رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر، اس منصوبہ سے استفادہ کیا جایے گا۔
آبادی اور خاندان کے بارے میں قانون کی اصلاح:
خواتین کے امور سے وابستہ مرکز کی طرف سے عورتوں اور خاندان سے متعلق قواعد و ضوابط کے سلسلہ میں اقدامات:
عورتوں کے مادی و معنوی حقوق کے احیاء کرنے اور ناروا امتیازی سلوک کو دور کرنے کے سلسلہ میں جمہوری اسلامی ایران کے منصوبہ بند پروگرام کی پالیسی، اجتماعی شعبے میں خاندان اور عورت کے مقام و منزلت کو تقویت بخشنا ہے ،جس کی ملک کے بنیادی آیین میں تاکید کی گیی ہے۔ اس منصوبے کے تحت خواتین کے شرعی اور قانونی حقوق کو چوتھے منصوبہ بند پلان میں مد نظر رکھا گیا ہے اور حکومت کو اس سلسلہ میں ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ معاشرہ میں عورتوں کے مقاصد کو تقویت بخشنے اور انھیں مناسب سہولیات فراہم کرنے اور قومی امور میں ان کی شرکت کو فعال بنانے کے سلسلہ میں حمایت کرے، اس کے علاوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق قوانین میں ترمیم کرکے عورتوں کی مسئولیتوں اور خاندانی امور کو مستحکم بنانے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دیدے، خواتین اور خاندان کے امور سے متعلق مرکز نے عورتوں کے قانونی مشکلات کو دور کرنے کے سلسلہ میں کئی اقدامات کئے ہیں اور اس بارے میں کی گئی تحقیق سے استفادہ کرتے ھوئے قانونی مشکلات کو دور کرنے کے لئے قانون سازیہ کے سامنے اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔
منظور شدہ تجاویز:
١۔ خاندان کی سرپرست عورتوں کے قبل از وقت رٹائر ھونے کے منصوبہ کا مسودہ ۔
۲۔ دودھ پلانے والی ماؤں کے تغذیہ کی ترویج اور حمایت سے متعلق ١۹۹۵ء میں منظور شدہ قانون میں ترمیم۔
۳ ۔ نرسری میں زیرتربیت بچوں کی ماؤں کو روزگار کی سہولیات فراہم کرنے کی تجویز۔
۴۔ خاندان کی سرپرست خواتین جو رفاہ عامہ کے بیمہ سے محروم ہیں، کو دیہاتی بیمہ کے صندوق سے استفادہ کرنے کی سہولیات فراہم کرنے کی تجویز۔
۵۔ خاندان کی سرپرست عورتوں کے بیمہ کے حصہ کو آجر کی طرف سے معاف کرنے کا لایحہ ۔
٦۔ ١۹۹۳ء میں منظور شدہ، خاندان اور آبادی سے متعلق قانون میں اصلاح کی تجویز۔
۷۔ عورتوں اور خاندان کی ترقی سے متعلق وسیع تر سند ۔
دیہات میں زندگی بسر کرنے والی خاندان کی سرپرست خواتین، جو رفاہ عامہ کے بیمہ سے محروم ہیں، کو دیہاتیوں کے صندوق بیمہ کی باقیماندہ رقومات سے استفادہ کرنے کو ممکن بنانا۔
فلاح و بہبود آرگنایزیشن کی حمایت سے محروم خاندان کی سرپرست محتاج خواتین کے مشکلات کو دور کرنے کے لیے حکومتی شعبہ میں موجودہ امکانات سے استفادہ کرنے کے لیے حکومت کو بعض تجاویز پیش کی گیی ہیں۔ فلاح و بہبود کی آرگنایزیشن اور وزارت رفاہ کے درمیان طے پایے ۲۰۰۸ء کے معاہدہ کے مطابق ۳۴ ہزار سرپرست خواتین کو اس معاہدہ کے تحت قرار دیا گیا ہے۔
سرپرست خواتین کے بیمہ کے حصہ کو آجر کی طرف سے معاف کرنے کا منصوبہ:
خاندان کی سرپرست خواتین کو بیمہ کے دایرہ میں قرار دینے کے لیے سہولیات اور حمایت فراہم کرنے کی غرض سے پراییویٹ کارخانوں میں ملازمت دلانے اور آجر کی طرف سے پچاس فیصد بیمہ کا حصہ معاف کرنے کے سلسلہ میں خواتین سے متعلق مرکز کی طرف سے کیبنٹ کو ایک منصوبہ پیش کیا گیا اور وزارت رفاہ و تامین اجتماعی اور وزارت کار اور امور اجتماعی کے ساتھ ماہرین کے جلسات منعقد کرنے کے بعد ۸ مئی ۲۰۰۸ ء کو کیبنٹ کی منظوری کے مطابق طے پایا کہ وزارت رفاہ اور تامین اجتماعی آجر کی طرف سے خاندان کی سرپرست خواتین کے بیمہ کا حصہ پچاس فیصد تک معاف کرنے کے سلسلہ میں ۲۰۰۸ء میں ایک کھرب چار سو چالیس ارب ریال ادا کرے گی۔
خواتین اور خاندان کے امور کو وسعت بخشمنے کی دستاویز:
خواتین کے امور کے جامع پروگرام میں، مقاصد کو مقدار و معیار کے لحاظ سے منظم اور مرتب کرنے کے سلسلہ میں اقدامات کئے گئے ہیں۔
اس غرض سے بنیادی آیین کی دفعات، خاص کر اس کے اصول نمبر ۳،١۰، ۲۰، ۲١،۲۸، ۲۹، ۳١، ۴۳، ۵٦ اور ١۵٦ میں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ۲۰۳۵ء تک عملی جامہ پہنائے جانے والے منصوبہ بند پروگرام کی دستاویز میں، چوتھے اور پانچویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ میں عورتوں اور خاندان سے متعلق منشور اور مسئولیتوں کو سر فہرست قرار دیا گیا ہے اور استناد کے مطابق اقدامات انجام دینا مقرر کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں عورتوں کے مسائل کے سلسلہ میں چلینجوں اور رکاوٹوں سے متعلق تمام قانونی مستندات، مقدار و معیار کے مقاصد، ان قوانین کو نافذ کرنے کے طریقہ کار کے علاوہ اس دستاویز میں نظم و انتظام اور نظارت کے اموربھی تدوین کئے گئے ہیں۔ پانچویں پانچ سالہ منصوبہ کے بند نمبر ۲۳۰ کے مطابق، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مربوط اداروں اور آرگنایزیشنوں ،من جملہ صدر جمہوریہ کے ﴿مرکز امور زنان و خانوادہ﴾ کے دفتر سے ہمکاری اور تعاون کرکے ، خواتین اور خاندان کے امور سے متعلق جامع ترقیاتی منصوبہ کو تدوین کرکے منظوری دی جایے تاکہ سماج میں خاندان اور خواتین کے مقام و منزلت کی حمایت کی جائے اور ان کے شرعی اور قانونی حقوق کو عملی جامہ پہنانے میں مندرجہ ذیل قانونی اقدامات کئے جایئں:
١۔ خاندان کی بنیادوں کو استحکام بخشنا۔
۲۔ خواتین اور خاندان سے متعلق قوانین اور لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنا۔
۳۔ عورتوں اور خاندان کو درپیش سماجی دشواریوں کا تدارک کرنا۔
۴۔ خاندان کی سرپرست خواتین کے روزگار کی ترجیح کو مد نظر رکھتے ھوئے ان کے اقتصادی اور معیشتی امور کو تقویت بخشنا۔
۵۔ عورتوں کے لئے فلاح و بہبود کا اقدام کرنا۔
٦۔ عورتوں کے فراغت کے اوقات۔
۷۔ عورتوں سے متعلق تحقیق۔
۸۔ عفت اور پردے کی ثقافت کو وسعت بخشنا۔
۹۔ عورتوں کی صحت و سلامتی کو تقویت بخشنا۔
١۰۔ عورتوں اور خاندان سے متعلق آرگنایزیشنوں کی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینا۔
١١۔ تعلیم یافتہ اور مدیر خواتین کی صلاحیتوں کو تقویت بخشنا۔
١۲۔ عورتوں کے بین الاقوامی تعلقات اور ان کی موثر موجودگی کو وسعت بخشنا۔
١۳۔ عورتوں کے دینی اعتقادات کو گہرائی بخشنا۔
١۴۔ عورتوں اور خاندان سے متعلق تنظیموں اور تشکیلات میں اصلاح کرنا۔
اسلامی جمہوریہ کے نظام میں ۲۲ ستمبر۲۰۰۴ء میں منظورشدہ، عورتوں کے حقوق اور مسؤلیتوں سے متلق منشور:
اسلامی جمہوریہ ایران میں عورتوں کے حقوق اور مسؤلیتوں سے متعلق منشور، اسلامی شریعت اور اس کے قانونی نظام سے الہام یافتہ ہے اور یہ منشور خداوند متعال کی معرفت اور ایمان پر مبنی ہے۔ یہ منشور عورتوں کے انفرادی، اجتماعی اور خاندانی حقوق اور مسؤلیتوں کا اہتمام کرتا ہے اور ملک کے بنیادی آئین پر مبنی ہے۔ یہ منشور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی ﴿ امام خمینی)رح(﴾ اور رہبر معظم انقلاب ﴿ آیت اللہ العظمی خامنہ ای مد ظلہ﴾ کے افکار پر مبنی ہے۔ یہ منشور ۲۰ سالہ منصوبہ بند پروگرام اور نظام کی کلی سیاست اور موجودہ قوانین سے استفادہ کرتے ھوئےخواتین کے معاشرہ میں عدل و انصاف رائج کرنے کے لئے تدوین کیا گیا ہے۔ یہ منشور ایک وسیع اور جامع نظریہ پر مبنی مرتب کیا گیا ہے، لہذا یہ ایک ایسا منشور ہے جو تمام انسانوں کی مسؤلیتوں پر مبنی حقوق، حمایتی حقوق اور مشترک حقوق پر مشتمل ہے۔
مادہ واحدہ:
اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں عورتوں کی مسؤلیتوں اور حقوق سے متعلق منشور، شورائے عالی انقلاب فرھنگی کے فرائض کے آرٹیکل نمبر ١ اور ١۸ کی بنا پر ثقافتی اور سماجی امور کی پالیسی کے ایک دستاویز کے عنوان سے ہے اور یہ منشور ۳ حصوں، ۵ فصلوں اور ١۴۸ شقوں پر مشتمل ہے، اور شوری عالی انقلاب فرھنگی کے ۵۴٦ ویں جلسہ میں ۲۲ ستمبر۲۰۰۴ء کو منظور کیا گیا ہے۔ اور اس سے متعلق تمام ادارے ذمہ داری رکھتے ہیں کہ اداری اور سازمان کے فرائض کے مطابق اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں قانونی تدابیر، عورتوں کے بارے میں فیصلے اور پروگرام مرتب کرنے میں اس منشور کی رعایت کریں۔ اس منشور کا یہ بھی مقصد ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں خواتین کے مقام و منزلت کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کیا جائے۔
مذ کورہ منشور کے بارے میں چند اہم نکات:
٭۔ اس منشور میں حق کے معنی توانائی، امتیاز اور تحفظ ہیں اور مسؤلیت کے معنی وہ ذمہ داری ہے جو عورت دوسروں کی بہ نسبت رکھتی ہے ۔
٭۔ جن مواقع پر ذمہ داری معاشرہ کے افراد سے متعلق ھو اور عورتیں اس ذمہ داری کے نتائج کی مالک ھوں، وہ ذمہ داری عورتوں کے حق کے عنوان سے ذکر کی گئی ہے اور عورتوں کی نسبت دوسروں کی براہ راست ذمہ داری بیان کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
٭۔ چونکہ اسلامی قوانین میں، خدا، خود، معاشرہ اور ھستی کے سامنے افراد مسؤل ہیں، اس لئے کوشش کی گئی ہے کہ عورتوں کی مسؤلیت بھی مذکورہ موارد کے بارے میں ذکر کی جائے۔ ظاہر ہے کہ عام ذمہ داری کے شرائط ﴿ عقل، بلوغ و ارادہ وغیرہ﴾ کے نہ ھونے کی صورت میں عورتیں بھی مسؤلیت سے عاری ھوں گیں۔ اس کے ضمن میں، لفظ “حق” یا “مسؤلیت” کا استعمال کرکے مذکورہ مسئلہ سے عورتوں کے رابطہ کی صورت معین کی گئی ہے۔
٭۔ کوشش کی گئی ہے کہ عورتوں کی تمام مسؤلیتیں اور حقوق، من جملہ وہ حقوق جو مرد اور عورتوں کے درمیان مشترک ہیں اور یا عورتوں سے مخصوص حقوق ہیں، کو ذکر کیا جائے۔
٭۔ یہ منشور عورتوں سے متعلق مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ﴿ فقہ شیعہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکومتی نظام کے مطابق﴾ نظریہ پیش کرتا ہے اور دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ خاص طور پر عورتوں کے مسائل پر گفتگو کرنے کے سلسلہ میں محور قرار پاسکتا ہے اور اس طرح دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر تعاون و اتفاق نظر کے سلسلہ میں ایک اور دستاویز تدوین کرنے میں ایک قدم شمار کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دستاویز تمام اداروں میں عورتوں کے امور کے بارے میں سیاست گزاری، منصوبہ بندی اور قانون گزاری کی بنیاد ھوسکتی ہے۔
چوتھی فصل
خواتین کی سیاسی سر گرمیاں
*****
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ، عورتوں کے سیاسی حقوق کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا گیا۔ یہ وہ نظریہ تھا، جس کے مطابق اسلامی قوانین کی رعایت کرتے ھوئے، عورتیں وسیع پیمانہ پر سیاست میں فعالیت کرسکتی ہیں۔
اس نظریہ کو پیش کرنے میں رہبر انقلاب حضرت امام خمینی ﴿رح﴾ کا کلیدی اور بنیادی رول رہا ہے۔ انقلاب سے پہلے مظاہروں میں عورتوں کی شرکت کے سلسلہ میں موصوف کی تاکیدیں اور نصائح اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انتخابات میں عورتوں کی شرکت کرنے کی تاکید سے معلوم ھوتا ہے کہ امام خمینی ﴿رح﴾ حقیقی معنوں میں عورتوں کے سیاسی حقوق کے قائل تھے۔ حقیقت میں اسلامی جمہوریہ کے نظام کے متحقق ھونے میں وسیع پیمانے پر عورتوں کی شرکت ناگریز تھی اور اس امر کے متحقق ھونےسے معلوم ھوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام کا حقیقی نظریہ عورتوں کی سیاست میں شرکت کرنا ہے۔
دوسری جانب عورتوں کے سیاسی حقوق کے بارے میں امام خمینی﴿رح﴾ کا نظریہ ایک بلند پایہ مجتہد و فقیہ کے نظریہ کے عنوان سے تمام علماء اور فقہا کے لئے قابل توجہ تھا اور یہ نظریہ دینی نظریات میں پیش کیا گیا، جس کے نتیجہ میں عورتوں کے سیاسی حقوق کو باضابطہ طور پر پہچانا اور تسلیم کیا گیا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کلی طور پر، عورتیں مردوں کے مانند معاشرہ میں سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کرسکتی ہیں یا مردوں کے برابر سیاسی سرگرمیوں میں موثر طور پر حصہ لے سکتی ہیں۔
سیاسی میدان میں شرکت کرنے کی سب سے اہم خصوصیت ووٹ دینے کا حق اور سیاسی عہدوں پر فائزہونا ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد عورتوں نے ان دونوں جہات سے ترقی کی ہے ۔ عوامی اجتماعات، ریفرنڈموں ، مظاہروں اور ووٹ ڈالنے میں عورتیں مردوں کے برابر بلکہ مردوں سے فعال تر صورت میں شرکت کرتی ہیں۔
دوسری جانب، ایرانی عورتوں کو بخوبی معلوم ھوا ہے کہ ایک بیوی اور ماں کے عنوان سے گھر میں ان کا رول ناقابل انکار ہے اور ان کے لئے اولاد کی تربیت کرنا کافی اہمیت رکھتا ہے۔ ایرانی عورتیں گھر سے باہر سرگرمیوں کے سلسلہ میں سیاسی عہدوں کی بہ نسبت ، تعلیم کو جاری رکھنے اور علمی و ثقافتی رشد و بالیدگی حاصل کرنے کی زیادہ ترمتمنی ہیں۔ لیکن انھوں نے بخوبی ثابت کیا ہے کہ اگر وہ کسی سیاسی عہدے پر فائز ھو جائیں، تو اس ذمہ داری کو شائستہ صورت میں انجام دے سکتی ہیں۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ موجودہ حالت اور بیشتر مہارتوں کو حاصل کرنے اور علمی، سیاسی اور مدیریتی تجربوں کو حاصل کرنے کے پیش نظر مستقبل میں عورتیں زیادہ سے زیادہ سیاسی عہدوں پر فائز ھوں گی۔
ایرانی عورتوں میں اس قدر سیاسی بالیدگی پیدا ھوئی ہے کہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کے موجودہ معاشرہ میں، سیاسی جماعتوں کی طرف سے عورتوں اور لڑکیوں کو مدنظر رکھنا ایک نا گزیر امر بن گیا ہے ۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، عورتوں کے سیاسی و سماجی حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی جدید تفسیر کے پیش نظر عورتوں کے لئے عملا بھی فعالانہ۔ صحیح اور حقیقی صورت میں ایران کے سیاسی و اجتماعی معاشرہ میں سیاسی اور اجتماعی مسائل میں شرکت کرنے کے مواقع فراہم ھوئے ہیں۔ اور عورتوں کو زیادہ سے زیادہ سیاسی و اجتماعی حقوق ملے ہیں۔
سیاسی سرگرمیاں:
انقلاب مشروطہ کی کامیابی میں عورتوں کا رول قابل توجہ رہا ہے۔ قاچار حکومت کے اواخر میں ﴿انگلستان کی﴾ رایٹر ﴿کمپنی﴾ کو تمباکو کے سلسلہ میں غیر معمولی امتیازات دئے جانے کے خلاف میرزا شیرازی کے تمباکو کوحرام قرار دینے کے فتوی کو عملی جامہ پہنانے میں ایرانی خواتین کے نمایاں رول کو سیاسی صاحب نظر افراد نے قابل تحسین قرار دیا ہے۔ مشروطہ کے حامیوں کی کامیابی کے بعد ملک کا پہلا بنیادی آئین تدوین کرتے ہوئے لوگوں کو حق رائے دہی دیتے وقت عورتوں کے سیاسی حقوق سے چشم پوشی کی گئی اور عورتوں کو معاشرہ کے اطفال ، دیوالیہ ھوئے افراد ، اور قتل و سرقت کے مرتکبین کی فہرست میں قرار دیا گیا اور انھیں ووٹ دینے سے بھی محروم کیا گیا۔ ﴿ قانون انتخابات مجلس شورای ملی منصوبہ ۲۹ مہر ١۲۹۰ھ ش مطابق ۲١ اکتوبر ١۹١١ء﴾
پہلوی دور کے شروع ھوتے ہی تجد د پسندی کی تحریک بھی شروع ھوئی لیکن ڈیموکریٹک تنظیموں کو شاہ کے ذاتی مفادات سے تضاد رکھنے کی وجہ سے سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔ حقیقت میں پہلوی دور کی تجدد پسندی کو پشت پناہی سے عاری جانا جاسکتا ہے اوراسے غرب پسندی کے پوز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اسی زمانہ میں پہلی بار عورتوں کے حقوق کا بحران نمایاں ھوا، اس طرح کہ ١۷دی ١۳١۴ھ ش ﴿۷جنوری ١۹۳٦ء﴾میں ،کشف حجاب، کے سلسلہ میں ایران کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے مراجع اور دینی علماء کی حمایت میں اس جبری اقدام کی مخالفت کی۔ حقیقت میں پہلوی سلطنت کے زمانہ میں عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں اور ان کے ساتھ اطفال اور دیوانوں کا جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا اور انھیں سیاست میں حصہ لینے سے محروم رکھا جاتا تھا۔
محمد رضاشاہ کی سلطنت کے زمانہ میں عورتوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے والا قانون ١۹٦۲ء تک باقی اور نافذالعمل تھا۔ بعض معاصر مورخین کا عقیدہ ہے کہ پہلوی دوم کے زمانہ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق عطا کرنا ساٹھ کی ابتدائی دہائیوں کے دوران اس سے نا جائز فائدہ اٹھانے کی ایک ریشہ دوانی تھی۔ اس کا صرف یہ نتیجہ نکلا کہ معاشرہ کے بلند اور خاص طبقات کی کچھ عورتیں کچھ سیاسی عہدوں پر فائز ھوئیں اور اس طرح حکومت کو عوام الناس کو دھوکا دینے کے لئے پروپیگنڈا کا بہانہ ہاتھ آیا کہ معاشرہ میں عورتوں اور مردوں کے حقوق محفوظ ہیں، لیکن عورتوں کو ووٹ کا حق ملنے کا اصلی مقصد عام عورتوں کے لئے سیاست میں سرگرم عمل ھونے کے لئے مناسب موقع کبھی ان کے لئے حاصل نہیں ھوا۔
انتخابات کے قانون کی دفعہ نمبر ١۵ کے مطابق عورتوں کو ان افراد میں شامل کیا گیا تھا، جو قانونی طور پر نا بالغ تھے اور ان کے لئے یہ قانونی رکاوٹ تھی۔ اور اس طرح انھیں ووٹ دینے سے محروم کیا گیا تھا۔ اس کی حکومت کے دوران کبھی عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں اور انتخابات میں شرکت کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔
یہ قانون، محمد رضاشاہ پہلوی کے زمانہ میں بھی ١۹٦۲ء تک نافذ العمل تھا اور اس سال تک عورتیں انتخابات میں حصہ لینے کے حق سے محروم تھیں۔ ۳مارچ ١۹٦۲ء کو کیبنٹ نے منظورشدہ ایک فیصلہ کا اعلان کیا، کہ شاہ کے حکم سے عورتیں آئندہ انتخابات میں شرکت کرسکتی ہیں۔
امام خمینی ﴿رح﴾ اپنی مخصوص دور اندیشی اور درایت سے صوبائی اور ولایتی انجمنوں کے قانون کے بارے میں حکومت کی سیاست کو سمجھ گئے اور اس سلسلہ میں ۹اکتوبر ١۹٦۳ء کو شاہ کے نام ایک اعتراض آمیز خط لکھا اور اس خط میں محمد رضا شاہ کے گوش گزار کیا تھا کہ دین مخالف مطالب کو حکمومت کے منصوبوں سے حذف کرے۔ امام خمینی﴿رح﴾ کی مخالفت اس لئے تھی کہ وہ بخوبی سمجھ گئے تھے کہ پہلوی حکومت کی طرف سے عورتوں کو ووٹ دینے کے حق کے پیچھے، عورتوں کی سیاست میں شرکت کرنا مراد نہیں تھا، بلکہ وہ اس سیاست سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ﴿ واقعہ کشف حجاب، ١۳۷۳ ھ ش ص ۲۷﴾
حکومت کی طرف سےعورتوں کو ووٹ دینے کے حق کے بارے میں مخالفت کے سلسلہ میں امام خمینی ﴿رح﴾ کا نظریہ یہ تھا کہ،:“ہم عورتوں کی ترقی کے مخالف نہیں ہیں، ہم اس فحشا کے مخالف ہیں، ان برے کاموں کے مخالف ہیں ۔ کیا اس ملک میں مردوں کو آزادی حاصل ہے کہ عورتوں کو بھی آزادی ملنی چاہئے؟۔ ۔ ۔ ”﴿صحیفہ نور، ج ١، ص ۸۰﴾
ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:“ ہم کہتے ہیں کہ عورتوں کو آزادی کے نام پر فساد کی طرف نہ کھینچئے اور انھیں گمراہ نہ کیجئے۔ ۔ ۔” ﴿ایضا، ص ١۹﴾
قومی مجلس شوری اور سنا:
١۹٦۳ء کے پارلیمنٹ انتخابات میں، عورتوں کا پہلا گروہ، “آزاد زنان اور آزاد مردان کانفرنس،” کے منڈیٹ پر پارلیمنٹ میں داخل ھوا۔
حقیقت میں بعض سیاسی مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ سنیٹ اور قومی اسمبلی میں داخل ھونے کی ان ہی عورتوں کو اجازت ملتی تھی، جو حکومت کی پالیسی اور سیاست کی ہاں میں ہاں ملانے والی ھوں۔
قومی اسمبلی کے اکیسویں انتخابات، ١۹٦۳ء میں اس حالت میں انجام پائے کہ بہت سی سیاسی پارٹیوں نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ امید واروں کی طرف سے نام درج کرانے سے کچھ ہی مدت پہلے، “آزاد مردان و آزاد زنان کانفرنس،” تشکیل پائی اور فورا اس جدید تنظیم کی طرف سے انتخابت میں شرکت کرنے کے لئے امید واروں کی ایک فہرست پیش کی گئی۔ یہ فہرست، حسن علی منصور ﴿ نمایندہ روشن فکران﴾، حسن زاھدی ﴿ نمایندہ اصلاحات ارضی﴾، عطاا۔ ۔ ۔خسروانی﴿ وزیر کار﴾، مغیانی ﴿ رئیس دفتر شاہ﴾ اور احمد نفیسی﴿ آزاد مردان و آزاد زنان کانفرنس کے سیکریٹری﴾ نے مرتب کی تھی اور ساواک اور شاہ کی تائید کے بعد یہ فہرست وزارت داخلہ کو دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہی لوگ قومی اسمبلی میں جانے چاہئیں۔ اس طرح اس قومی اسمبلی کے لئے منتخب ھوئےتمام نمائندے، شاہ کی طرف سے تائید شدہ فہرست کے افراد تھے۔ اس طرح پہلی بار چھ عورتیں بھی قومی اسمبلی می داخل ھوئیں۔ ان افراد میں ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی جرات کرتا بلکہ یہ سب کے سب کٹھ پتلی تھے۔
اس قومی اسمبلی کی صدارت، “فراماسون” کے ایک عضو انجینئر عبداللہ ریاضی کو سونپی گئی، جو عوام اور سیاسی محافل میں مشہور نہیں تھا۔﴿ سایٹ موزہ مجلس شورای اسلامی ایران﴾۔
قومی اسمبلی کی نمایندگی کے لئے حکومت کے مجہول معیاروں کے ضمن میں کچھ فرعی مسائل تھے، جن سے عصر پہلوی کا اخلاقی تنزل آشکار ھوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ، مھین دخت صنیع، وہ عورت تھی جو تئیسویں اور چوبیسویں قومی اسمبلی کی نمایندہ منتخب ھوئی، اس کا انتخاب صرف اس کی جنسی جاذبیت کی وجہ سے تھا۔ ﴿ ظہور و سقوط سلطنت پہلوی، خاطرات حسین فردوسی، ج١، تہران، انتشارات اطلاعات، ص ۲۸۳﴾
اس راہ سے قومی مجلس تک پہنچنے والی دوسری عورتوں میں ، پری ابا صلتی، تھی، جو پہلوی دربار کی بدکار ترین عورت تھی ۔ وہ فرح کے حکم سے قومی اسمبلی کی نمایندہ بنی تھی۔ ﴿ فریدہ دیبا، دخترم فرح، ص ١۳۷﴾
عورتوں کی سیاسی مشارکت کے لئے زمین ہموار ھونا:
١۵ خرداد ١۳۴۲ء﴿ ۵جون ١۹٦۳ء﴾ کے خونین حادثہ کے تقریبا ۲۰ سال بعد ، یعنی ١۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عام انتخابات کے دوران، عورتوں کا ووٹنگ میں حصہ لینا نہ صرف اسلامی جانا گیا بلکہ اسے عورتوں کے مسلم حق کے عنوان سے تسلیم کیا گیا اور حتی کہ مراجع تقلید نے بھی اعلان کیا کہ عورتوں کے لئے اول اپریل ١۹۷۹ء کے ریفرنڈم میں شرکت کرنا ضروری ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، عورتوں نے مختلف انتخابات میں مردوں کے دوش بدوش شرکت کی اور ہمیشہ مختلف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے فعالانہ اور موثر طور پر میدان عمل میں آگئیں۔
معاشرہ کے مختلف عہدوں اور منصبوں میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اگر چہ عورتیں مختلف وجوہات، من جملہ ضروری سیاسی مہارت اور تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے معاشرہ کے سیاسی اور مدیریتی عہدوں پر کم تر حاضر ھوئی ہیں، لیکن ان کے لئے ایڈ منسٹریشن میں فعالانہ داخل ھونے کی راہیں کھل گئیں اور وہ اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو ثابت کرکے اور ضروری تجربے حاصل کرکے بلند مقامات اور عہدوں پر فائز ھونے کی قابلیت پیدا کرنے میں کامیاب ھوئی ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور مسئلہ ثقافتی تبدیلی ہے، جو عورتوں کی سیاست میں شرکت کرنے کے بارے میں رونما ھوئی ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے، سیاست میں عورتوں کی شرکت، حکومت کے افراد اور سرکاری پالیسی سے ہم فکری رکھنے والوں تک محدود تھی اور حکومت کے، دینی تعلیمات کی نسبت پابند نہ ھونے کی وجہ سے بنیادی طور پر عام لوگ عورتوں کی سیاست میں شرکت سے راضی بھی نہیں تھے، اور خود عورتیں بھی اپنے دینی اعتقادات کی وجہ سے اس قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ﴿حکومت کی طرف سے بالفرض عدم ممانعت کے باوجود﴾ پرہیز کرتی تھیں۔ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، حکومت کی دینی و مذہبی ماہیت اس امر کا سبب بنی کہ عورتیں بھی اپنے دینی اعتقادات اور قدروں کی حفاظت کرتے ھوٴئے سیاست میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لیں، اور نہ صرف خود خواتین اس سلسلہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتی ہیں، بلکہ عام لوگ بھی عورتوں کی سیاست میں شرکت کرنے کے بارے میں مثل سابق بدظنی نہیں رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ طریقہ کار اور زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنے کے علاوہ سیاست اور مدیریت میں عملا تجربہ حاصل کرنے کے پیش نظر مستقبل میں عورتیں سیاسی عہدوں اور منصبوں پر زیادہ سے زیادہ فائز ھوں گی۔
سیاست میں عورتوں کی شرکت کے سلسلہ کی تحقیق کے پیش نظر اسلامی انقلاب کے بعد اس مسئلہ کی طرف خاص توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی طور پر اکثر ممالک ،خاص کر ترقی پذیر ممالک میں عورتیں مردوں کی بہ نسبت سیاست میں کم تر حصہ لیتی ہیں۔ سویڈن وہ ملک ہے، جہاں پر مرد اور عورت کے مساوی ھونے کا چرچاہے، لیکن وہاں پر بھی ابھی تک عورتوں کی نمایندگی ۴۰ فیصد سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ دنیا کے ١۷٦ ممالک میں عورتوں کی نمایندگی کی شرح صرف ٦ﺍ١١ فیصد ہے۔ براعظم ایشیاء کے ۲١ ممالک میں یہ شرح ۲ﺍ١۳ فیصد ہے جبکہ ١٦ مغربی ممالک میں یہ شرح صرف ۳ﺍ۴فیصد ہے۔ چین جیسے ملک میں، جہاں پر ۳۳ فیصد سیاسی افراد عورتوں پر مشتمل ہیں،کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی میں صرف ١ﺍ۴ فیصد عورتیں اور چین کی عوامی اور قومی پارلیمنٹ میں صرف ۸۵ﺍ۳ فیصد عورتیں ہیں۔ جنوبی کوریا میں بھی اقتصادی ترقی کے باوجود پارلیمنٹ کی کل نشستوں میں سے ایک فیصد پر عورتیں فائز ہیں اور ١۹۷۰ء سے ١۹۹۰ء تک ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز عورتوں کی شرح ۴ فیصد ثابت رہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ھوئی ہے۔ ترکیہ میں بھی ١۹۹۵ء کے انتخابات میں صرف ۲ﺍ۴ فیصد عورتیں نمایندہ کی حیثیت سے منتخب ھوئی ہیں۔ جاپان میں بھی ۵۰۰ نمایندوں کی پارلیمنٹ اور ۲۵۲ میں صرف ۹ فیصد نمایندے اور عورتیں ہیں، جبکہ صرف ایک عورت کیبنٹ میں موجود ہے۔ بعض ممالک میں، عورتوں کی سیاست میں سرگرمی کے بارے میں ایسی ذہنیت پائی جاتی ہے، جو عملا عورتوں کی سیاسی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ بنی ہے۔ مثال کے طور پر، تھائی لینڈ میں عورتوں کی ایک بڑی اکثریت، مردوں کو اپنے سے برتر جانتی ہے اور سیاسی اور ملکی مسائل میں فیصلہ کرنے کا حق صرف مردوں تک محدود جانتی ہے اور مردوں کے حق میں دست بردار ھوتی ہے۔ عورتوں کی یہ عظیم اکثریت اس طرز و تفکر کی وجہ سے اپنی ہم جنس عورتوں کا انتخابات میں ساتھ نہیں دیتی ہے اور ان کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر ایران کی عورتوں کے ووٹ دینے اور سیاسی عہدوں پر فائز ھونے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد نہ صرف عورتوں کی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی گئی ہے بلکہ تدریجا خواتین کی مشکلات بھی حل ھوگئ ہیں۔
عورتیں، سیاست میں:
عورتوں کی شرکت کے سلسلہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین میں واضح پالیسی بیان کی گئی ہے۔ اس آئین میں نہ صرف جنسیت کے لحاظ سے لفظی اور معنوی طور پر کوئی امتیاز نہیں ہے بلکہ عورتوں کی تمام ابعاد میں مشارکت کے لئے قانونی راہ فراہم کی گئی ہے۔ اتناہی نہیں بلکہ اس آئین میں عورتوں کی خاندانی اور اجتماعی لحاظ سے بھی حمایت کی گئی ہے اور یہ اسلامی انقلاب کی طرف سے عورتوں کے مسائل کے بارے میں بہتر نظریہ کی دلیل ہے۔ ملک کے بنیادی آئین کی دفعہ نمبر ٦۲ کی بنا پر اسلامی پارلیمنٹ قوم کے ان نمایندوں پر مشتمل ھوتی ہے، جو عوام کے براہ راست اور مخفی ووٹنگ سے منتخب ھوتے ہیں ۔ اس دفعہ میں اس بات کا اشارہ نہیں ملتا ہے کہ منتخب ھونے والے اور انتخاب کرنے والے کسی خاص طبقہ یا کسی خاص جنسیت سے تعلق رکھتے ھوں۔ ملک کے بنیادی آئین کی ایک اور دفعہ میں ، اسلامی پارلیمنٹ کے ممبروں کی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس میں اس مسئلہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبروں کی یہ تعداد مردوں یا عورتوں پر مشتمل ھونی چاہئیے۔ یہ موضوع، دینی اقلیتوں سے متعلق نمایندوں کے بارے میں بھی صادق ہے، وہ بھی اختیار رکھتے ہیں کہ اپنی طرف سے پانچ نمایندوں کو اسلامی پارلیمنٹ میں بھیجدیں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ نمایندے مرد ھوں یا عورتیں ﴿ آئین کی دفعہ نمبر ٦۴﴾
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، عورتوں نے ہرسال قانون سازیہ کی پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی شرکت کی ہے اور نمایندہ کے عنوان سے منتخب بھی ھوئی ہیں۔ محترمہ منیرہ گرجی فرد بنیادی آئین کی آخری تحقیق کرنے والی پارلیمنٹ کی پہلی عورت نمایندہ تھیں وہ تہران کے حلقہ انتخاب سے منتخب ھوئی تھیں اور اس پارلیمنٹ کے تیسرے گروہ کی رکن بن گئی تھیں۔ اس گروہ کا کام قوم کے حقوق اور عام نظارت کی تحقیق کرنا تھا۔ ﴿ اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کی تحقیق کے بارے میں مذاکرات کی تفصیل، تہران، ادارہ تبلیغات و انتشارات مجلس، ١۳٦۸ ھ ش ، ج ۴ ص ۳١۸۔۔۴۴۴﴾
خواتین کی اسلامی پارلیمنٹ کی نمایندگی حاصل کرنے کے لئے سیاست میں حصہ لینا قابل توجہ ہے۔ پہلی اسلامی پارلیمنٹ کے انتخابات ﴿١۹۸۰۔۔١۹۸۴ء﴾ میں چار خواتین نمایندہ تھیں اور دوسرے دور ﴿ یعنی ١۹۸۴۔ ١۹۸۸ء﴾ میں بھی چار خواتین نمایندہ تھیں ۔ پارلیمنٹ کے پہلے اور دوسرے انتخابات میں پارلیمنٹ کے کل نمایندوں کی تعداد کی بہ نسبت عورتوں کی شرح ٦ﺍ١ فیصد تھی۔ ﴿ پارلیمنٹ کے پہلے دور میں محترمہ بہروزی، محترمہ دستغیب ، محترمہ رجائی اور محترمہ طالقانی ممبر تھیں اور پارلیمنٹ کے دوسرے دور میں محترمہ بہروزی، محترمہ دستغیب، محترمہ دباغ اور محترمہ رجائی پارلیمنٹ کی ممبر تھیں﴾
پارلیمنٹ کے چوتھے انتخابات میں، پہلی بار اصفہان، مشہد، کرمانشاہ اور تبریز سے بھی چند خواتین نمایندوں کا اضافہ ھوا۔ پانچویں اسلامی پارلیمنٹ ﴿ ١۹۹٦۔۔ ۲۰۰۰ء﴾ میں خواتین نمایندوں کی تعداد ١۴ افراد تک بڑھ گئی۔
اسلامی پارلیمنٹ میں عورتوں کے نمایندوں کے اضافہ ھونے سے عورتوں کے حقوق کے بارے میں منصوبوں کو منظور کرانے میں عورتوں کے لئے موثر رول ادا کرنا ممکن بن گیا۔
پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمایندگی میں اضافہ ھونے اور عورتوں کا تعلیمی معیار بڑھنے کے نتیجہ میں، عورتوں نے اپنے حقوق منوانے میں موثر رول ادا کیا اور اس سلسلہ میں زیادہ فعال ھوئیں ۔ خواتین، نوجوانوں اور خاندان سے متعلق کمیٹی اور عورتوں کے پارلیمانی گروہ کی تشکیل خواتین اور خاندان سے متعلق بیشتر قوانین منظور ھونے کا سبب بنیں ۔
آج ایران میں خواتین، اسلامی پارلیمنٹ کی نمایندگی ، وزارت، نائب صدر جمہوریہ، بلدیہ اور وکالت جیسے عہدوں پر فائز ھوتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، اسلامی انقلاب نے عورتوں کے لئے سیاسی اور سماجی میدان میں شرکت کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں ۔ عورتوں کی یہ سرگرمیاں اسلامی انقلاب کے تمام مراحل میں، من جملہ ١۹۷۹ءسے قبل انقلابی مبارزہ کے دوران ، ٹھونسی گئی جنگ سے متعلق سرگرمیوں اور جنگ کے بعد والی کارکردگیوں کے دوران جاری رہی ہیں۔ خواتین کی یہ شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین ملک کے نازک حالات میں خاموش نہیں بیٹھی ہیں، بلکہ ملک کے مختلف میدانوں میں سرگرم عمل رہی ہیں اور ان کی سر گرمیوں کے لئے مواقع بھی فراہم تھے ۔
البتہ معلوم ھوتا ہے کہ پارلیمنٹ اور بلدیہ کی شوری میں عورتوں کی موجودہ نمایندگی کی بہ نسبت ان کی تعداد زیادہ ھونی چاہیئے تاکہ پارلیمنٹ اور بلدیہ کے منظور ھونے والے قوانین میں وہ اپنا مناسب رول ادا کرسکیں۔
خواتین اور چوتھا ترقیاتی منصوبہ:
ملک کا چوتھا ترقیاتی منصوبہ، سب سے پہلا قانونی پروگرام ہے جو ایک طویل مدتی منصوبے پر مبنی ہے﴿ بیس سالہ منصوبہ بند پروگرام کی سند﴾ اور اسی کے مطابق مرتب ھوا ہے۔ چونکہ بیس سالہ منصوبہ بند پروگرام ایک طویل مدتی منصوبہ بند پروگرام ہے،اس لئے اس کی سند کی ١۴ ویں شق خواتین سے مخصوص ہے۔ اس شق میں خواتین کے شرعی اور قانونی حقوق کی وضاحت طلب کی گئی ہے اور خاندان اور سیاسی و اجتماعی میدان میں ان حقوق کو حاصل کرنے کے لئے خواتین کے تعمیری رول کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔
اس پروگرام میں کئی بند عورتوں کے مسائل سے متعلق مخصوص کئے گئے ہیں، من جملہ:
شق ۳۰ کے مطابق، حکومت کا فرض ہے کہ اسلامی جمہوریہ اہران کے بنیادی آئین کی دفعہ ۳١ کو نافذ کرنے کے سلسلہ میں، بے سرپرست خواتین کے لئے رہائشی مکان بنانے والوں کو سبسڈی دی جائے۔ شق ۴۵ کے مطابق نافذالعمل اداروں کا فرض ہے کہ اپنے بجٹ کے ایک حصہ کو ملازموں خاص کر خواتین کی تعلیم و تربیت پر خرچ کریں۔ اس پروگرام کی شق نمبر ٦۹ میں خاندان کی سرپرست عورتوں کے بیمہ کے سلسلہ میں حمایت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ شق نمبر ۷۹ میں خاندان کی سرپرست خواتین کی توانائیوں کو بڑھانے کے سلسلہ میں دوسرے اداروں اور غیر سرکاری مؤسسات کے تعاون و ہمکاری سے کام انجام دینے کو مد نظر رکھا گیا ہے، کہ اس سلسلہ میں پہلے سال کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران اس قانون کو کیبنٹ کی منظوری حاصل کی جانی چاہئیے۔ اس شق میں، حاجتمند خاندانوں اور بے سرپرست عورتوں کے ماہانہ وظیفہ میں ۴۰ فیصد اضافہ کی سفارش کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ، ۸۹ ویں شق میں خواتین کے قانونی، سماجی اور اقتصادی حقوق کو تقویت بخشنے کے لئے ایک جامع منصوبہ مرتب کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور شق نمبر ١۰۰ میں عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں سماجی تنظیموں کی رشد و بالیدگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ شق ١۰١ میں زن و مرد کے کام کے مقابلے میں تنخواہیں مساوی ھونے کی تاکید کی گئی ہپے ، جس سے عورتوں کی قدر و منزلت ،زن و مرد کو مواقع فراہم کرنے میں مساوی حقوق اور عورتوں کے لئے مناسب روز گار فراہم کرکے ان کی توانائیوں کو تقویت بخشنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شق ١۰۲ میں عورتوں کی کواپریٹیو سو سائیٹوں میں فعالیت کے سلسلہ میں ان کی توانائیوں کو وسعت بخشنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اس سلسلہ میں ضروری سماجی تعامل برقرار کیا جاسکے۔ شق ١١١ میں حکومت پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ عورتوں کے لئے معاشرہ میں ان کے مقاصد کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں ان کی تقویت کی جائے اور ان کے لئے روزگار فراہم کرنے کے ضمن میں مندرجہ ذیل امور میں ان کی وسیع پیمانہ پر شرکت کے سلسلہ میں ضروری اقدامات کئے جائیں:
١۔ عورتوں کی مشارکت کے منصوبہ بند پروگرام کی تدوین، منظوری اور نفاذ۔
۲۔ خاندان کو استحکام بخشنے کے لئے قوانین مرتب کرنا۔
۳۔ عورتوں کی غیر سرکاری تنظیموں کی حمایت کرنا۔﴿ چوتھے ترقیاتی منصوبہ کے قانون کے دفعات، ١١١، ١۰۲، ١۰١، ١۰۰، ۸۹، ۷۹،٦۹، ۴۵ اور ۳١﴾
اس بناپر، چوتھے منصوبہ بند ترقیاتی پروگرام میں، عورتوں کی ہرجہت سے ترقی کرنے کے قانون کی کمی کا اعتراف کرکے کوشش کی گئی ہے کہ کلی رہنمائیوں کو پیش کرکے ملک کا پروگرام مرتب کرنے والوں کو اس سلسلہ میں مناسب قوانین مرتب کرکے انھیں منظوری دیدیں، تاکہ عورتوں کی ہمہ جہت ترقی ممکن ھوسکے اور ان کی حالت بہتر ھو جائے۔
“شورائے عالی انقلاب فرھنگی” میں شورائے فرھنگی و اجتماعی کی ریاست میں عورتوں کی رکنیت ، حالیہ برسوں کے دوران عورتوں کی پیشرفت کی ایک اور دلیل ہے۔ اسی طرح، ملک کے ماحولیات کی سیاست، ماحولیات کی حفاظت کرنے والی کونسل کی رکنیت اور وزارت صحت کے کلیدوں عہدوں پر خواتین فائز تھیں۔ اس کے علاوہ ،،شوراہائے اسلامی کار،، ان شوراؤں میں شمار ھوتی ہے، جن کے کلیدی عہدوں پر خواتین فائز ھوئی ہیں اور ان شوراؤں کے مرکزی دفتر میں کئی خواتین مختلف عہدوں پر فائز رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ١۹۷٦ء سے ۲۰۰٦ء تک کی مدت کے دوران مردوں اور عورتوں کے،مدیریت، قانون سازیہ اور دیگر کلیدی عہدوں پر فائز ملازموں کی شرح میں نمایاں ترقی ھوئی ہے، جس سے معلوم ھوتا ہے کہ مدیریت کے عہدوں پر جنسی تفاوت کافی حد تک کم ھوا ہے۔ اس طرح حالیہ ۳۰ برسوں کے دوران مردوں کی شرح پیشرفت ۳۸۹ فیصد اور عورتوں کی یہ شرح ۲١۷۲ فیصد تھی۔ ﴿صدرجمہوریہ کے خواتین سے متعلق شعبہ کی ١۹۷٦ء سے ۲۰۰٦ء تک خواتین کے حالات میں تبدیلی کی رپورٹ﴾
عورتوں کے حقوق اور سیاسی مسؤ لیتیں:
“شورائے عالی انقلاب فرھنگی” میں ۲۰۰۴ء میں منظور شدہ عورتوں کے حقوق اور مسئولیتوں سے متعلق منشور کی چوتھی فصل کے دوحصوں میں عورتوں کی داخلی اور خارجی سیاست کی مسؤلیت مشخص کی گئی ہے، اور یہ حقوق اور مسؤلیتیں حسب ذیل ہیں:
الف﴾ داخلی سیاست میں عورتوں کے حقوق اور مسؤلیتیں:
١۔ اسلامی نظام کو تحفظ بخشنے کے سلسلہ میں ملک کے بنیادی مقدرات کو معین کرنے کے لئے آگاہی، مشارکت اور موثر رول ادا کرنے کے لئے مسؤلیت۔
۲۔ معاشرہ کے امور میں مسؤلیت اور مشارکت کا حق اور معاشرہ کو معنویت اور اخلاقی فضائل کی طرف ہدایت کرنے کے سلسلہ میں نظارت کرنے کی مسؤلیت کا حق، تاکہ معاشرہ کو اخلاقی برائیوں سے پاک کیا جاسکے۔
۳۔ معیاروں کی رعایت کرتے ھوئے قلم، بیان اور اجتماعات منعقد کرنے کی آزادی کا حق۔
۴۔ ملک کی آزادی، قومی اتحاد اور اسلامی نظام کی مصلحتوں کی حفاظت کرتے ھوئے مختلف احزاب اور سیاسی پارٹیاں تشکیل دینے کا حق۔
۵۔ معیاروں کی رعایت کرتے ھوئے انتخابات میں شرکت کرنے کا، پارلیمنٹ یا مختلف شوراؤں میں منتخب ھونے، حکومت کے پروگراموں میں شرکت کرنے اور کلیدی عہدوں پر فائز ھونے کا حق۔
ب۔﴾ بین الاقوامی سیاست میں عورتوں کے حقوق اور مسؤلیتیں:
١۔ دنیا، خاص کر عالم اسلام کے حالات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی مسؤلیت اور حق ۔
۲۔قومی مصلحتوں اور قانونی ضوابط کی رعایت کرتے ھوئے ایرانی عورتوں کو دنیا کی عورتوں کے ساتھ روابط قائم کرنے اور تعمیری سیاسی اطلاعات کے رد و بدل کا حق ۔
۳۔ قانونی ضوابط کی رعایت کرتے ھوئے اسلامی، علاقائی اور بین الاقوامی اجتماعات، خاص کر عورتوں کے مسائل سے متعلق اجتماعات میں فعالانہ اور موثر صورت میں شرکت کرنے کی مسئولیت کا حق ۔
۴۔ مسلمان عورتوں کے درمیان ہم بستگی اور دنیا کی پسماندہ اور مستضعف خواتین اور اطفال کی حمایت اور کوشش کرنے کا حق اور مسؤلیت ۔
۵۔ امن و سلامتی حاصل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کو پناہ گزین ھونے کا حق اور انھیں اپنے وطن لوٹنے کو ممکن بنانا ۔
٦۔ دوسرے ممالک کی باشندہ عورتوں کے مقابلے میں ایرانی عورت کو،مقررات اور معاہدات کے حدود میں حکومت کی طرف سے حمایت حاصل کرنے کا حق ۔
۷۔ غیر ایرانی مردوں کے ساتھ قواعد و ضوابط کی رعایت کرتے ھوئے ازدواج اور خاندان تشکیل دینے کے سلسلہ میں ایرانی عورتوں کو قانونی حمایت سے بہرہ مند ھونے کا حق ۔
پانچویں فصل
خواتین کے حقوق کی تحقیقات
٭٭٭٭٭
ایران کے قوانین کے مطا لعہ سے معلوم ھوتا ہے کہ، خواتین کے بنیادی حقوق قانون سازیہ کے مدنظر تھے، اس کے علاوہ زمانہ اور حالات کے بدلنے کی صورت میں بھی ایران کے قوانین میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہے۔
ملک کے بنیادی آئین میں مردوں کو عورتوں پر ترجیح دینےکی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ “پوری مملکت کے باشندوں”، “ عوام الناس” اور“ تمام لوگ ”وغیرہ جیسے الفاظ کے استعمال سے تمام ایرانیوں، من جملہ زن و مرد کو مد نظر رکھا گیا ہے اور ان سب کو زندگی کے بنیادی حقوق کا مستحق سمجھا گیا ہے۔
بنیادی آئین نے یہ نہیں کہا ہے کہ، بنیادی حقوق کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق ھو اور اگر بعض عام قوانین میں، عورتوں کا طبقہ بعض سماجی حقوق سے محروم ھوا ہے، اس محرومیت کا ملک کے بنیادی آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ محرومیت ان قوانین کو نافذ کرنے والوں کے طرز تفکر کی پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ استدلال کے طریقہ اور بنیادی آءین کے مفہوم کو مد نظر رکھنے کے بارے میں بنیادی آئین کی دفعہ نمبر ۸ کے تکملہ سے نتیجہ ظاہر ھوتا ہے، جس میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ:“ مملکت ایران کے باشندے حکومتی قانون کے مقابلے میں مساوی حقوق رکھنے والے ھوں گے۔”
شہری قانون میں بھی، طلاق کی بحث کے علاوہ، کہ اس میں مردوں کو مطلق اختیار دیا گیا ہے، اکثر مواقع پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہے، من جملہ:
الف﴾ نیک برتاؤ کرنا، خاندان کی بنیادوں کو تحکیم بخشنا اور اولاد کی تربیت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ ﴿ مادہ ١١۰۳اور ١١۰۴﴾
ب﴾ بیوی کا مستحقق نفقہ ﴿ رہائش، لباس، غذا، گھر کا ساز و سامان وغیرہ﴾ ھونا۔ ﴿ مادہ ١١۰۷ اور ١١۰۷﴾
ج﴾ مسکن مشخص کرنے کا اختیار﴿ مادہ: ١١١۴ اور ١١١۵﴾
د﴾ جائز کسب و کار اختیار کرنے کا حق﴿ مادہ: ١١١۷﴾
ھ﴾ ملکیت میں تصرف کا حق ﴿ مادہ: ١١١۸﴾
و﴾ شوہر کے مفقود ھونے، دوسری شادی کرنے یا بیوی پر قاتلانہ حملہ کرنے کی صورت میں شوہر کی طرف سے خود کو طلاق دینے کی وکالت حاصل کرنے کا حق۔ ﴿مادہ: ١١١۹﴾
ز﴾ شوہر کی دیوانگی یا کسی دوسرے عیب کے مشاہدہ کی صورت میں نکاح فسخ کرنے کا حق۔ ﴿ مادہ: ١١۲١، ١١۲۲، اور ١١۲۵﴾
ح﴾ شوہر کے عاجز ھونے، نفقہ پورا نہ کرنے، براسلوک کرنے اور کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ھونے کی صورت میں ، طلاق کا حق۔ ﴿ مادہ: ١١۲۹ اور ١١۳۰﴾
ط﴾ بچوں کی دیکھ بال کرنے کا حق۔ ﴿ مادہ: ١١٦۸ اور ١١٦۹﴾
قانونی ازدواج کے مادوں کے درمیان، عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں ایک مناسب تبدیلی کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ ان مادوں میں تعزیراتی قوانین کے منظم کرنے کے ضمن میں ، عورتوں کے حقوق کو عملی جامہ پہنانے کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اس کے علاوہ ہم اس میں کچھ جدید قوانین کے احکام کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، جو ہر لحاظ سے نئے ہیں۔ مثال کے طور پر مذکورہ قانون کے مادہ ۵ میں “ ازدواج سے پہلے فریب کاری” کو قابل سزا جانا گیا ہے اور مادہ ٦ میں مقرر کیا گیا ہے کہ“ ہر مرد کا فرض ہے کہ ازدواج کے وقت عقد میں قرار دی جانے والی بیوی سے واضح طور پر کہدے کہ اس کی کوئی دوسری بیوی ہے یا نہیں ۔ یہ نکتہ نکاح نامہ میں درج کیا تا ہے۔ جو مرد ازدواج کے موقع پر حقیقت کو چھپاتے ھوئے، اپنے آپ کو شادی نہ شدہ کے عنوان سے پیش کرے اور اس طرح اپنی بیوی کو دھوکہ دے، تو اسے مذکورہ قانون کے تحت سزادی جائے گی”۔ اس طرح معلوم ھوتا ہے کہ قانون کا یہ مادہ بیشک تعد د ازدواج کو روکنے کا ایک موثر ذریعہ ہے اور ایرانی خاندانوں میں تعدد ازدواج ایک بڑی مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں یہ قانون ایک پیش قدمی شمار ھوتا ہے، کیونکہ اگر چہ قانون ساز نے ماحول، سنتوں اور مذہبی عقائد کے پیش نظر تعدد ازدواج کی ممانعت نہیں کی ہے، لیکن شوہر سے دوسری بیوی کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت سے معلوم ھوتا ہے کہ بلا واسطہ اس حق کو محدود اور مشروط اور دوسری بیوی کی رضا مندی پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور اس طرح ظاہر ہے کہ اس اطلاع کے نتیجہ میں بہت کم ایسی عورتیں ھوں گی، جو کسی شادی شدہ مرد کے ساتھ شادی کرنے پر راضی ھوں گی۔ اس قانون کے مادہ ۴ میں قید لگائی گئی ہے کہ “ عورت اپنی ملکیت میں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے”۔ قابل توجہ بات ہے کہ شہری قانون نے بھی عورت کو یہ حق دیا ہے، لیکن قانون ازدواج میں “ شوہر کی اجازت کے بغیر” والا جملہ بیان کرکے اس حق کو مکمل طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ایران کے سماجی ارتقاء اور قانونی ترقی، عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور انھیں کمال بخشنے کے حق میں ہے۔ یہ جبری ارتقاء جس چیز کو سرعت بخشتی ہے، وہ عورتوں کی نا قابل انکار صورت میں سماجی زندگی میں شرکت کرنے کے سلسلہ میں معاشرہ اور لوگوں کی فکری رشد و بالیدگی اور آمادگی ہے۔
عدلیہ کا شعبہ:
ججوں کو تعینات کرنے کے بارے میں پہلا قانون ١۹۲۳ء میں منظور کیا گیا ہے، اس میں، قاضی کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے نہ مرد کا ھونا ضروری قرار دیا گیا ہے اور نہ عورت کا نہ ھونا بیان کیا گیا ہے۔
سنہ ١۹٦۹ء تک عورتوں کو عدلیہ میں تعینات نہیں کیا جاتا تھا ۔ سنہ ١۹٦۹ء میں پہلی بار عورتوں کی ایک تعداد کو عدلیہ میں تعینات کیا گیا اور پانچ خواتین کے نام عدلیہ میں تعینات ھونے کا حکم صادر کیا گیا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عدلیہ میں عورتوں کی تعیناتی کا مسئلہ محدود تھا، لیکن تدریجا اس میں کچھ تبدیلیاں آگئیں، اور یہ تبدیلیاں سنہ١۹۹۵ء میں﴿ ١۹۸۲ ء میں منظور شدہ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے قانونی شرائط میں ترمیم﴾ اس امر کا سبب بنیں کہ عدلیہ میں عورتیں مشاور، قاضی تحقیق ، نائب وکیل سرکار اور انسپکٹر کے عہدے پر فائز ھوسکیں ۔
انٹرنس میں برتری حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لئے لا کالج میں عدلیہ کی طرف سے داخلہ کے ساتھ وظیفہ معین کرنا اس امر کا سبب بنا ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں قانون کی تعلیم حاصل کرکے عدالتوں میں تعینات ھونے اور وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کی طرف رغبت پیدا کریں ۔
بنیادی آئین کی دفعہ نمبر تین کے نویں بند میں ، ناروا امتیاز دور کرنے اور سبوں کے لئے عادلانہ امکانات فراہم کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اگر چہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اوائل سے، خواتین ججوں کو حذف کرنے کی بحث تھی، لیکن اس وقت عدلیہ میں عورتوں کی تقرری کا مسئلہ آگے بڑھ چکا ہے اور اس سلسلہ میں محور عورتوں کے مقام و منزلت میں تبدیلی اور ان کی ظرفیت اور کار آمد ھونے سے استفادہ کرنا ہے۔ اس بنا پر عدلیہ میں خواتین ججوں کی تقرری کو حذف کرنے کے سلسلہ میں تبدیلی آئی ہے اور اس وقت عدلیہ میں چھ سو خواتین جج فعالیت کر رہی ہیں ﴿ ۲۰١١ء میں منعقدہ عدلیہ میں خواتین کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں، تہران کے اٹارنی جنرل عباس جعفری دولت آبادی کا بیان﴾
اسلامی جمہوریہ کے نظام میں جج عورتیں:
ملک کے بنیادی آئین میں ججوں کے شرائط کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے اور قانون ساز نے بنیادی آئین کی دفعہ نمبر ١٦۳ میں بیان کی گئی قاضی کی صفات اور فقہی معیاروں کے مطابق شرائط کو معین کرنا عام قوانین پر چھوڑا ہے۔
اگر چہ اردبہشت ١۳٦١﴿ مطابق ١۹۸۲ء﴾ میں منظور کئے گئے ججوں کو تعینات کرنے کے شرائط سے متعلق قانون کے مطابق، عورتیں جج نہیں بن سکتی ہیں، لیکن بہمن ماہ ١۳٦۳ ھ ش ﴿ ١۹۸۴ء﴾ میں اس قانون ﴿ یعنی قاضیوں کے شرائط ﴾سے متعلق منظور کئے گئے ضمیمہ کے مطابق عورتوں کے قاضی تعینات ھونے کے سلسلہ میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ھوئی، جو یوں ہے:“ عورتیں عدلیہ میں قاضی تعینات ھونے کے حق کو محفوظ رکھ سکتی ہیں” اس کے علاوہ ١۹۹۲ء میں پاس کئے گئے تشخیص مصلحت نظام میں طلاق سے متعلق قانون کی دفعہ نمبر ۵ کے تبصرہ کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے، اس منظور شدہ تبصرہ میں پش گوئی کی گئی ہے کہ خاص شہری عدالتیں، ضرورت کے مواقع پر ججوں کو تعینات کرنے کے قانونی شرائط رکھنے والی عورت کو مشاور کے عنوان سے تعینات کرسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ججوں کو تعینات کرنے کے شرائط کے متعلق قانون کے سلسلہ میں ١۹۸۴ء اور١۹۹۵ء میں منظور کئے گئے وہ تبصرہ نمبر ۵ کے مطابق عدلیہ کا رئیس، ١۴ اسفند ١۳٦١ھ ش ﴿۵ مارچ ١۹۸۲ء﴾ میں منظور شدہ ججوں کے تعینات کئے جانے کے شرائط رکھنے والی خواتین کو اداری عدالتوں میں مشاور، خاص شہری عدالتوں میں محقق جج، قانونی مطالعہ کرنے کے مسئول، عدالتوں کے قوانین تدوین کرنے کے دفتر کے مسئول، اطفال کی سرپرستی کرنے والے ادارہ کے مسئول اور قانونی مشورت کے ادارہ کے مسئول کے عنوان سے تعینات کرسکتا ہے، یہ عہدے ججوں کے عہدوں کے برابر ہیں۔
سنہ ١۹۹۷ء میں خاندانی مقدموں کو خصوصی قرار دینے کے ایک طریقہ کار کے مطابق عدالتوں کی ایک تعداد کو اس سلسلہ میں مخصوص کرنے کے بارے میں آئین کی دفعہ نمبر ۲١ کے موضوع ﴿ خاندانی عدالت﴾ میں آیا ہے کہ :“ مذکورہ قانون مادہ واحدہ کے تبصرہ نمبر ۳ کے مطابق ہر خاندانی عدالت، حتی الامکان عدلیہ سے متعلق ایک عورت کے حضور میں، مقدمہ کی پیروی کرے گی اور عدلیہ سے متعلق مشاور عورت سے صلاح و مشورہ کے بعد حکم جاری کرے گی”۔
یہ قانون، عدالت کے فیصلہ میں عورتوں کی شرکت کی طرف ایک قدم کی علامت ہے۔ اس سے معلوم ھوتا ہے کہ عدالت کے لئے مشاورت کا ضروری ھونا، ابتدائی مرحلہ میں فیصلہ شمار ھوتا ہے۔
عدلیہ میں ایک اور تبدیلی رونما ھوئی ہے، اور اس تبدیلی کے مطابق عدالت عالیہ میں معاون جج کے عہدے پر بعض عورتوں کو تعینات کرنے کا حکم صادر کیا گیا ہے اور بعض خواتین صوبہ کی عدالتوں میں نائب جج کے عہدہ پر تعینات ھوئی ہیں اور بعض خواتین نظر ثانی کرنے والی عدالتوں کے مشاورتی کام انجام دے کر عدالتی فیصلوں کے سلسلہ میں شرکت کرتی ہیں۔
خاندانی کیسوں کے سلسلہ میں خواتین مشاوروں کی مشاورت ان کیسوں کی عدالتی کاروائی میں نمایاں طور پر موثر ہے۔
اس کے علاوہ: صدر جمہوریہ کے عورتوں اور خاندانوں سے متعلق دفتر، وزارت خانوں اور انتظامی امور کے اداروں میں عورتوں سے متعلق دفاتر، عورتوں سے متعلق ثقافتی اور اجتماعی امور کی شوری، عدلیہ میں بچوں اور عورتوں کی حمایت سے متعلق دفاتر اور کیبنٹ، ملک کی بلند پایہ شوراؤں ، فیصلہ لینے والے شہری اور دیہاتی اداروں اور صوبوں کے ترقیاتی اداروں میں عورتوں کی شرکت جیسی تشکیلات کی موجودگی نے عورتوں کی ترقی کے امکانات فراہم کئے ہیں۔
اس کے علاوہ ١۹۸۵ء میں منظور شدہ چھوٹے بچوں کی سرپرستی کے لئے ماؤں کو ادا کی جانے والی اجرت کا قانون، خاندانی عدالتوں میں امداد و ارشاد کے مراکز قائم کرنے کے سلسلہ میں ١۹۹۲ء میں منظور شدہ قانون، ایرانی عورتوں کے غیر ایرانی مردوں سے ازدواج کے نتیجہ میں پیدا شدہ اولاد کی تکلیف معین کرنے کا ۲۰۰٦ء میں منظور شدہ قانون، کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عورتوں کے حقوق اور مسئولیتوں کی حمایت کرنے کا، ۲۰۰٦ء میں پاس کیاگیا قانون، شہری قانون میں عورتوں سے متعلق قوانین میں ایک نمایاں تبدیلی کی نشانی ہے۔
اس کے علاوہ عورتوں کے حقوق کی ضمانت کے سلسلہ میں قانونی تبدیلیوں میں: ۲۰۰۵ء میں منظور شدہ علاج کے طور پر سقط جنین کا قانون ، ١۹۹۲ء میں منظور شدہ بے سرپرست عورتوں اور بچوں کی حمایت کا قانون ، ١۹۹۳ء میں منظور شدہ آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون، ١۹۹۴ ء میں منظور شدہ شیر مادر کی ترویج کا قانون، ۲۰۰٦ء اور ۲۰۰۸ء میں منظور شدہ عورتوں اور جوانوں کے اوقات فراغت سے متعلق قوانین، ۲۰١۰ء میں منظور شدہ گھر میں کام کرنے کا لائحہ عمل، اور ۲۰۰۷ء میں پاس کیا گیا فوت شدہ بچوں کے وظیفہ کا قانون قابل ذکر ہے۔
ملک کی عدلیہ کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۸ء میں ملک بھر میں خواتین ججوں کی تعداد ۵۲۸ افراد پر مشتمل تھی، ان میں سے سات خواتین ڈپٹی اٹارنی جنرل، ١۲ خواتین ڈپٹی جج، ۴۲۲ خواتین وکیل اور ۸٦ خواتین عدلیہ کی مشاور تھیں ۔﴿ فاطمہ بداغی قانونی امورکی نائب صدر تھیں، جوOIC کےخواتین سے متعلق تیسرے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نمایندہ بھی تھیں﴾
خواتین اور بچوں کے حقوق کی حمایت کا ادارہ:
ایک معاشرہ میں عورتوں اور بچوں کے امور کی حمایت اور توجہ، خاندان کے مستحکم و پائدار ھونے، فرزندوں کی تربیت اور بالآخر ایک سالم معاشرہ کی طرف پیشرفت کا مثبت اقدام شمار ھوتا ہے۔ اس بنا پر ملک کی عدلیہ کے نظام میں ﴿ ۲۰۰۳ء میں منظور شدہ قانون کے مطابق﴾ مجرم عورتوں اور بچوں کے کیسوں کی پیروی، حق تلفی ھوئی خواتین اور بچوں کے حقوق کی حمایت اور بچوں کے کیسوں کی پیروی کرنے ، بچوں کی تعلیم و تربیت کو کیفیت کے لحاظ سے ارتقاء بخشنے کے لئے عدلیہ میں عورتوں اور بچوں کی حمایت کا ایک ادارہ تشکیل دیا گیا ہے۔
اس ادارہ نے، بچوں کے کیسوں کی پیروی کرنے والے ججوں کے لئےعلم نفسیات کی تربیت ضروری قرار دینے، ملکی اور علاقائی سطح پر بچوں کے ججوں کے سمینار منعقد کرنے، ملک کی تمام عدالتوں میں بچوں کے حقوق کی حمایت کرنے کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل، ملک بھر میں جرائم سے متعلق اداروں کا خواتین اور بچوں کے حقوق کی حمایت کرنے والے دفاتر سے تعاون، ﴿ غیر عمدی جرائم میں مالی جرمانوں کی وجہ سے﴾ زندانوں میں موجود خواتین کو آزاد کرانے کے سلسلہ میں، ملک بھر کی عدالتوں کے سامنے ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔
ملک بھر کی عدالتوں میں خواتین سے متعلق دفاتر کو تقویت بخشنا، عدلیہ میں عورتوں اور بچوں کے کیسوں کی حمایت کے کام کو ارتقاء بخشنا، عورتوں کے قانونی، قضائی، اجتماعی اور ثقافتی معلومات کی سطح کو تقویت بخشنا، عورتوں کے عدلیہ کی بہ نسبت اعتماد کو بڑھانا، ان کی مشارکت کے سلسلہ میں ان کی علمی ظرفیت سے استفادہ کرنا اور خواتین اور بچوں کے حقوق کی حمایت کرنا، اس ادارہ کے مقاصد میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ خواتین اور بچوں کو عدل و انصاف کے خدمات مہیا کرنے ، خواتین اور بچوں کے حقوق کو تحفظ بخشنے کے علاوہ ان سے متعلق دوسرے مشکلات کو عدلیہ کی سطح پر حل کرنا بھی اس ادارہ کے مقاصد میں شامل ہے۔
اس دفتر کی کوششوں کے نتیجہ میں، ملک بھر کی عدالتوں میں خواتین اور بچوں کے حقوق کی حمایت کے دفاتر تشکیل دئے گئے۔ ابتداء میں اس قسم کے دفاتر کھولنے اور ان میں شائستہ مدیروں کو متعین کرنے کے لئے ضروری اقدام کئے گئے اور اس کے بعد ان دفاتر کی منصوبہ بندی انجام دی گئی اور اس طرح صوبوں کی سطح پر ان دفاتر کو موثر اور فعال بنایا گیا۔
ان اداروں میں، عدلیہ کے کارکنوں سے متعلق منظور شدہ قانون کے تحت ١۷۰ سے زائد﴿ قضائی، اجتماعی، امدادی اور نفسیاتی﴾ ماہروں کو متعین کیا گیا۔ ﴿ عدلیہ کے ثقافتی اور اجتماعی امور سے متعلق کمیٹی کی ۲۰١۲ء کی رپورٹ﴾
خواتین کے عد لیہ سے متعلق حقوق اور مسئولیتیں:
سنہ۲۰۰۴ء میں ثقافتی انقلاب کی کونسل کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں خواتین کے حقوق اور مسئولیتوں کے بارے میں ایک منشور منظور کیا گیا، جو ثقافتی اور اجتماع امور کی پالیسی کے بارے میں ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منشور میں آیا ہے کہ: خواتین کو قانونی تدابیر اور عدلیہ کی طرف سے حمایت کا حق، اسرار کو محفوظ رکھنے کے سلسلہ میں خاص عدالتی کاروائی کا حق، خاندان میں صلح و صفائی اور اختلافات کو حل کرنے کا حق، عورتوں پر ظلم و زیادتی ھونے ، ان پر تہمت لگانے اور ان کے حق میں جرائم کے مرتکب ھونے کی صورت میں عورتوں کو پلیس اور عدلیہ میں شکایت کرنے کا حق، قاقنون کے مطابق عدلیہ میں عورتوں کو تعینات کئے جانے کا حق، تمام عدالتوں میں دعوی کرنے اور اپنا دفاع کرنے کا حق اور عدالتوں میں کیسوں کی پیروی کے سلسلہ میں وکیل اور مشاور سے استفادہ کرنے کا حق، من جملہ خواتین کے عدالتی حقوق ہیں۔
اس کے علاوہ عدلیہ کی طرف سے ہر جہت سے حمایت حاصل کرنے کا حق، ہتک عزت سے محفوظ رہنے کا حق، سزاؤں کی تخفیف کا مطالبہ کرنے کا حق، جج کی طرف سے حکم صادر کرنے میں اشتباہ کی صورت میں خواتین کو اپیل کرنے اور فیصلہ پر نظر ثانی کرانے کا حق، حاملگی، بچے کو دودھ پلانے یا بیماری کے دوران جرائم کے مرتکب ھونے کے بعد ندامت یا توبہ کرنے کی صورت میں سزا میں تخفیف کا مطالبہ کرنے کا حق، اور قید کے دوران ملکی قانون کے مطابق والدین، اولاد اور شوہر سے ملاقات کرنے کا حق جیسے حقوق خواتین کے عدلیہ سے متعلق حقوق ہیں۔
مذکورہ حقوق کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کو مندرجہ ذیل حقوق بھی حاصل ہیں:
٭۔ زندانوں میں قیدی عورتوں کو مناسب طبی سہولیات، ثقافتی اور تعلیم و تربیت کے حقوق فراہم کرنا، تاکہ معاشرہ میں لوٹنے کے بعد سالم زندگی بسر کرسکیں۔
٭۔ مناسب حالات مہیا کرکے لڑکیوں کو اصلاح و تربیت کے مراکز قائم کرنے کا حق۔
٭۔ خواتین کو سرکاری اداروں اور عدلیہ میں شکایتیں کرکے اپنے کیسوں کی پیروی کرنے کا حق۔
٭۔ عدالتوں میں شرعی احکام کے مطابق شہادت دینے کا حق۔
٭۔ خواتین کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنے کا عدالتی حق۔
٭۔ قانونی شرائط سے فاقد ولی اور سرپرست اور ان کے حقوق پر تجاوز کرنے والوں کے خلاف عدلیہ میں شکایت کرنے کا حق۔
چھٹی فصل
فلموں میں خواتین کا رول
٭٭٭٭٭
ایران کی فلموں کی صنعت پر اسلامی انقلاب کے اثرات:
ایران کی فلموں کی صنعت تقریبا پچاس سال کی زندگی گزار نے کے بعد عروج پر پہنچ کر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بنیادی تبدیلیوں سے دوچار ھوئی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کی فلموں کی صنعت جوان ھونے کے باوجود، مشکل اور دشوار تجربوں سے گزر نے میں کامیاب ھوئی اور رفتہ رفتہ ایک سنجیدہ ثقافتی موضوع میں تبدیل ھوئی۔ اس لحاظ نے انقلاب نے اس صنعت پر ایک حیرت انگیز اثر ڈالا اور اندرونی مشکلات کے باوجود، اس کی مخفی استعدادیں رونما ھوئیں ۔ فلموں کی صنعت میں مختلف تبدیلیاں اور طریقہ کار پیدا ھونا انقلاب کے اثرات شمار ھوتے ہیں۔
بیشک، انقلاب کے بعد معاشرہ کے تمام اہم شعبوں ، من جملہ ثقافتی، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ھوئیں۔ یہ تبدیلیاں آرٹ اور ہنر کے شعبے، خاص کر فلموں تک پھیل گئیں۔
بنیادی طور پر ایک سماج کے اندر، قلمیں محسوس اور واضح حقائق پر مبنی تشکیل پاتی ہیں اور معاشرہ کے مظاہر کو تصویر، فکر و اندیشہ اور احساس کی صورت بخشتی ہیں تاکہ معاشرہ میں زندگی کرنے والے مخاطبین کو معاشرہ کے ساتھ ملادیں یا اس سے جدا کریں یا حتی ایک خاص رفتار کا مقید بنادیں۔ فلمیں ایک ثقافتی سسٹم کے عنوان سے سیاست سے الگ نہیں ھوسکتی ہیں، خاص کر جس معاشرہ میں سیاست، ثقافتی شعبوں میں جڑ پکڑ چکی ھو۔
فلمیں، انقلاب سے پہلے:
انقلاب سے پہلے ایران میں عورتوں کا فلموں میں کام کرنا صرف تجارتی پہلو رکھتا تھا اور حقیقت میں عورت کی پہچان، اس کی شخصیت کی تحلیل، خاندان اور معاشرہ میں اس کی نفسیات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی ، بلکہ اس سے صرف شو روم کی رونق اور جذابیت کے عنوان سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
انقلاب سے پہلے، فلموں میں عورت ہمیشہ ایسے ضعیف عنصر کے عنوان سے رونما ھوتی تھی، جس کو سرپرست کی ضرورت ھوتی ہے۔ ان فلموں میں عورت صرف ایک ادا کار ھوا کرتی تھی۔ خواتین کا رول یا خانہ دار عورت، یا گا یک کلاکار یا رقاصہ کے عنوان سے ھوتا تھا ۔ البتہ، “بیتا،” جیسی بعض فلموں میں عورتوں کے مسائل کی طرف بھی کسی حد تک توجہ کی جاتی تھی۔ لیکن ایسی فلموں کی تعداد اس قدر کم تھی کہ ان کا اثر نہ ھونے کے برابر تھا۔ ان فلموں میں عورتیں ہر ممکن صورت میں مردوں کی بد اخلاقیوں کی شکار ھوتی تھیں۔ یہ عورتیں کبھی اپنی اخلاقی برتری کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔ یہاں تک ایران کے تیسرے دور،جسے جدت پسندی کا دورکہا جاتا تھا ، کی فلموں میں بھی عورتوں کے رول کا معاشرہ میں کوئی اثر نہیں تھا۔ یہ عورتیں کبھی کبھار زیادہ سے زیادہ فلم کے ہیرو کو ترغیب دینے کا رول ادا کرتی تھیں۔ بہ الفاظ دیگر ان فلموں میں عورتیں صرف تفریح کا رول ادا کرتی تھیں۔ البتہ معاشرہ میں عورتوں کے متعلق رکود کے پیش نظر ان فلموں کو ادراک کرنا اور ان میں عورتوں کے ثانوی درجہ کے رول کو سمجھنا آسان ہے۔ کیونکہ پہلوی حکمرانوں کے دور میں عورتوں کی آزادی اور مردوں کے مساوی ھونے کے دعوی اور اصرار کے باوجود یہ دعوی ایک نعرہ بازی سے زیادہ نہیں تھا۔ ان تبدیلیوں کو استحکام بخشنے کی نہ صرف کوششیں نہیں کی جاتی تھیں، بلکہ عورتوں کے معاشرے میں ثانوی درجہ کے رول پر تاکید کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر حتی کہ جن فلموں میں عورت کا نمایاں رول ھوتا تھا، ان میں بھی آخر کار عورت قسمت والی بن کر سسرال جاتی تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت کو معاشرہ کے عمومی ماحول سے دور کرکے ایک خاص ماحول میں محدود کیا جاتا تھا اور اسی کو معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کے عنوان سے پیش کیا جاتا تھا۔
انقلاب سے پہلے ایران کی فلمیں، فلم انڈسٹری میں تفریح اور سر گرمی کے لئے معروف تھیں۔ یہاں تک کہ اس زمانہ میں محبوب ترین فلم، فارسی فلم مانی جاتی تھی اور “ مہرجوئی” جیسے فلمی ہدایت کار نے بین الاقوامی سطح پر انعامات حاصل کئے تھے، لیکن اس کے باوجود، انقلاب کے بعد والی فلموں کے مقابلے میں وہ فلمیں نا چیز تھیں۔
پہلوی حکمران کے دوسرے دور میں معاشرہ کے لائق ترین گروھوں میں عقائد کو حذف کرنا اور ہر قسم کی بنیادی تبدیلی کو روکنا مقصد تھا۔ اس دور کی فلموں میں عورتوں کے مقام و منزلت کو اس زاویہ سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلوی حکمرانوں کے دوسرے دور کی فلموں میں عورت کی منزلت:
ایران کی فلموں کی صنعت نے اپنی زندگی کا دوسرا دور﴿ ١۹۴۸ء میں ﴾ “ توفان زندگی” نامی فلم سے شروع کیا۔ فلمی صنعت اس زمانہ کے خاص سیاسی و سماجی حالات کے سائے میں سانس لے رہی تھی۔ پہلوی دوم کے استبداد نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے دوران عیارانہ رد عمل کے طور پر قوانین اور اصولوں کو ترقی پذیر لوگوں کے مقابلے میں کھڑا کیا اور لوگوں کی آگاہی کو کم کرنے کی کوشش کی۔
١۹۳۰ء میں مرتب کئے گئے فلموں سے متعلق لائحہ عمل میں ترمیم کرکے جون ١۹۵۰ء میں سنسر کرکے ایک لائحہ عمل منظور کیا گیا، جس میں ١۵ دفعات تھے۔ ان قوانین کی بنا پر، جن میں فلم ساز کے اجتماعی مسائل پر توجہ کرنے کا اشارہ نہیں تھا ۔ وزارت داخلہ، وزارت ثقافت، پولیس، نشریات کے ادارہ اور ساواک، کے نمایندوں کی طرف سے تمام اسٹیڈیو اور سینماؤں کو تحریری طور پر حکم صادر کیا گیاکہ اگر فلموں میں نامناسب مناظر ھوں، تو وہ شدیدا سنسر کئے جائیں گے، مثال کے طور پر پٹائی اور لوگوں کی فقیرانہ زندگی کے مناظر دکھانا ممنوع تھے۔ ملک کے پولسی نظام کو ایمرجنسی کے ذریعہ ساواک ﴿ ملک کے اینٹلی جنس﴾ میں تبدیل کرکے متشد د بنا دیا گیا تھا۔
فارسی زبان میں تخیلی فلمیں:
ایران کی تخیلی فلموں نے، معاشرہ کی حقیقت سے دور ھونے کی وجہ سے، فلموں کے نقاد، ڈاکٹر“ امیر ھوشنگ کاؤسی” کے ذریعہ“ فارسی فلم” کا لقب پایا، یعنی وہ فلمیں جن میں صرف فارسی تکلم ھوتا ہے لیکن ہنرمندی اور معاشرہ کے طرز تفکر سے عاری ھوتی ہیں۔
ایران کی فلم صنعت نے فلمیں بنانے کے آغاز سے ہی خواتیں ادا کاروں کی دلکش جذابیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور یہ سلسلہ ١۹۷۸ء تک جاری تھا۔
ایران کے معاشرہ میں انقلاب مشروطیعت کے بعد، خاص کر “ جدت پسند تحریکوں” کے ضمن میں، پہلی پہلوی حکومت نے جبری طور پر مغربی تمدن کی طرف تمائل پیدا کیا اور معاشرہ کے تمدن ، ثقافت اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلیاں ایجاد کیں۔ لیکن یہ جدت پسندی معاشرہ کے لوگوں کے رد عمل سے دوچار ھوئی اور جدت پسندی اور سنت پسندی کے درمیان خلیج نے ایرانی معاشرہ میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا کیا۔ یہ ٹکراؤ اور تعارض گونا گون نشیب و فراز کے ساتھ ابھی تک جاری ہے۔
فلمیں، موجودہ دنیا کا ایک اہم کارنامہ شمار ھوتی ہیں، اور اس ماحصل کو مغربی دنیا﴿ فرانس﴾ میں پیدا ھونے کے پانچ سال بعد مظفر الدین شاہ نے ایران کے معاشرے میں لایا اور ایرانی معاشرہ میں اسی زمانہ سے اس کی ایک کفر آمیز مظہر کے عنوان سے نفرت ھونے لگی۔
١۹۳۲ء کے بعد عورتوں کی فلموں میں شرکت:
ایران میں در حقیقت عورتیں پہلی بار ١۹۳۲ء میں فلموں میں ظاہر ھوئیں۔ پہلی فلم جس میں عورت کا رول تھا،“ حاجی آقا آکنور سنیما” نام کی فلم تھی۔ ایران کی فلموں میں یہ عورت کا پہلا قدم تھا۔
پچاسویں صدی ﴿ پہلوی دوم کی سلطنت ﴾ کےآغاز کی فلموں میں، عورت، بیٹی، ماں، بیوی، پاک دامن اور جاں نثار یا ایک فریب کار کے عنوان سے رول ادا کرتی تھی۔ کبھی درمیانی رول بھی ادا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر گاؤں سے شہر آتی تھی اور قہوہ خانوں اور شراب خانوں میں گانا گاکر بعض حوادث رونما ھونے کے بعد اپنے گاؤں کی طرف چلی جاتی تھی اور دوبارہ اپنی سابقہ زندگی شروع کرتی تھی۔
پہلوی دوم کی حاکمیت اور فلمیں:
پہلوی دوم کے آغاز کے بعد ایران میں سرمایہ داری نے فروغ پایا اور اس کے نتیجہ میں ملک میں اداری، سماجی اور ثقافتی ڈھانچوں نے نئی شکل اختیار کی۔ ١۹۴١ء میں پہلوی اول کے زوال کے عوامل میں متعد د سیاسی و سماجی اسباب کے علاوہ کسی حد تک افراط کی حد میں جدت پسندی اور عورتوں کی آزادی کے بارے میں اس کی سیاست تھی۔ اسی وجہ سے پہلوی دوم نے اپنے باپ ﴿ پہلوی اول﴾ سے عبرت حاصل کرکے خاص کر ساٹھ عیسوی کی دہائی کے اواسط تک معاشرہ کے رسم و رسومات اور عقائد سے ٹکر لینے کے سلسلہ میں احتیاط سے کام لیا۔
ایرانی فلم صنعت بھی پہلوی دوم کی سیاست کی ہم آھنگ ھوئی اور عورتوں کی شخصیت کا مظاہرہ کرنے میں معاشرہ کے اعتقادات کی ہم آھنگ قدم اٹھانے لگی۔ اس لحاظ سے دیہاتی خواتین نے ایک مثبت مظہر کا مظاہرہ کیا۔ جبکہ فیشن پرست اور مغرب نمائی کا مظاہرہ کرنے والی عورتیں شیطان اور فریب کارانہ عنصر کے عنوان سے ظاہر ھوتی تھیں۔ لیکن ایرانی فلمیں بنانے والے ٹائٹ لباس زیب تن کرنے والی، ناچنے والی اور بہکانے والی فیشن پرست عورتوں کو دکھا کر فلم کے تجارتی پہلو کو اجاگر کرتے تھے اور کلی طور پر پچاس کی دہائی کے دوران بننے والی فلموں میں عورت اپنے تشخص کو کھو بیٹی تھی اور فلم ساز اپنی فلموں کے لئے عورت کو منتخب کرتے وقت ان کی اداکاری کی مہارت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے، بلکہ عورت یا گھر کی کٹھ پتلی تھی یا مجلسوں اور محفلوں کی کٹھ پتلی۔
پچاس عیسوی کی دیائی کی فلموں میں تخیل سازی:
فلموں سے تجارتی استفادہ کرنے والے فلم ساز بھی اس قسم کی کٹھ پتلیوں سے استفادہ کرنے کے لئے زیادہ تر ایسی عورتوں کا انتخاب کرتے تھے جو دوسرے کاموں میں شہرت رکھتی تھیں، خاص کر گانے والی عورتوں سے زیادہ استفادہ کرتے تھے، عام طور پر ایسی عورتیں فلم کو تجارتی سطح پر کامیاب بنانے کا سبب بنتی تھیں۔
فارسی فلموں کے تنزل اور پستی کے حالات میں، خواتین اداکاروان کو یا ایسی فلموں میں کام کرنے پر مجبور ھونا پڑتا تھا جو کبیرے اور باروں میں بنتی تھیں یا ایرانی فلموں میں کام کرنے سے اجتناب کرتی تھیں۔ پچاس کی دہائی کے دوران بھی ایسی عورتوں کو فلموں میں کام کرنے کی دعوت دی جاتی تھی، جن میں نہ کام کرنے کی استعداد ھوتی تھی اور نہ گانے اور اداکاری کی شہرت ھوتی تھی۔ ایسی عورتیں تیزی کے ساتھ نمودار ھوتی تھیں اور پھر فراموش ھوتی تھیں۔
سنہ ساٹھ عیسوی کی دہائی میں ایرانی فلمیں:
سنہ ساٹھ عیسوی کی دہائی میں ایرانی فلموں نے غیر ملکی فلموں سے رقابت کے لئے اپنے تہذیب و تمدن کی سرحدوں کو پار کرکے مغربی فلموں کے ہم آھنک بننے کی کوشش کی۔ معاشرہ کا متوسط طبقہ زیادہ تر غیر ملکی فلمیں دیکھتا تھا اور ایرانی فلموں کو دیکھنے والے اکثر مخاطبیں خاص کر ساٹھ عیسوی کی دہائی کے دوران رونما ھونے والی سماجی تبدیلیوں کے بعد، نچلے طبقہ کے لوگ ھوا کرتے تھے۔ ١۹٦٦ء سے ایرانی فلمیں زیادہ سے زیادہ کبیرے اور باروں میں بننا شروع ھوئیں ، عام طورپر ان فلموں میں عورت کا بنیادی رول ان عورتوں کو سونپا جاتا تھا، جو ناچتیں گاتیں اور تن نمائی کرتی تھیں۔
ساٹھ عیسوی کی دہائی سے ایران کے وابستہ سرمایہ داری نظام نے وسعت پیدا کی، اور اس کے ضمن میں معاشرہ کے متوسط طبقہ نے معیار و مقدار کے لحاظ سے زیادہ ترقی کی۔ یہ طبقہ پہلوی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کے نتیجہ میں شدید طور پر مغربی تہذیب کے اثر میں آیا۔ دوسری جانب بہت سے دیہاتیوں نے شہروں کی طرف ہجرت کی اور بڑے شہروں کے اطراف میں سکونت اختیار کرکے مصنوعی مشاغل میں مشغول ھوئے۔ یہ مہاجر لوگ بھی مغربی تہذیب و تمدن کے زد میں آگئے اور ایرانی فلموں نے بھی اس دوران مغرب سے رقابت کرنے کی غرض سے اخلاقی برائیوں کی طرف رخ کیا۔
ایرانی فلموں کے اکثر مخاطبین، خاص کر سنہ ٦۰ کی دہائی کے دوران رونما ھونے والی سماجی تبدیلیوں کے بعد، متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ایرانی فلم سازمعاشرہ کے اس طبقہ کے لوگوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
سماجی تبدیلیوں اور اجتماعی اصولوں میں تغییرات کے ساتھ ساتھ ایرانی معاشرہ کی عورت بھی فلموں میں نام نہاد ماڈرن عورت کی صورت میں مثبت انداز میں ظاہر ہونے لگی، لیکن معاشرہ پر مذہبی اعتقادات حکم فرما تھے، اس لئے اس عورت کو ایک آسودہ حال طبقہ کی لڑکی کے عنوان سے متعارف کرایا گیا تاکہ اس طبقہ کے خلاف مرد ہیرو کے نعروں کے تحفظ کے ضمن میں، بظاہر معاشرہ کے اخلاقی حرمتوں کا بھی تحفظ کیا جائے۔
دونوں زمانوں، یعنی ١۹۴۸ء سے ١۹۵۳ء تک اور ١۹۵۳ء سے ١۹۷۸ء تک کے دوران ایران کی تخیلی فلموں کا پس منظر یکساں ہے، لیکن ان دوزمانوں کے تمایلات کے درمیان بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ حقیقت میں چالیس کی دہائی کے دوران فلمیں، اخلاق و قوم پرستی کی قدروں کو پامال کرنے میں تبدیل ھوئیں اور اس دور کے اواخر میں، سیاسی تمایلات بھی فلموں میں داخل ھونے لگے، لیکن اس دور کے ہیرو مصرف پرستی کی ثقافت سے دو چار ھوئے۔
١۹ اگست ١۹۵۳ء کی تختہ الٹنے کی سازش کے بعد ایران میں قتل و وحشت کا ماحول پیدا ھوا اور چونکہ تخیلی فلموں میں، ایک فرضی خوشحال نمونہ پیش کیا جانا مد نظر تھا، اس لئے فارسی فلموں میں، ہیروسازی عروج پر پہنچ گئی، اس لے لئے رقاص اور گانا بجانے والی عورتوں سے استفادہ کیا جانے لگا، ایسی فلموں میں ایسے مناظر فلمائے گئے جن میں مرد عورت کے سر پر توبہ کا پانی ڈالتا تھا اور اس کے بعد اسے خاندان کے آغوش میں بھیجدیا جاتا تھا اور گاؤں کی لڑکیاں فلموں میں شہر کے لڑکوں سے دھوکہ و فریب کا شکار ھوتی تھیں اور خود کشی کرتی تھیں یا کسی سرمایہ دار کی بیوی بنتی تھیں اور اس کے بعد انھیں واپس گاؤں بھیجدیا جاتا تھا۔
ساٹھ عیسوی کی دہائی کے بعد بننے والی فلموں کے مضامیں درد ناک قصوں، تمسخر آمیز اور غیر اخلاقی مناظر پر مشتمل ھوتے تھے۔ اس زمانہ میں تہران کے قہوہ خانوں کی ناچنے والی عورتیں، مشہور ادا کار بنیں اور نچلے طبقہ کے لوگ، جو ہمیشہ طبقہ بالا کے افراد کو دنیوی لذتوں سے استفادہ کرنے کا تصور کرتے تھے، اس امر کا سبب بنے کہ اس طبقہ کے لوگ اس قسم کے مدھوش کرنے والے مناظر کو دیکھنے پر راضی ھو جائیں۔ ناچنے کے مناظر اس قدر اہمیت پاگئے کہ ان مناظر کو دلکش بنانے کے لئے فلمبرداری کے ابتدائی مواد کی گرانی کے باوجود ان مناظر کو رنگین صورت میں فلمایا جاتا تھا ۔!
١۹٦۰ء اور ١۹٦١ء کے سال ایران کے سیاسی حالات کے فیصلہ کن سال تھے۔ کیونکہ اس زمانہ میں اراضی کی اصلاحات کے آغاز کے لئے تیاری کی جاتی تھی اور حاکم طبقہ امریکہ کی طرف تمایل پیدا کرنے کی درد سری میں لگا ھوا تھا۔ ١۹٦۳ء کا سال جوش و خروش سے بھرا اور لوگوں کے سیاسی، مذہبی انقلاب کا سال تھا۔ تخیلاتی فلموں کی صنعت کے بھی کچھ اصول وقواعد تھے، جو یوں ہی پیدا نہیں ھوئے تھے، بلکہ ان کی جڑیں ایران کے عام لوگوں کے ذہنوں کو زیبا شناسی بنانے میں مستحکم تھیں۔ زیبائی، بار ﴿ کبیرے﴾ اور ہیرو تخیلی فلموں کی خصوصیات تھیں۔
اخلاق پسندی، حکام کی خصوصیت :
فلم “ تصادف” میں ﴿ علت و معلول کے درمیان رابطہ کے بغیر فلم کی داستان ہے۔﴾ فلم “ خیر و شر” میں ﴿ بالآخر خیر کامیاب ھوتا ہے، اب ممکن ہے یہ خیر شاہ کی حکومت کا دفاع ھو یا معاشرہ کے نچلے طبقہ کے فقیروں میں سے ایک فقیر کی کامیابی ھو﴾ فلم،“ قصہ در قصہ” میں ﴿ چند فرعی قصے اصلی قصوں کے دوران شروع ھوتے ہیں، تاکہ فلم کو طول، پرکشش اور تنوع بخشا جائے﴾ فلم، “قصہ ہای موازی”میں ﴿ عام طور پر ایک محترم عورت کو اغوا کیا جاتا ہے، اور فلم کا ہیرو مجرم کا پیچھاکرتا ہے اور سرانجام پولیس کی مداخلت کے بغیر فلم کا ہیرو مجرم کی تنبیہ کرنے میں کامیاب ھوتا ہے﴾
حقیقت میں فلم کی داستانوں میں عورت کا رول ایک کمزور اور ضعیف اور اپنی جنسیت میں اسیر عنصر کے عنوان سے دکھا یا جاتا تھا اور سالہا سال تک ایرانی فلموں میں ہیرانیوں کا اغلب رول یہی ھوا کرتا تھا، ان فلموں کا اہم موضوع عورت کو شوہر کے توسط سے نجات دلانا تھا، وہ ایک ایسا شوہر ھوتا تھا، جو اپنی خطا کا ربیوی کا پیچھا کرتا تھا تاکہ اسے نجات دلائے اور یا ایک ایسا عاشق ھوتا تھا جس پر کوئی ہوس ران عورت اثر نہیں ڈال سکتی تھی اور وہ مقاومت و پائداری کے ساتھ اپنی بیوی کا وفادار رہتا تھا۔
لیکن فلموں میں بظاہر اخلاق پرستی میں وسعت پیدا ھونے کے نتیجہ میں عاشق﴿ خاص کر مرد﴾ اور جاں نثار ایک ایسے جوان میں تبدیل ھوتا ہے جو ان ہی خصوصیات کے ساتھ خطرات مول لیتا ہے تاکہ اپنی معشوقہ کو حاصل کرسکے اور اس کے ساتھ ازدواج کرکے داستان ختم ھوتی ہے، اس بنا پر اس سلسلہ میں ضروری نہیں تھا کہ یہ جوان عورت کا شوہر ھو۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ عورت کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دلائے۔ حالات کی اس تبدیلی میں اخلاقی صورت میں تبدیلی لاکر ایک معروف اور مشہور صورت اور نمونہ کی خصوصیات سے نا جائز فائدہ اٹھانے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ٹائپ سے استفادہ کرکے رسومات کو توڑ نے خاندانوں کے احترام کو ملیامیٹ کرنے کا سلسلہ شروع ھوا۔
پہلوی دوم کا یورپ سے امریکہ کی طرف رخ کرنے اور امریکہ کی سیاست ، ثقافت اور اقتصاد کی اندھی تقلید کرنے سے نئی تبدیلیاں رونما ھوئیں۔ اس زمانہ میں متعد د سینما گھر تعمیر کئے گئے۔ مغربی اور مشرقی ممالک سے رقاصوں اور گانا بجانے والوں کے ایران کی طرف سیلاب بہنے اور لوگوں میں تفریح و سر گرمی کا شوق پیدا ھونے کی وجہ سے ایران میں بار اور فارسی فلموں نے پر در آمد شغل کی صورت اختیار کی۔ اس دوران عورتیں فلموں میں کٹھ پتلیوں کی صورت میں ظاہر ھوئیں۔ اس دوران تہذیب و تمدن میں تضاد رونما ھوا اور اس کے نتیجہ میں طلاق اور گھروں سے فرار کرنے والے جوانوں کی تعداد بڑھ گئی۔
فلم دیکھنے والے نوجوان بظاہر اچھی اور مقبول فلموں کو دیکھتے تھے، جن میں معشوقہ ھوا کرتی تھی اور خوبصورت عورتوں سے رابطہ ھوتا تھا۔ وہ ایک ایسے خوبصورت جوان کو دیکھتے تھے، جو کسی لڑائی میں شکست نہیں کھاتا تھا اور شہر کے اشراف نشین علاقہ کی عورتوں کے توجہ کا مرکز ھوتا تھا، اور جب فلم کے آخر پر یہ ہیرو کامیاب ھوتا تھا، تو فلم دیکھنے والا نوجوان بہکنے کے بعد خوشی خوشی سینما گھر سے باہر نکلتا تھا اور ایک مدت تک فلم کے تخیلات اس کے دل و دماغ پر چھائے رہتے تھے۔ پہلوی دوم کے زمانہ میں بنائی گئی اکثر فلموں کے موضوع ایسے ہی ھوا کرتے تھے: مثال کے طور پر “ ایک لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے کے عاشق ھوتے ہیں لڑکا فقیر اور لڑکی کا مالدار باپ اسے کسی دوسرے مرد کے ازدواج میں قرار دیتا ہے، مرد عیاشی میں مشغول ھوتا ہے اور اپنی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے اور پشیمانی کے بعد ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا ایک مگنی شدہ لڑکی ایک مرد کے دھوکہ میں آتی ہے، ڈر کے مارے شہر چلی جاتی ہے اور برسوں کے بعد اپنے منگیتر کو پیدا کرتی ہے”۔ ان فلموں کا موضوع عمدتا ھندی فلموں کا چربہ ھوا کرتا تھا، لیکن جو چیز اس قسم کی فلموں میں اہم تھی، وہ عورتوں کی شخصیت کشی اور ھویت کشی تھی۔ ان عورتوں کے شوہر، اپنی بیویوں کو کھلی ڈھیل دیتے تھے، اس طرح یہ عورتیں آوارہ گردی کرتی تھیں اور کبھی کبھی عصمت دری کا شکار ھوتی تھیں۔
پہلوی دوم کے دوران، بننے والی تمام فلموں میں جو چیز قابل توجہ اور نمایاں ہے، وہ یہ ہے کہ عورت، مرد کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے! اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو یا اسے بازاروں میں آوارہ گردی کرنی ہے، یا کسی قہوہ خانہ میں گانا بجانے والی بننا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی فلموں کے خاتمہ پر ایک مرد اسے نجات دیتا ہے۔
ایران کی فلموں نے ١۹۵۹ء کے بعد بظاہر اپنے لئے ایک شناخت پیدا کی اور ١۹٦۹ء تک عورت نے فلموں میں ایک جنسی عنصر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اس زماانہ کی فلمیں تجارتی اور اکثر یورپی اور ھندوستانی فلموں کا چربہ تھیں۔ مغربی دنیا کی فلموں کا چربہ اتار نے کے ضمن میں عورتوں نے بھی نقل کرنا شروع کیا اور اس طرح ایرانی فلموں میں کام کرنے والی ایرانی عورتیں ثقافتی لحاظ سے مغربی فلموں کے قریب تر ھوئیں۔
اس دور کی چند اچھی فلموں کے علاوہ، باقی تمام فلمیں تجارتی تھیں اور ان میں عورت بھی تجارتی قواعد و ضوابط اور فلم کی بکری کو بڑھاوا دینے کے عنصر کے عنوان سے کام کرتی تھی۔ اس زمانہ میں عورتوں کے دو مشہور ٹائپ ، یعنی فریب کار عورت اور فرشتہ خصلت عورت کا استفادہ نہیں ھوتا تھا بلکہ عورت ایک ماڈل اور تجارتی تبلیغات کے عنوان سے استعمال ھوتی تھی۔ اس زمانہ کی فلموں میں عام طور پر عورت ایک معشوقہ کے عنوان سے رول ادا کرتی تھی۔ ﴿ سترویں صدی کا درمیانی زمانہ﴾ اس دوران بنائی گئی ۲۵ فیصد فلموں میں مندرجہ ذیل مضامین تھے:
٭۔ ایک مرد ایک اجنبی عورت کا عاشق بنتا ہے اور اپنی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے۔
٭۔ ایک لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے کے عاشق ھوجاتے ہیں اور ان کی راہ میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔
بہت سی فلموں میں عورت کو ایک ھوس پرست اور عیاش عنصر کے عنوان سے پیش کیا جاتا تھا۔ اس قسم کی فلموں میں عورتوں سے استفادہ کرنے کے باوجود ، وہ داستان میں رول ادا کرنے اور قصہ کو رونق بخشنے میں کار آمد نہیں ہے، چونکہ اسے ہدایت کار اور فلم ساز کی مرضی کے مطابق مخاطب پر ٹھونسا گیا ہے۔ وہ ایک اضافی عنصر اور فلم کی بکری کی ضامن کے عنوان سے ہے۔ سترویں عیسوی کی صدی کے اوائل میں فلموں میں کام کرنے والی عورت، ایک ایسی عورت ھوتی ہے جو قہوہ خانہ اور برے مراکز سے آکر فلمی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے۔
اس قسم کی فلموں میں تمام سماجی قدروں کو پامال کیا جاتا تھا اور عورت سے صرف جنسی لحاظ سے استفادہ کیا جاتا تھا، البتہ مخاطب کی پسند بھی اس موضوع میں بے اثر نہیں تھی۔
ستر ویں دہائی کے آغاز سے ١۹۷۸ء تک کی فلمیں:
اس دوران بنائی گئی فلمیں، غیر اخلاقی نمونوں کی ترویج کا موثر ترین ذرائع ابلاغ تھیں۔ فلموں میں اداکار سازی رائج تھی اور اداکار ایسی عورتیں ھوا کرتی تھیں جو سرخ و سفید اور خوبصورت ھوتی تھیں۔ سنہ ١۹۷۳ء سے ایران میں فلمی صنعت تجارتی لحاظ سے نا کامی سے دوچار ھوئی تھی، پھر بھی ان فلموں میں عورت کی ھویت شکنی مرسوم تھی۔ ١۹۷۳ء کے بعد ان فلموں میں عورت ایک معشوقہ کا رول ادا کرتی تھی۔
١۹٦۸ء سے ١۹۷۸ء تک کی دہائی کے دوران عورتیں، فلموں میں بدکار اور فاحشہ کے عنوان سے ظاہر ھوتی تھیں۔ اور یہ عورتیں معاشرہ کے نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والی ھوا کرتی تھیں، اس دور کی ایرانی فلموں میں اکثر عورت عصمت دری کا شکار ھوتی تھی اور دھوکہ کھانے اور تعصب کی بنا پر قتل کی جاتی تھی! یا اپنے عاشق کے ساتھ شادی کرتی تھی یا شہروں میں دربدر اور آوارہ ھوتی تھی۔
فلموں کا یہ سلسلہ ١۹۷۸ء تک جاری تھا ۔ اس زمانہ کی فلموں پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ھوتا ہے کہ خانہ داری کے بعد عورتوں کا عمدہ ترین شغل فحاشی اور رقاصی تھا۔
بہت سی فلموں میں، عورت اور مرد کے درمیان نا جائز تعلقات کے مناظر دکھائے جاتے تھے اور اس طرح کھلم کھلا فحاشی اور بدکاری کی ترویج کی جاتی تھی۔ پہلوی دوم کے زمانےکی فلموں کے شرمناک آثار میں، قدروں کو پامال کرنا شامل ہے۔ فلموں سے متعلق موضوع، خیانت کا مسئلہ ھوتا تھا۔ جب کوئی مرد غداری کرتا تھا تو عورت بھی غداری کی مرتکب ھوتی تھی۔ تعجب کی بات ہے کہ پھر بھی دونوں ایک ساتھ زندگی گزارتے تھے!
پہلوی دوم کا فلمی طرز تفکر معاشرہ کے لوگوں کے عقائد اور قدروں کو حذف کرنا اور ہر قسم کی تبدیلی کو روکنا تھا، فقیر اور مزدور پیشہ لوگوں کے اذہان کو بدل دیا گیا تھا اور ہر قسم کی اجتماعی ترقی اور تبدیلی کو قسمت پر چھوڑ دیا گیا تھا اور اس طرح معاشرہ میں تبدیلی لانے والے عناصر کو حذف کیا گیا تھا۔
انقلاب کے بعد ایران کی فلمی صنعت:
انقلاب کے بعد ایران کی فلمی صنعت نے دو وجوہات کی بناء پر سیاسی حالات سے جوڑ کھایا اور اس کے ساتھ ایک علامتی اور بنیادی نسبت پیدا کی۔ ایک طرف ، ١۹۷۹ء کا انقلاب چونکہ دینی بنیادوں پر مبنی تھا، اس لئے فلموں کی صنعت کے بارے میں تجدید نظر کرکے اس صنعت کی روح کو قدروں کے دائرے میں لاکر فلموں کی ٹیکنک پر دسرس پیدا کرکے اس صنعت کی ذمہ داری کے ساتھ تعمیر نو کا اقدام کیا گیا۔ دوسری جانب ١۹۸۰ء میں شروع ھونے والی جنگ نے ایران کی فلمی صنعت میں ایک نیا باب کھولا اور سیاسی و انقلابی افق پر “ سینمائے دفاع مقدس” رونما ھوا اور اس کی ماہیت نظریاتی بنیادوں پر مبنی ھونے کی وجہ سے قومی سطح کی فلمیں، دینی سطح کی فلموں تک ترقی کر گئیں۔
انقلاب کے بعد بنے والی پہلی فلموں میں، انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد فلموں میں عورت کے رول میں نمایاں فرق مشخص و معین تھا۔ فلموں میں اداکاری، فلمی داستان لکھنے اور حتی فلموں کے میک اپ میں نمایاں تبدیلیاں رونما ھوئیں، یہاں تک کہ انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد والے اداکاروں کے درمیان کسی صورت میں موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ انقلاب سے پہلے لوگ شائد زیادہ تر خود اداکار کے لئے سینما جاتے تھے اوریہ مسئلہ بھی عجیب نہیں ہے، کیونکہ اس زمانہ میں فلم کو فن پر مبنی مضمون کے تحت نہیں بنایا جاتا تھا کہ لوگ فلم سازی کے فن سے آگاہ ھوتے۔
آج کے لوگ علم و فن کے لحاظ سے اس سطح پر پہنچے ہیں کہ اچھی اور بری فلموں کو تشخیص دے سکیں۔ انقلاب کے بعد فلمی دنیا میں خواتین ہدایت کاروں نے بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے اور ہمیشہ خواتین فلم ساز کامیاب رہی ہیں اور انھوں نے اپنے آپ کو کمال تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ایران کی فلموں میں عورتوں سے تجارتی فائدہ اٹھانے کا سلسلہ اب بند ھوچکا ہے، اور اس وقت فلموں کی داستان لکھنے والے اور ہدایت کار کوشش کرتے ہیں کہ اغلب ایسی فلمیں بنائیں جن میں عورتوں کے خاندانی رول پر تاکید ھوا اور عورتوں کی حیثیت اور شان کی رعایت کریں۔ حقیقت میں کہا جاسکتا ہے کہ انقلاب کے بعد عورت کے مقام و منزلت کی قدر دانی کی جا رہی ہے۔
ایران کی فلمی صنعت میں جو نمایاں تبدیلیاں رونما ھوئیں ہیں، ان میں غیر ملکی، خاص کر امریکی فلموں کے اثر رسوخ کو تدریجا حذف کیا جانا قابل ذکر ہے۔ ملک میں ہالی ووڈ اور ھندوستان کی ایسی فلمیں دکھانا ممنوع قرار دیا گیا جن میں جنگی اور کمزور تجارتی مناظر فلمائے گئے ھوں، اس کے نتیجہ میں ایسی فلموں نے رونق پائی، جن میں استعماری طاقتوں سے مبارزہ، ساواک اور مغربی جاسوسی ایجنسیوں کی رسوائی کے مناظر فلمائے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ مشرقی یورپ، اٹلی اور روس میں بنی ھوئی سماجی اور دینی فلموں نے بھی رواج پایا۔
فلمیں بنانے کے نظم و انتظم کے سلسلہ میں سازمان تبلیغات اسلامی کے فن کاری کے شعبہ، بنیاد مستضعفان کے ثقافتی شعبہ، انقلقب اسلامی کی لائٹ اینڈ ساونڈ کی کمیٹی اور وزارت فرھنگ و ارشاد کے شعبہ سنیما کی تاسیس کے بعد ایران کی فلمی انڈسٹری کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا ہے۔
١۹۷۹ء میں انقلقب کی کامیابی کے بعد بہت سے ماہرین بہ تصور کرتے تھے کہ اب ایران میں عورتیں گوشہ نشینی اختیار کریں گی، لیکن اس کے برخلاف عورتوں نے ایران کے معاشرہ میں فعالانہ کردار ادا کیا۔ یونیورسٹیوں میں عورتوں کا روز افزون قابل توجہ حضور اور آرٹ اور فن کاری کے شعبہ میں عورتوں کا نمایاں رول اس تبدیلی کا ثبوت ہے۔
ایک معاشرہ کی تبدیلی کے مظاہر اس معاشرہ کے ادبیات اور فن ھوتے ہیں۔ معاشرہ کے ہر شعبہ میں عورتوں کے فعالانہ کردار سے معاشرہ میں ہمہ جہت اور پائدار ترقی کو فروغ ملتا ہے۔ عورتوں نے بھی معاشرہ میں عام پیداوار بڑھانے اور خاص کر فلمیں بنانے کے عنوان سے نمایاں کارنامے انجام دئے ہیں۔
ایران میں سیاسی تبد یلیاں، عورتوں کے طرز تفکر میں بھی تبدیلی ایجاد کرنے اور سماجی تبدیلیوں کے آرزو پورے ھونے کا سبب بنیں۔ حقیقت میں ایک قسم کی ثقافتی ترقی کو ارتقاء بخشنے کے لئے کافی کوششیں کی گئیں، کہ اسلامی اصولوں کے پیش نظر معاشرہ میں ثقافتی تبدیلیاں بھی رونما ھوئیں اور اس طرح معاشرہ کی تعمیرنو کے سلسلہ میں ایجاد ھوئی شکستگی دوبارہ ترمیم ھونے لگی۔
عورت کا با معنی رول:
ایران کے معاشرہ میں شہری اداروں کے فقدان اور کمزوری کے حالات کے باوجود لوگوں کے مطلبات پورے کرنے کی ضرورت کے پیش نظر فلموں کی راہ کھل گئ۔ فلمیں روایتی معاشرہ میں رائج ھونے اور مسلسل کنٹرول کے باوجود لوگوں کی خاموش ترجمان بننے میں کامیاب ھوئیں ۔ عورتوں کی تحریک نے بھی اس سے کافی استفادہ کیا۔ انقلاب کے بعد جس چیز نے بہت سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف متمرکز کی تھی، وہ یہ تھی کہ یہ فن یا ذرا ئع ابلاغ کس طرح خواتین کی خدمت کرسکے۔ فلموں کے پس منظر میں خواتین کا با معنی رول عورتوں کے لئے خلاف توقع تھا۔ بہ الفاظ دیگر، عورتوں نے غیر متوقع طور پر روایتی فلموں کی تعمیری فلموں میں تبدیل کرنے سے فائدہ اٹھایا۔
اسلامی انقلاب میں خواتین کی وسیع شرکت کے نتیجہ میں عورتوں کے سماجی مسائل میں شرکت کرنے میں بھی تبدیلیاں رونما ھوئیں اور ان کا رول ہمہ جہت صورت اختیار کرگیا۔
عورتوں نے، کافی امید کے ساتھ فلموں میں قدم رکھا۔ اب ان کے لئے فلمیں صرف تفریح کا وسیلہ نہیں تھیں۔ بلکہ وہ فلموں سے آگاہی حاصل کرنے کے وسیلہ کے طور پر استفادہ کرنا چاہتی تھیں۔ مرد ہدایت کاروں اور فلموں کی داستان لکھنے والوں نے بھی بڑی تیزی کے ساتھ انھیں قبول کیا، اگر چہ آسانی کے ساتھ نہیں۔ اس سلسلہ میں پوران درخشندہ کہتی ہیں:“ جب میں فلم “ رابطہ” بنا رہی تھی، معاشرہ ابھی یہ آمادگی نہیں رکھتا تھا کہ مردوں کے ایک گروہ کی رہبری ایک خاتون انجام دے۔ فلم کے پرو ڈوسربھی یہی محسوس کر رہے تھے۔” درخشندہ مزید کہتی ہیں:“ اسی عیسوی کی دہائی عورتوں کے لئے طلائی دہائی تھی۔ اس دہائی کے دوران انقلاب کے فراہم کردہ فرصت کے پیش نظر عورتوں نے معاشرہ کے تمام شعبوں، من جملہ طبابت، موسیقی اور فلموں میں نمایاں ترقی کی۔ البتہ یہ کامیابی اور ترقی مسئولین کی حمایت اور خواتین کی انتھک کوششوں کے بغیر حاصل نہیں ھوسکتی تھی۔
اداکاری کے شعبہ میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونماھوئیں۔ فلموں میں عورتوں کی حالت تبدیل ھوئی۔ انقلقب کے آغاز پر اول عورتیں فلموں سے غائب ھوئیں۔ ایسی فلمیں بہت کم پائی جاتی تھیں، جن میں کوئی عورت رول ادا کرتی ھو۔ فلمیں بنانے کے لئے قوانین منظور کئے جانے کے بعد، عورتیں دوبارہ سنیما کے پردہ پر ظاہر ھونے لگیں۔ اور عورت بہت سی فلموں کا اصلی موضوع بن گئی، اس طرح کی بننے والی فلموں کو عورتوں کی فلمیں کہنا مبالغہ نہ ھوتا۔ یعنی ایسی فلمیں بننے لگیں کہ ان کے بنیادی موضوع کو عورتیں تشکیل دیتی تھیں۔ بہت سے فلم سازوں نے کوشش کی کہ عورتوں کی فلموں کو روایتی محدودیتوں سے آگے لے جائیں۔ یہاں تک کہ بہرام بیضائی یا علی زکائی کی فلموں میں “ ماں” کا رول روایتی فلموں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا تھا۔ اب عورت کی شناخت، مرد یا خاندان سے وابستہ نہیں رہی ہے بلکہ وہ اپنے طرز تفکر پر مبنی اقدام کرتی ہے۔
کلی طور پر جو کچھ انقلاب کے بعد والی فلموں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عورت نے انقلاب کے بعد اپنی کھوئی ھوئی حیثیت کو پھر سے حاصل کیا ہے اور معاشرہ کے حاشیہ سے متن میں آگئی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں کے دوران ایرانی فلمیں ، معاشرہ میں عورتوں کی مقاومت کا ایک محا ذ رہی ہیں اور عورتوں کی نشیب و فراز والی حالت کا ایک انعکاس پیش کیا ہے۔ عورتوں کے موضوع پر مشتمل فلموں کو عوامی سطح پر مقبولیت سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ موضوع ایرانی معاشرہ کے مسئلہ میں تبدیل ھو چکا ہے اور یہ پہلے قدم میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے سلسلہ میں کوششیں ہیں۔ اگر ہم یہ قبول کریں کہ فلمیں معاشرہ کا آئینہ ہیں، تو ایرانی فلموں نے اسلامی انقلاب کے بعد ثابت کیا ہے کہ معاشرہ میں عورتوں کے رول میں وسیع تبدیلیاں رونما ھوئی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں معاشرہ اور فلموں میں زیادہ سے زیادہ ظاہر ھو رہی ہیں۔
ساتھویں فصل
خواتین کی ورزش اور کھیلیں
٭٭٭٭٭
ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےاور انقلاب کے بعد عورتوں کی ورزش اورکھیلوں پر ایک نظر:
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے، عورتوں کی شخصی صلاحتیں امکانات اور شرائط کی عدم موجودگی کی وجہ سے ضائع ھوتی تھیں، لیکن اس وقت ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ عورتوں کی ورزش اور کھیلیں ایک لائحہ عمل کی بنیاد پر رشد و بالیدگی اور کامیابی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عورتوں کے لئے کھیلوں کے مختلف شعبوں میں شرکت کرنے کے امکانات فراہم ھوئے اور یہ امر عورتوں کے لئے تمام شعبوں، خاص کر کھیلوں کے شعبے میں ترقی اور پیشرفت کا سبب بنا۔
ورزش اور کھیلوں میں عورتوں کی شرکت ایک منطقی امر ہے اور کھیلیں ان کے حقوق میں شمار ھوتی ہیں۔ چونکہ اسلامی انقلاب سے پہلے عورتوں کی کھیلوں کے لئے امکانات، من جملہ عورتوں کے لئے مخصوص سٹیڈیم ﴿ورزش گاہیں ﴾، جن میں اسلامی احکام کی رعایت ھو، مہیا نہیں تھے، اس لئے حالیہ برسوں کے دوران مشئولین کی طرف سے عورتوں کی ورزش اور کھیلوں کی طرف خاص توجہ کرنا ، ورزش کار عورتوں کی استعدادوں کو شگوفائی بخشنےاور عورتوں کا اس میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کا سبب بنا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے عورتوں کی ذاتی صلاحتیں اور استعدادیں امکانات اور شرائط کی عدم موجودگی کی وجہ سے ضائع ھوتی تھیں، لیکن اس وقت ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ عورتوں کی کھیلیں ایک لائحہ عمل کی بنیاد پر رشد و بالیدگی اور کامیابی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ تمام مناسب میدانوں میں عورتوں کی موجودہ صلاحیتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے اور اگر بین الاقوامی سطح پر عورتوں کی کھیلوں کی راہ میں رکاوٹیں دور ھوئیں ، تو ہم اس سلسلہ میں بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
عورتوں کی عمومی کھیلوں کو وسعت بخشنے کے لئے، عورتوں کی مخصوص ورزش گاھوں کو تقویت بخشنے کی ضرورت ہے۔ عورتوں میں عمومی کھیلوں کی ترقی ملک میں ورزش کے سور ماؤں کی رشد و بالیدگی کا سبب بنتی ہے۔ وزارت ورزش و جوانان کی تشکیل کے بعد، عمومی ورزش کے سلسلہ میں عورتوں کی ورزش سے متعلق ایک نائب وزارت معین کی گئی کہ اس سے خواتین کی ورزش اور کھیلوں کی اہمیت معلوم ھوتی ہے۔ عورتوں کی ورزش کی ترقی حقیقت میں تمام معاشرہ کی ورزش کی ترقی شمار ھوتی ہے۔
سال اور صوبوں کی ترتیب سے ورزش کار عورتوں کی تعداد سے متعلق رپورٹ کا گوشوارہ:
ہم عورتوں کی ورزش اور کھیلوں کی موجودہ حالت اور مستقبل میں اس کی ممکنہ مشکل کو، عورتوں کی کھیلوں کے نمونوں کے پیش نظر بالکل دوسرے مظاہر کے مانند تصور کرسکتے ہیں۔ عورتوں کی سابقہ ورزشی کارکردگی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے مقابلے میں مردوں کی ورزش عورتوں کی بہ نسبت کم رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔
اجتماعی ہمت افزائیاں اور ستائشیں ، مناسب حمایتی پروگرام اور گونا گون معنوی و مالی انعامات کے نتیجہ میں عورتوں کی کھیلوں میں شرکت معیار و مقدار کے لحاظ سے ترقی کر رہی ہے۔ کھیلوں کے مربی کے مطابق کھیلوں میں بہترین اور سبق آموز ترین محرک آج کی کھیلوں میں نفسیات کا موضوع ہے۔
عورت ورزش کاروں کا مربی کے عنوان سے مہارت و کامیابی کا زیادہ تر دار و مدار ورزشکاروں کے درمیان محرکات میں تعادل قائم کرنے پر ہے، اس سلسلہ میں مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشرہ کی نصف آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور عورتیں مختلف جہات سے اہمیت رکھتی ہیں اور معاشرہ کے مختلف پروگراموں میں ان کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کے لئے جو امور مدنظر ہیں، ان مین سے ایک ورزش ہے۔ عالمی سطح پر آج کل بہت سی عورتیں مختلف کھیلوں میں اپنے کرتب دکھا رہی ہیں۔
قدیم زمانہ کی عورتوں کو کھیلوں میں شرکت کرنے، حتی کھیلوں کو دیکھنے کی بھی ممانعت کی جاتی تھی، لیکن آخر کار عورتوں نے کھیل اور کھیلوں کے مقابلوں میں قدم رکھا۔ کتاب “ زن و ورزش” ﴿ کے ص ١۸ و ١۹﴾ میں یوں آیا ہے: “ حتی خاص مذہبی اور اجتماعی تقریبات، جو قدیم یونان میں ٹورنامنٹ سے پہلے منعقد ھوتی تھیں اور اس کے بعد نونہالوں اور جوانوں کی بدن سازی کے لئے ، چار سال کے بعد ایک بار ٹورنامنٹ منعقد ھوتے تھے، عورتیں تماشائیوں کے عنوان سے ان میں داخل ھونے کا حق نہیں رکھتی تھیں۔ اور یہ ممنوعیت اس قدر شدید تھی کہ اگر کوئی عورت اس قانون کی خلاف ورزی کرکے کھیلوں کے مقابلہ کا تماشا دیکھنے جاتی، تو اسے موت کی سزا دی جاتی تھی۔
اسلامی ممالک میں عورتوں کی کھیلں:
کھیلوں کے کرتب کا مظاہرہ کرنے والے میدانوں میں سے ایک بین الاقوامی میدان ہے کہ اس میدان میں عالم اسلام کی عورتوں کے مذہبی اعتقادات کے خلاف کھیلوں کے رواج کی وجہ سے مسلمان عورتوں کی ان مقابلوں میں شرکت بہت کم ھوا کرتی تھی، لہذا ١۹۹۰ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی اولمپک کمیٹی ﴿ioc﴾ کے صدر اور اولمپک کونسل ایشیا ﴿oca﴾ کی منظوری اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جمہوریہ کی تائید و حمایت سے عورتوں کی ورزش سے متعلق اسلامی فیڈریشن “ شورائے ہمبستگی ورزش زنان” تشکیل پائی۔ اس فیڈریشن نے ١۹۹۰ء میں قومی اولمپک کمیٹی کے جلسہ میں عورتوں کی کھیلوں کے مقابلوں میں عدم شرکت کی تجویز پیش کی اور اسے منظوری ملی۔ عورتوں کی کھیلوں سے متعلق اسلامی فیڈریشن نے اولمپک منشور کے دائرے میں اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی رعایت کرتے ھوئے خواتین کے لئے کھیل کے مقابلوں میں شرکت کرنے کی منظوری دیدی۔ اس کے علاوہ اس فیڈریشن نے، مسلمان خواتین کے درمیان یکجہتی قائم کرنے ، ان کی اسلامی شناخت کو اجاگرکرنے، کھیلوں میں اسلامی اصولوں کی رعایت کرنے، اسلامی تعلیمات کے مطابق نسلی اور طبقاتی امتیازات کو ختم کرنے اور کھیل کے مختلف میدانوں میں خواتین کی ورزش اور کھیل کو تقویت بخشنے کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ اس سلسلہ میں اسلامی ممالک کی خواتین کی کھیلوں کے پانچویں دور کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ایران کے تین شہروں، یعنی ﴿ ایران کے دارالخلافہ﴾ تہران، ﴿ عالم اسلام کے ثقافتی دارالخلافہ﴾ اصفہان اور ﴿ مذہبی شہر﴾ مشہد مقدس میں منعقد کئے گئے۔ان مقابلوں میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی مسلمان اور غیر مسلم خواتین نے شرکت کی۔ خواتین کی کھیلوں کے ان مقابلوں میں مندرجہ ذیل کھیلیں اور ورزشیں قابل ذکر ہیں:
١۔ والی بال، ۲۔ تیراکی، ۳۔ غوطہ خوری، ۴۔ واٹر پولو، ۵۔ ٹیبل ٹینس، ٦۔ٹکوانڈو، ۷۔ کراٹا، ۸۔ دوڑ، ۹۔ شمشیر بازی، ١۰۔ جوڈ و۔
اسلامی ممالک کی خواتین کی کھیلوں کے مقابلے کے پانچویں دور میں معلولین خواتین کے مقابلوں میں مندرجہ ذیل کھیل اور ورزشیں قابل ذکر ہیں:
١۔ فٹسال، ۲۔ نشستہ والی بال، ۳۔ ویل چیر بسکٹ بال، ۴۔ نابیناؤں اور کم بیناؤں کی گول بال۔
ایران کی ورزش کار خواتین مختلف کھیلوں میں مہارت رکھتی ہیں اور کئی عالمی میڈل حاصل کئے ہیں، جن میں سے ذیل میں چند میڈلوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
ڈرائیونگ ﴿ جو مردوں کے ساتھ مشترک ہے﴾، ٹینس، تیر اندازی، والی بال، فٹبال، بسکٹ بال، دوڑ اور گونا گون رزمی ورزیشوں میں ایران کی بعض خواتین کھلاڑی کافی مشہور ہیں، جیسے:
١۔ ارغوان رضائی، جو عالمی سطح پر ٹینس کی چمپین ہے، ایرانی الاصل ہے اور اس وقت فرانس میں رہائش پذیر ہے۔ وہ “ ایران کی ملکہ ٹینس” کے عنوان سے مشہور ہے۔
۲۔ یاسمین سعادت، ایران کی پہلی خاتون ٹینس کھلاڑی ہے، جس نے کھیل کے عالمی مقابلوں میں با حجاب شرکت کی۔
۳۔ لالہ صدیق، ڈرائیونگ میں عورتوں اور مردوں کے مشترک مقابلوں میں ایرانی خاتون چمپین ہے۔ ایران میں خواتین کے کھیل مکمل طور پر خاص شرائط کے حامل ہیں، یہ ایسے شرائط ہیں کہ شائد کسی دوسرے اسلامی ممالک میں موجود نہ ھوں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران بیرون ملک کھیلوں کے مقابلوں میں ایرانی خواتین کی شرکت تیر اندازی اور شطرنج تک محدود تھی، لیکن آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد حالات بالکل مختلف ہیں اور وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آج ایرانی خواتین چند انگشت نما کھیلوں کے علاوہ عالمی سطح کی تمام کھیلوں میں شرکت کرتی ہیں۔
ورزش کار خواتین کے لئے ایک ایسے لباس کا ڈیزائن بنانا کہ جس میں اسلامی پردے اور لباس کی رعایت ھو، ابتداء میں نا ممکن لگتا تھا۔ لیکن ایک مدت سے یہ مسئلہ حل ھو چکا ہے اور اس طرح ایران کی ورزش کار خواتین کے لئے کھیلوں میں شرکت کرنے کی راہ ہموار ھوئی ہے۔ اس کے پیش نظر ایرانی کھلاڑی خواتین کے لئے بین الاقوامی مقابلوں میں بھی شرکت کرنے کی راہ کھل گئی ہے، اگر چہ اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ اس سلسلہ میں ابھی ایرانی خواتین ابتدائی مراحل میں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی بھی کچھ کج فہم عناصر ایران کی خواتین کھلاڑیوں کو کھیلوں کے غیر ملکی مقابلوں میں بھجینے کے سلسلہ میں مخالفت کرتے ہیں۔ عورتوں کی ٹیم کی صورت میں کھیلوں میں شرکت کرنے کے سلسلہ میں ایران ابھی مشہور نہیں ہے۔ بلکہ ایران نے اس میدان میں تازہ قدم رکھا ہے، اور لگتا ہے کہ ایرانی خواتین کو جو ٹیم کی صورت میں بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے،اکثر ٹیم کی صورت میں خواتین کی کھیلوں میں متفاوت لباس میں شرکت کرنے کی ہمت افزائی کرنا مراد ہے۔ ایرانی خواتین نے، ٹیم کی صورت میں بین الاقوامی مقابلوں میں فٹبال اور فٹسال میں شرکت کرنا شروع کیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ایرانی خواتین کا بعض کھیلوں میں شرکت نہ کرنے کی وجہ ان کھیلوں کے سلسلہ میں بعض ملکوں میں اسلامی قدروں کی رعایت نہ کرنا ہے ۔
قدرتی بات ہے کہ ایرانی خواتین ایسی کھیلوں کے سلسلہ میں ملک کے اندر ہی شرکت کرتی ہیں۔ البتہ جن کھیلوں کے سلسلہ میں بین الاقوامی سطح پر اسلامی اصول کی رعایت کی جاتی ہے، ان میں ایرانی خواتین نے اپنی فن کاری کےجوہر دکھائے ہیں۔ اگر ماضی سے خواتین کی ورزش کے لئے امکانات کو مدنطر رکھا جاتا اور ان کے لئے کھیل کے مختلف میدانوں میں اپنے کارنامے دکھانے کی فرصت مہیا کی جاتی، تو جو کمالات آج تک ایران کی خواتین نے حاصل کئے ہیں ان میں نمایاں اضافہ ھوتا۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ایرانی مختلف میدانوں میں خاص مقامات حاصل کرسکتے ہیں اور بین الاقوامی سطح کی کھیلوں میں ایران کی خواتین کی نمایاں اور قابل فخر کارنامے ایک پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی طرف ہم فخر سے اشارہ کرسکتے ہیں۔
ایرانی خواتین کی کھیل کے میدان میں معیار کے لحاظ سے رشد و بالیدگی مکمل طور پر ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں ایران کی خواتین صرف پانچ کھیلوں، یعنی والی بال، بسکٹ بال، ٹیبل ٹینس، ٹینس اور تیراکی میں شرکت کرتی تھیں، جبکہ اس وقت ان پانچ کھیلوں کے علاوہ دسیوں مختلف کھیلوں میں فعالیت کرتی ہیں اور حتی کبڈی جیسی کچھ نئی کھیلوں میں عالمی اور ایشیاء کی سطح پر جوہر دکھائے ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران خواتین کی ورزش اور کھیلوں کے سلسلہ میں کوششوں اور ان کی استعدادوں کے نتیجہ میں ایرانی خواتین نے کھیلوں میں بلند مقامات حاصل کرنے کے لئے پہلی بار اولمپک میں پینگ پنگ اور موسم سرما کے اولمپک کھیلوں میں شرکت کی ہے تاکہ ایک بار پھر دنیا والوں کو اپنے کارناموں کے جوہر دکھائیں۔
آج ہمارے ملک کی خواتین کے لئے ہر قسم کی کھیلوں میں شرکت کرنے کی راہ کھلی ہے، لیکن پھر بھی ہم اس سلسلہ میں ابتدائی مرحلہ میں ہیں۔ عالمی اور ایشیا کی سطح کی کھیلوں میں ایرانی ورزش کار خواتین حجاب و عفت کی رعایت کرتے ھوئے شرکت کرتی ہیں اور اس سلسلہ میں بہت سی رختہ اندازیاں ان کے لئے پسپائی کا سبب نہیں بن سکی ہیں۔
۲۰۰۳ء میں تقریبا ۲۷۸۵١۰ خواتین اور ۲۰۰۴ء میں مجموعا ۳۰۸١۳۰ خواتین مختلف کھیلوں میں چیمپین شیپ حاصل کرنے میں کامیاب ھوئی ہیں اور یہ اعداد و شمار ایران میں خواتین کی کھیل کود کے سلسلہ میں کوششوں میں نمایاں اضافہ کی دلیل ہے۔
آخر پر ہم ایران کے مختلف صوبوں میں کھیلوں کے تربیت یافتہ مربیوں کی تعداد کا گوشوارہ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کے سالوں کی تربیت سے پیش کرتے ہیں۔
آٹھویں فصل:
خواتین کی مخصوص تنظمیں
٭٭٭٭٭
غیر سرکاری تنظمیں:
غیر سرکاری تنظیم: ﴿N.G.O﴾ کا لفظ، پہلی بار اقوام متحدہ نے ١۹۴۵ ء میں اپنے بنیادی آئیں کے تبصرہ نمبر ۷١ اور فصل نمبر ١۰ میں استعمال کیا ہے اور ١۹۵۰ ء میں اقوام متحدہ کی اجتماعی۔۔ اقتصادی کونسل کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے بیان نمبر ۲۸۸ میں غیر سرکاری تنظمیں اصلی مشاوروں کے عنوان سے پیش کی گئیں۔
سیاسی ایڈ منسٹریشن اور ووٹنگ اور انتخابات کے میدان میں قدم رکھنے کے ضمن میں، عورتوں کی تنظیموں کی تشکیل اور سرگرمیاں بھی ایک طرح سے عورتوں کی سیاسی مشارکت شمار ھوتی ہیں کہ شاید گزشتہ دو صورتوں کی بہ نسبت اس میں بیشتر قوی نقاط پائے جاتے ھوں۔
عورتوں کی تنظمیں، من جملہ سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیں، معاشرہ کے سیاسی ایڈمنسٹریشن سے مسلسل اور بلا واسطہ ٹکراؤ لئے بغیر، اس کی وجہ سے پیدا ھوئے خاص عوارض اور مشکلات کو برداشت کرتے ھوئے، معاشرہ کے مختلف سیاسی و اجتماعی میدانوں میں کوششیں کرسکتی ہیں اور معاشرہ کی سیاسی ایڈ منسٹریشن میں بلا واسطہ طور پر اور مختلف صورتوں میں اہم ذمہ داریاں سنبھال سکتی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کی دفعہ نمبر ۲٦ کے مطابق تشکیلات، احزاب، جماعتوں، اسلامی اور صنفی انجمنوں، سیاسی اور دینی اقلیت کی انجمنوں میں عورتوں کی شرکت کو قبول کیا گیا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، شرط یہ ہے کہ ان کی یہ شرکت، آزادی اور قومی اتحاد، اسلامی معیاروں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین سے نہ ٹکراتی ھو۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے عورتوں کی کئی تنظمیں اور گروہ ظاہر ھوئے تھے، ان میں سے “ نہضت زنان مسلمان” ﴿ مسلمان عورتوں کی تحریک﴾ جیسی بعض تنظمیں ایک مختصر مدت کے بعد منحل ھوئیں اور “ جامعہ زنان انقلاب اسلامی” جیسی بعض تنظمیں ابھی بھی سر گرم عمل ہیں۔
اس دوران کچھ مخسوص تنظمیں بھی وجود میں آئین، جو اپنی موجودیت کا اعلان کے ذریعہ اور مظاہروں میں شرکت کرکے اظہارکرتی تھیں۔ اس قسم کی اکثر تنظمیں اور گروہ انقلاب سے پہلے اور یا اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں میں منحل ھوئیں اور ان کے انحلال کی وجہ بھی ان کا مختلف ایجنسیوں ، سیاسی پارٹیوں اور گرھوں سے وابستہ ھونا تھا، اور یہی ایران کے متحد ھونے اور ہم کاری میں رکاوٹ بنا۔ حالیہ برسوں کے دوران ، غیر سرکاری سیاسی گرھوں کے علاوہ عورتوں کی بہت سی غیر سرکاری تنظمیں ، اجتماعی، صنفی، خصوصی اور فلاحی تنظیموں کے عنوان سے فعالیت کرنے کے لئے تاسیس ھوئیں۔ یہاں تک کہ ۲۰۰٦ء کے آخر تک خواتین کی ۸۰۰ سے زائد غیر سرکاری تنظیموں نے فعالیت کی اجازت حاصل کی ہے اور یہ تعداد گزشتہ دس برسوں کے دوران ١۳ گنا بڑھ گئی ہے۔
تاریخ میں عورتوں کی غیر سرکاری تنظمیں:
ایران میں ماضی کی غیر سرکاری نسواں تنظیموں کی تاریخ قاچاریہ بادشاہی کے اواخر اور انقلاب مشروطہ سے شروع ھوتی ہے۔ سیاسی اختلافات اور پہلی عالمی جنگ کے نتیجہ میں وبائی بیماریوں ، قحط سالی اور بیکاری جیسے بحران اس امر کا سبب بنے کہ خواتین گروھوں کی صورت میں مشکلات کو دور کرنے کے لئے سرگرم عمل ھوکر فلاحی تنظمیں تاسیس کرنے لگیں۔ ایسی تنظیموں کے طور پر “ موسسہ خیریہ آئمہ ﴿ع﴾ ” اور “ انجمن خیریہ بانوان ارامنہ” کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو ١۹۰٦ء میں تاسیس ھوئیں۔اس زمانہ کی دوسری مشکلات میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور مد ر سے تاسیس کرنے کا مسئلہ تھا کہ خواتین گھروں میں مخفیانہ طور پر تعلیم و تربیت کے کلاس منعقد کرنے اور تشکیلات تاسیس کرنے پر مجبور تھیں۔ “ انقلاب مشروطہ” کے دوران بھی “ اتحادیہ غیبی زنان” کے نام سے عورتوں کی ایک آزاد سیاسی تنظیم اور“ انجمن مخد رات وطن، انجمن نسوان ایران” کے نام سے ایک سماجی تنظیم وجود میں آئی تھی۔
اگر چہ قاچار دور میں، محدود اور مرد وں کی بالادستی پر مبنی نظام میں عورتوں کو اجتماعات میں شرکت کرنے کی محدودیت تھی، لیکن احمدشاہ کے زمانہ میں حکومت“ ادارہ معارف نسوان” تشکیل دینے پر مجبور ھوئی تاکہ ان کے مسائل پر غور کیا جائے، اسی زمانہ میں صفیہ یزدی نام کی مجتہد خاتون کا بنیادی آئین کی نگرانی کرنے والی کمیٹی میں رکنیت کا مسئلہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ “ انجمن مخد رات” کی بانی رکن محترمہ صفیہ یزدی نے اس انجمن کے سامنے غیر ملکی اشیاء اور قرضے کا بائیکاٹ کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس انجمن کے کام میں یتیموں کی پرورش اور لڑکیوں کو تعلیم و تربیت کی سہولیات فراہم کرنا بھی شامل تھا۔ محترمہ یزدی نے مشروطیت کے زمانہ میں ١۹١۰ء میں لڑکیوں کے لئے “عفتیہ” نام کے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور یہ خاتون تاریخ مشروطہ کی پہلی خاتون تھیں جو عام اجتماعات میں خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل پر تقریرکرتی تھیں۔ اور ١۹١۰ء میں انھیں بنیادی آئین کی ایک ناظم کے عنوان سے متعارف کرایا گیا۔ یہ سلسلہ رضاشاہ کے دور تک جاری رہا، لیکن اس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ھوئی۔ ١۹ اگست ١۹۵۳ء کی تختہ الٹنے کی سازش کے بعد، خواتین کی سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیں یا بالکل تعطیل کی گئیں یا جزوی طور پر تعطیل کی گئیں، یہاں تک کہ ساٹھ عیسوی کی دہائی میں “ انجمن زنان ایران” نامی تنظیم تشکیل پائی اور رفتہ رفتہ یہ تنظیم “ حزب زنان ایران” میں تبدیل ھوئی۔ لیکن مکمل طور سے تعطل سے دوچار سیاسی ماحول کے پیش نظر اور حکومت کی طرف سے شدید کنٹرول کی وجہ سے یہ تنظیم عملی طور پر منحل ھوئی۔ صرف “ جمعیت بانوان صلح جو” اور “ انجمن ملی حمایت از زنان بی سرپرست” ، جیسی فلاحی اور غیر سرکاری تنظمیں کم و بیش اپنی فعالیت جاری رکھی ھوئی تھیں۔ ١۹۷٦ سے ١۹۷۸ء تک انقلابی تحریک کے زور پکڑنے کے نتیجہ میں عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ مخفیانہ سیاسی سرگرمیوں اور تشکیلات میں قابل توجہ حد تک حصہ لیا اور باشکوہ اسلامی انقلاب کو سر انجام تک پہنچانے میں کامیاب ھوئیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ٹھونسی گئی جنگ کے دوران بھی عورتوں نے لڑنے والے مجاہدین کی پشت پناہی اور طبی امداد اور خدمات کے سلسلہ میں موثر اور نمایاں کام انجام دیا کہ ان خدمات کے قابل قدر پہلوان کا رضا کرانہ رول تھا۔ عورتوں نے اس سلسلہ میں ایک طبیب اور نرس کے عنوان سے ہلال احمر جیسی امدادی تنظیموں میں حاضر ھوکر محاذ جنگ پر ﴿ فوجی اور غیر فوجی﴾ مجروحین کی مرہم پٹی اور علاج و معالجہ کرنے میں شایان شان کارنامے انجام دئے۔ اس کے علاوہ عورتوں نے دفاعی گروہ تشکیل دے کر ضرورت کی صورت میں دین و وطن کا دفاع کرنےکے لئے میدان کارزار میں داخل ھونے کے لئے تیار تھیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے بسیج اور سیاہ پاسداران میں شرکت کرکے ملک کے دفاعی امور میں تعاون کیا۔
مسلط کی گئی جنگ کے ختم ھونے کے بعد جنگ کے مشکلات میں کمی واقع ھونے اور معاشرہ کی تعمیر نو کی طرف توجہ کے نتیجہ میں غیر سرکاری تنظیموں کی بحث سنجیدگی کے ساتھ شروع ھوئی، کیونکہ محسوس کیا جاتا تھا کہ ملک کی تعمیر نو میں لوگوں کو منظم اور رضا کارانہ صورت میں نمایاں رول ادا کرنا چاہئیے۔ لہذا نوے عیسوی کی دہائی کے آغازپر عوامی تنطیموں نے اس سلسلہ میں مقدار و معیار کے لحاظ سے نمایاں پیشرفت وترقی کی۔
عورتوں کی غیر سرکاری تنظیموں کی ضرورت:
جنگ کے خاتمہ کے بعد ملک کی تعمیر نو کا آغاز ھوا اور اس کے نتیجہ میں اجتماعی اور اقتصادی میدانوں میں عورتوں نے نمایاں رول ادا کیا۔ کیونکہ خواتین کی قابل توجہ اور عظیم آبادی ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی رول ادا کرسکتی تھی۔
مختلف تنظیموں کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ یہ تنظمیں سماجی نظم و نسخ، روابط کو منسجم کرنے ، آراء کو منتشر ھونے سے بچانے اور انفرادی حرکت کے لئے مناسب وسیلہ ھوسکتی تھیں۔ آج کی دنیا میں حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ مسئو لیتوں اورذمہ داریوں کے ایک حصہ کو پرائیویٹ سیکٹر کو سونپ کر حکومت پر ایڈ منسٹریشن اور مالی دباؤ کو کم کریں، اور دوسری جانب لوگوں کی شرکت سے مختلف طبقات کے لئے سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی ترقی کے مواق فراہم ھو جائیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی، حکومت کو محدود کرنا اور حکومت کے ہاتھ میں سب کچھ ھونے کے ذمہ داری سے حکومت کا بوجھ ہلکا کرکے لوگوں کو ملک کی تعمیر و ترقی میں شرکت کرنے کے امکانات فراہم کرنا پروگرام کا حصہ تھا تاکہ اس طرح جائز طریقہ اور اسلامی و انقلابی قدروں کی رعایت کرتے ھوئے عام لوگوں کی زندگی کے حالات کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس امر کے وسائل میں ان عوامی تنظیموں کو تقویت بخشنا بھی شامل ہے کہ جو غیر سرکاری صورت میں فعال ہیں اس سلسلہ میں عورتوں کی توانائیوں کو بڑھاوا دینے کے اقدام بھی کئے جاسکتے ہیں۔
ایران میں غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیاں:
کلی طور پر عورتوں کی غیر سرکاری تنظمیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ان میں سے بعض تنظمیں معاشرہ میں عورتوں کو در پیش مسائل اور موضوعات کے مقاصد کے پیش نظر وجود میں آتی ہیں اور کچھ دوسری تنظمیں ایسی ہیں جن میں ماحولیات اور اطفال وغیرہ جیسے مختلف موضوعات کو مد نطر رکھا گیا ہے، لیکن ان دونوں قسم کی تنظیموں کے موسسین اور اصلی ڈھانچہ عورتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر چہ ایران میں خواتین کی غیر سرکاری تنظمیں مختصر مقاصد سے تشکیل پاتی ہیں، لیکن نظریات اور کارکردگی کے لحاظ سے ان کے مشترک مقاصد کے زمرے میں طبقہ بندی کی جاسکتی ہے۔
سماجی فلاح و بہبود اور روزگار کو بڑھاوا دینے کی سرگرمیاں:
اس سلسلہ میں عورتیں معاشرہ کی آسیب زدہ طبقہ شمار ھوتی ہیں اور ان کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کچھ فعالیتیں انجام دی جاتی ہیں جو خاص طور پر امدادی ہیں۔ ان امدادی فعالیتوں کے تحت خواتین سے متعلق مخصوص تنظیموں کی تشکیل، طبی امداد فراہم کرنا اور تغذیہ کے مسائل حل کرنا شامل ہے۔ لہذا چونکہ خواتین کے اقتصادی اور معیشتی حالات، ان کی مالی آزادی، ان کے روزگار اور پیداوار اور سلیف ایمپلایمنٹ میں ان کے رول کی کافی اہمیت ہے، اس لئے ایسی تنظمیں تشکیل دی جاتی ہیں جو کام اور سرمایہ کے مختلف وسائل اور مہارتوں کی تربیت کو بروئے کار لاکر عورتوں کی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکیں۔ روز گار فراہم کرنے کی تنظمیں اور کواپریٹیو سوسائٹیاں ایسی تنطیموں کے نمونے ہیں۔
روز گار فراہم کرنے کی مہارت کی تربیت ایسے امور میں سے ہے کہ بہت سی عوامی تنظمیں، فلاحی تنظمیں اور اجتماعی خدمات سے متعلق تنظمیں اس سلسلہ میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ امر افراد کی توانائیوں کو بڑھانے، خاندانی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور انھیں تحفظ بخشنے، سماجی نقصانات کو روکنے، اور روزگار فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
ایسی تنظیموں کے دائرے میں اکثر ایتام، خاندان کی بے سرپرست خواتین ، نوجوان ، محروم اور محتاج خاندان آتے ہیں۔ لہذا اس قسم کی عوامی اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے لوگوں کو فن اور ہنر کی تربیت دینے اور روزگار فراہم کرنے کے کام سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے۔
تحقیقاتی﴿ پروگرام:
عورتوں کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی مسائل جیسے تمام شعبوں میں خواتین کی حالت کی تحقیق اور عورتوں سے متعلق بنیادی مباحث کا مطالعہ، جو بنیادی اور اصلی اجتماعی ضرورت ہے، سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں اور تحقیقاتی اداروں کے وجود میں آنے کا سبب ہے۔ یہ تنظمیں جو خاص طور پر ملک کی تعلیم یافتہ اور دانشور خواتین کے توسط سے تشکیل پاتی ہیں، ترجیحات کی شناسائی کرنے کے مراکز کے عنوان سے خواتین کے حالات کو سدھارنے کا کام انجام دے سکتی ہیں اور یہی تنظمیں اجتماعی فعالیتوں کو بروئے کار لاسکتی ہیں۔
سیاسی اور اجتماعی پروگران:
اس پروگرام کے تحت خواتین کے لئے جنسی انصاف، مہیا کرنا اور مغربی خواتین پر ھونے والے مظالم کو دور کرنا شامل ہے۔ اجتماعی فریضوں کے بارے میں تحقیق، سماجی انصاف کے قائم کرنے کی غرض سے مد نظر ہے۔ خواتین کی توانائیوں کو تقویت بخشنا بھی اس نظریہ کے مقاصد میں شامل ہے۔
غیر سرکاری تنظمیں کوشش کرتی ہیں تاکہ تمام خصوصی اور عمومی اداروں میں خواتین کی شرکت متحقق ھو جائے اور فرصتوں کی شناسائی کرکے ، خواتین کی سطح زندگی کو بہتر بنایا جائے۔ غیر سرکاری فلاحی تنظمیں روز گار فراہم کرنے، خدمات انجام دینے، تحقیق ، مشاورت، تعلیم و تربیت وغیرہ کو مذکورہ مقاصد کے لئے انجام دیتی ہیں۔
ثقافتی پرو گرام:
ہر ملک کی سب سے اہم ضرورت، سماجی اور اجتماعی روابط کو کمال بخشنے کی بحث ھوتی ہے۔ موجودہ حالات میں ثقافتی بنیادوں کو تقویت بخشنا سماجی رد عمل کا سبب بن سکتا ہے، یہ بنیادیں عوامی سطح کی اور ان کے مذہب، رسومات اور عقائد پر مبنی ھونی چاہئیں۔ ایران کی خواتین ث