جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت

Rate this item
(30 votes)

خاندانی عظمت :

حضرت خدیجہ کبری عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ھجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ھوئی ہیں-

ان کے والد خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں- حضرت خدیجہ کے جد " اسد بن عبدالعزی"، عہد نامہ " حلف الفضول" کے ایک اہم رکن تھے-

قصی بن خویلد کے چوتھے جد" قصی بن کلاب" ہیں، جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھی جد امجد ہیں-

خویلد کے جد، عبدالعزی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد، عبد مناف آپس میں بھائی تھے اوران کے والد قصی بن کلاب تھے- اس بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدیجہ کبری{س} دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اور شجرہ نسب کے لحاظ سے بھی آپس میں قریبی رشتہ دار تھے-

خویلد، ایک ھوشیار، بلند مرتبہ، کریم اور نیک اخلاق کے مالک شخص تھے اور بنی اسد کے سردار کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے- ان کی والدہ، فاطمہ بنت " زائدہ بن الاصم" تھیں- فاطمہ کی ماں، ھالہ بنت " عبد مناف بن قصی" تھیں کہ ان کے تیسرے جد، رسول اللہ کے بھی جد تھے- اس بنا پر حضرت خدیجہ{س} اپنے پدری اور مادری نسب کے لحاظ سے کئی واسطوں کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم نسب تھیں اور دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے-

حضرت خدیجہ {س} کے ۵ بھائی اور ۴ بہنیں تھیں-

حضرت خدیجہ {س} کے بھائیوں کے نام:

۱-عوام بن خویلد: انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھپھی صفیہ بنت عبداالمطلب سے شادی کی تھی- ان کے تین بیٹے تھے، جن کے نام زبیر، سائب اور عبدالکعبہ تھے- زبیر کے دو بیٹے، مصعب بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر نامی تاریخ اسلام میں مشہور ہیں-

۲-حزام بن خویلد: وہ دوران جاہلیت میں " جنگ فجار" میں مارے گئے اور ان کے دو بیٹے تھے، جن کے نام حکیم بن حزام اور خالد بن حزام تھے-

۳-نوفل بن خویلد: ان کے بھی تین بیٹے تھے، جن کے نام ورقہ بن نوفل، صفونی بن نوفل اور اسود بن نوفل تھے-

۴-عدی بن نوفل: تاریخ میں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے-

۵-عمرو بن خویلد: حضرت خدیجہ {س} کی خواستگاری اور عقد کی تقریب ان کے ہی گھر میں منعقد کی گئی ہے-

حضرت خدیجہ{س} کی بہنوں کے نام:

۱-ہالہ بنت خویلد: وہ حضرت خدیجہ {س} کی مشہور ترین بہن تھیں- وہ ھجرت کے بعد رسول خدا {ص} کے پاس آگئیں-

۲-خالدہ بنت خویلد: ان کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص معلومات درج نہیں کی گئیں ہیں-

۳-رقیقہ بنت خویلد: ان کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص معلومات نہیں ملتی ہیں-

۴-ھند بنت خویلد: بعضوں نے کہا ہے کہ یہ وہی ہالہ ہیں جن کو تاریخ میں اس نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے-

تاریخ کی بعض کتابوں میں " طاہرہ" نام کی حضرت خدیجہ {س} کی پانچویں بہن کا ذکر بھی آیا ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں حضرت خدیجہ {س} کا لقب " طاہرہ" تھا-

حضرت خدیجہ {س} کے چچیرے بھائی، ورقہ بن نوفل بن اسد تھے- ورقہ بن نوفل اپنے زمانہ میں جزیرۃ العرب کے ایک مشہور دانشور اور خدا پرست راہب تھے ان کو آسمانی کتابوں کے بارے میں کافی علم تھا اور عربستان میں دوران جاہلیت کے چار مشہور عابدوں میں سے ایک شمار ھوتے تھے- ورقہ بن نوفل بت پرستی کے مخالف تھے اور بت پرست عربوں سے مخاطب ھوکر کہتے تھے:

" خدا کی قسم تم لوگوں نے حضرت ابراھیم {ع} کے دین کو فراموش کیا ہے اور گمراہی سے دوچار ھوئے ھو اور ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ھو جو حقیقت نہیں ہیں کیونکہ یہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ تمھارے لئے فائدہ بخش ہیں اور نہ تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں- اے قریش والو؛ شہر بہ شہر جاکر دین حنیف ابراھیم {ع} کی تلاش و کوشش کرو اور اسے پہچا نو اور اسی دین کی پیروی کرو، دین حق کی پیروی کرو اور جان لو کہ جن بتوں کی تم پرستش کرتے ھو، وہ حقیقت نہیں ہیں-"

حضرت خدیجہ{س} اسلام سے قبل:

اگرچہ حضرت خدیجہ {س} کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں، خاص کر قبل از اسلام کے زمانہ سے متعلق تفصیلات تاریخ میں درج نہیں کی گئیں ہیں، لیکن یہی مختصر جو نقل کیا گیا ہے، اس سے معلوم ھوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے لوگوں میں ایک عقلمند، دانا، مدبر اور با بصیرت خاتون تھیں- حضرت خدیجہ {س} کے اخلاقی فضائل میں سخاوت، جاں نثاری، عفت، پاک دامنی، دور اندیشی، صبر و شکیبائی اور استقامت ایسے اوصاف ہیں جن کا تمام مورخین نے اعتراف کیا ہے-

حضرت خدیجہ {س} ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ و مالی امکانات اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالک ھونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا-

ایام جاہلیت میں، جب پورے عربستان میں بت پرستی کا رواج عام تھا، اس وقت بھی حضرت خدیجہ {س} معنوی امور اور انسانی و اخلاقی مسائل کی رعایت کرنے سے غافل نہیں رہیں- وہ آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں- وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جاکر حضرت ابراھیم {ع} کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ھونے کی دعا کرتی تھیں -

حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کے معاشرہ کے لوگوں میں ایک پاکدامن، خیر خواہ اور بلند مرتبہ خاتون کی حیثیت سے مشہور تھیں اور انھیں" طاہرہ" کے لقب سے نوازا گیا تھا- اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے: "و كانت تُدعي في الجاهلّية بالطّاهره لشدّة عفافها و صيانتها" " لوگوں نے، ایام جاہلیت میں، حضرت خدیجہ کی عفت و پاکدامنی میں بلند مرتبہ رکھنے کی وجہ سےانھیں " طاھرہ" کے لقب سے نوازا تھا- اس کے علاوہ انھیں " سیدہ قریش" کا لقب دینے کے پیش نظر معلوم ھوتا ہے کہ حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کے لوگوں میں کس قدر بلند اور باعظمت مقام پر فائز تھیں-

حضرت خدیجہ {س} ایک کامیاب تاجرہ ھونے کے پیش نظر اپنے لئے زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی کوشش کرنے کے باوجود اپنا کچھ وقت عبادت، خاص کر طواف کعبہ کے لئے مخصوص رکھتی تھیں- اس کے علاوہ ان کے گھر کا دروازہ حاجتمندوں اور فقیروں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور کبھی کوئی محتاج ان کے گھر سے خالی هاتھ اورمحروم نہیں لوٹتا تھا-

جس زمانہ میں لوگ بت پرستی میں مشغول تھے، اپنے ہاتھوں سے بنائے خداوں کی پوجا کرتے تھے اور معاشرہ میں گوناگوں خرافات کا رواج تھا، حضرت خدیجہ {س} خداوند سبحان کی پرستش کرتی تھیں- وہ مذہبی تعلیمات اپنے چچیرے بھائی " ورقہ بن نوفل" سے حاصل کرتی تھیں، جو اپنے زمانے کے چار مشہورعابدوں میں سے ایک شمار ھوتے تھے، حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں مذہبی نشستیں منعقد ھوتی تھیں اور بعض اہل کتاب دانشوروں کو دعوت دی جاتی تھی، حضرت خدیجہ{س} دوسری خواتین کے ساتھ ان علماء اور دانشوروں کی نصیحتوں کو سنتی تھیں وه پیغمبر آخر الزمان [ص]کے اوصاف کو پہچان چکی تھیں اور انھیں یقین تھا کہ آپ {ص} حجاز کی سر زمین پر عنقریب ہی ظہور کریں گے-

حضرت خدیجہ {س} کے سماجی کمالات، دولتمند ھونے اور ان کی بے مثال شخصیت کے پیش نظر اس زمانہ کے قبائل کے سرداروں اور مشہور شخصیتوں، من جملہ عقبہ بن معیط، صلت بن ابی اہات، ابو جہل اور ابو سفیان نے ان سے ازدواج کرنے کی خواستگاری کی، لیکن وہ ان میں سے کسی کو اپنی شان کے مطابق نہیں جانتی تھیں اور ان سب کی درخواست کو مسترد کردیا-

اسلام سے پہلے حضرت خدیجہ کے شوہر اور اولاد:

اکثر مورخین کے مطابق ، حضرت خدیجہ نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے سے پہلے دو شادیاں کی تھیں اور صاحب اولاد بھی ھوئی تھیں-

۱-پہلے شوہر:

جناب خدیجہ {س} نے اپنی جوانی کی ابتداء میں " ابی ہالہ النباش بن زرارہ التمیمی" نامی ایک نوجوان سے شادی کی اور ان سے ان کے دو بیٹے تھے، جن کے نام "ھند" اور " ہالہ" تھے- ابو ہالہ، حضرت خدیجہ {س} کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے اوائل میں ہی فوت ھو گئے اور اپنے پیچھے حضرت خدیجہ {س} اور اپنے بیٹوں کے لئے کافی دولت چھوڑی-

حضرت خدجہ {س} کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے بعد ھند اور ہالہ اپنی والدہ کے ھمراہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر آگئے اور آنحضرت {ص} ان دونوں کے ساتھ کافی محبت فرماتے تھے-

ھند بن ابی ہالہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک زندہ تھے اور وہ آنحضرت{ص} پر ایمان لائے- مسلمانوں کے ھجرت کرنے پر ھند بن ابی ہالہ نے بھی مدینہ ھجرت کی اور جنگ بدر اور احد میں بھی شرکت کی- ھند اپنا تعارف کرتے ھوئے کہتے ہیں: « انا اكرم الناس ابا و اما و اخا و اختا، ابى رسول الله صلى الله ‏عليه و آله و اخى القاسم، و اختى فاطمه سلام الله علیها، و امى خدیجه سلام الله علیها...» " میں اپنے باپ، ماں اور بھائی کے لحاظ سے لوگوں میں بہترین فرد ھوں- میرے باپ رسول خدا {ص} میرے بھائی قاسم اور میری بہن فاطمہ سلام اللہ علیہا اور میری والدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں- - - "

ھند بن ابی ہالہ ایک بہترین مقرر تھے- وہ ایک ھنر مند اور قوی بیان شخص تھے- ایک روایت میں آیا ہے کہ امام حسن {ع} نے ان سے فرمایا کہ رسول خدا {ص} کی توصیف بیان کریں اور ھند نے بھی رسول خدا {ص} کے بارے میں ایک جامع اور مکمل توصیف بیان کی اور اصل روایت احادیث کی کتابوں میں درج کی گئی ہے اور اس روایت کی متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں-

امام حسن مجتبی {ع} نے بھی ان سے ایک حدیث نقل کی ہے اور اس حدیث کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں: " حدثنی خالی" " یعنی میرے ماموں نے نقل کیا ہے"

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ھند بن ابی ہالہ نے امام علی {ع} کا ساتھ دیا اور حضرت علی {ع} کے ھمراہ جنگ جمل میں لڑے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں بصرہ میں رہائش پذیر تھے- آخر کار طاعون میں مبتلا ھوکر وہیں پر اس دار فانی کو وداع کر گئے-

حضرت خدیجہ { س} کے دوسرے بیٹے، ہالہ بن ابی ہالہ سے بھی آنحضرت {ص] کافی محبت فرماتے تھے- ہالہ نے اپنی والدہ، خدیجہ کبری {س} کی وفات کے بعد شادی کی- جس دن ہالہ نے اسلام قبول کیا، آنحضرت {ص} جناب عائشہ کے گھر میں آرام فرما رہے تھے، کہ اچانک ہالہ بن ابی ہالہ کی آواز سنی- آنحضرت { ص} اچانک کھڑے ھوگئے اور ہالہ کو اپنی آغوش میں لے کر خوشی و مسرت کی حالت میں پکارنے لگے: " ہالہ؛ ہالہ؛ ہالہ"

دوسرے شوہر:

ابی ہالہ کے مرنے کے بعد، حضرت خدیجہ {س} نے، قریش کے" عتیق بن عابد بن عبداللہ عمر بن مخزوم" نامی ایک نامور شخص سے شادی کی ان سے ان کی ایک بیٹی پیدا ھوئی، جس کا نام " ھند "تھا- حضرت خدیجہ {س} نے عتیق کے ساتھ زیادہ طولانی مدت تک زندگی بسر نہیں کی، بلکہ ایک مختصر مدت کے بعد عتیق بھی فوت ھوگئے-

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ھند بنت عتیق نے اپنے چچیرے بھائی " صفی بن امیہ بن عاید المخزومی" سے شادی کی اور ان سے کئی اولاد کی ماں بن گئیں- مسلمانوں نے حضرت خدیجہ {س} کے احترام میں، کہ انھیں ایام جاہلیت میں " طاھرہ" کہا جاتا تھا، ھند کی اولاد کو " بنی طاھرہ" کا لقب دیا تھا-

عتیق کے مرنے کے بعد، قریش کے کئی سرداروں اور بزرگوں نے حضرت خدیجہ {س} سے ازدواج کی خواستگاری کی، لیکن انھوں نے ان میں سے کسی کو قبول نہیں کیا اور ارادہ کیا کہ اب مزید شادی نہیں کریں گی بلکہ گھر میں بیٹھ کر اپنی اولاد کی تربیت کریں گی-

اگر چہ مورخین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ {س} نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے پہلے دوشادیاں کی ہیں- لیکن اس کے مقابلے میں شیعہ اور سنی مورخین کی ایک جماعت، من جملہ " اہل سنت کے ایک مشہور دانشور ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی-" کے علاوہ " ابو القاسم کوفی" ، " احمد بلاذری" ، " علم الھدی" { سید مرتضی} نے اپنی کتاب " شافی" میں اور " شیخ طوسی" نے اپنی کتاب " تلخیص شافی" میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ {س} کنواری تھیں- اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا - انھوں نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں بعض دلائل بھی پیش کی ہیں کہ ان میں سے چند دلائل کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۱-ابن عباس کی حدیث، جس کی بناپر حضرت خدیجہ {س} رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت ۲۸ سال کی تھیں اور حضرت خدیجہ {س} نے تب تک کسی سے شادی نہیں کی تھی-

۲-حضرت خدیجہ{ س} کے پہلے اور دوسرے شوہر کے ناموں کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے، ان کے پہلے اور دوسرے شوہر ایسے گمنام افراد نہیں ھونے چاہئے تھے، جن کے نام اور ترتیب میں اختلاف ھوتا-

۳-حضرت خدیجہ {س} کے پہلے شوہروں کی اولاد کے ناموں اور تعداد میں مورخین کا اختلاف-

۴-حضرت خدیجہ {س} کی متمول حیثیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ { گور کن و خارکن جیسے} نادار اور گمنام افراد سے ازدواج کرتیں، جیسا کہ ان کے پہلے شوہروں کا شغل بیان کیا گیا ہے-

۵-ازدواج کے وقت حضرت خدیجہ {س} کی عمر کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جانا-

نورانی خواب:

حضرت خدیجہ {س} عام طور پررات کی تاریکی میں اپنی سہلیوں کے ھمراہ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے جاتی تھیں- ایک رات کو جب طواف کعبہ کے لئے گئی تھیں، طواف بجالانے کے بعد کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑی ھوکر اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے میں مشغول ھوئیں اور نصف شب کو گھر لوٹیں- اس وقت سب بچے سوئے ھوئے تھے، چونکہ حضرت خدیجہ {س} اس رات کو کافی تھک چکی تھیں، اس لئے کمرے کے ایک کونے میں جاکر لیٹ گئیں اور فوراً ان پر نیند طاری ھو گئی-

انھوں نے خواب میں سورج کو انسان کی شکل میں دیکھا کہ مکہ کے آسمان سے طلوع ہو کر رفتہ رفتہ ان کے گھر کی طرف آرہا ہے- جب سورج ان کے گھر میں پہنچا، تو وہاں پر رک کر اس نے تمام دنیا میں نور پھیلا دیا اور لوگ جوق در جوق اس سورج کو دیکھنے کے لئے ان کے گھر آرہے تھے-

حضرت خدیجہ {س} تعجب اور حیرت کے عالم میں نیند سے بیدار ھوئیں اور اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالی، انھوں نے سوئے ھوئے اپنے بچوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا- پھر وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے بعد چند قدم چلیں اور واپس لوٹ کر پھر لیٹ گئیں، لیکن اب انھیں نیند نہیں آئی اور چند لمحے پہلے دیکھا ھوا خواب ان کے ذہن پر مسلسل چھایا رہا-

حضرت خدیجہ {س} بخوبی جانتی تھیں کہ ان کا یہ خواب ایک معمولی خواب نہیں ہے، اس لئے انھوں نے اس سلسلہ میں گھنٹوں غور و خوض کیا، لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچیں اور دوسری جانب سے اس سلسلہ میں غور و فکر کرنا ان کے لئے نیند آنے میں رکاوٹ بن رہا تھا- اس طرح ، ان کا یہ خواب، یعنی سورج کا انسان کی شکل میں آنا اور ان کے گھر میں داخل ھونا اور لوگوں کا جوق در جوق اسے دیکھنے کے لئے ان کے گھر آنا، پو پھٹنے تک ان کے ذہن پر چھایا رہا- وہ صبح ھونے کا انتظار کر رہی تھیں، تاکہ اپنے چچیرے بھائ ورقہ بن نوفل کے پاس جاکر اپنے اس خواب کو ان کے سامنے بیان کریں- شائد اس کی کوئی تعبیر ھو- صبح اور سورج طلوع ھونے کے بعد وہ فوراً اپنے چچیرے بھائی، ورقہ بن نوفل کے گھر گئیں اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، اسے من وعن ان کے سامنے بیان کیا- جوں ہی ان کی بات ختم ھوئی، ورقہ بن نوفل کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رونما ھوئی اور انھوں نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" مبارک ھو تم پر اے میری چچازاد بہن؛ اگر تمھارا خواب صادق ہوا تو نور نبوت {ص} تمھارے گھر آئے گا اور تمھارے گھر کا نور تمام عالم کو منور کرے گا-"

حضرت خدیجہ {س} گہری سوچ میں پڑگئیں کہ نور نبوت کیسے ان کے گھر آئے گا اور ان کا گھر کیسے تمام دنیا کے لئے نور کا مرکز بنے گا؟ حضرت خدیجہ {س} ایک مدت تک اس خواب کے بارے میں غور و فکر میں مشغول تھیں اور اس کی تعبیر کا انتظار کر رہی تھیں-

اس دوران جو بھی شخص ان کی خواستگاری کے لئے آتا تھا، ان کے سامنے وہ نورانی سورج مجسم ھوتا تھا، جسے انھوں نے خواب میں دیکھا تھا اور جب دیکھتی تھیں کہ خواستگاری کرنے والا شخص ان کے خواب سے کوئی شباہت نہیں رکھتا ہے تو اس کا احترام کے ساتھ انکار کردیتی تھیں -

حضرت خدیجہ {س} نے پیغمبر آخر الزمان {ص} کو پہچان لیا-

مکہ کی عورتیں ایک رسم کے مطابق قدیم زمانہ سے ہر سال، ماہ رجب کی ایک رات کو کعبہ کے پاس جمع ھوتی تھیں اور جشن و سرود کی ایک محفل منعقد کرتی تھیں اور اس محفل میں اہل کتاب میں سے ایک دانشور کو تقریر کرنے کی دعوت دی جاتی تھی- ایک رات کو ایسی ہی ایک محفل منعقد ہو رہی تھی- جب حضرت خدیجہ {س} اس محفل میں پہنچیں، اس وقت ایک یہودی عالم نے تازہ اپنی تقریر شروع کی تھی- اس کی اس تقریر کے دوران اچانک حضرت محمد {ص} کعبہ کے پاس سے گزرے- تقریر کرنے والے اہل کتاب کی نظر جوں ہی آنحضرت {ص} پر پڑی، تو اس نے اپنی تقریر کو روک کر عورتوں سے یوں خطاب کیا:

" ليوشک ان يبعث فيکن نبي فايکن استطاعت ان تکون له ارضايطأها فلتفعل» " اے قریش کی خواتین؛ جو جوان ابھی ابھی کعبہ کے پاس سے گزرا، وہ مستقبل میں پیغمبر آخر الزمان {ص} ھوگا، آپ میں سے جو بھی اس کی شریک حیات بن سکتی ھو، اس میں تاخیر نہ کرنا-"

اس اہل کتاب دانشور کے کلام کو سن کر خواتین میں ہلچل مچ گئی- ان میں سے بعض عورتیں اس دانشور کے کلام پر ہنستی تھیں اور بعض عورتیں مذاق اڑا تی تھیں اور بعض عورتیں اس کو برا بھلا کہتی تھیں، بہر حال محفل شور و غل اور ہلچل سے دوچار ھوئی اور عورتیں متفرق ہوگئیں -

حضرت خدیجہ {س} اس ماجرا کا مشاہدہ کرنے کے بعد فوراً گھر چلی گئیں اور ایک کونے میں خاموش بیٹھ کر غور و فکر کرنے لگیں- اس دوران کبھی ان کے ذہن میں ، چند دن پہلے دیکھے ھوئے اپنے خواب کا منظر پیدا ھوتا تھا اور کبھی اس یہودی عالم کا کلام یاد آتا تھا- وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہودی دانشور کے کلام اور خواب میں دیکھے ھوئے سورج کے درمیان ضرور کوئی رابطہ ہے- دوسرے دن، حضرت خدیجہ {س} نے اپنی ایک کنیز کو اس یہودی دانشور کے پاس بھیجا اور اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی- یہ اہل کتاب دانشور جب حضرت خدیجہ {س} کے گھر پہنچا تو حضرت خدیجہ نے اس سے سوال کیا کہ : اے دانشور؛ آپ نے کیسے سمجھا کہ محمد {ص} خدا کے پیغمبر ہیں؟

یہودی عالم نے جواب میں کہا: " میں نے ان کی صفات کو تورات میں پڑھا ہے- تورات میں آیا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان {ص} کے ماں باپ ان کے بچپن میں دنیا سے چلے جائیں گے، ان کی کفالت، پرورش اور حفاظت ان کے جد اور پھپھی کریں گے اور وہ قریش کی ایک خاتون سے شادی کریں گے جو اپنی قوم کی عظیم خاتون ھوں گی اور اپنے قبیلہ میں امیر اور صاحب تدبیر ھوں گی-"

اس کے بعد اس یہودی دانشور نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا: " اے خدیجہ؛ میری اس بات کو اپنے پاس محفوظ رکھنا اور اسے فراموش نہ کرنا"- اس کے بعد اس دانشور نے آنحضرت {ص} کی عظمت و جلال کے بارے میں چند اشعار پڑھے اور واپس جاتے وقت حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" کوشش کرنا کہ محمد {ص} کو نہ کھو دینا، ان کے ساتھ شادی کرنے میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے"-

حضرت خدیجہ {س} سے پیغمبر اکرم { ص} کی ہم کاری کا آغاز:

حضرت محمد مصطفے {ص} ۲۵ سال کے تھے کہ زبردست خشک سالی نے تمام عربستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- مکہ کے لوگ خاص کر جن لوگوں کی زندگی مویشی پالنے اور زراعت پر منحصر تھی، زبردست مشکلات سے دوچار ھوئے-

قریش کے سردار جناب ابوطالب، دوسروں کی بہ نسبت زیادہ مشکلات سے دوچار ھوئے- عیال بار ھونے، لوگوں کی زیادہ آمد و رفت اور زائرین کا ان کے گھر میں آنا اور آمدنی کی کمی نے ان کی زندگی کو گونا گون مشکلات سے دوچار کیا تھا-

اس سال، قریش کے تاجروں اور سوداگروں نے تجارتی کاروان تشکیل دے کر شام بھیجنے کا فیصلہ کیا – اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق جنس و مال تیار کرکے کاروان میں شرکت کرتا تھا- جن افراد کی مالی استطاعت نہیں ہوتی تھی، وہ سرمایہ داروں کے پاس جاکر ان سے قرضہ لیتے تھے اور مضاربہ کی صورت میں تجارتی کاروان میں شرکت کرتے تھے-

جناب ابو طالب نے حضرت محمد {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" اے میرے بھتیجے؛ ہم سخت حالات سے دوچار ہیں، میں بھی بوڑھا اور تنگ دست ھو چکا ھوں اور زندگی کے آخری ایام گزار رہا ھوں- میری تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے آپ {ص} کے لئے ایک شریک حیات کو منتخب کروں تاکہ آپ شادی کریں اور میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ اس دنیا کو وداع کرجاوں- لیکن مالی مشکلات میری اس تمنا کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور آپ {ص} کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ھوں-"

جناب ابو طالب نے اپنی بات کو جاری رکھتے ھوئے فرمایا:" اے محمد {ص} ؛ قریش کا تجارتی کاروان عنقریب تشکیل پاکر شام جا رہا ہے- خدیجہ بنت خویلد ہماری رشتہ دار ہے اور کافی دولتمند ہے- مکہ کے بہت سے لوگوں نے ان سے مال اور سرمایہ قرض کے طور پر لیا ہے اور ان کے مال سے تجارت کرتے ہیں- اگر آپ {ص} خدیجہ کے پاس جائیں گے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ آپ {ص} کو کافی مال دیں گی، اس سرمایہ سے مال خرید کرقریش کے کاروان کے ہمراہ آپ {ص} شام چلے جائیں- شائد اس تجارت کے نتیجہ میں آپ {ص} کو کوئی نفع مل جائے اور خداوند متعال ہماری زندگی کی بعض مشکلات کو حل کردے-

تقدیر الہی سے ان دنوں حضرت محمد {ص} کی سچائی، صداقت، اور امانتداری کا چرچا تھا اور مکہ کے لوگوں نے آپ {ص} کو " محمد امین" کا لقب دیا تھا-

حضرت خدیجہ مکہ کے لوگوں میں امین اور صحیح کام کرنے والے افراد کو چن چن کر اپنے تجارتی کاروان میں شامل کرتی تھیں، اور وہ آنحضرت {ص} کی صداقت اور امانتداری کے بارے میں مطلع ھوچکی تھیں-

حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کی زندگی کی مشکلات اور حضرت محمد { ص} سے ان کی گفتگو کے بارے میں مطلع ھوئیں- اس کے بعد حضرت خدیجہ نے آنحضرت {ص} کو یہ پیغام بھیجا:" اگر آپ {ص} تجارت کے لئے آمادہ ہیں تو میں تیار ھوں کہ دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپ {ص} کے اختیار میں دوگنا سرمایہ قرار دوں تاکہ آپ {ص} میرے تجارتی کاروان میں شرکت کریں-"

آنحضرت {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کے پیغام کے بارے میں اپنے چچا ابوطالب کو آگاہ فرمایا- جناب ابو طالب نے جواب میں کہا:" میرے بھتیجے؛ یہ وہ رزق ہے جسے خداوند متعال نے آپ {ص} کا مقدر قرار دیا ہے، بہتر ہے کہ ہم جاکر جناب خدیجہ سے گفتگو کریں-"

جناب ابو طالب، جناب عباس اور بنی ہاشم کے چند دوسرے افراد کے ہمراہ جناب خدیجہ {س} کے گھر گئے- جناب خدیجہ نے خاطر تواضع کے بعد ان سے کہا:

" اے مکہ اور حرم کے بزرگو؛ میں آپ کی تشریف آوری کو خوش آمدید کہتی ھوں جو بھی حاجت رکھتے ہیں، بیان فرمائیں تاکہ میں اسے انجام دوں"-

جناب ابو طالب نے کہا:" میں ایک ایسی حاجت کے لئے آیا ھوں کہ جس کا نفع آپ کو ملے گا اور آپ کے مال میں برکت پیدا ھوگی- ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ اپنے بھتیجے محمد {ص} کے لئے آپ سے کچھ مال ضمانت اور قرضہ کے طور پر لے لیں تاکہ وہ اس سے تجارت کریں"-

حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کے تشریف لانے اور حضرت محمد {ص} کے تجارت کے لئے آمادگی رکھنے سے خوش ھوئی تھیں، ان سے مخاطب ھوکر کہا:" محمد {ص} بہتر ہے آپ مطلع رہیں کہ قریش کے تجارتی کاروان کا نصف سے زیادہ سرمایہ اور مال میرا ہے، مجھے اس مال کے لئے آپ {ص} جیسے امین اور صادق شخص کی ضرورت ہے تاکہ میں اسے اپنے مال و سرمایہ کا با اختیار امین قرار دوں تاکہ وہ اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے، جس طرح مناسب سمجھے تجارت اور لین دین انجام دے"-

حضرت محمد {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں سفر کرنے میں دلچسپی رکھتا ھوں اور کاروان کےساتھ تجارت کے لئے شام جانے کے لئے آمادہ ھوں"-

حضرت خدیجہ نے، میسرہ و ناصح نامی اپنے دو غلاموں کو بلاکر ان سے کہا: " محمد {ص} میرے اموال کے امانتدار ہیں، میرے اموال کے بارے میں ان کو مکمل اختیار ہے- وہ جو کہیں اس پر عمل کرنا اور وہ جوبھی فیصلہ کریں اس کے بارے میں ان کے ساتھ تعاون کرنا- کوئی شخص ان کے فیصلہ کے بارے میں اعتراض نہیں کرسکتا ہے اور کوئی ان کے ساتھ تیز کلامی کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے-"

جناب خدیجہ {س} کے لئے حضرت محمد {ص} کا تجارتی سفر:

حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور ناصح کے تعاون سے اونٹوں پر سامان باندھا- رخصت کرنے کے لئے آئے ھوئے اپنے چچا اور جناب خدیجہ کو الوداع کہنے کے بعد ابطح کی طرف روانہ ھوئے تاکہ شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی کاروان سے ملحق ھو جائیں- لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے رشتہ داروں کو خدا حافظ کہنے کے لئے ابطح میں جمع ھوئی تھی- سر انجام مکہ کے لوگوں کی وداعی کے بعد کاروان شام کی طرف روانہ ھوا-

کئی پڑاو طے کرنے کے بعد یہ کاروان " وادی الامواہ" نامی ایک بیابان میں پہنچا، اچانک آسمان پر ہر بادلوں کی کالی گھٹائیں چھا گئیں- آنحضرت {ص} نے کاروان کے بزرگوں سے مخاطب ھوکر فرمایا:

" اس بیابان میں شدید اور سیلابی بارش ہونے والی ہے، بہتر ہے کہ کاروان کو پہاڑ کی بلندی پر ٹھہرایا جائے اور بارش اور سیلاب تھمنے کے بعد ہم پھر سے آگے بڑھیں- کاروان والوں نے حضرت محمد {ص} کی تجویز سے اتفاق کیا اور کاروان کو پہاڑی کے اوپر ٹھہرایا- کاروان کے رکنے کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ زبردست بارش ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے بیابان کو سیلاب نے اپنے لپیٹ میں لے لیا- قریش کا یہ تجارتی کاروان چار دن تک اس بیابان میں رکا رہا، بارش اور سیلاب رکنے کے بعد کاروان پھر سے آگے بڑھا اورصحیح و سالم حالت میں وہاں سے گزرگیا-

کاروان آگے بڑھتے ھوئے ایک ایسے علاقہ میں پہنچا، جسے " ایلہ" یا " بصری" کہتے تھے- وہاں پر ایک عبادت گاہ تھی، جس میں بہت سے راھب اور پادری عبادت میں مشغول تھے- ان کے درمیان ایک پادری تھا جو سب سے عالم اور دانا تھا، اسے " فیلق بن یونان بن عبدالصلیب" کہتے تھے- فیلق نے پیغمبر آخر الزمان { ص} کی خصوصیات کو آسمانی کتابوں میں پڑھا تھا- وہ جانتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمان سر زمین حجاز سے ظہور کریں گے اور تجارتی کاروان کے ھمراہ شام کی طرف سفر کریں گے- فیلق نے دور سے مشاہدہ کیا کہ کاروان کے اوپر بادل کے دو ٹکڑے سایہ کئے ھوئے کاروان کے ساتھ ساتھ " ایلہ" { یا بصری} کی طرف بڑھ رہے ہیں-

قریش کا کاروان "ایلہ" {بصری} پہنچا- حضرت محمد {ص} ایلہ کے نزدیک ایک خشک کنویں کی طرف بڑھے اور اس کے بعد اس کنویں میں اپنا ہاتھ ڈالا- اور اس میں سے چلو بھر پانی اٹھا کر اپنے ہاتھ دھولئے اور اس کے بعد قریب میں موجود ایک سوکھے ھوئے درخت کے نیچے بیٹھ گئے- سوکھا ھوا درخت سرسبز ھوا اور حضرت محمد {ص} اس کے سائے میں عبادت میں مشغول ھوگئے- پادری" فیلق" نے کاروان کے سر پرست کو بلاکر اس سے پوچھا: یہ شخص، جو اس درخت کے نیچے بیٹھا ہے، کون ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ قریش کا ایک مرد اور اہل مکہ ہے- " فیلق" نے اس سے کہا: خدا کی قسم اس درخت کے نیچے پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھا ہے – اس کے بعد فیلق نے کاروان کے سرپرست سے آنحضرت {ص} کی تعریف کی اور مستقبل قریب میں ان کی نبوت کی خبر دیدی-

بہر حال کاروان، شام میں داخل ھوگیا اور وہاں کے لوگ عربستان کے تاجروں کے مال و اجناس خرید نے کے لئے جوق در جوق آگئے اور کچھ گھنٹوں کے اندر ہی تمام مال کو خرید لیا- لیکن حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور اپنے دوسرے کارکنوں سے فرمایا کہ آج کوئی چیز فروخت نہ کریں- دوسرے دن شام کے اطراف میں موجود قبائل اور لوگوں نے قریش کے تجارتی کاروان کے آنے کی خبر سنی اور مال خرید نے کے لئے ٹوٹ پڑے- لیکن قریش کے کاروان کا تمام مال فروخت ھو چکا تھا اور صرف آنحضرت {ص} کا مال بچا تھا- اس لئے آنحضرت {ص} نے دوسرے دن اپنے مال کو مناسب تر قیمت میں بیچا اور بیشتر نفع کما کر واپس مکہ لوٹے-

حضرت محمد {ص} جب مکہ میں داخل ھوئے تو، پہلے خانہ کعبہ کے طواف کے لئے گئے- اس وقت جناب خدیجہ بطحا میں اپنے بلند محل کے ایوان پر چند خواتین کے ھمراہ بیٹھی ھوئی تھیں اور دور سے حضرت محمد {ص} کا مشاہدہ کر رہی تھیں کہ آنحضرت {ص} طواف کعبہ میں مشغول تھے اور دو فرشتے آپ {ص} پر سایہ کئے ھوئے تھے- جناب خدیجہ {س} کے پاس بیٹھی ھوئی عورتیں بھی ملائکہ کے سایہ کا مشاہدہ کر رہی تھیں-

حضرت محمد {ص} طواف کعبہ بجا لانے کے بعد، جناب خدیجہ کے گھر تشریف لائے، جو آپ {ص} کے انتظار میں تھیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} نے اپنے شام کے سفر اور حاصل شدہ نفع کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ شیرین زبان میں رپورٹ پیش کی، جس کا حساب و کتاب پہلے سے مرتب کیا گیا تھا- اور حضرت خدیجہ کو معلوم ھوا کہ اس عجیب سفر میں انھیں غیر معمولی نفع حاصل ھوا ہے-

اس عظیم خاتون نے سفر کی رپورٹ سننے کے بعد اپنے غلاموں سے مخاطب ھوکر کہا:" جو کچھ دوسروں کو دیا ہے، اس کا دوگنا محمد {ص} کو دیدو"-

اس کے بعد حضرت محمد {ص} جناب خدیجہ کو خدا حافظ کہہ کر اپنے چچا، جناب ابو طالب کے گھر چلے گئے-

جناب خدیجہ {س} کی خدمت میں میسرہ کی رپورٹ:

حضرت محمد {ص} کے جناب خدیجہ {س} کے گھر سے تشریف لےجانے کے بعد، میسرہ ان کے گھر میں داخل ھوا- اور اس نے اس سفر کے بارے میں جناب خدیجہ کی خدمت میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی اور اس رپورٹ میں کاروان کے ساتھ بادلوں کے چلنے، حضرت محمد {ص} کے بارے میں " فیلق" کی پیشنگوئیوں اور سوکھے ھوئے درخت کے سرسبز ھونے کے بارے میں اپنے عینی مشاہدات من وعن بیان کئے- میسرہ کی رپورٹ نے جناب خدیجہ کو زبردست متاثر کیا اور اس امید افزا رپورٹ کو بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اس غلام، یعنی میسرہ کو آزاد کیا- اس کے بعد جناب خدیجہ نے جو کچھ میسرہ کی زبانی سنا تھا اسے اپنے چچیرے بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس بیان کیا- ورقہ بن نوفل نے یہ داستان سننے کے بعد کہا:" اگر میسرہ کی رپورٹ صحیح ھو تو، محمد {ص} وہی پیغمبر ہیں، جس کا " بعثتش" نے اس امت سے وعدہ کیا ہے اور میں نے ان کے اوصاف کو آسمانی کتابوں میں پڑھا ہے"-

اس کے بعد جناب خدیجہ {س} کو یہ یقین حاصل ھوگیا کہ محمد {ص} دوسرے انسانوں کے مانند ایک عام انسان نہیں ہیں- اس لئے ایک بار پھر ان کا چند دن پہلے دیکھا ھوا خواب ان کی نظروں کے سامنے مجسم ھوگیا اور اس یہودی عالم کی باتیں بھی انھیں یاد آگئیں جس نے مکہ کی خواتین سے مخاطب ھوکر کہا تھا کہ:" اے قریش کی خواتین؛ جو جوان ابھی ابھی کعبہ کے پاس سے گزرا ہے وہ مستقبل قریب میں پیغمبر ھوگا، آپ میں سے جو بھی ان کی شریک حیات بن سکتی ہے، وہ اس میں تاخیر نہ کرے"-

حضرت محمد {ص} سے جناب خدیجہ کی رغبت:

حضرت محمد {ص} کے شام کے منافع بخش سفر، اس سفر میں آنحضرت {ص} کی صداقت و مدیریت اور میسرہ کی زبانی ان واقعات کے بارے میں مفصل رپورٹ سننے کے بعد جناب خدیجہ آنحضرت {ص} کی شیفۃ ھو گئیں اور اس کے بعد آنحضرت {ص] کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرنے کی فکر میں لگ گئیں- لیکن اس زمانہ کے معاشرہ کی رسم کے مطابق عورتوں سے مرد خواستگاری کرتے تھے- اس قسم کے معاشرے میں اگر کوئی عورت، مرد سے خواستگاری کرتی، تو اس پر چہ میگوئیاں ھوتیں اور افواہیں پھیلائی جاتیں- اس لئے یہ پاک خاتون ایک مدت تک اس فکر میں مشغول رہیں اور اس سلسلہ میں اپنی محبت کو حضرت محمد {ص} تک پہنچانے کی راہ کی تلاش میں تھیں-

آخر کار جناب خدیجہ {س} نے " نفیسہ بنت منیہ" کو اپنے گھر بلایا اور اس سے درخواست کی کہ حضرت محمد {ص} کی خدمت میں جاکر آنحضرت {ص} سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے ان کے ارادہ کو بیان کرنے کی ضمن میں جس طرح بھی ممکن ھوسکے آنحضرت {ص} کے نظریہ کو حاصل کرے-

نفیسہ نے حضرت محمد {ص} سے اس وقت ملاقات کی جب آپ {ص} کعبہ کا طواف بجا لانے کے بعد لوٹ رہے تھے- نفیسہ نے حال و احوال پوچھنے کے بعد آپ {ص} سے سوال کیا:" اے محمد {ص} آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟" آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا:" خالی ہاتھ، شادی نہیں کی جاسکتی ہے" نفیسہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:" اگر میں کسی ایسی خاتون کا تعارف کراوں جو جاہ و جمال اور شرافت میں آپ {ص} کی ہم پلہ ھو اور کافی مال و دولت کی بھی مالک ھو، تو کیا آپ {ص} اس سے ازدواج کے لئے آمادہ ہیں؟"

حضرت محمد {ص} نے تھوڑا سا غور کرنے کے بعد فرمایا:" وہ کون ھوسکتی ہے؟" نفیسہ نے جواب میں کہا:" خدیجہ؛"

حضرت محمد {ص} نے سوال کیا:" کیا وہ شادی کریں گی؟ میں نے

تو سنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی خواستگاری کی ہے اور انھوں نے ان سب کا انکار کیا ہے اگر وہ راضی ھوں تو میں موافق اور راضی ھوں "-

نفیسہ فوراً جناب خدیجہ {س} کے گھر پہنچیں اور انھیں حضرت محمد {ص} کی ان کے ساتھ شادی کرنے کی رضامندی کی خبر سنا دی-

جناب خدیجہ {س} نے چند دنوں کے بعد آنحضرت {ص} سے ملاقات کی اور آپ {ص} سے ازدواج کی اپنی دلچسپی کے بارے میں یوں بیان کیا:" يا بن‏عم، انّي قد رغبت فيك لقرابتك و سطوتك في قومك و امانتك و حسن خلقك و صدق حديثك " اے میرے چچیرے بھائی؛ آپ {ص} میرے رشتہ دار ہیں، میں نے آپ {ص} میں خاندانی شرافت، امانتداری، حسن اخلاق اور سچائی پائی ہے اس لئے آپ کی مشتاق ھوئی ھوں"-

حضرت محمد {ص} نے، جناب خدیجہ کی آپ {ص} سے شادی کرنے کی رضا مندی اور ان سے ازدواج کی اپنی دلچسپی اور رضا مندی کے بارے میں اپنے چچا {ابو طالب، عباس اور ابولہب} کو آگاہ کیا- ابولہب نے کہا:" میرے بھتیجے؛ ہمیں عربوں میں بدنام نہ کرنا، تم خدیجہ کے لائق نہیں ھو-"

آنحضرت {ص} کے چچاعباس اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ھوئے اور ابو لہب سے تیز لہجے میں مخاطب ھوکر کہا:" تم ایک پست اور بدکردار آدمی ھو، خدیجہ میرے اس بھتیجے کے بارے میں کون سا اعتراض کرسکتی ہیں- محمد {ص} ، دلربا جمال و کمال کے مالک ہیں- خدیجہ کیسے اپنے آپ کو ان سے برتر ثابت کرسکتی ہیں- کیا مال یا کمال کی وجہ سے؟ کعبہ کے خدا کی قسم، خدیجہ جتنا بھی محمد سے مہر چاہے، میں گھوڑے پر سوار ھوکر بیابانوں میں گھوم کر اور بادشاھوں کے محلوں میں جاکر اسے مہیا کروں گا"-

سفیر عشق:

جناب ابوطالب اپنے بھائیوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ جناب خدیجہ کا نظریہ اور ان کی طرف سے ممکنہ شرائط معلوم کئے جائیں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے- اس کے بعد انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھپھی صفیہ کو خدیجہ کے پاس بھیجا تاکہ بلا واسطہ ان سے گفتگو کرکے اس سلسلہ میں ان کے نظریہ کے بارے میں آگاہی حاصل کریں- جناب صفیہ، جناب خدیجہ کے گھر گئیں- جب جناب خدیجہ کو معلوم ھوا کہ صفیہ ان کی ملاقات کے لئے آئی ہیں، تو وہ دوڑ کے استقبال کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور انھیں اپنے مخصوص کمرے میں لے گئیں- جب کمرے میں داخل ھوئیں، تو اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ جناب صفیہ کے لئے خورد و نوش کی لذیذ نعمتیں لائیں اور ان کی خاطر تواضع کریں- جناب صفیہ نے کہا:" میں کھانا کھانے کے لئے نہیں آئی ھوں، بلکہ میں اس لئے آئی ھوں کہ جان لوں کہ جو کچھ میں نے سنا ہے وہ سچ ہے یا نہیں؟

جناب خدیجہ نے یہ پوچھے بغیر کہ آپ نے کیا سنا ہے اور دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں، جواب میں کہا:

" جی ہاں، آپ نے صحیح سنا ہے،« سَعِدَتْ مَنْ تُكونُ لِمحمّدٍ قرينةً، فانّه يُزيِّنُ صاحِبَه» " وہ عورت خوش قسمت ہے جو محمد {ص} کی شریک حیات بنے، کیونکہ محمد {ص} ان کے لئے فخر ومباہات کا سبب ہیں- میں محمد {ص} کی عظمت اور شخصیت سے واقف ھوں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لئے سعادت اور ایک عظیم فخر سمجھتی ھوں، ان کا مہر بھی میں اپنے مال سے ادا کروں گی"- جناب صفیہ نے جناب خدیجہ کا دو ٹوک الفاظ میں جواب سن کر خوشی اور مسرت میں کہا:" اے خدیجہ،خدا کی قسم آپ محمد {ص} سے محبت کرنے میں حق بجانب ہیں- ابھی تک کسی آنکھ نے آپ کے محبوب کے مانند کسی نور کو نہیں دیکھا ہے اور کسی کان نے ان کے کلام سے شیرین تر کلام نہیں سنا ہے"- اس کے بعد جناب صفیہ نے حضرت خدیجہ سے رخصت لی اور مسرت و شادمانی کی حالت میں جناب ابوطالب کے گھر کی طرف لوٹیں، جہاں پر بنی ہاشم کے بزرگ افراد ان کا انتظار کر رہے تھے- جناب ابو طالب کے گھر میں داخل ھونے کے بعد جناب صفیہ نے بنی ہاشم کے بزرگوں کے سامنے، حضرت محمد {ص} کے تئیں جناب خدیجہ کے نا قابل توصیف محبت و احترام کو بیان کیا- ابولہب کے علاوہ بنی ہاشم کے تمام افراد یہ خبر سن کر خوش ھوئے، کیونکہ ابولہب ہمیشہ حضرت محمد سے حسد رکھتا تھا- اس کے بعد آنحضرت {ص} کے چچا اور بنی ہاشم کے بزرگوں نے با ضابطہ طور پر جناب خدیجہ کے پاس خواستگاری کے لئے جانے کا فیصلہ کیا-

ازدواج کی رسم:

۲۸ سال ھجرت سے قبل { بعثت سے ۱۵ سال قبل} ۹ شوال کو جناب ابوطالب، اپنے عید کے لباس کو زیب تن کرکےبنی ہاشم کے چند بزرگوں کی سرپرستی کرتے ھوئے حضرت خدیجہ {س} کے چچا" عمرو بن اسد" کے گھر کی طرف روانہ ھوئے- کیونکہ طے یہ پایا تھا کہ نکاح خوانی کی رسم وہیں پرمنعقد ھوگی- تواضع اور مہمان نوازی کے بعد سب سے پہلے جناب ابو طالب نے خدائے سبحان کی وحدانیت اور مکہ و محمد {ص} کی عظمت کے بارے میں ایک خطبہ پڑھا-

مرحوم شیخ صدوق اور شیخ کلینی نے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ، جناب ابوطالب کے اس خطبہ نکاح کو نقل کیا ہے- شیخ صدوق {رہ} کے مطابق اس خطبہ کا متن حسب ذیل ہے:" الحمد لله الذي جعلنا من زرع ا براهيم و ذرية اسماعيل، و جعل لنا بيتا محجوجا و حرما آمنا يجبي اليه ثمرات کل شي ء، و جعلنا الحکام علي الناس في بلدنا الذي نحن فيه، ثم ان ابن اخي محمد بن عبد الله بن عبد المطلب لا يوزن برجل من قريش الا رجح، و لا يقاس باحد منهم الا اعظم عنه، و ان کان في المال قل، فان المال رزق حایل و ظل زایل، و له في خديجه رغبة و لها فيه رغبة، و الصداق ما سألتم عاجله و آجله، و له خطر عظيم و شأن رفيع و لسان شافع جسيم "

" حمد وثنا اس خداوند متعال کی جس نے ہمیں حضرت ابراھیم {ع} کا حاصل شدہ اور حضرت اسماعیل کی ذریت قرار دیا- اور ہمارے لئے ایک مقدس گھر تعمیر کیا جو حجاج کا مقصود اور امن و سلامتی کا حرم ہے کہ ہر چیز کا ثمرہ اس کے گرد گھومتا ہے- اور ہمیں اپنے شہر کے باشندوں پر حاکم قرار دیا-

میرا بھتیجہ، محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب، ایک ایسا مرد ہے، جس کا قریش کے مردوں میں سے کوئی مرد ہم پلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ان سے بلند تر ہے اور اس کا ان میں سے کسی کے ساتھ موازنہ نہین کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ ان سے برتر ہے، اور اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے، لیکن مال ہمیشہ تغیر و تبدل کی حالت میں ھوتا ہے اور سایہ کے مانند زائل ھونے والا ھوتا ہے- وہ خدیجہ کو چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اسے چاہتی ہے- نقد و غیر نقد کی صورت میں جو بھی مھر مطالبہ کیا جائے گا وہ آمادہ ہے- اور محمد {ص} ایک عظیم مقام، بلند شان اور کافی شہرت کے مالک ھوں گے"-

خطبہ پڑھنے کے بعد مہر کے بارے میں گفتگو ھوئی- حضرت خدیجہ {س} کے مہر کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں- ابن عباس نے خدیجہ {س} کا مہر بارہ " اوقیہ" ذکر کیا ہے- جبکہ سیرہ ابن ہشام میں بیس "بکرہ" ذکر کیا گیا ہے-

جناب خدیجہ کے چچا، " عمرو بن اسد" مہر کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے کہ لکنت زبان سے دوچار ھوے اور ان کی زبان لڑکھڑائی اور کچھ نہ کہہ سکے-

جناب ابو طالب، خدیجہ کے چچا کا نظریہ سمجھ چکے تھے، اس لئے ان سے مخاطب ھوکر کہا:" ولہ فی الخدیجۃ رغبۃ ولھا فیہ رغبۃ" " خدیجہ اور محمد {ص} دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ہم ان دونوں کو آپس میں ملانے اور محمد {ص} کے لئے خدیجہ کی خواستگاری کے لئے آئے ہیں"-

اس کے بعد جناب خدیجہ نے اپنے چچا سے مخاطب ھوکر کہا:" يا عمّاه، انّك و ان كنت اولي بنفسي منّي في‏ الشهود، فلست اولي بي من نفسي، قد زوجّتك يا محمد نفسي و المطّهر عليّ في مالي " " عمو جان؛ ممکن ہے دوسرے مسائل میں آپ اختیار رکھتے ھوں، لیکن یہاں پر خود مجھے اختیار ہے- اس کے بعد کہا:" اے محمد {ص}؛ میں نے اپنے آپ کو آپ {ص] کی بیوی قرار دیا اور مہر بھی میں نے اپنے ہی ذمہ لے لیا"-

جناب ابوطالب نے حضار سے مخاطب ھوکر کہا:" گواہ رہنا کہ خدیجہ نے محمد {ص} کو اپنے شوہر کے عنوان سے قبول کیا اور مہر بھی اپنے ہی ذمہ لےلیا"-

ابوجہل کھڑا ھوا اور غضبناک ھوکر حضار سے مخاطب ھوکر بولا:" تعجب کی بات ہے کہ عورتیں مردوں کے مہر کو اپنے ذمہ لیتی ہیں؛"

جناب ابوطالب غضبناک ھوگئے اور کھڑے ھوکر کہا:" جی ہاں، اگر کوئی مرد میرے بھتیجے کے مانند ھو تو عورتیں سب سے گراں قیمت مہر کو بھی اپنے ذمہ لیتی ہیں اور تم جیسے ھوں تو گراں قیمت مہر لئے بغیر ان سے ازدواج کے لئے آمادہ نہیں ھوتیں"-

مہر معین ھونے کے بعد عقد و نکاح کے مراسم منعقد ھوئے اور جناب خدیجہ اس تاریخ کے بعد قانونی طور پر حضرت محمد{ص} کی شریک حیات بن گئیں- عقد کی تقریب ختم ھونے کے بعد، تمام مہمان اٹھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے- حضرت محمد {ص} بھی اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ گھر جانے کے لئے کھڑے ھوئے- جناب خدیجہ {س} چونکہ جانتی تھیں کہ حضرت محمد {ص} کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے، اس لئے آنحضرت {ص} کی طرف مخاطب ھوکر کہا:" - - -" الى بيتك، فبيتى بيتك و انا جاريتك" " اپنے گھر کی طرف آئیے، کہ میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں بھی آپ کی کنیز ھوں"- اس کے بعد آنحضرت {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" ...يا محمد مر عمك ابا طالب ينحر بكرة من بكراتك‏ و اطعم الناس " اے محمد {ص} ؛ اپنے چچا ابوطالب سے کہدیجئے کہ دس اونٹ نحر کریں اور لوگوں کو دعوت کرکے کھانا کھلائیں-

جناب ابوطالب نے دس اونٹ نحر کئے اور مکہ کے لوگوں کو کھانا کھلایا- اس طرح اس ولیمہ کے ذریعہ حضرت محمد {ص} کے عقد و شادی کی تقریب اختتام کو پہنچی-

عبداللہ بن غنم اس زمانہ کا مشہور شاعر تھا اور وہ اس تقریب میں حاضر تھا- اس نے مندرجہ ذیل اشعار کی صورت میں مبارکباد پیش کی ہے:

هنییا مرییا یا خدیجه قد جرت لك الطیرفیما كان منك بأسعد

تزوجت ‏خیر البریه كلها و من ذا الذى فى الناس مثل محمد ؟

و بشر به البر ان عیسى بن مریم و موسى ابن عمران فی اقرب موعد

أقرت به الكتاب قدما بأنه رسول من البطحاء هاد و مهتد

" مبارک ھو آپ کو اے خدیجہ کہ آپ خوش نصیب تھیں اور بہترین مخلوق سے شادی کی- لوگوں میں محمد {ص} کے مانند کون ہے؟ محمد {ص} وہ ہیں جن کے آنے کی بشارت حضرت عیسی {ع} اور حضرت موسی {ع} نے دی ہے، اور آسمانی کتابوں نے ان کی پیغمبری کی تائید کی ہے- یہ بطحاء {مکہ} سے ظہور کرنے والے رسول {ص} ہیں اور ہدایت کرنے والے اور ہدایت شدہ ہیں"-

جناب خدیجہ، پہلی مسلمان خاتون:

رسول خدا {ص} ہرسال ایک مدت تک گھر اور معاشرہ کو ترک کرکے عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں جاتے تھے- ان کی عمر مبارک چالیس سال تھی کہ رجب کے مہینہ میں جناب خدیجہ {س} سے وداع ہو کر عبادت کے لئے غار حرا کی طرف روانہ ھوئے اور وہاں پر کئی دن عبادت میں گزارنے اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے کے بعد گھر لوٹے- جب آپ{ص} گھر میں داخل ھوئے، آپ {ص} کے سر اور چہرے پر پسینہ جاری تھا اور آپ کا رنگ متغیر ھو چکا تھا، آپ {ص} کا بدن کانپ رہا تھا اور شدید تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے- اسی حالت میں جناب خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر فرمایا:" مجھے ڈھانپ لو"-

جناب خدیجہ {س} نے بستر ڈالا اور پیغمبر اکرم {ص} کچھ دیر تک لیٹے اور اس کے بعد اچانک بسترے سے اٹھ کر بیٹھ گئے-

جناب خدیجہ {س} نے احساس کیا کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے پیغمبر اکرم {ص} نے جب سکون کا سانس لیا، تو جناب خدیجہ {س} نے پوچھا:" کیا بات ہے؟"

پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" جب میں غار سے باہر نکلا تاکہ گھر کی طرف روانہ ھو جاوں، ابھی پہاڑ سے نیچے نہیں اترا تھا کہ اچانک میں نے ایک آواز سنی جس نے مجھے خطاب کرکے کہا :" یا محمد؛ انت رسول اللہ و انا جبرئیل" اے محمد {ص} آپ رسول خدا ہیں اور میں جبرئیل ھوں"-

میں نے اپنے بائیں جانب نظر ڈالی، کوئی بھی نہیں تھا، پھر دائیں جانب دیکھا، لیکن کوئی نظر نہیں آیا اپنے پیچھے کی طرف نظر ڈالی کسی کو نہیں دیکھا- میں نے جب سر کو اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو جبرئیل ایک مرد کی شکل میں کھڑے تھے، اور انھوں نے مجھ سے مخاطب ھوکر کہا:" یا محمد؛ انت رسول اللہ و انا جبرئیل"

یہ خبر سننے کے بعد، جناب خدیجہ پھولے نہ سمائیں ، اور ان کے تن بدن میں خوشی و شادمانی کی لہر دوڑگئی، جیسے کہ انھیں نئی جان مل گئی، ایسا لگتا تھا کہ وہ برسوں سے اس خوشخبری کو سننے کے لئے منتظر تھیں- بدون تاخیر کہا:" یابن عم! انت رسول الله، بابی انت و امی، انت یا رسول الله انی اصدقک اؤمن بالله و بک رسولا" " بیشک، آپ رسول خدا ہیں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں، میں آپ {ص} کی تصدیق کرتی ھوں، میں خدا اور آپ {ص} پر رسول خدا کے عنوان سے ایمان لاتی ھوں"-

جناب خدیجہ {س} نے اس زمانہ میں یہ کلمات زبان پر جاری کئے اور رسول خدا {ص} پر ایمان لائیں، جب معاشرہ میں سحر و جادو اور کہانت جیسے خرافات کا رواج تھا- یہ عظیم خاتون رسول خدا {ص} سے کوئی سوال کئے بغیر اور کسی قسم کے شک و شبہہ کے بغیر، بدون تاخیر خداوند سبحان اور رسول خدا {ص} کی رسالت پر ایمان لائیں اور اپنے لئے پہلی مسلمان خاتون کا لقب حاصل کیا اور اس طرح وہ پہلی ام المومنین { مومنین کی ماں} کے عنوان سے پہچانی گئیں-

ایک عرب مصنف، بنت الشاملی کا کہنا ہے کہ:

" کیا آپ خدیجہ {س} کے علاوہ کسی دوسری عورت کو پہچانتے ہیں جس نے عشق و محبت اور پائیدار ایمان سے، کسی شک و شبہہ کے بغیر اور خدا اور پیغمبر خدا {ص} کے بارے میں اپنے دائمی اعتقاد میں ذرہ برابر کمی واقع نہ ھوتے ھوئے، غار حرا سے شروع ھونے والی الہی دعوت کو قبول کیا ھو؟ "

چند لمحات کے بعد حضرت علی {ع} گھر میں داخل ھوئے- رسول خدا {ص} کی نظر مبارک جوں ہی علی {ع} پر پڑی، آپ {ص} نے انھیں اسلام قبول کرنے اور خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دی، علی {ع} نے بلا تاخیر رسول خدا {ص} کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے- اس طرح تاریخ اسلام میں علی {ع} پہلے مسلمان مرد کے عنوان سے مشہور ھوئے- تاریخ کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ، جب علی {ع} ایمان لائے، اس وقت رسول خدا {ص} مسرت و شادمانی میں اس قدر ہنسے کہ ان کے دندان مبارک صاف دکھائی دیتے تھے-

اس کے بعد زید بن حارثہ تاریخ اسلام کے تیسرے مسلمان کے عنوان سے ایمان لائے- اس کے بعد خدیجہ {س} نے اپنی بیٹیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور ان کی چار بیٹیاں بھی خداوند متعال اور رسول خدا {ص} پر ایمان لائیں- اس طرح سب سے پہلے جس گھر کے تمام افراد خداوند متعال اور اس کے رسول { ص} پر ایمان لائے، وہ جناب خدیجہ {س} کا گھر تھا-

پیغمبر اسلام {ص} کے جناب خدیجہ {س} سے ازدواج کے بارے میں چند نکات:

پیغمبر اسلام {ص} کے جناب خدیجہ {س} سے ازدواج کے طریقہ کار کی کچھ بے مثال خصوصیات ہیں، اور ان خصوصیات میں سے ہر ایک خصوصیت میں مسلمانوں کے لئے انتہائی سبق آموز اور قابل قدر نکات موجود ہیں اور یہ اہم نکات خاندان کو تشکیل دینے کے سلسلہ میں نمونہ عمل ہیں- ان خصوصیات میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

ازدواج سے پہلے ایک دوسرے کے بارے میں کافی شناخت پیدا کرنا:

حضرت محمد {ص} اور جناب خدیجہ کی شادی، نا پائیدار نفسانی خواہشات، مادیات اور قبیلہ پرستی پر مبنی نہیں تھی، بلکہ یہ شادی، گہری اور دقیق شناخت کا نتیجہ تھی، جو مقدس مقاصد، انسانی قدروں اور اعتقاد پر مبنی تھی- جناب خدیجہ {س} اگر چہ مکہ کے دوسرے لوگوں کے مانند حضرت محمد {ص} کو پہچانتی تھیں اور آنحضرت {ص} کے اوصاف سنے تھے، لیکن انھوں نے ظاہری پہچان اور لوگوں میں مشہور اوصاف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک مدت تک حضرت محمد {ص} کے بارے میں سنجید گی کے ساتھ تحقیق کی- حضرت محمد {ص} کے جناب خدیجہ {س} کے تجارتی کاروان میں شامل ھونے کے ابتدائی لمحہ سے آخر تک، پیغمبر اکرم {ص} کی رفتار، گفتار اپنے ماتحتوں سے عدل و انصاف کے برتاو اور خدائے سبحان پر آپ {ص} کے راسخ ایمان پر اس خاتون کے خادم اور غلام، کڑی نظر رکھے ھوئے تھے- اس لئے دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کے بارے میں ظاہری پہچان اور لوگوں کے کہنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ دقیق اور مکمل پہچان حاصل کرنے کے بعد آپس میں رشتہ ازدواج قائم کیا-

۲- طبقاتی تفاوت کے اثر میں نہ آنا:

اقتصادی حالات کے لحاظ سے پیغمبر اسلام {ص} کی زندگی اور جناب خدیجہ کی زندگی کے درمیان کافی تفاوت پایا جاتا تھا- پیغمبر اکرم {ص} کے پاس کسی قسم کے مالی امکانات نہیں تھے اور آپ {ص} سالہا سال تک اپنے جد امجد جناب عبدالمطلب اور چچا جناب ابوطالب کی سر پرستی میں زندگی گزار رہے تھے اور ان کی مالی حالت بھی مناسب نہیں تھی- لیکن اس کے برعکس جناب خدیجہ {س} ایک دولتمند عرب خاتون تھیں اور مکہ کے مشہور تاجروں میں شمار ھوتی تھیں-

اس کے باوجود ان کی زندگی اس قدر متقابل ایمان و اعتقاد پر مبنی تھی، کہ طبقاتی فاصلہ کا ان کی زندگی پرکسی قسم کا منفی اثر نہیں تھا، اور وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے کے لئے جاں نثاری اور محبت کا مظاہرہ کرتے تھے، جبکہ عام طور پر طبقاتی فاصلہ بے جا فخر و مباہات، بغض و کینہ اور خاندانی اختلافات پیدا ھونے کا سبب بن جاتا ہے-

جناب خدیجہ {س} نے اپنی ازدواجی زندگی کی ابتداء میں ہی اپنی ظاہری زندگی کے تعلقات کو چھوڑ کر اپنی ساری دولت اور سرمایہ کو پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کیا، تاکہ آپ {ص} اسے اپنی مصلحت کے مطابق اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خرچ کریں اس کے مقابلے میں حضرت خدیجہ {س} نے اپنے شریک حیات حضرت محمد مصطفی {ص} کی محبت اور وفاداری خرید لی-

۳- عمر کے تفاوت کا موثر نہ ھونا:

ازدواج کے وقت حضرت محمد {ص} کی عمر شریف ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ {س} کی عمر ۴۰ سال تھی- ازدواج کے وقت ان کی عمر میں ۱۵ سال کا فرق تھا کہ آج کل کے معیاروں کے مطابق اس قسم کے تفاوت کے کافی منفی اثرات ھونے چاہئیے تھے اور ان کی ازدواجی زندگی میں گونا گون مشکلات پیدا ھونے چائیے تھے- لیکن یہ عمر میں اختلاف نہ صرف ان کی زندگی میں برے اثرات پیدا کرنے کا سبب نہ بنا بلکہ پوری زندگی میں ایک دوسرے کے لئے سہارا، پناہ گاہ اور آرام و سکون پیدا کرنے کا سبب بنا- ان کا ایک دوسرے کے ساتھ شدید محبت اور اعتماد اس امر کا سبب بنا کہ عمر میں تفاوت کے برے اثرات کے بجائے ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے سے صداقت اور وفاداری کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس کے نتیجہ میں ان کی روزمرہ زندگی کی مشکلات آرام و آسائش میں تبدیل ھوئیں-

۴- ایک دوسرے کا احترام اور محبت کرنا:

حضرت محمد {ص} اور جناب خدیجہ {س} عمر اور عقل کی بالیدگی کے لحاظ سے اپنے زمانہ کے مردوں اور عورتوں میں ممتاز تھے اور اس مقام پر تھے کہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرسکتے تھے- لیکن ان کی عقل کی بالیدگی اور ایک دوسرے سے عشق و محبت اس امر کا سبب نہیں بنا کہ وہ اپنے بزرگوں کی شان و منزلت سے چشم پوشی کرکے اور اپنی مشترک زندگی کے بارے میں ان سے صلاح و مشورہ نہ کرکے خود اپنے لئے فیصلہ کرلیں- بلکہ انھوں نے عاقلانہ تدبیر سے باہمی میلان و رغبت کے بارے میں اپنے بزرگوں اور سرپرستوں کو آگاہ کیا اور اپنے عقد و ازدواج کے بارے میں اپنے بزرگوں کی شخصیت اور اعتبار کو اصلی عامل قرار دیا-

انہوں نے ایک دوسرے سے رکھنے والے میلان و رغبت پر مبنی ازدواج کا فیصلہ ایک دوسرے کی شناخت پر مبنی قرار دیا تھا اور اس عشق و محبت کو آداب و رسوم اور بزرگوں کی شان و شخصیت کی قدر و منزلت کی رعایت کرتے ھوئے عملی جامہ پہنایا-

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نا پائیدار نفسانی خواہشات کی وجہ سے تمام قدروں کو پامال کرتے ھیں اور بزرگوں کے احترام و اعتبار کی رعایت کئے بغیر اپنے نفسانی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام سماجی آداب و رسوم سے چشم پوشی کرتے ہیں، وہ کبھی ایک اطمینان بخش اور پائیدار زندگی تک نہیں پہنچتے، کیونکہ بالاخر ایک دن وہ ھوش میں آکر اپنی کار کردگی کے بارے میں پشیمان ھوتے ہیں- نتیجہ کے طور پر ایسے افراد اپنے ضمیر کے عذاب سے دوچار ھوتے ہیں اور اپنے فکری و روحی آرام و آسائش کو کھو دیتے ہیں- سر انجام بے سود لڑائی جھگڑوں سے دوچار ھوتے ہیں، جن کا نتیجہ بغض و کینہ اور خاندانی اختلافات کے پیدا ھونے اور خاندانی آرام و آسائش کے کھو دینے کے علاوہ کچھ نہیں ھوتا ہے-

۵- اپنے شریک حیات کے لئے معیار کا معین کرنا:

جناب خدیجہ {س} نہ مال و دولت کے لئے، نہ سماجی حیثیت کے لئے اور نہ بعض سماجی محرومیتوں کے لئے پیغمبر اکرم {ص} سے ازدواج کے درپے تھیں، کیونکہ مکہ کے بہت سے صاحبان منصب ، سرداروں اور سرمایہ داروں نے ان سے ازدواج کی درخواست کی تھی اور اس عظمت والی خاتون نے ان سب کا منفی جواب دیا تھا- حقیقت میں جناب خدیجہ {س} نے اپنے ھونے والے شریک حیات کے لئے کچھ معیار مد نظر رکھے تھے اور ان ہی معیاروں کی بنا پر انھوں نے اپنے شریک حیات کی پہچان حاصل کرکے ان کا انتخاب کیا-

حضرت خدیجہ {س} اپنے ایک بیان میں رسول خدا {ص} سے مخاطب ھوکر اپنے مد نظر معیاروں کے بارے میں یوں اشارہ فرماتی ہیں:" میں آپ {ص} کے ساتھ اپنی رشتہ داری ، آپ{ص} کی بزرگواری، لوگوں میں آپ {ص} کی امانتداری، نیک اخلاق اور آپ {ص} کی صداقت کی وجہ سے آپ {ص} سے شادی کرنا چاہتی ھوں"-

ایک موقع پر، جب مکہ کی عورتیں حضرت خدیجہ {س} پر طعنہ زنی کرتی ہیں اور ان کا مذاق اڑاتی ہیں کہ انھوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی، تو جناب خدیجہ {س} جواب میں فرماتی ہیں :" کیا آپ پوری سرزمین عرب میں محمد {ص} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کرسکتی ہیں؟ "

آخری نکتہ یہ کہ حضرت خدیجہ {س} کے اس انتخاب کی قدر و منزلت اس وقت معلوم ھوتی ہے جب ہم یہ جان لیں کہ انھیں اپنے معاشرہ میں ایک بلند حیثیت اور مقام حاصل تھا اور اس معاشرہ اور قریش کے کسی نامور اور دولتمند جوان سے ازدواج کے تمام امکانات اور مواقع فراہم تھے-

۶- ایک دوسرے پر فخر و مباہات کا اظہار نہ کرنا:

حضرت خدیجہ {س} نے حضرت محمد {ص} کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے دوران کبھی اس دولت اور سرمایہ کا نام تک نہیں لیا جو انھوں نے آنحضرت {ص} کو بخش دیا تھا اور اپنے شوہر پر کبھی منت نہ رکھی- پیغمبر اسلام {ص} نے بھی کبھی فخر و مباہات پر مشتمل کوئی جملہ زبان پر جاری نہیں کیا، جو حضرت خدیجہ {س} کے لئے رنجش کا سبب بن جاتا، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی جاں نثاری اور عفو و بخشش کی بات کرتے تھے- نہ آنحضرت {ص} اپنے حسن و جمال، اخلاق اور نبوت کے بارے میں حضرت خدیجہ {س} کے سامنے اظہار فخر کرتے تھے اور نہ حضرت خدیجہ {س} کبھی آنحضرت {ص} کے سامنے اپنے مال و دولت اور سماجی حیثیت کے بارے میں فخر کا مظاہرہ کرتی تھیں- ان دونوں نے ازدواج کے بعد بے بنیاد اور ظاہری فخر و مباہات کو چھوڑ دیا تھا اور اخلاص و محبت اور وفاداری پر مبنی اپنی مشترک زندگی گزارتے تھے-

۷- دوسروں کے کنایوں اور طعنہ زنیوں کا بے اثر ھونا:

حضرت خدیجہ {س} کے پیغمبر اکرم {ص} سے ازدواج کے بعد مکہ کے بہت سے مرد و زن طعنہ زنی کرتے تھے اور حسد و دشمنی کی وجہ سے اشاروں اور کنایوں کے ذریعہ مختلف صورتوں میں انھیں اذیت و آزار پہنچانے کی کوشش کرتے تھے- کبھی ان کی عمر میں تفاوت کی بات کرتے تھے اور کبھی حضرت خدیجہ {س} کے مال و دولت کو آنحضرت {ص} کی خدمت میں بخش دینے کی بات کرتے تھے اور کبھی حضرت محمد {ص} کی تنگ دستی اور فقر کی بات کرتے تھے- لیکن ان تمام طعنہ زنیوں اور اشاروں اور کنایوں کے باوجود، اس خاندان کی بنیادیں ایسی پائیدار اور مضبوط تھیں کہ کبھی کفار مکہ کی باتیں، طعنہ زنیاں، کنائے اور پروپیگنڈے ان کی پر امن اور مہر و محبت پر مبنی ازدواجی زندگی کو متزلزل نہ کرسکے، بلکہ برعکس لوگوں کی طرف سے پہنچائے جانے والے اذیت و آزار اور مداخلتوں کے باوجود ان کا باہمی اعتماد روز بروز بڑھتا گیا اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنی روز مرہ زندگی کی مشکلات کو آسانی کے ساتھ حل کرتے تھے-

۸- شوہر کی اطاعت:

حضرت خدیجہ{س} خداوند متعال پر ایمان کے بعد دل و جان سے اپنے شوہر پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں اور رسول خدا {ص} کے دستوروں، نصیحتوں اور فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انھیں عملی جامہ پہناتی تھیں- جو عوامل آنحضرت {ص} کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی محبت کو دل کی گہرائیوں میں اثر کرنے کا سبب بنتے تھے اور جن کی وجہ سے آپ {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور حضرت خدیجہ {س} کی وفات کے بعد بھی انھیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے تھے، ان میں سب سے اہم حضرت خدیجہ {س} کی اطاعت اور وفاداری کا عامل تھا-

رسول خدا {ص} بھی اپنی بیوی کے اعتماد کو محفوظ رکھنے کا خیال رکھتے تھے اور ہراس چیز سے پرہیز کرتے تھے، جو حضرت خدیجہ {س} کے لئے پریشانی و تشویش کا سبب بن جاتی- یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} جب غار حرا میں طولانی اعتکاف بجا لارہے تھے یہ احتمال دیا کہ کہیں آپ {ص} کی دوری حضرت خدیجہ {س} کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنے، اس لئے عمار یاسر کو اپنی شریک حیات کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا:

" اے خدیجہ {س} ایسا خیال نہ کرنا کہ میری کنارہ کشی آپ سے بے اعتنائی کی وجہ سے ہے ، بلکہ میرے پروردگار نے مجھے یہ حکم دیا ہے تاکہ اپنے امر کو عملی جامہ پہناوں- خیر و سعادت کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا- خداوند متعال ہر روز چند بار، اپنے فرشتوں کے سامنے آپ کے لئے فخر کرتا ہے- پس جب رات ھو جائے، دروازہ بند کرکے بستر میں آرام کرنا"-

۹- پیغمبر اکرم {ص} کی شخصیت کا احترام:

حضرت خدیجہ {س} فراوان مال و دولت کی مالک ھونے اور اس زمانہ کے معاشرہ میں سماجی مقام و منزلت رکھنے کے باوجود رسول خدا {ص} کے ساتھ برتاو اور رفتار اور گفتار میں ہمیشہ اپنے آپ کو آپ {ص} کی ایک معمولی کنیز سمجھتی تھیں اورفخر و مباہات کرتی تھیں کہ خداوند متعال نے انھیں آنحضرت {ص} کی شریک حیات بننے کا شرف بخشا ہے- حضرت خدہجہ {س} پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے دوران ہمیشہ آنحضرت {ص} کے احترام کا خاص خیال رکھتی تھیں، اور کبھی کوئی ایسا برتاو نہیں کرتی تھیں، جس سے جھگڑا لوپن یا اظہار برتری کا شائبہ پیدا ھو جائے- حضرت خدیجہ [س} کے اس برتاو کے جلوے ان دو میاں بیوی کی شادی کی داستان میں پائے جا سکتے ہیں- جب عقد و جشن کی تقریب اختتام کو پہنچی اور پیغمبر خدا {ص} اپنے چچا جناب ابوطالب کے گھر جانا چاہتے تھے، ملکہ بطحا اور قریش کی خاتون ، اب آپ {ص} کی شریک حیات بن چکی تھیں، یوں آپ {ص} سے مخاطب ھوئیں:" الی بیتک فبیتی بیتک و انا جارتیک" " اپنے گھر میں داخل ھو جائیے، میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں آپ {ص} کی کنیز ھوں"- لیکن یہ سب عزت و احترام اس عقیدہ و ایمان کی وجہ سے تھا جو وہ خداوند متعال کے لئے رکھتی تھیں- اور اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا-

پیغمبر اکرم {ص} کی عبادتوں کے دوران ایک بار آنحضرت {ص} کو چالیس دن لگ گئے، حضرت خدیجہ {س} نے یہ پوری مدت تنہائی میں گزاری- ازدواجی زندگی کے ابتدائی ایام میں اس قسم کی طولانی عبادت ممکن تھا، حضرت خدیجہ {س} کے لئے مختلف پریشانیوں اور اضطراب کا سبب بنتی، لیکن اس عظیم خاتون نےنہ فقط اعتراض نہیں کیا بلکہ رسول خدا {ص} کے ساتھ ہمکاری اور ہمراہی فرماتی تھیں اور آنحضرت {ص} سے، ان کے فرائض انجام دینے میں تعاون فرماتی تھیں- رسول خدا {ص} کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی ہم کاری اور ہمدلی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنی وفات کے وقت اپنی وصیت کے ضمن میں آنحضرت {ص} کی خدمت میں یہ عرض کی کہ:" میں نے آپ {ص} کے بارے میں کوتاہی کی ہے، مجھے بخشنا" پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں نے آپ سے ہرگز کسی کوتاہی اور قصور کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، آپ نے میرے گھر میں کافی محنت کی ہے اور آپ کافی تھک گئی ہیں"-

۱۰- ایک دوسرے کو سمجھنا:

حضرت محمد {ص} اور آپ {ص} کی شریک حیات جناب خدیجہ {س} اپنی مشترک زندگی کے دوران ایک دوسرے کا بخوبی ادراک کرتے تھے- ان کا ایک دوسرے کو سمجھنا اور ادراک کرنا، ان کے ایک دوسرے کی دقیق شناخت اور ایمان کا نتیجہ تھا- ان کا ایک دوسرے کو ادراک کرنا اس امر کا سبب بنا کہ سماجی مشکلات خاص کر قریش کی کھلی اور مخفی مخالفتیں اور دشمنیاں ان کی مشترک زندگی پر کوئی اثر نہ ڈال سکیں اور یہ میاں بیوی اپنے مقدس اور الہی مقاصد تک پہنچنے کے لئے آپس میں ہر قسم کا تعاون و ہمکاری کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور اس طرح وہ ایک دوسرے کے لئے قوی پشت پناہ تھے-

حضرت خدیجہ {س} کی دولت اسلام کی خدمت میں:

حضرت خدیجہ {س} نے رسول خدا {ص} سے شادی کرنے کے چند دنوں کے بعد اپنی ساری دولت رسول خدا {ص} کو بخش دی تاکہ آنحضرت {ص} جس طرح چاہیں اسے صرف کریں-

علامہ مجلسی {رہ} روایت نقل کرتے ہیں کہ:

" حضرت خدیجہ {س} اپنی شادی کے چند دنوں کے بعد اپنے چچا ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور کہا کہ: میری اس دولت کو لے کر رسول خدا{ص} کے پاس جانا اور انھیں کہنا کہ یہ خدیجہ {س} کی دولت ہے اور آپ {ص} کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کرتی ہے تاکہ آپ {ص} جس طرح مناسب سمجھیں اسے خرچ کریں اور میرے تمام غلاموں اور کنیزوں کو بھی ان کی خدمت میں بخش دینا"-

ورقہ بن نوفل نے، کعبہ کے پاس آکر زمزم اور مقام ابراھیم {ع} کے درمیان کھڑے ھوکر بلند آواز میں یہ اعلان کیا کہ:

" اے عرب کے باشندو؛ خدیجہ {س} تمھیں گواہ بناتی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو، اپنی پوری دولت کو، اپنے غلاموں، کنیزوں، ملکیت، مویشی، مہر اور اپنے تمام تحفے محمد {ص} کو بخش دئے ہیں اور ان تمام ھدایا کو محمد {ص} نے قبول کیا ہے اور خدیجہ {س} کا یہ کام ان کے محمد {ص} سے والہانہ عشق و محبت کی وجہ سے ہے- اس نے آپ لوگوں کو اس سلسلہ میں گواہ بنایا ہے اور آپ بھی اس کی گواہی دینا"-

رسول خدا {ص} نے بھی حضرت خدیجہ {س} کی دولت اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ میں خرچ کی اور کبھی اس دولت سے کوئی تجارت نہیں کی-

تمام مورخین اور اسلام شناسوں کا اعتراف ہے کہ حضرت خدیجہ {س} کی دولت ان موثر عوامل میں سے ایک اہم عامل تھی جو اسلام کی ترویج اور اس کے پھیلنے میں کلیدی اور بنیادی رول ادا کرچکے ہیں- مسلمان، جس دوران شعب ابیطالب میں کئی برسوں تک انتہائی سخت اور مشکل اقتصادی محاصرہ سے دوچار تھے، اس دوران حضرت خدیجہ {س} کی دولت اور سرمایہ نے مسلمانوں کی جان کو بچانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے- حضرت خدیجہ {س} بھی اپنی کم سن بیٹی، حضرت فاطمہ {س} کے ہمراہ شعب ابیطالب میں موجود تھیں اور وہیں سے مکہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجتی تھیں کہ ان کے مال و ثروت سے مسلمانوں کے لئے غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں مہیا کرکے اور کفار و مشرکین سے چھپا کے شعب ابیطالب میں پہنچا دیں-

حضرت خدیجہ {س} کا بھتیجا، حکیم بن حزام، نان و خرما خرید کر اونٹ پر لاد کر اسے رات کی تاریکی میں شعب ابیطالب میں مسلمانوں کے پاس پہنچاتا تھا-

علامہ مجلسی {رہ} شعب ابیطالب میں مسلمانوں کے محاصرہ میں ھونے کی داستان کے بارے میں نقل کرتے ہیں:" وانفق ابو طالب و خدیجہ جمیع مالھا" ابوطالب اور خدیجہ {س} نے اپنے تمام اموال کو اسلام کے تحفظ کے لئے انفاق کیا"-

بیشک حضرت خدیجہ {س} کی دولت ، اسلام کی ترویج اور پھیلاو میں اس قدر موثر تھی کہ حضرت علی {ع} کی تلوار کے برابر قرار پائی-

قدیم زمانہ سے مشہور تھا کہ اسلام ابتداء میں پیغمبر اسلام {ص} کے نیک اخلاق، حضرت علی {ع} کی مجاہدت اور تلوار اور حضرت خدیجہ کی ثروت اور جاں نثاری کی وجہ سے مستحکم ھوکر پھیلا ہے- پیغمبر اسلام {ص} ہمیشہ اسلام کے پھیلاو میں حضرت خدیجہ {س} کے مال کے قابل قدر اثرات کا ذکر خیر کرتے ھوئے فرماتے تھے: " مانفعنی مال فقط مثل ما نفعنی مال خدیجہ {س} " خدیجہ {س} کے مال کے برابر کوئی مال میرے لئے منافع بخش نہیں تھا"-

پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کے مال سے بہت سے قرضداروں کا قرضہ ادا کیا اور انھیں قرضہ کے دباو سے آزاد کیا، حاجتمندوں کی مدد فرماتے تھے، بے سہاروں اور یتیموں کی نصرت کرتے تھے-

پیغمبر اسلام {ص} ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں:" ایدتنی علی دین اللہ واعا نتنی علیہ بھا لھا" " - - - خدیجہ {س} نے دین خدا کے سلسلہ میں میری مدد کی اور اپنے مال سے میری نصرت کی"-

سلیمان کتان نامی ایک عرب مصنف لکھتے ہیں:" خدیجہ {س} نے اپنی ساری دولت رسول خدا {ص} کو بخش دی، لیکن یہ محسوس نہیں کررہی تھیں کہ اپنے مال کو بخش رہی ہیں، بلکہ یہ محسوس کر رہی تھیں کہ ایک ایسی ہدایت حاصل کر رہی ہیں، جو تمام دنیا کے خزانوں سے برتر ہے-"

علی {ع} خد یجہ {س} کے گھر میں:

رسول خدا {ص} اور علی{ع} کے درمیان رابطہ دو افراد کے درمیان ایک عام رابطہ سے بالاتر ایک غیر معمولی رابطہ تھا- رسول خدا {ص}، علی{ع} کے پیدا ھونے کے لمحہ سے ہی ان سے محبت رکھتے تھے- جب علی {ع} پیدا ھوئے تو ان کی والدہ، انھیں رسول اللہ {ص} کی خدمت میں لائیں- پیغمبر اکرم {ص} نے علی {ع} کو اپنی آغوش میں لے کر چوما- پھر کبھی آنحضرت {ص} علی {ع} کے گہوارہ کے پاس بیٹھ کر آرام سے گہوارہ کو ہلاتے تھے یہاں تک وہ سوجاتے- کبھی کبھی انھیں نہلاتے تھے اور دودھ پلاتے تھے اور کبھی ان کو اپنے سینے سے لپٹا کر ان سے گفتگو کرتے تھے-

ابن ابی الحدید، زید بن علی بن الحسین {ع} سے نقل کرتے ہیں کہ:" ان دنوں رسول خدا {ص} گوشت اور خرما کو اپنے دہان مبارک میں چبا کر نرم کرتے تھے تاکہ اسے آسانی سے کھایا جائے، اس کے بعد علی {ع} کے منہ میں ڈالتے تھے"-

علی {ع} جب رفتہ رفتہ بڑے ھونے لگے تو، پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ ان کا لگاو بھی بڑھنے لگا اور آنحضرت {ص} ہمیشہ علی {ع} کو اپنے چھوٹے بھائی یا اپنے عزیز بیٹے کے مانند اپنے ساتھ لے جاتے تھے- حضرت علی {ع} خود اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں: و قد علمتم موضعي من رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم بالقرابة القريبة والمنزلة الخصيصة، وضعني في حجره و انا ولد ي ضمني الى صدره و يكنفني في فراشه و يمسني جسده و يشمني عرفه و كان يمضغ الشي‏ء ثم یلقمنیہ " اے پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھیو؛ آپ پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ میری قرابت اور رشتہ داری اور آنحضرت {ص} کے پاس میرے مقام و منزلت سے بالکل آگاہ ہیں اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں آنحضرت {ص } کی محبت بھری آغوش میں پرورش پا چکا ھوں، جب میں پیدا ھوا تھا آنحضرت {ص} مجھے اپنے سینے سے لپٹاتے تھے اور اپنے بستر کے پاس سلاتے تھے اور میرے بدن پر اپنا دست مبارک پھیرتے تھے، اور میں آپ {ص} کی خوشبو محسوس کرتا تھا اور آپ {ص} میرے منہ میں کھانا ڈالتے تھے"-

رسول خدا {ص} اور حضرت خدیجہ {س} کے ازدواج کے بعد تقدیر الہی سے اس سال مکہ میں زبردست خشک سالی ھوئی- پیغمبر اسلام {ص} کے چچا جناب ابوطالب ایک عیال بار شخص تھے اور ان نا گفتہ بہ حالات میں ان کے لئے زندگی گزارنا مشکل تھا- پیغمبر اکرم {ص} نے اپنے چچا جناب عباس کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا، ان کی مالی حالت قدرے بہتر تھی- اس کے بعد انھوں نے اتفاق کیا کہ ان میں سے ہر ایک جناب ابوطالب کی اولاد میں سے ایک کو اپنے گھر لے آکر پالے گا- اس طرح جناب عباس جعفر بن ابیطالب کو اور آنحضرت {ص} علی بن ابیطالب {ع} کو اپنے گھر لے گئے-

علی {ع} ان دنوں ایک سات سالہ بچہ تھے، ایک دوسری روایت کے مطابق دس سالہ تھے، پیغمبر اکرم {ص} ان کا ہاتھ پکڑے ھوئے جناب خدیجہ {س} کے گھر میں داخل ھوئے- حضرت خدیجہ پہلے ہی دن سے علی {ع} کے ساتھ پیار محبت سے پیش آنے لگیں اور انھیں ایک مہربان ماں کے مانند آغوش محبت میں لے لیا- حضرت خدیجہ {س} علی {ع} کو مستقبل میں اپنی بیٹیوں کے لئے ایک امانتدار بھائی سمجھتی تھیں اور ایک مہربان اور ہمدرد ماں کے عنوان سے علی{ع} کی پرورش کرنے میں کسی قسم کا دریغ نہیں کرتی تھیں-

علی {ع} بچپن میں ہی رسول خدا {ص} کے گھر میں داخل ھوئے اور آنحضرت {ص} نے اس نونہال کی اپنے نیک اخلاق سے جس طرح مناسب سمجھا پرورش کی- اس کے بعد علی {ع} اپنا پورا وقت پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں گزار تے تھے اور آنحضرت {ص} کے الہی اخلاق اور انسانی فضائل کے اتاہ سمندر سے کافی بہرہ مند ھوئے-

حضرت علی {ع} اس سلسلہ میں فرماتے تھے:" ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لي كل يوم من اخلاقه علما ويأمرني بالاقتداء به، ولقد کان یجاور فی کل سنه بحراء، فأراه ولایراه غیری، و لم یجتمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله- صلی الله علیه و آله وسلم- و خدیجه و انا ثالثهما ارى نور الوحى و الرسالة و اشم ریح النبوة "

" میں ایک سایہ کی مانند آنحضرت {ص} کے پیچھے پیچھے چلتا تھا اور آپ {ص} اپنے نیک اخلاق کے بارے میں مجھ سے ہر روز ایک نیا نکتہ بیان فرماتے تھے اور مجھے حکم دیتے تھے کہ آپ {ص} کی اطاعت کروں- آپ {ص} ہرسال کچھ دن کوہ حرا میں تشریف لے جاتے تھے، صرف میں آپ {ص} کو دیکھتا تھا، میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھتا تھا- ان دنوں رسول خدا {ص} کے گھر کے علاوہ کوئی ایسا گھر موجود نہیں تھا، جس میں اسلام داخل ھوا ھو، صرف آنحضرت {ص} کا گھر تھا کہ جس میں خود آنحضرت {ص}، خدیجہ {س} اور تیسرے فرد کے عنوان سے میں نے اسلام قبول کیا تھا- میں وحی رسالت کے نور کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا تھا اور رسالت کی خوشبو کو محسوس کرتا تھا-"

ایک روایت میں حضرت علی {ع} رسول خدا {ص} کے پاس اپنے حضور اور اس کے اثرات کے بارے میں فرماتے ہیں: " لقد صلیت مع رسول اللہ قبل الناس بسبع سنین و انا اول من صلی معہ"-

" میں نے دوسرے لوگوں سے سات سال قبل رسول خدا {ص} کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور میں سب سے پہلا شخص ھوں جس نے آنحضرت {ص} کے ساتھ نماز پڑھی ہے"-

رسالت کے عام اعلان کے بعد پیغمبر اسلام {ص} اور آپ {ص} کے خاندان کے لئے زندگی کے مشکل ترین اور دردناک ترین مراحل شروع ھوئے- اس دوران، خاص کر بعثت کے آخری برسوں کے دوران، حضرت خدیجہ {س} اور حضرت علی {ع} سخت دباو میں زندگی گزار رہے تھے اور کبھی کبھی پیغمبر اکرم {ص} کے قتل ھونے کے خطرات کو محسوس کرتے تھے، لہذا یہ دو شخص ہمیشہ آنحضرت {ص} کے دوش بدوش رہتے تھے- اور تمام خطرات کے لئے ڈھال بن جاتے تھے-

طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:" ایام حج میں، ایک دن پیغمبر اکرم {ص} کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز میں لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا:" اے لوگوا؛ میں خدا وند متعال کا رسول ھوں"- اس کے بعد کوہ مروہ جاکر یہی مطلب تین بار بلند آواز میں دہرا کر لوگوں تک پہنچا دیا- عرب جاہلوں میں سے ہر ایک فرد ایک ایک پتھر اٹھا کر آنحضرت {ص} کے پیچھے دوڑا اور آپ {ص} پر پتھر پھینکے، اور ایک پتھر آنحضرت {ص} کی پیشانی پر لگا اور پیشانی سے خون جاری ھوا- اس کے بعد آنحضرت {ص} کوہ ابوقبیس کی طرف بڑھے اور مشرکین بھی آپ {ص} کے پیچھے دوڑے- اس دوران ایک شخص نے حضرت علی {ع} کے پاس جاکر کہا:" پیغمبر {ص} کو قتل کیا گیا-" حضرت علی {ع} یہ خبر سن کر روتے ھوئے حضرت خدیجہ {س} کے پاس پہنچے اور انھیں اس وحشتناک خبر سے آگاہ کیا- حضرت خدیجہ {س} بھی یہ خبر سن کر غمگین اور مضطرب ھوئیں اور زار زار رونے لگیں"-

اس کے بعد علی {ع} اور خدیجہ {س} گریاں اور پریشان حالت میں رسول خدا {ص} کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑ رہے تھے، لیکن آنحضرت {ص} کو نہ پاسکے- اسی دوران جبرئیل امین پیغمبر {ص} پر نازل ھوئے اور فرمایا:" حضرت خدیجہ {س} کے رونے کی وجہ سے ملائکہ گریہ و زاری کرنے لگے ہیں اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ انھیں سلام پہنچا دیں اور ان سے کہدیں کہ خداوند متعال نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور انھیں بہشت میں نور سے زینت دئے ھوئے گھر کی بشارت دی ہے"-

علی {ع} اور خدیجہ {س} پیغمبر اکرم {ص} کو مسلسل ڈھونڈ رہے تھے، یہاں تک کہ آنحضرت {ص} کو خون میں لت پت حالت میں پایا اور آپ {ص} کو اسی حالت میں گھر پہنچایا- کفار مکہ کو جب معلوم ھوا کہ علی {ع} اور خدیجہ {س} نے آنحضرت {ص} کو گھر پہنچا دیا ہے، اس لئے وہ حضرت خدیجہ {س} کے گھر آکر پتھراو کرنے لگے- حضرت خدیجہ {س} نے گھر سے باہر آکر ان سے مخاطب ھوکر فرمایا:" کیا تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ اپنی قوم کی شریف ترین خاتون کے گھر پر پتھراو کر رہے ھو؟ اور خدا سے نہیں ڈرتے ھو؟ حضرت خدیجہ {س} کا کلام سن کر کفار کو ذرا شرم محسوس ھوئی اور ان کے گھر سے دور چلے گئے-

اس وقت رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کو جبرئیل امین کا پیغام سنایا اور فرمایا:" اے خدیجہ {س}: جبرئیل امین نے میرے پاس آکر کہا کہ خدیجہ {س} کی خدمت میں پروردگار عالم کا سلام پہنچانا"-حضرت خدیجہ {س} نے جواب میں کہا:" قالت خدیجۃ: اللہ السلام و منہ السلام و علی جبرئیل السلام" "خدا سلام ہے اور سلام وہی ہے، جبرئیل پر سلام ھو اور اے رسول خدا {ص} آپ {ص} پر خدا کا سلام، رحمتیں اور برکتیں ھوں"-

حضرت خدیجہ {س} سے رسول خدا {ص} کی اولاد:

حضرت خدیجہ {س} سے رسول خدا {ص} کی اولاد کی تعداد کے بارے میں مورخین نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں- مشہور قول یہ ہے کہ رسول خدا {ص} کے چھ بچے تھے، جن میں دو بیٹے اور چا ر بیٹیاں تھیں- آنحضرت {ص} کے بیٹوں کے نام بالترتیب قاسم اور عبدا للہ تھے، عبداللہ کا لقب طاہر تھا- آنحضرت {ص} کی بیٹیوں کے نام : زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ {س} تھے-اگر چہ تاریخ میں آنحضرت {ص} کی اولاد کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابراھیم کے علاوہ آنحضرت {ص} کی تمام اولاد کی والدہ حضرت خدیجہ تھیں اور ابراھیم {ع} کی والدہ ماریہ قبطیہ تھیں-

رسول خدا {ص} کی اولاد کی ولادت کی داستان ترتیب سے حسب ذیل ہے:

۱- جناب قاسم، رسول خدا {ص} کے پہلے بیٹے ہیں، جو بعثت سے پہلے مکہ میں پیدا ھوئے- جناب قاسم کی پیدائش کے بعد رسول خدا {ص} کی کنیت " ابو القاسم" مشہور ھوئی- جناب قاسم نے سترہ ماہ کی عمر میں مکہ میں وفات پائی اور قبرستان " حجون" میں سپرد خاک کئے گئے-

تاریخ یعقوبی میں نقل کیا گیا ہے کہ جناب قاسم نے وفات پائی تو آنحضرت {ص} نے ان کے جنازہ کے پاس کھڑےَ ھوکر مکہ کے اطراف میں موجود ایک پہاڑ کی طرف نگاہ کرکے اس سے مخاطب ھوکر فرمایا:

" یا جبل لوان ما بی بک لھدک" اے کوہ؛ قاسم کی موت سے جو مجھ پر گزری ، اگرتجھ پر گزر تی تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے ھو جاتے"

حضرت خدیجہ {س} بھی اپنے شیر خوار بیٹے کی موت پر غم اور شکوے کا اظہار کر رہی تھیں- اس وقت رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھو کر فرمایا:" قاسم اپنی شیر خواری کے زمانہ کو بہشت میں مکمل کر رہا ہے"- پیغمبر اسلام {ص} کے اس کلام سے حضرت خدیجہ {س} کو تھوڑی سی تسلی و تسکین ملی-

۲-عبداللہ، بعثت سے پہلے مکہ میں پیدا ھوئے، ان کے القاب " طیب" و " طاہر " تھے- وہ بھی قاسم کی وفات کے تیس دن بعد مکہ میں دارفانی کو وداع کر گئے- عبدا للہ کی وفات کے بعد، عاص بن وائل سہمی نے رسول خدا { ص} کو " ابتر" کہا- اس شخص کی ناروا نسبت دینے کے جواب میں سورہ کوثر نازل ھوا-

۳-زینب، رسول اکرم{ص} اور جناب خدیجہ کی پہلی بیٹی تھیں – خدیجہ {س} نے اپنی اس بیٹی کو اپنے بھانجے ، ابو العاص بن ربیع کے عقد میں قرار دیا- ان کے ہاں " علی" نامی ایک بیٹا اور " امامہ" نامی ایک بیٹی پیدا ھوئی- علی بچپن میں ہی فوت ھو گیا- لیکن " امامہ" نے مغیرہ بن نوفل سے شادی کی، البتہ ایک مدت کے بعد اس سے جدا ھوئیں- حضرت فاطمہ زہراء {س} کی وفات کے بعد امامہ نے امیرالمومنین حضرت علی {ع} سے شادی کی-

نبی اکرم {ص} کی مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کے وقت زینب اپنے شوہر ابوالعاص کے ہمراہ مکہ میں رہیں- ابو العاص سنہ ۲ ھجری میں جنگ بدر میں کفار کے لشکر میں شامل تھا اور کفار کے ستر افراد کے ہمراہ اسلامی سپاھیوں کی قید میں آگیا جب یہ طے پایا کہ قیدی فدیہ دے کر آزاد ھو جائیں، تو زینب نے اپنے شوہر کی آزادی کے لئے، حضرت خدیجہ {س} کی طرف سے ان کی شب عروسی میں عطا کئے گئے گلو بند کو فدیہ کے عنوان سے مدینہ بھیجا اور ابو العاص اس گردن بند کو لے کر سروردو عالم حضرت محمد مصطفے {ص} کی خدمت میں حاضر ھوا- پیغمبر اسلام {ص} نے جب اس گلو بند کو دیکھا تو آپ {ص} کو اپنی فدا کار اور جاں نثار شریک حیات حضرت خدیجہ {س} یاد آئیں اور بے اختیار رونے لگے- اور اس کے بعد فر مایا: رحم اللہ خدیجہ{س} ھذہ قلاید ھی جھزتھا بھا" " خداوند متعال خدیجہ {س} کو رحمت عطا کرے، یہ وہ گلو بند ہے جو خدیجہ {س} نے زینب کے لئے فراہم کیا تھا"-

پیغمبر اسلام {ص} نے ابو العاص کی آزادی کی اس شرط پر حمایت کی کہ زینب کو مدینہ آنے سے نہ روکے- ابو العاص نے پیغمبر اسلام {ص} کی یہ شرط قبول کی اور آزادی کے بعد اپنے وعدہ پر قائم رہا اور زینب کو زید بن حارثہ کے ہمراہ مدینہ بھیجا-

سر انجام، ابو العاص، فتح مکہ سے پہلے مسلمان ھوا اور مدینہ آگیا تاکہ دوبارہ زینب سے رشتہ ازدواج قائم کرے- زینب سنہ ۸ھجری میں حاملگی کی حالت میں چند دوسرے افراد کے ہمراہ مدینہ کی طرف جارہی تھیں کہ راستہ میں ایک چٹان کے گرنے سے زخمی ھوکر وفات پا گئیں- ان کے جنازہ کو مدینہ لایا گیا- ان کے جنازہ پر چند خواتین گریہ وزاری کر رہی تھیں- عمر بن خطا ب نے انھیں مارنے کے لئے ایک تازیانہ ہاتھ میں لے لیا، پیغمبر اکرم {ص} نے جناب عمر کو اس کام سے پرہیز کرنے کو کہا- بالاخر زینب کو غسل دے کر خواتین کے گریہ و زاری کے درمیان مدینہ میں سپرد خاک کیا گیا-

۴- رقیہ، رسول خدا {ص} اور خدیجہ {س} کی دوسری بیٹی ہیں کہ ان کے بارے میں تاریخ میں زیادہ معلومات درج نہیں کئے گئے ہیں-

۵- ام کلثوم، حضرت خدیجہ {س} کی تیسری بیٹی تھیں، جنھوں نے مشکلات سے بھری زندگی گزاری ہے-

رقیہ اور ام کلثوم کی شادی، ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل کی درخواست پر بالترتیب عتیبہ و عتبہ بن ابولہب سے کی گئی تھی- ابو لہب کے بیٹوں کے ساتھ ان کی شادی ابو طالب کی ثالثی پر انجام پائی تھی- خدیجہ کبری {س} باوجودیکہ ام جمیل اور اس کے بیٹوں کے برے اخلاق سے واقف تھیں، لیکن انھوں نے پیغمبر اکرم {ص} کے چچا کے احترام میں اس رشتہ کی مخالفت نہیں کی- رسول خدا {ص} کی رسالت کے اعلان کے بعد، رسول خدا {ص} نے وسیع پیمانے پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اس کے نتیجہ میں عتیبہ و عتبہ بن ابولہب نے اپنی ماں ام جمیل کے حکم سے اپنی بیویوں رقیہ و کلثوم کو طلاق دے کر انھیں اپنے باپ کے گھر بھیجا تاکہ حضرت محمد {ص} اور حضرت خدیجہ کے لئے بیشتر اذیت و آزار کا سبب بنیں- پیغمبر اسلام {ص} کی دو بٹیاں اپنے باپ کے گھر لوٹیں اور پیغمبر اکرم {ص} اور حضرت خدیجہ {س} نے ان کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا- ایک مدت کے بعد عثمان بن عفان نے رقیہ کے بارے میں خواستگاری کی اور ان کے ساتھ شادی کی-

۶- حضرت فاطمہ زہراء {س}، پیغمبر اسلام {ص} کی سب سے چھوٹی اور آخری اولاد تھیں- حضرت زہراء {س} تقریباً بعثت سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ھوئی ہیں- تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر اسلام {ص} کی اولاد کے بارے میں کچھ مزید اقوال بھی ذکر کئے گئے ہیں مگر ہم ان کے بیان سے صرف نظر کرتے ہیں-

حضرت فاطمہ {س} کا تولد:

بعثت کے پانچویں سال جبرئیل امین {ع}پیغمبر اسلام {ص} پر نازل ھوئے اور آنحضرت {ص} سے مخاطب ھو کر فرمایا:" اے محمد؛ خدا وند متعال نے سلام بھیجا ہے اور حکم کیا ہے کہ چالیس شب و روز خدیجہ {س} سے دوری اختیار کرنا- آنحضرت {ص} بھی خداوند متعال ک حکم کے مطابق چالیس دن تک حضرت خدیجہ {س} کے گھر نہیں گئے- اس دوران رسول خدا {ص} دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے تھے- آنحضرت {ص} نے ایک دن عمار یاسر کو اپنے پاس بلاکر ان سے فرمایا:" عمار؛ خدیجہ {س} کے پاس جانا اور ان سے کہنا کہ میرا ان کے پاس نہ آنا کسی تنفر اور ناراضگی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ پروردگار کا حکم ہے- میں اس وقت فاطمہ بنت اسد کے گھر میں ھوں ، جب تک وعدہ الہی پورا ھو جائے"-

جب چالیس دن مکمل ھوگئے، جبرئیل امین {ع} ایک غذا بھرے خوان کو لے کر آنحضرت

{ص} کی خدمت میں نازل ھوئے اور کہا:" یا محمد؛ خداوند متعال نے آپ {ص} کو سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آج رات کو یہ غذا تناول کرنے کے بعد جناب خدیجہ {س} کے پاس جانا"-

رسول خدا {ص} نے خوان کو کھول کر دیکھا کہ اس میں ایک خوشہ انگور، ایک خوشہ خرما اور بہشت کے پانی کا ایک جام تھا- آنحضرت {ص} نےاسے تناول فرمایا- اس کے بعد حضرت خدیجہ {س} کے گھر تشریف لے گئے- اس رات کو فاطمہ {س} کا نطفہ منعقد ھوا- حضرت خدیجہ {س} محسوس کر رہی تھیں کہ ان کے شکم میں موجود بچہ ہر لحاظ سے دوسرے بچوں سے فرق رکھتا ہے- جب وضع حمل کا وقت آگیا، حضرت خدیجہ {س} تن تنہا گھر میں بیٹھی تھیں اور ان پر غم و اندوہ کا عالم طاری ھوچکا تھا، انھیں اس وقت مدد کی ضرورت تھی- حضرت خدیجہ {س} نے اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالی، لیکن ان کے پاس کوئی نہیں تھا، پریشانی کے عالم میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئیں اور دروازہ کی طرف چشم براہ رہیں- اچانک چار بلند قامت خواتین کمرے میں داخل ھوگئیں، حضرت خدیجہ {س} انھیں دیکھ کر ڈر گئیں- انھوں نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا: اے خدیجہ {س} ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں پرودگار عالم نے بھیجا ہے، ہم آپ کی بہنیں ہیں اور آپ کی مدد کے لئے ہیں- اس کے بعد ان میں سے ہر ایک نے حسب ذیل اپنا تعارف کرایا:

پہلی خاتون نے کہا: میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ {ع} کی بیوی، " سارہ" ھوں- دوسری خاتون نے کہا: میں فرعون کی بیوی " آسیہ" ھوں- تیسری خاتون نے کہا: میں " مریم عذرا" ھوں- اور آخری خاتون نے کہا کہ: میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ {ع} کی بہن " صفورا" ھوں-

کچھ لمحات کے بعد حضرت خدیجہ کی بیٹی متولد ھوئیں- پیغمبر اسلام {ص} نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیا اور فقرا اور مسکینوں کو کھانا کھلایا اور بیٹی کا نام فاطمہ {س} رکھا- رسول خدا {ص} حضرت فاطمہ {س} سے انتہائی محبت کرتے تھے اور ان کی بلند مرتبہ شخصیت کے بارے میں کافی احادیث بیان فرمائی ہیں-

پہلی نماز جماعت اور نماز پڑھنے والے:

بعثت کے دن جبرئیل امین {ع} کے رسول خدا {ص} کے یہاں نازل ھوکر آنحضرت {ص} پر رسالت کا ابلاغ کرنے کے دو دن بعد جبرئیل امین دوبارہ پیغمبر اسلام {ص} کے یہاں نازل ھوئے اور نماز قائم کرنے کا حکم پہنچا دیا-

ابن اثیر اپنی کتاب " الکافی فی التاریخ" میں لکھتے ہیں:" خداوند متعال نے شریعت اسلام میں جو پہلے احکام واجب قرار دئے، وہ توحید کا اقرار کرنا، بتوں کی پرستش سے پرہیز کرنا اور نماز قائم کرنا تھے- جب نماز واجب ھونے کا حکم نازل ھوا، اس وقت پیغمبر اسلام {ص} شہر مکہ کے اطراف میں ایک بلندی پر تشریف فرما تھے، کہ جبرئیل {ع} آنحضرت {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے- وہاں پر ایک چشمہ جاری ھوا- جبرئیل نے اس چشمہ کے پانی سے وضو کیا- پیغمبر اسلام {ص} جبرئیل امین {ع} کے وضو کرنے کی کیفیت کا مشاہدہ فرماتے رہے اور ان سے سیکھا- اس کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے بھی جبرئیل کے مانند وضو کیا- اس کے بعد جبرئیل نماز کے لئے کھڑے ھوئے اور رسول خدا {ص} بھی جبرئیل کے مانند نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ھوئے-

نماز ختم ھونے کے بعد پیغمبر اسلام {ص} گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ {س} کو وضو کرنا اور نماز پڑھنا سکھایا- اس جاں نثار اور وفا دار خاتون نے بھی پیغمبر اسلام {ص} سے وضو کرنا اور نماز پڑھنا سیکھا- اس کے بعد رسول خدا {ص} نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ھوئے اور حضرت خدیجہ {س} نے بھی رسول خدا {ص} کے ساتھ نماز پڑھی-

اس کے بعد علی {ع} گھر میں داخل ھوئے اور انھوں نے بھی رسول خدا {ص} سے وضو اور نماز پڑھنے کی کیفیت کو سیکھا- اس کے بعد جب بھی رسول خدا {ص} نماز کے لئے کھڑے ھوتے تھے، علی {ع} اور خدیجہ {س} آپ {ص} کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے- اس کے بعد کبھی کبھی وہ کعبہ کے روبرو نماز پڑھتے تھے اور مشرکین تعجب اور حیرت سے دیکھتے رہتے تھے-

عبداللہ بن مسعود، اس زمانہ میں، جب ابھی کوئی بھی پیغمبر اسلام {ص} پر ایمان نہیں لایا تھا، علی {ع} اور خدیجہ {س} کے آنحضرت {ص} کے پیچھے نماز پڑھنے کے اپنے چشم دید مشاہدات کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں:

" اسلام کے بارے میں سب سے پہلے جس چیز کو میں نے جانا، وہ یہ تھی کہ، میں اپنے چچا اور قبیلہ کے افراد کے ہمراہ، مکہ میں داخل ھوا، جب ہم تھوڑا سا عطر خریدنا چاہتے تھے، ہمیں عباس بن عبدالمطلب کا تعارف کرایا گیا- عباس بن عبدالمطلب، کعبہ کے پاس چاہ زمزم پر بیٹھے تھے- میں ان کے پاس جاکر ان کے نزدیک بیٹھ گیا- ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک پرجمال شخص باب صفا سے مسجدالحرام میں داخل ھوئے، وہ سفید لباس پہنے ھوئے تھے، گیسو اور داڑھی والے تھے، ان کے دندان سفید تھے اور ان کا چہرہ چاند کے مانند درخشان تھا- ان کے بائیں جانب ایک نوجوان تھا اور ان کے پیچھے ایک با پردہ خاتون تھیں- وہ حجرالاسود کے پاس گئے- پہلے اس شخص نے حجرالاسود پر ہاتھ پھیرا، اس کے بعد اس جوان نے اس کے بعد اس خاتون نے حجرالاسود پر اپنا ہاتھ پھیرا- اس کے بعد تینوں افراد کعبہ کی طرف متوجہ ھوئے- جب انھوں نے سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا، اور اس کے بعد حجر اسماعیل کے پاس آکر نماز جماعت پڑھی- وہ شخص تکبیر پڑھتے وقت اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھاتے تھے، جب وہ رکوع بجا لاتے تھے تو وہ جوان اور خاتون بھی ان کے ساتھ رکوع بجا لاتے تھے اور جب وہ کھڑے ھوتے تھے تو وہ دو افراد بھی کھڑے ھوتے تھے اور جب وہ سجدہ میں جاتے تو وہ دونوں افراد بھی ان کے ساتھ سجدہ میں جاتے تھے-

میں نے عباس بن عبدالمطلب سےکہا: یہ بڑا عجیب کام ہے؛ عباس نے کہا کیا اس شخص کو پہنچاتے ھو؟ میں نے کہا: نہیں- عباس نے کہا: یہ میرا بھتیجا، محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے- اس کے بعد پوچھا: کیا اس جوان کو پہچانتے ھو؟ میں نے کہا: نہیں-انھوں نے کہا: وہ میرا بھتیجا علی بن ابیطالب ہے- اس کے بعد پوچھا : کیا اس خاتون کو پہنچاتے ھو؟ میں نے کہا: نہیں- عباس نے کہا: محمد {ص} کی بیوی، خدیجہ بنت خویلد ہیں- اس کے بعد مجھ سے مخاطب ھوکر کہا: آسمان وزمین کے پروردگار نے ان کو اس دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور اس وقت کرہ ارض پر صرف یہی تین افراد اس دین پر قائم ہیں-

حضرت فاطمہ {س} کےمستقبل کے بارے میں حضرت خدیجہ {س} کی تشویش:

حضرت خدیجہ {س} اپنی زندگی کے آخری ایام میں علالت کی وجہ سے صاحب فراش ھوچکی تھیں- ایک دن اسماء بنت عمیس ان کی عیادت کے لئے آگئیں- جب اسماء کمرے میں داخل ھوئیں، تو حضرت خدیجہ {س} کو مضطرب اور پریشان حالت میں پایا- اور ان سے مخاطب ھوکر کہا: آپ دنیا کی بہترین خواتین میں سے ہیں، آپ نے اپنی پوری دولت راہ خدا میں بخش دی ہے، آپ رسول اکرم {ص} کی شریک حیات ہیں اور آنحضرت {ص} نے بارہا آپ کو بہشت کی بشارت دی ہے، اس کے باوجود آپ کیوں پریشانی کے عالم میں گریہ و زاری کر رہی ہیں؟

حضرت خدیجہ {س} نے جواب میں فرمایا: اسماء؛ میں فاطمہ {س} کے بارے میں پریشان ھوں، بیٹی کو ازدواج کے وقت ماں کی ضرورت ھوتی ہے- میں ڈرتی ھوں، کہیں اس دنیا سے چلی جاوں اور فاطمہ {س} کے لئے کوئی نہ ھو جو ماں کا فرض ادا کرے- اسماء بنت عمیس نے کہا: اے میری محترم خاتون؛ پریشان نہ ھونا، میں آپ سے عہد کرتی ھوں کہ اگر اس وقت تک میں زندہ رہی تو فاطمہ {س} کے لئے آپ کی جگہ پر ماں کا فرض ادا کروں گی اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کروں گی-

حضرت خدیجہ {س} کی رحلت کے بعد جب حضرت فاطمہ زہراء {س} کی عروسی کی رات آن پہنچی تو پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا:" دلھن کے کمرے سے تمام عورتیں باہر نکل جائیں اور وہاں پر کوئی باقی نہ رہے"- سب عورتیں نکل گئیں، لیکن پیغمبر اکرم {ص} متوجہ ھوئے کہ ابھی اسماء بنت عمیس کمرے میں موجود ہیں- آنحضرت {ص} نے فرمایا:" کیا میں نے یہ نہیں کہاکہ سب عورتیں باہر نکل جائیں؟ " اسماء نے جواب میں عرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ، میں نے بھی آپ {ص} کا حکم سنا اور مجھے آپ {ص} کے حکم کی نافرمانی کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا، لیکن مجھے حضرت خدیجہ {س} سے کئے ھوئے وعدہ نے یہاں رکنے پر مجبور کیا، کیونکہ میں نے ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا ہے کہ آج کی رات ، فاطمہ {س} کے لئے ماں کا رول ادا کروں"-

جب رسول اکرم {ص} نے اسماء کا یہ جواب سنا، تو آپ {ص} کی چشم ہائے مبارک سے اشک جاری ھوئے اور بارگاہ الہی میں دست ہائے مبارک کو اٹھاکر اسماء بنت عمیس کے حق میں دعا کی-

حضرت خدیجہ {س} کی شوہر داری:

حضرت خدیجہ {س} کی شوہر داری کا طریقہ کار شوہر داری کا کامیاب ترین اور بے مثا ل طریقہ کار ہے، جو آج کے خاندانوں کے لئے جامع اور مکمل نمونہ عمل بن سکتا ہے-

حضرت خدیجہ{س} دل وجان سے اپنے شوہر، رسول خدا {ص} پر ایمان رکھتی تھیں اور آپ {ص} سے والہانہ محبت کرتی تھیں- حضرت خد یجہ {س} کا یہ عشق و محبت ان کی زندگی کے ابتدائی چند ایام اور چند مہینوں تک محدود و مخصوص نہیں تھا، بلکہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ان کے باہمی عشق و محبت میں اضافہ ھوتا جارہا تھا-

اسلام کی یہ بے مثال خاتون، اپنے کردار، طریقہ کار اور ہنرمندی سے اپنے گھر کے ماحول کو اپنے شوہر کے لئے آرام و سکون کے مرکز میں تبدیل کرنے میں کامیاب ھوئیں اور اس مقصد کو تقویت بخشنے کے لئے ہر قسم کے امکانات اور وسائل سے استفادہ کرتی تھیں- حضرت خدیجہ {س} نے نہ صرف اپنی پوری دولت پیغمبر اسلام {ص} کو بخش دی تھی، بلکہ انھوں نے اپنی محبت، جذبات، آرام و آسائش حتی کہ روح و جان کو کسی قسم کی توقع کے بغیر اپنے شوہر کے اختیار میں دے دیا تھا-

حضرت خدیجہ{س} اس چیز کو پسند کرتی تھیں، جسے حضرت محمد مصطفے {ص} پسند فرماتے تھے اور وہی چیز چاہتی تھیں، جسے ان کے شوہر چاہتے تھے- وہ اپنے دل و جان اور تمام جذبات سے اپنے شوہر پر ایمان رکھتی تھیں اور انھیں روئے زمین پر بہترین، مکمل ترین اور شریف ترین انسان جانتی تھیں کہ خداوند متعال نے انھیں ان کی شریک حیات بننے کا شرف بخشا تھا-

پیغمبر اسلام {ص} کی یہ عارف اور معنویات کی ما لک بیوی، تمام قسم کی بد ظنیوں اور بے جا حساسیتوں سے پاک و منزہ تھیں، جبکہ ان ہی بد ظنیوں اور حساسیتوں کی وجہ سے عام طور پر خاندانوں کی زندگی کا آرام و سکون مختل ھوجاتا ہے، اس کے برعکس حضرت خدیجہ {س} اپنے شوہر پر مکمل ایمان و اعتماد رکھتی تھیں- مثال کے طور پر، ابھی حضرت خدیجہ {س} کی پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع ھوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ آنحضرت {ص} اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ کر غارحرا میں چلے گئے- حضرت خدیجہ {س} نےاس پوری مدت کے دوران اس تنہائی کے بارے میں کوئی گلہ و شکوہ نہیں کیا، بلکہ ہر روز کھانا پانی مہیا کرکے اپنے ساتھ غارحرا میں لے جاتی تھیں، یا اسےحضرت علی {ع} کے ہاتھ غارحرا میں بھیجتی تھیں-

پیغمبر اسلام {ص} کے رسالت پر مبعوث ھونے کے بعد کفار و مشرکین کی طرف سے، دشمنیاں، مخا لفتیں، بغض و حسد اور اذیت و آزار کا سلسلہ شروع ھوا اور حضرت خدیجہ {س} ہمیشہ پروانہ کے مانند آنحضرت {ص} کے وجود مبارک کے گرد گھومتی اور آپ {ص} کی حفاظت کرتی تھیں اور آپ {ص} کے لئے آرام و سکون کا ماحول پیدا کرتی تھیں اور آنحضرت {ص} کے غم و آلام کے بوجھ کو ہلکا کرتی تھیں-

ایک دن پیغمبر خدا {ص} گھر میں داخل ھوئے، آپ {ص} اپنے دست ہائے مبارک سے اپنے چہرے کو ڈھانپے ھوئے تھے- حضرت خدیجہ {س} پیغمبر اسلام {ص} کو اس حالت میں دیکھ کر آنحضرت {ص} کی طرف دوڑیں اور پریشانی کے عالم میں آنحضرت {ص} کے دست ہائے مبارک کو آپ {ص} کے چہرے سے ہٹا دیا، اچانک حضرت خدیجہ {س} کی نگاہ انحضرت {ص} کے چہرے پر لگے طمانچے کے نشان پر پڑی اور دیکھا کہ آنحضرت{ص} کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں-

حضرت خدیجہ {س} نے پوچھا: یا رسول اللہ؛ آپ {ص} کیوں رو رہے ہیں؟ پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" اے خدیجہ؛ ان لوگوں کی گمراہی پر رو رہا ھوں-

حضرت خدیجہ {س} اضطراب اور پریشانی کے عالم میں اپنے گھر کے دروازہ پر کھڑی تھیں کہ حضرت حمزہ کو شکار سے لوٹتے ھوئے دیکھا- فوراً ان کے سامنے جاکر ان سے مخاطب ھوکر کہا:" اے حمزہ، آپ شیر کو شکار کرنے کے لئےجاتے ہیں اور لوگ آپ کے بھتیجے کے چہرے پر طمانچے مارتے ہیں اور کوئی ان کا دفاع نہیں کرتا ہے"؛

حضرت حمزہ نے یہ خبر سننے کے بعد غضبناک حالت میں کہا:" جب تک نہ اس کا انتقام لوں، میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا"- اس کے بعد حضرت حمزہ کعبہ کے پاس کھڑے ھوئے اور بلند آواز میں اعلان کیا :" اے مکہ کے باشندو؛ جان لو میں بھی مسلمان ھوا ھوں اور اپنے بھتیجے کے دین کو قبول کرچکا ھوں اور جو ان پر حملہ کرے گا اس کا میرے ساتھ مقابلہ ھوگا"-

رسول اکرم {ص} ایک حدیث میں فرماتے ہیں:" ما اوذی نبی بمثل ما اذیت" " کسی پیغمبر نے میرا جیسا آزار نہیں دیکھا ہے"- اس کے باوجود حضرت خدیجہ {س} ان سخت اور مشکل ایام کے دوران تمام ان اذیت و آزار کے مقابلے میں پیغمبر اکرم {ص} کی مدافع اور سچی مدد گار اور آنحضرت {ص} کی روح و جان کو آرام و سکون بخشنے والی تھیں-

حضرت خدیجہ {س} اپنے شوہر سے عشق و محبت رکھتی تھیں اور دل و جان سے پیغمبر اسلام {ص} کو دوست رکھتی تھیں- یہ عظیم خاتون مناسب اوقات پر اپنے شوہر کے ساتھ رکھنے والے اپنے باطنی عشق و محبت کا مختلف صورتوں میں اظہار کرتی تھیں-

حضرت خدیجہ {س} پیغمبر اکرم {ص} کے بارے میں اپنی دلی اور باطنی محبت کو مندرجہ ذیل خوبصورت اشعار میں بیان فرماتی ہیں:

فلو اننى امشیت فى كل نعمة و دامت لى الدنیا و ملك الاكاسرة

فما سویت عندى جناح بعوضة اذا لم یكن عینى لعینك ناظرة

"اگر دنیا کی تمام نعمتیں اور بادشاھوں کی سلطنتیں میرے پاس ھوتیں اور ان کی مملکتیں ہمیشہ میرے اختیار میں ھوتیں، تو ان کی قدر و قیمت میرے لئے ایک مچھر کے پر کے برابر نہیں ہے، جب میری آنکھوں کے سامنے آپ {ص} نہ ھوں"-

ایک مشہور عرب مصنف، سلیمان کتانی کے بقول:" خدیجہ {س} اپنی محبت اور دوستی کو حضرت محمد {ص} کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کرتی ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں آپ {ص} سے سعادت کے تمام گوشے حاصل کرتی تھیں"-

حضرت خدیجہ {س} کا ادب:

حضرت خدیجہ {س} راسخ دینی اعتقادات، خاندانی شرافت اور سماجی شخصیت کی مالک تھیں۔ جس کی وجہ سےان کے قول فعل اور دوسروں کا احترام کرنے کا عالی ادب ان کی ذات کا اٹوٹ حصہ بن چکا تھا- وہ اسلام سے پہلے بھی اپنے تاجروں، کارکنوں اور ہمسایوں کے ساتھ کافی ادب و احترام سے پیش آتی تھیں- تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ {س} نے کبھی دوسروں کے ساتھ بے ادبی اور بے احترامی کا برتاو نہیں کیا-

حضرت خدیجہ {س}، حضرت رسول اکرم {ص} کے ساتھ اپنی مشترک اور ازدواجی زندگی کے دوران، اپنے شوہر کی رسالت کو صحیح طور پر ادراک کرنے کی وجہ سے آنحضرت {ص} کے حق میں نا قابل توصیف ادب و احترام کی قائل تھیں-

جس دن حضرت خدیجہ {س} نے قریش کے امین کو تجارت کے لئے دعوت دی، انھوں نے اسی دن رسول اکرم {ص} کی شخصیت اور بلند مقام کو سمجھ لیا تھا اور اسی لئے میسرہ اور ناصح نامی اپنے دو غلاموں سے مخاطب ھوکر کہتی ہیں:

« اعلما قد ارسلت اليكما امينا علي اموالي و انه امير قريش و سيّدها، فلا يدٌ علي يده، فان باع لايمنع، و ان ترك لا يؤمر، فليكن كلامكما بلطف و أدب و لا يعلوا كلامكما علي كلامه».

" میں نے اپنے مال پر ایک امین کو مقرر کیا ہے، یہ وہی قریش کے عظمت والے امیر ہیں- ان سے بالاتر کوئی نہیں ہے- اگر وہ کسی مال کو بیچنے کا فیصلہ کریں، تو کسی کو رکاوٹ بننے کا حق نہیں ہے-اگر کسی چیز کو فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کریں، تو کسی کو انھیں حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے- آپ {دونوں} کی ذمہ داری ہے کہ ان کے ساتھ مہربانی اور ادب سے پیش آئیں اور ان کی بات کے خلاف کوئی بات نہ کریں"- اس کے بعد جب رسول خدا {ص} سے ازدواج کی تجویز پیش کی گئی اور دیکھا کہ ان کے شوہر مالی لحاظ سے تنگ دست ہیں، تو آنحضرت {ص} سے مخاطب ھوکر فرمایا:

"واللّه‏ يا محمد ان كان مالك قليلاً فمالي كثير، و من يسمح لك بنفسه كيف لا يسمح لك بماله، و أنا و مالي و جواري و جميع ما املك بين يديك و في حكمك لا امنعك منه شيیا"

" اے محمد {ص} خدا کی قسم اگر آپ {ص} کے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہے، میرے پاس کافی دولت ہےاور جس نے اپنے آپ کو آپ {ص} کے اختیار میں قرار دیا ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ اس کا مال آپ {ص} کے اختیار میں نہ ھو؟ میں، میرا سرمایہ، میری کنیزیں اور جو کچھ میرے پاس ہے، وہ سب آپ {ص} کا ہے اور اس میں میری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے"-

عقد کی تقریب میں بھی جب خطبہ عقد پڑھا گیا اور تمام مہمان ایک ایک کرکے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے اور پیغمبر اکرم {ص} بھی دوسرے مہمانوں کے مانند اپنے چچا ابو طالب کے گھر جانا چاہتے تھے تو حضرت خدیجہ {س} نے اپنے شوہر سے مخاطب ھوکر کہا:

" الی بیتک، فبیتی بیتک و انا جاریتک" " اپنے گھر میں داخل ھو جائیے، میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں آپ {ص} کی کنیز ھوں- اختیار آپ {ص} کو ہے اور میری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے"-

حضرت خدیجہ {س} اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب دارفانی کو وداع کر رہی تھیں، اور رسول خدا {ص} ان کے سراہنے پر تشریف فرما تھے تو آنحضرت {ص} سے مخاطب ھو کر فرمایا:" میں نے آپ {ص} کے حق میں کوتاہی کی ہے، مجھے بخش دینا"- پیغمبر اسلام {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں نے کبھی آپ کی طرف سے کسی قصور و خطا کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، آپ نے کافی زحمتیں اٹھائی ہیں اور میرے گھر میں کافی خستہ ھو چکی ہیں"-

یہ عظیم خاتون، اپنے مخالفوں اور دشمنں سے بھی ادب و احترام کا خیال رکھتی تھیں، جنھوں نے انھیں مسلسل کئی برسوں تک اذیت و آزار پہنچائے تھے- ابولہب کی بیوی " ام جمیل" ، حضرت خدیجہ {س} کی نزدیک ترین ہمسایہ تھی، اور حضرت خدیجہ {س} اور رسول خدا {ص} کو اذیت و آزار پہنچانے اور دل دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی تھی- لیکن حضرت خدیجہ {س} نے کبھی اس کی بے احترامی و بے ادبی نہیں کی-

حضرت خدیجہ {س} کی سخاوت:

حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کی مشہور ترین سخی اور فیاض خاتون تھیں- اسلام سے پہلے بھی ان کا گھر حاجتمندوں، فقیروں اور محتاجوں کی پناہ گاہ ھوتا تھا- انھیں اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کا کافی خیال رہتا تھا اور مختلف مناسبتوں سے ان کی مدد فرماتی تھیں- جو تاجر اور سوداگر سرمایہ نہ رکھنے کی وجہ سے تجارت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، انھیں حضرت خدیجہ{س} دعوت دیتی تھیں اور اپنے سرمایہ کے ایک حصہ کو تجارت کرنے کے لئے ان کے حوالے کر دیتی تھیں-

حضرت محمد مصطفے {ص} سے ازدواجی زندگی شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں ہی حضرت خدیجہ {س} نے اپنے تمام سرمایہ اور مال و دولت کو آنحضرت کی خدمت میں بخش دیا، تاکہ آپ {ص} جس طرح مصلحت سمجھیں اسے اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خرچ کریں-

ذیل میں ہم حضرت خدیجہ {س} کی چند بخششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱- زید، قبیلہ کلب کا جوان تھا، جسے ڈاکووں نے اسیر بنالیا تھا- حضرت خدیجہ{س} کے بھتیجے، حکیم بن حزم نے بازار عکاظ میں اس غلام کو خرید کر حضرت خدیجہ{س} کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا- پیغمبراکرم {ص} زید سے کافی محبت کرتے تھے، حضرت خدیجہ {س} نے جب پیغمبر اکرم {ص} کی زید کے تئیں اس محبت کا مشاہدہ کیا، تو زید کو آپ {ص} کی خدمت میں بخش دیا- پیغمبر اکرم {ص} نے زید کو آزاد کرکے اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد زید پیغمبر اکرم {ص} کے منہ بولے بیٹے کے عنوان سے مشہور ھوئے-

۲- ایک دن رسول اکرم {ص} اپنے گھر میں بیٹھے ھوئے تھے اور حضرت خدیجہ {س} سے گفتگو کر رہے تھے- اسی دوران خبر ملی کہ [ آنحضرت کی رضاعی ماں ]حلیمہ بنت عبداللہ سعدیہ آگئی ہیں- پیغمبر اسلام {ص} حلیمہ سعدیہ کا نام سننے کے بعد، بہت خوش ھوئے- حضرت خدیجہ {س} حلیمہ کے استقبال کے لئے باہر نکلیں اور انھیں گھر کے اندر لے آئیں- جب حلیمہ سعدیہ گھر میں داخل ھوئیں، تو آنحضرت {ص} نے انھیں دیکھتے ہی فرمایا:" میری ماں؛ میری ماں؛ میری ماں؛" اور اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی ردا کو جناب حلیمہ کے پاوں کے نیچے پھیلا دیا اور ان کے سامنے ادب سے دو زانو بیٹھے اور ان کے ساتھ ایسا برتاو اور گفتگو کرتے تھے جیسے آپ {ص} کی والدہ آمنہ بنت وھب آپ {ص} کی ملاقات کے لئے آئی ہیں-

پیغمبر اسلام {ص} نے حلیمہ کی زندگی اور ان کے قبیلہ کے حالات پوچھے- حلیمہ سعدیہ نے جواب میں کہا: قبیلہ کے لوگوں کی زندگی سختی سے گزر رہی ہے، کیونکہ علاقہ میں خشک سالی ہے اور قحط پڑگیا ہے اور زمینیں خشک اور بنجر بن چکی ہیں-

پیغمبر اسلام {ص} نے یہ موضوع حضرت خدیجہ {س} کے پاس بیان کیا- حضرت خدیجہ {س} نے یہ حالت سن کر چالیس اونٹ اور بھیڑ جناب حلیمہ کو بخش دئے اور وہ خوشی اور مسرت کے ساتھ اپنے وطن کی طرف روانہ ھوئیں- اسلام کے ظہور کے بعد جناب حلیمہ اپنے شوہر کے ہمراہ مکہ آئیں اور دونوں میاں بیوی نے اسلام قبول کیا-

۳- ابولہب کی ثوبیہ نامی ایک کنیز، پیغمبر اسلام {ص} کی مادر گرامی کے بعد پہلی عورت تھیں جنھوں نے آنحضرت {ص} کو دودھ پلایا تھا- پیغمبر اسلام {ص} ان سے کافی محبت اور احترام سے پیش آتے تھے- مکہ کی محترم خاتون {جناب خدیجہ} نے جب ثوبیہ کے تئیں رسول اکرم {ص} کے محبت و احترام کا مشاہدہ کیا تو ابولہب سے کہا کہ ثوبیہ کو ان کے ہاتھ بیچ دے تاکہ اسے آزاد کرے، لیکن ابولہب ثوبیہ کو بیچنے پر راضی نہیں ھوا- جب حضرت خدیجہ {س} ثوبیہ کو خریدنے سے مایوس ھوئیں، تو پیغمبر اسلام {ص} کو شاد و خوشحال کرنے کے لئے ہمیشہ ثوبیہ کا خاص خیال رکھتی تھیں اور اس کی ہر قسم کی مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتی تھیں-

حضرت خدیجہ {س} کا صبر و حلم:

حضرت خدیجہ {س} کی پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ پچیس سالہ مشترک زندگی کا زمانہ ان کی زندگی کا سخت ترین اور مشکل ترین دور تھا- ان کی مشترک زندگی کے ابتدائی سال پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت کو مخفی رکھنے اور مسلمانوں کے اسلامی احکام کو پوشیدہ اور مخفی انجام دینے کے ہمزمان تھے- اس کے بعد اسلام کے کھلم کھلا اعلان کا زمانہ شروع ھوا اور مسلمان عمومی مراکز میں ظاہر ھونے لگے، لیکن کفار و مشرکین مکہ کی طرف سے انھیں شدید اذیت و آزار کا سامنا ھونے لگا- اس کے بعد مسلمانوں کے لئے شعب ابیطالب میں محاصرہ کا تین سالہ دور شروع ھوا- حضرت خدیجہ {س} نے ان تمام سخت اور نا قابل برداشت مراحل کے دوران صبر و بردباری کا مظاہرہ کیا اور ہمیشہ رسول خدا {ص} کے قدم بہ قدم چال کر ساتھ دیتی رہیں- حضرت خدیجہ {س} کے رسول خدا {ص} سے شادی کرنے کے بعد، مکہ کی عورتوں نے ان کے ساتھ ترک موالات کیا، یہاں تک کہ حضرت خدیجہ {س} کے سلام کا جواب تک نہیں دیتی تھیں- ابولہب کی بیوی، ام جمیل حضرت خدیجہ {س} کی دیوار بیچ ہمسایہ تھی اور وہ انھیں ہر قسم کی اذیت و آزار پہنچانے میں دریغ نہیں کرتی تھی اور ہر قسم کے کوڑا کرکٹ کو حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں پھینکتی تھی اور ان کے لیے رفت و آمد میں رکاوٹیں ڈالتی تھی- اس عظمت والی خاتون نے تنہائی اور مکہ کی عورتوں کی طعنہ زنیوں کو صبر و شکیبائی سے برداشت کیا اور کبھی شکوہ تک نہیں کیا-

جب خداوند متعال نے سالہا سال انتظار کے بعد، حضرت خدیجہ {س} کو دو بیٹے عطا کئے، دونوں بیٹے مختصر مدت کے فاصلہ سے یکے بعد دیگرے فوت ھوگئے ، لیکن حضرت خدیجہ {س} نے اپنے دونوں بیٹوں کی موت پر صبر کا مظاہرہ کیا اور ایسا کلام تک زبان پر جاری نہیں کیا، جو رسول خدا {ص} کے لئے رنج کا سبب بن جاتا-

قریش کی سردار خاتون، حضرت خدیجہ {س} کی بردباری اور صبر و شکیبائی کے جلووں میں سے ایک یہ تھا کہ جب ابولہب کے بیٹوں، عتبہ اور عتیبہ نے اپنی بیویوں، یعنی حضرت خدیجہ کی بیٹیوں، ام کلثوم اور رقیہ کو طلاق دیدی اور انھیں ہمیشہ کے لئے گھروں سے نکال باہر کیا اور حضرت خدیجہ[س] کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ کے گھر لوٹیں تو حضرت خدیجہ {س} نے اپنی بیٹیوں کو اپنی آغوش میں لے لیا اور لوگوں کی طعنہ زنیوں کے جواب میں فرماتی تھیں" خداوند متعال کی طرف سے اس کام میں ضرور کوئی خیر ھوگی"

ایک مدت کے بعد رقیہ نے دوبارہ شادی کی- لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا تھاکہ مشرکین کی طرف سے اذیت و آزار اس امر کا سبب بنا کہ رقیہ مکہ میں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اپنے شوہر اور دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ھجرت کر گئیں، اس طرح پیغمبر اسلام {ص} کی شریک حیات، حضرت خدیجہ{س} اپنی بیٹی کے فراق میں چشم براہ رہیں-

اس عظمت والی خاتون کے صبر و شکیبائی کے دوسرے جلوے یہ تھے کہ بعثت کے پانچویں سال، یعنی حضرت فاطمہ زہراء {س} کے تولد کے وقت گھر میں تنہا بیٹھی تھیں- مکہ کی عورتوں نے انھیں تن تنہا چھوڑا تھا اور یہ پیغام بھیجا تھا کہ: " ہم تمھارے مخالف ہیں، کیونکہ تم نے ابوطالب کے یتیم کے ساتھ شادی کی ہے، ہم ہرگز تمھارے پاس نہیں آئیں گے اور تمھاری کوئی مدد نہیں کریں گے"- ایسے حالت میں حضرت خدیجہ کی ملاقات کے لئے کوئی نہیں آتا تھا کہ ان کی احوال پرسی کرتا-

حضرت خدیجہ {س} نے اپنی نشیب و فراز والی پوری زندگی کے دوران، جب کفار مکہ کی طرف سے آپ {س} کو بےحد اذیت و آزار پہنچایا جاتا تھا، صبر و شکیبائی کا دامن نہیں چھوڑا، اور کبھی زبان پر شکوے کا کوئی ایسا لفظ نہیں دہرایا، جو پیغمبر اکرم {ص} کے رنج والم میں اضافہ کا سبب بن جاتا-

خداوند متعال نے حضرت خدیجہ {س} کے صبر و شکیبائی کے صلہ میں حضرت فاطمہ زہراء {س} کی ولادت کی رات کو، جب آپ {س} گھر مں تن تنہا بیٹھی تھیں، آپ {س} کو تنہا نہیں چھوڑا اورخلقت کی برترین خواتین، یعنی، آسیہ، صفورا، مریم اور سارہ کو آپ {س} کی مدد کے لئے بھیجا- حضرت خدیجہ {س} کی عظمت اس سے زیادہ کیا ھوسکتی ہے کہ دنیا کی سب سے با فضلیت اور برتر خاتون نے آپ {س} کے دامن میں ولادت پائی اور خداوند متعال نے ائمہ معصومین {ع} اور زمین پر اپنی حجت کو ان کی نسل قرار دیا-

حضرت خدیجہ {س} کی ذکاوت اور فطانت:

حضرت خدیجہ {س} انتہائی باھوش، زیرک اور صاحب بصیرت خاتون تھیں- آپ {س} نے اپنے زمانہ کے جہالت سے بھرے معاشرہ میں، جب عورت کوئی اجتماعی حیثیت اور شخصیت نہیں رکھتی تھی، اپنے لئے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ایک بلند اور ممتاز مقام پایا تھا-

حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کی مشہور تاجر تھیں – نقل کیا گیا ہے کہ آپ {س} کے مختلف علاقوں میں بہت سے غلام تھے اور آپ {س} کے پاس آٹھ ہزار اونٹ تھے- اور عربستان اور اس سے باہر ہر علاقے میں آپ {س} تجارت کرتی تھیں، مصر اور حبشہ جیسے علاقوں میں آپ {س} کا کافی مال و سرمایہ تھا- ایک ایسے زمانہ میں اس عظیم سرمایہ کا نظم و انتظام سنبھالنا، جب معاشرہ میں عورت کم ترین حقوق سے بھی محروم تھی اور اسے انسان شمار نہیں کرتے تھے اور عورت معاشرہ میں حاضر ھونے کا حق نہیں رکھتی تھی، اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت خدیجہ {س} غیر معمولی ھوش و ذکاوت کی مالک تھیں- جس نے انھیں اپنے زمانہ کی تمام عورتوں اور بہت سے مردوں پر برتری بخشی تھی-

تجارت کا کام سونپنے کے لئے، امانتدار اور با تجربہ مردوں کی پہچان اور شناسائی، وقت کے نامور تاجروں سے تجارتی مقابلہ کرنے، اپنے عظیم سرمایہ کی حفاظت اور اقتصادی ترقی کے لئے کار آمد منتظمین کا انتخاب کرنے میں حضرت خدیجہ {س} کی ھوشیاری اور ذکاوت آپ کی قوی مدیریت کی علامت ہے-

حضرت خدیجہ {س} تنہا شخصیت تھیں، جنھوں نے حضرت محمد مصطفے {ص} کی بلند اخلاق پر مبنی عظمت اور شخصیت کا ادراک کیا اور آپ {ص} کی بلند اخلاقی اور روحانی خصوصیات کے بارے میں غور و فکر کرکے آنحضرت {ص} کی مستقبل میں رونما ھونے والی درخشاں عظیم شخصیت کو پہچان سکی تھیں-

یہ عظمت والی خاتون، جہالت اور بت پرستی کی تاریکی کے دوران اپنی دقیق بصیرت سے پیغمبر آخرالزمان {ص} کے اوصاف کو سمجھ سکی تھیں اور آپ {ص} کے ظہور کی علامتوں کو پہچان چکی تھیں اور حضرت محمد مصطفی {ص} کے بارے میں دقیق شناخت حاصل کرنے کے پیش نظر آنحضرت {ص} کو اپنے شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا تھا- اسلام کے ظہور اور پیغمبر اکرم {ص} کی بعثت کے بعد حضرت خدیجہ {س} پہلی شخصیت تھیں جو پیغمبر آخر الزمان {ص} پر ایمان لائیں-

اس کے علاوہ حضرت خدیجہ {س} کی شوہر داری، اولاد کی تربیت کرنے کے طریقہ کار، اپنے ہمسایوں، تازہ مسلمانوں اور حتی کہ مشرکین کے ساتھ ان کے برتاو نے انھیں ایک بے مثال شخصیت بنایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ {س} کی رحلت کے وقت رسول اکرم {ص} نے آپ {س} کا فقدان محسوس کیا اور ہمیشہ آپ {س} کو نیک الفاظ سے یاد فرماتے رہے-

حضرت خدیجہ کبری{س} کی خانہ داری کرنے میں ھوشیاری اور اخلاق و رفتار و کردار کی مہارت کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہ معظم خاتون، علی {ع} کو زید بن حارثہ کے ساتھ، جو ایک غلام اور پیغمبر اکرم {ص} کے منہ بولے بیٹے اور ایک دوسرے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے گزشتہ شوہروں کی اولاد کو رسول اللہ{ص} سے اپنی اولاد کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بٹھا سکیں اور ان سب کو ایک ہی سایہ کے نیچے سلا سکیں اور وہ سب کسی رقابت اور حساسیت کے بغیر باہم زندگی بسر کرسکے اور سب اپنی توانائی اور ظرفیت کے مطابق رسول اکرم {ص} سے بہرہ مند ھوسکے-

حضرت خدیجہ {س} کا گھر:

حضرت خدیجہ {س} کا گھر، من جملہ اسلام کے ان اہم مکانوں میں سے ہے کہ جن میں بہت سی تلخ و شیرین تبدیلیاں اور حوادث رونما ھوئے ہیں اور مسلمانوں کے اہم ترین تاریخی اور مذہبی مکانوں میں سے ایک مکان شمار ھوتا ہے، جس کے بارے میں مسلمان پوری تاریخ میں اس کی طرف خاص توجہ کرتے رہے ہیں اور اس کی زیارت کے لئے بھی جاتے رہے ہیں-

یہ وہ گھر ہے، جسے حضرت خدیجہ { س} نے حضرت محمد مصطفے {ص} کے ساتھ اپنی مشترک زندگی کے ابتدائی ایام میں آنحضرت {ص} کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کیا ہے- یہ وہی گھر ہے، جہاں سے اسلام کا سورج طلوع ھوا اور نور اسلام اسی گھر سے تمام دنیا میں پھیل گیا-

بہت سے صحابی اس گھر میں رسول اکرم {ص} کی خدمت میں شرفیاب ھوئے ہیں اور آنحضرت {ص} کا کلام مبارک سننے کے بعد شہادتین کو زبان پر جاری کیا ہے اور وہاں سے مسلمان بن کر باہر آئے ہیں- اس گھر میں اسلام لانے والوں میں حضرت علی {ع}، زید بن حارثہ، رسول اکرم {ص} کی سب بیٹیاں ، جناب ابو بکر، زبیر بن عوام، ابوذر غفاری اور عثمان بن مظعون شامل ہیں-

عثمان بن مظعون ایک دن حضرت خدیجہ {س} کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے، اور ان کی نظر رسول خدا {ص} پر پڑی- پیغمبر اکرم {ص} نے انھیں گھر میں داخل ھونے کی دعوت دی- عثمان بن مظعون نے بھی پیغمبراسلام {ص} کی دعوت کو قبول کیا اور اس گھر میں داخل ھوکر رسول خدا {ص} کے پاس بیٹھ گئے- اس وقت جبرئیل امین نازل ھوئے- رسول خدا {ص} قرآن مجید کی آیات حاصل کرنے میں غرق تھے اور چند لمحات کے لئے عثمان بن مظعوں سے غافل ھوئے- رسول اللہ {ص} کے چہرہ مبارک پر پسینہ جاری تھا اور تھکے ھوئے لگتے تھے- جب آیات الہی نازل ھونا ختم ھوئیں، رسول خدا {ص} چند لمحات کے بعد اپنی معمول کی حالت میں آگئے- عثمان بن مظعون نے سوال کیا: کیا ھوا؟ رسول اکرم {ص} نے فرمایا: جب تم بیٹھ گئے، جبرئیل امین مجھ پر نازل ھوئے- عثمان نے سوال کیا : انھوں نے کیا کہا؟ رسول اکرم {ص} نے فرمایا: جبرئیل امین نے اس آیت کو نازل کیا: :« إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ( "بیشک اللہ عد ل، احسان سے قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو"

عثمان بن مظعون نے جب قرآن مجید کی ان آیات کو سنا، تو وہ خداوند متعال اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام {ص} کے خاص صحابیوں میں شمار ھونے لگے-

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں:" جمعہ کے دن عصر کا وقت تھا، میں مسجد میں علی {ع} کی خدمت میں تھا کہ ایک بلند قامت مرد امام {ع} کی خدمت میں آگیا- اس نے کچھ مطالب پر گفتگو کرنے کے بعد کہا:" میں یمن سے اونٹ پر سوار ھوکر مکہ آگیا- جس پہلے شخص سے میری ملاقات ھوئی، وہ ابو سفیان تھا- میں نے اسے سلام کیا اور خاندان قریش کے بارے میں پوچھا- اس نے جواب میں کہا: کوئی مشکل نہیں ہے، صرف ابوطالب کے یتیم نے ہمارے دین کو خراب کردیا ہے- میں نے کہا: ان کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: محمد {ص} میں نے پوچھا: وہ کہاں پر ہیں؟ اس نے کہا: خدیجہ بنت خویلد سے شادی کی ہے اور ان ہی کے گھر میں ہے- میں نے اونٹ کی لگام کو کھینچا اور خدیجہ {س} کے گھر پہنچا اور ان کا دروازہ کھٹکھٹایا- جب میں اس گھر میں داخل ھوا، تو میری نظر پیغمبر اسلام {ص} کے نورانی چہرے پر پڑی، اور میں آپ {ص} کی رسالت پر ایمان لایا- اس کے بعد خدا حافظ کہہ کر یمن چلا گیا-

حضرت خدیجہ {س} کا گھر عالم ہستی کی سب سے برتر اور با فضیلت خاتون، یعنی حضرت فاطمہ زہراء {س} کے تولد کی جگہ ہے- اور حضرت فاطمہ زہراء {س} کی ولادت کی رات کو خداوند متعال کی بارگاہ میں محترم خواتین اس گھر میں داخل ھوئی ہیں تاکہ رسول خدا {ص} کی شریک حیات، یعنی حضرت خدیجہ کبری{س} کی مدد کریں-

پیغمبر اسلام {ص} رسالت پر مبعوث ھونے اور پہلے پیغام الہی حاصل کرنے کے وقت کانپ رہے تھے اور آپ {ص} کا رنگ بدل گیا تھا اور خستہ حالت میں اس گھر میں داخل ھوئے اور حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر فرمایا:" مجھے کسی کپڑے میں لپیٹ دو" پیغمبر {ص} کی وفادار ساتھی نے آنحضرت {ص} کے لئے ایک بستر تیار کیا اور آپ {ص} کو ایک کپڑے میں لپیٹا- تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد پھر جبرئیل گھر میں داخل ھوئے اور آیہ:" یا ایھا المزمل" کو پیغمبر اکرم {ص} پر نازل کیا- پھر پیغمبر اسلام {ص} اپنی جگہ سے اٹھ کر ماموریت پر روانہ ھوگئے-

پیغمبر اسلام {ص} نے آیہ شریفہ:" وانذر عشیرتک الاقربین" کے نازل ھونے کے بعد حضرت علی {ع} کو حکم دیا کہ آپ {ع} بنی ہاشم کو دعوت دیدیں- بنی ہاشم کے تقریباً چالیس افراد، حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں جمع ھوئے- ان کے لئے ایک عمدہ کھانے کا اہتمام کیا گیا- اس گھر میں پیغمبر اسلام {ص} نے باضابطہ طور پر اپنی نبوت کا اعلان کیا اور بنی ہاشم کو اسلام کی پیروی کرنے کی دعوت دیدی، لیکن ابولہب کی شیطنتوں اور کار شکنیوں کی وجہ سے یہ جلسہ درہم برہم ھوا اور بنی ہاشم کے افراد ایک ایک کرکےبھاگ کر اپنے گھروں کو لوٹے- پیغمبر اسلام {ص} کا چونکہ اپنا مقصد حاصل نہیں ھوا تھا، اس لئے آپ {ص} نے ایک اور جلسہ تشکیل دیا اور اس جلسہ میں ایک مفصل تقریر کے بعد، حضرت علی {ع} کو اپنے وزیر اور جانشین کے عنوان سے متعارف فرمایا-

بعض مورخین کے نقل کے مطابق، حضرت محمد مصطفی {ص} حضرت خدیجہ {س} کے گھر سے معراج پر تشریف لے گئے ہیں اور واپسی پر بھی اسی گھر میں اترے ہیں-

" لیلۃ المبیت" میں کفار مکہ نے حضرت خدیجہ {س} کے گھرکا محاصرہ کیا اور رسول خدا {ص} کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا- لیکن رسول خدا {ص} گھر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور حضرت علی {ع} آپ {ص} کے بستر پر سوئے ھوئے تھے-

رسول خدا {ص} کے مدینہ ھجرت کرنے کے بعد آنحضرت {ص} کے مکہ میں مقیم نزدیک ترین رشتہ دار، جناب عقیل بن ابیطالب اس گھر میں ساکن ھوئے تاکہ کفار مکہ اس پر قبضہ نہ کرلیں-

دنیا بھر کے مسلمان، پوری تاریخ کے دوران رسول خدا {ص} کے گھر کی حفاظت اور رکھوالی کے سلسلہ میں خاص توجہ دیتے تھے اور ہرسال اس کی مرمت اور تعمیر نو کرتے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے، کیونکہ یہ گھر صدر اسلام کی تاریخ کی ایک یادگار تھا-

محقق نراقی، حضرت خدیجہ {س} کے گھر کے بارے میں لکھتے ہیں:" مکہ میں عرفات اور حطیم کے علاوہ بھی کچھ با فضیلت اماکن ہیں، جن میں سے ایک حضرت خدیجہ {س} کا گھر ہے- یہ گھر رسول خدا {ص} پر وحی نازل ھونے کی جگہ اور عالم بشریت کی خواتین کی سردار حضرت فاطمہ زہراء{س} کے تولد کی جگہ ہے- حضرت خدیجہ {س} کا گھر صفا سے مروہ کی طرف جاتے ھوئے، دائیں جانب " سوق الصباغین" میں واقع ہے- اس گھر کے اوپر ایک گنبد اور بارگاہ تھی اور مسجد الحرام سے ملا ھوا تھا- اس گھر کی زیارت کرنا اور وہاں پر دو رکعت نماز تحیت پڑھ کر خداوند متعال سے اپنی حاجت طلب کرنا مستحب ہے-

مکہ کے مورخ، تقی الدین فاسی حسنی، حضرت خدیجہ {س} کے گھر کی بعض خصوصیات بیان کرنے کے بعد، "کتاب الجامع الطیف" کے مصنف محب طبری سے نقل کرکے لکھتے ہیں:" یہ گھر، مسجد الحرام کے بعد مکہ کے با فضیلت ترین اماکن میں سے ہے"-

مشہور سیاح، ابن بطوطہ، لکھتے ہیں:" مسجد الحرام کے نزدیک واقع مشاہد میں " قبۃ الوحی" ہے کہ یہ ام المومنین حضرت خدیجہ {س} کا گھر ہے-"

شیخ مرتضی انصاری اپنی مناسک حج میں لکھتے ہیں:" مکہ مکرمہ میں خانہ خدا کے حاجیوں کے لئے حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں شرفیاب ھونا مستحب ہے- افسوس کا مقام ہے کہ سرزمین حجاز پر وہابیوں کی حکمرانی اور تسلط کے بعد اسلام کے سیکڑوں تاریخی آثار اور اماکن کے مانند حضرت خدیجہ {س} کا گھر بھی مسمار اور منہدم کیا گیا ہے-

مسلمانوں کے مسلسل اعتراضات کے نتیجہ میں، مکہ کی بلدیہ { میونسپلٹی} نے مجبور ھوکر اس جگہ پر حفظ قرآن کا ایک مدرسہ تعمیر کیا تھا، لیکن ایک مدت گزرنے کے بعد اسے بھی منہدم کرکے، خانہ کعبہ کے بعد با فضیلت ترین مکان، یعنی حضرت خدیجہ {س} کے گھر کو " دوراۃ المیاہ" یعنی بیت الخلاء میں تبدیل کیا گیا ہے-

حضرت خدیجہ {س} قرآن مجید کی روشنی میں:

قرآن مجید میں بعض خواتین من جملہ حضرت خدیجہ {س} کی صفات اور مقام و منزلت کے بارے میں چند آیات ذکرھوئی ہیں-

اس سلسلہ میں ابن شہر آشوب کہتے ہیں:" خداوند متعال نے قرآن مجید میں بارہ جگہوں پر عورتوں کے بارے میں کنایہ سے نام لیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں:

۱- حضرت آدم {ع} کی بیوی حوا کے بارے میں:" وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ"

2- حضرت نوح{ع} اور حضرت لوط{ع} کی بیویوں کے بارے میں:" ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ

3- فرعون کی بیوی کے بارے میں:" إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"

4- حضرت ابراھیم{ع} کی بیوی کے بارے میں:" وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ"

۵- حضرت زکریا{ع} کی بیوی کے بارے میں:" وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ"

۶- عزیز مصر کی بیوی زلیخا کے بارے میں:" الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ"

7- حضرت ایوب {ع} کی بیوی کے بارے میں:" وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ"

۸- بلقیس کے بارے میں:" إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ"

۹- حضرت شعیب کی بیٹیوں کے بارے میں:" قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ"

10- جناب حفصہ اور جناب عائشہ کے بارے میں:" وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا"

11- حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں:" وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى"

۱۲- حضرت فاطمہ {س} کے بارے میں:" مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ"

قرآن مجید میں بعض عورتوں کے بارے میں کچھ صفتیں بیان کی گئی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

1- حضرت آدم {ع} کی بیوی حوا کے لئے " توبہ":" قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا”

۲- فرعون کی بیوی، آسیہ کے لئے" شوق و امید":" اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"

۳- حضرت ابراھیم {ع} کی بیوی سارہ کے لئے" مہمانی":" وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌِ"

۴- بلقیش کے لئے" عقل":" قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا"

۵- حضرت موسی {ع} کی بیوی{ حضرت شعیب کی بیٹی} کے لئے " حیا" :" فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ"

۶- حضرت خدیجہ {س} کے لئے " احسان" :" وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى"

۷- جناب عائشہ اور جناب حفصہ کے لئے" نصیحت" :« َیانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ إِنْ اتَّقَيْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفًا* وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاَةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ"

۸- حضرت فاطمہ زہراء {س} کے لئے" عصمت" :" وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ"

مذکورہ آیات کے علاوہ، حضرت خدیجہ {س} کی عظمت و منزلت کے بارے میں قرآن مجید میں متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے ہم یہاں پر صرف ایک مورد کے بارے میں اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

"وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ*أُوْلَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ" حضرت خدیجہ کبری {س} کی اسلام قبول کرنے میں سبقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، کیونکہ آپ {س} پہلی خاتون تھیں جو رسول خدا {ص} پر ایمان لائیں-

حضرت خدیجہ کبری {س} پیغمبر اسلام {ص} کی سب سے برتر شریک حیات:

پیغمبر اسلام {ص} کی متعدد بیویاں تھیں، لیکن ان میں صرف حضرت خدیجہ {س} کو آنحضرت {ص} نے اپنی سب سے برتر اور با فضیلت ترین شریک حیات اور عالم ہستی کی چار برگزیدہ خواتین میں سے ایک خاتون کے عنوان سے متعارف فرمایا ہے اور یہ مقام و فضیلت آنحضرت {ص} کی دوسری بیویوں میں سے کسی ایک کو حاصل نہیں ہے-

رسول اکرم {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کی، اپنی دوسری بیویوں پر افضلیت اور برتری کو مختلف الفاظ اور طریقوں سے متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے-

شائد، رسول خدا {ص} کی حضرت خدیجہ {س} کی عظمت اور بلند مقام کے باوجود اپنی دوسری بیویوں پر آپ {س} کی افضلیت اور انھیں عالم ہستی کی چار برتر خواتین میں سے ایک کے عنوان سے متعارف کرنے کی تاکید مستقبل میں مسلمانوں کو پیش آنے والے فتنوں اور حوادث کے پیش نظر تھی- لہذا، پیغمبر اسلام {ص} حضرت خدیجہ {س} اور آپ {س} کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراء {س} کو مسلمانوں کے لئے دو قابل اطمینان نمونہ عمل اور مثالی خواتین کے عنوان سے متعارف فرماتے ہیں- رسول خدا {ص} نے عالم ہستی کی مکمل ترین اور بافضیلت ترین خواتین کے عنوان سے چار خواتین کی شناخت فرمائی ہے، کہ ان میں سے دو خواتین مسلمانوں میں سے منتخب کی گئی ہیں اور باقی گزشتہ ادیان سے متعلق ہیں-

پہلی حدیث: حدیث خیریہ:

امام بخاری، رسول خدا {ص} سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ {ص} نے فرمایا: " خیر نسا یھا مریم ابنۃ عمران و خیر نسایھا خدیجۃ" " دنیا کی بہترین عورتیں خدیجہ {س} اور مریم بنت عمران ہیں"-

اس حدیث میں رسول اکرم {ص} نے صرف دو خواتین کو دنیا کی بہترین خواتین کے عنوان سے متعارف فرمایا ہے کہ ان میں سے مسلمانوں میں سے حضرت خدیجہ {س} اور دین مسیحیت میں سےحضرت مریم {س} ہیں-

دوسری حدیث: حدیث تفضیل:

ابن حجر عسقلانی عمار یاسر سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا {ص} نے فرمایا: "لقد فضلت خدیجه علی نساء امتی کما فضلت مریم علی نساء العالمین" "خدیجہ {س} نے میری امت کی عورتوں پر برتری حاصل کی ہے، جس طرح مریم نے عالمین کی عورتوں پر برتری حاصل کی ہے"-

تیسری حدیث: بہشت میں حضرت خدیجہ {س} کی برتری کی حدیث:

احمد بن حنبل اپنی مسند میں رسول اکرم {ص} سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت {ص} نے زمین پر چار لکیریں کھینچ کر فرمایا:" کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لکیریں کیا ہیں؟ کہا گیا نہیں، یا رسول اللہ: خدا اور اس کے رسول {ص} بہتر جانتے ہیں"-

آنحضرت {ص} نے فرمایا:" " افضل نساء اهل الجنه، خديجة بنت خويلد و فاطمة بنت محمد، و آسية بنت مزاحم امراة فرعون و مريم بنت عمران" " بہشت کی بہترین عورتیں، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، آسیہ بنت مزاحم، فرعون کی بیوی اور مریم بنت عمران ہیں"-

رسول اکرم {ص} نے اس حدیث میں، تربیتی لکیریں کھینچ کر، دنیا وآخرت میں عالم ہستی کی مثالی خواتین کو نام لے کر مشخص کیا ہے – اس حدیث سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ چار عورتیں بہشت میں بھی اعلٰی ترین عورتیں ہیں اور قیامت تک ان سے برتر کوئی عورت پیدا نہیں ھوگی-

چوتھی حدیث: دو جہان کی بہترین عورتیں:

اس حدیث میں رسول خدا {ص} فر ماتے ہیں:" خيرنساء العالمين مريم ابنه عمران، و آسيه بنت مزاحم، و خديجة بنت خويلد و فاطمة بنت محمد(ص) " " دو جہان کی بہترین عورتیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ {س} بنت محمد {ص} ہیں"-

اس حدیث میں رسول اکرم {ص} نے اول سے آخر تک عالم ہستی میں تمام ادیان کی برتر عورتوں کا نام لیا ہے-

پانچویں حدیث: عالم کی سردار عورتیں:

رسول اکرم نے اس حدیث میں ان عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے جو دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں: "اربع نسوة سيدات عالمهن مريم بنت عمران، و آسية بنت مزاحم، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمد، و افضلهن عالما فاطمة" چارعورتیں دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد، او فاطمہ بنت محمد {ص} اور ان میں سے دنیا میں بہترین فاطمہ {س} ہیں"-

چھٹی حدیث: عالم ہستی کی صاحب کمال عورتیں:

رسول اکرم {ص} نے ایک حدیث میں عالم ہستی کی چار صاحب کمال عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے:" حسبک من نساء العالمین مریم بنت عمران و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد {ص} و آسیہ بنت مزاحم"- " دو جہان کی خواتین میں صاحب کمال و فضیلت کے لحاظ سے، مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور آسیہ بنت مزاحم کافی ہیں-

ساتویں حدیث: بہترین نانا اور نانیاں:

ایک دن رسول خدا {ص} نے مسجد میں حسن اور حسین { علیہما السلام} کی شان میں فرمایا:

" ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟" اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دیدوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے کون بہترین انسان ہیں؟ حضار نےعرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ص} نے فرمایا:" الحسن و الحسین جدھما رسول اللہ و جد تھما خدیجہ بنت خویلد"

" وہ حسن و حسین {ع} ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا {ص} اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں"-

حضرت خدیجہ کبری {س} سے نقل کی گئی احادیث:

حضرت خدیجہ کبری {س} نے حضرت محمد مصطفی {ص} کے ساتھ گزاری اپنی ۲۵ سالہ مشترک زندگی کے دوران بہت سے حوادث اور روداد کا اپنی آنکھوں سے فرمودات سنے تھے- اس پوری مدت کے دوران، رسول خدا {ص} سے بہت سی نصیحتیں اور فرمائشات سنی تھیں- صحابیوں کے ساتھ رسول خدا {ص} کے بہت سے مذاکرات، فیصلے اور آشکار و پنہان ملاقاتیں حضرت خدیجہ {س} کے ہی گھر میں انجام پاتی تھیں اور آپ {س} ان جلسات کی گفتگو اور فیصلوں کے بارے میں مطلع رہتی تھیں، اور اس پوری مدت کے دوران مختلف مناسبتوں کے سلسلہ میں رسول خدا {ص} سے ہزاروں احادیث اور روایتیں سنی تھیں اور بہت سی یادیں آپ {س} کے ذہن میں نقش ھوچکی تھیں- حضرت خدیجہ {س} نے رسول اللہ {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت آنحضرت {ص} کے ساتھ طولانی تر مشترک زندگی گزاری تھی اور رسول خدا [ص]کے لئے ان سب سے زیادہ قابل اعتماد تھیں- لیکن افسوس ہے کہ ان سب اوصاف کے باوجود اس عظمت والی خاتون اور رسول خدا {ص} کی اعلٰی ترین شریک حیات سے بہت کم روایتیں نقل کی گئی ہیں-

البتہ بعض اہل سنت مورخین کا نظریہ ہے کہ حضرت خدیجہ {س} سے کوئی روایت نقل نہیں کی گئی ہے اور انھیں راویان حدیث میں شمار نہیں کرتے ہیں- لیکن اہل سنت کے مورخین میں سے کچھ اور لوگ حضرت خدیجہ {س} کو رسول خدا {ص} کی احادیث کے راویوں میں شمار کرتے ہیں اگر چہ ان کا اعتقاد ہے کہ ان سے بہت کم روایتیں نقل کی گئی ہیں- بعض تحقیقات کے مطابق حضرت خدیجہ {س} سے بعض احادیث نقل کی گئی ہیں مگر افسوس ہے کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ پراسرار ہاتھوں اور اہل بیت {ع} کے دشمنوں کے ذریعہ احادیث کی کتابوں سے انھیں حذف کیاگیا ہے- من جملہ " کلا باذی" کی کتاب " رجال صحیح بخاری" میں صحیح بخاری سے نقل کرکے ۱۴۱۷ نمبر کی ایک حدیث حضرت خدیجہ {س} سے نقل کی گئی ہے کہ جدید طبع میں اس حدیث کو حذف کیا گیا ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ صحیح بخاری، بعض دشمنان اہل بیت کے ہاتھوں تحریف سے دوچار ھوئی ہے، ورنہ اگر اس قسم کی حدیث موجود نہ ھوتی تو،" کلا باذی" جیسے عظیم مورخ اس سے کبھی استناد نہیں کرتے-

حضرت خدیجہ {س} سے نقل کی گئی احادیث کی ایک تعداد حسب ذیل ہے:

۱-حدیث دعای طواف بیت:

"ابن ابی الدنیا سے سیوطی نے اور عبدالاعلٰی تیمی سے بیہقی نے روایت کی ہے جو حضرت خدیجہ{س} سے نقل کی گئی ہے کہ آپ [س] نے رسول خدا [ص] سے پوچھا: ما اقوال وانا اطوف" طواف کے وقت کیا پڑھیں؟

پیغمبر اکرم [ص] نے مجھ سے فرمایا: کہدو: " اللهم اغفر ذنوبی و خطئی وعمدی واسرافی فی امری انک ان لا تغفر لی تهلکنی" خداوندا میرے "عمداً اور سہواً" انجام پائے گناہوں اور اسراف کو بخش دینا، اگر تو نہ بخشےگا، تو ہم ہلاک ہوں گے-"

2- جبرئيل کو دیکھنے کِی حدیث:

"عن إسماعيل بن أبي حكيم مولى آل الزبير أنه حدث عن خديجة أنها قالت لرسول الله (ص) أي ابن عم أتستطيع أن تخبرني بصاحبك هذا الذي يأتيك إذا جاءك قال نعم قالت فإذا جاءك فأخبرني فجاء جبرئيل(ع) فقال رسول الله(ص) لخديجة يا خديجة هذا جبرئيل قد جاءني قالت قم يا ابن عم فاجلس على فخذي اليسرى فقام رسول الله (ص) فجلس عليها قالت هل تراه قال نعم قالت فتحول فاقعد على فخذي اليمنى فتحول فقالت هل تراه قال نعم قالت فاجلس في حجري ففعل قالت هل تراه فقال لا قالت يا ابن عم اثبت و أبشر فو الله إنه لملك كريم و ما هو بشيطان‏ قال ابن إسحاق و قد حدث بهذا الحديث عبد الله بن الحسن قال قد سمعت أمي فاطمة بنت حسين تحدث بهذا الحديث عن خديجة إلا أني سمعتها تقول أدخلت رسول الله(ص) بينها و بين درعها فذهب عند ذلك جبرئيل(ع) فقالت خديجة لرسول الله(ص) إن هذا لملك و ما هو بشیطان" آل زبیر کے مولا، اسماعیل بن ابی حکیم روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ {س} نے پیغمبر اکرم {ص} سے کہا: اے میرے چچیرے بھائی؛ کیا آپ {ص} ہمیں اس وقت مطلع کرسکتے ہیں، جب جبرئیل آپ {ص} پر نازل ھو جائیں؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: جب جبرئیل آئیں گے میں تمھیں خبر دوں گا، اس کے بعد جبرئیل آگئے آنحضرت نے فرمایا: اے خدیجہ؛ اس وقت جبرئیل آگئے ہیں- خدیجہ {س} نے کہا: اے میرے چچیرے بھائی، اٹھ کر میری بائیں ران پر بیٹھئے- آنحضرت {ص} اٹھے اور وہیں پر بیٹھ گئے، پھر کہا کیا جبرئیل دکھائی دیتا ہے؟ جواب میں فرمایا: جی ہاں، اس کے بعد کہا: اٹھ کر میری دائیں ران پر بیٹھئے، جب آپ {ص} بیٹھ گئے تو کہا: دکھائی دیتا ہے؟ فرمایا: جی ہاں، کہا: میرے پاس بیٹھئے، جب اسی طرح بیٹھ گئے تو کہا: کیا دکھائی دیتا ہے؟ فرمایا: نہیں- کہا: اے میرے چچیرے بھائی اس وقت مجھے یقین ھوا اور آپ کو مبارک ھو کہ یہ فرشتہ ہے نہ شیطان- اور ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حسن نے حدیث نقل کی ہے کہ : میں نے اپنی ماں فاطمہ بنت حسن سے سنا کہ وہ خدیجہ {س} سے حدیث نقل کرتی تھیں کہ میں نے سنا کہ وہ کہتی تھیں: جبرئیل کے نازل ھونے کے وقت حضرت خدیجہ {س} نے انھیں اپنے لباس کے اندر داخل کیا اس کے بعد جبرئیل چلے گئے اور خدیجہ {س} نے آنحضرت {ص} سے کہا کہ یہ فرشتہ ہے نہ شیطان"-

۳- رسول اکرم {ص} کے گھر میں داخل ھونے کے طریقہ سے متعلق حدیث:

"فی کتاب « العدد القویه» للشیخ علی بن الحسن المطهر( اخ العلامه رحمه الله) عن خدیجه (س) قالت: کان النبی (ص) اذا دخل المنزل دعا باالاناء فتطهر للصلاه، ثم یقوم فیصلی رکعتین یوجز فیهما ، ثم یُأوی الی فراشه" کتاب "العدد القویہ" میں حضرت خدیجہ {س} سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ {س} نے فرمایا:" جب رسول خدا {ص} گھر میں داخل ھوتے تھے تو ایک لوٹا پانی مانگتے تھے اور نماز کے لئے وضو کرتے تھے اور اس کے بعد مختصر طور پر دو رکعت نماز پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بستر پر لیٹتے تھے"-

خدا کے نزدیک حضرت خدیجہ {س} کا مقام:

خدا کے ہاں حضرت خدیجہ {س} کی دنیا و آخرت میں کافی عزت اور بلند مقام تھا-

پیغمبر خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} سے خطاب کرکے فرمایا:" : يا خديجة انّ اللّه‏ عزّ و جلّ ليباهي بكِ كرام ملائكته كلَّ يومٍ مرارا" " خدیجہ؛ خداوند عز وجل دن میں کئی بار اپنے فرشتہ مقرب کے سامنے آپ کی عظمت پر فخر و مباہات کرتا ہے"-

رسول خدا {ص} نے ایک اور موقع پر جبرئیل سے نقل کرکے فرمایا ہے:" قال جبرئيل: هذه خديجة فاقرء عليهاالسلام من ربّها و منّي و بشّرها بيتا في الجّنة” – خدا کا اور میرا سلام خدیجہ {س} تک پہنچانا اور انھیں بہشت میں ان کے لئے گھر کی خوش خبری دینا-"

ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ جب رسول خدا {ص} معراج سے واپس تشریف لائے، جبرئیل سے پوچھا : کیا کوئی اور کام ہے؟ جبرئیل نے فرمایا:" خداوند متعال اور میری طرف سے خدیجہ کی خدمت میں سلام پہنچانا- " جب رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} سے ملاقات کی، تو فرمایا:" اے خدیجہ؛ خداوند متعال اور فرشتوں نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور آپ کی قدر دانی کی ہے-" خدیجہ {س} نے فرمایا: خداوند متعال خود سلام ہے اور سلام اس سے ہے اور سلام اس کے جانب ہے اور سلام جبرئیل ، فرشتہ حق پر ھو"-

خداوند متعال نے بہشت میں حضرت خدیجہ {س} کے لئے ایک بلند مقام کا وعدہ کیا ہے اور پیغمبر اسلام {ص} بھی بارہا اس مسئلہ کے بارے میں حضرت خدیجہ {س} کو بشارت دیتے ھوئے فرماتے تھے:" بہشت میں آپ {س} کے لئے ایک گھر ہے، جس میں کسی قسم کا رنج و الم نہیں ھوگا"-

امام جعفر صادق {ع} نے بھی فرمایا ہے:" جب حضرت خدیجہ {س} نے وفات پائی، تو حضرت فاطمہ {س} چھوٹی تھں اور اپنی ماں کے فراق میں مضطرب تھیں اور باپ کے پاس جاکر اپنی ماں کو ڈھونڈتی تھیں- پیغمبر اکرم {ص} اپنی کم سن بچی کے اضطراب کو دیکھ کر محزون ھو رہے تھے اور اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے، یہاں تک کہ جبرئیل نازل ھوئے اور آنحضرت {ص} سے فرمایا:" فاطمہ کو سلام پہنچانا اور کہنا کہ آپ کی ماں بہشت میں آسیہ {فرعون کی بیوی} اور مریم بنت عمران کی ہمسائیگی میں ایک گھر میں بیٹھی ہیں"- جب حضرت فاطمہ {س} نے یہ بات سنی تو انھیں سکون ملا اور اس کے بعد بے تابی نہیں کی-

حضرت زہراء {س} سے ایک موثق حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ جب حضرت خدیجہ {س} نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ {س} اپنے والد گرامی کے پاس آکر پوچھتی تھیں: میرے با با؛ میری ماں کہاں ہیں؟ جبرئیل نازل ھوئے اور کہا: اے محمد {ص} ؛ آپ کا پروردگار حکم دے رہا ہے کہ فاطمہ {س} کو سلام پہنچانا اور کہنا کہ آپ کی ماں ایک ایسے گھر میں بیٹھی ہیں جس کا فرش سونے کا ہے اور اس کے ستون سرخ یاقوت کے بنے ہیں اور ان کا یہ گھر آسیہ اور مریم بنت عمران کے گھر کے درمیان ہے- جب آنحضرت {ص} نے حق تعالی کا یہ پیغام حضرت فاطمہ[س] کو پہنچا دیا تو فاطمہ {س} نے کہا: خداوند متعال ہر قسم کے نقص سے پاک ہے اور سلامتی اسی سے ہے اور سلام و تحیت اسی کی طرف پلٹتے ہیں"-

پیغمبر اسلام {ص} نے آیہ شریفہ :" عینا یشربون بھا المقربون" { وہی چشمہ بہشتی جس سے مقربین پیتے ہیں} کی تفسیر میں فرمایا ہے:" المقربون السابقون؛ رسول الله، و علي بن ابيطالب و الائمة، فاطمة و خديجة"

" مقربین سابق، رسول خدا، علی بن ابیطالب، ائمہ معصومین، فاطمہ اور خدیجہ ہیں"-

رسول خدا {ص} کے نزدیک حضرت خدیجہ [س]کا مقام و رتبہ:

حضرت خدیجہ {س} کو رسول خدا {ص} کے نزدیک بلند مقام و رتبہ حاصل تھا- آنحضرت {ص} کسی عورت کو حضرت خدیجہ کے ہم رتبہ قرار نہیں دیتے تھے اور ہمیشہ ان کی تمجید و تعریف فرماتے تھے اور انھیں اپنی دوسری تمام بیویوں پر برتری دیتے تھے اور حضرت خدیجہ {س} کی تکریم وتعظیم کے سلسلہ میں کافی کوشش کرتے تھے-

حضرت خدیجہ {س} کا یہ مقام و رتبہ اس لئے نہیں تھا کہ آپ {س} رسول اکرم {ص} کی بیوی تھیں، کیونکہ آنحضرت {ص} کی دوسری بیویاں بھی تھیں جنھیں یہ مقام و رتبہ حاصل نہیں تھا- رسول خدا {ص}، زندگی اور اجتماعی امور کے مسائل میں حضرت خدیجہ {س} کی رائے کی کافی قدر کرتے تھے اور کبھی اس عظمت والی خاتون کے نظریہ سے اختلاف نہیں کرتے تھے-

جب حضرت خدیجہ {س} کے بھانجے، ابو العاص نے، رسول اللہ کی بیٹی زینب کے بارے میں خواستگاری کی،" فسألت خديجة رسول‏ اللّه‏ (ص) ان يزوّجه و كان رسول‏اللّه‏ لا يخالفها" خدیجہ {س} نے رسول خدا {ص} سے درخواست کی کہ زینب ابوالعاص سے شادی کریں اور رسول اللہ نے ان کی تجویز کو قبول کیا، چونکہ آنحضرت {ص} کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ {ص} حضرت خدیجہ {س} کے نظریہ کی کبھی مخالفت نہیں کرتے تھے-

رسول خدا {ص}، حضرت خدیجہ {س} سے اس قدر محبت اور ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ جب تک وہ زندہ رہیں آنحضرت {ص} نے دوسری شادی نہیں کی- حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں رسول خدا {ص} کی قدر دانی صرف حضرت خدیجہ {س} کی زندگی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان کی رحلت کے بعد بھی آنحضرت {ص} انھیں یاد فرماتے تھے اور ان کی تجلیل و تکریم فرماتے تھے-

آنحضرت {ص} کی دوسری بیویاں ھونے کے باوجود، آپ {ص} حضرت خدیجہ {س} کو یاد فرماتے تھے اور ان کی خوبیوں اور نیکیوں کو دہراتے تھے- ایک دن جناب عائشہ نے کہا: اے رسول خدا؛ آپ کیوں اس قدر خدیجہ {س} کی یاد کرتے ہیں، خدیجہ {س} ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس دنیا سے چلی گئیں اور خدا وند متعال نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر بیوی آپ {ص} کو عطا کی ہے- رسول خدا {ص} یہ سن کر غضبناک ھوئے اور فرمایا:" صدّقتني اذ كذبتم و آمنت بي اذ كفرتم و ولدت لي اذ عقمتم" " انھوں نے اس وقت میری نبوت کی تصدیق کی ہے، جب آپ مجھے جھٹلاتے تھے، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں ہے جب آپ کافر تھے- وہ میری اولاد کی ماں تھیں، جبکہ تم ایسی نہیں ھو"-

رسول خدا {ص} اپنی ان با کمال شریک حیات سے اس قدر محبت اور ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ حضرت خدیجہ {س} کے دوست و احباب بھی اس سے مستفید ھوتے تھے-

جناب عائشہ کہتی ہیں:

" ایک دن ایک بوڑھی عورت رسول خدا {ص} کی خدمت میں آگئی، آنحضرت {ص} نے اس کا کافی احترام کیا اور اس کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے، جب یہ بوڑھی عورت چلی گئی، میں نے پیغمبر اکرم {ص} سے اس عورت کے ساتھ مہربانی اور لطف و کرم سے پیش آنے کی وجہ پوچھی- رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا:" انها كانت تأتینا فی زمن خدیجة، و ان حسن العهد من الایمان؛ " یہ بو ڑھی عورت اس زمانہ میں ہمارے گھر آتی تھی، جب خدیجہ {س} زندہ تھیں اور خدیجہ {س} کی امداد اور مہربانیوں سے سرشار ھوکر چلی جاتی تھی، بیشک نیکیوں اور سابقہ عہد و پیمان کی حفاظت کرنا ایمان کی نشانی ہے-"

جناب عائشہ سے نقل کی گئی ایک اور روایت میں آیا ہے:

" جب پیغمبر اسلام {ص} کسی بھیڑ کو ذبح کرتے تھے، تو فرما تے تھے: اس میں سے کچھ گوشت خدیجہ کے دوستوں کو بھیجدو ایک دن میں نے آنحضرت {ص} کے ساتھ اس سلسلہ میں بات کی، تو آپ {ص} نے فرمایا:" انی لا حب حبیبھا" " میں خدیجہ کے دوست و احباب کو دوست رکھتا ھوں"-

پیغمبر اسلام {ص} ، حضرت خدیجہ {س} کی وفات کی برسی پر روتے تھے- اور اپنی بیویوں سے مخاطب ھوکر فرماتے تھے:" ایسا خیال نہ کرنا کہ تمھارا مقام ان سےبالا تر ہے- جب تم لوگ کافر تھے، وہ مجھ پر ایمان لائیں اور وہ میری اولاد کی ماں ہیں- حتی کہ برسوں گزرنے کے بعد، جب حضرت فاطمہ زہراء{س} کے بارے میں حضرت علی {ع} کی خواستگاری کی خبر پیغمبر اکرم {ص} کو دینا چاہتے تھے، اس وقت حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں تذکرہ ھوا، تو آنحضرت {ص} کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے- جب جناب ام سلمہ نے رونے کی وجہ پوچھی، تو آنحضرت {ص} نے فرمایا: " خديجة صدقتنى حين يكذبنى الناس و ايدتنى على دين الله و اعانتنى عليه بمالها ان الله عز و جل امرنى ان ابشر خديجة ببيت فى الجنة من قصر الزمرد لا صعب فيه و لا نصب" " خدیجہ ؟؛ کہاں ہے خدیجہ کے مانند؟ جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے، انھوں نے میری تصدیق کی ہے، اور اپنے مال سے خدا کے دین کی مدد کی ہے- خداوند متعال نے مجھے حکم دیا تاکہ میں انھیں بہشت میں ان کے لئے مشخص کئے گئے ایک محل کی بشارت دوں جو زمرد کا بنا ھوا ہے اور اس میں کسی قسم کی سختی اور مشکل نہیں ہے-"

پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا ہے: "اشتاقت الجنة إلی أربع من النساء : مریم بنت عمران و آسیة بنت مزاحم زوجة فرعون وهی زوجة النبی ،فی الجنة و خدیجه بنت خویلد زوجة النبی فی الدنیا وآلاخرة وفاطمه بنت محمد" " بہشت چار عورتوں کی مشتاق ہے: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم { فرعون کی بیوی} کہ بہشت میں پیغمبر کی بیوی ہے، خدیجہ بنت خویلد، دنیا و آخرت میں رسول خدا {ص} کی بیوی اور فاطمہ بنت محمد {ص}"

خدیجہ {س} ائمہ معصومین {ع} کے کلام کی روشنی میں:

ائمہ اطہار {ع} اور ان کی اولاد کے نزدیک حضرت خدیجہ {س} کا انتہائی بلند مقام و مرتبہ ہے- وہ ہر مناسبت کے سلسلہ میں حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے-

امام حسین {ع} نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ھوئے ایک خطبہ کے ضمن میں فرمایا:" تمھیں خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگ جانتے ھو کہ میری نانی خدیجہ {س} بنت خویلد ہیں؟"

حضرت امام حسن مجتبی {ع} معاویہ سے مناظرہ کرتے ھوئے معاویہ کے محور حق سے گمراہ ھوکر اخلاقی گراوٹ سے دو چار ھونے اور اپنی سعادت و خوش قسمتی کی ایک وجہ، اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کے رول کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں:

" معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں " ھند" اور دادی" نثیلہ" ہے { اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینہ عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے} اس لئے تم اس قسم کے برے اور نا پسند اعمال کے مرتکب ھو رہے ھو- میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماوں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ {س} اور فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں"-

اس کے علاوہ حضرت {ع} نے دشمنوں سے مخاطب ھوکر فرمایا: " کیا تم لوگ جانتے ھو کہ میں تمھارے پیغمبر {ص} کی شریک حیات، حضرت خدیجہ {س} کا بیٹا ھوں؟"

حضرت امام سجاد {ع}، دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنے آپ کی یوں متعارف کراتے ہیں: " انا بن خدیجۃ الکبری" میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبری {س} کا بیٹا ھوں"-

حضرت زینب {س} نے کربلا میں گیارہ محرم سنہ ۶۱ ھجری کو شہیدوں کے پارہ پارہ ھوئے بدنوں کے پاس کچھ دلسوز مطالب بیان کئے ہیں، ان مطالب میں پیغمبر اکرم {ص} اور علی {ع} کا نام لینے کے بعد حضرت خدیجہ {س} کو یاد کرتے ھوئے فرمایا:" بابی خدیجۃ الکبری"، میرے باپ اسلام کی عظمت والی خاتون خدیجہ کبری {س} پر قربان ھوں"-

زید بن علی {ع} نے، ہشام بن عبدالملک کی طاغوتی حکومت کے خلاف ایک انقلاب اور بغاوت برپا کی اور سر انجام شہادت پر فائز ھوئے، انھوں نے دشمن سے مخاطب ھوکر یوں استدلال کیا:" و نحن احق بالمودۃ، ابونا رسول اللہ وجدتنا خدیجہ- - -"

" ہم مودت اور دوستی کے لئے مستحق تر ہیں، کیونکہ ہمارے باپ رسول خدا {ص} اور ہماری ماں خدیجہ کبری {س} ہیں"-

عبداللہ بن زبیر ابن عباس سے ایک گفتگو کے دوران حضرت خدیجہ {س} سے اپنے رشتہ کی بات کرتے ھوئےاس عظمت والی خاتون پر اپنی پھپھی کے عنوان سے فخر و مباہات کا اظہار کرتے ھوئے کہتے ہیں:" لست تعلم ان عمتی خدیجہ سیدہ نساء العالمین"- " کیا آپ نہیں جانتے کہ میری پھپھی خدیجہ {س} دو جہان کی عورتوں کی سردار ہیں" -

امام حسن {ع} کی امامت کے زمانہ میں، معاویہ حالات پر تسلط جمانے کے بعد کوفہ آگیا اور چند دن وہاں پر قیام کرکے لوگوں سے اپنے لئے بیعت حاصل کی- بیعت لینے کا کام مکمل کرنے کے بعد معاویہ نے منبر پر جاکر ایک خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں جتنا اس سے ممکن ھوسکا، امیر المومنین علی بن ابیطالب {ع} کی شان میں توہین کی اور آپ {ع} کو کھل کر برا بھلا کہا، باوجودیکہ اس مجلس میں امام حسن {ع} اور امام حسین {ع} بھی موجود تھے- امام حسین {ع} معاویہ کا جواب دینے کے لئے کھڑے ھوئے، لیکن امام حسن {ع} نے اپنے بھائی کو روک کر انھیں صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت کی اور خود کھڑے ھوکر فرمایا:

اے علی {ع} کا برائی سے ذکر کرنے والے؛ میں حسن ھوں اور میرے باپ علی {ع} ہیں اور تو معاویہ اور تیرا باپ ابو سفیان ہے- میری ماں فاطمہ {ع} ہیں اور تیری ماں ھندہ جگر خوار ہے- میرے جد رسول {ص} ہیں اور تیرا جد حرب ہے- میری جدہ خدیجہ{س} { اسلام کی عظمت والی خاتون} ہیں لیکن تیری جدہ نثیلہ { ایک بد کردار عورت} ہے- خدا اس پر لعنت بھیجے جس کا نام پلید و ناپاک ہے جس کا حسب و نسب اور سابقہ برا اور کفر و نفاق سے بھرا ہے"-

حضرت خدیجہ {س} کی وصیت:

شعب ابیطالب میں سخت اور انتہائی مشکل اقتصادی محاصرے کے چند دن گزرنے کے بعد حضرت خدیجہ{س} بیماری میں مبتلا ھوئیں- وقت گزرنے کے ساتھ اس عظیم خاتون کی حالت بدتر ھوتی جا رہی تھی اور جسمانی لحاظ سے بھی نحیف اور کمزور ھو رہی تھیں اور حضرت خدیجہ {س} محسوس کر رہی تھیں کہ وہ زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہیں اور دنیا سے جانے والی ہیں-

ان ہی ایام میں ایک دن رسول خدا {ص} حضرت خدیجہ {س} کے سرھانے پر تشریف فرما تھے، کہ حضرت خدیجہ {س} نے آنحضرت {ص} سے مخاطب ھو کر عرض کی: " یارسول اللہ؛ میں کچھ وصیتیں کرنا چاہتی ھوں، اول یہ کہ اگر میں نے آپ {ص} کے حق میں کوئی کوتاہی کی ھو تو اسے بخش دیجیے گا"-

پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں نے کبھی آپ کی جانب سے کوئی کوتاہی نہیں دیکھی اور آپ نے کافی کوششیں کی ہیں- میرے گھر میں آپ کو کافی تھکن برداشت کرنا پڑی ہے اور آپ {ص} نے اپنے مال کو راہ خدا میں صرف کیا ہے"- اس کے بعد حضرت خدیجہ {س} نے عرض کی:" یا رسول اللہ؛ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ میری اس بیٹی کا خیال رکھنا { حضرت فاطمہ کی طرف اشارہ کیا} چونکہ وہ میرے بعد یتیم اور غریب ھوں گی- ایسا نہ ھو کہ قریش کی عورتوں میں سے کوئی انھیں اذیت و آزار پہنچادے- ایسا نہ ھو کہ کوئی ان کے چہرے پر طمانچہ مارے- ایسا نہ ھو کہ کوئی ان سے اونچی آواز میں بات کرے- ایسا نہ ھو کہ کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کرے"-

لیکن تیسری وصیت بیان کرنے میں مجھے شرم محسوس ھو رہی ہے، وہ میں فاطمہ {س} کے پاس بیان کروں گی کہ وہ آپ {ص} کے پاس نقل کرے- اس کے بعد حضرت فاطمہ {س} کو بلا کر کہا:" اے میری نور چشم ؛ اپنے باپ، رسول خدا {ص} سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ:" میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ {ص} سے درخواست کر رہی ھوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ھوتے وقت آپ {ص} کے زیب تن ھوتی تھی-"

اس کے بعد فاطمہ {س} کمرے سے باہر آگئیں اور اس بات کو پیغمبر {ص} کی خدمت میں عرض کیا- پیغمبر اسلام {ص} نے اس عبا کو حضرت خدیجہ {س} کے لئے بھیجا اور وہ خوش ھو گئیں-

حضرت خدیجہ {س} کی وفات:

حضرت خدیجہ {س}، پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ پچیس سال اپنی نشیب و فراز والی مشترک زندگی گزارنے اور ایک عمر تک سعی و کوشش اور پیغمبر اکرم {ص} کی ہمراہی اور اطاعت کرنے کے بعد، عارض ھوئی بیماری کی وجہ سے اس دارفانی کو وداع کرکے ہمیشہ کے لئے رحلت کرگئیں-

حضرت خدیجہ {س} کی وفات، رسول خدا {ص} کے لئے کافی سخت گزری اور آپ {ص} کے غم و اندوہ میں ایک سنگین غم کا اضافہ ھوا- کیونکہ آنحضرت {ص} کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرنے والے چچا جناب ابو طالب کی وفات کو بھی ابھی ۳۵ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ آنحضرت {ص} کی باوفا شریک حیات، حضرت خدیجہ [س]بھی رحلت کرگئیں- مورخین نے حضرت خدیجہ کی وفات کی تاریخ کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کئے ہیں، من جملہ پانچ سال قبل بعثت، چار سال قبل بعثت، تین سال قبل ھجرت اور بعض مورخین نے معراج سے تین سال پہلے ذکر کیا ہے- لیکن ان اقوال میں مشہور قول یہ ہے کہ حضرت خدیجہ {س} ۶۵ سال کی عمر میں دس رمضان المبارک، کو بعثت کے دسویں سال، نماز صبح کے بعد اس دارفانی سے رحلت کر گئیں-

اس جاں نثار اور مہربان خاتون کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام {ص} ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے- اچانک جبرئیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ھوئے اور رسول اللہ {ص} کی خدمت میں عرض کی:" یا رسول اللہ{ص} خداوند متعال نے آپ {ص} پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ {س}نے اپنے مال کو ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھا لیں"-

پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کو خود غسل دیا، حنوط کیا اور خدا کی طرف سے جبرئیل کے لائے پارچے کا کفن دیا- اس کے بعد پیغمبر اکرم {ص} نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ حضرت خدیجہ {س} کی قبرستان حجون تک مشایعت کی- رسول خدا {ص} آنسو بہاتے ھوئے، قبر میں داخل ھوئے اور لحد میں لیٹ کر حضرت خدیجہ{س} کے لئےدعا کی- اس کے بعد اٹھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی شریک حیات کو لحد میں رکھ کر لحد پر ایک مضبوط پتھر رکھدیا-

جب پیغمبر اسلام {ص} حضرت خدیجہ {س} کی تدفین کے بعد گھر لوٹے، تو فاطمہ {س} اپنے باپ کے پاس آکر اضطراب کی حالت میں پوچھنے لگیں: با با جان؛ میری ماں کہاں ہیں؟ پیغمبر اسلام {ص} حیران تھے کہ انھیں کیا جواب دیں، کہ اسی وقت جبرئیل امین نازل ھوئے اور کہا:" فاطمہ کے جواب میں کہدیجئے:" آپ کی ماں آرام و آسائش کی حالت میں بہشت میں زبر جد کے ایک محل میں زندگی بسر کر رہی ہیں"-

علامہ مجلسی کی نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام {ص} اس حادثہ کے بعد ایک مدت تک گھر میں گوشہ نشین ھوگئے اور گھر سے کم تر باہر نکلتے تھے

عام الحزن { غم و اندوہ کا سال} اور اس کے اثرات:

جناب ابو طالب اور خدیجہ {س} کی وفات کے بعد رسول خدا {ص} ایک مہینے کی مختصر مدت کے دوران اپنے دو اہم حامیوں اور پشت پناھوں سے محروم ھوچکے تھے اور پیغمبر اکرم {ص} پر زندگی روز بروز سخت ھوتی جا رہی تھی-

مکہ کے لوگوں، خاص کر بنی ہاشم کے درمیان جو سیادت و اقتدار جناب ابو طالب کو حاصل تھا، وہ پیغمبر اسلام {ص} کی جان کو دشمنوں کی طرف سے گزند پہنچانے میں رکاوٹ بن رہا تھا- سب جانتے تھے کہ جناب ابو طالب، پیغمبر اسلام {ص} کے سب سے بڑ ے حامی اور پشت پناہ ہیں- اور ایک با اثر اور طاقتور شخصیت ہیں کہ مکہ کے لوگ انھیں محترم اور بزرگ سمجھتے ہیں اور بنی ہاشم ان کی بات کی اطاعت کرتے ہیں- جناب ابوطالب، حضرت محمد رسول اللہ {ص} کے سرسخت مدافع تھے اور وہ آنحضرت {ص} کے خلاف ہرسازش کا مقابلہ کرسکتے تھے-

رسول اللہ {ص} کے دشمن بخوبی جانتے تھے کہ اگر وہ حضرت محمد {ص} پر کسی قسم کا حملہ کرتے یا آپ {ص} کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے تو، جناب ابو طالب پیغمبر اسلام {ص} کا دفاع کرنے کے لئے آگے بڑھتے اور کوئی ان کے مقابلے میں آنے کی جرات نہیں کرتا اور اگر کوئی حملہ ھوتا تو مکہ میں قبیلوں کے درمیان جنگ شروع ھوجاتی اور برسوں تک یہ جنگ جاری رہتی اور سیکڑوں افراد قتل ھوتے رہتے، لہذا وہ اس موضوع سے سخت خائف تھے-

دوسری جانب، پیغمبر اسلام {ص} کے گھر میں حضرت خدیجہ {س} آپ {ص} کی سب سے بڑی حامی اور پشت و پناہ تھیں- آنحضرت {ص} جب کبھی قریش کی اذیت و آزار سے دل آزردہ ھو کر گھر تشریف لاتے، تو گھر میں حضرت خدیجہ {س} آپ {ص} کے لئے آرام و سکون کا سبب بنتی تھیں اور گھر کے ماحول کو اس قدر آرام و دل نشین بناتی تھیں کہ رسول اللہ {ص} کے بدن سے تھکاوٹ دور ھوجاتی تھی اور آنحضرت {ص} باہر کی تمام سختیوں اور اذیت و آزار کو فراموش کردیتے تھے-

حضرت خدیجہ {س} کی رحلت کے بعد، پیغمبر اسلام {ص} نے اپنے گھر کے داخلی آرام و سکون کو کھو دیا اور جناب ابوطالب کی وفات سے آنحضرت {ص} نے اپنے سب سے اہم اور طاقتور سماجی پشت پناہ کو کھو دیا- اس سال پیغمبر اسلام {ص} اور مسلمان اس قدر محزون اور غم و اندوہ سے دوچار ھوئے کہ اس سال کا نام " عام الحزن" یعنی غم و اندوہ کا سال رکھا اور حقیقت میں ایک سال عمومی سوگ کا اعلان کیا-

پیغمبر اسلام {ص} ہمشہ فرماتے تھے:" جب تک ابو طالب اور خدیجہ زندہ تھے میرے دل میں کبھی غم و اندوہ داخل نہیں ھوتا تھا"-

جناب ابو طالب کی رحلت کے بعد، کفار اور مشرکین کسی خوف کے بغیر رسول اللہ {ص} اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت و آزار پہچانے کی جرات کرتے تھے، کیونکہ اب ان کو ابوطالب کا ڈر نہیں تھا-

ایک دن رسول اللہ {ص} مکہ کے ایک کوچہ سے گزر رہے تھے، اچانک ایک بت پرست نے ابو جہل کے حکم سے، آنحضرت {ص} کے سر و صورت پر کوڑا کرکٹ سے بھرا ایک برتن انڈیل دیا- رسول اکرم {ص} اسی حالت میں اپنے گھر میں داخل ھوئے، اپنے سر و صورت کو دھویا اور اکیلے ہی گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئے- اس سے پہلے جب کبھی رسول اللہ {ص} کے لئے ایسی حالت پیش آتی تھی، تو گھر آنے پر حضرت خدیجہ {س} مہر و محبت سے آپ {ص} کا استقبال کرتی تھیں اور آپ {ص} کے سر وصورت کو دھو دیتی تھیں اورمہر بانی سے پیش آکر پیغمبر اکرم {ص} کے زخموں پر مرہم کرتی تھیں-

بہر حال، قریش کی طرف سے اذیت و آزار میں روزبروز اضافہ ھوتا جارہا تھا اور آنحضرت {ص} کے لئے مکہ میں زندگی کو جاری رکھنا سخت ھورہا تھا- پیغمبر اسلام {ص} اس نتیجہ پر پہنچے کہ نہ گھر میں ان کے لئے آرام ہے اور نہ باہر ان کے لئے امن و سکون ہے اس لئے انھیں جتنا جلد ممکن ھوسکے، مکہ کو ترک کرکے کہیں اور ھجرت کرنی چاہئے، تاکہ وہاں کے لوگ اسلام کو قبول کرکے ان کی حمایت کریں-

رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کی وفات کے ایک ماہ بعد اسی سال کے ماہ شوال کے آخری دنوں، طا ئف کے لوگوں کی دعوت پر زید بن حارثہ کے ہمراہ طا ئف ھجرت کی- پیغمبر اسلام {ص} اور زید دس دن تک طائف کے لوگوں کے درمیان رہے- ان دس دنوں کے دوران طائف کے بزرگوں اور مختلف لوگوں سے گفتگو کی اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا، لیکن اس مدت کے دوران کوئی ایک فرد بھی ایمان نہیں لایا- اس سے بد تر یہ کہ طائف کے بزرگوں نے، بچوں، غلاموں اور دیوانوں کو اس کام پر مجبور کیا کہ جہاں پر بھی پیغمبر اسلام {ص} کو دیکھیں ان پر سنگ باری کریں اس صورت میں زید بن حارثہ آنحضرت {ص} کے سامنے سپر بنتے تھے تاکہ رسول اللہ {ص} کے بدن کو تکلیف نہ پہنچے اس کے بعد، رسول خدا {ص} ان ایام کو اپنی زندگی کے مشکل ترین دنوں کے عنوان سے یاد کرتے تھے-

سر انجام پیغمبر اسلام اور زید بن حارثہ طائف کو ترک کرکے واپس مکہ آنے پر مجبور ھوئے- جب آپ {ص} غارحرا کے نزدیک پہنچے، تو پیغمبر اکرم {ص} مکہ میں داخل ھونے کے بارے میں فکرمند تھے، اس لئے ایک قاصد کو مکہ کے بعض افراد کے پاس بھیجدیا اور ان سے اسلام کی ترویج کے سلسلہ میں مدد چاہی- اس کے نتیجہ میں صرف " مطعم بن عدی" نے رسول خدا {ص} کی حمایت کرنے کو قبول کیا- مطعم نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو مسلح کیا اور رسول خدا {ص} ان کی حمایت میں کعبہ میں داخل ھوئے اور طواف و نماز بجالانے کے بعد اپنے گھر لوٹے- مکہ کی حالت پہلے کی بہ نسبت کافی بدتر ھوچکی تھی اور مشرکین نے کسی خوف کے بغیر پیغمبر اکرم {ص} کا قافیہ حیات تنگ کیا تھا- جناب ابو طالب کی رحلت کے بعد ابولہب اپنے آپ کو بنی ہاشم کا سردار جانتا تھا اور وہ اپنی بیوی ام جمیل کے ساتھ، دوسروں کی بہ نسبت پیغمبر اسلام {ص} کو زیادہ اذیت و آزار پہنچاتا تھا-

پیغمبر اسلام {ص} مکہ کے اطراف میں مختلف قبیلوں کے سرداروں کے پاس گئے، من جملہ قبیلہ بنی کلب، بنی حذیفہ، بنی عامر بن صعصعہ، محارب بن خفصہ، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ، سلیم، بنی نضر، بنی البکاء اور حارث بن کعب جیسے قبیلوں کے سرداروں کے پاس گئے تاکہ ان کی حمایت حاصل کریں، لیکن ان میں سے کسی نے پیغمبر اسلام {ص} کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیا- یہاں تک کہ موسم حج میں مدینہ سے قبیلہ خزرج کے چند سردار آگئے تھے، انھوں نے پیغمبر اکرم {ص} سے ملاقات کی اور آنحضرت {ص} کو مدینہ آنے کی دعوت دیدی اور آنحضرت {ص} نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا-

تاریخ کے تمام واقعات اور حوادث اس امر کے گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام {ص} مکہ کو ترک کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ {س} کی وفات کے بعد آپ {ص} کے لئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں تھا حتی کہ آپ {ص} کی جان بھی خطرے میں تھی- سرانجام، پیغمبر اسلام {ص} اپنی زادگاہ کو ترک کرکے مدینہ ھجرت کرنے پر مجبور ھوئے-

حضرت خدیجہ {س} کا مرقد مطہر:

ام المومنین حضرت خدیجہ {س} کا مرقد، مکہ کے " معلی" نامی علاقہ میں قبرستان " حجون" میں واقع ہے- یہ قبرستان، اسلام سے پہلے بھی مکہ کے مردوں کی تدفین کی جگہ تھی- اس قبرستان میں، صحابیوں اور تابعین کی ایک بڑی تعداد اور علمائے اسلام اور اسلام کی بڑی شخصیتیں دفن ہیں- قبرستان حجون میں دفن کئے گئے افراد میں عبدالمطلب ، ابوطالب، ابراھیم بن محمد{ص}، عبد مناف ، یاسراور سمیہ شامل ہیں- بہت سے مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت خدیجہ {س} کی قبر پر لکڑی کا بنا ھوا ایک گنبد تھا، کہ مسلمان اس کی زیارت کرتے تھے- سنہ ۷۵۰ ھجری میں محمد سلیمان مصری کے حکم سے اس قبر مبارک پر قیمتی پتھروں کا ایک گنبد تعمیر کیاگیا اور قبر مبارک کو گران قیمت پارچے سے ڈھانپا جاتا تھا- حضرت خدیجہ {س} کی قبر کی زیارت کے لئے آنے والے زائرین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ایک مدت کے بعد اس قبر مبارک پر ایک خادم کو رکھا جاتا تھا تاکہ اس گنبد و بارگاہ کی صفائی کی جاسکے اور اس خادم کی تنخواہ آل عثمان کے موقوفات سے ادا کی جاتی تھی- حضرت خدیجہ {س} کی بارگاہ اور گنبد کی ۱۲۴۲ ھجری میں تعمیر نو کی گئی- لیکن ۱۳۴۲ ھجری میں اس گنبد و بارگاہ کو دوسرے بہت سے اسلامی آثار کے مانند وہابیوں نے منہدم کردیا-

" سنوک ھور خرونیہ" نامی ایک مستشرق نے مکہ کے بارے میں اپنی ایک مفصل تحقیق میں لکھا ہے:

" رسول خدا {ص} کی شریک حیات حضرت خدیجہ {س} کا مقبرہ قبرستان معلی میں واقع ہے اور اس پر ایک بڑا گنبد اور بارگاہ ہے- لوگ ہر مہینے کی گیارہویں تاریخ کو حضرت خدیجہ {س} کی اس بارگاہ پر آتے ہیں اور پر شکوہ مجلسیں منعقد کرتے ہیں- ان مجلسوں میں سادات میں سے ایک شخص مولود خوانی کرتا ہے اور سرانجام اسے ایک رقم ادا کی جاتی ہے اور مولود خوانی کے بعد لوگ اپنے ساتھ لایا ھوا مزہ دار کھانا {شام} تناول کرتے ہیں- اور شام کھانے کے بعد بعض لوگ قبر کے پاس گنبد کے نیچے بیٹھتے ہیں اور قبر مبارک پر ڈالے گئے قیمتی پارچوں کو تبرک کے طور پر مس کرتے ہیں- قبر کے اردگرد لوہے کا ایک پنجرہ {ضریح} نصب کیا گیا ہے- یہ مجلسیں نصب شب تک جاری رہتی ہیں"-

حضرت خدیجہ {س} کا حرز:

حضرت خدیجہ {س} کا خداوند متعال کے ساتھ کافی گہرا اور بلند رابطہ تھا- اسلام کی اس عظمت والی خاتون کا ایک خاص حرز {تحفظ} تھا اور اس حرز کی روشنی میں وہ اپنے پروردگار سے رابطہ قائم کرتی تھیں- سید طاوس نے اپنی کتاب " نہج الدعوات" میں حضرت خدیجہ {س} کے دوحرز نقل کئے ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

1-" بسم الله الرحمن الرحيم، يا حي يا قيوم، برحمتك استغيث فاغثني ، ولا تلكنی الي نفسي طرفة عين ابدا، و اصلح ليشایب كله؛ " " عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے، اے زندہ اور اپنی رحمت پر پائدار خدا؛ میں تیری رحمت میں پناہ لیتی ھوں ، مجھے اپنی پناہ میں قرار دینا اور مجھے کبھی آنکھ چپکنے کے برابر اپنے حال پر نہ چھوڑنا، میری زندگی میں ہر حالت میں میری مدد کرنا-

۲- بسم الله الرحمن الرحيم، يا الله يا حافظ يا حفيظ يا رقيب؛ " " عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے ، اے خدا؛ اے حفاظت کرنے والے، اے تحفظ بخشنے والے اور اے رکھوالی اور پاسداری کرنے والے"-

ترتیب و پیشکش: عبداللہ علی بخشی

Read 18722 times