سلیمانی

سلیمانی

، ایران کی عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی ایجی نے شہید رئیسی کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 1976ء کے بعد کے سالوں میں، دینی مدارس میں ایک نیا ماحول تھا، اور جن لوگوں نے سیاسی مسائل کو اٹھایا، ان میں سے ایک شہید بہشتی تھے، اس دور کے نوجوان ان بزرگوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ تب سے میری شہید رئیسی سے شناسائی شروع ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں انقلاب سے پہلے ان سے واقف نہیں تھا، اور انقلاب کے بعد ہی میں شہید رئیسی سے آشنا ہوا۔" انقلاب کے بعد نوجوان عدلیہ میں آنے لگے۔ اس وقت ایک انقلابی ماحول اور بدعنوانی کے خلاف جنگ (کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے خلاف جنگ) غالب تھی، اس وقت ہمارے رابطے میں اضافہ ہوا۔

حجت الاسلام اژہ ای نے مزید کہا کہ 1987 کے بعد سے ان کی شہادت تک، کبھی بھی ہمارے رابطے میں خلل نہیں پڑا اور ان چالیس سالوں کے دوران، ہم نے سب سے زیادہ تعاون کیا۔

انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں کہا کہ انقلاب کے بعد ایسے لوگ تھے جو ظاہری طور پر انقلابی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا، تاہم کچھ لوگ انقلاب کے آغاز سے ہی صراط مستقیم اور رہبری اور نظام کے راستے پر قائم رہے، میری رائے میں یہ ان اہم خصوصیات میں سے ایک ہے جو شہید رئیسی میں موجود تھی اور وہ آخر تک اس راستے پر قائم رہے۔

ایرانی چیف جسٹس نے کہا کہ شہید رئیسی کی ایک اور خصوصیت مسائل کی پیروی تھی، اور یہ میرے لیے دلچسپ تھا، جب وہ عدلیہ کے سربراہ تھے تو میں ان کا نائب تھا اور میں نے شہید رئیسی کی مختلف مسائل میں باقاعدہ پیروی کا مشاہدہ کیا، اپنے اہداف کے حصول میں انتھک رہنا ان کی واضح خوبیوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے شہید رئیسی کی شہادت کے حوالے سے کہا: ہم اس دن کو کیسے بھول سکتے ہیں، ہم نے معاشرے کی ایک عظیم اور ہر دلعزیز شخصیت کو کھو دیا۔ مجھے صحیح وقت یاد نہیں، لیکن مجھے یاد ہے جب مجھے بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر غائب ہے۔ میں شہید رئیسی کو جانتا تھا اور مجھے یہ خبر سن کر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی گاؤں میں رک گئے ہیں، لیکن اس کے بعد آنے والی خبروں نے میری پریشانی بڑھا دی۔ ان کی شہادت کی خبر بہت دل دہلا دینے والی تھی۔

، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے کہا ہے کہ ایران کی فضائی دفاعی صلاحیتوں اور تیاریوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

تہران میں فضائی دفاع کے کمانڈروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض شعبوں میں ہم نے غیر ملکی طاقتوں کی سرگرمیوں کی شناخت اور نگرانی کی صلاحیت میں پانچ گنا اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشکوک پروازوں اور انہیں تباہ کرنے والے نظاموں کی صلاحیتیں دو سے تین گنا بہتر ہو چکی ہیں۔

جنرل باقری نے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے دشمنوں کو کسی بھی قدم سے پہلے کئی بار سوچنا چاہیے۔ وہ جان لیں کہ ہمارے فضائی حدود کی خلاف ورزی ان کے لیے بھاری نقصان کا باعث بنے گی۔ ان کا نقصان متوقع فوائد سے کئی گنا زائد ہوگا۔

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی ایجی نے شہید رئیسی کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 1976ء کے بعد کے سالوں میں، دینی مدارس میں ایک نیا ماحول تھا، اور جن لوگوں نے سیاسی مسائل کو اٹھایا، ان میں سے ایک شہید بہشتی تھے، اس دور کے نوجوان ان بزرگوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ تب سے میری شہید رئیسی سے شناسائی شروع ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں انقلاب سے پہلے ان سے واقف نہیں تھا، اور انقلاب کے بعد ہی میں شہید رئیسی سے آشنا ہوا۔" انقلاب کے بعد نوجوان عدلیہ میں آنے لگے۔ اس وقت ایک انقلابی ماحول اور بدعنوانی کے خلاف جنگ (کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے خلاف جنگ) غالب تھی، اس وقت ہمارے رابطے میں اضافہ ہوا۔

حجت الاسلام اژہ ای نے مزید کہا کہ 1987 کے بعد سے ان کی شہادت تک، کبھی بھی ہمارے رابطے میں خلل نہیں پڑا اور ان چالیس سالوں کے دوران، ہم نے سب سے زیادہ تعاون کیا۔

انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں کہا کہ انقلاب کے بعد ایسے لوگ تھے جو ظاہری طور پر انقلابی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا، تاہم کچھ لوگ انقلاب کے آغاز سے ہی صراط مستقیم اور رہبری اور نظام کے راستے پر قائم رہے، میری رائے میں یہ ان اہم خصوصیات میں سے ایک ہے جو شہید رئیسی میں موجود تھی اور وہ آخر تک اس راستے پر قائم رہے۔

ایرانی چیف جسٹس نے کہا کہ شہید رئیسی کی ایک اور خصوصیت مسائل کی پیروی تھی، اور یہ میرے لیے دلچسپ تھا، جب وہ عدلیہ کے سربراہ تھے تو میں ان کا نائب تھا اور میں نے شہید رئیسی کی مختلف مسائل میں باقاعدہ پیروی کا مشاہدہ کیا، اپنے اہداف کے حصول میں انتھک رہنا ان کی واضح خوبیوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے شہید رئیسی کی شہادت کے حوالے سے کہا: ہم اس دن کو کیسے بھول سکتے ہیں، ہم نے معاشرے کی ایک عظیم اور ہر دلعزیز شخصیت کو کھو دیا۔ مجھے صحیح وقت یاد نہیں، لیکن مجھے یاد ہے جب مجھے بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر غائب ہے۔ میں شہید رئیسی کو جانتا تھا اور مجھے یہ خبر سن کر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی گاؤں میں رک گئے ہیں، لیکن اس کے بعد آنے والی خبروں نے میری پریشانی بڑھا دی۔ ان کی شہادت کی خبر بہت دل دہلا دینے والی تھی۔

 

در ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پیر کی شام عراق کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ فواد حسین سے ملاقات میں، کہا کہ ایران اور عراق کے روابط کا تعلق آج یا کل سے نہیں ہے بلکہ ہمارے تعلقات کی بنیادیں  کئی ہزار سال پرانی اور  محکم ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ ایران اور عراق دونوں ملکوں کے عوام کے قومی، لسانی اور ثقافتی اشتراکات، ان کے اٹوٹ رشتوں اور محکم روابط کی عکاسی کرتے ہیں۔

 صدر ایران نے کہا کہ  ہم سے جہاں تاک ممکن ہوگا، مختلف میدانوں، منجملہ، تجارت، صنعت، صحت اور علاج معالجے، اعلی تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدانوں میں باہمی روابط اور تعاون کو فروغ دیں گے۔  

انھوں نے دونوں ملکوں کے سرحدی صوبوں کی انتظامیہ کے اچھے روابط  پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  یہ بات سرحدی تجارت اور علاقائی تعاون میں فروغ کی بنیاد بن سکتی ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ریلوے لائن سمیت مشترکہ  مواصلاتی پروجکٹوں کی تکمیل، ایران اورعراق کے روابط کے استحکام پر منتج ہوگی۔

صدر ایران نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں ایران امریکا بالواسطہ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی حکومت اپنے اس دعوے میں سچی ہو کہ اسے یہ تشویش ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ نہ بنالے تو ہم اس کو مطمئن کرسکتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران زور زبردستی ہرگز قبول نہیں کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ ہم اپنے عوام کو صحت، علاج معالجے، زراعت اور صنعات میں پر امن ایٹمی ٹیکنالوجی کے فائدوں  سے ہرگز محروم نہیں کریں گے اور اپنی قوم کی ترقی و پیشرفت کے لئے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔  

Friday, 16 May 2025 21:25

چور مچائے شور

ایک دن ایک چور بھاگ رہا تھا اور لوگ اس کی چوری کو دیکھ کر اس کا پیچھا کر رہے تھے اور چیخ رہے تھے۔ چور، چور، چور کو پکڑو۔ چوری کرنے اور فرار میں ماہر اس چالاک چور نے لوگوں کی گرفت سے بچنے کے لیے ایک عجیب و غریب چال کا سہارا لیا۔ اس نے دوسروں سے زیادہ زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور کہنے لگا۔ ارے چور، چور کو پکڑو اور وہ دوسروں کی طرف ہاتھ سے اشارہ بھی کر رہا تھا کہ دیکھو چور اس طرف فرار کر رہا ہے۔ اب اس چور کی کہانی عالمی سطح پر ایک عجیب انداز میں دہرائی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی من گھڑت سازشوں کی وجہ سے مغربی ایشیائی خطہ کئی دہائیوں سے شدید ترین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس قبضے سے ایک مظلوم قوم کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اب غزہ میں اس قوم کا ایک حصہ انتہائی مشکل اور ناقابل بیان حالات میں ہر روز ایک نئے سانحے سے نبرد آزما ہے۔

ان تمام جرائم، قتل و غارت اور لوٹ مار کی اصل وجہ ماضی میں انگلستان اور حال میں امریکہ جیسی مغربی حکومتیں ہیں۔ ٹرمپ اس وقت صیہونی حکومت کے تمام جرائم میں اس کا اصل حامی اور پشت پناہ ہے۔ اب یہ ظالم، جابر اور صیہونی جلادوں اور دیگر دہشت گرد غنڈوں کا حامی اپنے عجیب و غریب موقف سے، پوری ڈھٹائی  سے دوسروں کو خطے میں بحران پیدا کرنے کا سبب بتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ایک نجی ملاقات کے دوران ایران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا۔ بعد ازاں، خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو دہشت گردی کی سرپرستی بند کرنی چاہیئے، اپنی خونی پراکسی جنگوں کو ختم کرنا چاہیئے اور مستقل طور پر اور تصدیق شدہ طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ختم کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران پر تنقید کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایران کسی بھی قسم کی دھمکی یا غنڈہ گردی کے آگے نہیں جھکے گا۔ امریکی ایران کے خلاف یہ دعوے ایسے عالم میں کر رہے کہ جب امریکہ کی فوجی مداخلتوں نے علاقے کی صورتحال کو جنگ، آشوب اور تقسیم ہونے سے دوچار کر دیا ہے۔ مغربی ایشیاء کی افسوسناک موجودہ صورتحال، کہ جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت سے دہشت گرد گروہوں کی جولانگاہ بن چکی ہے، اسی حقیقت کا ثبوت ہے۔ امریکہ نے مغربی ایشیاء سے شمالی افریقہ تک کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران عملی طور پر بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے درپے نہیں ہے۔

امریکہ نے داعش دہشت گرد گروہ کی جو مدد کی ہے، اس سے اس دہشت گرد گروہ کو پرامن ماحول میں سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی القاعدہ کی حمایت سے وہ مشرق وسطیٰ کے علاقے پر تسلط اور اثرو نفوذ کے درپے رہا ہے۔ امریکی اقدامات سے علاقے اور دنیا کی قوموں کو دہشت گردی، جنگ، تقسیم اور بدامنی میں شدت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ ایرانی صدر نے امریکی صدر اور دیگر حکام کے حالیہ خلیجی ممالک کے دورے کے دوران دیئے گئے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ "کیا آپ ہمیں ڈرانے کے لیے آئے ہیں؟ ہم ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور شہادت کی موت ہمارے لیے بستر پر مرنے سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔"

حقیقت یہ ہے کہ خطے کی اقوام کے وسائل اور ذخائر کا اصل چور اور لوٹ مار کرنے والا، نیز غزہ میں بحرانوں، قتل و غارت، جرائم اور نسل کشی کا اصل سبب امریکہ ہے۔ اس ملک کے صدر نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران ایران کو خطے میں عدم استحکام اور بحرانوں کی اصل وجہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد کے سالوں میں ایران کے کردار کا خطے کے تناظر میں خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے خطے کی قوموں کے لیے خیر خواہی اور ایرانیوں کے لیے قومی وقار کو یقینی بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرنا، قبضے کے خلاف جنگ، ملت اسلامیہ کے اتحاد کا دفاع، مظلوم قوموں کی مدد کرنا، غنڈہ گردی اور استبداد کا مقابلہ کرنا اور بالآخر، ایک نئی اسلامی تہذیب کی تعمیر اور اسلامی دنیا کو سربلند کرنے کے نقطہ نظر کے علاوہ ایران نے ان 47 برسوں میں کیا اقدامات انجام دیئے ہیں۔

مندرجہ بالا اقدامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی قوم اور ملت اسلامیہ کے لیے ولایت فقیہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے انسانی خیر خواہی، آزادی، انصاف اور پیشرفت کی تلاش ایک ایسا نقطہ نظر ہے، جو تسلط پسند نظام کے مفادات اور امریکہ جیسے عالمی استکبار کی منشا و اہداف  سے متصادم ہے۔ لہٰذا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے حالات میں، ٹرمپ سمیت تسلط پسند نظام کے رہنماء، اپنی چوری، لوٹ مار، جرم اور تسلط کو جاری رکھنے کے لیے دھوکہ دہی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ظالم اور مظلوم نیز  قاتل اور مقتول کی جگہ بدل دیتے ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ "نیکی" اور "برائی" کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ روشن و تابندہ چاند ہمیشہ سیاہ بادلوں کے پیچھے نہیں رہتا، ایک ایسا وقت ضرور  آتا ہے، جب اس کی چمک سب کو ماند کر دیتی ہے۔

تحریر: یداللہ جوانی

بے شک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔

حجت‌الاسلام والمسلمین ہادی حسین‌خانی کے مطابق، سورۃ النساء کی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا

(النساء: 36)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احسان کے مختلف درجے مقرر کیے ہیں، جن میں سب سے پہلا مقام والدین کا ہے۔ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کسی بھی دوسری نیکی پر مقدم ہے۔ اگر ان کی ضروریات پوری ہو چکی ہوں تو تبھی قریبی رشتہ داروں، ہمسایہ، اور دیگر مستحقین کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔

یہ ترتیب ہمیں سکھاتی ہے کہ نیکی کرتے وقت جذباتی نہیں بلکہ حکمتِ قرآنی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ والدین کے بعد قریبی رشتہ داروں، پھر پڑوسیوں، اور پھر دیگر مستحقین کی باری آتی ہے۔ اس طرح نہ صرف خاندان مستحکم ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی عدل و احسان کے اصولوں پر استوار رہتا ہے۔

آخر میں، اللہ تعالیٰ نے تکبر اور خود پسندی کی مذمت کی ہے، کیونکہ حقیقی احسان وہی ہے جو عاجزی کے ساتھ کیا جائے، نہ کہ فخر یا دکھاوے کے لیے۔ یہ قرآنی اصول ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے جہاں محبت، قربانی اور انصاف کو فوقیت حاصل ہو۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دو روز قبل پیر 12 مئی 2025 کو امداد رساں شہیدوں پر قومی سیمینار کی منتظمہ کمیٹی سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر ان کا خطاب آج 14 مئی کی شام کو سیمینار کے مقام پر نشر کیا گيا۔
     

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں امداد رسانوں کو انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر قرار دیا اور ایرانی قوم کے ایثار اور انسان دوستی کے جذبے کے جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس جذبے کے مقابلے میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور وحشیانہ اقدامات اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت ہے اور اس خونخواری اور باطل محاذ کے مقابلے میں استقامت، سبھی کا فرض ہے۔

انھوں نے آٹھ سالہ جنگ کے پس منظر میں کہا کہ امداد رساں، گولیوں کی بارش میں بھی اپنی حفاظت کی نہیں بلکہ صرف دوسروں کی نجات کی فکر میں رہتے تھے اور ان کے اندر ایثار کا حیرت انگیز جذبہ اس حد تک ہوتا تھا کہ کبھی کبھی وہ دشمن کے زخمی قیدیوں کی بھی مدد کرتے تھے اور یہ رویہ، انسانیت سے عاری دنیا کے بالکل برخلاف ہے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ ایثار اور امداد کے جذبے کی ضد مجرم صیہونیوں کی جانب سے ایمبولینسوں پر حملے، اسپتالوں پر بمباری اور نہتے مریضوں اور بچوں کے قتل عام کی وحشیانہ عادت اور رویہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج دنیا کا انتظام ان انسان نما جانوروں کے ہاتھ میں ہے اور اسلامی جمہوریہ ان کی اس سفاکیت اور حیوانیت کے مقابلے میں استقامت کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیر فوجیوں کے خلاف جرائم پر اعتراض سبھی کی ذمہ داری ہے، کہا کہ یہ ذمہ داری کا احساس ہے جو دلوں میں امید کا چراغ جلتے رہنے کا سبب بنتا ہے اور یہی چیز اسلامی جمہوریہ کے خلاف مغرب والوں جیسے دشمنوں کی کارروائيوں کا سبب بنتی ہے اور اگر ہم ان کی وحشیانہ کارروائيوں پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں تو وہ ہم سے دشمنی نہیں کریں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے منہ زوروں کا اصل مسئلہ، اسلامی جمہوریہ کی جانب سے ان کے باطل تمدن کی نفی بتایا اور کہا کہ باطل ختم اور نابود ہونے والا ہے تاہم اس کام کے عملی جامہ پہننے کے لیے سعی و کوشش کرنا، استقامت کرنا اور بے عملی، تساہلی، باطل کے کاموں پر مسکرانے اور اس کی تعریف کرنے سے پرہیز ہونا چاہیے جو اس کی پیشقدمی کا سبب بنتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 10 مئی 2025 کو ہفتہ محنت کشاں کی مناسبت سے ملک کے لیبر طبقے کے ہزاروں افراد سے ملاقات میں سماج کے اس طبقے کی کلیدی حیثیت و کردار، اس کے حقوق اور فرائض کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے دور کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے اس مسئلے پر مسلسل توجہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ (1) خطاب حسب ذیل ہے:
     

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ ہر سال حسینیہ میں مزدور بھائیوں سے یہ ملاقات میرے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ محنت اور مزدوروں کے مسائل دراصل پورے ملک کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور اس بات کو نیک فال سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ ملاقات حضرت کے یوم ولادت کے موقع پر ہو رہی ہے۔

ساتھ ہی میں اپنے عزیز شہید جناب رئیسی کو یاد کرنا چاہتا ہوں جو عوام کے مسائل، خصوصاً مزدور طبقے کے معاملات کو ہمیشہ اولین ترجیح دیتے تھے اور ان کے حل کے لیے سرگرم رہتے تھے۔

جناب وزیر نے جو کچھ یہاں بیان کیا، وہ سب درست اور بجا تھا؛ یعنی موجودہ خامیاں، ضرورتیں، اور جو کام ہونے چاہئیں، جنھیں انھوں نے یہاں تفصیل سے گنوایا، یہ سب ٹھیک ہیں۔ میری صرف ایک گزارش ہے کہ خود ان کی ذات، ان کا وزارت خانہ، اور حکومت کے بعض دیگر حصوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ان باتوں کا اصل مخاطب وہ خود ہیں۔ میں دل سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے، انھیں توفیق عطا کرے کہ یہ کام سرانجام دے سکیں۔ اگر وہ عزم کریں اور ٹھان لیں، تو یقیناً کر سکتے ہیں۔ 

مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے بہت سی ضروری باتیں کہی جا چکی ہیں؛ البتہ کچھ اچھے اقدامات بھی ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ نکات پر زور دینے کی ضرورت ہے؛ چاہے یہ باتیں پہلے بھی کیوں نہ بیان کی جا چکی ہوں، انھیں دہرانا چاہیے۔ میں نے کچھ نکات نوٹ کیے ہیں جو حاضر خدمت ہیں۔

پہلا نکتہ: قدر و قیمت کے تعین کا معاملہ ہے۔ اس حصے کا اصل مخاطب — یعنی مزدور اور محنت کی قدر و قیمت — سب سے پہلے آپ خود مزدور بھائی ہیں، کہ اپنی قدر پہچانیں اور جان لیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں، وہ درحقیقت تخلیق کے نظام، معاشرے کے دھارے، اور روحانی اقدار و دینی تقاضوں کے مجموعے میں کس مقام پر ہے۔ 

ایک پہلو تو مزدور کی منزلت و مقام کا ہے، نہ صرف اس کے کام کی بنا پر، بلکہ اس کی انسانی حیثیت کی بنا پر۔ مزدور میں دو اہم خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی فضیلت رکھتی ہیں: پہلی خوبی: وہ اپنی محنت اور اپنی طاقت سے حلال روزی کماتا ہے۔ دوسروں پر 'کلّ' (2) بوجھ نہیں بنتا، مفت خوری نہیں کرتا، لوٹ مار نہیں کرتا، دوسروں کے مال کو اپنی طرف نہیں کھینچتا، بلکہ اپنی محنت سے (چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو) کماتا ہے۔ یہ ایک بڑا نیک عمل ہے، یہ ایک عظیم کام ہے۔ انسان کو اسی طرح زندگی گزارنی چاہیے۔ اپنے آپ پر انحصار کرتے ہوئے، اپنی قوت پر بھروسہ رکھتے ہوئے۔ یہی ہر انسان کے لیے مثالی زندگی کا نمونہ ہے۔ 

دوسری خوبی: جو اسی قدر اہم ہے، یہ کہ مزدور دوسروں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ آپ لوگ صنعتی، زرعی اور خدماتی مصنوعات تیار کر کے عوام تک پہنچاتے ہیں — یعنی دوسروں کی زندگیوں میں مدد کر رہے ہیں۔ انسانی اعتبار سے یہ دونوں نکات نہایت قیمتی ہیں، نیکی ہیں۔ اگر ہم قدر کا موازنہ کریں، تو کوئی شخص عبادت گزار ہو لیکن اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگی کے لیے کوئی محنت نہ کرتا ہو، تو وہ اس مزدور سے کم تر ہے جو محنت کرتا ہے، کام کرتا ہے۔ تو یہ قدر و قیمت کی بات ہے۔ یہ محنت کش کا مرتبہ و مقام ہے، اس کے کام کی حیثیت سے، اس کی انسانی قدر و قیمت کے پہلو سے۔

 

دوسرا نکتہ: محنت کی قدر و قیمت کا معاملہ، جو انتہائی اہم اور نمایاں ہے۔ محنت انسانی زندگی کے نظام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ اگر محنت نہ ہو تو انسانی زندگی مفلوج ہو جائے۔ سرمایہ بے شک اثر رکھتا ہے، سائنس یقیناً مؤثر ہے، لیکن سرمایہ اور سائنس ورک فورس (یعنی مزدور) کے بغیر کسی کام کے نہیں، ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مزدور ہی سرمائے کے بے جان ڈھانچے میں روح پھونکتا ہے۔ ہم نے اس سال "پروڈکشن کے لیے سرمایہ کاری" کا نعرہ دیا ہے۔ بہت خوب! لیکن یاد رکھیے کہ سب سے بڑا سرمایہ خود مزدور ہے۔ سرمایہ کاری کریں، مگر یہ ذہن نشین رکھیں کہ یہ مالی سرمایہ کاری مزدور کے ارادے، اس کی صلاحیتوں اور اس کی خواہش کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ محنت کا یہی کردار ہے: یہ معاشرے کی استحکام اور بقا کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ 

اسی لیے تو آپ دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرے کے دشمن، بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفین، انقلاب کے اولین دن سے لے کر آج تک یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح مزدور طبقے کو اسلامی جمہوریہ کے دائرے میں کام کرنے سے روکیں، انہیں اعتراض کے لئے بھڑکائیں۔ میں اس سلسلے میں کئی واقعات جانتا ہوں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں۔ پہلے کمیونسٹ اور مارکسسٹ تھے جو اس کوشش میں تھے کہ مزدور طبقات پر قبضہ کر کے صنعتی یونٹوں کو اچانک بند کر دیں، جس سے معیشت مفلوج ہو جائے۔ آج بھی یہی عزائم موجود ہیں۔ پہلے کمیونسٹ تھے، آج سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ اسی کوشش میں ہیں۔ لیکن دونوں ادوار میں ہمارے مزدوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو دندان شکن جواب دیے۔ 

ہم نے کہا کہ سب سے بڑا سرمایہ مزدور ہے۔ یعنی مزدور کا اثر پیسے، سائنسی تحقیق اور دیگر عوامل سے بڑھ کر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "ہم اس سرمایے کے ساتھ کیا کریں؟" یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا کچھ حصہ ممکنہ طور پر میرا ہے، کچھ وزیر محترم کا، کچھ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کا، کچھ عوام الناس کا، اور کچھ میڈیا کا۔ مختصراً، ہم سب کے ذمہ مزدوروں کے تعلق سے کچھ فرائض ہیں۔ 

مزدور اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے سکے، کام کا معیاری نتیجہ دے سکے، دوسروں کی مدد کر سکے اور خود بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو، اس کے لئے اس کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔ ان ضرورتوں میں سے ایک روزگار کی سیکورٹی ہے۔  ایک ضرورت حفاظتی انتظامات ہیں۔ کام کی جگہ پر حادثات، جو بعض اوقات مزدوروں کو پیش آتے ہیں، انتہائی افسوسناک ہیں۔ یہ معاشرے پر کاری ضرب ہیں۔  تو ایک ضرورت حفاظتی انتظامات ہیں۔ ایک ضرورت معاشی فکرمندیوں کا ازالہ ہے۔ یعنی یہ سارے کام انجام پانے چاہئے۔ اب میں ان میں سے کچھ نکات پر مختصراً روشنی ڈالتا ہوا آگے بڑھ جاؤں گا۔

پہلا نکتہ ملازمت کی سیکورٹی ہے۔ مزدور کو یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ اس کا روزگار جاری رہے گا۔ تاکہ وہ اپنی منصوبہ بندی کر سکے، اسے یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ کل کیا ہوگا، کب تک یہ کام رہے گا۔ اس کی ملازمت کا جاری رہنا دوسرے فرد کے ارادے پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ ملازمت کی سیکورٹی یہ ہے۔ یہ سیکورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔ کچھ عرصہ پہلے مختلف بہانوں سے کئی فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں، جو ملازمت کی حفاظت کے خلاف تھا۔ کبھی رپورٹ ملتی ہے کہ فلاں فیکٹری بند کر دی گئی، جب ہم پوچھتے کہ کیوں بند ہوئی؟ تو خام مال کی کمی یا مشینری کے فرسودہ ہونے جیسی باتیں بتائی جاتی تھیں۔ حالانکہ یہ مسائل حل طلب ہوتے ہیں، ان کا حل نکالنا چاہیے، فیکٹری نہیں بند کرنا چاہیے۔

ایک اور مسئلہ جیسا کہ میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں، (3) فیکٹریوں کا بند کرنا ایک خیانت آمیز عمل تھا۔ اصل ماجرا یہ تھا کہ اس زمین کی قیمت بڑھ چکی تھی، تو مشینری کو کسی طرح بیچ دیا جائے، مزدوروں کو معاوضہ دیکر ہٹا دیا جائے، اور زمین سے زیادہ مالی فائدہ اٹھایا جائے۔ پیسے کے لئے! یہ سب پیسے اور ذاتی لالچ کی خاطر کیا گیا۔ اس معاملے پر نگراں اداروں اور عدالتی نظام کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک بنیادی اہمیت کا کام ہے۔ متعلقہ سرکاری محکمے بشمول وزارتِ محنت اور دیگر اداروں کے، اس کی روک تھام کریں۔ 

ہمیں جو رپورٹ دی گئی اس کے مطابق شہید رئیسی کی حکومت نے آٹھ ہزار بند پڑی فیکٹریوں کو دوبارہ فعال کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام ممکن ہے۔ چاہے فیکٹری مکمل بند ہو یا صرف ایک تہائی یا چوتھائی گنجائش بھر کام کر رہی ہو، اسے دوبارہ پوری طرح چلایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اس عزیز شہید کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کا ذکر انہوں نے مجھ سے کئی بار کیا۔ لہٰذا ملازمت کا تحفظ پہلا اہم نکتہ ہے۔ 

ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ مزدور کی ملازمت کے تحفظ کا تعلق کاروباری شخص کی کام کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ کار کو بھی یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ اس کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ ہمارا رویہ ایسا ہو کہ وہ محسوس نہ کرے کہ اس کی سرمایہ کاری اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسے بھی کام اور سرمائے کا تحفظ ملنا چاہئے۔ درست پالیسی یہ ہے کہ ہم اس طرح کام کریں کہ مزدور کو بھی ملازمت کی سیکورٹی حاصل ہو اور دوسرے فریق کو بھی تحفظ ملے۔   

اگلا نکتہ جو کام کے تعلق سے اہم ہے اور میں نے نوٹ کر رکھا ہے وہ مزدور کی ہنرمندی و مہارت میں اضافہ ہے۔ ہمارا اہم فریضہ ہے کہ ہم اپنے مزدور بھائیوں کو زیادہ ماہر بنائیں۔ اگر مزدور اپنے کام میں ماہر ہو جائے تو پیداوار بہتر، معیاری اور نمایاں ہو گی، جو کارخانہ دار، مزدور اور پورے معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے، سب کے لئے فائدے مند ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے پاس ہنر سکھانے کے لیے ادارے موجود ہیں۔ ابھی راستے میں وزیر محترم نے بھی مجھے بتایا اور میں جانتا بھی ہوں کہ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت گاہیں اس سلسلے میں بہترین ذریعہ ہیں۔ ہمارے نوجوان جو یونیورسٹی کی تعلیم کے بجائے ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ مستقبل کے بہترین لیبر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان ملک کی خدمت کر سکتے ہیں، اپنی زندگی کے معیار کو بلند کر سکتے ہیں اور عوام الناس کے معیار زندگی کو بھی اوپر لے جا سکتے ہیں۔ 

تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت گاہوں کے ساتھ ساتھ، جو بہت اہم ہیں اور میں ان کے بارے میں تاکید بھی کر چکا ہوں، خود بڑی صنعتی کمپنیاں بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی مہارت کو بڑھانے کے لیے تربیتی پروگرام چلا سکتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ کام نہیں جنہیں انجام دینا ضروری ہے۔ بڑی کمپنیاں یہ کام کر سکتی ہیں۔ ٹریننگ پروگرام رکھیں، کوتاہ مدتی ٹریننگ ورکشاپ رکھیں۔ اپنے کارکنوں کو ضروری مہارت سکھائیں تاکہ وہ بہتر انداز میں اور پوری مہارت کے ساتھ کام انجام دے سکیں۔

ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا مزدور کے تحفظ کا ہے، اس کے جسمانی تحفظ کا۔ گزشتہ دو تین سال میں کانوں میں پیش آنے والے المناک حادثات سے ہم سب واقف ہیں، لیکن یہ مسئلہ صرف کانوں تک محدود نہیں۔ دیگر جگہوں سے بھی مجھے رپورٹیں ملیں۔ دیگر صنعتوں میں بھی حفاظتی انتظامات کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس کی نگرانی ہونی چاہئے۔ ٹیکنیکل حفاظتی اقدامات اور سوشل سیکورٹی کے لحاظ سے اس طرح کام کیا جائے کہ مزدوروں کی جان کی حفاظت یقینی بنے۔

اگلا نکتہ، مزدوروں کی حمایت کا ایک اہم پہلو مقامی مصنوعات کی ترویج ہے جس پر میں کئی سال سے زور دے رہا ہوں، تاکید کر رہا ہوں۔(4) یہ ہماری چھٹے پروگرام میں بھی شامل تھا۔(5) اگرچہ بعض لوگوں نے اس پر صحیح عمل نہیں کیا، لیکن جہاں تک عمل ہوا، مفید ثابت ہوا۔ جب ہم مقامی طور پر تیار شدہ مصنوعات خریدتے ہیں، تو درحقیقت ہم اپنے ملک کے مزدور اور سرمایہ کار کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم وہی چیز غیر ملکی خرید لیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس دوسرے ملک کے مزدور اور سرمایہ کار کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ انسانی رویہ ہے؟

بے شک کچھ بہانے موجود ہیں؛ مثلاً یہ کہ اندرون ملک مصنوعات کا معیار ایسا ہے، ویسا ہے۔ نہیں! بعض معاملات میں اندرون ملک مصنوعات کا معیار بہت اچھا بھی ہے۔ کچھ سامان اور گھریلو استعمال کی چیزوں اور دیگر اشیاء میں اپنی مصنوعات کا معیار بیرون ملک سے اگر بہتر نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ ہمیں اسے ایک عام ثقافت بنانا چاہیے، ایک رائج رواج کے طور پر؛ ہر ایرانی اپنا فرض سمجھے کہ ایرانی مال استعمال کرے، سوائے ان چیزوں کے جو ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔ جو چیزیں ملک میں تیار ہوتی ہیں، ان کا استعمال سب اپنا فرض سمجھیں۔ ہمیں اسے ایک ثقافت بنانا چاہیے۔

میں نے سنا ہے کہ حال ہی میں کسی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ ایسے مصنوعات کی درآمد پر پابندی ختم کر دی گئی ہے جن کے مشابہ مصنوعات ملک میں موجود ہیں۔ یہ پابندی کیوں ختم کی جائے؟ جو چیزیں ملک میں بن رہی ہیں، انہیں فروغ دیں۔ اگر ان کا معیار اچھا نہیں ہے، تو معیار پر کام کریں۔ میں نے کچھ سال پہلے یہاں گاڑیوں کے بارے میں بات کی تھی — جب کہا جاتا تھا کہ ملکی گاڑیوں کا ایندھن کا استعمال زیادہ ہے — میں نے کہا تھا (6) کہ اگر اقتصادی محاصرے اور سائنسی محاصرے کے باوجود، جب دنیا کے علم کے مالک ممالک ہمارے سائنسدانوں اور طلباء کے لیے دروازے بند کر دیتے ہیں، تو ایرانی سائنسدان بڑے بڑے کام کر دکھاتا ہے۔ اگر ایرانی نوجوان ایسا میزائل بنا سکتا ہے، ایسا ہتھیار بنا سکتا ہے، ایسی مصنوعات تیار کر سکتا ہے کہ دشمن حیران رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کام کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہوں،  (7) تو وہ ایسی گاڑی بھی بنا سکتا ہے جس کا ایندھن کم خرچ ہو، جس کی کوالٹی بہتر ہو۔ ہمیں اسی پر کام کرنا چاہیے، اس پر توجہ دینا چاہیے۔ 

یہ تو بڑا آسان راستہ ہے کہ کہہ دیا: "ٹھیک ہے، راستہ کھول دو کہ باہر سے چیز آئے" لیکن یہ ملک کے نقصان میں ہے، یہ مزدور طبقے کے نقصان میں ہے، یہ پورے ملک کے نقصان میں ہے۔ اس لیے، مزدور کی حمایت کا ایک اہم نقطہ یہی ہے کہ ہم ملکی مصنوعات استعمال کریں اور اسے ایک ثقافت بنا دیں۔

ایک اہم کام جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ حکام کی طرف سے جامع اور مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے — اور جو لیبر کے لیے بھی فائدہ مند ہے، اور سرمایہ کار کے لیے بھی — وہ یہ ہے کہ مزدور کو پیداوار کے منافع میں شریک کیا جائے۔ اگر مزدور کو یہ احساس ہو کہ جس قدر اس مال کا منافع بڑھے گا، اُس کا حصہ بھی اُتنا ہی بڑھے گا، تو وہ کام کو بہتر طریقے سے کرنے کی ترغیب پائے گا۔ یعنی یہ چیز مزدور کو یہ ترغیب دلائے گی  کہ وہ کام کو زیادہ بہتر، مکمل اور عمدہ طور پر انجام دے۔ یہ اُس حدیث کی عملی تصویر ہوگی جسے میں بار بار دہراتا رہا ہوں:" رَحِمَ اللہ اِمرَاً عَمِلَ عَمَلاً فَاَتقَنَہ" (۸) یعنی محکم اور عمدہ کام۔ 

آج دنیا میں کچھ ایسے کارخانے ہیں جو کوئی مصنوع تیار کرتے ہیں تو اپنی پراڈکٹ پر کارخانے کے قیام کی تاریخ لکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ یہ کارخانہ سو سال پہلے قائم ہوا تھا۔ کسی صنعتی یونٹ کا (ہم نے صنعتی پیداوار کی مثال دی ہے، باقی شعبہ جاتِ پیداوار بھی اسی طرح ہیں، حتیٰ کہ بعض خدماتی شعبے بھی) یہ طریقہ کار کہ وہ اِس طرح کام کرے کہ سو سال تک اُس کے گاہک موجود رہیں اور وہ اِس پر فخر کرے — یہ بہترین چیز ہے۔ اور یہ کاریگروں کو کارخانے کے منافع میں شریک کرنے سے ہی حاصل ہوگا۔ یہ ایک اہم کام ہے۔ 

ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف انہوں (۹) نے اشارہ کیا — وہ کاریگروں کے رہائشی مسائل کا معاملہ ہے۔ اگر بڑے صنعتی یونٹس اور کاریگر رہائشی کوآپریٹو سوسائٹیز کے درمیان (جہاں ایسی کوآپریٹیو موجود ہوں) تعاون ہو تو یہ مزدوروں کی سب سے بڑی مدد ہوگی۔ اگر کوآپریٹو موجود نہیں ہے تو وہ کوآپریٹو قائم کرسکتے ہیں، اس کے قیام میں مدد دے سکتے ہیں، یا پھر بڑے کارخانوں کے قریب ہی رہائشی یونٹس بنا سکتے ہیں۔ اس طرح رہائش کا مسئلہ، جو سب سے اہم پریشانیوں میں سے ایک ہے، ختم ہو جائے گا اور کاریگروں کا ذہن اس پہلو سے پرسکون رہے گا۔ مزدوروں کی مدد کا یہ ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ 

ایک اور موضوع جو میں نے یہاں نوٹ کیا ہے وہ کام کی جگہ کے ثقافتی ماحول کا مسئلہ ہے۔ دیکھیں، مارکسیوں اور کمیونسٹوں کے فلسفے میں کام کی جگہ تضاد کا مرکز ہے، دشمنی کا ماحول ہے۔ یعنی ان کے نزدیک مزدور کو فیکٹری مالک کا دشمن ہونا چاہیے - یہی ان کا فلسفہ ہے۔ ان کے خیال میں کام کی صنف کی پوری حرکت ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد اور تضاد پر مبنی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ تضاد کا یہ اصول تاریخ میں، معاشرتی مسائل میں، سیاسی معاملات میں اور اقتصادی امور میں جاری و ساری ہے۔ انہوں نے برسوں تک لوگوں کو اس غلط سوچ میں الجھائے رکھا، نہ صرف خود کو بدبخت بنایا بلکہ دنیا کے بہت سے لوگوں کو بھی تباہی میں ڈال دیا۔ اسلام بالکل اس کے برعکس بات کرتا ہے۔

اسلام زندگی کے ماحول کو، کام کے ماحول کو، تاریخ کے ماحول کو، اتحاد و ہم آہنگی اور مشترکہ فکر کا گہوارہ قرار دیتا ہے۔ جو لوگ قرآن میں غور و فکر اور تحقیق کرتے ہیں، وہ "زوجیت" کی تعبیر، "زوج" کے لفظ اور "زوجیت" کے تصور کو قرآن میں تلاش کریں: "سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّھا مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِھِم وَ مِمّا لا یَعلَمون" (۱۰)۔ یعنی کائنات کی ہر چیز میں ہم آہنگی، ہمدردی، تعاون اور باہمی افزائش کا تصور موجود ہے۔ کام کے ماحول کے بارے میں بھی یہی بات ہے؛ یہاں باہمی افزائش ہونی چاہیے۔ دونوں طرف سے خلوص دل کے ساتھ (نہ کہ صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر) ایک دوسرے کی مدد کی جانی چاہیے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ جب ہم مزدور کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو صرف صنعتی مزدور ہی مراد نہ ہو۔ تعمیراتی مزدور، کھیتوں میں کام کرنے والا مزدور، سبزی منڈی کا مزدور، اور گھروں میں محنت کرنے والی مزدور خواتین - جو آج کے دور میں مواصلاتی ذرائع اور اس جیسی سہولیات کی برکت سے گھر بیٹھے کام کرکے روزگار کماتی ہیں - ان سب کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ بیمے کے لحاظ سے، اور دیگر مختلف پہلوؤں سے ان پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

میں دنیا میں اقوام کے خلاف روا رکھی جانے والی متعصبانہ پالیسیوں کے بارے میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ فلسطین کے مسئلے کو فراموش کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؛ مسلمان اقوام کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مختلف قسم کی افواہوں، بے تکی باتوں اور نئے نئے بے معنی مسائل کو اٹھا کر وہ ذہنوں کو فلسطین کے اہم مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذہنوں کو فلسطین کے مسئلے سے ہٹنے نہیں دینا چاہیے۔ صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ اور فلسطین میں کیا جانے والا ظلم کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جا سکے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے - نہ صرف خود صیہونی حکومت کے خلاف، بلکہ صیہونی حکومت کے حامیوں کے خلاف بھی (۱۱)۔ جی ہاں، آپ کی تشخیص بالکل درست ہے؛ امریکی حقیقی معنوں میں اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب سیاسی دنیا میں بعض ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو اس کے برعکس تاثر دے سکتی ہیں، لیکن معاملے کی حقیقت یہ نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی قوم، غزہ کے مظلوم عوام آج صرف صیہونی ریاست کا سامنا نہیں کر رہے ہیں۔ وہ امریکہ کا سامنا کر رہے ہیں، برطانیہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہی وہ طاقتیں ہیں جو اس مجرم ریاست کو اس طرح تقویت پہنچا رہی ہیں، ورنہ ان کا فرض تو یہ تھا کہ اسے روکتیں۔ تم نے انہیں ہتھیار دیے، تم نے انہیں سہولیات فراہم کیں؛ جب بھی وہ کمزور پڑتے ہیں، تمہاری طرف سے ہی انہیں مدد ملتی ہے۔ اب جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح ظلم ڈھا رہے ہیں؛ اتنی بڑی تعداد میں قتل، اس قدر خونریزی، یہ تمام مظالم! ضروری ہے کہ ان کے خلاف کھڑا ہوا جائے۔ امریکہ کا فرض تھا کہ وہ ان مظالم کو روکتا؛ نہ صرف یہ کہ وہ ایسا نہیں کر رہا، بلکہ مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔ لہٰذا پوری دنیا کو چاہیے کہ وہ صیہونی ریاست کے خلاف بھی کھڑی ہو اور اس کے حامیوں کے خلاف بھی - منجملہ امریکہ کے خلاف - حقیقی معنوں میں مزاحمت کرے۔ کچھ نعروں، چند باتوں اور چند عارضی واقعات کو فلسطین کے اہم مسئلے کو بھلانے کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔

بے شک میرا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی توفیق اور اس کی عظمت و جلال کے سایہ میں، فلسطین صیہونی قابضوں پر ضرور غالب آئے گا۔ یہ واقعہ ضرور رونما ہوگا۔ باطل کو چند روز کی چھوٹ ہے، تھوڑی دیر کے لیے اس کی ریشہ دوانی ہوگی، مگر یہ  مٹ جانے والا ہے۔ یقیناً یہ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ظاہری صورتحال جو نظر آ رہی ہے، اب وہ جو کچھ شام اور دیگر مقامات پر کر رہے ہیں اور جو پیش قدمی دکھا رہے ہیں، یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے، اور ان شاء اللہ مزید کمزوری کا باعث بھی بنے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ایرانی قوم اور دیگر مومن اقوام اس دن کو - جب فلسطین حملہ آوروں اور غاصبوں پر فتح یاب ہوگا - اپنی آنکھوں سے دیکھیں، ان شاء اللہ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ الله و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر محنت و سماجی فلاح ڈاکٹر احمد میدری نے کچھ اہم نکات پیش کیے۔ 

(2) دوسروں پر بوجھ بننا 

(3) صدر جمہوریہ اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں خطاب (2018/08/29) 

(4) مزدوروں سے ملاقات کے موقع پر خطاب (2022/05/09) 

(5) چھٹے ترقیاتی پروگرام کی کلی پالیسیاں (2015/06/30) 

(6) صنعتی یونٹس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب (2020/05/06) 

(7) یوسی رابین (صیہونی ریاست کے سابق میزائل ڈیفنس آرگنائزیشن کے سربراہ) کے 2015 کے بیان کی طرف اشارہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "میں ان انجینئرز کے احترام میں اپنا ہیٹ اتارتا ہوں جنہوں نے یہ میزائل تیار کیے"۔ 

(8) مسائل علی بن جعفر اور مستدرکات، صفحہ 93 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) 

(9) وزیر محنت و سماجی امور 

(10) سورۃ یٰسین، آیت 36؛ " پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں خواہ (نباتات) ہو جسے زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔"

(11) حاضرین کے امریکہ مردہ باد کے نعرے

Tuesday, 13 May 2025 03:09

ابو ایوب انصاری

آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب نجاری تھا، اور آپ ابو ایوب انصاری کی کنیت سے معروف تھے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی، اور انصار میں سے قبیلہ بنی خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ بنی اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے ان ۶۹مردوں اور دو خواتین میں شامل تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے، کہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر قسم کی مدد اور نصرت کرنے کی بیعت کی، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اور اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر مبارک میں موجود تمام شرکا گواہ ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو آپ ؓ کے گھر استراحت فرمائی۔

جیسا کہ اس وقت یہ واقعہ فرمان یافتہ اونٹ کے واقعہ سے معروف اور مشہور ہوا، اس کی تفصیل یوں ہے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے تو انصار کے قبائل میں سے ہر قبیلہ کی یہ خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اسے ہی شرفِ ضیافت سے نوازے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جس کے گھر کے آگے اونٹنی رکے گئی اس کو یہ شرف حاصل ہوگا، توجوں جوں سواری آگے بڑھتی جاتی راستے میں انصارِ مدینہ انتہائی جوش ومسَرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے: یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں شرفِ ضیافت بخشیں مگر نبی کریم ہر ایک سے مسکراکر فرماتے تھے : اس کے راستے کو چھوڑ دو! جس جگہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ بالآخر ایک مکان کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی، پھر دوبارہ کھڑی ہوگئی اور ایک مرتبہ چکر کاٹنے کے بعد واپس اسی جگہ پر بیٹھ گئی (یعنی ابوایوب انصاری کے گھر کے باہر) ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر ہی مہمان کے طور قیام فرمایا۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ جس پر مدینہ والے رشک کیا کرتے تھے، اسی طرح مؤاخات مدینہ کے موقعہ پرجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنارہے تھے اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو مصعب بن عمیر کا بھائی بنایا۔

حضرت ابوایوب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ جنگ بدر، احد، خندق اور اسی طرح دیگر جنگوں میں بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ آپ ؓ کی رسول اکرم سے پر خلوص محبت کا نتیجہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سب سے پہلے آپ امام علیؑ کی امامت اور ولایت کو قبول کرنے اورآخری دم تک آپ ؑ کے برحق خلیفہ اور جانشین رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے پر قائم  رہنے والوں میں سے بن گئے۔ اور آپ ؓ نے اپنے اس  اصولی موقف سے کبھی بھی  اعراض نہیں کیا۔ بلکہ آپؓ ان بارہ افراد پر مشتمل  گروہ میں بھی شامل تھے کہ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد مسجد نبی میں امام علیؑ کے اللہ کی طرف سے امام برحق اور نبی کے جانشین ہونے کا دفاع کیا۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی امام علی کی  ؑ معیت میں گزاری، اور امام علیؑ نے اپنی  ظاہری خلافت کے دوران جتنی جنگیں لڑی اس میں بھی آپ شریک رہے، خاص کر جنگ نہروان میں آپ کے پاس امن کا پرچم بھی تھا۔

حضرت ابوایوب ان صحابیوں میں سے تھے جن سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں، اور آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں، آپ نے امام علی ؑ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں بہت سی احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں، آپ ان راویوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے حدیث ثقلین، اور حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ جیسا کہ اصبغ کہتا ہے کہ میں نے رحبہ کے دن لوگوں میں اعلان کیا ہے کہ جس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان سنا ہے وہ کھڑے ہوجائے، اور صرف وہی لوگ  کھڑے ہوجائیں کہ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والا اعلان ولایت کو سنا ہے اور وہی بات بیان کریں کہ جس کو اس دن سنا ہے۔ یہ اعلان سن کر کچھ لوگ (چند درجن)  کھڑے ہوئے ان میں سے ایک ابوایوب بھی تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس آگاہ رہو کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کا علی مولیٰ ہے، خدایا تو اس سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرتا ہے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرتا ہے، تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرتا ہے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے، اور تو اس کی مدد کر جو علی کی مدکرتا ہے۔  جیسا کہ ابوایوب انصاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول نقل کیا جا تا ہے  کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علیؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی  ابوایوب انصاری کو امام علیؑ کے ساتھ دینے کا بھی حکم صادر فرمایا۔

امام ہشتم حضرت علی ابن موسیٰ رضاؑ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اصحاب ؓ میں کچھ ایسے بھی تھے کہ جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلتے رہے، اورانہوں نے اس منھج اور سیرت کو تغییر اور تبدیل نہیں کیا، جیسے ابوایوب انصاری اور ان جیسے اصحاب، اللہ کی رضایت ان کے شامل حال ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔

جیسا کہ شیخ محی الدین مامقانی کہتے ہیں کہ ابوایوب انصاریؓ ان اصحاب میں سے تھے کہ جنہوں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور منھج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبدیل اور تغییر نہیں کی ۔اور اس سعادت سے ہی بہرمند ہونے والے بہت کم ہی تھے، جو لوگ ابوایوب کی زندگی، مقام ومنزلت، نظریات، اقوال، شہادات،اور رویات کو جانتا ہیں وہ یہ یقین بھی کرلیتے ہیں کہ آپؓ ایک ثقہ اور جلیل القدر صحابی تھے، بلکہ ثقات میں سے بہت زیادہ قابل اعتماد تھے اور اصحاب میں سے برجستہ ترین صحابی تھے، اور میرے نزدیک آپؓ سے نقل ہونے والی روایات صحیح ہیں اور قابل شک نہیں ہیں۔

ابوایوب انصاری رضوان الله تعالى عليه ۵۲ہجری کو وفات پاگئے، اور آپؓ قسطنطیہ ترکی میں مدفون ہیں، جو اس وقت ترکی کا ایک صوبہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کے قسطنطیہ میں وفات پانے اور دفن ہونے کی خبر پہلے سے ہی دی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسطنطیہ میں میرے اصحاب میں سے ایک صالح اور نیک صحابی کو دفن کیا جائے گا۔