
سلیمانی
مہمانداري
مہمانداري
ايك چيز جس كا ہر خاندا كو كم يا زيادہ سامنا كرنا پرتا ہے وہ مہماندارى ہے بلكہ يوں كہنا چاہئے كہ مہماندارى زندگى كے لوازمات ميں سے ہے _ مہمان نوازى ايك اچھى رسم ہے اس كے ذريعہ دلوں ميں باہمى تعلق و ارتباط پيدا ہوتا ہے _ محبت و الفت ميں اضافہ ہوتا ہے _ نفرت و كدورت دور ہوتى ہے دوستوں اور عزيزوں كے يہاں آمد و رفت اور كچھ دير مل بيٹھنا ايك مفيد اورسالم تفريح شمار كى جاتى ہے _
پيغمبر اكرم (ص) فرماتے ہيں : مہمان كا رزق آسمان سے نازل ہوتا ہے اس كو كھلانے سے ميزبان كى گناہ بخش ديئےاتے ہيں'' _
امام على رضا (ع) فرماتے ہيں سخى لوگ دوسروں كے كھانے ميں سے كھاتے ہيں تا كہ ان كے كھانے ميں سے وہ كھائيں ليكن كنجوس دوسروں كے كھانے ميں سے نہيں كھاتے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ اس كے كھانے ميں سے وہ كھاليں _
حضرت رسول خدا (ص) كا رارشاد گرامى ہے : دوستوں كے ساتھ بيٹھنے سے ، محبت پيدا ہوتى ہے _ امام محمد تقى (ع) فرماتے ہيں : دوستوں كے پاس بيٹھنا ، دل كو تروتازہ اور عقل كو بار آور كرتا ہے ، خواہ تھوڑى دير ہى بيٹھا جائے _
زندگى كى اس متلاطم سمندر ميں انسان كے دل و دماغ كوآرام و سكون كى ضرورت ہوتى ہے _
اس سے بہتر سكون وآرام كس طرح مہيا ہوسكتا ہے كہ كچھ وفادار دوستوں اور رشتہ داروں كى محفل ميں بيٹھيں _ كچھ اپنا حال دل كہيں كچھ ان كى سنيں _ پر لطف گفتگو سے محبت و الفت كى محفل كو سجائيں _ اور وقتى طور پر زندگى كى مشكلات اور پريشانيوں كو بھلاديں_ تفريح بھى كرليں اور كھولى ہوئي طاقت بھى بحال كرليں ، دل بہلائيں اور دوستى كے رشتوں كو بھى مستحكم كرليں _
جى ہاں _ مہماندارى بہت عمدرہ رسم ہے اور شايد ہى كوئي اس كى خوبى سے انكار كرے _ البتہ اس سلسلے ميں دوبڑى مشكلات سامنے آتى ہيں كہ جس كے سبب اكثر لوگ جہاں تك ہوسكتا ہے اس سے بچنے كو كوشش كرتے ہيں اور انتہائي ضرورى حالات ميں ہى اس كو قبول كرتے ہيں _
پہلى مشكل : زندگى كى چمك دمك اور ايك دوسرے سے آگے بڑھ جانے كى بيجا ہوس نے زندگى كو دشوار بناديا ہے _
گھر كے ضرورى ساز وسامان جو ضرورتوں كو پورا كرنے كے لئے اور آرام كى خاطر ہوتے تھے ، اپنى حقيقى صورت سے خارج ہوكر خودنمائي اوراشياء ے تجمل كى شكل اختيار كرگئے ہيں _ اسى چيز نے مہماندارى اور دوستوں كى آمد و رفت ميں كمى پيدا كردى ہے _ شايد كم ہى لوگ ہوں گے جو دوستوں اور رشتہ داروں كے آنے جانے كو پسند نہ كرتے ہوں _ ليكن چونكہ حسب دلخواہ شان و شوكت كے اسباب فراہم كرنے اور معيار زندگى اونچا كرنے پر قادر نہيں ہيں اور اپنے معيار زندگى كو سطحى سمجھتے ہيں اس لئے دوستوں سے ميل جول ركھنے سے بھاگتے ہيں _ ايك غلط خيال انسان كے ہاتھ پاؤں باندھ كر اس كى دنيا و آخرت كو تباہ كرديتا ہے _
خاتون عزيز كيا دوست احباب آپ كے گھر كى شان و شوكت اور سجاوٹ كو ديكھنے كے لئے آپ كےگھر آتے ہيں _ اگر يہى مقصد ہے تو بہتر ہے كہ دو كانوں ، شوروم اور ميوزيم جائيں _ كيا آپ نے اشيائے تجمل كى نمائشے لگاركھى ہے اور اپنے خودنمائي كے لئے ان كو اپنے گھرآنے كى دعوت ديتى ہيں؟ ايك دوسرے كے يہاں آمدو روفت ، آپسى تعلقات اور محبت كى خاطر اور تفريح كى غرض سے كى جاتى ہے نہ كہ فخر و مباہات اور خودنمائي كے لئے _ مہمان اپنا شكم پركرنے اور خوبصورت مناظرہ كا نظارہ كرنے كے لئے آپ كے گھر نہيں آتے ہيں بلكہ دعوت كو ايك قسم كى عزت افزائي سمجھتے ہيں _ وہ خود بھى اس قسم كى رقابتوں اور تجمل پرستى سے تنگ آگئے ہيں اور سادگى كو پسند كرتے ہيں ليكن ان ميں اتنى ہمت نہيں ہے كہ اس غلط رسم كا خاتمہ كرسكيں اور خود كو اس اختيارى قيد و بند سے آزاد كرليں _ اگر آپ ان كى سادگى كے ساتھ خاطر تواضع كريں تو نہ صرف يہ كہ ان كو برا نہيں لگے گا بلكہ خوش ہوں گے اور بعد ميں اس سادہ روش كى پيروى كركے بغير كسى تكلف اور پريشانى كے آپ كى بھى پذيرائي كريں گے _ ايسى صورت ميں آپ نہايت سادگى كے ساتھ دوستوں كے يہاں آمد ورفت كا سلسلہ جارى ركھ سكتى ہيں اور انس و محبت كى نعمت سے بہرہ مند ہوسكتى ہيں _ لہذا اس مشكل كو آسانى كے ساتھ حل كيا جا سكتا ہے البتہ كسى قدرہمت و جرات كى ضرورت ہے
دوسرى مشكل
مہماندارى كوئي آسان كام نہيں ہے _ بلكہ خواتين كے مشكل كاموں ميں سے ہے _ كبھى ايسا ہواہے كہ بيوى چند گھنٹوں كے اندر اندر كچھ مہمانوں كى خاطر تواضع كا انتظام كرنے پر مجبور ہے اسى سبب سے كھانے مرضى كے مطابق تيار نہيں ہوسكے ايسى حالت ميں ايك طرف مياں ناراض ہوتا ہے كہ ميں نے پيسہ خرچ كيا اور اس كے باوجود ميرى عزت مٹى ميں مل گئي _ دوسروں طرف بيوى ناراض ہے كہ ميں نے اتنى زحمت اٹھائي اس كے باوجود مہمانوں كے سامنے ميرى بے عزتى ہوگئي وہ لوگ مجھے بد سليقہ اور پھر ہٹز سمجھيں گے _ ان سب سے بدتر يہ كہ شوہر كى جھك جھك كے جواب ميں كيا كہوں ان ہى ، اسباب كى بناء پر كم ہى ايسى محفليں ہوتى ہيں جو بغير كسى ہنگامے اور الجھن و پريشانى كے اختتام پذيرہوں _ اور يہ امر باعث بنتا ہے كہ بہت سے لوگ مہماندارى سے گريز كرتے ہيں اور اس كے تصور سے ہى لرزتے ہيں _
ہم مانتے ہيں كہ مہماندرى آسان كام نہيں ہے ليكن اصل مشكل اس وجہ سے پيدا ہوتى ہے كہ ميزبان خاتون ، مہماندارى كے طور طريقوں سے اچھى طرح واقف نہيں اور چاہتى ہے كہ صرف دوتين گھنٹے كے اندر بہت سے مشكل اور دشوار كاموں كوانجام دے لے _ اگر مدبر اورتجربہ كارہے تو بہت خوبى اور آسانى كے ساتھ بہترين طريقے سے دعوت كا انتظام كرسكتى ہے _ اب ہم آپ كے سامنے مہماندارى كے دو نمونے پيش كررہے ہيں ، ان ميں سے جو آپ كہ بہتر معلوم ہوا سے منتخب كرسكتى ہيں :_
پہلا نمونہ : مياں گھر ميں داخل ہوتا ہے اور بيوى سے كہتا ہے شب جمعہ دس آدمى رات كے كھانے پر آئيں گے _ بيوى جسے گہ گزشتہ دعوتوں كى تلخياں ياد ہيں مہمانوں كا نام سن كرہى اس كا دل دھڑكنے لكتاہے اور وہ اعتراض كرتے ہيں _ مرد دلائل كے ذريعہ اور خوشامد كركے اس كوراضى كرتا ہے كہ يہ دعوت كرنا ضرورى تھا_ جس طرح بھى ہو اس دعوت كا انتظام كرو _ اس وقت سے جمعرات تك پريشانى اور اضطراب ميں گزرتے ہيں _ يہاں تك كہ جمعرات كادن آپہونچا _ اس روز دعوت كاانتظام كرنا ہے مياں يا بيوى سامان خريد نے كے لئے گھر سے باہر جاتے ہيں _ راستے ميں سوچتے ہيں كہ كيا كيا چيزيں خريد نا چاہئے _ آخر كاركئي طرح كى چيزيں خريد كردو پہر تك گھر آتے ہيں _ بيوى كا كام دوپہر كے بعد شروع ہوتاہے _ دوپہر كا كھانا بھى كھايا يا نہيں كھايا ، اٹھ كر كام ميں مشغول ہوجاتى ہے _ ليكن كام كوئي ايك دوتوہيں نہيں _ اپنے آپ كوگوناگوں كاموں كے انبار ميں گھر اپاتى ہے _ كيا كيا كرے اور كيانہ كرے _ مثلاً سبزياں صاف كرنا اور كاٹنا ہے_ آلو اور پياز سرخ كرنا ہے _ دال چننا ہے _ چاول چن كے بھيگنے كو ركھنا ہے _ گوشت كو صاف كركے قيمہ بنانا ہے _ دو تين قسم كے كھانے پكانا چاہتى ہے _ مرغ بھوننا ہے _ كباب بنانا ہے _ سالن پكانا ہے _ پلاؤ پكانا _ چائے كا سامان ٹھيك كرنا ہے _ برتن دھونا ہے _ ڈرائنگ روم كو ٹھيك ٹھاك كرنا ہے _ يہ سارے كام يا تو خود تنہا انجام دے يا كسى كى مدد لے بہر حال عجلت اور پريشانى كى حالت ميں كاموں ميں مشغول ہے _ مگر چھرى نہيں مل رہى ہے ادھر تلاش كرتى ہے _ سالن ہے تو ديكھتى ہے پياز نہيں _ چاول چڑھا ديا تو معلوم ہوانمك ختم ہوگيا ہے كسى كو نمك اور پياز خريدنے بھيجتى ہے _ كھانا پكانے كے لئے جس چيز كى ضرورت ہوتى ہے اس كو ڈھونڈنے ميں كچھ وقت صرف ہوتا ہے _ كبھى نوكر پر چيختى چلاتى ہے _ كبھى بيٹى كو ڈانٹتى پھٹكارتى ہے _ كبھى بيٹے كو برا بھلا كہتى ہے _ كھانا پكانے كے دوران اسٹو كاتيل يا گيس ختم ہوجاتى ہے _ اے خدا اب كيا كرے ؟
اسى حالت ميں دروازے كى گھنٹى بجتى ہے اور ايك ايك كركے مہمان آنا شروع ہوجاتے ہيں بيچارہ شوہر جو اپنى بيوى كى پريشانى اور اضطراب سے آگاہ ہے ، دھڑكتے دل سے مہمانوں كا استقبال كرتا ہے _ دعا سلام كے بعد چائے لانے جاتا ہے تو ديكھتا ہے ابھى تو چائے كا پانى بھى پكنے كو نہيں ركھا گيا ہے _ بيٹے يا بيٹى كو ڈانٹتا ہے كہ ابھى تك چائے كا پانى ابلنے كو كيوں نہيں ركھا گيا _ چائے تيار ہوئي تو معلوم ہوا كہ ابھى دودھ نہيں پكايا گيا ہے يا چائے كہ برتن نہيں نكالے گئے ہيں _ خداخدا كركے چند بار اندر باہر كے چكّر لگانے كے بعد چائے كى چند پيالياں مہمانوں كے سامنے ركھى جاتى ہيں _ نظريں مہمانوں پر ہيں ليكن دل باورچى خانے ميں لگا ہوا ہے كيونكہ معلوم ہے كہ باورچى خانہ ميں كيا ہنگامہ برپا ہے _
دوستوں كى پر لطف باتوں كا جواب پھيكى مسكراہٹ سے ديا جاتا ہے ليكن دل اس دعوت كے انجام سے خوفزدہ ہے _ سب سے بدتر توجب ہوتا ہے كہ مہمانوں ميں عورتيں بھى ہوں _ يا مدعو حضرات رشتہ داروں ميں سے ہوں ايسى حالت ميں ہر ايك مہمان پوچھتا ہے كہ آپ كى بيگم كہاں ہيں؟ شوہر جواب ديتا ہے كام ميں مشغول ہيں ، ابھى آتى ہيں _ كبھى بيوى مجبوراً كاموں كے بيچ ميں سے اٹھ كر ذرا دير كے لئے مہمانوں كے پاس چلى آتى ہے _ لرزتے دل اور خشك ہونٹوں كے ساتھ سلام اور مزاج پر سى كرتى ہے ليكن كيا كچھ دير ان كے پاس بيٹھ سكتى ہے ؟ فوراً عذركركے واپس آجاتى ہے _ آخر كار كھانا تيا رہوتا ہے ليكن وہ كھانے جو اس صورت سے تيار كئے گئے ہوں ان كا حال تو ظاہرہى ہے _ كھانا پكانے سے فرصت ملى تو اب سلام بنانے كا كام باقى ہے _ دہى كى بورانى بنانى ہے _ چٹنى اچاربرتنوں ميں نكالنا ہے _ كھانے كے برتنوں كو صاف كرنا ہے _ بدبختى تو يہ ہے كہ سامان اور برتنوں كى بھى كو ئي خاص جگہ نہيں ہے ہر چيز كوادھر ادھر سے تلاش كرنا ہے _ خير صاحب كھانا لگايا جاتا ہے _ مہمان كھانا كھاكررخصت ہوتے ہيں _ ليكن نتيجہ كيا ہوتا _ كسى چيز ميں نمك تيز ہے كسى ميں نمك پڑاہى نہيں ہے _ كوئي چيز جل گئي _ كچھ كچارہ گيا _ گھبراہٹ كے مارے بعض ڈشنر كو لانا ہى بھول گئيں _ بيوى تقريباً بارہ بجے رات كو كاموں سے فراغت پاتے ہے ليكن تھكى پريشان _ دو پہر سے اب تك ايك لمحہ بھى سر اٹھانے كاموقعہ نہيں ملا _ اتنى بھى فرصت نہيں ملى كہ مہمانوں كے پاس بيٹھ كر ان سے ذرا دير باتيں كرتى _ حتى كہ ٹھيك سے سلام اور احوال پرسى بھى كرسكى ليكن مرد كو سوائے پريشانى اور غم و غصہ كے كچھ ہاتھ نہ لگا _ اتنا پيسہ خرچ كرنے كے بعد بھى كھانا ٹھيك سے نہيں پكا _ دعوت كركے پشيمانى اٹھانى پڑى ، ممكن ہے غم و غصہ كى شدت سے جھگڑا كرے اور تھكى ہارى بيوى كو سخت سست كہے _ اس طرح كى دعوت سے نہ صرف يہ كہ مياں بيوى كو كوئي فائدہ نہيں ہوتا بلكہ اكثر اوقات شديد اختلاف اور كشمكش كا باعث بنتا ہے اگر خيريت گزرگئي توطے كرليتے ہيں كہ آئندہ كبھى ايسا شوق نہيں كريں گے _
مہمان بھى چونكہ ميزبانوں كى پريشانى اور اضطرابى كيفيت سے باخبر ہوجاتے ہيں ان كو بھى اچھا نہيں لگتا اور كھانے پينے ميں ذرا بھى لطف نہيں آتا _ اپنے دل ميں كہتے ہيں كاش ايسى محفل ميں نہ آئے ہوتے بلاوجہ ہى ميزبان كو ہمارى وجہ سے پريشانى اٹھانى پڑى _
يقين سے قارئين كرام ميں سے كسى كو بھى ايسى دعوت اچھى نہيں لگے گى جو درد سر بن جائے اور آپ بھى اس ميں شركت سے گريز كريں گے _
كيا آپ جانتى ہيں ان تمام پريشانيوں كى وجہ كيا ہے ؟
اس كى وجہ صرف زندگى بدنظمى اور مہماندارى كے فن سے عدم واقفيت ہے ورنہ مہماندارى اتنا بھى دشوار كام نہيں ہے _
اب ايك اور نمونہ پر توجہ فرمايئے
مرد گھر ميں داخل ہوتا ہے بيوى سے كہتا ہے ميں نے جمعہ كى رات كو دس افراد كو كھانے كيدعوت دى ہے _ بيوى جواب ديتى ہے بہت اچھا كيا _ كيا كيا چيزيں تياركروں ؟ اس كے بعد دونوں باہم مشورہ كركے كھانے كى فہرست تيار كرتے ہيں اس كے بعد نہايت صبر و حوصلہ كے ساتھ دعوت كے لئے جن چيزوں كى ضرورت ہے اس كو مع مقدار كے ايك كا غذ پرنوٹ كرليتے ہيں _ ايك مرتبہ پھر اچھى طرح اس فہرست كو پڑھ ليتے ہيں كہ كہيں كوئي چيز رہ تو نہيں گئي _ دوبارہ اس كا جائزہ لينے كے بعد ان ميں سے جو چيزيں گھر ميں موجود ہيں ان كو كاٹ كر جن چيزوں كو خريدنا ہے اس كو ايك الگ كاغذ پر لكھ ليتے ہيں _ اولين فرصت ميں ان چيزوں كو خريد كرركھ ليتے ہيں ، جمعرات كے دن كہ ابھى مقررہ دعوت ميں ايك روز باقى ہے ، بعض كام انجام دے لئے ، مثلاً مياں بيوى اور بچوں نے فرصت كے وقت تعاون سے كام ليتے ہوئے گھر كى صفائي كر ڈالى _ سبزياں صاف كركے ركھ ليں _ چاول، دال كو چن ليا نمك دان ميں نمك بھر كے اس كى جگہ پر ركھ ديا _ ضرورت كے برتنوں كو نكال كے دھوليا _ مختصر يہ كہ جو كام پہلے سے انجام ديئےا سكتے ہيں ان كو تفريح كے طور پر سب نے مل كركرليا _ (بعض ڈشنر مثلاً فرينى يا دوسرى كوئي ميٹھى ڈش ايك دن پہلے تيار كركے فريج ميں ركھى جا سكتى ہے _ كبابوںكا قيمہ پيس كر فريج ميں محفوظ كيا جا سكتاہے ) جمعہ كى صبح كوناشتے سے فراغت كے بعد بعض كام انجام دے لئے مثلاً گوشت كے ٹكڑے كاٹ لئے _ مرغ كوصاف كركے بھوں ليا _ پياز كاٹ كے سرخ كرلى _ كھانوں كے مصالحے پيس لئے چاول بھكوديئے مختصر يہ كہ كچھ كام دو پہر سے پہلے انجام دے لئے _ ظاہر ہے ، جب يہ سارے كام صبر و حوصلے كے ساتھ انجام ديئےائيں گے تو بيوى كيلئے چنداں مشكل نہ ہوگى كہ باقى كاموں كو بھى انجام دے اور امور خانہ دارى كے دوسرے كاموں كو بھى آسانى سے كرسكے _ دو پہر كا كھانا كھانے كے بعد تھوڑا سا آرام كركے بقيہ كاموں ميں مشغول ہوگئيں _ كام زيادہ نہيں ہے كيونكہ اكثر كاموں كو توپہلے ہى كركے ركھ ليا ہے _ ساراسامان بھى ترتيب و سليقہ ہے ركھا ہے _ ايك دو گھنٹے كے اندر بغير كسى چيخ پكار اور دوڑبھاگ كے باقى كام انجام دے لئے _ اس طرح سے كہ رات كے لئے كوئي كام باقى نہ بچا _ اس كے بعد خود صاف ستھرے كپڑے پہن كرتيار ہوگئيں _ مہمانوں كے آنے كا وقت ہواتو پہلے سے چائے كا پانى ابلنے كو ركھديا _ اگر مہمان رشتہ دار اور محرم ہيں تو ان كے استقبال كيلئے خود آگےبڑھيں اور بغير كسى فكر و تردد كے ان كى خاطر مدارات ميں لگ گئيں _ بيچ ميں كبھى كبھى باورچى خانہ كا بھى ايك چكر لگاليا _ كھانے كے وقت نہايت اطمينان كے ساتھ سارا كھانا تيار ہے اگر ضرورى ہواتو شوہر اور بچوں سے بھى اس وقت مدد لے لى _ جلدى سے آسانى كے ساتھ كھانا چن ديا گيا _ مہمان بھى انتہائي خوشى و سكون كے ساتھ كھانا كھانے ميں لذت محسوس كريں گے اور اس طرح مسرت و انبساط كے ماحول ميں دعوت ختم ہوگئي _
نتيجہ : مہمان لذيذ اور مزيدار كھانوں كى لذت كے ساتھ ساتھ ، انس و محبت كى نعمت سے بھى لطف اندوز ہوں گے اور پر مسرت ماحول ميں فرحت حاصل كريں گے _ اس رات كى خوشگوار يادوں اور ميزبان كے بشاش چہرہ كو فراموش نہيں كريں گے _ ميزبانوں كى گرمجوشى اورخاتون خانہ كے سليقے كى تعريف كريں گے _ مياں بھى نہايت اطمينان و سكون كے چند گھنٹے مہمانوں كے ساتھ گزاركرسالم اور بہترين تفريح كرليتا ہے ،چونكہ اپنے دوستوں كى اچھى طرح سے خاطر مدارات كر سكاہے اس لئے خوش و خرّم ہے اور ايسى باسليقہ بيوى كے وجود پر جس نے اپنے ذوق و سليقہ سے ايسى عمدہ دعوت كا اہتمام كيا ہے فخركرتا ہے اور ايسى لائق بيوى اور گھر سے اس كى دلچسپى اور زيادہ بڑھ جاتى ہے _
بيوى نے بھى چونكہ صبر و سكون كے ساتھ دعوت كا انتظام كيا تھا اس لئے وہ بھى تھكن سے چور، چور نہيں ہے غصہ اور پريشانى كے عالم ميں نہيں ہے اپنے شوہر اور مہمانوں كے سامنے سربلند ہے اور خوش ہے كہ بغير كسى پريشانى اور الجھن كے مہمانوں كى اچھى طرح سے خاطر تواضع كى گئي _ اپنى لياقت اور سليقے كا ثبوت دے كر اپنے شوہر كے دل كو اپنے بس ميں كرليتى ہے _ ان دونوں نموں كو ملاحظہ كرنے كے بعد آپ غور كريں كہ كون سا طريقہ كا رد رست تھا اور آپ كس كا انتخاب كريں گى _
امين خانہ
گھر كے اخراجات كا انتظام عموماً مرد كے ذمہ ہوتا ہے _ مرد شب و روز محنت كركے اپنے خاندان كى ضروريات پورى كرتا ہے _ اس دائمى بيگارى كو ايك شرعى اور انسانى فريضہ سمجھ كروں و جانسے انجام ديتا ہے _ اپنے خاندان كے آرام و آسائشے كى خاطر ہر قسم كى تكليف و پريشانى كو خندہ پيشانى سے برداشت كرتا ہے اور ان كى خوشى ميں لذت محسوس كرتا ہے _ ليكن گھر كى مالكہ سے توقع ركھتا ہے كہ پيسے كى قدروقيمت سمجھے اور بيكار خرچ نہ كرے _ اس سے توقع كرتا ہے كہ گھركے اخراجات ميں نہايت دل سوزى اور عاقبت انديشى سے كام لے _ يعنى زندگى كى ضروريات اور اہم چيزوں كى درجہ بندى كركے ، ضرورى خرچوں مثلاً خوراك ، ضرورى پوشاك ، مكان كا كرايہ ، سجلى ، پانى ڈاكٹر و دوا كے اخراجات كو تمام دوسرے امور پر ترجيح دے اور نيم ضرورى چيزوں مثلاً گھر كے سامان و غيرہ كو دوسرے نمبر پر ركھے اور غير ضرورى چيزوں كو تيسرے نمبر پرركھے ، فضول خرچى ، اسراف اور بيجا بخششوں كو وہ ايك قسم كى ناقدرى اور ناشكرى سمجھتا ہے _
مرد كو اگر بيوى پر اعتماد ہوجائے اور سمجھ لے كہ اس كى محنت كى كمائي كو فضول خرچيوں ميں نہيں اڑايا جائے گا تووہ فكر معاش اور آمدنى بڑھانے ميں زيادہ دلچسپى لے گا اور خود بھى تن پرورى اور فضول خرچى سے گريز كرے گا ليكن اگر اپنى محنت كى كمائي كو برباد ہوتے ديكھتا ہے كہ گھر والى غير ضرورى لباس اور اپنى آرائشے اور زيب وزينت كے اسباب كو تمام ضرورى چيزوں پر مقدم سمجھتى ہے اور مشاہدہ كرتا ہے كہ رات دن محنت كركے جو كچھ كماكرلاتاہے وہ غير ضرورى اشياء پر خرچ ہوجاتا ہے اور ضرور ى اخراجات كے لئے ہميشہ پريشان رہنا پڑتا ہے اور قرض لينے كى نوبت آجاتى ہے اور اس كى خون پسينے كى كمائي مال غنيمت كى طرح بيوى بچوں كے ہاتھوں لٹا ى جارہى ہے ايسى صورت ميں گھر پر سے اس كا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور محنت مشقت كرنے سے بيزار ہوجاتا ہے _ اپنے دل ميں سوچتا ہے كہ كوئي ضرورت ہى نہيں ہے كہ ميں اس قدر زحمت اٹھاكركماكے لاؤں اورناقدرى كرنے والوں كے حوالے كردوں كہ فضول خرچيوں ميں پيسے اڑاديں _ ميں ضروريات زندگى مہيا كرنے اور عزت و آبرو قائم ركھنے كے لئے محنت كرتا ہوں ليكن ميرے گھروالوں كو سوائے فضول خرچى اور ہوا وہوس كے اور كچھ فكر ہى نہيں ہے _
ممكن ہے رفتہ رفتہ افكار كے نتيجہ ميں وہ بھى عياشى اور فضول خرچى كرنے لگے اور آپ كى زندگى كا شيرازہ بكھر جائے
خواہر عزيز اگر آپ كا شوہر جو كچھ كماكرلاتاہے وہ سب آپ كے حوالے كرديتا ہے تو يہ نہ سمجھئے كہ اس كى حقيقى مالك آپ ہوگئيں _ بلكہ شرعاً اور قانوناً آپ كا شوہر مالك ہے _ آپ گھر كى امين ہيں اس لئے تمام اخراجات اس كى مرضى و اجازت سے انجام پانے چائيں _ اس كى مرضى كے بغير آپ كو حق نہيں كہ كسى كو كوئي چيز دے ديں يا كسى كے يہاں تحفہ و سوغات لے جائيں _ حتى كہ اپنے يا اس كے رشتہ داروں كو بھى اس كى مرضى كے بغير تحفے تحائف نہ ديں _ آپ اپنے خاندان كى امانت دار ہيں اور اس سلسلے ميں آپ پر ذمہ دارى عائد ہوتى ہے اگر آپ خيانت كريں گى تو روز قيامت اس سلسلے ميں آپ سے بازپرس ہوگى _
پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : بيوى اپنے شوہر كے اموال كى نگہبان اور امانت دار ہوتى ہے اور اس سلسلے ميں اس كى ذمہ دارى ہوتى ہے _
ايك امور موقع پر آپ ارشاد فرماتے ہيں : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو اپنے بدن ميں خوشبو لگائے _ مزيدار كھانے تيار كرے _ گھر كے اخراجات ميں كفايت شعارى سے كام لے _ ايسى خاتون كا شمار خدا كے كاركنوں اور عمال ميں ہوگا اور جو شخص خدا كے لئے كام كرے اسے ہرگز شكست اور پشيمانى كا سامنا نہيں كرنا پڑے گا _
ايك عورت نے حضرت رسول خدا (ص) سے سوال كيا كہ شوہر كے تئيں بيوى كے كيا فرائض ہيں؟ آپ نے فرمايا: ا س كى مطيع ہو _ اس كے كہنے كى خلاف ورزى نہ كرے اور بغير اس كى اجازت كے كوئي چيز كسى كو نہ دے _
آنحضرت (ص) كا ارشاد گرامى ہے : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو كم خرچ ہو _
مسلم ممالک کا اتحاد، ایران سعودی مذاکرات
آج امت مسلمہ باہمی اختلافات و انتشار کا شکار ہے۔ فتنہ پرور قوتیں ان اختلافات سے سوئے استفادہ کر رہی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ اب اتحاد امت کی سخت ضرورت تھی اور ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم افراتفری اور قتل و غارت گری کے فتنوں میں مبتلا ہیں۔ایسے فتنے قوموں کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے روایت کی ہے کہ ہم بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے بہت سے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ ان فتنوں کا ذکر فرمانے کے بعد آپ نے سب سے خطرناک فتنے کا ذکر فرمایا۔ آپ نے بطور خاص "الاخلاص" فتنے کا ذکر فرمایا۔ ایک سائل نے عرض کی یارسول اللہ اخلاص کا کون سا فتنہ ہے؟ "قال ھی ھرب و حزب" فرمایا "یہ افراتفری اور قتل و غارت کا فتنہ ہے۔" (ابو داؤد السنن 90:4 رقم الحدیث :4242) انسانیت کو متحد کرنا اس امت کا سب سے بڑا مقصد تھا، بلکہ اس امت کا مقصود حیات انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے وحدہ لا شریک کی غلامی اور اس کی اطاعت کی طرف لانا تھا۔ مگر اس امت نے اپنا مقصود حیات دفن کر دیا ہے۔ اپنی زریں روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
یاد رکھیں کہ جب کوئی قوم اپنا مقصود حیات ترک کر دے تو وہ جیتے جی مر جاتی ہے۔ اسی لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
زندہ فرد از ارتباط جان و تن
زندہ قوم از حفظ ناموس کہن
مرگ فرد از خشکی رود حیات
مرگ قوم از ترک مقصود حیات
دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے، جس نے اجتماعیت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ عبادات کا ایک خوبصورت اجتماعی نظام دیا ہے۔ حج بیت اللہ سے لے کر عیدین تک اجتماعیت کی ایک قابل رشک شاہرہ بنا دی، تاکہ مسلمان اس پر چل کر اپنے مقصد حیات کو حاصل کر لیں۔ عالم اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع رہے تو بہت قابل عزت اور فاتح رہے۔ وہ خودار رہے، وہ کسی کے آگے کبھی نہ جھکے تھے۔ آج جو ذلت و رسوائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے امت کی ایمانی روشنی کو ختم کر دیا ہے، وہ ان کا اجتماعیت سے انحراف ہے۔
مسلم ممالک کے باہمی تعلقات کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں اور سب کے سب استعمار کی غلامی میں چلے گئے ہیں۔ وہ ہم سے ایسے فیصلے کرا رہا ہے، جو ہماری اسلامی غیرت و حمیت کے سراسر خلاف ہیں۔ آج پوری دنیا ملاحظہ کر رہی ہے کہ غزہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، اس تباہی کا ذمہ دار میرے مطابق امت مسلمہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ہم نے صیہونی بھیڑیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور وہ ہمارے بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین کو چیر پھاڑ کر ان کے جسموں کے ٹکڑے فضا میں بکھیر رہے ہیں۔ اگر ہم متحد ہوتے تو یقیناً ایسا کرنے کی ان درندوں کو کبھی جرات نہ ہوتی۔ الله کے رسول کا فرمان عالی شان ہے: "المومنون ید علی من سواھم۔" ترجمہ: "مومنین دوسروں کے مقابلہ میں ایک ہاتھ کی مانند ہیں۔۔۔" لیکن بہت افسوس سے لکھ رہا ہوں کہ ہاتھ کی مٹھی کی مانند رہنے والے انسان آج بکھر چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ رسوائی و ذلت کا شکار ہیں۔
یہ بات بہت قابلِ افسوس ہے کہ عرب ممالک نے دین اور مذہب کو غیر اہم سمجھنا شروع کر دیا ہے، بشمول سعودی عرب کے اب وہ ہر اہم معاملہ کو معاشی مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسلام کی قدر و منزلت ان ممالک میں آئے دن بہت کم ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور چند دیگر عرب ریاستیں امریکہ؛ اسرائیل اور بھارت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان عرب ممالک نے آزادی فلسطین کی تحریک کو عملاً بہت شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عرب ممالک کا مسلم ممالک کے حوالہ سے نقطہ نظر تبدیل ہوگیا ہے۔ اسلامی بھائی چارے اور اخوت اسلامی کی اہمیت بالکل ختم ہوگئی ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اسلامی جمہوری ایران کے درمیان کشیدگی بہت خطرناک ہے۔ اس کشیدگی میں یہ بدمست ہاتھی ایران کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، لیکن وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔
آج مشرق وسطی کے حالات بہت نازک صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ ہم استعمار کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد و یگانگت کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا عمل بہت درست ہے اور سعودی وزیر دفاع جناب شہزادہ خالد بن سلیمان کا دورہ ایران بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شہزادہ خالد کی ایرانی سپریم لیڈر معظم جناب سید علی خامنہ ای اور دیگر ایرانی اعلیٰ حکام سے ملاقات نہات خوش آیند ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر سفارتی کاوشیں کامیاب نہ ہوئیں تو امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی صدر کی یہ دھمکی گیدڑ بھبھکی کے سوا کچھ نہیں ہے، لیکن شہزادہ خالد بن سلیمان کا ایران کا دورہ بہت ہی مفید ہے۔
اس وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران نے سعودی وزیر دفاع کو بہت عزتوں سے نوازا ہے۔ ایرانی چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری نے بھی انہیں خوش آمدید کہا اور گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔ شہزادہ خالد انقلاب اسلامی کے بعد ایران کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی وزیر دفاع ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔ سعودی عرب اور اسلامی جمہوری ایران کا ایک دوسرے کے قریب تر آنا دونوں ممالک کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لئے بہت سود مند ہے۔ اگر یہ دو اہم مسلم ممالک اپنے اختلافات ختم کرکے ایک دوسرے کے قریب آجائیں تو امت مسلمہ ایک دفعہ پھر ناقابلِ شکست بن سکتی ہے۔
توکل کے معرفتی لوازم کیا ہے؟
بندے کو خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور نسبت کے بارے میں آگاہی اور کامل یقین حاصل ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی آیات میں ان یقینوں کی مختلف صورتیں نہایت واضح انداز میں بیان ہوئی ہیں۔
واضح کیا گیا ہے کہ توکل، معرفت اور شناخت کے بعد عمل اور اقدام کا متقاضی ہوتا ہے۔ لہٰذا توکل کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک معرفتی لوازم اور دوسرا عملی لوازم۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: «التَّوكُّلُ مِن قُوَّةِ اليَقينِ» (توکل، یقین کی قوت سے پیدا ہوتا ہے)۔
درج ذیل میں قرآن کی روشنی میں توکل کے معرفتی لوازم اور یقین کے چند مظاہر کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے:
- خدا کی مہربانی اور رحمت پر ایمان: سورۂ ملک میں ارشاد ہوتا ہے: «قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ آمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا» "کہہ دو: وہی رحمان ہے، ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اسی پر توکل کیا" (ملک: 29)۔ خدا کے علم کی وسعت پر یقین: قرآن مجید فرماتا ہے: «وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا» "ہمارا رب ہر چیز کا علم رکھتا ہے، ہم نے اللہ پر توکل کیا" (اعراف: 89)۔ یعنی اللہ کا علم لا محدود ہے، اور وہ ہماری بھلائی اور مصلحت کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ خدا کی خیرخواہی پر یقین: سورۂ توبہ میں فرمایا گیا: «قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ» "کہہ دو: ہمیں ہرگز کوئی چیز نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، وہ ہمارا مولیٰ ہے، اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے" (توبہ: 51)۔ یعنی مؤمن جانتا ہے کہ اللہ اس کا سرپرست ہے، اور اللہ اپنے بندے کے لیے کبھی برائی نہیں لکھتا، جو کچھ بھی مقدر ہے وہ خیر ہی ہے۔ اللہ کی ہدایت و قدرت پر ایمان: سورۂ ابراہیم میں آیا ہے: «وَ مَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَ قَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ» "اور ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ پر توکل نہ کریں جب کہ اسی نے ہمیں ہمارے راستے دکھائے؟ اور ہم یقیناً تمہاری ایذا رسانی پر صبر کریں گے، اور اللہ ہی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں" (ابراہیم: 12)۔
خالد بن سلمان نے سعودی عرب کے بادشاہ کا پیغام رہبر انقلاب اسلامی کو پیش کیا
سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان نے جمعرات کی شام کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو دونوں ملکوں کے لیے مفید قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کو مکمل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ بعض عناصر اور طاقتیں تہران اور ریاض کے تعلقات کی دشمن ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دشمنانہ ارادوں پر غلبہ حاصل کیا جائے جس کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران مکمل طور پر تیار ہے۔
آپ نے مختلف شعبوں میں ایران کی قابل دید ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ان شعبوں میں سعودی عرب کی مدد کرنے کی مکمل آمادگی رکھتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر فرمایا کہ علاقے کے برادر ممالک کا باہمی تعاون، دوسروں پر تکیہ کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
اس ملاقات کے دوران جس میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری بھی موجود تھے، خالد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب بھی تمام شعبوں میں ایران کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں، سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ فروغ پائیں گے۔
خالد بن سلمان نے اس موقع پر سعودی عرب کے بادشاہ کا پیغام بھی رہبر انقلاب اسلامی کو پیش کیا۔
ہم جنگ میں کامیاب ہوئے کیونکہ صیہونی رژیم اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی، شیخ نعیم قاسم
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا: لبنانی مزاحمت نے بڑی قربانیاں دے کر اسرائیلی جارحیت کو روکا اور دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شدید حملوں کے باوجود مزاحمتی فورسز اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنانے اور اپنے وطن کا دفاع کرنے میں کامیاب رہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ان فتوحات میں شہید صفی الدین اور دیگر شہداء جیسے ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ اسرائیل توسیع پسند ہے اور وہ صرف مقبوضہ فلسطین پر قناعت نہیں کرتا بلکہ لبنان پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مزاحمت کمزور نہیں ہوئی، واضح کیا کہ جو بھی مزاحمت کو کمزور سمجھتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
انہوں نے صیہونی قبضے کے خلاف لبنانی حکومت کے ردعمل کے بارے میں کہا کہ اگر حکومت اپنی سرزمین اور لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی ہے تو پھر طبیعی طور پر مزاحمت ایسا کرے گی۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی 2700 بار خلاف ورزی کی ہے۔ صہیونی حکومت کو جارحیت کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ معاہدے کے تحت اب تک جنگ ختم ہونا چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس صہیونی حکومت نے اب تک 2700 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے گویا معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے ہر کام اس نے انجام دیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے عزائم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے تک محدود نہیں بلکہ وہ لبنان کی مکمل طور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے۔
اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابضین جنوبی لبنان سے ہرگز بے دخل نہ ہوتے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابضین کو جنوبی لبنان سے بے دخل نہ کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی مزاحمت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے گزشتہ چار دہائیوں میں شاندار اور متاثر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت اسرائیل کے ساتھ جنگ کا فیصلہ کرتی ہے تو ہم اس کے ساتھ ہوں گے، تاہم یہ فیصلہ حکومت پر منحصر ہے۔
فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے
شیخ نعیم قاسم نے فلسطین کے لیے حزب اللہ کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم قائد مقاومت شہید نصراللہ کے جانشین ہیں۔
صیہونی حکومت کی جارحیت کے بارے میں اسلامی ممالک کا کیا موقف ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں صیہونی حکومت نے مسجد الاقصی پر قبضے کی کوشش کی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک کا صیہونی حکومت کی خلاف ورزیوں پر کیا موقف ہے؟
امریکہ شیطان بزرگ ہے
لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمارے نقطہ نظر سے صیہونی حکومت ایک جرثومہ ہے۔ امریکہ کے بارے میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ لبنان کے لیے امریکہ کی ڈکٹیشن پر عمل کرنا ناممکن ہے، ہم امریکہ کو شیطان بزرگ سمجھتے ہیں۔
امریکا نے جنگ چھیڑی تو ایران فاتح ہوگا
کرنل لارنس ولکرسن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کے چیف آف اسٹاف تھے۔ آج وہ یوکرین میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی جنگ، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کے امریکی اسرائیلی منصوبوں کے سب سے بڑے امریکی ناقدین میں سے ہیں۔ ولکرسن اور ان کے سابق فوجی ساتھیوں کو بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ چھڑتی ہے تو فتح ایران ہی کی ہوگی اور یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی، جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔ ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُس وقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔"
ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ امریکی حمایت یافتہ صدام حسین نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، لیکن وہ ایرانی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں لے سکے۔ میں خود اُس بے ترتیب اور بمشکل دو فٹ چوڑی سڑک پر چلا ہوں، جو کبھی خرمشہر کہلانے والے مکمل تباہ شدہ شہر کے ملبے سے گزرتی ہے۔ اس بارودی سرنگوں سے بھری زمین پر ایک بھی غلط قدم موت کا باعث بن سکتا ہے۔۔۔ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے رائٹرز کے ساتھی نجم الحسن کے ساتھ ہوا۔“ جنگ بالآخر اس وقت ختم ہوئی، جب خلیج میں ایک امریکی جنگی جہاز نے بظاہر غلطی سے ایک ایرانی ایئربس کو مار گرایا، جس سے 1988ء میں سیکڑوں شہری مارے گئے۔
ایران نے اس کے بعد عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر مزاحمتی گروہوں کو جنم دیا اور انہیں آزاد فلسطین کی جدوجہد کے دفاع کے لیے تربیت دی۔ اگرچہ یمن میں حوثی حکومت اور اس کے جنگجو اب ایران سے مدد نہیں لیتے، لیکن وہ طاقتور اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جیسا کہ انہوں نے سعودی قیادت میں لڑنے والی جنگی مشینری کے خلاف کیا تھا۔ ایران کی طرح وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو بھی ہو یکجہتی کے لیے کھڑے رہیں گے۔ تو ایران ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے تیار ہے۔؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہونے بلکہ اپنے تمام میزائلوں کو ختم کرنے کا مطالبہ نہ مانا، تو وہ ایران پر پہلے سے کئی زیادہ شدید بمباری کرے گا۔
جس پر ایران کا کہنا ہے کہ ایسی دھمکیاں کارگر نہیں ہوں گی، مگر متوازن اور سنجیدہ سفارت کاری ممکنہ حل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ہفتے کے روز عمان میں مثبت انداز میں ختم ہوا اور کئی کشیدہ دنوں کے بعد واضح طور پر اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ٹرمپ کے لیے جنگ کا آپشن ممکن نہ رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کو اسرائیل میں اپنے خلاف اٹھتی ہوئی عوامی مزاحمت کا سامنا اکیلے ہی کرنا پڑے گا۔ یہ منظر ان چار نعروں کی یاد دلاتا ہے، جو ایران میں نمازیوں نے 1980ء کی دہائی میں تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے دوران بلند کیے تھے۔ جب پارلیمنٹ کے اسپیکر ہاشمی رفسنجانی بائیں ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر اپنے خطبے کے درمیان اشارہ کر رہے تھے، ہجوم نے امریکا، اسرائیل، سوویت یونین اور صدام حسین مردہ باد کے نعرے لگائے، شاید اسی ترتیب سے۔ جن میں سے ان کی دو خواہشیں تو پوری ہوگئیں اور باقی دو اپنے جمہوری نقاب کو بچانے اور اپنے بےچین عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے کٹھن جدوجہد میں مصروف ہیں۔
کس چیز نے کرنل ولکرسن میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ جنگ میں ایران فاتح ہوگا؟ یہ اعتماد اُن روایتی حوالوں کے بغیر سامنے آیا، جو عموماً ویتنام اور افغانستان میں امریکی افواج کی ذلت آمیز ناکامیوں کے تناظر میں دیئے جاتے ہیں۔ ولکرسن نے ایرانی فتح کا یہ دعویٰ امریکی وار گیمز کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ ایران کے ساتھ ہونے والی فوجی مشق ملینیم چیلنج 2002ء MC02 کے کمپیوٹرائزڈ نتائج نے امریکی فوجی حکمت عملی میں نمایاں کمزوریوں کا انکشاف کیا۔ اس مشق میں ایران کو ریڈ ٹیم اور امریکا کو بلیو ٹیم سونپی گئی تھی۔ ایران کی ریڈ ٹیم کی قیادت ریٹائرڈ میرین لیفٹیننٹ جنرل پال وان رائپر کر رہے تھے۔ انہوں نے تباہ کن اثر کے لیے غیر روایتی حربوں کا استعمال کیا۔ موٹر سائیکل میسنجر، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کوڈڈ سگنلز اور میزائلوں سے لیس چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے، ریڈ ٹیم نے ایک حیرت انگیز حملہ کیا، جس نے بلیو ٹیم کو تباہ کر دیا۔
ایک بڑے کروز میزائل سالو نے ایک طیارہ بردار بحری جہاز سمیت 16 امریکی جنگی بحری جہازوں کو غرق کر دیا اور 20 ہزار سے زائد اہلکاروں کو فرضی طور پر ہلاک کر دیا۔ ایرانی ریڈ ٹیم نے اس کمپیوٹرائزڈ حملے میں جدید ٹیکنالوجی اور مضبوط ڈھانچے پر امریکی بلیو ٹیم کی خامیوں سے فائدہ اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ ٹیم کی واضح کامیابی کے بعد پینٹاگون نے مشق کو معطل کر دیا، بلیو فورسز کو تباہ کر دیا اور ریڈ ٹیم کی حکمت عملی پر پابندی لگا دی۔ ریڈ ٹیم کو طیارہ شکن ریڈار پوزیشنوں کو ظاہر کرنے، چھاتہ برداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے اور بلیو کی حتمی فتح کو یقینی بنانے والے اسکرپٹ پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ وان رائپر نے اسے مشق کے مقصد سے غداری قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 25 کروڑ ڈالر کی فرضی جنگ کو دونوں فریقوں کی طاقت کے حقیقی امتحان کے بجائے موجودہ امریکی عقائد کی اسکرپٹڈ توثیق میں تبدیل کر دیا گیا۔
وار گیمز میں کہیں بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کا امکان موجود نہیں تھا۔ اس کا سہرا ایران کی سخت گیر قیادت کو جاتا ہے، جو ایٹمی بم بنانے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای شاید کسی وقتی ایوارڈ کو قبول نہیں کریں، چہ جائیکہ انہیں نوبل امن انعام کی پیشکش کی جائے۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا مگر کم سراہا گیا اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے قابل احترام رہنماء اس اہم اقدام کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے اس فیصلے سے ان کے لوگ تباہ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ایران اور اس کے اعلیٰ رہنماؤں کی اخلاقیات تعریف کی مستحق ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جمع کرنے کے خلاف خامنہ ای کے 2003ء کے فتوے نے دنیا کو ناقابل بیان نقصان سے بچانے میں ایک غیر معروف کردار ادا کیا ہے۔
ایران اور بالخصوص اس کی اعلیٰ قیادت کی اخلاقی بنیاد بھرپور داد و تحسین کی مستحق ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا 2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف دیا گیا فتویٰ ایک خاموش مگر مؤثر کردار ادا کرتا رہا ہے، جس نے دنیا کو بڑی تباہی سے بچائے رکھا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای پر اپنے ہی ہم وطنوں کی جانب سے بے پناہ دباؤ ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت دیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ یہی واحد راستہ ہے، جس سے اسرائیل کو قابو اور امریکی صدور کی جانب سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر خامنہ ای اپنی اس فطری دانش کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایٹم بم ایک غیر اخلاقی ہتھیار ہے اور اس مؤقف پر ہم ان کے مشکور ہیں۔
https://beta.dawnnews.tv/news
تحریر: جاوید نقوی
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی
دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔
اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔
چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔
آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔
بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں، فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"
جمع بین صلاتین کا مسئلہ
نماز مخلوقات کے لئے خالق سے رابطہ کیلئے بہترین ذریعہ ، تربیت کا بہترین وسیلہ ، تہذیب اور خودسازی کا عالی ترین برنامہ ، برائیوں سے دور رہنے کا موجب اور حق تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور نماز باجماعت مسلمین کی قدرت ، وحدت اور بیداری کی بہترین نمائش ہے۔
نمازدن بھر میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اسطرح انسان کی روح دائم پروردگار کے چشمہ زلال یعنی نماز سے پاک و صاف ہوتی رہتی ہے ، آنحضرتۖ نماز کو اپنی آنکھوں کی روشنی کہا کرتے تھے : '' قرة عینی فی الصلاة'' ١اور اسے مومنوں کی معراج کا نام دیا کرتے تھے : '' الصلوة معراج المومن '' ؛ ٢جوبارگاہ الہی میں پرہیزگاروں کے تقرب کا باعث ہے :'' الصلاة قربان کل تقی '' ۔ ٣
یہاں پر ہماری بحث پنجگانہ نمازوںکے سلسلہ میں ہے کہ کیا انہیں معین اوقات میں بجالانا ایک واجب ہے کہ جس کے بغیر وہ باطل ہے ( جس طرح کہ وقت سے پہلے نماز کو ادا کرنا اس کے بطلان کا موجب ہے )یا انہیں تین اوقات میں انجام دیا جاسکتا ہے یعنی ظہر وعصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کوایک ساتھ انجام دینا صحیح ہے ؟۔
شیعہ علماء اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے نماز کو تین اوقات میں انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اگر چہ افضل یہ ہے کہ انہیں ان کے مخصوص اوقات میں انجام دیا جائے ۔
لیکن اہلسنت کے بیشتر فقہاء پنجگانہ نمازوں کو ان کے اوقات میں انجام دینے کو واجب کہتے ہیں ( وہ لوگ صرف عرفات میں روز عرفہ نماز ظہر وعصر کوایک ساتھ اور مشعر الحرام میں عید الضحیٰ کی رات میں نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور بیشتر فقہاء نے سفر میں یا بارش کے دوران جماعت کی تشکیل کی زحمت کے باعث دونمازوں کے اجتماع کو جائز قرار دیا ہے )
شیعہ فقہاء کے نزدیک اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں بجا لانا افضل ہے لیکن دو نمازوں کو جمع کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ یہ بندوں کے حق میںایک قسم کی سہولت ہے جو انہیں دی گئی ہے نیز یہ سہولت روح اسلام ( شریعت سمحة و سھلة ) سے سازگار بھی ہے ۔
بلکہ تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ پانچ نماز وں کو ان کے اوقات میں بجالانے کی تاکید نماز سے غفلت اور اسے اہمیت نہ دینے کا موجب ہے اور اس تاکید کی وجہ سے بہت سے لوگ نماز سے دور ہوجاتے ہیں ۔
اسلامی سماج میں پنجگانہ اوقات پر اصرار کے آثار
کیوں اسلام نے روز عرفہ اور شب مشعر میں دونمازوں کے اجتماع کی اجازت دی ہے ؟
کیوں اہلسنت کے بیشتر فقہاء نے حدیث نبوی کی روشنی میں سفر اور بارش کے دوران دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اجازت امت کی سہولت کی خاطر ہے ۔
اس سہولت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسری مشکلات کے سامنے بھی دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی جائے اور یہ اجازت کسی خاص زمان سے مخصوص نہیں ہے اس لئے کہ ہمارے دور میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی بالکل بدل چکی ہے ، کارخانوں اور ادارہ جات میںمیں کام کرنے والے اورکلاسوں میں شرکت کرنے والے طالب علموں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ پانچ وقتوں میں پنجگانہ نمازوں کو ادا کرسکیں ۔
لہذا اگر لوگوں کو پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں دونمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کی اجازت دی تو وہ اپنے امور کو بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں او ر بروقت نماز کے لئے حاضر بھی ہوسکتے ہیں جو نماز کی صفوں میں افزائش کا باعث ہے وگرنہ صفیں خالی اور نماز کو ترک کرنے والوں کی کثرت ہوجائے گی اسی وجہ سے اہلسنت کے بہت سے جوانوں نے نماز کو ترک کردیا ہے حالانکہ شیعوں کے درمیان نماز کو ترک کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔
حق تویہ ہے کہ '' بعثت الی الشریعة السمحة السهلة '' اور آنحضرت ۖ سے منقول روایات کی روشنی میں پنجگانہ اوقات میں نماز کی ادائیگی کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ لوگوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ اپنی پنجگانہ نماز وں کو تین وقتوں میں ادا کریں تاکہ زندگی کی مشکلات انہیں نماز کو ترک کرنے پر مجبور نہ کرے ۔
اس کے بعد قرآن مجید ، آنحضرت ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں بحث کو ادامہ دیں گے تاکہ یہ مسئلہ کسی تعصب کے بغیر حل ہوسکے ۔
دونمازوں کے اجتماع پر روایات کی تائید
اہلسنت کے مشہور منابع صحیح مسلم ، بخاری ، سنن ترمذی، موطامالک، مسند احمد، سنن نسائی ،مصنف عبد الرزاق اور دیگر کتابوں میں دونمازوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں کسی سفر یا بارش یا اضطرارکی علت کے بغیرتیس روایتیں نقل ہوئیں ہیں جو پانچ راویوں سے ہیں:
١۔ ابن عباس
٢۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری
٣۔ عبد اللہ ابن عمر
٤۔ ابو ہریرہ
٥۔ابو ایوب انصاری
مذکورہ راویوں کی بعض روایات کو ملاحظہ کریں:
١۔ ابوزبیر سعید بن جبیر اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' صلی رسول الله ۖ الظهروالعصرجمیعابالمدینةفی غیرخوف و لاسفر''؛رسول اللہ ۖنماز ظہر و عصر کو کسی خوف اور سفر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ ابوزبیر کہتے ہیں : میںنے سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر ۖ اس طرح نماز ادا کیا کرتے تھے ؟
سعید نے جواب دیا: میںنے بھی یہی سوال جب ابن عباس سے کیا تو انھوںنے نے جواب دیا:'' اراد ان لایحرج احدا من امته'' ؛ آنحضرت ۖ کی نیت یہ تھی کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں نہ پڑے ۔ ۴
٢۔ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس فرماتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر''؛ آنحضرت ۖ نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو کسی بھی خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ایک ساتھ ادا کی ۔ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ اس سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟تو جواب دیا: '' اراد ان لایحرج ''؛ یعنی آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں پڑے ۔ ۵
٣۔عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : '' خطبنا ابن عباس یوما بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة الصلاة ! قال فجائه رجل من بنی تمیم لا یفتر ولایتنی : الصلوة الصلوة فقال: ابن عباس اتعلمنی بالسنة ، لاام لک ثم قال : رایت رسول الله ۖ جمع بین الظهر و والعصر والمغرب والعشاء قال عبد الله بن شقیق : فحاک فی صدری من ذلک شیء فاتیت اباهیرة فسالته ، فصدق مقالته ؛
عبدا للہ بن شقیق کہتے ہیں : ایک روزجب ابن عباس نے ہمارے درمیان عصر کے بعد خطبہ کا آغاز کیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے ظاہر ہوگئے تو لوگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ''نماز نماز'' اس کے بعد بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور مرتب نماز نماز کہے جارہا تھا ، جناب ابن عباس نے اس سے کہا: کیا تو مجھے پیغمبر ۖ کی سنت کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اے بے بنیاد ! آنحضرت مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ، عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : میرے دل میں شک پید اہوا لہذا میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس نے ابن عباس کی بات کی تصدیق کی !۔ ۶
٤۔ جابر بن زید کا بیان ہے کہ جناب ابن عباس نے فرمایا: '' صلی النبی سبعا جمیعا و ثمانیا جمیعا'' ؛ پیغمبر ۖ نے سات رکعت ایک ساتھ اور آٹھ رکعت ایک ساتھ پڑھی ( جو مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے )۔۷
٥۔سعید بن جبیر جناب ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینة من غیر خوف ولا مطر قال : فقیل لابن عباس: مااراد بذلک ؟ قال : اراد ان لایحرج امته''؛ پیغمبر ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر وعصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ، کسی نے جناب ابن عباس سے سوال کیا: اس فعل سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟ فرمایا: آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت زحمت میں پڑے ۔ ۸
٦۔احمد بن حنبل نے اسی مضمون کی روایت جناب ابن عباس سے اپنی مسند میں ذکر کی ہے ۔ ۹
٧۔ اہل سنت کے معروف امام'' مالک ''اپنی کتاب'' موطا ''میں مدینہ کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے جناب ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: '' صلی رسول اللہ ۖ الظهر والعصر جمیعا و المغر ب والعشاء جمیعا فی غیر خوف و لاسفر'' آنحضرت ۖ نمازظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو بغیر کسی خوف اور بارش کے ایک ساتھ ادا کیا کرتے تھے ۔ ۱۰
٨۔ کتاب ''مصنف عبد الرزاق '' میں مذکور ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے کہا: '' جمع لنا رسول الله ۖ مقیما غیر مسافر بین الظهر والعصر والمغرب فقال رجل لابن عمر : لم تری النبی ۖ فعل ذلک ؟ لان لا یحرج امته ان جمع رجل ''؛ پیغمبر اکرم ۖ نے اس حال میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء کو جمع کیا کہ آپ مسافر نہیں تھے ، کسی نے ابن عمر سے سوال کیا: پیغمبر ۖ کے اس عمل کی علت کیا ہوسکتی ہے ؟ کہا: اگر کسی شخص نے ان نمازوں کو جمع کیا تو ان کی امت کا کوئی فرد زحمت میں نہ پڑے( اور اس پر اشکال نہ کیا جائے ) ۱۱
٩۔جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں : ''جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة للرخص من غیر خوف ولاعلة ''؛ رسول اللہ ۖ نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا تاکہ امت کے پاس بغیر کسی خوف و علت کے ان نمازوں کو جمع کرنے کا جواز رہے ۔ ۱۲
١٠۔ ابوہریرہ کا بیان ہے : '' جمع رسول الله ۖ بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف ''؛ آنحضرت ۖ مدینہ میںدونمازوں کو کسی خوف کے بغیر جمع کیا کرتے تھے ۔ ۱۳
١١۔ عبد اللہ بن مسعود نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الاولیٰ والعصر والمغرب والعشاء فقیل له فقال : صنعته لئلا تکون امتی فی حرج '':
آنحضرت ۖ نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا ، جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے تاکہ میری امت زحمت میں نہ پڑے ۔ ۱۴
یہاں پر دو سوال کیا جاتا ہے
١۔ مذکورہ احادیث کا نتیجہ
وہ تمام حدیثیں جنہیں ہم نے ذکر کیا ہے اہل سنت کی تمام مشہور کتابوں میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی سند معروف صحابہ تک پہنچتی ہے ، یہ سب کی سب دو نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
١۔ آنحضرت ۖ نے دونمازوں کو کسی خوف یا بارش یا سفر کے بغیر پڑھا ہے ۔
٢۔ آنحضرتۖ کا مقصد امت کی آسائش اور ان سے زحمت کو دور کرنا تھا ۔
ان تمام روایات کے ہوتے ہوئے کیاپھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنا اضطراری صورت میںجائز ہے ؟ کیوں ہم اپنی آنکھوں کو حقیقت سے چھپالیں اور آنحضرت ۖ کی سنت کے ہوتے ہوئے اپنے نظریات کو برتر سمجھیں؟!
خدا اور اس کے رسولۖ نے بخش دیا ہے لیکن اس امت کے متعصب حضرات بخشنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، آخر کیوں ؟! کیوں وہ نہیں چاہتے کہ ایک مسلمان جوان ہر جگہ اور ہر حال میں ، اسلامی اور غیر
اسلامی ممالک ، آفس اور کارخانوں میں اسلام کا سب سے اہم فریضہ نماز کو آسانی سے ادا کرے؟
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام تا قیام قیامت ہرزمان ومکان کے لئے ہے اور یہ چیز حتمی ہے کہ آنحضرت ۖ آنے والے مسلمانوں اور زمانوں سے باخبر تھے لہذا اگر مسلمانوں کو پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کے لئے مقید کردیتے تو پھر نماز ترک کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ( جیسا کہ آج واضح ہے ) اسی وجہ سے آنحضرت ۖ نے اپنی امت پر کرم کیا تاکہ ان کی امت کے لوگ نماز کو جہاں چاہیں آسانی سے ادا کرسکیں ۔
قرآن مجید فرماتا ہے :( وما جعل علیکم فی الدین من حرج) ۱۵؛ ترجمہ : تمہارے لئے دین میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
٢۔ قرآن اور نماز کے اوقات
ہم جب قرآن کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں تو ملاحظہ کرتے ہیں کہ خود قرآن مجید نے نماز کے لئے تین وقت بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز پانچ وقتوں میں واجب ہے ۔
ہمیں پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا انکار نہیں ہے بلکہ اگرہمیں بھی اتنی فرصت مل جائے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کریں تو کبھی بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن کیا ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے ؟
قرآن کی پہلی آیت سورہ ہود میں ہے : ( واقم الصلوة طرفی النهار وزلفا من اللیل ) ۱۶ ؛اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں۔
'' طرفی النہار'' کی تعبیر نماز صبح کی طرف اشارہ ہے کہ جسے اول صبح میں ادا کی جاتی ہے اور نماز ظہرین کا وقت مغرب تک باقی رہتا ہے یعنی نماز ظہرین کے وقت کا مغرب تک باقی رہنا اس آیت سے بخوبی واضح ہے ۔
لیکن '' زلفا من اللیل '' کی تعبیر میں '' زلف'' کا مطلب'' مختار الصحاح '' اور'' کتاب مفردات '' کے مطابق '' زلفة'' کی جمع ہے جو اول شب کے ایک حصہ کے معنی میں ہے یعنی نماز مغربین کی طرف اشارہ ہے ۔
لہذا اگر پیغمبر ۖ نے نماز کو پانچ وقتوں میں ادا کیا ہے تو حتما ًان اوقات کی فضیلت تھی کہ جس کے ہم بھی معتقد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کی آیت کے ظہور سے صرف نظر کرلیں اور دیگر تاویلات کا سہارا لیں ؟! قرآن کی دوسری آیت سورہ بنی اسرائیل میں ہے : ( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشهودا) ؛ ۱۷
'' دلوک'' مائل ہونے کے معنی میں ہے اور اس آیت میں سورج کا نصف النہار کی لائن سے مائل ہونے کے معنی میں ہے یعنی اس سے مراد زوال ظہر ہے ۔
'' غسق اللیل '' رات کے معنی میں ہے لیکن بعض لوگوں نے اوائل شب اور نصف شب کے معنی کئے ہیں اس لئے کہ '' مفردات '' کے مطابق '' غسق ' ' شدید تاریکی کو کہتے ہیں جس کا نصف شب پر اطلا ق ہوتا ہے ۔
لہذا '' دلوک الشمس'' نماز ظہرین کے وقت کی ابتدا اور '' غسق اللیل '' نماز مغربین کے وقت کے تمام ہونے کی طرف اشارہ ہے اور '' قرآن الفجر'' نماز صبح کی طرف اشارہ ہے ۔
ان دو آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز یومیہ کے لئے صرف تین وقت ہیں لہذاانتین اوقات میں نماز کا ادا کرنا جائز ہے ۔
فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں قابل توجہ نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ : '' ان فسرنا الغسق بظهور اول الظلمة ۔ وحکاہ عن ابن عباس عطا وانضر بن شمیل ۔ کان الغسق عبارة عن اول المغرب وعلی هذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزوال ووقت اول المغرب ووقت الفجر وهذا یقتضی ان یکون الزوال وقتا للظهر والعصر فیکون ھذا الوقت مشترکا بین الصلوتین وان یکون اول المغرب وقتا للمغرب والعشاء فیکون هذا الوقت مشترکا ایضا بین ہاتین الصلوتین فهذایقتضی جواز الجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء مطلقا '' ۱۸ ؛ جب بھی '' غسق'' کے معنی اول شب کی تاریکی کے لئے جائیں گے ۔ جیسا کہ ابن عباس ، عطا اور نضر بن شمیل اسی نظریہ کے قائل ہیں۔ تو اس کا معنی اول مغرب کے ہوں گے لہذا اس آیت میںصرف تین وقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : وقت زوال ، وقت اول مغرب اور وقت فجر۔
اس کے بعد اضافہ کرتے ہیں: پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زوال سے مراد نماز ظہرین ہوگی جس میں یہ دونوں نمازیں مشترک ہیں اور اول مغرب سے مرادنماز مغربین ہوگی اور یہ بھی نماز ظہرین کی طرح اول مغرب میں مشترک ہو گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نماز ظہر و عصر کو اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہو۔
ابھی تک فخر رازی نے انصاف سے کام لیا اور بخوبی مذکورہ آیت کی تفسیر کی لیکن ادامہ دیتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ دونمازوں کو کسی عذر اور سفر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے لہذا اس آیت کو عذر سے مختص قرار دیتے ہیں ۔
لیکن ہم فخر رازی سے یہ کہیں گے کہ اس مدعا کے لئے نہ تنہا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد روایات ہیں جو اس مدعا کے خلاف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ آنحضرت ۖ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو کسی عذر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے نماز ادا کرنا آسان ہو اور کن اصول کی بنیاد پر مذکورہ آیت کو عذر سے مختص کیا جاسکتا ہے ؟حالانکہ علم اصول کے مطابق تخصیص اکثر جائز نہیں ہے ۔
بہرحال کسی بھی حال میں مذکورہ آیت کے ظہور سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
نتیجہ بحث
١۔ قرآن مجید نے پنجگانہ نماز کے لئے تین وقتوں کو بیان کیا ہے ۔
٢۔ فریقین کی مروی روایات کے مطابق آنحضرت ۖ نے دونما
زوں کو کسی بھی عذر کے بغیر پڑھا ہے تاکہ امت زحمت سے بچی رہے ۔
٣۔ اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں ادا کرنا فضیلت رکھتا ہے لیکن اس فضیلت پر اصرار اور جوازکے انکار سے بہت سے لوگ مخصوص جوانوں کا طبقہ نماز سے دور ہوجائے گا لہذا ذمہ دار حضرات پر واجب ہے کہ وہ جواز کے منکر نہ ہوں۔
کم ازکم اہل سنت کے علماء اس بات کو مان لیں کہ ان کے جوان اس مسئلہ میں اہل بیت کی فقہ پر عمل کریں جیسا کہ جامعہ ازہر کے عظیم الشان عالم دین، شیخ الازہر ، شیخ محمود شلتوت نے فقہ جعفری پر عمل کرنے کا فتویٰ دیا تھا ۔
ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ آج کے دور میں نماز کو پانچ وقتوں میں اداکرنا کاریگروں ، آفس میں کام کرنیوالوں ، اسٹوڈنٹ اور بہت سے لوگوں کے لئے دشواری کا باعث ہے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں آنحضرت کے جوازکی پیروی کریں تاکہ لوگوں کو نماز ترک کرنے کا بہانہ نہ ملے ؟!
کیا سنت پر اصرار سے فریضہ کا ترک ہونا صحیح ہے ؟!
حوالہ جات
١۔ مکارم الاخلاق ، ص ٤٦١
٢۔اگر چہ ہمیں اس روایت کی سند نہیں ملی لیکن اس کی شہرت اس حدتک ہے کہ علامہ مجلسی اپنے بیانات میں اس حدیث کے ذریعہ استدلال کیا کرتے تھے ، بحا ر، ٧٩،ص ٢٤٨و ٣٠٣
٣۔ کافی ج ٣ ص ٢٦٥، ح٢٦
۴۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥١
۵۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۶۔١۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۷۔صحیح بخاری ج ١ ص ١٤٠ باب وقت المغرب)
۸۔ سنن ترمذی ، ج ١ ص ١٢١ ، ح ١٨٧
۹۔مسند احمد ، ج ١ ص ٢٢٣ ۱
۰۔ موطا مالک ج ١ ص ١٤٤
۱۱۔مصف عبد الرزاق ، ج ٢ ص ٥٥٦
۱۲۔معانی الآثار ، ج ١ ص ١٦١
۱۳۔مسند البزازج ١ ص ٢٨٣
۱۴۔المعجم الکبیر طبرانی ج ١٠ ص ٢١٩، ح ١٠٥٢٥
۱۵۔ حج ٧٨
۱۶۔ھود ١١٤
۱۷۔ اسراء ٧٨
۱۸۔ تفسیر فخر رازی ج ٢١ ص ٢٧
بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ
عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے خطے کی سیاسی فضا انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ دنیا اور علاقے کے مختلف کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے کی پیش رفت اس طرح آگے بڑھ رہی ہے کہ ہر فریق مذاکراتی عمل پر اپنے مطلوبہ اصول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ہوشیارانہ نقطہ نظر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات اور اپنے قائم کردہ فریم ورک کو برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مختلف ذرائع سے اس مساوات کو بدلنے کے درپے ہیں۔
ایران کے خلاف محاذ آرائی
تجزیہ کاروں نے ایران کے خلاف تین اہم دھڑوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف ٹولز اور ہتھیاروں کے ذریعے مذاکراتی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
1۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو، براہ راست مذاکرات اور دباؤ کے لئے فوجی دھمکیاں
امریکہ اور صیہونی حکومت بالواسطہ مذاکرات کو براہ راست مذاکرات میں بدلنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تحریک فوجی دھمکیوں (جیسے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بارے میں حالیہ دعوے) کے ذریعے ایران کے خلاف نفسیاتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، ماضی کے تجربات جیسے آپریشن عین الاسد، ٹینکر کی جنگ اور وعدہ صادق 1 اور 2 ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خطرات آپریشنل سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔
2۔ انقلاب مخالف گروہ اور نفسیاتی آپریشنز
ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالف ملکی اور غیر ملکی گروہ جن میں سابق شاہ سے وابستہ میڈیا بھی شامل ہے، جس نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ، اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ سرگرمیاں فوجی خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ایران میں عوامی اور قومی حوصلے کو کمزور کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ رضا پہلوی کا فاکس نیوز کے ساتھ حالیہ انٹرویو اور "آکٹوپس کی آنکھوں کو اندھا کرنا" کے جملے کا استعمال اس تحریک کے ایران کے دشمنوں کے ساتھ واضح تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ موساد کے ساتھ ان گروپوں کے تعاون کا CNN پر انکشاف ان کے غیر ملکیوں پر مکمل انحصار کی ایک اور تصدیق ہے۔
3۔ داخلی گروہوں کی امریکہ کیساتھ ہم آہنگی اور ایران کی بارگینگ کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش
ایران میں موجود کچھ مغرب نواز افراد من جملہ حسن روحانی اور حسام الدین آشنا ایسی باتیں کر رہے ہیں، جن کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ افراد غیر حقیقی دعوے شائع کرکے مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی طاقت کو کمزور دکھانا یا یہ کہنا کہ "ایٹمی صنعت پرانی اور درآمد ہو رہی ہے۔ ان دعووں سے یہ گروہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکیوں کی براہ راست بات چیت کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور ایرانی حکام کو مذاکرات کے متن کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ حسام الدین آشنا کی حالیہ ٹویٹ میں ایران کی جوہری صنعت کو "پرانی اور درآمد شدہ" قرار دینے کا مقصد رائے عامہ میں ایران کی نااہلی کو ابھارنا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی بے کار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اسے تباہ کرنے کی اتنی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔؟
اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔
تحریر: حامد موفق بھروزی
غزہ کی مظلومیت پر خاموشی کیوں؟
ماضی میں ہونے والی عارضی جنگ بندیوں نے اس بحران کو مؤثر طریقے سے ختم نہیں کیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری غزہ کے خلاف نسل کشی کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرسکی۔؟ امریکی حکومت نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ پر صیہونی حکومت کے جرائم کی بھرپور حمایت کی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی عالمی کارروائی کو نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔ امریکہ سلامتی کونسل نے اس حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے ہر طرح کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ واشنگٹن نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی ہے، جس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور معزول وزیر جنگ یو یو گالینٹ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے کسی بھی ملک کو امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ یورپی ممالک بھی صیہونیوں کی حمایت میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ اور یورپ میں عوام کی رائے صیہونیوں کے خلاف ہے۔ عالمی برادری کی غزہ کے خلاف صیہونیوں کی بے مثال نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بہت سے ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ بہت سے ممالک اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی کچھ ممالک اس پر تنقید کرنے یا اس کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ بہت سے معاملات میں، مؤثر کارروائی کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت سےممالک میں ناپید ہے۔
صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کی وجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے کافی طاقت نہیں ہے۔ پس نہ اقوام متحدہ نہ عالمی برادری اور نہ ہی اسلامی ممالک کوئی بھی اہل غزہ کی پکار پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کے معاملے پر مسلم ممالک کی فوجیں جہاد نہیں کرتیں تو کس کام کی ہیں۔؟