سلیمانی

سلیمانی

کیا خوارج کا ظہور خواہ مخواہ ہوگیا تھا؟ کیا وہ قوتیں جو خوارج کی تشکیل میں ملوث تھیں اور جنہوں نے ان سے مسلسل سیاسی اور نظریاتی فائدہ اٹھایا، وہ امام علیؑ کے قتل سے لا عِلم تھیں۔؟ کیا قتلِ امام علیؑ کا الزام خوارج پر عائد کرنا اور اس کے سیاسی محرک کو بھول جانا دانشمندی ہے۔؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ خوارج کا نظریہ اور ان کا ظہور کس سیاسی و تاریخی پس منظر میں ہوا؟ یہ سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں صرف سطحی تجزیے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ گہرائی سے اس تمام معاملے کی تحلیل کرنی چاہیئے۔ یہ کہنا کہ خوارج کو صرف طالبان یا داعش کی طرح بدنام کیا گیا، یہ ایک معقول تجزیے کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا کہ ماضی میں ان گروپوں کے ظہور کے اسباب کیا تھے اور ان کے سیاسی و مذہبی بیانیے کو کس طرح مختلف حالات میں "بیانیہ سازی" (narrative building) کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

خوارج کے سیاسی تناظر میں جب ہم نبی اکرمﷺ کے غزوات کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہدِ نبویؐ میں کفر کے نمائندہ قائدین میں سب سے نمایاں شخصیت ابو سفیان کی تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ فتح مکہ کے روز ابو سفیان کے لیے سوائے بیعتِ رسولﷺ کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ اس بات کو "سیاسی ضروریات" (political necessities) کے دائرے میں سمجھا جا سکتا ہے، جہاں قریش کے ایک طاقتور مگر مغلوب سردار نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کی  بقا کے لیے بانی اسلامؐ کے ساتھ ایک "تاریخی مفاہمت" (historical compromise) کی۔ آگے چل کر تاریخ اسلام میں یہ مفاہمت مسلمانوں کے درمیان ایک سیاسی تبدیلی کا تسلسل ثابت ہوئی۔ معتبر منابع کے مطابق خلیفہ اوّل کے دور میں ابو سفیان نے امام علیؑ کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قریش کے مغلوب شُدہ سردار کی طرف سے  اقتدارکے حصول کے لیے سازش اسی دور میں شروع ہوچکی تھی، جسے "سیاسی سازش" (political conspiracy)  کہا جاتا ہے۔

اسی طرح، خلیفہ دوم کے قتل کی واردات میں ابو لولو فیروز کا کردار بھی اہم ہے۔ ابو لولو نامی شخص تو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ خود آلِ ابوسفیان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا۔ یہ شخص دراصل ایک "پراکسی" (proxy) تھا، جس کا استعمال خلیفہ دوّم کے خلاف سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا گیا۔ اس کی کہانی میں ہمیں واضح طور پر "پولٹیکل گیمز" (political games) کی جھلک ملتی ہے۔ بظاہر وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحت خلیفہ دوم پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس کے پیچھے دراصل مغیرہ بن شعبہ اور بنو امیہ کے مفادات کارفرما تھے۔ صاحبانِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت تو خلیفہ دوّم نے عجمی حضرات کے مدینے میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ پابندی کے اس دور میں ابو لولو کو مدینے میں رہنے کی خصوصی اجازت مغیرہ بن شعبہ کی سفارش پر ہی ملی تھی۔ اس قتل کو "پریکٹیکل اسٹرٹیجی" (practical strategy) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے اس وقت کی رائج خلافت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح، خلیفہ سوم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کو ہم "سوشل ڈسکانٹینٹ" (social discontent) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جو کہ ایک وسیع تر سیاسی عمل کا حصہ تھی۔ اس بغاوت میں مروان بن حکم اور بنو امیہ کے سیاسی مفادات نظر آتے ہیں، جو اسلامی خلافت کو اپنے قابو میں لانے کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں امام علیؑ کے اقتدار کے آغاز کو اُس وقت کے "سیاسی جغرافیہ" (political geography) کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں کے مفادات آپس میں متصادم تھے۔ یہ تصادم واضح کرتا ہے کہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا ایک "باہدف حکمت عملی" (strategic agenda) تھا اور اس تبدیلی کے پیچھے کئی سالوں کی "منظم سیاسی تدابیر" (organized political maneuvering) کارفرما تھیں۔

جب امام علیؑ کو شہید کیا گیا تو ان کے قتل میں جو لوگ شامل تھے، وہ صرف خوارج یا ابن ملجم جیسے افراد تک محدود نہیں تھے۔ یہ ایک "سیاسی سازش" (political conspiracy) تھی، جس میں ماضی کی متصادم سیاسی طاقتوں کے مشترکہ  مفادات کا حصول شامل تھا۔ ان سب کا مشترکہ مقصد علی ابن ابیطالبؑ کو راستے سے ہٹانا تھا۔ منصوبہ ساز اپنے نقشے کے مطابق جانتے تھے کہ اس قتل کے بعد اسلامی حکومت درخت پر کسی پکے ہوئے پھل کی مانند کس کی گود میں گرے گی۔ اس کے بعد ہم اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں کہ خوارج یا ابن ملجم نے اسلامی حکومت کے درخت پر فقط کلہاڑا چلایا، لیکن اس کا پھل نہ انہوں نے چکھا اور نہ ہی نقشے کے مطابق اُنہیں اس پھل میں سے کچھ چکھایا جانا تھا۔ پس خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا کی ایک گہری حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امام علیؑ کے قتل کا نقشہ ابن ملجم اور خوارج کا تیار کردہ نہیں تھا بلکہ خوارج تو خود کسی اور کے نقشے کے مطابق وجود میں آئے تھے۔ خوارج نے تو اپنے وجود میں لائے جانے کے ہدف کو پورا کیا اور یوں شہادتِ امام علی ؑ کے بعد اصلی قاتل، اسلامی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) اور "تاریخی حقیقت" (historical truth) کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ان اصل قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہم نہ صرف امام علیؑ کے قتل کے محرکات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس سے جڑے وسیع تر سیاسی  مفادات اور اثرات کا آج بھی مشاہدہ  کرسکتے ہیں۔ امام علیؑ کے قتل کے بعد جو قوتیں اقتدار میں آئیں، ان کی سیاست اور حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ ان کی تدابیر نے عام افراد کیلئے اس قتل کو سمجھنا مزید سنگین اور مشکل بنا دیا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ ماضی کے خوارج ہوں یا آج کے خوارج جو کہ ہمیشہ  ایسی کاروائیوں کا الزام اپنے سر لیتے ہیں اور یہ دراصل طاقتور گروہوں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔

کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے خطاب کو ہم "فلسفہ آزادی" (philosophy of freedom) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں امام حسینؑ نے ابو سفیان کے پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اگر تم دین سے بے بہرہ ہو اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو۔" اس جملے میں امام حسینؑ نے نہ صرف مذہبی آزادی کی بات کی، بلکہ انسانیت کے اس بنیادی اصول کو بھی اجاگر کیا، جو سیاسی اقتدار کے غلط استعمال کو چیلنج کرتا ہے۔ امام حسینؑ نے ایک "سیاسی تجزیہ" (political critique) پیش کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کچھ سیاسی حکام نے اسلامی تعلیمات کو اپنی طاقت کے لیے مسخ کر دیا ہے۔ حضرت زینبؑ کا خطاب بھی کربلا کے "سیاسی بیانیے" (political discourse) کا حصہ تھا، جس میں انہوں نے یزید کے دربار میں ابو سفیان اور اس کے خاندان کے منفی سیاسی کردار کو بے نقاب کیا۔

حضرت زینبؑ نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! تم نے اپنی مستورات کو پردے میں بٹھا رکھا ہے، جبکہ رسول اللہ کی بیٹیوں کو بے پردہ در بدر پھرا رہے ہو۔" یہ جملے ایک "سیاسی تفصیل" (political exposition) کے متقاضی ہیں، جو نہ صرف فتح مکّہ کے روز ابو سفیان کی بیعت کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ اس امر کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ اس دور میں مذہب اور سیاست کو کس طرح گمراہ کن مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ان تمام حقائق کو غیر جانبدار ہو کر جاننا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ان حقائق کو کسی اور نے نہیں بلکہ ماضی کی مقتدر نام نہاد اسلامی قوّتوں نے ہی نسل در نسل اقتدار کے مرکز پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ رعایا سے چھپایا ہے۔

یہ اسی صدیوں پر محیط منظّم حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج پورے جہانِ اسلام میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایک ایسی جامع  الشرائط شخصیت نہیں ہے کہ جس پر ساری دنیا کے مسلمان بطورِ ملت جمع ہونے کیلئے سوچیں۔ گویا 14 سو سال پہلے ہی حضرت امام علی ؑ کو شہید کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ خلیفہ سوّم کے قتل کے وقت بھی ایسا ہی انتشار وجود میں آیا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں نے اس خلا کو حضرت امام علی ؑ کی بیعت  کرکے پُر کیا تھا۔ عقلِ سلیم کا یہ فیصلہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی اس خلا کو صرف اِس موجودہ زمانے کا علیؑ ہی پُر کرسکتا ہے۔ چودہ سو سال کے بعد بھی ۱۹ رمضان المبارک کی شب مسلمانوں کی عقل پر دستک دیتی ہے کہ مسلمانو! اس زمانے کا خلا پُر کرنے کیلئے اس دور کا علیؑ کون ہے۔؟

کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔"
 
 
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

تہران (ارنا) جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹر، فزیکل کیمسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ معتبر اشاعتوں میں سے ایک اور منتخب کردہ نیچر-انڈیکس جرنلز میں سے ایک کا سرورق، شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے شعبہ کیمسٹری کی پروفیسر زہرہ جمشیدی کے ایک تحقیقی مقالے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔

پروفیسر زہرہ جمشیدی کا تحقیقی مقالہ، بعنوان "کوانٹم ڈائنامکس آف پلاسمون کپلنگ فار سلور نینو پارٹیکل ڈائمر: پاپولیشن اینڈ انرجی اینھانسمینٹ اینڈ انٹرایکشن ود دا ایمیٹر" کا عنوان جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹر، فزیکل کیمسٹری کے سرورق پر چھپا ہے۔

یہ ریسرچ، تجرباتی نتائج پر مبنی ہے۔

The Journal of Physical Chemistry Letters  کا H-index  252 ہے۔ یہ جنرل فزیکل کیمسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ با اعتماد جریدے میں سے ایک ہے اور اسے Nature-Index کا ایک منتخب جریدہ سمجھا جاتا ہے۔

Saturday, 15 March 2025 22:14

خالق کی تلاش

ہر انسان کے ذہن میں فطری طور پر تین سوال پیدا ہوتے ہیں

کہاں سے آیا؟

کس لئے آیا ؟

کہاں جانا ہے ؟

ان سوالات کا جب تک انسان کو کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملے تو اس کے تجسس اور بے چینی میں اضافہ  ہی ہوتا چلاجاتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ جب انسان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو جب  تک اس کا صحیح جواب نہ ملے سوال اپنی جگہ پر گردش کرتا رہتا ہے مگر یہ کہ وہ سوال ذہین سے محو ہوجائے۔ لیکن اعتقاد خالق ایک ایسا سوال ہے کہ جوکبھی ذہین سے محو نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک انسان زندہ ہے اسوقت تک اپنی ہستی و خالق کی کھوج میں لگا رہے گا۔

اور یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کی ہر مشکل کا واحد حل غور و فکر  اور اس  کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنے میں پنہان ہے، اور جب ایک انسان غور و فکر سے ایک صحیح عقیدے کو اختیار کرلیتاہے تو وہ عقیدہ اس کے لئے تسکین قلب مہیا کرتا ہے ۔ انسان ان سوالوں کے جواب سے اپنے معبود کو پا لے گا جیساکہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں "رحم الله امرء ...علم  من أين وفى أين وإلى أين"  خدا  رحم کرے اس بندے پر جس نے یہ جان لیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، کہاں  آیاہے اور کہاں جارہا ہے۔

 

 

Saturday, 15 March 2025 22:10

دیر سے اعتراف

اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل پانے والے آزاد تحقیقاتی کمیشن نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے تمام مقبوضہ سرزمینوں پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے جس بربریت کا ثبوت دیا ہے وہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی فورسز اور یہودی آبادکاروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں ٹارچر اور جنسی ہراسانی کو فلسطینیوں کو کچلنے اور انہیں اجتماعی سزا دینے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور ٹارچر کا شکار ہونے والے متعدد فلسطینی باشندوں نے اقوام متحدہ کے سامنے شہادتیں پیش کی ہیں۔
 
سعید عبدالفتاح جن کی عمر 28 سال ہے اور وہ غزہ کے الشفاء اسپتال میں نرس کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے گرفتاری کے دوران صیہونی اہلکاروں کی جانب سے وحشت ناک اقدامات سے پردہ ہٹایا اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ناگوار واقعات کی وضاحت کی۔ سعید عبدالفتاح نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ انہیں کس طرح شدید سردی میں برہنہ حالت میں رکھا جاتا تھا اور مسلسل مار پیٹ کی جاتی تھی جبکہ کئی بار انہیں جنسی زیادتی کی دھمکی بھی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری تفتیش کرنے والا صیہونی اہلکار مسلسل میرے نازک حصوں پر چوٹ لگاتا تھا اور میرے بدن کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا تھا جبکہ میں یوں محسوس کرتا کہ گویا میری جان نکلنے والی ہے۔
 
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو نہ صرف جیلوں بلکہ دیگر چیک پوسٹوں پر بھی جنسی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فلسطینی وکیل سحر فرانسس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ تمام فلسطینی قیدیوں کو غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جبری تفتیش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مواقع پر صیہونی فوجی قیدیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے اور ان کی تحقیر کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں ایک اور فلسطینی گواہ محمد مطر کے بیانات بھی شائع کیے گئے ہیں۔ محمد مطر مغربی کنارے کے رہائشی ہیں اور انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ کس طرح صیہونی سیکورٹی فورسز نے انہیں شدید ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار کرنے کے بعد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، ان کا لباس اتار دیا گیا اور ہاتھ باندھ دیے گئے۔
 
اس کے بعد انہیں بھیڑ بکریوں کا فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا اور ان پر پیشاب بھی کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک صیہونی جلاد نے لکڑی کے ٹکڑے سے انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل نے منظم انداز میں غزہ کے صحت کے مراکز اور اسپتال تباہ کیے ہیں اور ادویہ جات اور میڈیکل کا سامان غزہ میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "وہ بچے جو آج غزہ میں پیدا ہو رہے ہیں شیرخوارگی کے دوران اور بڑے ہو کر بھی گندے پانی، سردی اور بھوک کے باعث موت کے خطرے سے روبرو رہیں گے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنسی تشدد کو فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم نے صحت کی سہولیات ختم کر کے فلسطینی خواتین اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے تاکید کی ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اعلی سطحی فوجی اور سیاسی رہنماوں کے واضح حکم کے تحت انجام پایا ہے اور انہوں نے اس کی باقاعدہ ترغیب دلائی ہے۔ اسی طرح صیہونی فوجیوں نے اپنے مجرمانہ اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ناوی پیلای نے اس رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو کچلنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اس نتیجہ گیری سے گریز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں میں خوف و ہراس پھیلانے اور اپنی آمرانہ پالیسیاں مسلط کرنے کے لیے جنسی تشدد کا سہارا لیا ہے۔"
 
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ میں شائع ہونے والے شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منظم انداز میں ٹارچر کرنا، جنسی زیادتی، جنسی توہین اور فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کے دیگر اقدامات اسرائیل کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کی حق خود ارادیت ختم کرنا اور ان کی نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے اقدامات جیسے میڈیکل نظام اور زچہ بچہ کے مراکز کو منظم انداز میں تباہ کرنا نسل کشی کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں شائع ہونے والے نتائج نے بین الاقوامی قانونی اداروں اور انصاف کے مراکز میں صیہونی رژیم کے خلاف عدالتی کاروائی انجام پانے اور صیہونی حکمرانوں کو قرار واقعی سزا ملنے کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔
 
 

 حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔

21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی.. ان فتنوں کے پیش نظر امام حسنؑ نے وقت اور حالات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا...

صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔
یہاں ایک ایسے سوال کا جواب حاضر ہے جسے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی کرتے ہیں کہ اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو کیا ہوتا؟!

اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو معاویہ ابن ابی سفیان اسے بہانہ بنا کر یہی وہ لوگ ہیں جو عثمان کے قاتل ہیں اپنے مسلح لشکر کے ساتھ کوفہ میں وارد ہوتا اور وہاں کے حکومتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام کو درھم برھم کرتا،عوام الناس خاص کر شیعیان علی کا قتل‌عام کرتا...

اگر صلح و امنیت کی تدبیر نہ کرتے تو شیعوں کو قتلِ عثمان کے بہانے سب سے زیادہ نقصان پہنچتااور وہ روایات جو امیر (ع) اور اہل بیت (ع) کے فضائل میں آج تک صحاح اور مسانید اہل سنت میں موجود ہیں،ان کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا... امام حسن (ع) کا یہ طرزِ عمل اور اقدامات امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم امام حسن علیہ السلام کی حد درجہ دور اندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ ولایت و امامت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں... خود امام حسن مجتبی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے کے اسباب و وجوہات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :اگر میں صلح نہ کرتا تو معاویہ ابن ابی سفیان کو یہ موقع فراہم ہوتا کہ وہ ، اس کے نام پر کہ یہ عثمان کے قاتل ہیں، وہ سب کو قتل کر دیتا،اگر اس صلح کا طوق خاردار اس شخص کے گلے میں نہ ڈالا جاتا تو آج ہمارے پاس نہج البلاغہ کا ایک خطبہ بھی نہیں ہوتا ۔

اگر یہ صلح نہ ہوتی تو آج صحاح، سنن اور مسند میں سے ایک روایت بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتی ،اگر یہ صلح نہیں ہوتی تو اسلام اور شیعیت کے لطیف اصول و اقدار ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتے ،ہمارے پاس اگر علی (ع) کی سیرت ، پیغمبر اکرم کی صحیح سیرت و تعلیمات، قرآن کی صحیح تفسیر ہمارے وغیرہ موجود ہے تو یہ صلح کا ہی نتیجہ ہے...

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ جیسے مجہول النسل سے صلح کرکے اسلامی اقدار و روایات کو تحفظ فراہم کیا اور شیعیت کو حیات نو بخشی ہے آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ امام حسن علیہ السلام کے صبر و استقامت اور آپ کی صلح کا نتیجہ ہے ۔

یہ ساری باتیں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے رازوں میں سے ایک راز ہے نیز اس بات سے بھی غض بصر نہیں کرنی چاہیئے کہ چودہ سو سال سے آج تک جو تحریک حسینی دنیائے مظلومیت کیلئے سبق آموز ہے وہ سبط رسول الثقلین حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دانشمندی کا ہی نتیجہ ہے اگر آپ کی زیرکی و دانشمندی نہ ہوتی تو شاید امام حسین علیہ السلام ؐکا عظیم انقلاب عالم انسانیت کے لئے کبھی مینارہ نور نہیں بن پاتا... افسوس ان رازوں اور مصلحت اندیشی کو دشمن تو دشمن دوست بھی سمجھنے سے قاصر رہے اور صلح کے بعد شہزادہ ءصلح و امن، سردار جوانان ِ جنت، سبط رسول ۔جانِ علی و بتول سے ناراض ہوئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل کرنے والے) سے خطاب بھی کیا جو تاریخ کے اوراق پر آج بھی ثبت ہے

موجودہ جنگ و جدل سے جھلسے دور میں شہزادہ صلح امن حضرت امام حسن کؑی تعلیمات ساری دنیا کے لئے امن و چین کی ضمانت ہیں۔

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی

اس آيت کے ضمن میں ایک نکتہ یہ ہے کہ اس بندگی کا سرچشمہ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق طاقت کے ایک ایسے سرچشمے، قدرت و اقتدار کے ایک ایسے مرکز کی طرف مجذوب ہوتا ہے جسے وہ خود سے برتر سمجھتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ یہ چیز انسان کی روح میں، اس کی ذات میں اور اس کے خمیر میں پائی جاتی ہے، چاہے دانستہ ہو یا نادانستہ۔ دنیا میں کی جانے والی ساری عبادتیں، خدا کی پرستش ہے، یہاں تک کہ بت پرست بھی بباطن اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق جو اسے خدا پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا پرستی کی دعوت دیتی ہے، اپنی فطرت کی پیروی کرتا ہے۔ بت پرست بھی اپنے دل کے باطن میں خدا پرست ہے، جو چیز اس کے کام میں مشکل پیدا کرتی ہے وہ اس برتر طاقت اور الہی قدرت کے مصداق کی شناخت میں غلطی ہے۔ ادیان کا کردار یہ ہے کہ وہ انسان کے اس سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کریں، اس کی آنکھیں کھولیں اور اسے بتائيں کہ وہ برتر طاقت کون ہے۔

امام خامنہ ای

24 اپریل 1991

 
 
Wednesday, 12 March 2025 22:29

جولانی کی بربریت

بشار اسد حکومت کی سرنگونی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے بعد اس وقت شام میں سیاسی اور فوجی میدان میں اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ "فوجی کونسل برائے آزادی شام" نامی گروہ معرض وجود میں آ چکا ہے جس کی سربراہی شام آرمی کے سابق اعلی سطحی کمانڈر بریگیڈیئر غیاث سلیمان دلا کر رہے ہیں۔ اس گروہ کی تشکیل شام کی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ قرار دی جا رہی ہے۔ اس کونسل نے اپنے قیام کا مقصد احمد الشرع یا ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں نگران حکومت کی "آمریت" اور "دہشت گردی" کا مقابلہ کرنا بیان کیا ہے اور شام کی سرزمین کو غیر ملکی دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کا عہد کیا ہے۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام نے اپنے بیانیے میں وسیع اہداف کا ذکر کیا ہے جن میں "غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کے قبضے سے شام کی سرزمین آزاد کروانا" بھی شامل ہے۔
 
اس کونسل نے جن دیگر اہداف کا اعلان کیا ہے ان میں جولانی حکومت کا خاتمہ، آمرانہ اداروں کی تحلیل، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر حکومت اداروں کی بحالی شامل ہے۔ اسی طرح فوجی کونسل برای آزادی شام نے جلاوطن افراد کی وطن واپسی اور متحد اور خودمختار شام کی تشکیل پر بھی زور دیا ہے۔ اس کونسل کے قیام کے ساتھ ہی شام کے مختلف شہروں میں جولانی رژیم کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مظاہرین نے ھیئت تحریر الشام کی آمرانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ احتجاج خاص طور پر ساحلی علاقوں جیسے جبلہ، لاذقیہ، طرطوس اور حلب میں شدت اختیار کر گیا۔ دوسری طرف ھیئت تحریر الشام سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں نے فضائی حملوں اور توپخانے کی مدد سے اس عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی جبکہ جولانی رژیم خاموش تماشائی بنی رہی۔
 
یہ سب کچھ ایسے وقت انجام پایا ہے جب بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد پہلے دن سے اسرائیل کی غاصب صیہونی فوج شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور جولانی رژیم نے اس کے خلاف حتی بیان دینے سے بھی گریز کیا ہے۔ جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور عوامی مزاحمتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں ہیں اور موصولہ رپورٹس کے مطابق عوامی مزاحمتی فورسز نے لاذقیہ شہر میں ایک فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ بھی کر لیا ہے جبکہ گھات لگا کر متعدد حملے کیے جن میں بڑی تعداد میں تکفیری دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح بعض موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاذقیہ شہر کے کچھ حصوں پر بھی عوامی مزاحمتی فورسز کا کنٹرول برقرار ہو چکا ہے۔ شام کے مغربی علاقوں میں جھڑپیں جاری رہنے سے وہاں انسانی بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 
شام کے مختلف شہروں میں عوام نے حاکم رژیم کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاذقیہ اور طرطوس میں جھڑپوں کی شدت زیادہ ہے اور عوام عام شہریوں کو نشانہ نہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف علوی اعلی اسلامی کونسل نے بھی ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں دہشت گردانہ اقدامات کی فوری روک تھام اور بے گناہ عوام کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب نے جولانی رژیم کی حمایت کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے موثر اقدامات انجام دے۔ اسی طرح ترکی نے بھی عجیب موقف اپناتے ہوئے جولانی رژیم کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام پر وحدت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔
 
جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری عناصر نے عام شہریوں کے خلاف انسان سوز جرائم انجام دینے کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ ھیئت تحریر الشام کے دہشت گردوں نے تمام ساحلی علاقوں میں علوی باشندوں کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان شہریوں کی اکثریت نہتی تھی اور قتل ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، بڑی تعداد میں علوی باشندوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ شام کے ساحلی علاقوں میں جولانی رژیم کی سرپرستی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قومی صفایا اور نسل کشی ہے۔ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنقریب شام میں ایک خونریز فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے۔ موجودہ حالات بحران کی پیچیدگی اور شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام ملک کے مختلف حصوں کو جولانی رژیم سے آزاد کروانے کے درپے ہے۔
 
امریکہ اور فرانس اگرچہ جولانی رژیم پر اقلیتی باشندوں کے خلاف اقدامات نہ دینے کے لیے دباو ڈالتے آئے ہیں لیکن وہ بھی علوی فرقے کی اقتدار میں واپسی سے ہراساں ہیں۔ لہذا عین ممکن ہے کہ وہ جولانی رژیم کو علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو کچل دینے کے لیے سبز جھنڈی دکھا چکے ہوں۔ یوں شام میں شدید خانہ جنگی کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک طرف جولانی رژیم اس پوزیشن میں نہیں کہ علوی فرقے کو مکمل طور پر کچل دے اور دوسری طرف عوام کی اکثریت جولانی رژیم سے تنگ آ چکا ہے اور وہ مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ نہ تو جولانی رژیم مخالفین کو پوری طرح ختم کر پائے گی اور نہ ہی مخالفین جولانی رژیم کے خاتمے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ اس طرح ایک طویل خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔

Wednesday, 12 March 2025 22:08

علوی کون؟


اپنے دامن میں جولان کی پہاڑیاں رکھنے والا ”ملک شام“ لمحہء موجود میں فتنوں کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ شام کا جب ذکر آتا ہے تو اس ملک میں بسنے والے علویوں کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ علوی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے؟ اس حوالے سے تحقیق کے میدان سے ناآشنا لوگ اپنے ذہنوں میں کئی طرح کے درست اور غلط تصورات رکھتے ہیں، مثلاً ایک یہ نظریہ کہ ان کا تعلق ”نصیری“ فرقے سے ہے، جو مولائے کائنات علی علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علویوں کے ان عقائد کے حوالے سے اس قسم کے خیالات ایسے ہی ہیں، جس طرح کے بے سر و پا خیالات ”شیعہ اثناء عشری“ مسلمانوں کے بارے میں ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ کسی مسلک کے عقائد کی درست طور پر آگاہی اس مسلک کے ذمے دار افراد کے عقائد کو جان کر ہی ہوتی ہے۔

شام کے علویوں کے عقائد کی گتھی عصر حاضر میں ان کے ذمے دار علماء ہی کے ذریعے سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل تشیع میں ایک منحرف طبقہ وجود میں آگیا تھا، جسے ”نصیری“ کہا جاتا تھا اور شاید اب بھی کچھ گمراہ لوگ اسی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے اہل سنت کی ایک بھاری تعداد نے قادیانیت کو قبول کیا اور اب بھی روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تمہید کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے علویوں کا کیا عقیدہ ہے۔ بعض جید شیعہ علماء اور شام کے علوی علماء کے مابین رابطے، قربت اور افہام و تفہیم کے نتیجے میں علوی فرقے کے علماء نے ایک باضابطہ ”اعلامیہ“ جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے دین کے اصولوں اور فروعات پر اپنے عقائد اور اپنے نظریاتی موقف کا اظہار کیا ہے، جس کا ایک حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ ہر علوی مسلمان ہے، شہادتین پڑھتا ہے، اس پر کامل ایمان رکھتا ہے اور اسلام کے پانچ ستونوں کا قائل ہے۔
2۔ علوی مسلمان ہیں اور شیعہ ہیں، نیز پیروان و یاران امام علی (ع) ہیں۔ علویوں کی آسمانی کتاب ”قرآن کریم“ ہے اور ان کا مذہب وہی ہے، جو مذہبِ امام جعفر صادق (ع) ہے۔
3۔ علوی اپنی عبادات، لین دین کے مسائل اور دیگر احکام کے حوالے سے اپنا کوئی جداگانہ مسلک نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے تمام معاملات میں ”مذہب امامیہ“ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ”مذہبِ جعفری“ ریشہء مذہبِ علوی ہے، ”مکتب جعفریہ“ علوی فرقے کی جڑ ہے اور علوی اس کی شاخ ہیں۔

عقائد مکتب علوی
1۔ اسلام: ہمارا دین اسلام ہے، جو دو شہادتوں کا اقرار کرنے اور اس دین پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، جو پیغمبر اسلام لائے تھے۔
2۔ ایمان: خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء پر سچا ایمان شہادتین کے اقرار کے ساتھ۔
3۔ دین کے اصول: توحید، عدل، نبوت، امامت، معاد۔
4۔ توحید: خدا کی کوئی مثال نہیں اور وہ لاشریک ہے۔
5۔ انصاف: خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
6۔ نبوت: اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر لطف و احسان کرتے ہوئے ان کے لیے برگزیدہ انبیاء کا انتخاب کیا ہے اور معجزات سے ان کی مدد کی ہے۔

7۔ امامت: امامت ایک منصب الہٰی ہے، جسے خدا نے اپنے بندوں کے نفع کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ خدا کا فضل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک نصِ قاطع و صریح کے ساتھ امام کا تقرر کرے۔ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مانند پیغمبر، معصوم ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کا گناہ اور اشتباہ سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق امام 12 ہیں۔ رسول خداؐ نے ایک ایک کرکے ان کے ناموں کی تصریح کر دی ہے۔ (امام علی علیہ السلام سے لے کر آخری امام حجت ابن الحسنؑ تک)۔
8۔ معاذ: اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو ان کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے، تاکہ بروز قیامت ان کے اعمال کا حساب لیا جا سکے۔

احکام شرعی چار ہیں
1۔ قرآن کریم
2۔ سنت نبوی
3۔ اجماع
4۔ عقل
ہماری نظر میں ”مرجع تقلید“ کے حوالے سے ہمارا نظریہ وہی ہے، جس کے بارے میں امام زمانہ (عج) نے فرمایا ہے: ”عام لوگوں کو چاہیئے کہ وہ فقہاء میں سے اس شخص کی تقلید کریں، جو خود پر قابو رکھتا ہو، اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو، اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہو اور ”مطیع امر مولیٰ“ ہو۔ عام لوگوں کو چاہیئے کہ اس کی تقلید کریں۔

فروعات دین
1۔ نماز فرض ہے۔
2۔ اذان و اقامہ مستحب ہیں۔
3۔ روزہ دین کے ستونوں میں سے ہے۔
4۔ ذکوٰۃ دین کا دوسرا ستون ہے۔
5۔ خمس
6۔ جہاد
7۔ حج
8۔ امر با المعروف و نہی عن المنکر
9۔ تولیٰ و تبریٰ
علوی دیگر تمام اسلامی احکام اور معاملات میں فقہ جعفری پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے فقہاء ”کتب اربعہء شیعہ امامیہ“ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو یہ ہیں: کافی، تہذیب، استبصار، من لا یحضر فقیہ۔ ہمارے عوام ”رسالہ ہائے عملیہء مراجع تقلید“ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس بیانیے پر شام اور لبنان کے 80 علماء نے دستخط کیے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تہران میں رمضان المبارک کی مناسبت سے یونیورسٹی طلبہ سے ملاقات میں گفتگو کے دوران فرمایا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر یہ کہہ کر کہ ایران مذاکرات نہیں کرنا چاہتا عالمی رائے عامہ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔ 

آج ہمارے عظیم بھائی موجود نہیں ہیں: 
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلبہ سے گفتگو میں فرمایا کہ گزشتہ سال جب یہ ملاقات ہوئی تھی اس وقت ہماری صورتحال مختلف تھی، پچھلے سال جب ہم نے آپ طلبہ سے ملاقات کی تو شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصر اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ساتھ تھے، شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضائف اور دیگر کئی نامور انقلابی شخصیات ہمارے درمیان موجود تھیں، جو اب موجود نہیں ہیں۔ 

انہوں نے فرمایا کہ ہمارے دشمنوں، مخالفوں اور حریفوں نے اپنی سطحی فکر کیوجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ان واقعات سے منفی اور غلط تاثر لیا ہے، لیکن میں آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ ہمارے بھائی بہت قیمتی تھے اور ان کی عدم موجودگی واقعی ہمارے لیے بڑا نقصان ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس سال جب ہمارے پاس یہ لوگ نہیں ہیں تو اس کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے ہم کچھ مسائل میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں اور کچھ مسائل میں ہم قوی تر نہیں ہیں تو کمزور بھی نہیں ہیں۔

دو ضروری عوامل:
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس مختلف پہلوؤں، مختلف جہتوں سے طاقت اور صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، جو ہمارے پاس پچھلے سال نہیں تھی، بے شک ان پیاروں کی عدم موجودگی ایک نقصان ہے، مغربی ایشیائی خطے میں رونما ہونے والے واقعات تلخ اور تکلیف دہ ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے، اسلامی جمہوریہ اپنی طاقت میں اضافہ، ترقی اور پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے، ان عظیم کرداروں کا کھو جانا بڑا نقصان ہے، لیکن اگر عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش یہ دو شرائط موجود ہیں تو مجموعی طور پر تحریک متاثر نہیں ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ ہجرت کے تیسرے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احد کی جنگ میں حضرت حمزہ جیسے شخص کو کھو دیا، حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑ گئے، یہ صرف حمزہ نہیں تھے، ان لوگوں میں سب سے نمایاں حمزہ تھے اور پھر دوسرے بہادر لوگ، دوسرے ساتھی بھی بچھڑ گئے، لیکن ہجرت کے چوتھے اور پانچویں سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کے تیسرے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط تھے۔

انہوں نے فرمایا کہ ممتاز شخصیات کے چھن جانے کا مطلب کسی بھی طرح سے دھچکا لگنا، عقب ماندگی یا کمزوری نہیں ہے، اگر آپ کے پاس عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش جیسے دو عوامل موجود ہیں تو تحریک جاری رہتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر یہ دو عوامل کسی قوم میں موجود ہوں تو اس کے باوجود کہ شخصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی نقصان کا باعث ہوتی ہے، لیکن مجموعی تحریک کو نقصان نہیں پہنچتا۔ 

نئی نسل مسائل کو سمجھنے اور سب سے آگے کھڑے ہونے کے حوالے سے پچھلی نسل سے بہت بہتر ہے:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کی مناسبت سے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج کی یونیورسٹی انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی سے اور انقلاب کے 20 سال بعد کی یونیورسٹی سے بہت مختلف ہے، آج یونیورسٹی آگے جا چکی ہے، اب بہت ترقی ہو چکی اور بہتری آ  چکی ہے، مختلف مسائل کے بارے میں اس نسل کی سمجھ زیادہ عمیق اور گہری ہے اور موجودہ نسل میں مقاومت کا پہلو بھی مضبوط ہے، یہ اس کے برعکس ہے جو بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ایرانی طلباء اور نوجوانوں کی نئی نسل 1960 کی دہائی کی طرح تیار نہیں ہے، ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ یہ آمادگی آج بھی موجود ہے، ہم نے اسے مختلف صورتوں میں مشاہدہ کیا ہے اور آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی نوجوان دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ آمادہ ہیں، ان کی فہم و فراست بہتر ہے، اللہ کا شکر ہے۔

عالمی غنڈے اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج دنیا کے غنڈے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہیے اور اپنے مفادات پر ان غنڈوں کے مفادات کو ترجیح دینا چاہیے، لیکن اسلامی ایران واحد ملک ہے جس نے اس بات کو واضح طور پر رد کیا ہے۔

امریکی صدر عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے:
رہبر معظم انقلاب نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کیطرف سے مذاکرات کی دعوت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، وہ دنیا کو فریب دیکر باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر آمادہ ہیں، امن  اور صلح چاہتے ہیں لیکن ایران راضی نہیں ہے، ایران مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں؟ یہ تم ہو جو پیچھے ہٹ جاتے ہو۔ انہوں نے مزید  فرمایا کہ ہم نے کئی سالوں تک بیٹھ کر بات چیت کی، اسی شخص نے تیار شدہ، مکمل، دستخط شدہ معاہدے کو اٹھا کر پھینک دیا اور اسے پھاڑ دیا، ہم جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات کی دعوت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تو امریکہ اسے روک نہیں سکتا، یہ حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں تو اس کی وجہ ہماری اپنی مرضی ہے۔

وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ہجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں۔
وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں، وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔
وہ بااخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح سے کرتے ہیں:انّ خديجةَ اِمْرَأَةٌ كامِلَةٌ مَيمُونةٌ فاضِلَةٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار(۱)۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اور فاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کے ننگ و عار اور بدنامی سے دور ہے۔
وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجود اپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔۔وَ كُنْتُ أَنَا أَشْبَهَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَةَ اَلْكُبْرَى(۲)۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والا ہوں۔
وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سے ایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔
وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادا کی۔
آپ وہ پارسا خاتون ہیں جن کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:لم یجمع بیت واحد یومئِذٍ فی الاسلام غیر رسول اللّٰه و خدیجہ و انا ثالثھا( ۳)۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھا بجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور تیسرا فرد میں تھا۔
وہ مالدار خاتون جو تجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔
وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھا، جو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالکہ تھیں۔
وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔
وہ نجیب خاتون جو نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔
وہ پاکدامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتا دی۔
وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو، ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ (س) کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔
وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا اور اس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا، "اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راستگو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں (اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے)”۔
وہ ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے (ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الدی سید مرتضٰی کتاب شافی اور شیخ طوسی کتاب تلخیص شافی) کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا(۴ )۔وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔
وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت قربان کر دی اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔ وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت، محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة(۵)۔ کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔ وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔
ا۔ خدیجہ بنت خویلد
۲۔ فاطمہ بنت محمد
۳۔ مریم بنت عمران
۴۔ آسیہ بنت مزاحم۔
وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر (کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کر دی ہے)، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے غضبناک ہو کر فرمایا:لا واللّٰه ما ابد لنی اللّٰہ خیرا منھا اٰمنت بی اذکفر الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس و واستنی بھا لھا اذحرمنی الناس و رزقنی منھا اللّٰه ولدا دون غیرھا من النساء( ۶)۔ خدا کی قسم خدا نے مجھے اس سے بہتر عطانہیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے، اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا تھا، اور خدا نے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔
وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: قال لي جبرائيل: بشّر خديجة ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه و لا نصب فيه، يعني قصب الزمرد(۷)۔  جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ قصر زمرد کا بنا ہوا ہے۔
وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا اور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے۔
وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرجھائے ہوئے چہر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔
وہ پرہیزگار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہری جس میں کہا گیا ہے کہ: الإیمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ( ۸)۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔
وہ باکمال خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کی طعنہ زنی اور انکے مذاق کہ انہوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا، کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ﷺ} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کر سکتی ہیں؟
وہ اطاعت گذار خاتون جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انہیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور انکی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے رہتے تھے۔
وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں حسن اور حسین علیہما السلام کی شان میں فرمایا، (ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟) اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے بہترین انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی؛ جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ﷺ} نے فرمایا: الحسن و الحسین جدھما رسول اللہ و جدتھما خدیجہ بنت خویلد( ۹)۔

وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے آئمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبٰی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں،”معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں "ہند” اور دادی "نثیلہ” ہے (اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینی عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے) اس لئے تم اس قسم کے برے اور ناپسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو، میری خاندان کی سعادت، ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: أَنْشُدُكُمُ اللّٰهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ(۱۰)۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ (س) بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟ سب نے کہا جانتے ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرواتے ہیں، (انا بن خدیجۃ الکبری)( ۱۱)۔ میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبریٰ (س) کا بیٹا ہوں۔
وہ خوش قسمت خاتون جن کا کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عبا تھی۔ آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا، ” اے میری نور چشم؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ (ص) سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔(۱۲)
وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرائیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، "یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھالیں۔
وہ مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اور جبرئیل امین سلام بھیجتے ہیں۔ ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو؟ جبرئیل امین نے کہا،(حاجتي أن تقرأ على خديجة من اللّٰه و مني السلام) میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام کہئے۔ جب پیامبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: إن اللّٰه هو السلام، و منه السلام، و إليه السلام، و على جبرئيل السلام(۱۳)۔ بیشک اللہ خود سلام ہے اور تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ بحارالانوار، ج۱۶،ص ۵۶-۷۵۔
۲۔ بحارالانوار، ج۲۴،ص۳۱۶۔
۳۔ بحارالانوار،ج۱۵، ص 361
۴۔ ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۱۵۹۔
۵۔ الاصابہ ج /۸ص /۱۰۱، اسد الغابہ ج/۵ص /۴۳۱، سنن ترمذی کتاب مناقب /۳۸۸۶۔
۶۔ بحارالانوار، ج 19، ص 63.
۷۔ صحیح بخاری،ج 3 / 1389، الرقم: 3608۔ابن حیون 1409ق 3/ 17
۸۔ کلینی، الکافی، ج2، ص 27۔
۹۔ بحارالانوار، ج۴۳،ص۳۰۲۔
۱۰۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۳۱۸۔
۱۱۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۱۷۴۔
۱۲۔ خدیجہ ہمسرپیامبر، اسطورہ ایثار و مقاومت، محمد محمدی اشتہاردی، ص۲۶۲۔
۱۳۔ عیاشی،1380ق: ج2ص279؛ابن عبدالبر،1412: 4/1821؛ابن اثیر 1409: 8/102۔