Super User
قرآن کریم کا اعجاز
قرآن کریم کے اعجاز کا ایک پہلو یہ ہے کہ غیب کی باتوں کا اعلان کر تا ہے اوربعض وقت کئی برس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں پیشنگوئی کرتاہے ۔جیسے روم سے حکومت ایران کی شکست کے بارے میں اس وقت خبر دی تھی جب چھ سو پندرہ عیسوی میں ایران میں ساسانیوں کی حکومت نے روم کو شکست دی تھی جس کی قرآن کریم نے پیشنگوئی کی تھی کہ آیندہ چند برسوں میں روم ایران کوشکست دے گا۔تاریخ کے مطابق ایسا ہی ہوا جیسے قرآن کریم نے خبر دی تھی ۔خدا وند عالم سورہ روم میں ارشاد فرماتا ہے کہ روم والے مغلوب ہوگئے اور نزدیک ترین علاقے میں شکست سے دو چار ہوئے ، لیکن یہ مغلوب ہوجانے کے بعد عنقریب پھر غالب ہوجائیں گے اور چند برسوں کے اندر ہی غلبہ حاصل کریں گے ، اول و آخر ہر کام کا اختیار خداکے ہاتھ میں ہے اور اسی دن صاحبان ایمان خوشی منائیں گے۔ قرآن کریم کی پیشنگوئیوں کاایک مصداق سورہ کوثر میں خداکے وعدے کا پورا ہونا ہے ۔چونکہ پیغمبر اسلام کے بیٹے کا انتقال ہوچکا تھا اور پیغمبر اسلام کی دوسری اور کوئی اولاد نہيں تھی ۔ اس لئےبعض جاہل مشرکین آپ کو مقطوع النسل کہنے لگے ۔ قرآن کریم نے خود ان لوگوں کو جو پیغمبر اسلام کو مقطوع النسل کہتے تھے مقطوع النسل کہا ہے اور قرآن کریم کی یہ خبر صحیح ثابت ہوئی ۔کیونکہ وہ شخص جو اس وقت صاحب اولاد تھا ،تدریجا دوایک نسل کے بعد اس کے خاندان کا خاتمہ ہوگیا ،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کا شجرہ طیبہ آپ کی دختر گرامی کے ذریعہ پھولتا پھلتا گیااور آج بھی باقی ہے ۔سورہ کوثر میں آیا ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں یقینا آپ کادشمن بے اولاد اور مقطوع النسل ہے۔
موسیقی
آج ہم قرآن کریم کی ایسی غیبی باتوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مغربی ملک کے ایک عیسائی دانشور کی تقدیر ہی بدل گئی۔ آپ نے موریس بوکائے کا نام ضرور سنا ہوگا ، ہم اسی سلسلے وار پروگرام میں ان کا ذکر کر چکے ہیں ۔یہ ایک فرانسیسی دانشور ہیں جو علم طب اور جراحی میں مہارت رکھتے تھے اورعیسائی ماحول میں پلے بڑھے ہیں ۔ان کی علمی کاوش کا واقعہ بہت دلچسپ ہے جس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا اور ان کی راہ حق کی طرف ہدایت کی ۔
گویندہ؛
فرانس ایک ایساملک ہے جہاں کے رہنے والے آثار قدیمہ کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں ۔فرانس کے سابق صدر فرانسوامیتران کے دور میں فرانس نے مصر سے کہا کہ وہ فرعون کی مومیائی شدہ لاش کو بعض تحقیقات کی انجام دہی کے لئے فرانس منتقل کرے ۔جب فرعون کی مومیائی شدہ لاش لیکر ہوائی جہاز فرانس کے ائیرپورٹ پر اترا تو اس وقت فرانس کے بہت سے حکام منجملہ صدر اور کابینہ کے وزراء ائیر پورٹ پہونچے اور انھوں نے فرعون کی لاش کا اس طرح سےاستقبال کیا کہ گویا فرعون زندہ ہے اور مصر پر فرمانروائی کر رہا ہے ۔ استقبالیہ تقریبات کے بعد فرعون کی لاش کو فرانس کے آثار قدیمہ کے مرکز میں منتقل کردیا گیا تاکہ آثار قدیمہ کے ماہرین فرانس کے پوسٹ مار ٹم کرنے والے ماہر ڈاکٹروں کی مدد سے فرعون کی لاش کے بارے میں تحقیقات انجام دیں اور اس میں موجود بعض اسرار کا انکشاف کریں ۔
گویندہ؛
تحقیقاتی گروپ کے سربراہ پروفیسر موریس بوکائے تھے ۔ انھوں نے دوسرے ڈاکٹروں کے برخلاف جو فرعون کی لاش میں ترمیم کرنا چاہتے تھے ،فرعون کے مرنے کے راز کا انکشاف کرنا چاہا ۔ ڈاکٹر بوکائے نے رات گئے تک فرعون کی لاش کا معاینہ کیا اور تحقیقات انجام دیتے رہے وہ اس کی لاش پر باقی ماندہ نمک سے سمجھ گئے کہ وہ دریا میں غرق ہوکر مرا ہے ۔ فرعون جب مرگیا تو اس کی لاش کو دریا سے نکال کر مومیائی کیا ہے ۔لیکن جو چیز پروفیسر بوکائے کی حیرت کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ فرعون کی لاش دوسری لاشوں کے مقابلے میں کیسے صحیح وسالم باقی رہی ہے۔ موریس بوکائے فرعون کے مرنے کی علت کے بارےمیں اپنی آخری رپورٹ تیار کررہے تھے ۔اور ان کی تحقیقات سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ دریا میں غرق ہوکر مرا ہے ۔اسی وقت وہاں پر حاضر لوگوں میں سے ایک نے ان کے کان میں آہستہ سے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ تحقیقات کا نتیجہ شائع کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ فرعون کے غرق ہونے کے سلسلے میں آپ کی تحقیقات اور مسلمانوں کا نظریہ ایک ہے۔بوکائے نے اس خبر کی تردید کی اور اسے بعید جانا ،کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کسی بڑے نتیجہ تک پہونچنا ممکن نہیں ہے ،مگریہ کہ انسان علمی ترقی، جدید اور دقیق ترین کمپیوٹرکی مددسے کسی ایسے بڑے نتیجہ تک پہونچ جائے۔ ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم نے فرعون کے غرق ہونے اور اور اس کے مرنے کے بعد اس کے جسم کے صحیح وسالم ہونے کی خبر دی ہے ۔ یہ سن کر ڈاکٹر بوکائے کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا اور وہ تعجب میں پڑگئے ۔ وہ مرتب یہ سوچتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے اور کیسےایک عقلانی امر ہوسکتا ہے ؟ صدر اسلام کے دور کے لوگو ں کو مصر میں فرعونوں کی لاشوں کو مومیائی کئے جانے کا علم نہیں تھا ۔
گویندہ؛
ڈاکٹر بوکائے پوری رات فرعون کی مومیائی شدہ لاش کے بارے میں سوچتے رہے اور اپنے دوست کی باتوں پر غور وفکر کرتے رہے کہ قرآن کریم نے فرعون کے غرق ہونے کے بعد اس کے جسم کے صحیح وسالم ہونے کی خبر کیسے دی ہے؟حالانکہ ان کی مقدس کتاب انجیل میں فرعون اور اس کے جسم کے صحیح وسالم ہونے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ انھوں نے دل میں کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ مومیائی شدہ فرعون وہی ہے جو جناب موسی علیہ السلام کا تعقب کر رہا تھا؟ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہزار برس قبل کے اس واقعہ سے آگاہ تھے؟ ڈاکٹر بوکائے پریشان تھے،انھوں نے توریت وانجیل منگوائی اوران کاپھر سے مطالعہ کیا۔ انھوں نے توریت میں پڑھاکہ فرعون اوراس کا پورالشکر جب حضرت موسی علیہ السلام کے پیچھے دریائے نیل میں داخل ہوا تو پانی نے پلٹ کر اسے اس کے تمام لشکر والوں کے ساتھ غرق کردیا۔ ڈاکٹر بوکائے حیرت میں پڑ گئے کیونکہ انجیل نے فرعون کی لاش اور اس کے صحیح وسالم باقی رہنے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کا تھا۔حکومت فرانس نے کچھ دنوں کے بعد فرعون کی لاش کو شیشے کے ایک خوبصورت تابوت میں رکھکر مصر واپس بھیجا۔ لیکن موریس بوکائے ذہنی طور پر پریشان تھے لہذاانھوں نے اسلامی ممالک کا سفر کیا تاکہ فرعون کی لاش کے بارے میں قرآن کی باتوں کی تحقیق کر کے اطمینان حاصل کیا جائے۔ انھوں نے سعودی عرب میں طب سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کی جس میں پوسٹ مارٹم کے ماہر کئی ڈاکٹر موجود تھے ۔ بوکائے نے کانفرنس میں فرعون کی لاش کے غرق ہونے کے بارے میں اپنی تحقیقات بیان کیں۔ایسے میں ایک مسلمان کھڑا ہوا اور اس نے قرآن کریم کو کھولا اور سورہ یونس کی آیت نمبر بانوے کی تلاوت کی جس میں ارشاد ہوتاہے کہ خیرآج ہم تیرے بدن کوبچالیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بن جائے اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔قرآن کریم کی اس صریح آیت نے بوکائے کو بہت زیادہ متائثر کیا اور وہ کانپنے لگے ۔اچانک کھڑے ہوگئے اور سب کے سامنے بلند آواز میں کہا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور قرآن کریم پر ایمان لے آیا ہوں ۔ اس موقع پر قرآن کریم کی حقانیت ایسی نمایاں ہوئی کہ اجلاس میں موجود لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ان کے دل منقلب ہوگئے ۔ اس طرح موریس بوکائے فرانس واپس پلٹ کرآئے حالانکہ وہ فکری لحاظ سے بلکل منقلب ہوچکے تھے ۔ وہ اپنی تحقیقات کے نتائج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے فرعون اور دوسرے افراد کی لاشوں کی طرف جو دریائے نیل کے اس طرف اس وقت کے بادشاہوں کے مقبروں میں موجود تھیں ،اشارہ کیا ہے لیکن لوگوں کو ان کی خبر تک نہیں تھی ۔بعد میں فرعون کی لاش کا انکشاف ہوا اور آج یہ مومیائی شدہ لاش قاہرہ کے عجائب گھر ميں رکھی ہوئی ہے ۔ بوکائے برسوں جدید علمی انکشافات اور قرآن کریم کی آیات کے بارے میں تحقیق اور آپس میں مطابقت کرتے رہے لیکن انھوں نے حتی ایک مورد بھی علمی حقائق کے خلاف یا متضاد نہیں پایا۔جس کی وجہ سے ان کے ایمان میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا اور وہ قرآن کی طرف سے بلکل مطمئن ہوگئے کہ اس میں باطل کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اس فرانسیسی دانشور کی برسوں کی تحقیق کے نتیجہ میں قرآن، توریت ، انحیل اور علم کے نام سے ایک کتاب مرتب ہوئی ، انھوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قرآن کے علمی پہلوؤں نے مجھے بہت زیادہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔میں کبھی بھی فکر نہیں کرتا تھا کہ قرآن کریم نے مختلف موضوعات کواتنی باریکی کے ساتھ بیان کیا ہوگا۔ ایسے مطالب جو مکمل طور پر جدید علمی انکشافات کے مطابق ہیں اور وہ بھی چودہ سو سال قبل بیان کئے گئے ہیں ۔بوکائے کی کتاب نے مغربی ممالک کو ہلاکر رکھدیا اور دانشوروں کوحیرت میں ڈال دیا ہے ۔یہ کتاب پہلی اشاعت کے بعد ہی نایاب ہوگئی جس کے بعد اس کے ہزاروں نسخے پھر سے شائع کئے گئے۔اس کتاب کا انگریزی ،عربی، فارسی ،ملایو ،صربیائی ،یوکراینی،ترکی، اردو، اور جرمنی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ مغرب کے بعض افراد نے بوکائے کی اس کتاب کو مسترد کرنے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے اس کتاب کے مضمون میں دقت کی اور قرآن کریم کے علمی اعجاز سے آشنا ہوئے تو عظمت قرآن کا اعتراف کرلیااور کلمہ شہادتین اپنی زبانوں پر جاری کیا۔
موریس بوکائے نے کانفرنس میں مصری مومیائی سے متعلق تحقیقات کے نتیجہ کے بارے میں کہا کہ میرے عزیز دانشوروں ، میں فرعون کی لاش کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا،صرف خدائے واحد کے اس کلام کو پڑھ سکتا ہوں کہ جس میں وہ ارشاد فرما رہا ہے کہ کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں کہ اگروہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فرعون کی لاش قدرت الہی کی ایک علامت تھی ۔جس نے اعجاز قرآن کو ثابت کرنےکے علاوہ بوکائے کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی ۔
گیارہ ذیقعدہ،حضرت امام علي رضا عليه السلام كي ولادت با سعادت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ولادت باسعادت کے بارے میں علماء ومورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ گیارہ ذی قعدہ ایک سو ترپن ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ہوئے۔ اس موقع پر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور ارشادفرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو، پھرمیں نے مولود مسعود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایاکہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی حجت ہے اورمیرے بعد حجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے۔
**************
آپ آل محمد کے تیسرے ”علی“ ہیں ۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اورمشہور ترین لقب رضا تھا۔ آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور ۳۰ برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم اعراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔ آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کاآپ سے ملنا یابعدکے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کواپنے بعدہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انہیں جمع کرکےحضرت امام علی رضاعلیہ السلام کی جانشینی کااعلان فرمادیا۔ ۱۸۳ ھ میں حضرت اما م موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشیدمیں اپنی عمرکاایک بہت بڑاحصہ گذارکردرجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس برس تھی والدبزرگوارکی شہادت کے بعدامامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغدادمیں ہارون رشیدتخت خلافت پرمتمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے زندگی تنگ تھی۔
**************
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشیدکادوررہایقینا وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجودکوبھی دنیامیں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتاتھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والدماجدکارہنااس نے گوارانہیں کیامگریاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداورظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیاسے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اوریاواقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلاامام رضاکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہارون رشیدکااہلبیت رسول سے شدیداختلاف اورسادات کے ساتھ جوبرتاؤاب تک رہاتھا اس کی بناء پرعام طورسے عمال حکومت یاعام افرادبھی جنہیں حکومت کوراضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیت کے ساتھ کوئی اچھارویہ رکھنے پرتیارنہیں ہوسکتے تھے اورنہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ آسکتے تھے۔ہارون کاآخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں،امین اورمامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا،امین پہلی بیوی سے تھا جوخاندان شاہی سے منصوردوانقی کی پوتی تھی اوراس لیے عرب سردارسب اس کے طرف دارتھے اورمامون ایک عجمی کنیز سے تھااس لیے دربارکاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتاتھا، دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کاتصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیاکہ دارالسلطنت بغداداوراس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام،مصرحجاز،یمن، وغیرہ محمدامین کے نام کئے اورمشرقی ممالک جیسے ایران،خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقررکئے لیکن جونہی ہارون کی آنکھ بندہوئی خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے آخرچاربرس کی مسلسل کشمکش اورطویل خونریزی کے بعدمامون کوکامیابی حاصل ہوئی اوراس کابھائی امین محرم ۱۹۸ ھ میں موت گھاٹ اتاردیاگیا اس کا سر مامون کے سامنے پیش کیا گیا اور یوں مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پرقائم ہوگئی۔
**************
مامون الرشید نے اپنے بھائی امین کوقتل تو کردیا لیکن اسے ہر آن یہ دھڑکا لگا رہا کہ کہیں اس کے حامی بغاوت نہ کردیں دوسری طرف اسے اپنے باپ کی طرح بنی فاطمہ اور آل رسول کی جانب سے بھی خدشات لاحق تھے چنانچہ اس نے نہایت مکاری کے ساتھ خلافت کو فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا حق قرار دے کر امام علیہ السلام کو مدینے سے طوس آنے کی دعوت دی جسے امام علیہ السلام نے سختی سے مسترد کردیا کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ جس شخص نے ہوس اقتدار کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرکے اس کا سر دربار میں لاکر رکھا ہو وہ اتنی آسانی سے بھلا کیسے مسند خلافت سے دستبردار ہوسکتا ہے اور وہ بھی آل رسول کے حق میں۔ مامون دراصل اپنے اس اقدام سے آل رسول اور ان کے طرفداروں کی مخالفت کو ختم کرنا چاهتا تھا۔ چنانچہ جب آپ نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمایا، تواس نے ولیعہدی کی پیشکش کی۔ آپ اس کے بھی انجام سے واقف تھے۔بخوشی جابرحکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا چنانچہ آپ نے اس سے بھی انکارفرمایا مگراس پرمامون کااصرار جبرکی حدتک پہنچ گیا تو امام نے فرمایا، میں قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگرکسی بات میں مجھ سے مشورہ لیاجائے تونیک مشورہ ضروردوں گا۔
**************
محول شیبانی کا بیان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گیا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کے روضہ اقدس سے ہمیشہ کے لئے وداع ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ بےتابی کے ساتھ اندر جاتے ہیں اور بانالہ وآہ باہر آتے ہیں اور پھر اندر واپس چلے جاتے ہیں آپ نے چندبارایساہی کیااورمجھ سے نہ رہاگیااورمیں نے حاضرہوکرعرض کی مولااضطراب کی کیاوجہ ہے ؟ فرمایا اے محول! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبرا جدا کیا جارہا ہوں مجھے اس کے بعداب یہاں آنانصیب نہ ہوگا میں اسی مسافرت اورغریب الوطنی میں شہید کردیا جاؤں گا۔
رجب ۲۰۰ ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خورد وبزرگ شوق زیارت میں امنڈپڑے،مرکب عالی جب شہر کے مرکز میں پہنچاتو خلائق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔اس موقع پرامام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے بڑھے، اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اور اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطرکی باگ تھام لی۔ان کی استدعا سن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا د ئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کا نورانی چہرہ دیکھا سینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفیں چہرہ انور پر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہا سب کے سب بے اختیار دھاڑیں مارکر رونے لگے۔ بعض آپ کی سواری کے گرد گھومنے لگےاور جھک کر مرکب اقدس اورعماری کابوسہ دینے لگے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کودیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہر ہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمنا کے اظہار میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زین العابدین نے اوران سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمدمصطفی صلعم نے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائےگا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔ یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں۔
**************
روایات کے مطابق جب آپ نیشاپور سے شہرطوس پہنچے تووہاں دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑسے لوگ پتھرتراش کرہانڈی وغیرہ بناتے ہیں آپ اس پہاڑی سے سے ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے اورآپ نے اس کے نرم ہونے کی دعاکی وہاں کے باشندوں کا کہناہے کہ اس پہاڑ کا پتھر بالکل نرم ہوگیا اور بڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔
کہتے ہیں کہ جب آپ مروپہنچے جسے سکندر ذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آباد کیا تھا اورجواس وقت دارالسلنطت تھا تومامون نے چند روز ضیافت تکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد یکم رمضان ۲۰۱ ھجری بروز پنجشنبہ جلسہ ولیعہدی منعقدہوا، بڑی شان وشوکت اورتزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کواشارہ کیااوراس نے بیعت کی، پھراورلوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے اورچاندی کے سکے سرمبارک پرنثار ہوئے اورتمام ارکان سلطنت اورملازمین کوانعامات تقسیم ہوئے مامون نے حکم دیاکہ امام کے نام کاسکہ جاری کیاجائے، چنانچہ درہم ودینار پرحضرت امام علی رضا علیہ السلام کے نام کانقش ہوا، اورتمام قلمرومیں وہ سکہ چلایاگیاجمعہ کے خطبہ میں حضرت کانام نامی داخل کیاگیا۔ یہ ظاہرہے کہ حضرت کے نام مبارک کاسکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اورضمانت کی حیثیت رکھتاتھا اس سکہ کوسفروحضرمیں حرزجان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امرتھا صاحب جنات الخلودنے بحروبرکے سفرمیں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کاذکرکیاہے اسی کی یادگارمیں بطورضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی بعض عقیدت مند سفر میں بازوپرامام ضامن ثامن کاپیسہ باندھتے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ۳۳ ہزارعباسی مردوزن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کوولیعہد بنادیاگیا اس کے بعداس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضاکے لیے بیعت لی اوردربار کالباس بجائے سیاہ کے سبزقراردیاگیا جوسادات کاامتیازی لباس تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشن ولی عہدی کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عیدکاموقع آگیامامون نے حضرت سے کہلابھیجاکہ آپ سواری پرجاکرلوگوں کونمازعیدپڑھائیں حضرت نے فرمایاکہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کرلی ہے کہ بادشاہت اورحکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گااورنہ اس کے قریب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعیدسے بھی معاف کردوتوبہترہے ورنہ میں نمازعیدکے لے اسی طرح جاؤں گا جس طرح میرے جدامجدحضرت محمد رسول اللہ صلعم تشریف لے جایاکرتے تھے مامون نے کہاکہ آپ کواختیارہے جس طرح چاہیں جائیں اس کے بعداس نے سواروں اورپیادوں کوحکم دیاکہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔ جب یہ خبرشہرمیں مشہورہوئی تولوگ عیدکے روزسڑکوں اورچھتوں پرحضرت کی سواری کی شان دیکھنے کوجمع ہوگئے، ایک بھیڑلگ گئی سب کوآرزو تھی کہ امام کی زیارت کریں۔ طلوع آفتاب کے بعد امام نے سفیدعمامہ سرپرباندھا،عطرلگایااورعصاہاتھ میں لے کرننگے پاؤں عیدگاہ جانے پرآمادہ ہوگئے ہوگئے اوردوتین قدم چل کرکھڑے ہوگئے اورسرکو آسمان کی طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اورفوج کے سپاہیوں نے بھی تکبرکہی راوی کابیان ہے کہ جب امام رضاعلیہ السلام تکبرکہتے تھے توہم لوگوں کومعلوم ہوتاتھا کہ درودیواراورزمین آسمان سے آپ کی تکبیرکاجواب سنائی دیتاہے اس ہیبت کودیکھ کریہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اورخود لشکروالے اپنی سواریوں سے زمین پر کود پڑے سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے جلدی جلدی سنگینوں سے اپنی جوتیوں کے تسمے کاٹ دئیے ننگے پاؤں ہوگئے ۔ لوگوں پر فرط جزبات سے گریہ طاری ہوگیا۔اس کی خبرمامون کوبھی ہوگئی اس کے وزیرفضل بن سہل نے اس سے کہاکہ اگرامام رضااسی حالت سے عیدگاہ تک پہنچ جائیں گے تو ہنگامہ ہوجائیگا اور سب لوگ ان کی طرف ہوجائیں گے اورہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے۔ فضل بن سہل اس انتباہ پر مامون نے فورا ایک شخص یہ پیغام دے کر امام کی خدمت میں روانہ کیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی جوآپ سے عیدگاہ جانے کے لیے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہی ہے اورمیں آپ کی مشقت کو پسندنہیں کرتا بہتر ہے کہ آپ واپس چلے آئیں اورعیدگاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام واپس اپنی قیامگاہ تشریف لے لائے۔ اگرچہ اس روز عیدکی نماز نہ پڑھاسکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں پر مامامون کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مامون رشیدکے عہدمیں نصاری کاایک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتا تھا جس کانام ”جاثلیق“ تھااس کی عادت تھی کہ متکلمین سے کہا کرتا تھا کہ ہم نبوت عیسی اوران کی کتاب پرمتفق ہیں اوراس بات پربھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پرزندہ ہیں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفی صلعم میں ہے تم ان کی نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہمیں انکارہے پھرہم تم ان کی وفات پرمتفق ہوگئے ہیں اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے جوہمارے لیے حجت قرارپائے یہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجایاکرتے تھے۔
مامون رشیدکے اشارے پرایک دن وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بھی ہم کلام ہواموقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دھراتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اوران کی کتاب دونوں پرآپ کاایمان واعتقادہے یانہیں آپ نے ارشادفرمایا، میں اس عیسی کی نبوت کایقینا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلعم کی نبوت کی اپنے حوارین کوبشارت دی ہے اوراس کتاب کی تصدیق کرتاہوں جس میں یہ بشارت درج ہے جوعیسائی اس کے معترف نہیں اورجوکتاب اس کی شارح اورمصدق نہیں اس پرمیراایمان نہیں ہے یہ جواب سن کرجاثلیق خاموش ہوگیا۔پھرآپ نے ارشادفرمایاکہ اے جاثلیق ہم اس عیسی کوجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی، نبی برحق جانتے ہیں مگرتم ان کی تنقیص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثلیق نے کہا کہ ہم تویہ نہیں کہتے وہ توہمیشہ قائم اللیل اورصائم النہار رہا کرتے تھے آپ نے فرمایا عیسی توبنابراعتقاد نصاری خود معاذاللہ خدا تھے تویہ روزہ اورنمازکس کے لیے کرتے تھے یہ سن کرجاثلیق مبہوت ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا۔ البتہ یہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامی کوشفادے نابیناکوبیناکردے اورپانی پرچلے کیاوہ اس کاسزاوارنہیں کہ اس کی پرستش کی جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمایاالیسع بھی پانی پرچلتے تھے اندھے کوڑی کوشفادیتے تھے اسی طرح حزقیل پیغمبرنے ۳۵ ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کیا تھا قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالی نے ایک ساعت میں سب کوماردیا بہت دنوں کے بعدایک نبی استخوان ہائے بوسیدہ پرگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان بالیہ”استخوان مردہ اٹھ کھڑے ہو وہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسی کے کوہ طور پرلے جانے اوررسول خداکے احیاء اموات فرمانے کاحوالہ دے کر فرمایاکہ ان چیزوں پرتورات انجیل اورقرآن مجیدکی شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خداہونے کے مستحق ہیں یہ سن کروہ چپ ہوگیااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئی چارہ نہ دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
راس الجالوت ایک یہودی عالم تھا جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا وہ کسی کو بھی اپنی نظر میں نہ لاتا تھا ایک دن اس کا مناظرہ اور مباحثہ فرزند رسول حضرت امام رضاعلیہ السلام سے ہوگیا آپ سے گفتگو کے بعد اس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اور سمجھا کہ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں۔
امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد اس نے اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے جن کے تسلی بخش اوراطمینان آفرین جوابات سے بہرہ ورہوا جب وہ سوالات کرچکاتو امام علیہ السلام نے فرمایاکہ اے راس الجالوت ! تم تورات کی اس عبارت کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ ”آیانورسینا سے روشن ہوا جبل ساعیرسے اور ظاہر ہوا کوہ فاران سے“ اس نے کہاکہ اسے ہم نے پڑھا ضرور ہے لیکن اس کی تشریح سے واقف نہیں ہوں۔ آپ نے فرمایاکہ نورسے وحی مرادہے طورسیناسے وہ پہاڑمراد ہے جس پرحضرت موسی خداسے کلام کرتے تھے جبل ساعیر سے محل و مقام عیسی علیہ السلام مراد ہے کوہ فاران سے جبل مکہ مرادہے جوشہرسے ایک منزل کے فاصلے پرواقع ہے پھرفرمایاتم نے حضرت موسی کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا اس کی بات ماننااوراس کے قول کی تصدیق کرنااس نے کہا ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھاکہ بنی اخوان سے کون مرادہے اس نے کہا معلوم نہیں، آپ نے فرمایاکہ وہ اولاداسماعیل ہیں، کیوں کہ وہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے ہیں اوربنی اسرائیل کے مورث اعلی حضرت اسحاق بن ابراہیم کے بھائی ہیں اور انہیں سے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعدجبل فاران والی بشارت کی تشریح فرما کر کہا کہ شعیانبی کاقول توریت میں مذکورہے کہ میں نے دوسوار دیکھے کہ جن کے پرتوسے دنیاروشن ہوگئی، ان میں ایک گدھے پرسوار تھا اور ایک اونٹ پر، اے راس الجالوت تم بتلاسکتے ہوکہ اس سے کون مراد ہیں؟ اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا کہ راکب الحمار سے حضرت عیسی اور راکب الجمل سے مرادحضرت محمدمصطفی صلعم ہیں۔
پھرآپ نے فرمایاکہ تم حضرت حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدااپنابیان جبل فاران سے لایااورتمام آسمان حمدالہی کی (آوازوں) سے بھرگئے اسکی امت اوراس کے لشکرکے سوارخشکی اورتری میں جنگ کرینگے ان پرایک کتاب آئے گی اورسب کچھ بیت المقدس کی تباہی کے بعد ہوگا اس کے بعدارشاد فرمایاکہ یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ ان سے وہ امورظاہرہوئے ،جوان سے پہلے کے انبیاء پرنہیں ہوئے تھے مثلادریائے نیل کا شگافتہ ہونا، عصاکاسانپ بن جانا، ایک پتھرسے بارہ چشمہ جاری ہوجانااوریدبیضاوغیرہ، آپ نے فرمایاکہ جو بھی اس قسم کے معجزات کوظاہرکرے اورنبوت کامدعی ہو،اس کی تصدیق کرنی چاہیے اس نے کہانہیں آپ نے فرمایاکیوں؟ کہااس لیے کہ موسی کوجوقربت یامنزلت حق تعالی کے نزدیک تھی وہ کسی کونہیں ہوئی لہذاہم پرواجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات وکرامات نہ دکھلائے ہم اس کی نبوت کااقرارنہ کریں ،ارشادفرمایاکہ تم موسی سے پہلے انبیاء مرسلین کی نبوت کاکس طرح اقرارکرتے ہو حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریاشگافتہ کیا، نہ کسی پتھرسے چشمے نکالے نہ ان کاہاتھ روشن ہوا،ا ورنہ ان کاعصااژدھابنا،راس الجالوت نے کہاکہ جب ایسے اموروعلامات خاص طورسے ان سے ظاہرہوں جن کے اظہارسے عموماتمام خلائق عاجزہو، تووہ اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یانہ ہوں ان کی تصدیق ہم پرواجب ہوجائے گی۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاکہ حضرت عیسی بھی مردوں کوزندہ کرتے تھے کورمادرزادکو بینا بناتے تھے مبروص کوشفادیتے تھے مٹی کی چڑیابناکرہوامیں اڑاتے تھے وہ یہ امورہیں جن سے عام لوگ عاجز ہیں پھرتم ان کوپیغمبر کیوں نہیں مانتے؟
راس الجالوت نے کہا کہ لوگ ایساکہتے ہیں، مگرہم نے ان کوایساکرتے دیکھانہیں ہے فرمایاتوکیا آیات و معجزات موسی کوتم نے بچشم خوددیکھا ہے آخروہ بھی تو معتبرلوگوں کی زبانی سناہی ہوگاویساہی اگرعیسی کے معجزات ثقہ اورمعتبرلوگوں سے سنو،توتم کوان کی نبوت پرایمان لاناچاہئے اوربالکل اسی طرح حضرت محمدمصطفی کی نبوت ورسالت کااقرارآیات ومعجزات کی روشنی میں کرناچاہیئے سنو ان کاعظیم معجزہ قرآن مجیدہے جس کی فصاحت وبلاغت کاجواب قیامت تک نہیں دیاجاسکےگا یہ سن کروہ خاموش ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک مشہور مجوسی عالم ہربذ اکبر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعلمی گفتگوکرنے لگاآپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے اس کے بعداس سے سوال کیاکہ تمہارے پاس زرتشت کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ انہوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف ہدایت فرمائی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے رہنمائی نہیں کی تھی ہمارے اسلاف کہاکرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ ا مورمباح کئے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے آپ نے فرمایاکہ تم کو اس امرمیں کیاعذر ہوسکتاہے کہ کوئی شخص کسی نبی اوررسول کے فضائل وکمالات تم پرروشن کرے اورتم اس کے ماننے میں پس وپیش کرو، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبرلوگوں سے سن کرزرتشت کی نبوت مان لی اسی طرح معتبرلوگوں سے سن کرانبیاء اوررسل کی نبوت کے ماننے میں تمہیں کیاعذر ہوسکتاہے؟
من موہن سنگھ فساد زدہ علاقوں کے دورے پر
ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے آج صوبہ اترپردیش کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ وزیر اعظم ہند نےحالیہ فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر افراد سے ملاقات میں وعدہ کیا کہ ان لوگوں کو کڑی سزائيں دی جائيں گي جو حالیہ فسادات میں ملوث ہیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم نے کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی اور اس پارٹ کے نائب صدر راہل گاندھی کے ساتھ مظفر نگر کے فسادات زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ واضح رہے ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے وزیر اعظم کے دورہ مظفر نگر پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے ڈرامہ قراردیا ہے۔ واضح رہے ہندوستان کی مرکزی اور صوبائي حکومتوں پر انتھا پسند ہندو تنظیموں کو کافی اثرو رسوخ حاصل ہے جس کی بنا پر سکوریٹی فورسز بھی بحرانی حالات میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں اور نتیجے میں مسلمان دونون طرف سے پستے ہیں۔ ہندوستان میں انتھا پسند ہندو پارٹیوں کے ہاتھوں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب جیسے عیسائيت کے پیروکار بھی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
امن عمل کے حامی، لیکن دہشتگردوں کو اس سے فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے
پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے طالبان کی جانب سے مذکرات کے لئے شرائط پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج امن عمل کی حمایت کرتی ہے لیکن دہشت گردوں کو اس کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے میجر جنرل ثنا اللہ سمیت تین فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے بیان میں واضح موقف اپناتے ہوئے کہا کہ امن حاصل کرنے کے لیے سیاسی کوششوں کو ایک موقع ملنا چاہیے لیکن کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ ‘دہشت گرد ہمیں اپنی شرائط منوانے کے لیے مجبور کر سکیں گے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ فوج دہشت گردوں سے لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ کیانی نے کہا کہ پاکستانی فوج قوم کی امیدوں کے مطابق ہر قیمت پر دہشت گردی کی لعنت سے بے خوف ہو کر نبر آزما ہونے کے لیے پرعزم ہے۔ بیان میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ فوجیوں پر حملے جیسے بزدلانہ فعل میں ملوث دہشت گردوں کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
صبر، کامیابی اور نجات کا راستہ
صبر و بردباری انسان کی شخصیت کی ایک ایسی صفت ہے جو اس کے کردار کی نوعیت میں اہم کردار کی حامل ہے۔ تمام آسمانی ادیان میں صبر کو ایک پسندیدہ صفت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کے نزدیک صبر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے اسے ایمان کا سب سے اہم رکن بتایا ہے۔ اور فرمایا ہےکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت حاصل ہے جو سر کی بدن کے ساتھ ہوتی ہے۔ علم اخلاق کی بہت سے کتابوں میں بھی صبر کو ایک ممتاز اخلاقی فضیلت قرار دیا گیا ہےاور علمائے اخلاق نے صبر کی متعدد تعریفیں کی ہیں۔ مثلا عظیم ایرانی دانشور خواجہ نصیر الدین طوسی کے نزدیک صبر ناخوشگوار واقعات کے سامنے کے وقت نفس کا بے قرار نہ ہونا ہے۔ امام خمینی رح نے بھی اس کی تاثیرکے بارے میں فرمایا ہے کہ " صبر انسان کےکمال کا موجب اور تقوی کے ارتقاء ، خدا تعالی سے مانوس اور خدا کا انسان سے خوشنودی کا سبب ہے۔ "
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر انسان کو صبرکی تلقین کی گئي ہے۔ جس پر عمل انسان کے بہتر انفرادی اور اجتماعی کردار کی ضمانت بن سکتا ہے۔ سامعین ہم اس پروگرام میں صبر کے بارے میں قرآن کریم کے بعض احکام بیان کریں گے۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم نے جن مقامات پر صبر سےکام لینے کاحکم دیا ہے ان میں سے ایک فیصلے کا مقام ہے۔ سورۂ یونس کی آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " آپ صرف اس بات کا اتباع کریں جس کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کرتے رہیں یہاں تک کہ خدا کوئي فیصلہ کر دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ "
اس آیت میں اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم ص اور مسلمانون سے فرمایا ہےکہ جس چیز کی ان پر وحی کی گئي ہے اس کا اتباع کریں اور فیصلہ کرتے ہوئے صبرسے کام لیں۔
سورۂ ص کی اکیس سے چوبیس تک کی آیات میں بھی قرآن کریم نے حضرت داوود علیہ السلام کے ایک فیصلے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔ حضرت داوود علیہ السلام نے عجلت پسندی میں ایک فیصلہ کیا لیکن بعد میں اس کی جانب متوجہ ہوگۓ۔ عموما ہوتا یہ ہے کہ عجلت پسندی میں فیصلہ کرنے سے انسان غلطی کر بیٹھتا ہے۔ فیصلے کے دوران بہت سے غلط رویوں اور غیر سنجیدہ باتوں کی وجہ عجلت پسندی ہی ہوتی ہے۔ دوسری جانب عجلت میں کیا گيافیصلہ غلط ہوتا ہے جس کے نتیجےمیں انسان کو ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کوئي بھی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل غور و فکر کرنا اس بات کا موجب بنتا ہےکہ انسان اپنے اعمال اور فیصلوں کے منفی نتائج کو مدنظر رکھے۔ در حقیقت صحیح فیصلہ انسان کی ساکھ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اور یہ کامیابی اور سعادت سے ہمکنار ہونے کا ایک راستہ ہے۔
سورۂ والعصر میں اللہ تعالی نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ جو صبر سے کام نہیں لیتے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے۔
" قسم ہے عصر کی ۔ بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کۓ اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت و نصحیت کی۔ "
اگر ہم اس سورے کی نورانی آیات میں غور و فکر کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ قرآن کریم نے شروع میں وقت اور زمانے کی جانب اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد صابرین کو سراہا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت اور صبر کرنے والوں کے درمیان قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وقت کے صحیح استعمال کے لۓ صبر کی صفت کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔ ماہرین نفسیات نے مختلف افراد پر تحقیق کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پریشان اور مضطرب انسانوں کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وقت بہت سست رفتاری سے گزر رہا ہے اور وہ اس بات کے لۓ بے تاب ہوتے ہیں کہ وقت جلد گزر جائے۔ افسردگی میں مبتلا افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو اور گزرنے کا نام ہی نہ لیتا ہو۔ اور جھگڑالو افراد کا وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہو گزر چکا ہوتا ہے۔ جبکہ دوراندیش افراد قلیل المیعاد اور طویل المیعاد مقاصد اپنے مدنظر رکھتے ہیں۔ اور کامیابی کے حصول کے لۓ صبر سے کام لیتے ہیں۔ بنابریں صبر کا فقدان انسان کی عمر ضائع ہونا کا سبب بنتا ہے۔
قرآن کریم نے جزا کے حصول کے سلسلے میں بھی صبر سےکام لینے کی تلقین فرمائی ہے۔ سورہ ہود کی آیت نمبر ایک سو پندرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ " اے پیغمبر آپ صبر سے کام لیں کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ "
عموما لوگ پاداش حصول کے لۓ کام انجام دیتے ہیں۔ بعض جزائیں کام کے فورا بعد انسان کو مل جاتی ہے اور بعض جزائيں دیر سے ملتی ہیں۔ عموما بڑی پاداش دیر سے ملتی ہے۔ اور اس کے حصول کے لۓ صبر و شکیبائي بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی کی جانب سے ملنی والی پاداش وہ گرانقدر پاداش ہے جو انسان کو اخروی زندگي اور بہشت میں حاصل ہوگي۔ اس لۓ صبر سے تہی داماں انسان نیک اعمال اور عبادات سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ابدی جنّت اور حقیقی کامیابی پر دنیوی امور کو ترجیح دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم نے انسانوں کے لۓ صبر کا ایک اور نمونہ بیان کیا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان الفت و محبت میں اضافہ ہو۔ اور وہ سعادت سے لبریز زندگی گزاریں۔اس سے مراد انتقام لینے کے موقع پر صبر کرنا ہے۔
قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ " اور اگر تم ان سے بدلہ لینا چاہو تو صرف اسی قدر بدلہ لو جس قدر انھوں نے تم پر زیادتی کی ہے اور اگر تم صبر کرو تو بہرحال صبر کرنے والوں کے لۓ بہترین ہے۔"
اس آیت میں انتقام کے موقع پر صبر کرنے اور جوابی کارروائی سے اجتناب کرنے کو انتقام لینے سے بہتر قرار دیا ہے۔ انتقام لینے کے بجائے صبر کرنا انسان کی عزت و وقار کی علامت ہے۔ اوریہ بھی صفات خداوندی سے متصف ہونے کا ایک مرحلہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی انسانوں کے ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن وہ فورا انتقام نہیں لیتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے بندوں کو توبہ کاموقع فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ انسانی سماج ، خاندانی نظام اور انسانوں کے تعلقات میں یہ پسندیدہ خلق حکمفرما ہوجائے تو لوگوں کی بہت سی مشکلات میں کمی واقع ہوجائے گی۔ طلاق کی شرح کم ہوجائے گی اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہوں گی۔ دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنا انسان کو ایک لذت بخش زندگی اور سکون سے ہمکنار کرتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا ہے۔ " معاف کرنے میں جو لذت ہے وہ انتقام لینے میں نہیں ہے۔ "
اللہ تعالی نے انسان کو نہ صرف صبر کی دعوت دی ہے بلکہ ان کو حکم دیا ہےکہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
" اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی رغبت دلاؤ"
صبر کرنا اور صبر کے سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے صحتمند سماجی تعلقات کاراستہ ہموار ہوتا ہے۔ اوریہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ صبر سے انسان کے تقوی اور پرہیزگاری کو بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ اس سے انسان کے اندر خدا تعالی کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
پس صبر کا انفرادی پہلو بھی ہوتا ہے اور اجتماعی پہلو بھی۔ صبر کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ انسان عارضی خواہشات نفسانی ، غصے اور مشکلات سے اجتناب کرنے نیز پروردگار کی اطاعت اور عبادت کی انجام دہی کی طاقت و قوت حاصل کرلیتا ہے۔ اور اس کا سماجی پہلو یہ ہے کہ صبر دوسروں کے غلط رویۓ کے مقابل سب لوگوں کی ترقی و پیشرفت میں مدد کرتا ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی صبر کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں دوستی اورمحبت والفت کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔
جب سماجی تعلقات کی بنیاد صبر پر استوار ہو تو لوگوں کی نفسیاتی سلامتی کی ضمانت فراہم ہوتی ہے۔ جس کے باعث انسانوں کی سعادت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جس معاشرے میں انسان صبر سے کام نہ لیتے ہوں اس میں لڑائی جھگڑے ، کشیدگی ، ایک دوسرے کے خلاف سازش ، غیبت ، جھوٹ اور الزامات لگانے کا بازارگرم ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صبر کا فقدان انسان کے اندر خدا تعالی کی اطاعت کا جذبہ کم کردیتا ہے اور انسان بہتر طور پر مشکلات کا مقابلہ نہیں کرپاتا ہے۔
یورپی ماہرین نفسیات کی کتابوں میں بھی صبر پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ البتہ ان ماہرین نفسیات نے صبر کے معنی شدت اور سخت کوشی کے بیان کۓ ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ انسان کی شخصیت کی ایک اہم خصوصیت مشکلات میں اس کا ڈٹ جانا ہے۔ ان کہنا ہے کہ صابر اور سخت کوش انسان زندگی کے سلسلے میں احساس ذمےداری رکھتے ہیں اسی لۓ وہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ ماہرین نفسیات صبر اور سخت کوشی کو ایک ایسا ذریعہ جانتے ہیں جو مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے میں انسان کی مدد کرتا ہے ۔
بنابریں سعادت و کامیابی کے حصول کے سلسلے میں صبر کے کردار پر نہ صرف ادیان الہی میں توجہ دی گئي ہے بلکہ ماہرین اور سماجی مفکرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
رسول اکرم ۖ مسلمانوں کے اتّحاد کا مرکز- آيت الله العظمي خامنه اي کا نظریہ
رسول اعظم ۖ کےبارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ؟ سوا ۓ اسکے کہ ہم یہ کہیں کہ آپ تمام انبیاء اور اولیاءکرام (ع) کے فضائل کا مجموعہ ہیں اور ان سارے اور تمام فضائل وکمالات کا پیکر ہیں جو انبیاء اور اولیاۓ الہی (ع) میں موجود ہیں
یہ رہبر انقلاب اسلامی کی اس تقریر کا حصّہ ہے جو آپ نے پیغمر اکرمۖ سے متعلّق فرمائی تھی –
جی ہاں – رسول اعظم اسلام حضرت محمّد مصطفی ص نے اپنی منفرد خصوصیات کے ذریعہ جہالت وخرافات کو دور کیا اور بہت سے دلوں کو ہدایت وکمال کے نور وروشنی کی جانب جذب کرنے کی کامیاب کوشش فرماتے رہے –
آپ نے جاہلانہ تعصّبات کا خاتمہ کیا اور کینہ و حسد کی آلودگی کو دلوں سے کھرچ کے پھینک دیا – پیغمر رحمت ص نے مہاجر و انصار – عرب و غیر عرب – نیز گورے اور کالے کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا – اور سبھی کو پرچم اسلام کے ساۓ میں جمع کر دیا –اس انسان کامل کا کردار وعمل کچھہ ایسا تھا کہ آپ دلوں کو آپس میں قریب کر کے لوگوں کے مابین روابط اور انکے عقائد کی بنیادوں کو مستحکم فرمادیتے تھے – رسول خدا ص کی رحلت کو صدیاں گذر جانے کے بعد بھی آج سارے مسلمان اس عظیم الہی شخصیّت کے محور پر جمع ہیں – اور آپس میں متحد اور متعہّد ہیں –
حضرت آیت الله العظمی خامنہ ای معتقد ہیں کہ دور حاضر میں بھی عالمی سطح پر پیغمر اعظم کا وجود پاک تمام مسلمان قوموں کے عقائد کے اتّصال کا مرکز ہے -
رسول اکرم ص کے دور میں کفّار ومشرکین اسلام کے پودے کو بڑھتا ہوا اور مسلمانوں کا روزافزوں فروغ دیکھ کر پیغمر اکرم ص اور دین اسلام کی نابودی کےلۓ نئی نئی سازشیں اور منصوبے تیّار کر نے لگے – تاریخ خود ایک واضح گواہ اور اس امر کیلۓ آئینہء حقیقت ہے کہ کفّار ضعیف و کمزور اور اسلام کامیاب و کامراں تھا لیکن آج بھی دشمنان اسلام اس زمانے کے متعصّب کفّار کی طرح نئی دھڑے بندی کے ذریعہ اپنی بھر پور کو ششوں سے پیغمر رحمتۖ کے چہرے کو مخدوش اور دین اسلام کونابود کرنے کے درپے ہیں اور ان اسلام دشمنوں نے اپنے تو ہین آمیز اقدامات کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پوری قوّت لگادی ہے – رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بقول دشمنان اسلام اور اسلامی امّہ آج ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہیں اور اسلام کے دشمن اسلامی بیداری کے موجزن سمندر کے سامنے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ پسماندہ ہیں لہذااس قسم کے احمقانہ اقدامات انجام دے رہے ہیں –
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک جانب رسول اکرم (ص) کی شان اقدس میں گستاخانہ فلم کو دشمنان اسلام ، مستکبرین اور ان کے آلہءکاروں کے پیغمر رحمت و عزّت و کرامت ۖ سے گہرے بغض و کینہ کا ترجمان قرار دیا اور دوسری جانب مغربی سیاستدانوں اور اس توہین آمیز اقدام کے مقابلے میں ان کے موقف کو دنیاۓ اسلام کے لۓ بہت ہی مفید قراردیا- آپ نے فرمایا کہ دیر سے سمجھنے والوں نے بھی یہ سمجھہ لیا کہ حق و باطل کے ما بین لڑائی کس بات پر ہے اور یہ معلوم ہو گیا کہ حق و باطل کی لڑائی کا اصل محور اسلام اور پیغمر اسلام خاتم الانبیاء ۖ کا وجود مبارک ہے –
قابل ذکر بات یہ کہ استکباری نظاموں کے سر براہان ،ایک جانب سے اس گستاخانہ عمل کی مذمّت نہیں کر رہے ہیں اور اس نہایت ہی بڑے جرم کے خلاف اپنے فریضہ پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور دوسری جانب اس توہین آمیز اقدام کی برائی سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں –
حضرت آیت الله العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ امریکی اور بعض یورپی ممالک کے حکاّم کو عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہۓ کہ وہ اس انتہائی بڑے جرم میں شریک نہیں ہیں – یہ نہیں ہے کہ وہ صرف زبان سے ہی کچھہ کہیں – آپ نے فر مایا کہ وہ ان گستاخانہ اقدامات کی روک تھام ہرگز نہیں کریں گے اور اسکی وجہ ظاہر ہے – استکباری مشینریاں اسلام و اسلامی مقدّسات کی توہین کی فکر رکھتے ہیں ، اور جو امر انھیں اس قسم کے جنون آمیز اقدامات پر مجبور کر تا ہے وہ اسلامی بیداری کی عظیم تحریک ہے ، اس وقت مغربی حکاّم یہ بہانہ تراشی کررہے ہیں کہ ہم آزادیء بیان واظہار کےاحترام میں
لوگوں کے اس قسم کے اقدامات کی بھی روک تھام نہیں کر سکتے ، دنیا میں اس بات پر کون یقین رکھتا ہے کہ ان ممالک میں ریڈ لائن معیّن ہے اور وہ پوری قوّت سے اس ریڈ لائن کا لحاظ کرتے ہیں ، اور طاقت اور تشدد کے ذریعہ ریڈلائن ہرکسی کو پار کرنے سے روکتے ہیں ، لیکن وہی اسلامی مقدّسات کی توہین کو روکنے کے سلسلے میں آزادیءبیان واظہارکے حامی بن جاتے ہیں -
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃاللہ العظمی خامنہ ای نے ھولوکاسٹ کے مشکوک اورغیر واضح واقعے اور ھم جنس بازی جیسے غیر اخلاقی رویئے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ اور مغرب میں کسی کو بھی ان مسائل کے بارے میں لب کشائی کی اجازت نہیں ہے - رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جیسا کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ اگر آمریکہ میں کوئی علم نفسیات اور علم سماجیات کی بنیاد پر، ھمجنس بازی کے خلاف کچھ لکھنا چاہے اور اسے شائع کرنا چاہے تو اسے اس کی بالکل اجازت نہیں ہے - آخر یہ کیسے آزادی بیان کے دعویدار ہیں ؟ جہاں کہیں بھی خبیث صہیونی حکومت کی پالیسیوں کا عمل دخل ہے وہاں آزادی بیان کا کوئی معنی نہیں ہے اور کوئی جرآت بھی نہیں کرسکتا کہ اور اسے یہ حق بھی نہیں پہونچتا کہ اس ذلت آمیز پالیسی کے مقابلے میں یا ھولوکاسٹ جیسے مسئلے کے خلاف کچھ شائع کر سکے / لیکن اسلامی مقدسات کی توھین اوران کے زعم ناقص میں اسلامی جوانوں کی نظروں میں اسے ہلکا ظاہر کرنے کے لئے سب کچھ جائز ہے لیکن جیسا کہ ظاہر بھی ہے کہ آج رائےعامہ ، امریکہ اور صہیونی حکومت کے خلاف ہے - رہبر انقلاب اسلامی معتقد ہیں کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر حریت پسند اور انصاف پسند انسان بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں سامراج کے مظالم اور آسمانی ادیان کی توہین پر سراپا اجتجاج اور گلہ مند ہیں اور ان کی ان پالیسیوں نے مغرب اور اسرائیل سے شدید نفرت پیدا کردی ہےاسی بناء پر ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ ان کے توھین آمیز رویّے کبھی خاکے شائع کرنے تو کبھی فلم بنانے کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں ،اور یہ امر مغرب کی جاہلانہ اور دشمنانہ پالیسوں کے خلاف عوام میں اتحاد کے مضبوط ہونے کا عامل بن رہا ہے- رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسے میں مزید فرمایا : آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج عالم اسلام میں کیا ہورہاہے اور دنیا بھر کے مسلمان کس طرح سے اپنے جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں / اکثر مسلمانوں نے اس فلم کو دیکھا بھی نہیں ہے صرف انہیں اتنا ہی پتہ چلا ہے کہ اس قسم کی توہین کی گئی ہے لیکن دنیا بھر کے مسلمان بغیر کسی کے اشتعال دلائے اور کسی اپیل کے بغیر ہی عظیم الشان مظاہروں اور ریلیوں میں شرکت کر رہے ہیں اور اس طرح پیغمبراسلامۖ سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار کررہے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ، اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے غورطلب بات تو یہ ہےکہ ان مغربی ملکوں میں کہ جہاں استکبار کے بڑے بت اور سرکش افراد بیٹھے ہوئے ہیں اور اسلام و مسلمین کے خلاف منصوبے بنا رہے ہیں ان ہی کے دیار میں مسلمان حتی غیر مسلم بھی میدان میں اتر آئے ہیں اور اس اہم مسئلے نے عالم اسلام میں پائے جانے والے ولولے اور تحرک کو ثابت کر دیا ہے - پیغمبر اکرم (ص) کا وجود مبارک ، مسلمانوں کا مرکز اتحاد ہے یعنی یہ وہ ذات ہے کہ جس پر مسلمانوں کےتمام مختلف فرقوں اور مذاھب کے افراد کا اتفاق ہے اور سبھی اس ایک حقیقت یعنی رسول اسلام کے وجود بابرکت کا اعتراف کرتے ہیں اس مسئلے میں شیعہ ، سنی اور اعتدال پسند اور انتہا پسندوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہے سارے مسلمان دل و جان سے پیغمبر اکرم (ص) کو مانتے اور ان پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں -
دشمن کہ جسے اس وقت عظیم احتجاجات کا سامنا ہے اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈال کران میں دشمنی پیدا کرے البتہ مستکبروں اور دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف ڈالیں اور ان کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کریں / لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اگرچہ مسلمان بعض مسائل وعقائد میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ان کے درمیان کچھ مشترکہ اصول بھی ہیں اور ان اصولوں میں سے ایک اہم ترین اصول ، پیغمبر اسلام (ص) کی ذات مبارک ہے جو سب مسلمانوں میں مشترک ہے / حضرت آیۃاللہ العظمی خامنہ ای نے سب کی توجہ ، دشمنوں کی سازشوں کی جانب دلائی اور محمد مصطفی (ص) کی اتحاد بخش شخصیت کے بارے میں فرمایا کہ پیغمبر اسلامۖ کے وجود کو کائنات میں ایک درخشاں ترین ستارے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے / پیغمبر اسلام (ص) کا وجود کہکشاں کی طرح ہے اور آپۖ کی ذات اقدس میں ہزاروں درخشاں فضیلتیں موجزن ہیں / پیغمبر اعظم (ص) میں علم ، اخلاق کے ہمراہ / حکومت ، حکمت کے ہمراہ / عبادت خدا ، مخلوق کی خدمت کے ہمراہ / جہاد ، رحمت کے ہمراہ / خدا سے عشق ، مخلوقات خدا سے عشق کے ہمراہ/ عزت ، انکساری اور خاکساری کے ہمراہ / خدا کی یاد میں غرق ہونا ، جسم کی سلامتی کے ہمراہ / اور اعلی الہی اھداف و مقاصد ، انسانوں کے پرکشش اھداف کے ہمراہ ہیں- عالم وجود میں آپۖ خداوند عالم کا ایک کامل ترین نمونہ ہیں اورآپ ۖ کے جیسے کامل ترین مخلوق خدا نے خلق ہی نہیں کی -وہ بشارت دینے والے اور تمام انسانوں کو خدا کی جانب دعوت دینے والے ہیں اور انسانوں کی ھدایت کی راہ میں روشن چراغ ہیں /
مصر، فوج سے اخوان المسلمین کی اپیل
اخوان المسلمین نے فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے بیرکوں میں واپس چلی جائے اور ملک میں فوج کی وجہ سے جو فساد برپا ہوا ہے ان پر مصری قوم سے معافی مانگے۔ اخوان المسلمین کے بیان میں آیا ہے کہ مصری قوم اپنی تاریخ میں فوج اور پولیس کے ہاتھوں اپنے فیصلے کی پامالی اور ہولناک ترین قتل عام کی شاہد ہے۔ اس بیان میں کہا گيا ہے کہ فوج غنڈوں کی بھی سرپرستی کررہی ہے۔ اخوان المسلمین نے وزیر اعظم حازم بیلاوی پر دوہرا رّویہ اپنانے کا الزام لگایا۔ اخوان المسلمین نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے تباہ ہورہے ہیں اور اگر یہ عمل جاری رہا تو مصر نابود ہوجائےگا۔
60سال سے صہیونیت کے لئے امریکہ، تمام ملکوں کے حکام کی جاسوسی کرتا ہے
وائينہ میڈسن نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ دنیا میں کوئي بھی اعلی سرکاری عھدیدار جو الکٹرانیک مواصلاتی ذرائع سے استفادہ کرتا ہے امریکی جاسوسی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے تمام ملکوں کے حکام کی جاسوسی کرنے کا پلان بنارکھا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے برازیل اور میکسیکو کے سربراہوں کی جاسوسی کی ہے جس پر ان ملکوں کی حکومتوں نے امریکہ سے وضاحت طلب کرلی ہے اور شدید ناراضگي کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی سی آئي اے کے سابق افسر ایڈورڈ اسنوڈن نے ہزاروں دستاویزات کا انکشاف کیا ہےجن سے امریکہ کے عالمی جاسوسی پروگرام کی قلعی کھل گئي ہے۔
ایران کی جوھری سرگرمیاں؛ پائیدار ترقی کی پالیسی
جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے نے آئی اے ای اے کے بورڈ اف گورنرز کے اجلاس میں کہا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے ہر قسم کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے آئی اے ای اے کے ساتھہ وسیع تعاون کے لئے تیار ہے ؛ لیکن آئی اے ای اے میں ایران کے نمائندے نے وضاحت کی کہ تھران جوہری انرجی کے پر امن استعمال پر مبنی اپنے مسلمہ حق سے دستبردار نہیں ہو گا ۔
رضا نجفی نے ویانا میں جمعرات کی شام ہونے والے بورڈ اف گورنرز کے موسم گرما کے آخری اجلاس میں این پی ٹی کے رکن ممالک اور ایجنسی کی توقعات و ذمہ داریوں پر تاکید کے ساتھہ جوہری انرجی کے استعمال کے شعبہ میں ایران کے اہداف و مقاصد کی وضاحت کی ۔ لیکن ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کے دائرے میں کن اہداف کے درپے ہے ؟ ایران کا پہلا ہدف و مقصد جوہری ٹیکنالوجی سے آلودگی سے پاک انرجی یعنی بجلی کی پیداوار ہے۔ اسی دائرے میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ایران کا پہلا ایٹمی بجلی گھر ایران کے جنوب میں واقع بوشہر میں بنایا گیا ہے کہ جو اپنے تمام تر آخری تجربات اور ٹیکنیکل کنٹرول سسٹم سے گزرنے کے بعد اپنے مقررہ وقت یعنی چوبیس ستمبر کو ایرانی کونٹیکٹرز کے حوالے کردیا جائے گا۔ لیکن اس شعبے میں ایران کی ایٹمی انرجی ایجنسی کا دوسرا مقصد و ہدف جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے تحفظ کے ساتھہ بجلی گھر اور تھران کے ری ایکٹر کی ضرورت کے لئے ایندھن کی پیداوار ہے۔
واضح ہے کہ یورینیئم کی افزودگی این پی ٹی معاہدے اور آئی اے ای اے کے قوانین کے منافی نہیں ہے اور ایران کو توقع ہے کہ تھران کے لئے آئی اے ای اے کی جانب سے اس حق کو باقاعدہ طور پرتسلیم کیا جائے۔ مغربی اور جوہری ایندھن رکھنے والے ممالک نے کہ جو ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے شعبے میں معاندانہ اہداف سے کام لے رہے ہیں ، تقریبا گذشتہ دو برسوں سے تھران ری ایکٹر کے لئے ایندھن کی فراہمی بند کررکھی ہے۔ لیکن ایسے میں جبکہ بعض کا یہ خیال تھا کہ ایندھن کی تیاری میں ڈھائی سال کا عرصہ لگتا ہے ، ایرانی سائنسدانوں نے ڈیڑہ سال کی کم مدت میں یہ کام پورا کرلیا۔ ایران کی ایٹمی انرجی تنظیم نے اس سائنسی ہدف کو عملی جامہ پنہانے کے لئے پہلے مرحلے میں ایران کے ایٹمی ایندھن کی ری سائیکلنگ کے عظیم منصوبے کو ایک قومی منصوبے کے عنوان سے شروع کیا اور اس سلسلے میں اصفہان کے یو سی اف کے کارخانے اور اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کے منصوبے کا افتتاح کیا اور گذشتہ سال بھی قم میں فوردوتنصیبات میں یورینیئم کی افزودگی کے کام کا افتتاح ہوا اور یہ سب منصوبے جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کی نگرانی میں کام کررہے ہیں اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔
اس وقت تھران کا تحقیقاتی ری ایکٹر ایرانی سائنسدانوں کی جانب سے تیار کیئے جانے والے ایندھن سے ہی کام کررہا ہے۔ آئی اے ای اے کے بورڈ اف گورنرز کے اجلاس میں آمانو کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات میں ایران کے اندر تیار کردہ نئی نسل کے سینٹی فیوجز نصب کئے گئے ہیں۔ اس وقت ایران میں پندہ قسم کی ریڈیوایکٹو میڈیسن تیار کی جاتی ہیں اور تقریبا دس لاکھہ کینسر کی بیماری میں مبتلا مریض ان میڈیسنز کو استعمال کررہے ہیں اور اس قسم کی دواؤں کا نوے سے پچانوے فیصد ایران میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایران کو ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے لئے بیس ایٹمی بجلی گھروں کی ضرورت ہے تاکہ ترقی و پیشرفت کے لئے اس سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی تیار کی جاسکے اور ایران کے روشن افق کی دستاویز میں اس کو شامل کیا گیا ہے اور اس کام کے لئے ایران کو تیس ہزار ٹن ایٹمی ایندھن کی ضرورت ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پابندیوں ، سیاسی دباؤ اور فوجی دہمکیوں اور حتی ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل اور کمپیوٹر وائرس سے بحران کھڑا کرنے کے ساتھ اس کوشش میں ہیں کہ ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کریں۔ مغرب کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ، ایٹمی ٹیکنالوجی آج ملت ایران کے اہم سائنسی کارناموں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک شبہ نہیں کہ ایران کا یورینیئم کی افزودگی کا حصول کہ جو آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی مکمل نگرانی میں انجام پارہا ہے، این پی ٹی معاہدے کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یہ کامیابیاں سائنسی ترقی و پیشرفت کے علاوہ انرجی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی دور اندیشی کی علامت بھی ہے اور ان اہداف کے ساتھہ ایران اپنے جوہری حقوق سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لئے پختہ عزم و ارادہ رکھتا ہے اور تھران کی یہ تاکید ہے کہ اس حوالے سے اعتماد کی فضا قائم ہو۔
ایران، ملک کے بھرپور دفاع کے لئے آمادہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی بری فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ مسلح افواج زمین اور فضا میں ملک کا بھرپور دفاع کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ جنرل احمد رضا پوردستان نے آج صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بری فوج فضا اور زمین پر ہرطرح کے خطرے کا دفاع کرنے کےلئے آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بری فوج نے علاقے میں تمام اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے ہفتہ دفاع مقدس کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ہفتے بری فوج کی کامیابیوں کی رونمائي کی جائے گي۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جنگوں میں بنیادی کردار انسان کا ہوگا اور وہی ممالک ان جنگوں میں کامیاب رہیں گے جن کی فوجیں مومن ہوں گي۔ انہوں نے بری فوج کے وارگیمز کے بارے میں کہا کہ بری فوج کی مشقیں رواں برس نومبر کے مہینے میں جنوبی ایران میں کی جائيں گي۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
