صفات مومن 5

Rate this item
(0 votes)

مقدمہ :

گذشتہ جلسوں میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی تھی اس حدیث میں مومن کے ایک سو تین صفات بیان فرمائے گئے ہیں جن میں سے بائیس صفات بیان ہو چکے ہیں اور آج اس جلسہ میں ہم چار صفات اور بیان کریں گے۔

حدیث :

” ۔ ۔ ۔ ۔ احلی من الشہد واصلد من الصلد ،لا یکشف سراً ولا یحتک ستراً ۔ ۔ ۔ [1]

مومن شہد سے زیادہ شرین اور پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ،جو لوگ اس کو اپنے راز بتا دیتے ہیں وہ ان کو آشکار نہیں کرتااور اگر خود سے کسی کے راز کو جان لیتا ہے تو اسے بھی ظاہر نہیں کرتا۔

حدیث کی تشریح :

مومن کی تیئیسویں صفت”احلی من الشہد“ہے۔

مومن شہد سے زیادہ شرین ہوتا ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے ۔ائمہ معصومین ﷼اور خاصطور پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کی نشست اور ملاقاتیںبہت شرین ہوا کرتی تھیں۔آپ اہل مزاح اور ظریف باتیں کرنے والے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انسان جتنا زیادہ مقدس ہو، اسے اتناہی زیادہ ترشرو ہو نا چاہئے ۔جبکہ واقعیت یہ ہے کہ انسان کی سماجی،سیاسی،تہذیبی ودیگر پہلوؤں میںترقی کے لئے جو چیز سب سے زیادہ موثر ہے وہ اس کا نیک سلوک ہی ہے ۔کبھی کبھی سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل کام کو بھی نیک سلوک ،محبت بھری باتوں اور خندہ پیشانی کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے ۔نیک سلوک کے ذریعہ جہاں عقدوں کو حل اور کدورت کو پاک کیا جا سکتا ہے وہیں غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرکے آپسی تنازع کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”اکثر ما تلج بہ امتی الجنة تقویٰ الله وحسن الخلق“ [2] میر امت کے زیادہ تر افراد اچھے اخلاق اور تقویٰ کے ذریعہ جنت میں جائیں گے ۔

مومن کی چوبیسویں صفت”اصلد من الصلد“ہے

یعنی مومن پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔کچھ لوگ احلیٰ من الشہد کی منزل میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خوش اخلاق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دشمن کے مقابلہ میں بھی سختی نہ برتے۔لیکن پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن شہد سے زیاد شرین تو ہوتا ہے لیکن سست نہیں ہوتا،وہ دشمن کے مقابلہ میں پہاڑ سے زیادہ سخت ہوتاہے ۔روایت میں ملتا ہے کہ مومن دوستوں کے درمیان ”رحماء بینہم “ اور دشمن کے مقابل اشداء علی الکفار ہوتا ہے ۔مومن لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے (اشد من زبر الحدیدو اشد من الجبل)چونکہ لوہے اور پہاڑ کو تراشا جا سکتاہے لیکن مومن کو تراشا نہیں جاسکتا۔جس طرح حضرت علی علیہ السلام تھے ۔لیکن ایک گروہ نے یہ بہانہ بنایاکہ کیونکہ وہ شوخ مذاج ہیں اس لئے خلیفہ نہیں بن سکتے ۔جبکہ وہ مضبوط اور سخت تھے۔جہاں پر حالات اجازت دیں انسان کو خشک اور سخت نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جو دنیامیں سختی کرتا ہے الله اس پر آخرت میں سختی کرے گا۔

مومن کی پچیسویں صفت”لا یکشف سراً“ہے

یعنی مومن رازوں کو فاش نہیںکرتا۔رازوںکو فاش کرنے کے کیا معنی ہیں؟

ہر انسان کی خصوصی زندگی میں کچھ راز پائے جاتے ہیںجن کے بارے میں وہ یہ چاہتا ہے کہ یہ کھلنے نہ پائیںکیونکہ اگر وہ راز کھل جائیں گے تو اس کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگر کوئی انسان اپنے زار کو کسی دوسرے سے بیان کردے اور کہے کہ ”المجالس اماناة“یعنی یہ باتیں جو یہاں پر ہوئی ہیں آپ کے پاس امانت ہے تو یہ راز ہے۔ اور اس کو کسی دوسرے کے سامنے بیان نہیںکرنا چاہئے۔روایت میں تو یہاں تک ملتا ہے کہ اگرکوئی آپ سے بات کرتے ہوئے ادھر ادھر اس وجہ سے دیکھتا رہے کہ کوئی دوسرا نہ سن لے تو یہ راز کی مثل ہے چاہے وہ یہ نہ کہے کہ یہ راز ہے ۔مومن کاراز مومن کے خون کی طرح محترم ہے، لہٰذا کسی مومن کے راز کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔

مومن کی چھبیسویں صفت”لا یہتک ستراً“ہے

یعنی مومن رازوںکو فاش نہیںکرتا۔ہتک ستر (رازوں کو فاش کرنا )کہاں پر استعمال ہوتا ہے اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے اگر کوئی انسان اپنا راز مجھ سے نہ کہے بلکہ میں خود کسی طرح اس کے راز کے بارے میں پتہ لگا لوں تو یہ ہتک ستر ہے۔لہٰذا ایسے راز کو فاش نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہتک ستر اور اس کا ظاہر کرنا غیبت کی ایک قسم ہے۔ آج کل ایسے رازوں کو فاش کرنا ایک معمول سا بن گیا ہے لیکن ہم کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ اگر وہ راز دوسروں کے لئے نقصاندہ نہ ہو اور خود اس کی ذات سے ہی وابستہ ہو تو اس کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔لیکن اگر کسی نے نظام ،سماج،ناموس،جوانوں اور لوگوںکے ایمان کے لئے خطرہ پیداکردیا ہے تو اس راز کو ظاہر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔جس طرح غیبت ،کہ اگر مومن کے راز کی حفاظت سے اہم ہو تو بلامانع ہے، اسی طرح ہتک ستر میں بھی اہم اور مہم کا لحاظ ضروری ہے ۔الله ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

________________________________________

[1] بحارالانوار:ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰

[2] بحار الانوار:ج/ ۶۸ باب حسن الخلق ،ص/ ۳۷۵

Read 2734 times