ایران کے سنی نشین علاقوں کو مسلکی روا داری کا نمونہ بنانے کے لیے قم میں ورکشاپ کا انعقاد

Rate this item
(0 votes)

ایران کے سنی نشین علاقوں کو مسلکی روا داری کا نمونہ بنانے کے لیے قم میں ورکشاپ کا انعقاد

ایران کے سنی نشین صوبے سیستان و بلوچستان کو مسلکی رواداری کا نمونہ بنانے کے پیش نظر" فرق و مذاہب کے ساتھ آشنائی" کے عنوان سے معلمین اور مبلغین کی ۲۱ویں ورکشاپ ، اسلامی مسالک کے درمیان رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" کی کوششوں سے سیستان و بلوچستان کے کثیر تعداد میں شیعہ اور سنی ثقافتی کام کرنے والوں کی موجودگی میں شہر قم میں منعقد ہوئی ۔

اسلامی مسالک کے درمیان رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی نے اس تربیتی ورکشاپ کے افتتاحیہ میں معلمین اور مربیین کا استقبال کرتے ہوئے اسلام کے معنی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: قرآن میں مسلمانوں کے اتحاد پر اصرار موجود ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمان اسلام کے راستے سے منحرف ہو گئے ہیں جب کہ آیت ’’ان الدین عند اللہ الاسلام ‘‘ میں اسی موضوع کو چھیڑا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدل کے راستے سے نکل جانا دین میں اختلاف کا باعث بنتا ہے جس دین کو خدا نے ہمارے لیے نازل کیا ہے یہ وہی دین ہے کہ جو ابراہیم ، موسی ، اور محمد مصطفیٰ (ص) پر نازل ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛اپنے چہرے کو دین کے لیے استوار رکھو اور مشرک نہ بنو۔دوسرے لفظوں میں مشخص ہو جاتا ہے کہ دین کا راستہ مسلمانوں کا اتحاد ہے اور اگر ہمارے دین کا نتیجہ اتحاد کی صورت میں سامنے نہ آیا تو معلوم ہے کہ ہم راہ سے بھٹک چکے ہیں ۔

تقریب مذاہب کی اعلی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری نے اسلام کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے تصریح کی؛ اسلام کی تعریف کی چند خصوصیات ہیں؛اسلام کا سب سے پہلا ستون محض خدا کی اطاعت ہے۔جس طرح کہ حضرت ابراہیم پر وحی ہوئی کہ اپنے بچے اور بیوی کو صحرا میں چھوڑ دو کہ خدا ان کا نگہبان ہے اور ابراہیم نے ایسا ہی کیااور قرآن نے اس امتحان کو بلائے مبین سے یاد کیا۔یہاں پر قرآن یہ بتا رہا ہے کہ ابراہیم اور اسماعیل اسلام تک پہونچے اور انسان کی نیکی کی سب سے بڑی جزا اسلام حقیقی تک پہونچ جانا ہے ۔

آیۃ اللہ اراکی نے مزید کہا:قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے مومنو صبح و شام خدا کو یاد کرو یعنی تمام امور کی ابتدا اور انتہا خدا کے نام سے ہو ۔ ہمارا قول فعل اور ہمارا ذکر سب کچھ خدا کی خاطر ہونا چاہیے۔

انہوں نے محمد وآل محمد پر صلوات کی تفسیر میں کہا : محمد و آل محمد پر صلوات کامطلب لمحہ بہ لمحہ رحمت ہے او ہر لحظہ پیغمبر کا مرتبہ بلند ہوتا ہے جس کا نتیجہ مسلمانوں پر رحمت کا نزول اور اسی طرح تاریکیوں سے دوری ہے۔

آیۃ اللہ اراکی نے اسلامی امتوں کے بارے میں بولتے ہوئے دو تقسیم بندیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا:قرآن کریم میں امتوں اور سماجوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ؛ایک امت متخاصم اور متجاوز ہےکہ یہ امت الہی نہیں ہےاور یہ اہل جہنم کی علامت ہے ۔دوسر ی قسم،اہل ایمان اور امت مومن ہے جو اہل بہشت ہیں ۔

انہوں نے آخر میں ایمان واقعی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جو کچھ بھی انبیاء پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے ،کہ اگر ایسا ہو جائے تو تفرقہ پیدا نہیں ہو گا ۔ جب مومن کا دل نور کا منشاء بن جائے تو ہماری روح و جان ذات خدا سے وابستہ ہو جاتی ہے اور اس وقت تسلیم محض متحقق ہوتی ہے ۔ در حقیقت ہم میں فرق ایک دوسرے پر سبقت لی جانے کے سلسلے میں ہونا چاہیے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان حقیقی اسلام تک پہونچ جائیں ۔

Read 3100 times