محترمہ زہرہ شریعت ناصری نے حوزہ نیوز کے خبر نگار سے گفتگو کرتے ہوئے سورۂ نحل کی آیت 125 «ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ ۖ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ؛ (لوگوں کو) حکمت اور نیک نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو! یقیناً تمہارا پروردگار ان لوگوں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہک گئے ہیں اور ان کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، کہا کہ جہادِ تبیین ایک مسلسل دینی ذمہ داری ہے جس میں مواد (حقیقت کی وضاحت) اور طریقہ دونوں اہم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت 125 میں روش کو بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ کے طور پر بیان کیا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کی آیات کے مطابق، حق کو چھپانا اور تحریفات کے سامنے خاموش رہنا جہادِ تبیین کے خلاف ہے، مزید کہا کہ رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ نے درمیانی حلقوں (عوام اور حکومت کے مابین رابطے کرنے والوں) کو اسلامی نظام کے افکار، اقدار اور ہدایات کے منتقلی کے عمل میں اہم حصہ قرار دیا ہے، جو رہبر سے عوام تک پہنچتا ہے۔
جامعہ الزہراء (س) کے اسلامی مطالعاتی مرکز کی سربراہ نے درمیانی حلقوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "حلقۂ میانی سے مراد وہ ادارے، گروہ اور افراد ہیں جیسے کہ حوزہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ، انتظامی حکام، ثقافتی ادارے، علمائے کرام وغیرہ، جو رہبر انقلاب اور عوام کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں اور ان کی اہم ترین ذمہ داری آگاہی فراہم کرنا (جہادِ تبیین) ہے۔ یہ افراد نظام کی کلیدی پالیسیوں کو مناسب طریقے سے عوام تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے درمیانی حلقوں کے فرائض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کردار جہادِ تبیین میں اہم ہے، جو ایران کی سیاست کا حصہ ہے۔ رہبرِ انقلابِ اسلامی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ درمیانی حلقوں کو شفاف، آگاہی دینے والا اور توانائی دینے والا ہونا چاہیے، تاکہ وہ انقلاب کے راستے پر بصیرت والے افراد تربیت کر سکیں۔
محترمہ شریعت ناصری نے عوام اور حکومت کے درمیانی حلقوں کا دوسرا اہم فرض انحراف اور تحریف کی روک تھام کو قرار دیا اور کہا کہ بعض اوقات درمیانی حلقوں میں کمزوری یا انحراف کی وجہ سے نظام یا رہبر کے پیغام کی درست تفہیم نہیں ہو پاتی۔ اس کے علاوہ دشمنانِ داخلی و خارجی کی جانب سے تحریفات کو بھی روکنا حلقہ میانی کی ذمہ داری ہے۔ تیسرا اہم فریضہ ملک کی ترقی میں معاونت کرنا ہے۔ اس میں اساتذہ، غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد، عوامی تنظیمیں، حکومت اور پارلیمنٹ شامل ہیں، جو عوام تک انقلاب کے پیغام کو پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ افراد رہبرِ انقلاب کے فرامین کو عوام میں قابلِ فہم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان افراد کی ایک اور ذمہ داری نفسیاتی جنگ اور افواہوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن افواہ اور تحریفات کے ذریعے عوام کا اعتماد کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس پر دینی و تعلیمی ماہرین کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مواد تخلیق کرنے، آرٹس کے ذریعے پیغام پہنچانے اور نوجوانوں کو نظام کی اہمیت سے آشنا کروانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ درمیانی حلقوں کو حضرت زینب (س) کی طرح بے خوف ہو کر حقیقت کو بیان کرنا چاہیے اور انحرافات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
محترمہ شریعت ناصری نے دشمن کے مقابلے میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کردار پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زینب (س) کے خطبات سے یہ سبق ملتا ہے کہ براہِ راست لوگوں اور ذمہ داران سے بات کرنا بہت مؤثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب حضرت زینب (س) نے کوفہ میں خطبہ دیا تو وہاں کے لوگ جو کہ عہد شکن میں معروف تھے؛ آنحضرت نے جذباتی انداز اپنایا اور سیدھا ان سے مخاطب ہو کر خطاب فرمایا، جبکہ شام کے خطبے میں مخاطب سرکاری لوگ، سفیر اور قبیلوں کے سردار تھے، اس لیے حضرت زینب (س) نے استدلالی اور منطقی انداز میں اپنی خطاب فرمایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کربلا کی جنگ میں ظاہری شکست ہوئی تھی، مگر حضرت زینب (س) نے اقتدار اور ہمت کے ساتھ خطبہ دیا، لہٰذا آج کربلا کی زندگی آنحضرت کی اس ثابت قدمی کا نتیجہ ہے۔ جب یزید نے اپنے اشعار میں اپنے بزرگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم نہیں دیکھ سکتے کہ میں نے خاندانِ رسول (ص) سے انتقام لیا تو حضرت زینب (س) نے یزید کی شوم قسمت اور گناہوں کو بڑھانے کے لیے مہلت دینے کی روایت کو یاد دلایا۔
جامعہ الزہرا (س) کی استاد نے بیان کیا کہ حضرت زینب (س) نے عبیداللہ کے دربار میں مختلف طریقوں سے، جیسے شاعری، رونا اور مناظرے کے ذریعے گفتگو فرمائی اور بغیر اجازت بیٹھ گئیں اور جب عبیداللہ نے تمسخر کیا کہ دیکھا کہ خدا نے تیرے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟ تو حضرت زینب (س) نے جواب دیا: ما رایت الا جمیلا" یعنی میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا، اس کا مطلب ہے کہ خدا کے راستے میں موت بھی خوبصورت ہے۔
انہوں نے میڈیا کے اہم موضوعات میں کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا مختلف اقسام کا حامل ہے۔ بعض میڈیا ادارے اپنے قیام کے دوران ہی اہم موضوعات کو اپنے اہم عناصر میں شامل کرتے ہیں، جن میں حوزه نیوز ایجنسی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو خبریں اور واقعات معاشرتی سطح پر رونما ہوتے ہیں، وہ بڑی حد تک درمیانی حلقوں کی پوزیشن اور ان کے میڈیا میں نشر ہونے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
جامعہ الزہراء (س) کے اسلامی مطالعاتی مرکز کی سربراہ نے کہا کہ نیٹ ورک سازی مختلف طبقات کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کا ایک اہم طریقہ ہے اور اس میں پائیداری ضروری ہے۔ صرف روایتی طریقوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ میڈیا اور تعلقات عامہ کے نئے طریقے اختیار کر کے ہی مختلف گروپوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج 12 روزہ مسلط کردہ جنگ نے نوجوانوں کے ساتھ جڑنے کا موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ جو نوجوان پہلے حکومت کی فکروں سے دور ہو گئے تھے، وہ آج آگاہ ہو کر میدان میں آگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج مختلف گروپوں کی شناخت اور ان کی ضروریات کے مطابق میڈیا کے مختلف طریقوں کا استعمال کرنا ضروری ہے۔
محترمہ شریعت ناصری نے معاشرے امید کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے سخت ترین حالات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رہبرِ انقلابِ اسلامی بھی معاشرتی امید کی ترویج پر زور دیتے ہیں، کیونکہ آج کل کے بعض نوجوان، جو کہ سوشل میڈیا کی منفی فضا سے متاثر ہیں، اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں۔ اس میں میڈیا کی اہمیت ہے کہ وہ ایسے پروگرام تیار کرے جو معاشرتی امید کو بڑھا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ عام حالات میں کچھ لوگ مسائل کے بارے میں بے پرواہ ہو سکتے ہیں، لیکن جب اہم واقعات رونما ہوتے ہیں تو سب لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ ہمیں عقل و جذبات کا توازن رکھنے والے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے دونوں طریقوں کا استعمال کرنا چاہیے۔