سلیمانی
مقاومت اور مزاحمت جاری رہیگی، فتح حق کا مقدر ہے! (1)
اس ایک سال میں غزہ برباد ہوگیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے، شاید ہی کسی کے پاس رہائش کی جگہ بچی ہو۔ شاید ہی کسی کا گھر محفوظ رہا ہو، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں شہادت نہ ہوئی ہو۔ بعض فیملیز اور خاندان مکمل طور پر نابود ہوچکے ہیں، بچوں کی اتنی بڑی تعداد گذشتہ پچھتر برس میں شہید نہیں ہوئی ہوگی، جتنی بڑی تعداد میں اس ایک سال میں معصوم پھول اور کلیاں مرجھا گئیں۔ ظلم کی جو داستانیں اور مناظر دنیا نے اس ایک سال میں دیکھے، اس کا تقاضا تھا کہ مہذب کہلانے والی دنیا، اپنی تہذیب کا مظاہرہ کرتی اور اسرائیل کے خلاف عالمی قوانین، انسانی و بشری حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے کھلے ارتکاب اور امن عالم کو خطرہ پہنچانے کے جرم میں نیتن یاہو، اس کی کابینہ، اس کے عسکری قایدین اور ناجائز ریاست پر سخت ترین پابندیاں لگاتے، مگر ہم نے دیکھا کہ اس جنگی مجرم کو عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔
اگرچہ مسلمان ممالک سے زیادہ اہل مغرب نے اسرائیل کے جنگی جرائم بالخصوص بچوں کے قتل عام کو لے کر شدید مظاہرے کیے، حتی امریکی یونیورسٹیز تک میں طالب علموں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھا گیا، مگر عملی طور پر اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، لہذا وہ آج غزہ سے آگے بڑھتے ہوئے لبنان پر حملہ آور ہے، اب غزہ کی تاریخ لبنان میں دہرائی جا رہی ہے۔ گذشتہ روز سات اکتوبر کی سالگرہ کے دن بھی بہت سے مغربی ممالک میں جہاں کی پولیس اور سکیورٹی فورسز اس موضوع پر ہونے والے احتجاج پر شدید ردعمل دکھاتی آ رہی ہیں، وہاں بھی ایک سال کے مظالم کو لے کر عوام باہر نکلے ہیں اور اپنا ردعمل دکھایا ہے، جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے طوفان الاقصیٰ ٰکو ایک سال ہونے پر ایک بیان تک بھی نہیں دیا۔
اسرائیل کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ حماس نے اس کے جن لوگوں کو قیدی بنایا تھا، وہ انہیں رہا کروانے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس ایک سال میں اس نے غزہ میں زمینی کارروائی کی جتنی کوشش کی، اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید مزاحمت سے اس کو منہ کی کھانا پڑی۔ ایک محدود پٹی میں گھرے ہوئے استقامت کے استعارہ مجاہدین نے اس کی ایک نہیں چلنے دی۔ بس اس کے پاس ایک ہی آپشن ہے، جس کے ذریعے یہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرتا ہے، وہ ہوائی بمبارمنٹ ہے۔ اسے بلا شبہ یہ برتری حاصل ہے، جس سے یہ فوائد اٹھا رہا ہے۔ اہل غزہ کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے، وہ اسی فضائی بمباری سے ہوا ہے۔ غزہ کے زیر زمین مجاہدین نے بہت بڑی تعداد میں ٹنل بنا کر اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل سیٹلایٹ اور دیگر جدید ترین آلات و زمینی جاسوسوں کے وسیع جال کے ہوتے ہوئے ان ٹنلز اور اس کے سسٹم کو ختم کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی قیدی انہیں ٹنلز میں رکھے گئے ہیں جبکہ بعض جگہوں پر بمباری کے بعد حماس نے بتایا کہ فلان بمباری میں اسرائیل کے اتنے شہری مارے گئے ہیں، اگر اس طرح کارپٹ بمباری کی جاتی رہی تو اس کے قیدی شہریوں کی جانوں کو شدید خطرات رہینگے۔ اس میں شک نہیں کہ صیہونی موت سے ڈرتے ہیں، ان کو موت کا ڈر ہی تو ہے کہ جنگی طیاروں سے بمباری کرکے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کسی رہائیشی عمارت، اسپتال، اسکول، سڑک، بازار، مسجد، مکتب پر بمبارمنٹ کرکے اسے زمین بوس کر دینے سے ان کی بہادری اور شجاعت نہیں دکھتی بلکہ یہ سفاکیت اور درندگی ہے، جو نہتے اور پرامن لوگوں، بچوں، عورتوں کو نشانہ بنا کر دکھانا چاہتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ عالمی اداروں، انسانی و عدالتی فورمز اور دنیا کو ایک ضابطے کا پابند کرنے کے معاہدے کرنے والوں کیلئے شرمندگی اور فکر و غور کا مقام ہے، جو ایک بدمعاش، ایک ناجائز وجود، ایک غاصب، ایک ظالم، ایک سفاک، ایک جنگی مجرم کو لگام ڈالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
افسوس اگر اس سے ایک فی صد بھی کسی مسلمان ملک نے ایسا کیا ہوتا یا کرتا تو اس کا وجود ختم کرنے کیلئے سارا عالم کفر اکٹھا ہو جاتا اور ہمارے مسلمان حکمران بھی ان کے ساتھ کاندھا ملا کے کھڑے ہوتے۔ افغانستان، لیبیا، عراق، پاکستان، شام اور یمن اس کی مثالیں ہیں، جہاں عالمی امن و انصاف اور انسانی حقوق کے چیمپئنز نے جھوٹ اور مکر و فریب سے جنگیں مسلط کیں اور مرضی کے حکمران لانے کی سازشوں پر عمل کیا۔ ایسے میں لاکھوں انسان جان سے گئے، ان میں سے کئی ممالک کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوا۔ لیبیا کو دیکھیں، آج تک اس کی حالت قابل رحم ہے۔ افغانستان کے لوگوں نے گذشتہ چالیس برسوں میں انہی طاقتوں کے کھیل میں جتنی جانیں گنوائیں ہیں، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اب بھی وہاں لوگ انجانے سے خوف میں جیتے ہیں اور دنیا بھر میں مہاجرین کی بڑی تعداد اب بھی افغانستانیوں کی ہے، یہ سب امریکہ اور اس کے استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے۔
یمن پر قابض ہونے کیلئے سعودیہ نے اکتالیس ملکی اتحاد بنایا اور امریکہ، برطانیہ کیساتھ مل کر تباہی لائی۔ بہت ہی خطرناک بمبارمنٹ گذشتہ نو برس سے جاری ہے، مگر وہاں کی قیادت نے استقامت دکھائی، قیادت و عوام نے اپنے ملک، اپنی زمین پر غیروں کا تسلط برداشت نہیں کیا اور مزاحمت و مقاومت سے گذشتہ آٹھ نو برس سے دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، بلکہ غزہ کی موجودہ جنگ میں حماس اور فلسطینیوں کی جتنی مدد اور کمک یمنیوں نے کی ہے، وہ تاریخ کا ایک خوبصورت اور سنہرا باب ہے، جسے تا دیر یاد رکھا جا ئے گا۔ بحرہ احمر سے لیکر اسرائیل کے اندر تل ابیب تک ان کی اپروچ اور میزائلوں کی بھرمار نے ان کی صلاحیتوں اور شجاعت و بہادری کے ابواب کھول دیئے ہیں۔ یمنی مقاومت، دوسرے مقاومتی گروہوں کی طرح کبھی گھبراتے نہیں، ہچکچاتے نہیں، ردعمل سے ڈرتے نہیں۔
ان پر اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، سعودیہ اور ان کے اتحادی بھی فضائی حملے کرتے ہیں، یمن کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ عجیب سخت قوم ہے، جو پھٹے پرانے لباس، بنا جوتوں کے میدان میں مشین گنیں اٹھا کر دشمن پر شیروں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ ان کا رعب، ان کی بہادری، ان کی جراتمندی سے انہیں فتح ملتی ہے۔ اگر زمینی حقائق اور طاقت کا تقابل کیا جائے تو اب تک یمنیوں کو سرنگوں ہو جانا چاہیئے تھا کہ ان کا مقابلہ اکتالیس ملکی اتحاد، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ جیسی قوتوں کیساتھ براہ راست ہے اور ان کو اتنے برس ہوچکے ہیں۔ غزہ جنگ میں یمنیوں نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسرائیل، امریکہ، اس کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں اور کشتیوں کو میزائلوں سے تباہ کرنا ان کا ہی کام ہے۔ یہ جرءات کسی اور میں نہیں کہ امریکہ کو للکارے۔
ایک گولی بھی چلانا بدترین حماقت سمجھا جاتا ہے، جبکہ یمنیوں نے امریکہ کے جدید ترین جاسوسی ڈرونز جن کی مالیت بیسیوں ملینز امریکی ڈالرز ہے، انہیں کامیابی سے نشانہ بنایا ہے اور خاک یمن پر اتارا ہے۔ یمنیوں نے اس ایک سال میں شاید گیارہ قیمتی ترین جدید امریکی ڈرونز اتارے ہیں، ان ڈرونز کی مالیت کیساتھ ان کی مارکیٹ بھی خراب کر دی ہے، ایسے ڈرون جنہیں یمن جیسا پسماندہ ملک بلکہ ایک تنظیم باآسانی اتار لے، ان کو خریدنے میں کسے دلچسپی ہوسکتی ہے، جبکہ اس کے مقابل ایران کے ڈرونز کی شاہد سیریز نے روس کو یوکراین میں کامیابیوں سے حیران کر دیا، جس کا نتیجہ کئی ممالک کا ایران سے یہ ڈرون جاسوسی طیارے خریدنے کیلئے رجوع کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شهید سید عباس الموسوی کی خواہر ایکنا سے: غزہ کا دفاع حزبالله کی جانب سے انسانی کرامت کی نشانی ہے
لبنان میں حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید عباس الموسوی کی بہن ہدی الموسوی نے ایکنا کو انٹرویو دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ آج ہمیں ایک ہمہ گیر جنگ کا سامنا ہے اور کہا: صیہونی فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں، اس جنگ میں ہمیں ایک جنگلی دشمن کا سامنا ہے جو کسی پر رحم نہیں کرتا۔ لبنان میں فلسطینی سرزمین کے دفاع کے لیے مزاحمت کا محور اور سپورٹ فرنٹ تشکیل دیا گیا ہے۔
لبنان کی حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل کی بہن نے غزہ میں فلسطینی عوام کے دفاع میں لبنان کی حزب اللہ کے اقدامات کے حوالے سے کہا: حزب اللہ کا غزہ کے عوام کا دفاع انسانی وقار کا دفاع ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کہا ہے: «وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ»: ۔. (اسرا /70) کا مطلب ہے کہ جن تمام لوگوں کو انسانی خصوصیات دیا گیا ہے ان کا احترام کیا جانا چاہیے اور ہمیں ان کا دفاع کرنا چاہیے۔. یہ ایک مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کے نوجوان غزہ کے لوگوں کے شانہ بشانہ اور صہیونی دشمن کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
انہوں نے اسلامی اتحاد کی تشکیل اور تقسیم کو ختم کرنے میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال منعقد ہونے والی اتحاد کانفرنس کے کردار کے بارے میں کہا: اس کانفرنس کی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرتی ہے اور یہ سب اس پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک قوم ہیں۔ وہ قرآن کی میز پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ کانفرنس امام خمینی کی کوششوں کے نتائج اور ثمرات میں سے ایک ہے، جنہوں نے اسے ہفتہ وحدت کا نام دیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ کانفرنس مسلمانوں کے اتحاد کو اس طرح مضبوط کرتی ہے کہ جب تمام مسلمان قرآن کی میز پر اکٹھے ہوں تو یہ یاد دہانی ہے کہ ہمارا قرآن ایک ہے۔. اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی دعوت دی ہے کہ: «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا»: اور خدا کی رسی پکریں اور تفرقے میں نہ پڑیں اور اس نعمت کو یاد رکھیں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہے: جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اور اس نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مہربان کیا اور اس کے فضل سے تم بھائی بن گئے۔. (العمران/103)
اتحاد؛ پیار پیدا کرنے اور مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کا عنصر
لبنان کی حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل کی بہن نے مزید کہا: اسلامی اتحاد وحدت پیدا کرتا ہے اور مسلمانوں کے درمیان ایمان کو مضبوط کرتا ہے، اور جب مسلمانوں میں پختہ ایمان ہوتا ہے، تو وہ اپنی پوری طاقت سے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں اور ایک جسم بن سکتے ہیں اور وہ مضبوط اور سب سے زیادہ طاقت اور ہمت ہو گی. اس طرح دشمن مسلمانوں میں ہر ممکن طریقے سے اختلافات پیدا نہیں کر سکتا۔
تمام مسلمانوں کا مقصد فلسطینی سرزمین کی آزادی ہے
انہوں نے مزید کہا: الحمد اللہ، آج، اس اتحاد کانفرنس کی بدولت، مسلمانوں کے درمیان ایک اتحاد قائم کیا گیا ہے، اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک مقصد ہے اور ہم مسلمانوں کا نقطہ نظر اور مقصد ایک ہی ہے. ہم سب کا مقصد فلسطین کی سرزمین کو آزاد کرنا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو بحال کرنا ہے۔
ہدی الموسوی نے اتحاد پیدا کرنے اور اختلافات سے بچنے کے لیے پیغمبر اسلام (ص) کی سیاسی زندگی سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں کہا: مقدس پیغمبر (ص) رحمت کے نبی اور الہی رحمت کے منبع تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام (ص) کو بھیجا تو اس نے اسے پوری انسانیت کے لیے روشن نور بنایا، اور پہلا عمل جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجے جانے کے بعد کیا وہ مسلمانوں میں بھائی چارہ پیدا کرنا تھا۔. اس لیے اس وقت اسلامی اتحاد کی چابی فارسیوں اور رومیوں کے درمیان یہ بھائی چارہ تھا۔
الموسوی کا کہنا تھا: رسول اکرم اس بات پر معین تھے کہ آسمانی تعلیمات کا اجرا کرتے، جیسا کہ فرماتے ہیں:
«إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً»: اور یہ امت حقیقت میں ایک امت ہے (مؤمنون/۵۲) لہذا رسول اکرم(ص) نے وحدت پیدا کی تاکہ مسلمان دشمن کے مقابلے طاقت حاصل کریں، کیونکہ اس صورت شکست نہیں کھاتے اور اس کا راز وحدت ہے۔/
خطے میں اسلامی مقاومت کی تحریکیں
طوفان الاقصیٰ آپریشن اور بالخصوص سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد خطے کی پیش رفت میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی ناقابل تردید پوزیشن مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ غزہ میں بے دفاع خواتین اور بچوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کے بعد صیہونی حکومت نے ماضی کی طرح ایک بار پھر ریاستی دہشت گردی کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہوا ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد صیہونیوں کا اس جھوٹے تصور کو کہ وہ لبنان سمیت خطے کے مزاحمتی گروہوں کے سرکردہ رہنماؤں کو قتل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر لیں گے، اسے آج مزاحمتی تحریک نے ناکام بنا دیا ہے۔ صیہونیوں کی مجرمانہ کارروائی اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے قتل نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف فلسطین میں بلکہ پورے خطے میں مزاحمت کی تحریک مزید ابھر کر سامنے ائی ہے۔ صیہونیوں کی طرف سے مزاحمتی قیادت کو ختم کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ اس پھل دار درخت نے اپنی جڑیں ہر جگہ پھیلا رکھی ہیں اور مقاومت و استقامت صیہونی دشمن کے مقابل میں استوار و سربلند ہے۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد عالم اسلام میں ہمدردی، یکجہتی اور رفاقت کی لہر میں اضافہ ہوا ہے اور لبنان اور خطے کے مختلف ممالک میں بہت سے نوجوانوں نے ریلیوں اور یادگاری تقریبات کا انعقاد کرکے حزب اللہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ خطے میں نیوز نیٹ ورکس نے بھرپور آواز اٹھائی اور مغرب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ مزاحمتی تحریک کی جڑیں عوام بالخصوص نوجوان نسل میں مضبوط اور مستحکم ہیں۔ صیہونی مجرموں اور ان کے امریکی اور مغربی حامیوں کے خلاف ڈٹ جانا، صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں عوام کی حفاظت اور اپنی سرحدوں کی حفاظت جیسے اہم عوامل نے خطے کی مساوات میں اسلامی مزاحمت کے مقام اور کردار کو نمایاں کردیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ، یمن کی انصاراللہ نیز عراق اور فلسطین کے دیگر مزاحمتی گروہوں نے حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت کے خلاف استقامت اور جرأت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ صیہونی ریاست حالیہ مہینوں میں اس استقامت اور مقاومت کی طاقت پر حیران و پریشان ہے۔ صیہونی مزاحمت کے سامنے اپنی نااہلیت کو تسلیم کرتے نظر آرہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 4 اکتوبر کو نماز جمعہ کے بیانات میں شہید حسن نصراللہ کی شخصیت، ان کی روح، ان کے طریقے اور ان کی آواز کو پائیدار قرار دیا اور فرمایا: وہ ظالم اور جابر شیاطین کے خلاف مزاحمت کا ایک بلند پرچم تھے۔ وہ ایک فصیح زبان اور مظلوموں کے بہادر محافظ اور مجاہدین اور حقوق کے متلاشیوں کے لیے حوصلہ اور عزم کا ذریعہ تھے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: سید حسن نصراللہ عالم اسلام کے ترجمان تھے۔ ہم سید حسن نصراللہ کے لئے سوگوار ہيں، لیکن ہمارا سوگ مایوسی کی وجہ سے نہيں ہے بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی طرح ہے، یعنی ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے۔ سید حسن نصراللہ کا جسم ہمارے درمیان نہيں ہے، لیکن ان کے افکار، ان کی جدوجہد اور ان کی روح ہمارے درمیان ہے۔ ان کے اثرات کا دائرہ لبنان و ایران سے بہت آگے تھا۔ اب ان کی شہادت سے اس اثر میں اضافہ ہوگا۔
رہبر انقلاب نے مزید فرمایا آپ اپنی کوشش اور طاقت میں اضافہ کریں، اپنی یکجہتی کو دوگنا کریں۔ جارح دشمن کے خلاف ایمان اور توکل کو مضبوط کرکے اسے شکست دیں۔ ہمارے شہید سید اپنی قوم، مزاحمتی بلاک اور پوری امت اسلامیہ سے یہی چاہتے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے نتائج نے خطے میں مزاحمتی گروہوں کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ نے صیہونیوں کے ساتھ مختلف محاذوں پر جدوجہد اور لڑائی کی ایک طویل تاریخ کے ساتھ حالیہ پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صیہونی حکومت نے مزاحمتی گروہوں کا براہ راست مقابلہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب منظم دہشت گردی کی طرف رخ کر لیا ہے، لیکن ان مجرمانہ اقدامات سے صیہونیوں کے زوال کی تیزی اور سرعت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان شاء اللہ
تحریر: احسان شاہ ابراہیم
تہران میں شہید حسن نصر اللہ کی مجلس ترحیم ، رہبر انقلاب اسلامی بانی مجلس
تہران سے بلند ہوتی امت کی آواز
جشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید سب کے سامنے کھڑا خطبہ جمعہ دے رہا ہے اور بم دھماکے کا دھواں بھی اٹھ رہا ہے۔ یہ عام حالات نہیں تھے، تہران میں شہید مطہریؒ جیسی عظیم شخصیات ان ظالموں کے ظلم کا نشانہ بن چکی تھیں۔ ایران میں پارلیمنٹ تک کو اڑایا جا چکا تھا، ایسے میں یہ سید بزرگوار اپنا خطبہ جاری رکھتا ہے۔ یہ دلیرانہ انداز اہل اسلام کو آج بھی یاد ہے۔ تہران میں اسماعیل ہانیہؒ کی شہادت اور اب سید المقاومہ سید حسن نصراللہؒ کی شہادت نے اسلامی مزاحمتی محور کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کی اسرائیلی پالیسی، جو بربریت پر مبنی ہے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہو کر طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں کر رہے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا تھا کہ ایران کے اندر سے اٹھنے آوازوں کو سنا جائے اور مزاحمتی تحریکوں کی براہ راست مدد کی جائے۔اسرائیل کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے، جس سے اسے ظلم سے باز رکھا جا سکے۔
اسلامی جمہوری ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے طاقت کے توازن کو بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے اسرائیل کے دفاعی نظام کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اسلام میں بے گناہ انسان کو قتل کرنا درست نہیں ہے، اس اسلامی حکم پر عمل کرتے ہوئے صرف فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور بتا دیا گیا ہے کہ آپ کا دفاعی نظام اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اس حملے سے اہل غزہ کے بجھے چہروں پر بھی خوشی نظر آئی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کی صورت میں ہمارا جواب پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ اگرچہ اسرائیل کے عزائم یہی بتا رہے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا، جس سے خطے پر اس کی مصنوعی دھاک برقرار رہے۔
اس حملے کے بعد مغربی اور ان کی پیروی میں پاکستانی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ رہبر معظم کسی محفوظ مقام میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اس سے اسرائیل کی برتری اور اس سے خوف کا اظہار کرنا تھا۔ ایسے میں سید نے خود جمعہ پڑھانے کا اعلان کر دیا۔ تین دن پہلے اعلان کیا گیا اور زیر آسمان اسی روایتی مصلی پر خطبہ دیا گیا اور بتایا گیا کہ دیکھ لو ہم پوری طرح سے میدان میں موجود ہیں۔ کئی ملین لوگ براہ راست اس نماز جمعہ میں شریک ہوئے اور کئی ملینز نے لائیو اس خطبہ جمعہ کو سنا۔ آپ کا پورا خطاب اہم تھا، اس میں چند امور بڑے پالیسی ساز ہیں۔ رہبمر معظم نے کہا کہ اسرائیل کو خطے سے یورپ تک توانائی کی برآمد کا راستہ بنانا مقصود ہے، اسرائیل کبھی بھی حزب اللّٰہ اور حماس پر فتح یاب نہیں ہوگا، خطے میں مزاحمت پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی حکومت کے جرائم اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔ اسرائیل سے یورپ کا رومانس اسی لیے ہے کہ وہ مشرق میں واقع ہے اور مغرب کی پالیسی کو نافذ کرنے والا ہے۔
یورپ کی ترقی کی بنیاد جس توانائی پر ہے، اس توانائی کی بلا تعطل فراہمی اسرائیل کے ڈنڈے کے ذریعے کرانے کا پروگرام ہے۔ اپنوں کی نااہلیوں کی وجہ سے عملی طور پر ایسا ہی ہے اور مزید ایسا ہونے جا رہا تھا، یہ تو درمیان میں طوفان الاقصی آگیا، جس کی وجہ سے انہیں وقتی ناکامی ہوئی ہے۔ رہبر معظم نے نمازِ جمعہ کے خطبے میں مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان مظلوم لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کریں، مسلمان قوموں کو افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ اور لبنان تک دفاعی لائن بنانا ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو جارح کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران کا دشمن فلسطین، لبنان، عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے، فلسطینی حق پر ہیں اور ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، قرآن کا درس ہے کہ مسلم اقوام متحد رہیں، امتِ مسلمہ کے دشمن مشترکہ ہیں، قرآن میں مومنین کے اتحاد سے مراد رحمتِ الہٰی ہے۔
یہ بہت اہم بات ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی لائن کھینچیں، ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح ہر مسلمان ملک کو الگ الگ کرکے مارا جاتا رہے۔ جن ممالک کے رہبر معظم نے نام لیے ہیں، یہ براہ راست مغربی استعماری حملوں کا شکار رہے ہیں۔ اسرائیل اور مغرب رکنے والے نہیں ہیں، وہ ایک ایک کرکے تمام اہم مسلمان ممالک کو شکار کریں گے۔ جاوید چوہدی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے: "دوسرا سوال کیا پاکستان اسرائیلی جارحیت سے بچ جائے گا؟ جی نہیں، ایران اور ترکی کے بعد پاکستان کی باری ہے، اسرائیل کے لیے پاکستان کا ایٹم بم ناقابل برداشت ہے، لہٰذا یہ اسے چھین کر رہے گا، پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی ہمارا ایٹمی پروگرام ہے، یہ اسے بند کرانے کے لیے پیدا کیا گیا اور جان بوجھ کر روز بروز اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہوسکے، بی ایل اے بھی اس کی ایک کڑی ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔"
عقل مند وہ ہوتا ہے، جو آنے والے وقت کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ وطن عزیز کے درپے ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم آج سے تیاری کریں اور دشمن کو دشمن سمجھیں کہ وہ ہمارے پیچھے ہیں اور ہم نے اس سے اپنا اور اپنی امت کا دفاع کرنا ہے۔ رہبر معظم کا خطاب آنے والے وقت کی ہلکی سے جھلک دکھا رہا ہے، باقی مستقبل کا منظر نامہ ہم نے خود سمجھنا ہے۔ رہبر معظم کے اس خطبے کو سن کر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اقبال کی خواہش، جو اقبال نے شعر کی صورت کہی لکھی ہے:
طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا
شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!
رہبر انقلاب اسلامی نے اسرائیل پر میزائل حملے کرنیوالے جنرل کو تمغۂ فتح سے نواز دیا
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ کو تمغہ فتح سے نوازا۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کمانڈر جنرل حاجی زادہ کو ایک خصوصی تقریب میں تمغۂ فتح پہنایا۔ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ کو یہ تمغہ اسرائیل پر 200 سے زائد بیلسٹک میزائل سے حملے پر دیا گیا، جسے آپریشن “True Promise” یعنی سچا وعدہ کا نام دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ ایران میں فتح کا تمغہ اسلام کے جنگجوؤں اور ان آپریشنز کے فاتحین کی فاتحانہ کارروائیوں کی علامت ہے۔
یہ تمغہ کھجور کے تین پتوں اور خرمشہر گرینڈ مسجد کے گنبد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے جھنڈے پر مشتمل ہے۔ آیت اللہ کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کے ایرو اسپیس کمانڈر کو اسرائیل پر اسلامی جمہوریہ کے میزائل حملوں کے لیے اس اعزاز سے نوازا ہے۔ یاد رہے کہ 62 سالہ جنرل امیر علی حاجی زادہ 2009ء میں تشکیل دی گئی پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی پہلے دن سے سربراہی کر رہے ہیں۔
طوفان الاقصی آپریشن، فلسطینی قوم کی جدوجہد میں تاریخی موڑ
7 اکتوبر 2024ء طوفان الاقصی آپریشن کی سالگرہ کا دن ہے۔ آج ایک سال مکمل ہونے پر ہم اس عظیم تاریخی کامیابی کے بارے میں فخر اور عزت کا احساس کر رہے ہیں جو صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد کا تاریخی موڑ ثابت ہوا ہے۔ یہ آپریشن فلسطین کی مزاحمت کے پس منظر میں محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ اپنی سرزمین اور اپنے دفاع پر مبنی مظلوم فلسطینی عوام کے جائز حق کی تجلی تھی۔ طوفان الاقصی آپریشن ایسے دشمن کو منہ توڑ جواب تھا جو جنگی جرائم، نسل کشی اور دہشت گردی سمیت ملت فلسطین کے خلاف کسی قسم کے مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کرتا تھا اور اس کے یہ تمام تر اقدامات عالمی طاقتوں کی واضح حمایت سے انجام پاتے تھے۔
طوفان الاقصی کے اسباب
طوفان الاقصی آپریشن ہماری قوم کی تاریخ کے حساس مرحلے میں انجام پایا تھا۔
جب صہیونی دشمن امریکہ کی بے دریغ اور بھرپور حمایت سے ایسے استعماری منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے درپے تھا جس کا مقصد فلسطین کاز کا خاتمہ اور اسرائیل کو خطے کی واحد برتر طاقت میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کا نشانہ صرف فلسطینی عوام نہیں تھے بلکہ اصل مقصد خطے میں تمام امریکہ اور صہیونزم مخالف قوتوں کا خاتمہ کر کے پوری امت مسلمہ کو غاصب صہیونی رژیم کے زیر تسلط لانا تھا۔ طوفان الاقصی آپریشن اس منحوس سازش کے خلاف انجام پایا تھا اور اس نے اس استعماری منصوبے کے حامیوں کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی مزاحمت اور خطے کی حریت پسند قوتیں ہر گز اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائے جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔ طوفان الاقصی آپریشن دشمن اور صہیونی امریکی اتحاد پر کاری ضرب تھی۔ وہ خطے میں نئے استعماری زمینی حقائق ایجاد کرنے کے درپے تھے لیکن طوفان الاقصی آپریشن نے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔
طوفان الاقصی کے اثرات
طوفان الاقصی آپریشن نہ صرف ایک فوجی ضرب تھی بلکہ اس نے غاصب صہیونی رژیم کی پیش کردہ تصویر بھی نابود کر کے رکھ دی۔ صہیونی رژیم ہمیشہ سے دنیا والوں پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ یہ جھوٹی تصویر اس طرح سے نابود ہوئی ہے کہ اب اس کی دوبارہ تعمیر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں صہیونی رژیم کی کمزوری کھل کر سامنے آئی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صہیونی رژیم نے زیادہ شدت سے انسانیت سوز مظالم انجام دیے ہیں اور یوں اس شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کی ہے جبکہ اسے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے جو بدستور اس رژیم کی سیاسی، فوجی، سفارتی، مالی اور اخلاقی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ انسانیت سوز جرائم دنیا والوں کو خاموش رہنے پر مجبور نہیں کر سکے۔
غزہ میں غاصب صہیونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت، بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا قتل عام اور باقاعدہ منصوبے سے غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنا کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اور عالمی رپورٹس نے ان حقائق کو عیاں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی رائے عامہ تیزی سے مسئلہ فلسطین کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف دنیا بھر میں آواز اٹھ رہی ہے اور وہ ملت فلسطین کے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔
طوفان الاقصی کے بعد
آج ہم صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے نئے اور خطرناک مرحلے میں ہیں۔ ہم ایک تاریخی ذمہ داری سے روبرو ہیں جو تمام محاذوں پر پوری طاقت سے صہیونی امریکی سازش کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے پر مبنی ہے۔ ہمیں دشمن پر زیادہ طاقت سے ضرب لگانی ہو گی۔ نہ صرف فوجی محاذ پر بلکہ میڈیا، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بھی فعال کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ صہیونی رژیم کا جھوٹا چہرہ دنیا والوں کے سامنے عیاں کر سکیں۔
شہید سید حسن نصراللہ مزاحمت کی علامت
آج ہم انتہائی غم کے عالم میں مجاہد کمانڈر، سید حسن نصراللہ کی شہادت کا سوگ بھی منا رہے ہیں۔ ایسی شخصیت جو اسلامی مزاحمت کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئی اور ان کا شمار اسلامی جدوجہد کی موثر ترین اور کامیاب ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے اپنی کامیابیوں کے ذریعے سرحدوں سے ماوراء عمل کیا اور صہیونی اور امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔ وہ نہ صرف لبنان بلکہ پوری عرب اور اسلامی دنیا میں مزاحمت کی علامت ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے لیکن ساتھ ہی اسلامی مزاحمت جاری رکھنے پر تاکید بھی ہے جسے استحکام عطا کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ شہید سید حسن نصراللہ نے عرب دنیا کی موثر ترین شخصیت کے طور پر اسلامی مزاحمت کو تاریخی کامیابیوں سے ہمکنار کیا اور غاصب صہیونی رژیم کو کمزور کیا۔
شہید سید حسن نصراللہ کی میراث، ان کے تمام حامیوں اور محبین نیز دنیا بھر کے حریت پسند انسانوں کے دل و دماغ میں ان کی روح اور الفاظ کی صورت میں زندہ رہے گی۔ ان کی تقریریں اور الفاظ ہمیشہ سے دوسروں کی رہنما رہیں اور جن اقوام نے ان سے استقامت اور مزاحمت کا سبق سیکھا ان کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ یہ عظیم میراث ایک روشن چراغ کی مانند سب کیلئے آزادی اور مزاحمت کا راستہ روشن کرتی رہے گی۔ آج ہم صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے نئے اور حساس مرحلے میں ہیں۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ یہ اسلامی مزاحمت جس کا نمائندہ سید حسن نصراللہ تھے، ہمیشہ جاری رہے گی۔ شہداء خاص طور پر سید حسن نصراللہ کا خون ہر گز بے ثمر نہیں ہو گا۔ ان کی روحانی اور جہادی میراث روشنی کی مانند مزاحمت کے راستے پر چمکتی رہے گی۔ آخر میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ سید حسن نصراللہ کا راستہ جاری رہے گا اور فتح قریب ہے، باذن اللہ۔
اسرائیل کی ایک سال کی جارحیت، ناکامی اور ندامت کے سوا کچھ نہ ملا
چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک سال سے جاری اسرائیل کے وحشیانہ مظالم بھی حماس کے حملے نہ روک سکے، غاصب صہیونی ریاست اپنی تمام تر سفاکیت کے باوجود غزہ کی نہتی عوام پر غلبہ نہ پا سکی، دنیا کے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیلی فوج سال بھر ہسپتالوں، سکولوں، رہائشی عمارتوں اور مساجد سے لڑتی رہی ہے، خوراک کے حصول کیلئے جمع ہونے والے معصوم بچوں پر بے تحاشہ بارود کی بارش کی گئی، بے گھر کھلے آسمان تلے پڑے اور زخموں سے چور عوام پر درندگی کی انتہاء کی گئی اور سر عام قتل عام کیا گیا، لیکن ناکامی و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، فلسطینی عوام ثابت قدمی کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے دل فلسطین اور لبنان کے غیور مسلمان بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم دل و جان سے اپنے غزہ و لبنان کے مظلومین مگر شجاع عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے اظہار یکجہتی وہمدردی کرتے ہیں، شہداء فلسطین اور لبنان کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، اسرائیل کی کھلی جارحیت امریکہ و مغرب کی کھلم کھلا حمایت کی بدولت ہے اور مسلم دنیا کے لیئے باعث عبرت و شرمندگی ہے، شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید اسماعیل ہنیہ کی عظیم شہادت اسرائیلی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، اسرائیل غزہ و لبنان کی نہتی عوام پر اپنے مظالم جاری رکھ کر اپنی ایک سالہ ہزیمت و رسوائی کو چھپانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے جنگی جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکے گا اور غزہ کے مظلومین کا بدلہ لبنان کی سرزمین پر دے گا۔ ان شاءاللہ
عراقی مزاحمت کا حملہ ، 25 صیہونی فوجی ہلاک و زخمی
صیہونی فوج کے ترجمان "دانیئل ہگاری" نے اعلان کیا ہے کہ عراق سے داغے گئے ڈرون کے دھماکے میں 13ویں گولانی بریگیڈ کے دو فوجی ہلاک ہو گئے۔
صہیونی فوج کے ترجمان نے مزید کہا: مذکورہ ڈرون کے حملے میں 23 دیگر فوجی زخمی ہوئے۔
چند گھنٹے قبل عراقی اسلامی مزاحمتی محاذ نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ اس نے تین الگ الگ کارروائیوں میں مقبوضہ فلسطین میں تین اہداف کو نشانہ بنایا۔
جمعرات کو بھی عراق کی اسلامی مزاحمت نے پہلی بار ایک جدید ڈرون کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کے جنوب میں ایک ٹھکانے کو نشانہ بنانے کی اطلاع دی تھی۔
واضح رہے عراقی مزاحمت نے گزشتہ ہفتے اور مہینوں میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع ایلات میں حساس اور اہم اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔







































































![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
