سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز، رشیاالیوم کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شدید بارش کے نتیجے میں غزہ شہر میں واقع عظیم العمری مسجد کا ایک دروازہ منہدم ہو گیا۔

۸ دسمبر ۲۰۲۴ کی صبح صہیونی رژیم نے مسجدِ العمری پر بمباری کی۔ یہ مسجد، مسجدِ اقصیٰ (یروشلم) اور عکا میں واقع مسجد احمد پاشا الجزار کے بعد فلسطین کی تیسری بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد دنیا کے قدیم ترین عبادت گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔

مسجدِ عظیم العمری غزہ کی قدیم ترین مسجد ہے۔ یہ مسجد قدیم شہر کے قلب میں ایک عوامی بازار کے قریب واقع ہے اور تقریباً ۱۶۰۰ مربع میٹر رقبے پر مشتمل ہے، جس میں ۴۱۰ مربع میٹر نماز ہال اور ۱۱۹۰ مربع میٹر اس کا وسیع صحن شامل ہے، جہاں کبھی ہزاروں نمازی عبادت کیا کرتے تھے۔

یہ مسجد ۳۸ مضبوط سنگِ مرمر کے ستونوں پر قائم ہے جو اس کے قدیم طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں اور اسے ایک ایسا معماری شاہکار بناتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔

اس مسجد کا نام مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ کے نام پر مسجدِ عمری رکھا گیا۔ اسے جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غزہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تاریخ عیسائیت سے پہلے کے دور تک جاتی ہے، جب یہاں ایک قدیم معبد موجود تھا۔ پانچویں صدی عیسوی میں بازنطینیوں نے اسے کلیسا میں تبدیل کیا۔ ساتویں صدی میں اسلامی فتوحات کے بعد مسلمانوں نے اسے دوبارہ مسجد کی حیثیت سے تعمیر کیا، یہاں تک کہ اس کا مینار ۱۰۳۳ء میں ایک زلزلے کے نتیجے میں گر گیا۔

۱۱۴۹ء میں صلیبیوں نے اس مسجد کو دوبارہ کلیسا میں تبدیل کر دیا، لیکن ۱۱۸۷ء میں جنگِ حطین کے بعد ایوبیوں نے اسے واپس حاصل کر کے دوبارہ تعمیر کیا۔

تیرہویں صدی میں ممالیک نے اس مسجد کی مرمت کی، تاہم ۱۲۶۰ء میں منگولوں نے اسے تباہ کر دیا۔ اس کے باوجود جلد ہی مسلمانوں نے اسے دوبارہ حاصل کر کے تعمیر کر لیا۔

بعد ازاں تیرہویں صدی کے اواخر میں آنے والے ایک اور زلزلے نے اسے دوبارہ نقصان پہنچایا۔

پندرھویں صدی میں عثمانیوں نے زلزلے کے بعد اس کی مرمت کی، لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایک مرتبہ پھر برطانوی بمباری سے اسے نقصان پہنچا۔

۱۹۲۵ء میں اعلیٰ مسلم کونسل نے اس مسجد کی مرمت کی اور اسے غزہ کے عوامی و سماجی زندگی کا ایک مرکزی مرکز بنا دیا، یہاں تک کہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں یہ مسجد دوبارہ تباہ ہو گئی۔/

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت کی مناسبت سے مرکز فقہی ائمہ اطہار علیہم السلام کے اساتذہ، طلباء اور کارکنان کے خاندانوں کے لیے منعقدہ آٹھویں کانفرنس «جشن فاطمی» میں خطاب کرتے ہوئے کہا: آج کے اس سخت دور میں جس میں علماء و روحانیت ہر سمت سے دباؤ کا شکار ہیں آپ طلبہ کی زوجات پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ روحانیت فکری اور اعتقادی حملوں کی زد میں ہے اور دشمن کی کوشش ہے کہ عوام کو روحانیت سے جدا کر دے۔

انہوں نے کہا: روحانیت دین کو سمجھنے اور اس کی تبلیغ کی ذمہ دار ہے اور آج ایک فاضل اور واجدِ شرائط عالم دین دشمن کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ دشمن کا اصل ہدف دین اور قرآن کو مٹانا ہے تاکہ خداوند متعال اور اس کے احکام کا نام و نشان باقی نہ رہے۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے کہا: مغرب میں دشمن نے خاندان کو تباہ کر دیا ہے جبکہ اسلام خاندان کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: «قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا» اور یہ ایک بنیادی اصول ہونا چاہیے کہ خاندان میں ہر وہ بات کہی جائے جو انسان کو جنت کے قریب کرے۔

انہوں نے مزید کہا: دشمن خاندان کی بنیاد کو ختم کرنا چاہتا ہے اور دین میں انسان کی رشد کے لیے جو کچھ مقرر کیا گیا ہے اسے نشانہ بنا رہا ہے تاکہ انسانیت کو اپنی غلامی میں لے آئے۔ اس بنا پر ان میدانوں میں علماء کی ذمہ داری بہت سنگین ہے اور ان کی زوجات کو بھی ان امور پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ آج روحانیت نہایت نازک حالات سے گزر رہی ہے لہٰذا کامیاب عالم دین وہی ہے جس کی زوجہ بھی ان حالات اور حساسیتوں کو سمجھتی ہو۔

گذشتہ روز سڈنی میں یہودیوں کی ایک روایتی مذہبی تقریب پر مسلح حملے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ سڈنی کے بونڈی بیچ پر پیش آنے والے حالیہ واقعے کے بعد اسرائیلی اخبار نے صیہونی سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ اسرائیلی میڈیا میں اس خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی، بعض اسلامی جمہوریہ مخالف میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر سابق شاہ ایران کے حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک مربوط کمپین چلائی گئی۔ ایک ایسی تحریک جس نے کوئی معتبر دستاویز یا ذریعہ فراہم کیے بغیر اپنے وہم و خیال اور ایک باقاعدہ سازش کے تحت قطعی طور پر اعلان کیا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا کام ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس بیانیے کی پیروی بیک وقت اسرائیلی میڈیا اور فارسی زبان کے انقلاب دشمن میڈیا نے فوری طور پر کی۔ گویا اس واقعے کے فوراً بعد پہلے سے تیار شدہ خبروں کا فریم ورک فعال ہوگیا۔

حالانکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سرکاری طور پر اس حملے کی مذمت کی ہے۔ ایک ایسا مؤقف جو "ایرانی مداخلت" کے دعوے سے متصادم ہے اور درحقیقت صہیونی میڈیا میں پیش کیے جانے والے بیانیے کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ بہرحال انٹیلیجنس پولیس کے اصول پر مبنی اس واقعے کی اصل وجہ جاننے کے لیے ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس واقعے سے فائدہ کس کو ہوسکتا ہے۔؟ سڈنی لندن کے بعد دوسرا شہر ہے، جہاں گذشتہ دو سالوں میں غزہ کی حمایت میں سب سے زیادہ صیہونیت مخالف مظاہرے ہوئے ہیں اور ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں یہودیوں نے بھی شرکت کی ہے۔ اس رجحان نے صیہونی حکومت کو بہت زیادہ پریشان کیا ہے اور صیہونی حکومت کے رہنماء اس سلسلے میں آسٹریلوی حکومت کو بارہا خبردار کرچکے ہیں۔ آسٹریلوی حکومت رائے عامہ کی خواہش کے باوجود کچھ نہ کرسکی۔

1۔ کیا یہ واقعہ سڈنی کے عوام کے صیہونی مخالف مظاہروں میں سہولت فراہم کرتا ہے یا اس سے آسٹریلوی پولیس کے ہاتھ صیہونی مخالف عناصر کو دبانے کے لیے مزید کھل گئے ہیں۔؟
2۔ سڈنی کے یہودیوں کے لیے سکیورٹی کے فقدان سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
سڈنی اسرائیل سے فرار ہونے والوں کی منزلوں میں سے ایک ہے اور مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی الٹی ہجرت کے لیے یہ اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔؟
3۔ کیا یہ واقعہ صیہونی حکومت کے جرائم اور غزہ کے عوام پر ہونے والے ظلم کو عالمی رائے عامہ میں اجاگر کرنے میں مدد کرتا ہے یا اس سے حکومت کے تنہائی سے نکلنے میں مدد ملتی ہے۔؟

4۔ سڈنی میں متعدد صیہونی کمپنیوں اور اداروں کی موجودگی اور اس حکومت کے بحری جہاز جو جائے وقوعہ کے قریب پورٹ جیکسن میں لنگر انداز ہیں اور ان پر حملہ کرنا اسرائیلی معیشت کے لیے ایک اچھا خاصا خطرہ ہے، اس کے پیش نظر سڈنی میں ہتھیار رکھنے والے عناصر ایک اچھے اور غیر محفوظ اہداف کو چھوڑ کر عام لوگوں اور عبادت گاہوں کی طرف کیوں گئے۔؟
5۔ چھٹیاں گزارنے کے لیے سڈنی جانے والے صہیونی فوجیوں پر حملہ کیوں نہیں کیا جاتا اور مسلح حملے صرف مذہبی مراکز پر ہی کیوں ہوتے ہیں۔؟
جواب واضح ہے کہ سڈنی کے واقعے سے فائدہ اٹھانے والی صرف اور صرف صیہونی حکومت ہی ہے۔ مظلوم فلسطین اور بہادر غزہ کی بہترین مدد یہ ہے کہ دنیا کی رائے عامہ میں ان کی مظلومیت اور بہادری کی تصویر کو زندہ رکھا جائے اور اس حکومت کے جرائم کی ہر ممکن عکاسی کی جائے اور ہر وہ چیز جو ان ترجیحات کو تباہ کرتی ہے، وہ صیہونیوں کی مدد میں شامل ہے

تحریر: محمد رضا دھقان

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور عزیز بہنو! آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم نے ان محترم بھائیوں کے پیش کردہ پروگرام سے بہت فیض اٹھایا۔ ان کے بامعنی اور پُرمغز اشعار نے اس محفل کو تازگی اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگی عطا کی۔ بہت سی محفلیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ہجوم تو ہوتا ہے، مگر وہ اپنے زمانے سے مربوط نہیں ہوتیں؛ لیکن یہ نشست، واقعی آج کے زمانے کی نشست ہے۔ آپ کے اشعار، آپ کے حرکات، آپ کی باتیں، آپ کے بیانات، آپ کا اجتماع اور آپ کا جوش و خروش، سب نے مل کر اس مجلس کو عصر حاضر سے ہم آہنگی عطا کی۔

میں حضرت سیّدۃ النساء، صدّیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت، نیز ہمارے عزیز و بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی ولادت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حضرت صدّیقۂ طاہرہ کے بارے میں میں بہت مختصر عرض کرنا چاہوں گا؛ اس لیے کہ اس عظیم آسمانی خاتون کے فضائل، مناقب اور بلند پایہ اوصاف ایسے نہیں کہ ہم اپنی زبان و بیان میں ان کا احاطہ کر سکیں۔ وہ ہماری فہم، ہمارے تصور اور ہمارے ادراک سے کہیں بلند تر ہیں۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کامل اسوہ تھیں۔ کیا ہم عمل نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم فاطمی طرزِ زندگی نہیں اپنانا چاہتے؟ وہ اسوہ تھیں؛ اور اسوہ کے مطابق ہی چلنا اور عمل کرنا چاہیے۔ وہ دینداری کا نمونہ تھیں، عدل و انصاف کی علمبردار تھیں، اور جہاد کا اعلیٰ ترین نمونہ تھیں۔ حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کا جہاد مشکل ترین جہادوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی موازنہ کرے تو شاید رسولِ اکرم کی تمام غزوات ایک طرف اور حضرت فاطمۂ زہرا کا جہاد ایک طرف ہے۔ وہ جہاد کی اسوہ تھیں۔ وہ تبیین و تشریح کی اسوہ تھیں؛ مسجدِ النبی میں دیا گیا ان کا وہ درخشاں خطبہ ایک بے مثال، روشن اور سبق آموز تبیین تھا۔ وہ نسوانی ذمہ داریوں کا بھی نمونہ تھیں: شوہرداری، اولاد کی پرورش، زینبؑ پروری اور دیگر بے شمار اسلامی اقدار۔ یہ سب وہ ظاہری پہلو ہیں جو ہماری نگاہ میں آ سکتے ہیں؛ جب کہ ان کے باطنی اور عرشی مقامات ہماری نظر سے بلند اور ہمارے بیان سے باہر ہیں۔

اور اب چند کلمات 'مدّاحی' کے موضوع پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آج میری گفتگو کا محور یہی ہے۔ آج مدّاحی ایک نہایت اہم پلیٹ فارم بن چکی ہے، مناسب ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کیا جائے۔ مدّاحی اب صرف آنا، پڑھنا اور لوگوں کو رُلا دینا نہیں رہی؛ ہمارے ملک میں یہ ایک ایسا سماجی و ثقافتی مظہر بن چکی ہے جو گہرے مطالعے کا تقاضا رکھتا ہے۔ تحقیق سے مراد کیا ہے؟ یعنی گہرائی تک پہنچنا؛ یہ جاننا کہ ان اشعار، نظموں، دھنوں اور حرکات کے پسِ پشت کیا فکر اور کیا پیغام کارفرما ہے۔ اسی طرح ’’نقص شناسی‘‘ بھی ضروری ہے؛ تاکہ ممکنہ کمزوریوں کی نشاندہی ہو سکے۔ نیز ترقی کے راستوں کی تلاش، کہ مدّاحی کو کس طرح نشوونما کی راہ پر ڈالا جائے اور کمال کی سمت بڑھایا جائے۔ یہ سب ایسے امور ہیں جن پر اہلِ تحقیق کام کرسکتے ہیں اور آج اس کی شدید ضرورت ہے۔

یقیناً ماضی میں بھی مدّاحی موجود تھی؛ ہماری نوجوانی کے زمانے میں بھی مدّاح تھے، البتہ نہ اس وسعت کے ساتھ، نہ اس تعداد میں، نہ اس آگہی اور نہ اس علمی سطح پر، لیکن تھے۔ البتہ ان میں کچھ اہم خصوصیات بھی تھیں، مثلاً وہ طویل قصائد ازبر پڑھا کرتے تھے۔ تاہم مجموعی طور پر ہمارے دور کی مدّاحی اور آج کی مدّاحی میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔ آج مدّاحی ہمارے معاشرے میں ایک حیرت انگیز حقیقت بن چکی ہے۔ میں یہ باتیں اس لیے عرض کر رہا ہوں تاکہ ہمارے عزیز مدّاح اس بات سے آگاہ رہیں کہ وہ کس قدر اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ آپ خود جانتے ہیں؛ آج کے اشعار اور آج کے مضامین سے واضح ہے کہ مدّاح اپنی ذمہ داریوں اور اپنے مقام سے باخبر ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ اہم حقیقت اب ایک مؤثر عنصر کی صورت میں ہمارے ملک میں نمایاں ہوچکی ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے اثرگذار عوامل کو مضبوط کرنا ہے جو اذہان، افکار اور دلوں پر اثر ڈالتے ہیں؛ پہلے انہیں پہچانیں، پھر انہیں تقویت پہنچائیں۔ یہی میری اصل بات ہے جسے میں آگے بیان کروں گا۔

یقیناً تمام مدّاحیاں ایک ہی درجے کی نہیں ہوتیں؛ ان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ تمام فنون کا یہی حال ہے: کچھ اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں، کچھ متوسط۔ مگر مجموعی اور معتدل انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ آج مدّاحی ’’ادبیاتِ مزاحمت‘‘ کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ آج مدّاحی مزاحمت کی ادبیاتِ کا ایک مضبوط ستون بن چکی ہے۔ اگر کوئی فکر موجود ہو مگر اس کے مطابق ادبیات نہ ہوں تو وہ فکر مر جاتی ہے اور مٹ جاتی ہے۔ فکر و نظریے کے مطابق ادبیات کی تخلیق ایک عظیم فن ہے۔ ان مراکز میں سے ایک جہاں ادبیاتِ مزاحمت مرتب ہوتی ہے، پھیلتی ہے اور منتقل کی جاتی ہے، وہ مدّاحی اور انجمن کا یہی پلیٹ فارم ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ’’قومی مزاحمت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ جب ہم ’’قومی ادبیاتِ مزاحمت‘‘ کی بات کرتے ہیں تو قومی مزاحمت کیا ہوتی ہے؟ آج ’’مزاحمتی محاذ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؛ یہ کس چیز کے مقابلے میں مزاحمت کر رہا ہے؟ قومی مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے مختلف شعبوں میں دشمن جو دباؤ ڈالتا ہے کہ ایک قوم کو جھکنے پر مجبور کر دے، اس کے مقابلے میں تحمل، استقامت اور ڈٹ کر کھڑے رہنے کی طاقت۔ مزاحمت سے ہماری مراد یہی ہے: دباؤ کے آگے نہ جھکنا، برداشت کرنا، مقابلہ کرنا، ثابت قدم رہنا، دشمن کی پیش قدمی کو روک دینا اور اس کے ہاتھ کاٹ دینا۔

یہ دباؤ جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں، کسی بھی نوعیت کا ہوسکتا ہے؛ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ عسکری دباؤ ہوتا ہے، جسے ہم نے دیکھا ہے؛ نئی نسل نے شاید پہلے نہ دیکھا ہو، مگر اب وہ بھی دیکھ رہی ہے؛ ہم نے تو چالیس برس پہلے بھی اس کا تجربہ کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ کو زبردستی کسی مسلط کردہ بات کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ دباؤ فوجی ذرائع سے بھی ہوسکتا ہے، معاشی وسائل کے ذریعے بھی، یا شور اور ہنگامہ کرکے، پروپیگنڈے اور میڈیا کی فضا سازی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ ذرا سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں، غیر ملکی ریڈیو نشریات کو دیکھیں، صرف صحافیوں اور نامہ نگاروں ہی کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے اعلیٰ عسکری اور سیاسی حکام کے بیانات ملاحظہ کریں؛ یہ سب ایک ہی مرکز اور ایک ہی ٹارگٹ کی طرف متوجہ ہیں، اور وہ ہے قوموں کی استقامت اور مزاحمت کو نشانہ بنانا—اور اس میں سرِفہرست ملتِ ایران ہے۔ آج صورتِ حال یہی ہے۔ لہٰذا یہ دباؤ کبھی عسکری ہوتا ہے، کبھی معاشی، مثلاً پابندیوں کی شکل میں، کبھی میڈیا کے ذریعے، کبھی سوشل میڈیا کے میدان میں، کبھی جاسوس تیار کرکے، اور کبھی اس جیسے دیگر طریقوں سے۔

اس دباؤ کا مقصد بھی مختلف ہوسکتا ہے: کبھی علاقائی توسیع پسندی، جیسا کہ آج کل امریکہ بعض لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے؛ کبھی زیرِ زمین وسائل پر قبضہ، مثلاً کسی ملک کے تیل کے ذخائر پر ہاتھ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالنا؛ کبھی ثقافتی اور دینی معاملات؛ کبھی طرزِ زندگی کو بدلنے کی کوشش، جو زیادہ تر میڈیا کے آلات کے ذریعے انجام پاتی ہے؛ اور ان سب سے بڑھ کر، قومی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش۔ گزشتہ سو برس سے مغربی طاقتیں—جو قاجاری دور کے آخری زمانے میں ایران میں داخل ہوئیں—ملتِ ایران کی شناخت بدلنے کی کوشش میں لگی رہی ہیں: اس کی دینی شناخت، اس کی تاریخی شناخت اور اس کی ثقافتی شناخت۔ رضا خان نے اس سمت پہلا قدم اٹھایا، مگر کامیاب نہ ہوسکا؛ اس کے بعد آنے والوں نے زیادہ سیاسی مہارت کے ساتھ اقدامات کیے، مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے؛ پھر اسلامی انقلاب آیا اور ان سب کوششوں کو بہا لے گیا۔ یہ سب ملتِ ایران کی شناخت بدلنے کا دباؤ تھا۔ بہرحال، ان تمام صورتوں میں مقاومت ناگزیر ہے۔ ہم نے کہا کہ مقاومت کیا ہے؟ یعنی برداشت، ثابت قدمی، ڈٹ کر کھڑے رہنا، تسلیم نہ ہونا، اور دباؤ ڈالنے والے کو ناکام بنانا؛ یہی مقاومت کا مفہوم ہے۔ آج جب ہم بار بار محورِ مقاومت کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہی مراد ہے۔ ایک وقت تھا جب صرف ایران تھا؛ آج یہ مقاومت خطے کے ممالک تک بلکہ بعض مواقع پر خطے سے باہر کے ممالک تک پھیل چکی ہے؛ مقاومت بتدریج وسعت اختیار کر چکی ہے۔

یقیناً ہماری قوم نے اسلامی جمہوریہ کے قیام اور انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے آغاز ہی سے مقاومت کا مظاہرہ کیا، ڈٹ کر کھڑی رہی اور دشمن کے دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ دشمن نے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے—جن کی تفصیل ہم بارہا بیان کر چکے ہیں، اس لیے دہرانا نہیں چاہتا۔ بعض اقدامات ایسے تھے کہ اگر وہ کسی اور قوم یا ملک کے خلاف کیے جاتے تو وہ تہس نہس ہو جاتا؛ مگر ملتِ ایران مضبوطی سے کھڑی رہی، اور اسلامی جمہوریہ نے کامل استقامت اور بھرپور مقاومت کے ساتھ اپنا موقف برقرار رکھا۔

مدّاحی بھی انقلاب کے آغاز ہی سے اسی سمت میں آگے بڑھی؛ اگرچہ سب نہیں، مگر یہ رجحان شروع ہو گیا تھا، اور جنگ کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ جنگ کے دنوں میں ہر ایک شہید، مدّاحوں کی بدولت ملتِ ایران کے لیے ایک پرچم بن گیا۔ یہ مدّاح ہی تھے جنہوں نے یہ کردار ادا کیا۔ اگر شہید کا جسد آتا اور اس کے ساتھ مدّاح نہ ہوتا، اگر وہ حماسی شاعری فضا میں گونجتی نہ اور دلوں کو اپنی گرفت میں نہ لیتی، تو وہ شہید فراموش ہو جاتا۔ انہوں نے زینبی کردار ادا کیا؛ جیسے حضرت زینبؑ نے کربلا کو تاریخ میں زندہ رکھا، ویسے ہی۔ یہ عمل انقلاب کے آغاز سے شروع ہوا، آج تک جاری ہے، اور آج بھی موجود ہے۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تمام مدّاحی کی مجالس آج کی اس مجلس جیسی نہ تھیں اور نہ ہیں، لیکن پھر بھی ہر مجلس میں کسی نہ کسی درجے میں مقاومت کے مفہوم اور اس کی عملی صورت کی طرف ایک جھکاؤ، ایک نظر اور ایک حرکت ضرور پائی جاتی ہے۔

اب میری بات کا خلاصہ یہ ہے—اور میں بس یہی ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں—کہ آج ہم محض عسکری تصادم سے آگے بڑھ چکے ہیں؛ اگرچہ وہ موجود رہا ہے، آپ نے دیکھا ہے، اور اس کے دوبارہ ہونے کا خدشہ بھی مسلسل ظاہر کیا جاتا ہے، بلکہ بعض لوگ دانستہ اس آگ کو ہوا دیتے ہیں تاکہ عوام کو خوف اور اضطراب میں مبتلا رکھیں—ان شاء اللہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ آج ہم ایک شدید تبلیغی اور میڈیا جنگ کے مرکز میں کھڑے ہیں؛ اور یہ جنگ کس کے ساتھ ہے؟ ایک وسیع محاذ کے ساتھ۔ ہم ایک فکری اور معنوی جنگ میں ہیں۔ دشمن یہ بات سمجھ چکا ہے کہ اس مقدس اور معنوی سرزمین پر فوجی طاقت اور دباؤ کے ذریعے قبضہ ممکن نہیں۔ اس نے یہ بھی جان لیا ہے کہ اگر اسے کسی قسم کی مداخلت یا کامیابی حاصل کرنی ہے تو دلوں کو بدلنا ہوگا، ذہنوں اور افکار کو تبدیل کرنا ہوگا؛ چنانچہ وہ اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ اگرچہ ہم اس کے مقابل مضبوطی سے کھڑے ہیں، لیکن آج خطرہ یہی ہے، محاذ یہی ہے، اور دشمن کا ہدف یہی ہے۔ دشمن کا مقصد ہمارے ملک میں انقلابی مفاہیم کی روشن اور تابندہ نشانیاں مٹانا ہے؛ اس کا ہدف یہ ہے کہ بتدریج لوگوں کو انقلاب کی یاد سے، انقلاب کے مقصد سے، انقلاب کے کارناموں سے اور امامِ انقلاب کی یاد سے غافل کر دے۔ اسی کے لیے وہ سرگرم ہے، اسی کے لیے کوششیں کر رہا ہے، اربوں خرچ کر رہا ہے—وہ کہتے نہیں، مگر ہم جانتے ہیں۔ وہ مصنفین، فنکاروں، کتاب نویسوں، ناول نگاروں، ہالی وُڈ اور دیگر ذرائع کو استعمال میں لا رہا ہے، مختلف ہتھیاروں اور وسائل سے کام لے رہا ہے تاکہ ایرانی نوجوان کے ذہن کو بدل دے۔ اس میدان میں ہمارے مقابل ایک نہایت وسیع اور فعال محاذ کھڑا ہے؛ جس کا مرکز امریکہ ہے، اس کے گرد بعض یورپی ممالک ہیں، اور اس کے حاشیے میں وہ کرائے کے لوگ، غدار، بے وطن عناصر ہیں جو یورپ اور دیگر علاقوں میں جمع ہو کر محض روزی روٹی اور مفاد کے لیے یہ راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم ان سب کے مقابل کھڑے ہیں۔

لہٰذا محاذِ انقلاب اور مزاحمت کے کارگزاروں کو دشمن کی اس صورتِ حال کو اچھی طرح پہچاننا چاہیے اور اپنی صف بندی دشمن کے اسی نظم اور اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دینی چاہیے۔ جیسے عسکری میدان میں ہماری صف آرائی دشمن کے ہدف پر منحصر ہوتی ہے؛ جب ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن کسی خاص پوائنٹ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو ہم ایسی عسکری ترتیب اختیار کرتے ہیں جو اسے ناکام بنا دے۔ یہی کام تبلیغ و ابلاغیات کے میدان میں بھی ہونا چاہیے۔ تشہیراتی صف بندی کو اسی سمت متوجہ ہونا چاہیے جسے دشمن نے اپنا ہدف بنایا ہے، اور وہ ہیں: معارفِ اسلامی، معارفِ شیعی اور انقلابی معارف۔ دشمن نے انہی کو نشانہ بنایا ہے؛ اس لیے ان کے مقابل ڈٹ کر کھڑا ہونا ضروری ہے۔ یقیناً یہ کام آسان نہیں، لیکن خوش قسمتی سے آج ہمارے پاس حوزہ علمیہ میں ایسے بہت سے فاضلین موجود ہیں جنہوں نے ان موضوعات پر غور و فکر کیا ہے، کام کیا ہے اور قیمتی علمی سرمایہ فراہم کیا ہے، جس سے ملک کے مدّاحی کے حلقے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

آپ مدّاح حضرات جن انجمنوں سے وابستہ ہیں، انہیں انقلاب کے اقدار اور دیگر اسلامی اقدار سے وابستگی کا مرکز بنا سکتے ہیں؛ خصوصاً آج جبکہ خوش قسمتی سے نوجوانوں کا رجحان انجمنوں کی طرف بہت بڑھ گیا ہے۔ آج انجمنوں سے نوجوانوں کی وابستگی نہایت زیادہ ہے؛ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ آج مختلف شہروں میں نوجوان، جیسا کہ ہمیں رپورٹوں سے، ٹیلی وژن کے ذریعے یا خبروں سے معلوم ہوتا ہے، پورے شوق سے ان سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور محنت کر رہے ہیں۔ اس رجحان کی قدر کرنی چاہیے اور نوجوان نسل کو اس ضدی، مکار اور بدقسمتی سے بے پناہ وسائل سے لیس دشمن کے منصوبوں سے محفوظ بنانا چاہیے۔

میری آپ سے سفارش ہے کہ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السلام) کی مدّاحی میں معارف کی تبیین کو نمایاں کریں۔ میرے نزدیک ائمۂ معصومین (علیہم السلام) نے بنیادی طور پر دو بڑے کام انجام دیے: ایک، معارف کی وضاحت اور تبیین، جس کے نتیجے میں اسلامی معارف محفوظ رہے؛ اگر وہ معارفِ اسلامی کی تبیین نہ کرتے تو آج اسلام اور اس کے حقیقی معارف میں سے کچھ بھی باقی نہ رہتا۔ دوسرا، جدوجہد اور مقابلہ۔ ائمۂ اطہار مسلسل مقابلہ کرتے رہے۔ اس موضوع پر میں برسوں سے گفتگو کرتا رہا ہوں۔ امیرالمؤمنینؑ کے بعد—چاہے امام حسنؑ کا دور ہو، امام حسینؑ کا زمانہ ہو یا بعد کے ائمہ کا دور—سب کے سب کسی نہ کسی انداز میں جدوجہد میں مصروف رہے؛ خلافت کے خلاف، حق کے دشمنوں کے خلاف، ہر ایک نے اپنے اپنے اسلوب سے؛ طریقے مختلف تھے، مگر مقصد ایک تھا۔ یہ پہلو ائمۂ اطہار کی سیرت اور ان کی زندگی کے بیان میں اجاگر ہونا چاہیے۔ لہٰذا ایک اہم سفارش یہ ہے کہ دینی معارف کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور انقلابی معارف کی بھی تبیین تشریح کی جائے۔

ایک اور سفارش یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں محض اس کے پیدا کردہ شبہات کا جواب دینے پر اکتفا نہ کریں۔ جواب دینا یقیناً ضروری ہے اور دشمن کے پیدا کردہ شبہات کا جواب دینا بھی لازم ہے، مگر دشمن کے اندر بہت سی کمزوریاں بھی ہیں؛ ان کمزوریوں کو نشانہ بنائیں، ان پر حملہ کریں، اور شعری مفاہیم کے ذریعے ان پر یلغار کریں۔ خوش قسمتی سے آج بعض بھائیوں نے اس میدان میں بھی اپنی اچھی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔

مزید ایک سفارش یہ ہے کہ مدّاحی کے منبر کو اسلام کی طاقتوں اور مضبوط پہلوؤں سے بھر دیں، خواہ وہ انفرادی زندگی کے مسائل ہوں، سماجی امور ہوں، سیاسی میدان ہو یا دشمن کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ۔ اسلام کے پاس ان تمام میدانوں میں گہرے معارف اور مضبوط نکات موجود ہیں۔ آپ کی گفتگو اور آپ کے پروگرام سننے والا شخص قرآن اور اس کے مفاہیم سے بھرپور استفادہ کرے۔ مدّاحی کو دین کی ترویج، دینی مفاہیم اور انقلابی مسائل کے فروغ کا ایک مؤثر اور اہم ذریعہ بنائیں۔ یہ کام اس وقت بھی کسی حد تک ہو رہا ہے؛ اسے مزید پھیلائیں، مضبوط کریں، عام کریں اور ہر جگہ رائج کریں۔ بسا اوقات ایک خوش ساخت اور خوش مضمون نوحہ، جو آپ منبر پر پڑھتے ہیں، سامع کے دل پر ایک یا دو منطقی، فلسفیانہ اور استدلالی خطبات سے کہیں زیادہ گہرا اور دیرپا اثر چھوڑ جاتا ہے۔

اور خوش آہنگی کی بات آئی تو اس پہلو میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، تاکہ طاغوتی دور کے نغمے اور دھنیں ہمارے دینی مفاہیم میں سرایت نہ کرنے پائیں؛ کبھی کبھار انسان کو ایسے نمونے سننے کو مل جاتے ہیں۔ اس سے بچیے! مدّاحی کی دھن، آپ کی اپنی دھن ہونی چاہیے، آپ کی تخلیق اور آپ کا ابتکار عمل؛ وہ دھنیں، جو آپ کے دشمنوں سے وابستہ ہیں، جن کے خلاف آپ نے قیام کیا اور جن کے غلط ثقافتی اور فکری نظام کے خلاف آپ کی قوم اٹھ کھڑی ہوئی، آپ کے کلام اور بیان میں سرایت نہ کرنے پائیں۔

لہٰذا جو بات میں محسوس کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ خوش قسمتی سے ملک کی ترقی کے اہم ذرائع میں مدّاحی کا ایک نمایاں اور خاص مقام ہے۔ آپ لوگ محنت کر رہے ہیں، کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اور جیسا کہ عرض کیا، اس میدان میں تحقیق کی ضرورت ہے؛ اس کی کمزوریوں کی نشاندہی ہونی چاہیے، اس کی تکمیل اور ارتقا کے راستے تلاش کیے جانے چاہئیں، اور اس مقصد کے لیے موزوں مضامین بلکہ مناسب دھنیں بھی تیار کی جانی چاہئیں۔ مدّاحی کو محفوظ رکھیں، اسے باقی رکھیں، اسے ارتقا بخشیں اور اس سرمائے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

آخر میں میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ توفیق الٰہی سے اسلامی جمہوریہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہمارے پاس کمیاں بہت ہیں؛ خوزستان کی گرد و غبار کا مسئلہ تو جس کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک معمولی سی مثال ہے؛ اس سے کہیں بڑی کمزوریاں بھی ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ملتِ ایران روز بروز اسلام کی ساکھ اور آبرو میں اضافہ کر رہی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے کہ اسلام کا مطلب استقامت ہے، اسلام کا مطلب قوت ہے، اسلام کا مطلب سچائی اور اخلاص ہے، اسلام کا مطلب خیر خواہی اور عدل و انصاف ہے۔ ملتِ ایران بتدریج ان حقائق کو عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ یقیناً ملک میں بڑی تبدیلیاں فوراً نظر نہیں آتیں، کیونکہ وہ تدریجی ہوتی ہیں اور طویل مدت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں؛ وہ ایک لمحے میں انجام نہیں پاتیں کہ فوراً دکھائی دینے لگیں۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ توفیق الٰہی سے ہمارا معاشرہ بتدریج ترقی کر رہا ہے۔ آج کا نوجوان دینی مسائل کے حوالے سے، ابتدائی ایامِ انقلاب کو چھوڑ کر، تمام درمیانی ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہے، اور ان شاء اللہ آئندہ بھی مزید آگے بڑھے گا۔

شہیدوں کی مقدس ارواح امام بزرگوار (امام خمینی) کی روح مقدسہ خوش رہے جنہوں نے ملت ایران کے لئے یہ راستہ تعمیر کیا۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ مداحان و قصیدہ خوانان اہل بیت نے اشعار پڑھے اور مدح سرائی کی۔
  2. خوزستان کے ایک 'مداح' کے اشعار کی طرف اشارہ۔
 

 آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے درسِ تفسیر (18 اپریل 2016) میں والدین کے احترام اور ان کی خدمت کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ گھر اور اخراجات کی ذمہ داری پدرانہ مشقت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن حمل، ولادت، شیرخوارگی اور دودھ پلانے کے مراحل میں ماں جن سختیوں سے گزرتی ہے، وہ ایک انتہائی سخت مرحلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت اولاد کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ بیٹے بھی قدرشناس ہوں اور بیٹیاں بھی اس راستے کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھیں۔ آیت اللہ جوادی آملی نے سورۂ لقمان کی آیت 14 کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ قرآن کریم خود ماں کی تکالیف کو نمایاں کرتا ہے:

«وَ وَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْهِ … حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ…»

یعنی ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو (انسان) میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے، میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اس قرآنی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ بیٹے ماں کی قدر کو سمجھیں اور بیٹیاں اس آیت سے آیینِ مادری کا درس لیں، تاکہ معاشرے میں والدین کے احترام اور ان کی خدمت کا جذبہ مضبوط ہو۔

ایران کا شاہد-136 ڈرون عالمی سطح پر جنگی حکمت عملی کے قواعد بدلنے والا ایک اہم عنصر بن کر ابھرا ہے، جس نے بڑی عسکری طاقتوں کو میدان جنگ میں برتری کے طریقے دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عالمی اسلحہ سازی کے منظرنامے میں جہاں امریکہ، چین اور روس کو ہمیشہ عسکری جدت کے رہنما سمجھا جاتا رہا ہے، وہاں ایران کا شاہد-136 ایک غیر معمولی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ ڈرون چھوٹا، کم خرچ اور عملی مؤثریت کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس نے جدید جنگ کی معیشت اور حکمت عملی کو نئی شکل دی ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے کے بعد یہ نظام اب عالمی سطح پر معروف ہوچکا ہے اور بڑی عسکری صنعتیں اس کی نقل پر مجبور ہیں، جو ایرانی جدت کی اثر پذیری کو ظاہر کرتا ہے۔

شاہد-136 50 ہارس پاور پسٹن انجن سے چلتا ہے، 40 کلوگرام کا وارہیڈ لے جاسکتا ہے اور تقریباً 2000 کلومیٹر تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فی یونٹ تخمینہ لاگت 20 ہزار سے 50 ہزار ڈالر کے درمیان ہے، جو مہنگے فضائی دفاعی نظاموں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کم پیداوار لاگت اور زیادہ روک تھام لاگت کے اس فرق نے ایران کو عالمی ڈرون جنگ میں منفرد مقام پر پہنچا دیا ہے۔

شاہد-136 کے اثرات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہی طاقتیں جو کبھی ایران کو ثانوی کردار سمجھتی تھیں، اب اس کی ٹیکنالوجی کو اپنا رہی ہیں۔ امریکہ، جو ہمیشہ "یہاں ایجاد ہوا" کے اصول پر کاربند رہا ہے، نے پینٹاگون کے "اسکارپین اسٹرائیک" ٹاسک فورس کے ذریعے اس کا ریورس انجینئرڈ ورژن متعارف کرایا ہے۔ اس نئے نظام کی قیمت بھی ایرانی ماڈل کے قریب بتائی جاتی ہے اور اسے "سوارم کوآرڈینیشن" کے لیے بہتر بنایا گیا ہے۔ یہ پیش رفت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ واشنگٹن کی وسیع تکنیکی صلاحیتیں بھی شاہد-136 جیسے کم خرچ مگر مؤثر خطرے کے سامنے محدود ہوگئی ہیں۔

روس دنیا کے بڑے ڈرون بنانے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے اس کے باوجود ماسکو نے ایران کی جدید ٹیکنالوجی کو اپنے "گرین-2" ڈرون میں شامل کیا ہے۔ اس میں بہتر انجن، ریڈار سے بچنے والا مواد، مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام اور جدید اینٹی-جیمنگ آلات لگائے گئے ہیں تاکہ یوکرین کے میدانِ جنگ میں موجود سخت فضائی دفاعی نظام کا مقابلہ کیا جاسکے۔ روس کے پاس اپنے ڈرون پروگرام موجود ہیں، لیکن شاہد-136 نے اس کی ایک بڑی ضرورت پوری کی ہے۔ ایک سستا، لمبے فاصلے تک جانے والا اور استعمال کے بعد ضائع ہونے والا حملہ آور ڈرون جو مغربی دفاعی نظام کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

چین بھی اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ اس نے "لانگ M-9" ڈرون کا تجربہ کیا ہے جس کا ڈیزائن اور عمل شاہد-136 سے ملتا جلتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بیجنگ بھی سمجھتا ہے کہ کم خرچ اور بڑے پیمانے پر تیار کیے جانے والے ڈرون مستقبل کی جنگوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔

یہ سب مثالیں ایک حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ بڑے بجٹ رکھنے والے ممالک اکثر اپنے نظام کی سست روی اور زیادہ لاگت کی وجہ سے محدود رہ جاتے ہیں، جبکہ ایران نے پابندیوں کے باوجود خود انحصاری پر زور دے کر ایک ایسا ماڈل بنایا ہے جو سادہ مگر مؤثر ہے اور میدان جنگ میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ یوں شاہد-136 صرف ایک ڈرون نہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ضرورت اور حکمتِ عملی کبھی کبھار دولت اور وسائل پر بھاری پڑجاتی ہے۔

اس ڈرون کی وسیع پیمانے پر نقل بنانا اور خریدنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جدید جنگ کا انداز بدل رہا ہے۔ اب جنگی معیشت مہنگی ٹیکنالوجی کے بجائے تعداد اور کم خرچ ہتھیاروں پر زیادہ انحصار کررہی ہے۔ شاہد-136 دشمن کے دفاعی نظام کو مفلوج کردیتا ہے اور اسے مہنگے ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے پرانی سوچ ختم ہوجاتی ہے کہ صرف جدید ٹیکنالوجی ہی میدانِ جنگ میں برتری دیتی ہے۔

شاہد-136 نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جدت صرف امیر ممالک کا حق نہیں۔ ایران نے وسائل کی کمی کو اپنی طاقت بنایا اور ایسا ڈرون تیار کیا جس کی اب دنیا کی بڑی فوجیں نقل کر رہی ہیں اور اپنا رہی ہیں

ایران غیر معمولی عجلت کے ساتھ عالمی مصنوعی ذہانت (AI) کی دوڑ میں داخل ہوچکا ہے۔ تہران اس ٹیکنالوجی کو محض سائنسی یا معاشی ترجیح نہیں سمجھتا، بلکہ اسے قومی طاقت، اندرونی کنٹرول اور اسرائیل و امریکا جیسے حریفوں کے خلاف مستقبل کی حکمتِ عملی کے ایک اہم ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ شدید پابندیوں اور گہرے معاشی دباؤ کے باوجود، ایران کے اعلیٰ حکام اور سلامتی ادارے اب کھل کر AI کو ایک ایسا شعبہ قرار دے رہے ہیں، جس پر ملک کو خود انحصار حاصل کرنا ہوگا اور جس میں مغربی پلیٹ فارمز پر انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ مستقبل میں ان تک رسائی محدود یا بند کی جا سکتی ہے۔ حکومتی، تعلیمی اور عسکری ادارے اب باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، تاکہ مقامی AI صلاحیتیں تیار کی جائیں، قومی پلیٹ فارمز بنائے جائیں اور بالآخر ایران کے سائبر اور عسکری نظاموں میں AI کو مکمل طور پر ضم کیا جائے، جن میں جارحانہ (offensive) صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔

اعلیٰ قیادت کی سطح پر ہدایات
سیاسی سطح پر رہبرِ انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای نے AI کی ترقی کو ذاتی طور پر ایک اسٹریٹجک ہدایت بنا دیا ہے۔ 2024ء کے بعد سے وہ مسلسل خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں کوئی بین الاقوامی ادارہ، جوہری نگرانی کے نظام کی طرز پر۔۔۔ ایران کی جدید AI تک رسائی محدود کرسکتا ہے۔ ان کے مطابق ایران کو لازماً خود مختار AI صلاحیتیں پیدا کرنا ہوں گی اور صرف غیر ملکی نظاموں کا "صارف" بن کر نہیں رہنا چاہیئے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے بھی اسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے قانون سازی اور ایک قومی AI خاکے (blueprint) کی ضرورت پر زور دیا ہے، جو تحقیقی اداروں، وزارتوں اور مجلس (پارلیمنٹ) کو ایک متحد فریم ورک میں جوڑ دے۔

حکام اور اداروں کا وسیع نیٹ ورک
سابق نائب صدر محمد مخبر AI تعلیم، نوجوانوں کی تربیت اور ’’نالج بیسڈ کمپنیوں‘‘ کے لیے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری پر زور دیتے ہیں۔ ایرانی ایسوسی ایشن برائے مصنوعی ذہانت کے سیکرٹری خبردار کرتے ہیں کہ ہارڈویئر اور سافٹ ویئر پر پابندیاں پہلے ہی پیش رفت میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور اگر مغربی ممالک نے AI ٹیکنالوجی پر اسی طرح قدغن لگائی، جیسے جدید ہتھیاروں پر لگائی گئی تھی، تو یہ تقریباً مکمل ناکہ بندی کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ پاسدارانِ انقلاب (IRGC) سے وابستہ ماہرینِ تعلیم AI تحقیق کو براہِ راست فوجی حکمتِ عملی سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ AI میدانِ جنگ میں فیصلوں کی رفتار کو غیر معمولی حد تک تیز کرسکتی ہے۔

عسکری میدان میں AI
فوجی کمانڈر اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ مرحوم IRGC کمانڈر حسین سلامی AI کو نہایت درست نشانہ بندی (precision targeting) کے لیے ناگزیر قرار دے چکے ہیں، خصوصاً بحری جنگ میں۔ IRGC نیوی کا دعویٰ ہے کہ وہ AI کو میزائل اور فضائی نظاموں میں ضم کر رہی ہے، جبکہ بری فوج اب ایسے کسی بھی ساز و سامان کی خریداری سے انکار کر رہی ہے، جو "سمارٹ" نہ ہو۔ ایران کے سلامتی اداروں کے نزدیک AI محض ایک تکنیکی انقلاب نہیں بلکہ ایک عسکری انقلاب ہے اور ان کے خیال میں ایران اس سے پیچھے رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ادارہ جاتی پیش رفت
ادارہ جاتی سطح پر بھی ایران تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جون 2024ء میں مجلس نے ’’قومی دستاویز برائے مصنوعی ذہانت‘‘ کی منظوری دی، جو خامنہ ای کے وژن کو بنیاد بناتے ہوئے انفراسٹرکچر، انسانی وسائل، بین الاقوامی تحقیقی قیادت اور معاشی استحکام کے اہداف طے کرتی ہے۔ 2025ء کے اواخر میں ایک ’’قومی تنظیم برائے مصنوعی ذہانت‘‘ قائم کی گئی، جو صدارتی دفتر کے تحت کام کرے گی، ضابطہ کاری (regulation) کو مربوط کرے گی اور عالمی سطح پر ایران کی نمائندگی کرے گی۔ تہران نے ایک مقامی تجرباتی AI پلیٹ فارم بھی لانچ کیا ہے، جسے طب، ٹرانسپورٹ اور تعلیم جیسے شعبوں میں استعمال کیا جا رہا ہے اور جس کا مقصد مغربی نظاموں پر انحصار کم کرنا ہے۔

ہیکنگ، فِشنگ اور گمراہ کن معلومات
اگرچہ ایرانی حکام "دفاعی سائبر استعمال" پر زور دیتے ہیں، لیکن مغربی ٹیکنالوجی کمپنیاں ایرانی کوششوں میں واضح اضافہ رپورٹ کرچکی ہیں، جن کا مقصد AI کو جارحانہ سائبر سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا ہے۔ مائیکروسافٹ، گوگل اور اوپن اے آئی (OpenAI) سب نے انکشاف کیا ہے کہ ایران بڑے لسانی ماڈلز (LLMs) کو ہیکنگ، فِشنگ، گمراہ کن معلومات اور سافٹ ویئر کمزوریوں کی تلاش کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ غلط معلومات پھیلانے والا گروپ STORM-2035 نے 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران AI ٹولز استعمال کرتے ہوئے کثیر لسانی مواد تیار کیا، جو سماجی تقسیم کو ہوا دیتا اور ایران نواز بیانیے کو فروغ دیتا تھا۔ یہ گروپ خود کو مقامی شہری ظاہر کرتے ہوئے امریکا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے سامعین کو نشانہ بناتا رہا۔

ایک اور IRGC سے منسلک کردار CyberAv3ngers نے کمرشل AI ٹولز کے ذریعے صنعتی کنٹرول سسٹمز کو اسکین کیا، بدنیتی پر مبنی کوڈ کو چھپایا اور اہداف کی فہرست وسیع کی۔ گوگل کے Gemini پلیٹ فارم نے بھی ایسے ایرانی اقدامات کی نشاندہی کی، جن میں اسرائیلی دفاعی نظام، سیٹلائٹ انفراسٹرکچر، ڈرون ٹیکنالوجی اور عبرانی زبان میں فِشنگ کی کوششیں شامل تھیں، یعنی AI ماڈلز سے عملی طریقۂ کار سیکھا جا رہا تھا۔ ایرانی گروپ APT-42 نے AI نظاموں کو دھوکہ دے کر "ریڈ ٹیم" طرز کی حملہ آور رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ تمام مثالیں ایران کی بڑھتی ہوئی مہارت کے ساتھ ساتھ اس کی حدود کو بھی ظاہر کرتی ہیں: ایران اب بھی بڑی حد تک مغربی AI ماڈلز پر انحصار کرتا ہے، کیونکہ اس کے مقامی پلیٹ فارمز ان کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں۔ خودمختار AI پر سیاسی زور دراصل تہران کے اس خوف کی عکاسی کرتا ہے کہ کہیں غیر ملکی نظام مستقبل میں ایران کو مکمل طور پر باہر نہ کر دیں۔

عالمی رجحانات اور مستقبل کے خدشات
ایران کی سمت عالمی رجحانات سے مطابقت رکھتی ہے، جہاں AI پر مبنی سائبر کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، چاہے وہ شمالی کوریا کی مالی دھوکہ دہی ہو یا مختلف ریاستوں کی خفیہ اثرانداز مہمات۔ تہران موجودہ ماڈلز کا مطالعہ کر رہا ہے اور انہیں اپنی جغرافیائی سیاسی کشمکش کے مطابق ڈھال رہا ہے۔ اگرچہ ایران میں AI کے بیشتر استعمالات ابھی تجرباتی مرحلے میں ہیں، لیکن جو انفراسٹرکچر اب تعمیر ہو رہا ہے، وہ مستقبل میں اسلامی جمہوریہ کو خودکار سائبر ہتھیاروں، اثرانداز مہمات اور میدانِ جنگ میں AI کے نئے اوزار فراہم کرسکتا ہے، خصوصاً اسرائیل اور مغرب کے ساتھ آئندہ تصادمات میں۔

نتیجہ
ایران کی AI مہم کو محض بیانات یا نعرہ بازی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔ یہ ایک گہرا اسٹریٹجک قومی منصوبہ ہے، جو ایران کی معیشت، حکمرانی، عسکری حکمتِ عملی اور خارجہ پالیسی کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے اور حیران کن رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔

نوٹ:
اس تجزیئے کا مکمل نسخہ ڈاکٹر آوی داویدی نے Jerusalem Institute for Strategy and Security کے لیے تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر آوی داویدی Times of Israel کے فارسی ایڈیشن کے مدیر ہیں، تل ابیب یونیورسٹی کے Elrom Air and Space Research Center میں سینیئر محقق اور Ono Academic College میں MBA پروگرام کے لیکچرر ہیں

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

Saturday, 13 December 2025 07:00

داعش کی شکست کا راز

10 دسمبر 2025ء کے دن عراقی قوم اور حکومت نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش پر فتح کی آٹھویں سالگرہ منائی ہے۔ یہ دن عراق کے قومی کیلنڈر میں مسلح افواج، حشد الشعبی (پاپولر موبیلائزیشن فورسز) اور عراقی عوام کی قربانیوں کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی سرزمین کو تکفیری دہشت گردی سے بچانے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کی۔ مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نیز حشد الشعبی کے کمانڈروں نے مبارک باد پر مبنی اپنے پیغامات میں اس فتح کو ایک تاریک خواب کا خاتمہ اور استحکام کے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی نے اس دن کو عراقیوں کے شجاعانہ موقف کی یاد تازہ کر دینے والا دن قرار دیا اور کامیابیوں کے تحفظ پر زور دیا۔ عراقی صدر عبداللطیف رشید نے بھی عوام اور مسلح افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے باہمی اتحاد پر زور دیا ہے۔
 
عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمود المشہدانی نے مسلح افواج کے اقدامات کو تاریخ کا ایک روشن صفحہ قرار دیا۔ سپریم اسلامی کونسل کے صدر شیخ ہمام حمودی نے شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے اور اتحاد کو مضبوط بنانے پر توجہ دی۔ پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر محسن المندلاوی نے اس شجاعانہ جنگ کی تعریف کی جو ملک کی خودمختاری اور وقار بحال ہو جانے کا باعث بنی۔ حشد الشعبی کے سربراہ فلاح الفیاض نے عوامی رضاکار فورس کی تشکیل میں مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کے فتوے کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس فتح کو عوام کی قربانیوں کا نتیجہ قرار دیا۔ عصائب اہل الحق کے سیکرٹری جنرل شیخ قیس خز علی نے ایران کی برادرانہ حمایت کو سراہا۔ قومی حکمت پارٹی (نیشنل وزڈم موومنٹ) کے سربراہ سید عمار حکیم نے مرجع عالی قدر اور ان کے فتوے پر لبیک کہنے والوں کو مبارکباد پیش کی۔شیعہ، سنی اور کرد رہنماؤں کے یہ پیغامات عراق میں سلامتی اور ترقی برقرار رکھنے کے اجتماعی عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
  
دہشت گردی کا خطرہ ظاہر ہونے کی کہانی
عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش 2011ء میں امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد اور سیاسی عدم استحکام اور فوج کی کمزوری کے سائے میں تیزی سے پروان چڑھا۔ اس گروہ نے 2013ء شام کی داعش سے الحاق کا اعلان کر دیا اور یوں "اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا" (ISIS) کا نام اختیار کرگیا۔ 2014ء میں سعودی عرب، قطر، اور سلفی وہابی تحریکوں کی مالی اور عسکری مدد سے نیز امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے واضح طور پر آنکھیں بند کر لینے کے ساتھ داعش نے عراق پر ایک بڑے حملے کا آغاز کر دیا جس کا عروج 10 جون 2014ء کے دن موصل پر اس کے قبضے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ قبضہ محض چند سو دہشت گردوں کے مقابلے میں عراقی فوج کے دسیوں ہزار سپاہیوں کے فرار ہو جانے کا نتیجہ تھا۔
 
موصل پر قبضے کے بعد داعش نے مرکزی بینک سے 1.5 ارب ڈالر سے زائد رقم بھی لوٹ لی اور اسلحے کے ذخائر پر قبضہ کر کے دنیا کا امیر ترین دہشت گرد گروہ بن گیا۔ موصل کے بعد تکریت، رمادی، فلوجہ اور صوبہ الانبار کے وسیع علاقے نیز صلاح الدین اور نینویٰ ایک ایک کر کے داعش کے قبضے میں جاتے چلے گئے۔ 2015ء کے وسط تک داعش نے عراق کے تقریباً 40 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور بغداد کے اندر بھی کئی کلومیٹر تک پیش قدمی کر لی تھی۔ یہ وحشیانہ پیشقدمی منظم قتل و غارت، اسپائیکر واقعے سمیت وسیع قتل عام کے واقعات، مزارات اور مساجد کی تباہی، یزیدی خواتین کو غلام بنانا اور دہشت کی فضا پیدا کرنے کے ہمراہ تھی۔ نوری المالکی حکومت کی کمزوری، فوج میں بدعنوانی اور بعض سنی قبائل کی ناراضگی نے بھی دہشت گردوں کو عراق کو مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچانے اور خطے کو معصوم لوگوں کی قتل گاہ میں تبدیل کرنے میں مدد فراہم کی۔ ایک ایسی سازش جو امریکہ، مغرب اور غاصب صیہونی رژیم کی پس پردہ حمایت سے آگے بڑھ رہی تھی۔
  
تاریخی فتوا اور عوامی دفاع کا آغاز
تکفیری دہشت گردی سے درپیش بحران کے عروج پر، آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کی طرف سے 13 جون 2014ء کے دن ایک تاریخی فتوا جاری کیا گیا جس میں داعش کے خلاف جہاد کو واجب کفائی قرار دیا گیا۔ نجف سے جاری ہونے والی اس فتوے میں عراقی شہریوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وطن کے دفاع کی خاطر سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیں اور نہ صرف شیعہ بلکہ سنی، کرد اور عیسائیوں کو بھی متحرک کریں۔ اس فتوے کی اہمیت فوجی پہلو سے بھی آگے نکل گئی اور وہ عراق کی قومی تاریخ میں ایک ایسا اہم موڑ ثابت ہوا جس نے میدان جنگ کا توازن دفاع سے حملے کی طرف موڑ دیا اور عوام میں قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا۔ اس فتوے نے دسیوں ہزار رضاکاروں کو متحرک کیا اور فرقہ وارانہ اتحاد کی لہر پیدا کی جس کے باعث سقوط بغداد کا خطرہ ٹل گیا۔ اس فتوے نے ایک وسیع عوامی جدوجہد کو جنم دیا اور جنگ کا رخ تبدل کر دیا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر عراقی پارلیمنٹ نے 13 جون کو قومی دن قرار دے دیا۔
 
داعش کے خاتمے میں ایران کا نمایاں کردار
اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے واضح حکم پر عراق پر داعش کے حملے کے آغاز سے ہی اس ملک کو بچانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانا شروع کر دی تھیں۔ یہ اسٹریٹجک حکم عراقی قوم اور حکومت کے لیے ایران کی غیر مشروط، تیز رفتار اور جامع حمایت کی بنیاد بن گیا۔ میدان جنگ میں بھی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر شہید لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی نے ایک بے مثال اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ وہ خود کو "مرجع عالی قدر کا سپاہی" کہتے ہوئے آیت اللہ العظمی سیستانی کے فتوے کے فوراً بعد عراق میں داخل ہوئے اور داعش کے خلاف حتمی فتح کے دن تک عملی طور پر پورے مزاحمتی محاذ کے مرکزی کمانڈر کا کردار ادا کرتے رہے۔ آمرلی اور سامرا کا محاصرہ توڑنے سے لے کر جرف النصر، تکریت، بیجی، فلوجہ، رمادی اور موصل کو آزاد کرانے تک تمام فوجی آپریشنز کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد شہید قاسم سلیمانی کی براہ راست، چوبیس گھنٹے کی نگرانی سے انجام پاتا رہا۔

تحریر: مہدی سیف تبریزی

 مقبوضہ فلسطین میں سیلاب کے نتیجے میں دسیوں افراد ہلاک، زخمی اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، سیلابی بارشوں نے مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا دی ہے۔

جنوبی مقبوضہ علاقوں میں امدادی ٹیمیں سڑکوں پر کشتیوں اور ناؤ کے ذریعے کارروائی کر رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگ اپنا گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

عبری میڈیا کے مطابق، ایک شخص کی لاش بھی ایک گڑھے سے برآمد ہوئی ہے۔

مقبوضہ فلسطین میں سیلاب، دسیوں ہلاک، زخمی اور لاپتہ، متعدد علاقے خالی کرا دیے گئے

عسقلان میں دسیوں افراد سیلاب میں پھنس چکے ہیں جن میں سے 16 زخمی ہیں۔

ادھر سیلابی بارشوں کے باوجود طبریہ جھیل میں پانی کی سطح بری طرح نیچے چلی گئی ہے جس کے نتیجے میں پانی کی قلت کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ طبریہ جھیل کی صیہونیوں کے قریب مذہبی اہمیت بھی ہے اور اس جھیل میں پانی کی قلت کے نتیجے میں ان کا نام نہاد اعتقاد بھی خشک پڑ رہا ہے۔