شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام

Rate this item
(0 votes)
شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام

شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام

اس کائنات میں انسان جہاں تک نظر دوڑائے اسے ہر طرف ایک ہی معطی کے گوناگوں عطیات دیکھنے کو ملیں گی جو اُس وحدہ لا شریک ذات کے بے نیاز وجود کی ناقابل انکار آیات ہیں۔وہ وحدہ لا شریک ذات اس کائنات کی مالک اور خالق ہے اس نے ہی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا اورایسابھی نہیں ہے کہ اس نے انسان کو ایسی وسعتوں بھری کائنات میں نعمتِ حیات دے کر بھیج دیا ہو کہ وہ حیران و پریشان رہےاورحقائق و دقائق کی معرفت حاصل نہ کرسکے اور انہی حالات میں موت کے حملے کا شکار ہوکر حیات سے ہاتھ دھوبیٹھے اس طرح نہیں ہے بلکہ وہ ذات بابرکات خود علیم و قدیر وحی و حکیم ہےاس کا انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کےمخصوص اہداف تھے۔ وہ بذاتہ نور ہے اپنی مخلوقات کو ظلمات و توہمات میں سر گرداں نہیں دیکھنا چاہتی اس وجہ سے اس ذات خالق و احد نے انسان کی ہدایت کے لئے انبیا ءو اوصیاء کا عظیم سلسلہ مقرر فرمایا تاکہ انسان ان ذوات مقدسہ کی پیروی کر کے کمال و تکامل کے مراحل طے کرکے ان منازل پر فائز نظر آئے جو انسان کامل کا مقام ہے۔شیطان نے اگر انسان کو خد وند متعال کی راہ سے بھٹکانے کا سہرا اپنے سر لیا ہے لیکن وہیں پر ایک اعتراف عجز بھی اس کے دامن گیر ہواہےاور وہ یہ کہ خدا ونداتیرے مخلص بندوں پر میرا بس نہ چل پائے گا اور ان کو تیری عبادات کے زمرے سے نکال باہر لانا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ہر ذی شعور انسان پر واجب ہے کہ وہ ان خاص خدا شناس ہستیوں کی معرفت حاصل کرے ۔۔۔۔وہ کون ہیں؟’معطی انعام‘‘کی خاص عنایات و عطیات پانے والی باعثِ تخلیق کائنات ہستیاںجن کے چودہ انوار پانچ میں جمع ہوئے اور پنجتن کی وحدت ذاتِ رسالت قرار پائی صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین۔ان انوار الہٰی کی مقدس ذوات کی معرفت و تعریفات کی کما حقہ شائستگی خالق کائنات کے علاوہ کون رکھتا ہے۔یہی ہیں جنہوں نے خود خداوند حیات و ممات کے عشق میں اس کے قسم خوردہ دشمن کو ایسا نامراد و ناکام کردیا کہ سب ملائکہ و انبیاء فراتِ حیرت میں غرقاب ہونے لگے۔تاریخ اسلام میں ایک ایسا بھی دور نظر آتا ہے جس میں بعد از رحلت سید المرسلین ﷺ تمام انبیا ءکی محنتوں پر پانی پھیرا جارہا تھا ، خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا جا رہا تھا،دینی حدوں کو مسمار کیا جا رہا تھااس شیطانی ٹولے کی سوچ یہ تھی کہ نام تو دین کا رہے لیکن کام دین کا نہ رہے ۔دشمنانِ دین خدا یکجا ہوکر دولت و ثروت اور حکومت وامارات کے سبزباغات دکھا کر بندگان خدا کو اغوا کرتے جارہے تھے طوفانِ طغیان اپنے پورے زور و شور سے شجر اسلام کو آناً فاناً جڑوں سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا لیکن اس وقت انہی ذوات مقدسہ میں سے ایک ہستی جن کااسم گرامی ‘ حسین ‘‘ہے
حسین ،کون حسین؟’حسین‘‘ روئے زمین پر حبیب خدا کا یکتا و تنہا نواسہ،’حسین‘‘بقاءدین کا مقدس ہدف رکھنے والا ،’حسین‘‘جس نےشجر دین مبین کو ظلم وستم کی ناقابل وصف تیز آندھیوں میں استحکام بخشا’حسین ‘‘جس نے دین مبین اسلام کے گرتے شجر کو سہارا دیا اور ایسا سہاراکہ قیامت تک کسی شیطانی ٹولے میں ہمت نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کر سکے۔اس راہِ عشق کی پرخطر راہوں کے بے باک راہی امام حسین ؑکا ساتھ دینے کے لئے ایک مختصر مگر پختہ عزائم کے مالک افراد کا قافلہ بھی ہمراہی کررہا تھا۔کچھ اعوان و انصار بھی اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کا ساتھ دینے کیلئے آمادہ ہوگئے تھےاور کچھ خوش نصیب ایسے بھی تھے جن کو وقت کے شہنشاہ نے بلوا یا تھا۔ان حالات میں دین کی حفاظت کا ذمہ دوش نواسہ رسولﷺ پہ تھا وگرنہ دشمن تو اس در پے تھا کہ شجر دین مبین اسلام کی جڑیں کاٹ دی جائیں !اس وقت اسلام در حسین علیہ السلام پہ سوالی بن کر آیا تھا اور یہ وہ در تھا جہاں سے دشمن بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔امام حسین علیہ السلام نے رسول خدا ﷺ ، جناب فاطمہ زہرا اور امام علی مرتضیٰ علیہم السلام کی گود میں پرورش پائی تھی آپ کسی طرح بھی اسلام کو نابود ہوتا نہیں دیکھ سکتےتھے۔
 
۶۰ ہجری میں معاویہ کے اپنےناخلف و نامراد بیٹے یزید کو مسندخلافت پہ بٹھایاگیا اس نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ کیا تو زمانے کے ولی نے فرمایا ‘مثلی لا یبایع مثلہ ‘‘( میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا)۔ تنگی حالات کی وجہ سے آپ نے ۲۸ رجب کو اپنے کریم نانا کا شہر چھوڑا مختلف منازل طے کرنے کے بعد ۲محرم الحرام ۶۱ ہجری آپ کو سرزمین نینوا پر ڈیرے لگانے پہ مجبور کر دیا گیا ۔ سال نو کے پہلے نو دن گزر گئے اور آل رسولعلیہم السلام کرب و بلا کے تپتے صحرا میں محصور ہے ایک رات کی مہلت لی گئی وہ بھی رب کی عبادت میں گزر گئی۔۔۔۔۔(۱۰)محرم کا دن تاریخی ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز دن تھاجب تما م اعوان و انصاراپنے وعدےوفا کر چکے اب شجر دین کو ہاشمی خون کی ضرورت تھی تو سب سے پہلے حسینی کہکشاں کے مقدس ستارے جناب علی اکبر علیہ السلام نے طلوع میدان ہونے کی خواہش کی اگرچہ جناب اکبر جیسے جوان بیٹے کو اذن جہاد دینا؛ مولا کے لئے بہت مشکل تھا لیکن راہ عشق خدا میں یہ قربانی دینا قبول کیا افراد اہلبیت نے اپنے امام زمان علیہ السلام کی خوشنودی کےلئے اور بقا ء و حفظ دین میں اعلیٰ کردار ادا کیا اور آخر میں نواسہ رسولﷺ، دلبند بتول سلام اللہ علیہا اور فرزند امام علی علیہ السلام نے اپنی قربانی کا نذرانہ پیش کر کے دین مبین اسلام کو حیات جاوداں بخشی۔عاصی !وقت کے مصطفیٰ،یوسف زہراؑ،قطب عالم امکاں، حجت خدا امام زمانہ عجل اللہ شریف کے در پہ سوالی ہے کہ یہ در عطاؤں کا در ہے، یہاں پہ مقدر سنورتے ہیں ، مجھ جیسے عاصیوں کا آپ پہ بھرم ہے۔آپ کی چوکھٹ پر ایک سوالی ہے۔جو ہے،جیسا ہے آپ کا ہی نام لیوا اور موالی ہے۔اے سرزمین کرب و بلا میں ناحق بہائے جانے والے مقدس خون کے وارث،ہم پہ نگاہ کرم کیجیے؛ عاصی کربلا کے جوان جناب علی اکبر علیہ السلام کے فضائل و اوصاف حمیدہ کے بارے میں گدائی کر رہا ہے!
طلوع ستارہ کہکشاں حسینیرسول اکرم ﷺ کی مو لا حسین علیہ السلام کےساتھ محبت زبان زد عام و خاص ہے۔مشہور و معروف حدیث نبوی ہے:’حسین منی وانا من الحسین‘‘‘یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔حضرت امام حسین علیہ السلام بچپن ہی سے آغوش رسالت سے اس قدر مانوس تھے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’حسین رسول خدا کی زندگی میں انہیں بابا کہہ کرپکارتے تھے اور مجھے اباالحسن کہتے تھے۔جب رسول خدا ﷺ ظاہراًاس دنیا کو چھوڑ گئےتو پھر مجھے بابا کہنے لگے‘‘(۱)فراق جد میں نواسۂ رسول بہت مغموم و محزون رہاکرتےتھےکہ خداوند حکیم نے نواسۂ رسولﷺ کے گھر شبیہ رسول کو بھیج کر پھر سے وہ یادیں تازہ فرمادیں۔کہکشاں حسینی کا یہ عظیم ستارہ شعبان المعظم کی ۱۱ تاریخ کو صحن حسینی میں طلوع ہوا البتہ تاریخ میں سال ِطلوع کے بارے میں اختلاف ہے مشہور قول کے مطابق سال طلوع ۴۳ ہجری ہے(۲)
والد بزرگوارشہزادے کے والد بزرگوار محسن اسلام حضرت امام حسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں جن کے بھائی امام حسن مجتبیٰ و ابوالفضل العباس علیہماالسلام۔۔۔، ہمشیرہ جناب عقیلۂ بنی ہاشم حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا،جن کی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور نانا بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔المختصر یہ خاندان فضائل و مناقب کاسرچشمہ تھا۔
 
والدہ ماجدہشہزادے کی والدہ ماجدہ حضرت لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔آپ کے نانا عروہ بن مسعود ثقفی قریش میں عظیم المرتبت شخصیت تھے وہ قریش مکہ کی طرف سے حضرت پیغمبر اکرم ﷺکی خدمت میں صلح نامۂ حدیبیہ کی موافقت کے لیے بھیجے گئے۔عروہ اہل طائف تھے اور انہوں نے ۹ ھ میں اسلام قبول کیا پھر اپنی قوم کی ہدایت اور دین اسلام کی تبلیغ کے لیے ان کی طرف گئے لیکن اسی قوم کے ہاتھوں نماز سے پہلے اذان کہتے ہوتے تیر ستم سے مرتبۂ شہادت پرفائز ہوئے۔پیغمبر خدا ان کی شہادت پر بہت افسردہ ہوئے اور اس شہید کے بارے میں فرمایا:لیس مثلہ فی قومہ الا کمثل صاحب یاسین فی قومہ(۳)یعنی عروہ صاحب یاسین کی مثل ہیں جو اپنی قوم کے لیے ہدایت کا فریضہ انجام دیتے تھے(اور اسی راہ میں شہید ہوئے)۔ابن جزری نے اسد الغابہ میں بروایت ابن عباس جناب رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہےکہ آپ ﷺ نے فر مایا:اربعۃ سادۃ فی الاسلام بشر بن ھلال العبدی وعدی بن حاتم و سراقہ بن مالک المدنجحی و عروہ بن مسعود ثقفیاسلام میں چار سردار ہیں بشر بن ہلال العبدی، عدی بن حاتم، سراقہ بن مالک المدنجحی اور عروہ بن مسعود ثقفی
سن مبارکشہزادے کے سال ولادت میں اختلاف کی وجہ سے سن مبارک میں بھی اختلاف ہے اور یہ اختلاف تاریخ و مؤرخین کے اس باب میں شدت ضعف پر دلیل ہے کیونکہ اس بارے میں متعلقہ کتب میں اقوال عجیب و غریب ہیں۔ ان مختلف اور متعدد اقوال کی وجہ سے انسان حیران و پریشان ہوکررہ جاتا ہے لیکن کچھ تحقیق اور دقت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اہم اختلاف دو تین اقوال میں ہے بہرحال بحمد اللہ قول مشہور ہمیں اس تعدد و کثرت سے وحدت پر لاتا ہےیہ قول دلالت کرتا ہے کہ شہزادۂ کربلا حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۶۱ ہجری کربلا میں ۱۸ برس کا تھا۔حضرت علی اکبرعلیہ السلام کے سن مبارک میں مشہور قول درست ہےاورظاہراً تمام اسلامی ممالک میں بھی یہی قول شہرت کا حامل ہےبالخصوص برصغیر میں جناب علی اکبر علیہ السلام (نثر و نظم میں) مشہور و معروف قول یہی ہے۔مقتل کی تمام کتب میں موجود ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند دلبند کو میدان کی طرف روانہ کرنے لگے تو بارگاہ خدا میں یوں گویاہوئے:اللھم اشھد علی ھؤلاء القوم فقد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقا و خلقا و منطقا برسولک صلی اللہ علیہ وآلہ۔۔۔۔۔’بارالہٰا! گواہ رہنا اس قوم ستمگر سے جنگ کرنے کے لیے ایسا جوان جارہا ہے جو خلقت و اطوار،رفتار و گفتار میں تمام لوگوں سے زیادہ تیرے رسولﷺکے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔۔۔۔۔‘‘(۴)لسان امامت سے ادا کیا ہوا لفظِ مبارک’غلام ‘‘یعنی جوان،نوخیز،اسی مطلب پر دلالت کررہا ہےکہ شہزادہ سن کے اعتبار سے ابھی سنِ جوانی سے متجاوز نہیں ہوا تھا،جہاں تک تأویلات و توجیہات کا تعلق ہے تو اصل کلام اور اول کلام کو حقیقت پر ہی حمل کیا جاتا ہے اور یہاں پر کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں کہ حقیقت کی بجائے مجاز کی نوبت آئے لہٰذا غلام سے مراد یہی تازہ جوان ہی ہے جو کہ اقوال میں سے ۱۸ سال سن کے ساتھ زیادہ موافقت و مطابقت رکھتا ہے۔بزرگ محقق علماء جیسے شیخ مفید،شیخ طوسی وسید ابن طاؤوس رحمہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے آثار میں حضرت علی اکبر علیہ السلامکا سن مبارک کربلا میں اٹھارہ سال قلمبند فرمایا ہے۔(۵)مؤلف خورشید جواناننے اس قول کے قبول کرنے کو‘‘ تاریخی احتیاط’ سے تعبیر کیا ہےاگرچہ ان کےاپنے دلائل کا ماحصل اس قول کے خلاف ہے لیکن اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ بزرگ ومحقق شخصیات نے جس قول کو اختیار کیا ہےتو یقیناً ایسے بزرگان علم کے دلائل پختہ اور قوی تر ہوں گے کہ انہوں نے ۱۸ سال والا قول اختیار کیا ہے لہٰذا احتیاط تاریخی اس امر کی مقتضی ہے کہ ان کے قول کی مخالفت نہ کی جائے اور اسی مشہور قول کو قبول کرلیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہےکہ ان بزرگان کے پاس موجود دلائل ہمارے قیل و قال سے مافوق ہوں۔اس محقق مؤلف نے اس بحث کے آخر میں اضافہ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ لقب’اکبر‘‘چھوٹے شہزادے علی اصغر علیہ السلام کے لقب ‘اصغر‘‘سے قیاس کرتے ہوئے ملا ہو۔(۶)
 
محقق تفریشی نے بھی اپنے استدلال میں سابق الذکر بزرگان کے قول کی تائید کی ہے لہٰذا ان کے نزدیک بھی شہزادے کا سن مبارک ۱۸ سال ہے۔(۷)اس قول کی تائید میں کتاب مستطاب’ثمرات الاعواد‘‘کے مؤلف بزرگوار یوں رقمطراز ہیں:’حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنی جدہ مظلومہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے ساتھ اس لحاظ سے شباہت رکھتے ہیں کہ ان دونوں کی عمریں کم تھیں اور دونوں ہی اٹھارہ سالگی میں شہادت کی سعادت پر فائز ہوئے۔‘‘(۸)حضرت امام حسین علیہ السلام کے کلمات وارشادات پر مبنی کتاب’موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام‘‘میں شہادت اہل البیت علیہم السلام کے تحت بحث کی ابتدا میں اعیان الشیعہ سے منقول قول میں بھی شہزادے کے۱۸ سال والےقول کو ٹھکرایا نہیں گیابلکہ ان کے مطابق حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۱۸ سال،۱۹ سال یا ۲۵ سال ہے اور وہ آل ابو طالب کے پہلے شہید ہیں(۹)کتاب شریف مصابیح الہدیٰ میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۱۹ سال نقل ہوا ہے اسی کتاب اور نیز تمام کتب مقاتل میں شہزادے کے مبارزطلبی کے اشعار موجود و محفوظ ہیں۔شہزادے نے جب پہلی مرتبہ قوم اشقیاء پر حملہ کیا تو شہزادے کا رجز یہ تھا:(۱۰)أناعلیبنالحسینبنعلینحنوبیتاللہاولیٰبالنبیتاللہلایحکمفیناابنالدعیاضرببالسیفأحامیعنأبضربغلامھاشمیقرشییہاں ہماری شاہد بحث شہزادے کے رجز کا آخری مصرعہ ہے جس میں خود فرمارہے ہیں کہ ‘‘میری ضرب، ہاشمی قرشی جوان کی ضرب ہے’اس کلمۂ غلام سے بھی شہزادے کا جوانسال ہوناظاہر ہوتاہےشبیہ پیغمبرﷺ جناب علی اکبر ؑمیدان کربلا میں بروز عاشورہ امام حسین علیہ السلام سے ان کے کڑیل جوان بیٹےنے اذن جہاد مانگا تومولا نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اجازت دی اور لسان عصمت و طہارت سے یہ الفاظ جاری ہوئے :اللھماشھد،فقدبرزالیھمغلاماشبہالناسخلقاوخلقاومنطقابرسولکصلیاللہعلیہوآلہ،وکنااذااشتقناالینبیکنظرناالیہ
‘خداوندا!گواہ رہنا،ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے جو خلق ،خلق اور منطق میں تمام لوگوں میں سے تیرے رسول ﷺسے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔۔۔ہمیں جب بھی تیرے نبی کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تو ہم اس جوان کو دیکھ لیتے تھے‘‘۔(۱۱)شباہت ایسی چیز ہے کہ جس کی موجودگی میں دیکھنے والے کو مشبّہ پر مشبہ بہ کا گمان ہونے لگتا ہے اب یہ وجہ شباہت جس قدر زیادہ ہوگی اتناہی یہ منظر شدید اورواقعی لگے گا ۔ پھر جب شباہت کا یہ عالم ہو کہ ایک معصوم امام جناب حسین علیہ السلام کو اپنے نانا کی یادستائے اور اس تشنگی کو زیارت علی اکبر علیہ السلام سے سیراب فرمائیں تو اندازہ کیجیئے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم ﷺ سے کس قدر شباہت رکھتے تھے۔ اما م کے فرمان کے مطابق شہزادہ حبیب خداﷺ سے تین قسم کی شباہتیں رکھتے تھے۔خلقی،خُلقی،منطقی۱۔شباہت خلقی سے مراد قد و قامت اور صورتاً مشابہ ہونا ۔ جناب علی اکبر علیہ السلامقد وقامت اور شکل و صورت میں رسولِ خدا ﷺکے ساتھ شباہت رکھتے تھے۔ معروف ہے کہ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام اور شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جب مدینے کی گلیوں میں نکلتے تھے تو لوگ فقط ان کے دیدار کی خاطرجمع ہو جاتےتھے۔ جناب علی اکبر ؑ اس قدر خوبرو تھے کہ ان کو دیکھ کر زمانے کو رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔
 
زائر رسول ﷺکا بیہوش ہوناجناب علی اکبر علیہ السلامکے زمانے میں ایک عرب شخص حبیب خداﷺ کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔ اسی اشتیاق میں گریہ کناں رہتا تھااسے بتلایا گیاکہ پریشان ہونےکی ضرورت نہیں اگرچہ رسولِ خدا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن شہزادۂ حسینی جناب علی اکبرعلیہ السلام ہوبہو شکل و صورت میں پیغمبر لگتے ہیں ۔ جاؤ جا کر مدینہ میں شہزادے کی زیارت کرلو،رسولِ خدا کی زیارت ہوجائے گی۔وہ عرب شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا،ماجرا عرض کیا۔مولا امام حسین علیہ السلام نے شہزادے کو آوازدی ۔جناب علی اکبر تشریف لائے،جب بابا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تواس عرب شخص نے جناب علی اکبر علیہ السلام کو دیکھا تو اسے ایسا محسوس کیا کہ میں رسول معظم ﷺ کی زیارت کر رہا ہوں اورتاب نہ لاتے وہ عرب ہوئے بے ہوش ہوگیا(۱۲)(اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے اس سے پہلے رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی ہوئی تھی)۲۔ شباہت خُلقی سے مراد یہ کہ کسی سے اخلاق میں مشابہ ہونا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی نسبت ایک معصوم امام کی زبانی خلق عظیم کے مالک سے دی جارہی ہے اور رسول معظم ﷺ کے اخلاق کی اوج کی تصدیق ذات کردگار کے کلام سے ہوتی ہے۔انک لعلیٰ خُلق عظیم(۱۳)’ آپ بے شک عظیم اخلاق کی بلند ترین منزل پر فائز ہیں‘‘اسی خلق وخو کی ہوبہو عکاسی آ پ کو جناب علی اکبر علیہ السلام کے اخلاق میں ملے گی ۔اس عظیم اخلاق کی جھلک شہزادے میں اس قدر نمایاں تھی کہ شہزادے کے سلام کرنے سے لوگوں کو پیغمبر کا سلام کرنا یاد آجاتا تھا۔ غرباء و فقراء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے رفتار نبوی کی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔کتب تاریخ میں موجود ہے کہ ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے مدینہ میںغریبوں اور مسکینوں کے لیے ایک بہت بڑا مہمان خانہ بنا رکھا تھا جس میں ہر روزوشب کھانے کھلانےکا انتظام کیا کرتے تھے اور تمام لوگ شہزادۂ کرم کے دستر خوان سے استفادہ کرتے تھے۔(۱۴)حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس وجود نازنین کو وداع کے وقت بارگاہ احدیت میں راز و نیاز اور اور مناجات میں اس انداز سے پیش کیا کہ اے پروردگار ! تیرے حبیب کا سا اخلاق رکھنے والا یہ جوان تیرے دین کی حفاظت کے لیے اس بدبخت قوم کے سامنے بھیج رہا ہوں لیکناس صورت وسیرت پیغمبر ﷺکے آئینہ دار شہزادے کو دیکھ کر بھی ان کی قساوت و شقاوت میں کمی نہیں آرہی۔۳۔شباہت منطقی سے مراد گفتار میں کسی کے مشابہ ہونا۔لسانِ عصمت میں منطق علی اکبر علیہ السلام کو منطق رسول خدا ﷺسے تعبیر فرمایاگیااورقرآن کریم منطق نبوی کے بارے میں یوں گویا ہے:وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ(۱۵)’یعنی رسول خدا ہواوہوس سے کوئی کلام نہیں کرتے ان کا کلام تو صرف وحی الہٰی ہوتا ہے‘‘امام حسین علیہ السلام کو جب بھی اپنے نانا کی آواز سننے کا شوق ہوتا آ پ جناب علی اکبر علیہ السلام سے کہتے کہ بیٹا اذان و اقامت کہو اور پھر راز ونیاز اور عبادات و مناجات میں مشغول ہو جاتے اسی وجہ سے ۱۰ محرم الحرام کی صبح کو بھی جناب علی اکبر علیہ السلام سے اذان دلوائی گئی تا کہ لہجہ رسولﷺ سن کر شاید ان قسی اور شقی لوگوں کے دلوں پہ اثر پڑےلیکن۔۔۔۔!!!!!!!!!!کردار ورفتارو گفتار میں جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم ﷺ کے اتنے مشابہ تھے کہ ان کو دیکھ کر لوگ رسول اکرم ﷺ کو یاد کرتے تھے۔
 
معاویہ لعینکی زبانی جناب علی اکبر علیہ السلام کی تعریفابو الفرج اصفہانی مغیرہ سے روایت کرتا ہے ایک دن معاویہ نے اپنے ہم درباریوں سے پوچھا من احق بھذا الامر؟ تم لوگوں کے نزدیک اس خلافت کا حق دار کون ہے؟سب نے کہا!انت۔ہمارے نزدیک اس منصب کے لائق صرف آپ ہیں، معاویہ کہنے لگالا،اس طرح نہیں ہے جس طرح تم لوگ سوچتے ہو بلکہاولی الناس بهذالامر علی بن الحسین بن علی جده رسول الله وفیه شجاعه بنی‏هاشم و سخاه بنی امیه و زهو ثقیف.اس منصب کےسب سے زیادہ سزاوار علی بن حسین ہیں جن کے جد رسول خداﷺ ہیں جنہوں نے کی شجاعت و دلیریبنی ہاشم سے ، سخاوت بنی امیہ سے اور زیبائی اور فخر و مباہات ثقیف سے پائی ہے(۱۶)
شہزادہ علی اکبر علیہ السلام کےکمال ایمان و ایقان کا ایک واقعہجناب علی اکبر علیہ السلام کا سینہ معرفت خداوندی سے پرتھا جس نے جنت کے سرداروں سے تعلیم و تربیت حاصل کی تو ایسی ہستی کاعلم و ایقان بھی اوج ثریا پہ ہوگا آپ کی دینی و سیاسی بصیرت کا علم سفر کربلا سے عیاں ہوتا ہے جیسا کہ سفر کربلا میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی منزل قصر بنی مقاتل پر آنکھ لگ گئی جیسے ہی آپ نیند سے بیدار ہوئے تو فوراً کلمہ استر جاعانا لله و انا الیه راجعون پڑھا ۔ آپ نے تین مرتبہ اس جملے کو دوہرایا اور خداوند متعال کی حمد کی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے آپ سے کلمہ استرجاع کی وجہ پوچھی تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا! میں نے خواب میں ایک گھوڑا سوار کو دیکھا ہے جو کہہ رہا تھا کہ یہ قافلہ موت کی جانب رواں دواں ہے۔ اس پر شہزادے نے پوچھا : بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟آپ ؑ نے فرمایا کیوں نہیں ہم حق پر ہیں۔تو شہزادے نے فرمایا : فاننا اذن لا نبالى ان نموت محقین پھر ہمیں موت کی کیا پرواہ ہے؟ شہزادے کا یہ مخلصانہ جواب سن کر سید الشہداء نے ان کو دعائے خیر دی جزاک اللہ من ولد خیر ما جزی ولداً عن والدہ(۱۷)
شجاعت شہزادہ علی اکبر علیہ السلامجناب علی اکبر علیہ السلامفرزند علی علیہ السلام کے پروردہ تھے آپ کو شجاعت اپنے دادا مولا علی مر تضیٰعلیہ السلام شیر خدا سے ورثے میں ملی تھی۔علامہ مجلسی نقل فرماتے ہیں:بروز عاشورہ آپ جس طرف رخ فرماتے لو گوں کو خاک ہلاکت میں ملاتے جاتے تھے۔فلم یزل یقاتل حتّٰی ضجّ النّاس من کثرۃ مَن قتل منھم و روی اَنّہ قتل علی عطشہ ماۃوعشرین رجلاً ثم رجع الی ابیہ فلم یزل یقاتل حتٰی قتل تمام الما تینآپ نے اسقدر شجاعت علوی کا مظاہرہ کیا کہ مقتولین کی کثرت پر لوگ گریہ و شیون کرنے لگے اور روایت میں ہے کہ علی اکبر نے پیاس کی شدت کے باوجود ایک سو بیس افراد کو تہ تیغ کیا۔پیاس کی وجہ سے آپ والد گرامی کی طرف گئے پھر دوبارہ میدان میں اترے اور اس قدر جنگ کی کہ مرنے والوں کی تعداد دوسو تک پہنچ گئی۔(۱۸)
حوالہ جات:(۱)موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام ص۴۰(۲)فضائل ،مصائب و کرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام ص۳۱،خورشید جوانان ص۲۰(۳)خورشید جوانان ص۳۲ از اصابہ ج۴ص۱۷۷(۴)سحاب رحمت ص۴۵۸(۵)خورشید جوانان ص۲۹(۶)ایضاً ص۳۰ (۷)ایضاً ص۲۸(۸)ایضاً از ثمرات الاعواد ص۲۲۸(۱۰)مصابیح الہدیٰ ص۲۱۶(۱۱)سوگنامہ ٔ کربلا متن لھوف سید ابن طاووس ص۲۰۸(۱۲)فضائل ،مصائب وکرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام تألیف عباس عزیزی ص۳۴(۱۳)سورہ ٔقلم آیت ۴ (۱۴)خورشید جوانان ص۴۱(۱۵)موسوعۃ کلمات امام الحسین علیہ السلام(۱۶)حیاۃالامام امالحسین،ج ۳،ص ۲۴۵.(۱۷) بحار الأنوار،ج ۴۵،ص .۴۳۔ نفس المہموم ص ۱۰۸ (۱۸)ایضاً


 

Read 811 times