مدینہ تا کربلا۔۔۔۔۔ امام حسینؑ کے چند خطوط و خطبات

Rate this item
(0 votes)
مدینہ تا کربلا۔۔۔۔۔ امام حسینؑ کے چند خطوط و خطبات

صدیوں سے سانحہ کربلا اور قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے مختلف انداز میں تجزیئے کئے جا رہے ہیں، جن میں اس کے علل و اسباب، پس منظر، اہداف و مقاصد وغیرہ پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد 28 رجب 60 ہجری کو مدینہ سے روانگی سے لے کر 10 محرم 61 ہجری کربلا میں شہادت تک امام عالی مقامؑ نے اپنے اس قیام کے حوالے سے متعدد خطوط تحریر فرمائے۔ کئی مقامات پر خطاب فرمایا، جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ ان چند سطور میں امامؑ کے چند خطوط و خطبات، کلمات کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جس سے تاریخ اسلام کے اس بے مثال قیام و سانحہ کے کئی پہلو واضح ہوتے ہیں۔

آخر رجب 60 ہجری میں حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے اصرار پر امام حسینؑ نے اپنا دوٹوک موقف ان الفاظ میں بیان فرمایا ”ہم اہلبیت نبوت، معدن رسالت، فرشتوں کی آمد و رفت کے اعزاز کے حامل ہیں، جبکہ یزید ایک فاسق، شراب خوار، بے گناہوں کا قاتل اور سرعام گناہ کرنیوالا ہے۔ مجھ جیسا اس جیسے کی ہرگز بیعت نہیں کر سکتا۔“ اس موقع پر مروان بن حکم نے بھی بیعت کیلئے مطالبہ کیا تو آپ نے مزید فرمایا ”امت اسلامی پر جب یزید جیسا حاکم مسلط ہو جائے تو اسلام پر فاتحہ پڑھ لی جائے۔“

قیام کا مقصد:
مدینہ سے روانگی سے قبل اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ کے نام خط میں لکھا ”میں فتنہ و فساد برپا کرنے یا اپنی شہرت کیلئے نہیں بلکہ اپنے جد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے امور کی اصلاح کیلئے نکل رہا ہوں۔ میں نے نیکیوں کا حکم دینے، برائیوں سے روکنے اور اپنے جد بزرگوار اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کی پیروی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔‘‘ مکہ پہنچ کر بصرہ کے عمائدین کے نام آپ کے خط کا ایک اہم جملہ یہ تھا ”سنت رسول (ص) کو پس پشت ڈال دیا گیا، ایک کے بعد دوسری بدعت ظاہر ہو رہی ہے۔ میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔“ اس دوران کوفہ سے بارہ ہزار کے قریب خطوط امام حسینؑ کو ملے، جن میں آپ کو کوفہ تشریف لانے کی درخواست کی گئی تھی، تاکہ لوگ آپ کی بیعت کریں۔ آپؑ نے ان سب کے جواب میں ایک مختصر خط تحریر فرمایا۔

”حسینؑ بن علیؑ کی طرف سے مسلمانوں اور مومنوں کی ایک جماعت کے نام‘‘
اما بعد: ہانی و سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس پہنچے۔ تم نے لکھا کہ ہمارا کوئی امام و رہبر نہیں، ہمارے پاس آنے میں جلدی کیجئے، ہوسکتا ہے کہ خدائے متعال آپ کے ذریعے ہمیں راہ حق کی ہدایت کر دے۔ میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو جو کہ میرے معتمد ہیں، تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ اگر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اہل فضل و عقل تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں کے پیغام کی تائید کرتے ہیں تو میں عنقریب تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں، ان شاء اللہ۔۔ قسم اپنی جان کی، امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا سے حکم کرتا ہے، عدل اختیا کرتا ہے، دین خدا کو قبول کرتا ہے اور خود کو رضائے خدا کیلئے وقف کر دیتا ہے۔

چند ماہ بعد جب امام کے قافلہ کی مکہ سے عراق روانگی کی مدینہ اطلاع پہنچی، تو آپ کے قریبی عزیز جناب عبداللہ بن جعفر نے خط کے ذریعے اس سفر سے رکنے کی التجا کی اور قتل ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا۔ آپؑ نے جواب میں لکھا ”اپنے نانا رسول خدا کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے مجھے اس چیز کے بارے خبر دی ہے۔ مجھے اس کی انجام دہی کی کوشش کرنی چاہیئے، خواہ اس میں میرا فائدہ ہو یا نقصان۔ بھائی! اگر میں چیونٹی کے سوراخ میں بھی چلا جاﺅں، تب بھی یہ بنی اُمیہ باہر نکال کر قتل کر دیں گے۔ خدا کی قسم وہ مجھ پر اسی طرح ظلم و ستم روا رکھیں گے، جس طرح یہودیوں نے ہفتہ کے دن روا رکھے تھے۔“ امام عالی مقامؑ کا قافلہ عراق کی طرف بڑھ رہا تھا کہ حر کے لشکر نے پیشقدمی سے روک دیا۔

امام حسینؑ ان سے یوں مخاطب ہوئے ”لوگو! خدا سے ڈرو! پرہیزگار بن جاﺅ اور حق کو ان افراد کے اختیار میں دو، جو اس کے اہل ہیں، اس طرح خدا کو خوشنود کرو، اس لحاظ سے ہم اہلبیت تمہارے ولی بننے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں، جو اس کے مدعی ہیں، وہ تمہارے ساتھ عدل سے پیش نہیں آتے اور تمہارے حق میں ظلم کرتے ہیں۔ اگر تم ہمارے لئے ایسے حق کے قائل نہیں ہو اور ہماری اطاعت نہیں کرنا چاہتے اور تمہارے خط اور قول میں یکسانیت نہیں تو میں یہیں سے واپس پلٹ جاﺅں گا۔“ پھر فرمایا ”کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوگ حق پر عمل نہیں کرتے اور باطل سے پرہیز نہیں کرتے۔ ایسے میں مومن کو خدا سے ملاقات کا مشتاق ہونا ہی چاہیئے۔ میں موت کو سعادت اور ظالموں کیساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتا ہوں۔“

لشکر حر سے ایک اہم خطاب:
کچھ منزلیں طے کرنے کے بعد ایک بار پھر لشکر حر کو خطاب فرمایا ”لوگو! رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص ظالم بادشاہ کو خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال قرار دیتے، خدا کے عہد کو توڑتے، سنت خدا کی مخالفت کرتے اور خدا کے بندوں پر ظلم روا رکھتے ہوئے دیکھے اور قول و فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ بنی اُمیہ نے شیطان کے حکم کے تحت خدا کی اطاعت سے روگردانی کر لی ہے، فساد پھیلا رہے ہیں، خدا کی حدود کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کرتے۔ بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ لیا ہے۔ انہیں ان بدکاریوں سے روکنے کا میں خود کو زیادہ اہل سمجھتا ہوں۔“

اسی سفر میں جب مشہور شاعر فرزدق نے آپ کو متوجہ کیا کہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں بنو اُمیہ کیساتھ ہیں تو آپ نے یہ حکیمانہ کلمات ارشاد فرمائے ”لوگ دنیا کے بندے ہیں، اس وقت تک دین کا دم بھرتے ہیں، جب تک ان کی دنیا بنی رہے۔ جب کوئی آزمائش، امتحان درپیش ہو تو سچے دیندار کم رہ جاتے ہیں۔“ دوران سفر آپ سے یہ شعر بھی منسوب ہے کہ ”اگر محمد (ص) کا دین میرے قتل کے بغیر نہیں قائم رہ سکتا تو اے تلوارو مجھ پر ٹوٹ پڑو۔“

روزِ عاشور چند اہم خطاب
شبِ عاشور امام حسینؑ نے دو دن کی پیاس کے باوجود اپنے اہلبیت و اصحاب کے ہمراہ دعا، تلاوت قرآن و عبادت میں گزاری۔ 10 محرم کی نماز فجر کے بعد جنگ کا آغاز ہوا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا گھوڑا طلب کیا، سوار ہوئے اور بلند آواز میں عمر بن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "لوگو! میری بات سنو! جنگ کرنے میں اس وقت تک عجلت نہ کرو، جب تک کہ میں تمہیں اس چیز کی نصیحت نہ کر دوں، جس کا ادا کرنا میرے اوپر فرض ہے۔ میں تمہارے سامنے حقیقت بیان کئے دیتا ہوں۔ اگر انصاف سے کام لو گے تو خوش بخت ہو جاﺅ گے اور اگر قبول نہیں کرو گے اور حق و انصاف کی راہ سے کنارہ کشی کرو گے اور اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہناﺅ گے اور ہم سے جنگ کرو گے تو خدا میرا آقا و مولا ہے کہ جس نے قرآن نازل کیا اور نیکو کاروں کے اختیار میں دے دیا۔

لوگو! میرا نسب یاد کرو، سوچو میں کون ہوں؟ ہوش میں آﺅ اپنے نفسوں پر ملامت کرو اور غور کرو کیا مجھے قتل کرنا اور میری حرمت پامال کرنا تمہارے لئے روا ہے۔؟ کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا اور رسول کے وصی کا فرزند اور آنحضرت کے ابن عم کا پسر نہیں ہوں؟ کیا میں اس کا نور چشم نہیں ہوں، جو سب سے پہلے ایمان لایا اور رسول کی ان باتوں کی تصدیق کی جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔ کیا سید الشہداء حضرت حمزہ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا جعفر طیار کہ جنہیں خدا نے دو پر عطا کئے ہیں، جن کے ذریعے وہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں، وہ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول خدا نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا ہے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری، سہیل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک سے پوچھ لو وہ تمہیں بتائیں گے کہ رسول سے کیا سنا ہے۔ اس سے میری باتوں کی تصدیق ہو جائے گی، آیا یہ گواہیاں تمہیں میرا خون بہانے سے باز نہیں رکھتی ہیں۔؟"

جب عمر بن سعد امام حسین ؑ سے جنگ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرچکا، پرچم گاڑ دیئے اور فوج کا میمنہ و میسرہ منظم کرچکا، تو قلب لشکر کے سپاہیوں سے کہا ثابت قدم رہو اور امام حسین ؑ کو چاروں طرف سے گھیر لو، اسی وقت امام حسین ؑ فوج کوفہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا "خاموش ہو جاﺅ " لیکن وہ خاموش نہ ہوئے آپ نے ان سے فرمایا "خدا تمہیں سمجھے، اگر تم میری بات سن لو گے تو تمہارا کیا بگڑ جائے گا؟ میں تمہیں صراط مستقیم کی طرف بلاتا ہوں، جو میری اطاعت کرے گا، وہ ہدایت پا جائے گا اور جو میری نافرمانی کرئے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ تم سب میرے فرمان سے سرکشی کرتے ہو اور میری باتوں پر کان نہیں دھرتے، کیونکہ تمہارے پیٹ حرام مال سے بھرے ہوئے ہیں اور تمہارے دلوں پر بدبختی و شقاوت کی مہر لگ چکی ہے۔ وائے ہو تم پر! کیا تم خاموش نہیں ہو گے اور میری بات نہیں سنو گے؟"

اس پر عمر بن سعد کے ساتھیوں نے آپس میں ایک دوسرے پر ملامت کی اور کہنے لگے ان کی بات سنو! جب دشمن کی فوج خاموش ہوگئی تو امام ؑ نے فرمایا: "اے گروہ! خدا تمہیں ہلاکت و مصیبت میں مبتلا کرے، تم نے ہمیں فریاد و عاجزی سے پکارا، تاکہ ہم تمہاری فریاد کو پہنچیں اور ہم جلدی سے تمہاری فریاد رسی کیلئے آگئے تو تم نے وہی تلوار ہمارے اوپر کھینچ لی، جو ہم نے تمہارے ہاتھ میں دیدی تھی اور تم نے وہی آگ ہمارے لیے بھڑکائی، جو ہم نے اپنے اور تمہارے دشمنوں کیلئے روشن کی تھی۔ اپنے دوستوں سے جنگ اور اپنے دشمنوں کی نصرت کیلئے کھڑے ہوگئے ہو، اگرچہ نہ وہ تمہارے درمیان انصاف کرتے ہیں اور نہ تم ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہو اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ ہم سے ایسی کوئی چیز صادر نہیں ہوئی کہ جس کی پاداش میں ہم سے ایسی دشمنی کی جائے اور ہم پر حملہ کیا جائے۔ خدا تمہیں سمجھے، ہمیں اس وقت کیوں پریشان کیا، جب تلواریں غلاف میں تھیں اور دلوں کو سکون تھا۔ مکھیوں کی مانند فتنہ کی طرف اڑے اور پروانوں کی طرح ایک دوسرے کی جان کی فکر میں پڑ گئے۔

کنیز کی اولادو! گروہوں کے پسماندگان! کتاب خدا سے منہ پھیرنے والو! خدا کی آیات میں تحریف کرنے والو! سنت رسول کو فراموش کرنیوالو! انبیاء کی اولاد اور ان کے اوصیاء کی عترت کو تہ تیغ کرنے والو! مجہول النسب کو صاحبان نسب سے ملحق کرنے والو! مومنوں کو آزار پہنچانے والو اور قرآن کو پارہ پارہ کرنے والو! کفار کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! خدا تمہیں غارت کرے، خدا کی قسم بیوفائی اور پیمان شکنی تمہاری عادت ہے، تمہارا خمیر مکر و بیوفائی سے آمیختہ ہے، اس کے مطابق تمہاری پرورش ہوئی ہے، تم بدترین میوہ ہو، اپنے باغبان کیلئے گلے کی ہڈی، راہزنوں اور غاصبوں کیلئے خوش مزہ۔ خدا لعنت کرے ان پیمان شکن لوگوں پر جنہوں نے محکم شدہ میثاقوں کو توڑ دیا۔ تم نے خدا کو اپنا کفیل قرار دیا تھا، خدا کی قسم وہ پیمان شکن تم ہی ہو۔ آج ولدالزنا ابن ولدالزنا (عبید اللہ بن زیاد) نے مجھے دو چیزوں کے درمیان لاکھڑا کیا ہے، تلوار کھنچنے یا ذلت قبول کرنے کا، میں ہرگز ذلت قبول نہیں کروں گا۔ خدا اور اس کا رسول اور مومنین ہرگز ذلت پسند نہیں کرتے، ہماری پرورش کرنے والے پاک دامن، بیدار مغز اور غیرتمند ہیں، ہم ہرگز پست و کمین کی اطاعت نہیں کریں گے۔ اس مختصر جماعت کیساتھ میں تم سے جنگ کروں گا اگرچہ مجھے مدد گاروں نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔"

اس کے بعد آپ نے کچھ اشعار پڑھے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے "اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ہم تو ایک زمانہ سے کامیاب ہیں اور اگر مغلوب ہوتے ہیں تو بھی ہم مغلوب نہیں ہیں، ڈرنا ہماری عادت نہیں، لیکن دوسرں کی بدولت قتل ہونا ہماری عادت ہے۔ اے کفران پیشہ لوگو! خدا کی قسم میری شہادت کے کچھ دنوں بعد ہی، اتنی ہی دیر بعد کہ جتنی دیر میں ایک سوار اپنے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، زمانہ تمہیں چکی کے پاٹوں کی طرح پیس دے گا اور تم کو خوف و ہراس کے دریا میں ڈبو دے گا۔ یہ وعدہ میرے والد نے میرے جد کی طرف سے مجھ سے کیا ہے، تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی رائے کے بارے میں ایک بار پھر غور کرو، تاکہ تم زمانہ کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکو، میں نے تو اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے، میں جانتا ہوں کہ خدا کی قدرت بالغہ کے بغیر روئے زمین پر کسی چیز کو حرکت نہیں ہوتی۔

اے اللہ! اس قوم کو آسمان کی بارش سے محروم کر دے، انہیں یوسف کے قحط جیسے قحط میں مبتلا کر دے اور ان پر ثقفی غلام کو مسلط کر دے کہ وہ انہیں زہر کے جام پلائے۔ میرا، میرے اہلبیت ؑ، میرے اصحاب اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے کہ انہوں نے ہمیں جھٹلایا اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ تو ہی ہمارا پروردگار ہے، ہم تجھ ہی سے لو لگائے ہیں، تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے۔“ پھر یزیدی لشکر کے سپہ سالار عمر بن سعد سے فرمایا؛ ”تم مجھے قتل کرو گے؟ تم یہ سمجھتے ہو کہ عبیداللہ بن زیاد تمہیں ”رے“ کی حکومت بخش دے گا؟ خدا کی قسم! تمہاری یہ آرزو ہرگز پوری نہ ہوگی۔ جو چاہو کرو، میرے بعد تم نہ دنیا میں خوش رہو گے اور نہ آخرت میں، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ میں تمہارا سر نیزہ پر نصب ہے اور بچے اس کا نشانہ لے رہے ہیں۔"

تحریر: حافظ سید ریاض حسین نجفی
صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان

Read 775 times