امام حسین علیہ السلام صفات الہیہ کا مظہر

Rate this item
(0 votes)
امام حسین علیہ السلام صفات الہیہ کا مظہر

مقدمہ
اس سے پہلے کہ اصلی موضوع کے متعلق گفتگو کریں اور شخصیت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے سلسلے میں مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں پیش کرتے ہیں:
۱: یہ بات متفق علیہ ہے کہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی علیہ السلام تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الٰہیہ ہیں اور نور محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے ائمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔
۲: بعض ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ جو دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا ائمہ میں سے بعض کے کچھ فضائل و کمالات ظاہر ہوئے اور بعض کے کچھ دوسرے فضائل و کمالات ۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی کہ آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجہ میں چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔دنیا میں اسلام کی واقعی پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج عطا کیا۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام موسس تشیع اور مجدد اسلام ہیں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے یا امام حسن علیہ السلام تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام پہلے مرحلے پر حسنی ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات
۱: پروردگار عالم نے امام حسین علیہ السلام کےلیے ایک خصوصی حساب و کتاب رکھا ہے جو کسی نبی یا معصوم کے لیے نہیں رکھا۔
کیوں اور کیسے امام حسین علیہ السلام نے اتنا بڑاانعام جیتا ہے؟ اس کا جواب آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک آزاد مردکے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین علیہ السلام سلسلے میں نقل کرتے ہیں:
ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:
"امام حسین علیہ السلام نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔امام حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔
امریکہ کےمشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتے ہیں:
"امام حسین علیہ السلام کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین علیہ السلام نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین علیہ السلام"۔
۲:امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت " فما بکت علیھم السماء وا لارض " کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین علیہ السلام اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔
۳: امام حسین علیہ السلام تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ کیوں آپ کی کنیت ابا عبدا للہ ہے ۔ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔
ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی رول ہوتا ہے۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ پس امام حسین علیہ السلام بھی تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادتگذار انسانی کمالات حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ وہ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔
۴: امام حسین علیہ السلام کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین علیہ السلام کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوکہ امام حسین علیہ السلام کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کا روضہ زائرین سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔( نقل از آیت اللہ مرعشی نجفی)
کیا امام حسین علیہ السلام کی زیارت خانہ خدا کی زیارت کے برابر ہے؟
یا یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے؟۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت اور اس کا احترام جناب ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں تو آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین علیہم السلام کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔
۵: امام حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوارمولاے متقیان علیہ السلام کی طرح رات کی تاریکی میں اپنے دوش پر اناج کر فقراء کے گھروں تک پہنچاتے تھے۔ حتیٰ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی پشت پر کچھ ایسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نیزہ کے بلکہ اناج کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے یہ زخم پڑے تھے۔ لہذا جب امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا گیا فرمایا: یہ زخم فقراء اور مساکین کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہیں۔ اس حدیث کو دوسروں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں۔
امام حسین علیہ السلام اور دینی حکومت
الٰہی نمائندوں اورآسمانی راہنماؤں نےاپنی آخری سانسوں تک دینی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اورظلم و ستم سے بشریت کو نجات دلانے کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں ۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامی حکومت استعماری حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ حکام نے اسلامی خلیفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا لیا۔
سماج میں نسل پرستی شروع ہوگئی حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کو تمام اسلامی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جانے لگا۔ شعیوں پر زندگی نہات تنگ کر دی گئی۔ علی علیہ السلام اور ان کے خاندان سے محبت عظیم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شیعوں کی محرومیت کا سبب بن گیا۔ معاویہ اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچائی گئی۔
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ کیوں امام حسین علیہ السلام نے زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور حکومت وقوت کے ساتھ صلح نہیں کی؟
مگر چین و سکون کی زندگی کیاہے؟ چین وسکون کی زندگی الٰہی رہبروں کے نزدیک یہ ہے کہ معاشرہ چین و سکون سے زندگی گذارے۔ لوگ اپنی زندگی پر راضی ہوں، آزادی ہو ظلم وستم نہ ہو،قوم پرستی اور نسلی تعصب نہ پایا جاتا ہو۔
امام حسین علیہ السلام اس وقت آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں جب لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوتے اور لوگ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے، نہ یہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور وہ تنگ ماحول میں زندگی گذار رہے ہوں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کی زندگی بسر کر رہا ہو اور خوشیوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ایک لقمہ نان کے لیے ترس رہا ہو۔
حسین علیہ السلام اس علی (ع) کا بیٹا ہیں جنہیں ہمیشہ بے کسوں اور بے بسوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے میں کوشاں رہتےتھے۔ راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر اٹھاتے اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتے تھے اور کبھی بھی ایک ساتھ دوقسم کی غذا تناول نہیں کرتے تھےاور فرماتے تھے: میں کیسے نیا لباس پہنوں اور پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں حالانکہ ممکن ہے اسلامی ممالک میں کوئی بھوکا اور برہنہ ہو۔
امام حسین علیہ السلام اور آزادی
حریت اور آزادی ہر نظام کی بقاء کے لیے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے۔قوموں کو آزادی دلاناپیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف رہا ہے۔ وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلائیں۔ انسانی سماج کو سپر پاور اور ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائیں۔ آزادی ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے حتیٰ حیوانات اور دیگر موجودات بھی آزادی کو دوست رکھتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام دنیائے اسلام پر ایک گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار سنبھالنے اور دین اسلام کا کھلواڑ بنانے سے اسلام کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔ اسلامی احکام اور قوانین، انحراف کا شکار ہو گئے ہیں شیعہ جو اسلام کے واقعی ماننے والے تھے محرومیت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
اس حالت کودیکھ کر فرزند علی علیہ السلام جگر گوشہ بتول علیہا السلام اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتےکہ خاموشی سے بیٹھ جائیں اور تماشہ دیکھتے رہیں۔ وہ علی علیہ السلام کا لال ہے اسے میدان میں نکلنا پڑے گا اور طاغوت اور یزدیت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا پڑے گا۔
آپ بار بار یہ کہتے ہوئے جارے رہے تھے: اذا بلیت الامۃ علی مثل یزید بن معاویہ فعلی الاسلام السلام۔ یعنی جب بھی اسلامی امت یزید جیسے ملعون کے ہاتھوں گرفتار ہو گی تو اس وقت اس اسلام پر فاتحہ پڑھنی پڑے گی۔ لہذا امام حسین علیہ السلام نے امت اسلامیہ کی آزادی کی خاطرقیام کر کے ایک عظیم انقلاب رونما کر دیا۔

امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب
شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے، ان کا کہنا ہے : میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا کہ طوس کا رہنے والا ایک آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، تو خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اس کی شفاعت کو ستر(۷۰) گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس انسان جو حاجت بھی طلب کرے گا خدا اسے بھر لائے گا۔(امالي صدق، ص 684، ح 11، مجلس 86).
امام حسین علیہ السلام کی عفو و گذشت
بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا امام حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پہ نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کنہ تھا وہ ابھر آیا میں نے ان سے کہا: پس ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اوران کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔امام حسین علیہ السلام نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
" آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پنا لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور فورا آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔( سورہ اعراف، ۱۹۹،۲۰۲ )
ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا:
تھوڑا آہستہ آہستہ اوراپنے حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو تو رہنمائی کرتاہوں ۔
عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور امام نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا:
کوئی اشکال اور عیب نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔( سورہ یوسف ۹۲)
اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اسکے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہیے ہے مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا توہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے والا پاؤ گے۔
عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے امام سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روۓ زمین پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا ۔(سفينة البحار، ج 2، ص 116)
ایک سائل کے ساتھ امام کی رفتار
شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب " تحف العقول" نقل کرتے ہیں :
انصار کا ایک آدمی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سےاپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امام نے اس سے فرمایا:
اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو انشا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔
اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کےپانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے اتنی مہلت دے جب تک میں آمادہ کرتا۔
جب امام حسین علیہ السلام نے اس کے نوشتہ کو پڑھا فورا گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا:
پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو ان تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا جن کو میں پہچنوا رہا ہوں:
۱: متدین اور دیندار، ۲: سخی اور اہل کرامت، ۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔( تحف العقول ، ص 245)
امام حسین (ع)کا تواضع اور انکساری
روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن امام علیہ السلام کے پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپ نے فرمایا: هذا مما كان ينقل الجراب علي ظهره إلي مناز الأرامل و اليتامي و المساكين یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔( مناقب ابن شهر آشوب، ج4، ص 66).
امام حسین علیہ السلام کا احسان
انس کہتے ہیں: میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا گلدستہ امام کو ہدیہ دیا۔ امام نے فرمایا:
تم راہ خدا میں آزاد ہو۔
عرض کیا: اس نے آپ کے لئے پھولوں کا ایک گلددستہ لایا ہےکہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپ اس کو آزاد کر دیں۔ امام نے فرمایا:
خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سکھایا ہے۔ اور قرآن میں فرمایا: و إذا حُييتُم بِتَحِية فَحَيوا بِأَحسَن مِنها أو رُدُّوها." ( نساء/86 جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور

 

اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔(كشف الغمة، ج 2، ص 31.)

بقلم :سید افتخار علی جعفری

 


source : www.islamquest.net

Read 271 times