حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

Rate this item
(1 Vote)
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

اسم گرامی : موسیٰ
لقب : کاظم
کنیت : ابو الحسن
والد کانام :جعفر (ع) 

والدہ کا نام : حمیدہ ( اسپین کی رھنے والی تھیں)
تاریخ ولادت : ۷/ صفر ۱۲۸ھ۔
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۳۵ / سال
عمر مبارک : ۵۵/ سال
تاریخ شھادت : ۲۵/ رجب
شھادت کی وجہ : ھارون رشید نے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا
روضہ اقدس : عراق ( کاظمین )
اولاد کی تعداد : ۱۹/ بیٹے اور ۱۸ /بیٹیاں
بیٹوں کے نام :
(۱) علی (۲) ابراھیم (۳) عباس(۴) قاسم (۵) اسماعیل (۶) جعفر (۷) ھارون (۸) حسن (۹) احمد (۱۰) محمد (۱۱) حمزہ (۱۲) عبد اللہ (۱۳) اسحاق(۱۴) عبید اللہ (۱۵) زید (۱۶) حسن (۱۷) فضل (۱۸) حسین (۱۹) سلیمان
بیٹیوں کے نام :
(۱) فاطمہ کبریٰ (۲) لبابہ (۳) فاطمہ صغریٰ (۴) رقیہ (۵) حکیمہ (۶) ام ابیھا (۷) رقیہ صغریٰ (۸) ام جعفر (۹) لبابہ (۱۰) زینب (۱۱) خدیجہ (۱۲) علیا (۱۳)آمنہ (۱۴) حسنہ (۱۵) بریھہ (۱۶) عائشہ (۱۷) ام سلمہ (۱۸) میمونہ
بیویوں کی تعداد تاریخ میں موجود نھیں ھے ۔
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : "کن مع اللہ حرزاً"

ولادت 
سات صفر128ھ میں آپ کی ولادت ھوئی . اس وقت آپ کے والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام مسند امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بھہ رھا تھا .اگرچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے پھلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اھوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت روحانی امانت کی حامل تھی جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی آرھی تھی .
نشو ونما اور تربیت
آپ نے اپنی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کے سایہ تربیت میں گزارے. ایک طرف خدا کے دیئے ھوئے فطری کمال کے جوھر اور دوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبر کے بتائے ھوئے فراموش شدہ مکارم اخلاق کو ایساتازہ کر دیا تھاکہ چاروں طرف اسی کی خوشبو پھیلی ھوئی تھی. امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے بچپنہ او رجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس آغوش تعلیم میں گزارا. یھاں تک کہ تمام دنیا کے سامنے آپ کے کمالات وفضائل روشن ھوگئے اور امام جعفر صادق علیہ السّلام نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمادیا . باوجودیکہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجود تھے مگر خدا کا عطا کردہ منصب میراث کا ترکہ نھیں ھوتا ھے بلکہ ذاتی کمال کی بنیاد پر رھتا ھے . سلسلہ معصومین علیہ السّلام میں امام حسن علیہ السّلام کے بعد بجائے ان کی اولاد کے امام حسین علیہ السّلام کاامام ھونا اور اولاد امام جعفر صادق علیہ السّلام میں بجائے فرزند اکبر کے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی طرف امامت کامنتقل ھونا اس بات کا ثبوت ھے کہ معیار امامت میں نسبتی وراثت کو مدِنظر نھیں رکھا گیا ھے .
امامت
148ھ میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شھادت ھوئی ، اس وقت سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ھوئے . اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بیٹھا تھا . یہ وھی ظالم بادشاہ تھا جس کے ھاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے اور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیواروں میں چنوا دیئے یاقید رکھے گئے تھے . خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورتوں سے تکلیفیں پھنچائی گئی تھیں یھاں تک کہ منصور ھی کا بھیجا ھوا زھر تھا جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ھورھے تھے .ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رھنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی توجہ حکومت کے کاندھوں پر رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی . جس میں پھلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا . اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبدالله فطح جو سن میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نیز ان کی والدہ حمیدہ خاتون.
امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاطریقہ بھی کامیاب ثابت ھوا. چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پھنچی تو اس نے پھلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظھار رنج کیا. تین مرتبہ اناللهِ واناالیہ راجعون کھااور کہا کہ اب بھلاجعفر کا مثل کون ھے ? ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ھوتو اس کا سر فوراً قلم کردو . حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انھوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ھیں جن میں سے پھلے آپ خود ھیں . یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رھا اور سوچنے کے بعد کھنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نھیں کیے جاسکتے . اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رھا لیکن امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے کوئی تعرض نھیں کیا اور آپ مذھبی فرائض امامت کی انجام دھی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رھے . یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شھر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 157ھ میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پھلے اسے فراغت ھوئی . اس لئے وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نھیں ھوا .
دور مصائب
158ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ھوا تو اس کا بیٹا مھدی تخت سلطنت پر بیٹھا . شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نھیں کیا مگر چند سال کے بعد پھر وھی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 164ھ میں جب وہ حج کے نام پر حجاز کی طرف آیاتو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا . ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رھے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ھوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مھدی کے بعد اس کابھائی ھادی192ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مھینے تک اُس نے حکومت کی . اس کے بعد ھارون رشید کازمانہ آیا جس میں پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نھیں ھوا ۔
اخلاق واوصاف
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اسی مقدس سلسلہ کی ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا .ا س لیے ان میں سے ھر ایک اپنے وقت میں بھترین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا .بے شک یہ ایک حقیقت ھے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر آتے ھیں کہ سب سے پھلے ان پر نظر پڑتی ھے , چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب »کاظم « قرار پایا جس کے معنی ھیں غصے کو پینے والا . آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نھیں دیکھا اور انتھائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ھوئے نظر آئے . مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پھنچیں . یھاں تک کہ وہ جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا مگر حضرت نے اپنے اصحاب کو ھمیشہ اس کو جواب دینے سے روکا .
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بھت شکایات کیں اور یہ کھا کہ ھمیں ضبط کی تاب نھیں . ھمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت نے فرمایا کہ » میں خود اس کاتدارک کروں گا ." اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ھوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا . حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاھتے تھے ؟ سب نے کھا , یقیناً حضور نے جو طریقہ استعمال فرمایا وھی بھتر تھا . اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امیر علیہ السّلام کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو آج تک نھج البلاغہ میں موجود ھے کہ اپنے دشمن پر احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ اس قسم کی فتح زیادہ پر لطف اور کامیاب ھے. بیشک اس کے لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ھے اور اسی لیے حضرت علی علیہ السّلام نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ھے کہ "خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااھل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ھوجائے گا ."
یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پھچاننے کے لیے ایسی ھی بالغ نگاہ کی ضرورت ھے جیسی امام کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میں ھے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ھوچکا ھو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگر کوئی ایسا اقدام ابھی نہ ھوا تو یہ حضرات بھر حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ھو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش کرنے سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے .بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جناب امیر علیہ السّلام نے کیا جو آپ کو شھید کرنے والا تھا ، آخری وقت تک جناب امیر علیہ السّلام اس کے ساتھ احسان فرماتے رھے . اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی جان لینے کاباعث ھوا , آپ برابر احسان فرماتے رھے , یھاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا ، ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درھم کی رقم خود حضرت ھی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ھوا تھا . آپ کو زمانہ بھت ناساز گار ملا تھا . نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی . بس آپ کی خاموش سیرت ھی تھی جو دنیا کو آلِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی .
آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رھتے تھے یھاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتدا بھی نہ فرماتے تھے . اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے , اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے »عبد صالح « کے لقب سے یاد جاتا تھا . آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شھرہ تھا۔آپ فقرائے مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ ھر نماز کے صبح کی تعقیبات کے بعد آفتاب کے بلند ھونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے . پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آواز سے متاثر ھو کر روتےرھتے تھے .
170ھ میں ھادی کے بعد ھارون تخت خلافت پر بیٹھا . سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ھوچکا ھوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ھاتھ باندہ دیئے تھے اور شھر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ھونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پھلے اس کے ذھن میں تصور پیدا ھوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں قائم ھے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نھیں ملا .
اس دوران میں عبدالله ابن حسن کے فرزند یحییٰ کاواقعہ درپیش ھوا اور وہ امان دیئے جانے کے بعد تمام عھدو پیمان کوتوڑ کردردناک طریقے پر پھلے قید رکھے گئے او رپھر قتل کئے گئے . باوجودیکہ یحییٰ کے معاملات سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو کسی طرح کا سروکار نہ تھا بلکہ واقعات سے ثابت ھوتا ھے کہ حضرت ان کو حکومت وقت کی مخالفت سے منع بھی فرماتے تھے مگر عداوت بنی فاطمہ کاجذبہ جو یحییٰ ابن عبدالله کی مخالفت کے بھانے سے ابھر گیا تھا اس کی زد سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بھی محفوظ نہ رہ سکے . ادھر یحییٰ ابن خالد بر مکی نے جو وزیر اعظام تھا امین (فرزند ھارون رشید) کے اتالیق جعفر ابن محمد اشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیا کہ یہ امام موسی کاظم علیہ السّلام کے شیعوں میں سے ھے اور ان کے اقتدار کاخواھاں ھے .
براہ راست اس کا مقصد ھارون کو جعفر سے برگزشتہ کرنا تھالیکن بالواسطہ ا س کا تعلق حضرت امام موسی علیہ السّلام کاظم کے ساتھ بھی تھا . اس لیے ھارون کو حضرت کو ضرر رسانی کی فکر پیدا ھوگئی.اسی دوران یہ واقعہ ھو اکہ ھارون رشید حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں آیا .اتفاق سے اسی سال امام موسی کاظم علیہ السّلام بھی حج کے لئے تشریف لائے ھوئے تھے . ھارون نے اپنی آنکھ سے اس عظمت اور مرجعیت کا مشاھدہ کیا جو مسلمانوں میں امام موسی کاظم علیہ السّلام کے متعلق پائی جاتی تھی . اس سے بھی اس کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اس کے بعد اس میں محمد بن اسمٰعیل کی مخالفت نے اورا ضافہ کر دیا .

واقعہ یہ ھے کہ اسمٰعیل امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے اور اس لیے ان کی زندگی میں عام طور پر لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کے قائم مقام ھوں گے . مگر ان کا انتقال امام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانے میں ھوگیا اور لوگوں کا یہ خیال غلط ثابت ھوا . پھر بھی بعض سادہ لوح اصحاب اس خیال پر قائم رھے کہ جانشینی کاحق اسمٰعیل میں منحصر ھے . انھوں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی امامت کو تسلیم نھیں کیا چنانچہ اسماعیلیہ فرقہ مختصر تعداد میں سھی اب بھی دنیا میں موجود ھے- محمد, ان ھی اسمٰعیل کے فرزند تھے اور اس لئے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ایک طرح کی مخالفت پھلے سے رکھتے تھے مگر چونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بھت کم تھی اور وہ افراد کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اسی لئے ظاھری طور پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے یھاں آمدورفت رکھتے تھے اور ظاھر داری کے طور پر قرابت داری کے تعلقات قائم کئے ھوئے تھے-
ھارون رشید نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ھوئے یحییٰ برمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاھتا ھوں کہ اولاد ابوطالب علیہ السّلام میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر علیہ السّلام کے پورے پورے حالات دریافت کروں- یحییٰ جو خود عداوتِ بنی فاطمہ میں ھارون سے کم نہ تھا اس نے محمد بن اسمٰعیل کا پتہ دیا کہ آپ ان کو بلا کر دریافت کریں تو صحیح حالات معلوم ھو سکیں گے چنانچہ اسی وقت محمد بن اسمٰعیل کے نام خط لکھا گیا-
شھنشاهِ وقت کا خط محمد ابن اسمٰعیل کو پھنچا تو انھوں نے اپنی دنیوی کامیابی کا بھترین ذریعہ سمجھ کر فوراً بغداد جانے کا ارادہ کر لیا- مگر ان دنوں ھاتھ بالکل خالی تھا- اتنا روپیہ موجود نہ تھا کہ سامان سفر کرتے- مجبوراً اسی ڈیوڑھی پر آنا پڑا جھاں کرم و عطا میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی- امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے پاس آ کر بغداد جانے کا ارادہ ظاھر کیا- حضرت خوب سمجھتے تھے کہ اس بغداد کے سفر کی بنیاد کیا ھے- حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفر کا سبب دریافت کیا- انھوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ھوئے کھا کہ قرضدار بھت ھو گیا ھوں- خیال کرتا ھوں کہ شاید وھاں جا کر کوئی بسر اوقات کی صورت نکلے اور میرا قرضہ ادا ھو جائے- حضرت نے فرمایاکہ وھاں جانے کی ضرورت نھیں ھے- میں وعدہ کرتا ھوں کہ تمھارا تمام قرضہ ادا کر دوں گا-
افسوس ھے کہ محمد نے اس کے بعد بھی بغداد جانے کا ارادہ نھیں بدلا- چلتے وقت حضرت سے رخصت ھونے لگے- عرض کیا کہ مجھے وھاں کے متعلق کچھ ھدایت فرمائی جائے- حضرت نے اس کا کچھ جواب نہ دیا- جب انھوں نے کئی مرتبہ اصرار کیا تو حضرت نے فرمایا کہ» بس اتنا خیال رکھنا کہ میرے خون میں شریک نہ ھونا اور میرے بچوں کی یتیمی کے باعث نہ ھونا« محمد نے اس کے بعد بھت کھا کہ یہ بھلا کون سی بات ھے جو مجھ سے کھی جاتی ھے, کچھ اور ھدایت فرمایئے- حضرت نے اس کے علاوہ کچھ کھنے سے انکار کیا- جب وہ چلنے لگے تو حضرت نے ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درھم انھیں مصارف کے لئے عطا فرمائے- نتیجہ وھی ھوا جو حضرت کے پیش نظر تھا- محمد ابن اسمٰعیل بغداد پھنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے مھمان ھوئے۔ اس کے بعد یحییٰ کے ساتھ ھارون کے دربار میں پھنچے۔ مصلحت وقت کی بنا پر بھت تعظیم و تکریم کی گئی- اثنائے گفتگو میں ھارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے- محمد نے انتھائی غلط بیانیوں کے ساتھ وھاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کھا کہ میں نے آج تک نھیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ھوں- اس نے کھا کہ اس کا کیا مطلب؟ محمد نے کھا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کئے ھوئے ھیں اسی طرح وھاں مدینے میں موسیٰ کاظم بھی سلطنت قائم کئے ھوئے ھیں۔ اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پھنچتا ھے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ھیں-
یھی وہ باتیں تھیں جن کے کھنے کے لئے یحییٰ برمکی نے محمد کو منتخب کیا تھا۔ ھارون کا غیظ و غضب انتھائی اشتعال کے درجے تک پھنچ گیا- اس نے محمد کو دس ھزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- خدا کا کرنا یہ کہ محمد کو اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا ایک دن بھی موقع نہ ملا- اسی شب کو ان کے حلق میں درد پیدا ھوا- صبح ھوتے ھوئے وہ دنیا سے رخصت ھو گئے- ھارون کو یہ خبر پھنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لئے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا بیٹھ گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ھستی سے مٹا دیا جائے-
چنانچہ 179ھ میں پھر ھارون رشید نے مکہ معظمہ کا سفر کیا اور وھاں سے مدینہ منورہ گیا- دو ایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے روزانہ کئے- جب یہ لوگ امام کے مکان پر پھنچے تو معلوم ھوا کہ حضرت روضئہ رسول پر ھیں- ان لوگوں نے روضہ پیغمبر کی عزت کا بھی خیال نہ کیا- حضرت اس وقت قبر رسول کے نزدیک نماز میں مشغول تھے- بے رحم دشمنوں نے آپ کو نماز کی حالت میں ھی قید کر لیا اور ھارون کے پاس لے گئے- مدینہ رسول کے رھنے والوں کی بے حسی اس سے پھلے بھی بھت دفعہ دیکھی جا چکی تھی- یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کا فرزند روضئہ رسول سے اس طرح گرفتار کر کے لے جایا جا رھا تھا مگر نام نھاد مسلمانوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو کسی طرح کی آواز بطور احتجاج بلند کرتا- یہ بیس شوال 917ھ کا واقعہ ھے-
ھارون نے اس اندیشے سے کہ کوئی جماعت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو رھا کرنے کی کوشش نہ کرے دو محملیں تیار کرائیں- ایک میں حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو سوار کیا اور اس کو ایک بڑی فوجی جمعیت کے حلقے میں بصرہ روانہ کیا اور دوسری محمل جو خالی تھی اسے بھی اتنی ھی جمعیت کی حفاظت میں بغداد روانہ کیا- مقصد یہ تھا کہ آپ کے محل قیام اور قید کی جگہ کو بھی مشکوک بنا دیا جائے۔ یہ نھایت حسرت ناک واقعہ تھا کہ امام کے اھل حرم اور بچے وقت رخصت آپ کو دیکہ بھی نہ سکے اور اچانک محل سرا میں صرف یہ اطلاع پھنچ سکی کہ حضرت سلطنت وقت کی طرف سے قید کر لئے گئے ھیں۔ اس سے بیبیوں اور بچوں میں کھرام برپا ھو گیا اور یقیناً امام کے دل پر بھی اس کا جو صدمہ ھو سکتا تھا وہ ظاھر ھے- مگر آپ کے ضبط و صبر کی طاقت کے سامنے ھر مشکل آسان تھی-
معلوم نھیں کتنے ھیر پھیر سے یہ راستہ طے کیا گیا تھا کہ پورے ایک مھینہ سترہ روزکے بعد سات ذی الحجہ کو آپ بصرہ پھنچائے گئے- پورے ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رھے- یھاں کا حاکم ھارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم کی تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کئے جانے کا سبب کیا ھے- اس سلسلے میں اس کو امام کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا قائم ھو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ھارون کو مطلع بھی کر دیا- ھارون پر اس کا الٹا اثر ھوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ھو گئی- اس لئے اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں بلا بھیجا اور امام کو فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان شیعیت کی طرف محسوس کر کے یحیی برمکی کو اس کے لئے مقرر کیا- معلوم ھوتا ھے کہ امام کے اخلاق واوصاف کی کشش ھر ایک پر اپنا اثر ڈالتی تھی- اس لئے ظالم بادشاہ کو نگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی-
شھادت
سب سے آخر میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سندی بن شاھک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بھت ھی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت کوانگور میں زھر دیا گیا- 25رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شھادت ھوئی۔ بعد شھادت آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نھیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توھین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ھو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باھر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشھور ھے، دفن کیا-

Read 357 times