ام البنین (فاطمہ کلابيہ) رضی اللہ عنہا

Rate this item
(0 votes)
ام البنین (فاطمہ کلابيہ) رضی اللہ عنہا

’’ فاطمه بنت حِزام کلابيہ‘‘ جو ’’ام البنین‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، حضرت امام علی (علیہ السلام) کی زوجہ ہیں۔ آپ کے چار بیٹے عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان (علیہم السلام) ہیں، جو چاروں کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ شہید ہوئے۔
 ام البنین کا مزار مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان ’’بقیع‘‘ میں واقع ہے۔

ولادت و نسب  
فاطمہ کلابيہ کی ولادت کی تاریخ کے بارے میں قطعی معلومات نہیں ہیں؛ بعض مورخین آپ کی ولادت تقریباً 5 ہجری کے لگ بھگ بتاتے ہیں۔  
ام البنین کے والد کا نام" حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید بن کعب بن عامر بن کلاب "ہے[۱] ۔ 
وہ ایک بہادر، صادق، مضبوط منطق رکھنے والے اور مہمان نواز انسان تھے۔ آپ کی والدہ کا نام" ثمامہ (یا لیلی) بنت سہیل بن عامر بن جعفر بن کلاب" ہے[۲]۔

حضرت علی (علیہ السلام) سے نکاح  
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد، امام علی (علیہ السلام) نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب (جو علم انساب کے ماہر تھے) سے فرمایا کہ میرے لیے ایسی خاتون کا انتخاب کریں جو عرب کے شجاع خاندانوں میں سے ہو، تاکہ میں اس سے نکاح کروں اور وہ مجھے بہادر اور سوار بیٹے دے سکے۔[۳]

عقیل نے عرض کیا: ’’فاطمہ کلابيہ سے نکاح کیجیے، کیونکہ عرب میں ان کے خاندان سے زیادہ بہادر کوئی نہیں ہے۔‘‘ پھر انہوں نے ام البنین کے ننھیالی دادا ابوبراء عامر بن مالک کا ذکر کیا، جو اپنے دور میں بہادری کی مثال تھے۔ انہوں نے کہا: ابوبراء عامر بن مالک (جو فاطمہ کلابيہ کے پردادا ہیں) عرب قبائل میں بہادری میں بے نظیر ہیں۔ میں آپ کے سوا ان سے زیادہ بہادر کسی کو نہیں جانتا، اسی لیے انہیں ’’نیزوں سے کھیلنے والا‘‘ (مُلاعِبُ الأسِنَّة) کہا جاتا ہے۔[۴]

حضرت عباس (علیہ السلام) کی ولادت ۲۶ قمری، میں ہوئی اور دیگر روایات کے مطابق حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی وصیت پر ان کی بھتیجی امامہ سے بھی نکاح کیا تھا۔ اس حساب سے ام البنین سے نکاح تقریباً ۲۵قمری، کے قریب ہوا ہوگا۔

ام البنین (علیہا السلام) اور حضرت علی (علیہ السلام) کے چار بیٹے ہوئے: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان۔ اسی وجہ سے آپ کو ’’ام البنین‘‘ یعنی ’’بیٹوں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام آپ نے خود اپنے لیے تجویز کیا، تاکہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بچے ’’فاطمہ‘‘ نام سن کر اپنی ماں کی یاد سے دکھی نہ ہوں اور ان کے ماضی کا دکھ تازہ نہ ہو۔[۵]

ام البنین کے تمام بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ آپ کی نسل حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کے بیٹے عبیداللہ کے ذریعے آگے چلی۔

واقعۂ کربلا کے بعد  
مورخین لکھتے ہیں کہ کربلا کے بعد جب بشیر مدینہ پہنچے اور ام البنین کو ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی تو ام البنین نے بار بار پوچھا: ’’مجھے حسین بن علی (علیہ السلام) کے بارے میں بتاؤ۔‘‘ بشیر نے بتایا: عباس شہید ہوئے۔ ام البنین نے پھر پوچھا: حسین کے بارے میں بتاؤ۔ اسی طرح ہر بیٹے کی خبر سن کر بھی آپ کا سوال وہی رہا۔ آخرکار جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ نے بے حد صبر اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:  
’’اے بشیر! مجھے ابا عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے بارے میں بتاؤ۔ میرے بیٹے اور سب جو کچھ اس نیلگوں آسمان کے نیچے ہے، سب ابا عبداللہ الحسین (علیہ السلام) پر فدا ہو۔‘‘  
اور پھر جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی تصدیق کی تو آپ نے غم سے کہا: ’’آہ! تم نے میرے دل کی رگیں پھاڑ دیں۔‘‘[۶]

مشہور ہے کہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) مدینہ واپس آ کر سب سے پہلے ام البنین کے پاس تشریف لائیں اور انہیں تعزیت دی۔[۷] یہ ام البنین کے بلند مقام کی دلیل ہے۔

ام البنین کا اپنے بیٹوں کے لیے سوگ  
اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر سننے کے بعد، ام البنین اپنے پوتے عبیداللہ (حضرت عباس (علیہ السلام) کے بیٹے) کے ساتھ روزانہ بقیع جاتیں اور وہاں اپنے مرثیے پڑھ کر رویا کرتیں۔ اہل مدینہ بھی ان کے گرد جمع ہو کر ان کے ساتھ روتے۔ حتیٰ کہ مروان بن حکم بھی بعض روایات کے مطابق ان کے ساتھ شامل ہو کر روتا تھا۔[۸] 
ام البنین کو فصیح شاعرہ، ادیبہ اور عالمہ خاتون مانا جاتا ہے۔[۹]
 آپ نے حضرت عباس (علیہ السلام) کی شہادت پر یہ اشعار کہے تھے:

يَا مَنْ رَأَى الْعَبَّاسَ يَكُرُّ        عَلَى جَمَاهِيرِ النَّقَدْ
وَوَرَاءَهُ مِنْ أَبْنَاءِ حَيْدَرٍ         كُلُّ لَيْثٍ ذِي لِبَدٍ
أُنْبِئْتُ أَنَّ ابْنِي أُصِيبَ         بِرَأْسِهِ مَقْطُوعَ الْيَدِ
وَيْلِي عَلَى شِبْلِي إِذَا         مَا لِرَأْسِهِ ضَرْبَ الْعَمَدِ
لَوْ كَانَ سَيْفُكَ  فِي يَدِ        يكُ لَمَا دَنَا مِنْكَ أَحَدٌ  [۱۰]

’’اے وہ شخص جو عباس کو دیکھے! جو دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑے، اور ان کے پیچھے حیدر (علیہ السلام) کے شیروں کے بیٹے تھے۔ مجھے خبر ملی کہ میرے بیٹے کا سر کٹ گیا اور اس کے ہاتھ بھی قلم ہوگئے۔ میرے شیر کے بچے پر افسوس! کیا اس کے سر پر نیزے برسائے گئے۔ اگر تمہارا اپنا ہاتھ تمہارے ساتھ ہوتا تو کوئی تمہارے قریب نہ پھٹکتا۔‘‘[۱۱]

وفات  
حضرت ام البنین (علیہا السلام) کی وفات 13 جمادی الثانی 64 قمری یا 70 قمری میں ہوئی۔[۱۲]
 آپ کو مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان" بقیع "میں امام حسن (علیہ السلام) اور فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

بزرگوں کے اقوال ام البنین کے بارے میں  
شہید ثانی: ’’ام البنین (علیہا السلام) صاحب معرفت اور باعظمت خاتون تھیں۔ ان کا محبت اور لگاؤ خاندان نبوت سے خالص تھا اور انہوں نے اپنی زندگی ان کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ خاندان نبوت بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے، عید کے دن ان کی زیارت کو جاتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔‘‘[۱۳]
سید محسن امین (اعیان الشیعہ): ’’ام البنین (علیہا السلام) فصیح شاعرہ اور اصیل و شجاع خاندان سے تھیں۔‘‘[۱۴]
سید عبدالرزاق موسوی مقرم: ’’ام البنین (علیہا السلام) باعظمت خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اہل بیت کے حقوق کو پہچانا، ان سے خالص محبت کی، اور اہل بیت کے درمیان ان کا بہت بلند مقام تھا۔‘‘[۱۵]
سید محمود حسینی شاہرودی: ’’میں اپنی مشکلات میں سو مرتبہ ام البنین (علیہا السلام) پر صلوات بھیج کر حاجت روائی کرتا ہوں۔‘‘[۱۶]
علی محمد علی دخیل (معاصر مصنف): ’’اس خاتون کی عظمت اس وقت ظاہر ہوئی جب انہیں اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس پر توجہ نہ دی، بلکہ امام حسین (علیہ السلام) کی سلامتی پوچھی؛ گویا امام حسین (علیہ السلام) ان کے اپنے بیٹے تھے۔‘‘[۱۷]
فہرست
1.    قمر بنی هاشم، عبدالرزاق المقرم، ص ۹.
2.    همان، ص ۱۰.
3.    قمر بنی هاشم، مقرم، ص ۱۵.
4.    تنقیح المقال، علامه مامقانی، ج ۳، ص ۷۰ با ترجمه.
5.    زندگی ام البنین، ص77
6.    تنقیح المقال، ج ۳، ص ۷۰ و منتهی الآمال، حاج شیخ عباس قمی، ص ۲۲۶.
7.    عبدالرزاق موسوی مقرم، قمر بنی هاشم، ص۱۶.
8.    ابوالفرج اصفهانی، ص۸۵
9.    حسون، ص۴۹۶-۴۹۷.
10.    شبر، ادب الطف، ج۱، ص۷۱
11.    ریاحین الشریعه، ذبیح الله محلاتی، ج ۳، ص۲۹۴ و تنقیح المقال، ج۳، ص۷۰
12.    ام البنین، دانشنامه حج و حرمین شریفین.
13.    ستاره درخشان مدینه؛ حضرت ام البنین، ص۷
14.    اعیان الشیعه، ج۸، ص۳۸۹.
15.    مقرم،العباس(ع)، ص۱۸.
16.    چهره درخشان قمر بنی هاشم ابوالفضل العباس(ع)، ج۱، ص۴۶۴.
17.    العباس(ع)، ص۱۸.
منابع:
ماخوذ از سائٹ: دانشنامہ اسلامی
•    "ام البنین مادر مهتاب"، ن-طیبی، فرهنگ کوثر،‌ شماره ۲۱،‌ تیر ۱۳۷۷.
•    "ام البنین"، دانشنامه حج و حرمین شریفین.
•    "ام البنین علیهاالسلام؛ بانوی مردآفرین"، راحله عطایی، مجله گلبرگ، مرداد ۱۳۸۲، شماره ۴۱.

ام البنین (فاطمہ کلابيہ) رضی اللہ عنہا
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی

Read 0 times