سلیمانی

سلیمانی

امریکی وزارت جنگ نے افغانستان میں دس افغان شہریوں منجملہ سات بچوں کا قتل عام کرنے والے کسی بھی امریکی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی تادیبی اقدام عمل میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی وزیر جنگ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں ۲۹ اگست کے حملے کے سلسلے میں کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔

امریکی فضائیہ کے تفتیشی امور کے عہدیدار جنرل سامی دی سعید نے جو اس سانحے کی تحقیقات پر مامور بھی تھے، نومبر کے مہینے میں دعوی کیا تھا کہ اس حملے سے جنگی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے البتہ کچھ شواہد اس بات کے ملے ہیں کہ کمانڈروں سے اس حملے کے سلسلے میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔

اس فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت کی صورت حال کو درک کیا جائے تو اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ فوجیوں پر کافی دباؤ رہا ہے اس لئے اس قسم کی غلطیوں پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل سینٹکام کی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ اس حملے میں ایک امدادی کارکن اور اس کے گھرانے کے نو افراد مارے گئے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں نے جس گاڑی کو نشانہ بنایا اس کا ڈرائیور امریکی کمپنی میں بجلی کے ایک انجیئر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور اس کا نام زمری احمدی تھا جبکہ داعش و دہشت گردی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

تقریب اجنسی

بین الاقوامی امور کے ماہرابوالفضل ظہرہ وند  نے ایران کے خلاف اسرائيل کی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی دھمکیاں نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ ایران کا مقابلہ کرنے کی اسرائیل میں ہمت اور ظرفیت نہیں ہے۔

ابو الفضل ظہرہ وند نے مہر نیوز سے گفتگو میں ویانا مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ویانا مذاکرات میں اپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں اور استقامت کے ساتھ اپنے برحق مؤقف پر قائم ہیں۔

ظہرہ وند نے مہر سے گفتگو میں مغربی ممالک کے متضاد بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف مغربی ممالک ایران کے منطقی اور اصولی مؤقف کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل نے ایران کی مذاکراتی ٹیم پر دباؤ ڈالنے کے لئے نفسیاتی جنگ شروع کردی ہے اور وہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے تمام وسائل سے استفادہ کررہے ہیں۔ انھوں نے نفسیاتی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے 7 صنعتی ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔

ظہرہ وند نے مغربی ممالک اور اسرائیل کی نفسیاتی جنگ کو شکست خوردہ قراردیتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کے پاس سفارتی کاری کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں۔ اگر اسرائیل نے ایران پر جنگ مسلط کی تو اسے بحیرہ روم کی طرف بھاگنا پڑےگا۔

انھوں نے کہا کہ ایران نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اقتصاد کو ویانا مذاکرات سے منسلک نہیں کرےگا۔ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کی پابندیوں کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔

اٹلی میں ایران کے سابق سفیر نے مہر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک اچھی طرح جانتے ہیں خطے میں جنگ کی گنجائش نہیں ہے، خطے میں اگر امریکہ کے کسی فوجی اڈے کے لئے کوئي ناخوشگوار حادثہ پیش آگیا،  تو عرب ممالک کا تمام سرمایہ برباد ہوجائےگا۔

انھوں نے مہر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی ممالک میں اتنی ہمت ہوتی تو وہ افغانستان کو موجودہ بحران اور دلدل میں چھوڑ کر فرار نہ کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف مغربی ممالک کی نفسیاتی جنگ شکست سے دوچار ہوجائے گی اور ایران اپنے حقوق کے حصول کے لئے مغربی ممالک کے دباؤ میں نہیں آئےگا۔


اسلامی جمہوریہ ایران کے ادارۂ جوہری توانائی کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ ایران نے طے شدہ فریم ورک سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا اور 90 فیصد یورینیئم کی افزودگی کا دعوی سراسر جھوٹ ہے۔

انہوں نے آئی آر آئی بی سے انٹرویو میں ملک کی پرامن جوہری سرگرمیوں کے بارے من گھڑت باتوں اور یورینیئم کی 90 فیصد افزودگی کے دعوے کے بارے میں کہا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے جسکا بے بنیاد ہونا واضح ہو چکا ہے خاص طور پر دشمن اور صیہونی حلقے ایسی من گھڑت باتیں کر رہے ہیں۔

محمد اسلامی نے کہا کہ ایران ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے آئی اے ای اے کے اصول وضوابط کے تحت کام کرتا ہے اور قوانین کے مطابق ایران کی جوہری سرگرمیوں پر جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نگرانی کر رہی ہے اور ہم نے کبھی بھی مقررہ فریم ورک سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا ۔

فروری میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے سفارتی بائیکاٹ کا سامنا کرنے والے چین نے کھیلوں میں ’سیاست کو شامل کرنے سے‘ دور رہنے پر پاکستان کی تعریف کی ہے۔ 

اسلام آباد میں چین کے سفیر نونگ رونگ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے ’کھلوں پر کسی قسم کی سیاست کی مخالفت کرنے کے موقف کو بے حد سراہا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’بیجنگ سرمائی اولمپکس، جذباتی تقریروں سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کا سٹیج نہیں ہے۔ چین دنیا کو ایک ہموار، محفوظ اور شاندار اولمپکس دینے کے لیے تیار ہے۔‘

سفیر کے اس بیان سے چند روز قبل چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شن ہوا نے پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے کھیلوں پر ہر قسم کی سیاست کی مخالفت کی تھی۔

دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان کو یقین ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باوجود سرمائی اولمپکس پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھیلوں کے شائقین کو شاندار اور رنگا رنگ تقریب پیش کریں گے۔

پریس ریلیز کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’اولمپک گیمز سپورٹس مین شپ، اتحاد، کوشش، جدوجہد اور نتائج کی پروا کیے بغیر اپنے وقار کو برقرار رکھنے کی علامت ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان چاہتا ہے کہ اولمپکس کا جذبہ کھیلوں کے حقیقی انداز میں برقرار رہے۔‘

حال ہی میں اس ہفتے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے والوں میں برطانیہ اور کینیڈا شامل ہوئے ہیں۔

اس سے قبل امریکہ اور آسٹریلیا نے چین کے سنکیانگ خطے میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

نیوزی لینڈ نے بھی کہا ہے کہ وہ وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے سبب کھیلوں میں شرکت نہیں کرے گا۔ تاہم انہوں نے چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے خدشات سے بھی آگاہ کیا ہے۔

خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے چین نے سرمائی گیمز کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک پر تنقید بھی کی ہے۔

ایک نیوز کانفرنس میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے اولمپکس پلیٹ فارم کو سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا ہے۔ ’انہیں اپنے غلط اقدام کی قیمت چکانی پڑے گی۔‘

سفارتی بائیکاٹ کا مطلب ہے کہ ان ممالک سے کوئی سرکاری عہدیدار سرمائی اولمپکس میں شرکت نہیں کرے گا تاہم اس کے باوجود وہ اپنے کھلاڑیوں کو کھیلوں میں شرکت کے لیے بھیج سکیں گے۔

بائیکاٹ کو ایک مزاحیہ ڈراما قرار دیتے ہوئے وانگ نے کہا: ’کھیلوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس کا سکرپٹ انہوں نے ہی لکھا ہے،اس کی ہدایت کاری کی ہے اور اسے انجام دیا ہے۔‘ 

مغربی ممالک کی جانب سے سفارتی بائیکاٹ کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب انسانی حقوق پر سرگرم گروپوں نے سنکیانگ خطے میں اقلیتی اویغور برادری کے ساتھ چین کے سلوک اور ہانگ کانگ میں مظاہروں پر پابندی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی تھی۔

تحریر:سراوستی داس گپتا
بشکریہ:انڈپینڈنٹ اردو 

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے ویانا میں گروپ 1+4 کے ساتھ  مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، ایران کا مؤقف منطقی، ٹھوس اور مضبوط  ہونے کی وجہ سے تین یورپی ممالک میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ ایران کے اعلی مذاکراتکار علی باقری کنی نے امریکہ کی ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کے خاتمہ پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ مذاکرات کی میز پر اسی وقت واپس آسکتا ہے جب وہ مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں ایران کے خلاف اپنی غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کو ختم کردے اور اس بات کی ضمانت دے کہ وہ آئندہ ایران کے خلاف پابندیاں عائد نہیں کرےگا۔ ایرانی وفد نے ویانا مذاکرات میں گروپ 1+4 کو اپنے تجاویز کی دو دستاویزات بھی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ویانا مذاکرات میں سنجیدگی کے ساتھ حاضر ہوا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی مذاکرات کار اور ایران کے نائب وزير خارجہ علی باقری کنی کی قیادت میں ایران کا ایک اعلی وفد ویانا کے دورے پر ہے، جہاں ایرانی وفد نے گروپ 1+4 کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات انجام دیئے ہیں ، روس اور چین کے وفود نے مذاکرات میں پیش کئے گئےایرانی وفد کے مطالبات کو منطقی اور منصفانہ قراردیا ہے۔

ایران نے ویانا اجلاس میں اپنے مطالبات کو مرتب اور منظم طریقہ سے پیش کیا ہے اور ایرانی وفد نے دوسرے ممالک کے وفود سے بھی تقاضا کیا ہے کہ وہ بھی اپنے مطالب کو منظم طریقہ سے پیش کریں تاکہ ویانا مذاکرات کو بامقصد نتیجے تک پہنچایا جاسکے۔

ویانا اجلاس میں چند وفود خاص طور پر روس اور چین کے وفود نے ایران کے مطالبات کو منطقی اور منصفانہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے اپنے مطالبات میں مشترکہ ایٹمی معاہدے کو توڑنے والی ہر مشکل کو دور کرنے پر زوردیا ہے۔ ایران نے اس اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں امریکہ کو اپنی تمام ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کو ختم کرنا چاہیے۔ ایرانی وفد نے تاکید کی ہے کہ ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ ضروری ہے اور غیر قانونی پابندیوں کے خاتمہ کے بغیر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے

ادھر روس کے نائب وزیر خارجہ ریابکوف نے ویانا مذاکرات کی فضا کو مثبت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات کی فضا مثبت ہے ۔ ایران کے مطالبات منطقی ہیں۔ ریابکوف نے کہا کہ ویانا مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں ۔ ہم مذاکرات میں پیشرفت کی سمت گامزن ہیں۔

MSNBC کے قومی امور کے تجزیہ کار جان ہیلیمین نے اتوار کے ایک شو میں یہ دعویٰ کر کے بہت سے امریکیوں کو چونکا دیا کہ "20 سے 30 ملین لوگ" امریکی صدر جو بائیڈن کو عہدے سے ہٹانے کے لیے "ہتھیار اٹھانے" کے لیے تیار ہیں۔

"یہ تحقیق ہے جو 8٪ اور شاید 12٪ تک کچھ ظاہر کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ جو بائیڈن ناجائز تھا اور تشدد انہیں ہٹانے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بحال کرنے کا ایک مناسب ذریعہ ہے۔ یہ 20 سے 30 ملین لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے،" ہیلیمین نے کہا، یہ دعوی کرتے ہوئے کہ "20 سے 30 ملین لوگ" "ہتھیار اٹھانے" کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے یہ حامی "سیاسی تشدد کے حق میں عوامی تحریک" کی نمائندگی کرتے ہیں۔

بحر اوقیانوس کے مضمون میں، بارٹن گیلمین کے، یہ دلیل دی گئی ہے کہ ٹرمپ کی "بغاوت" "تشدد سے زیادہ بغاوت پر انحصار کرے گی" اور 6 جنوری کو کیپیٹل فسادات کو سابق صدر کے لیے "عمل" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ گیل مین کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی سیاسی چالبازیوں کے ساتھ ساتھ قومی اور مقامی طور پر صحیح پوزیشنوں پر صحیح حامیوں کی تنصیب، 2024 کے صدارتی انتخابات کا باعث بن سکتی ہے جس کا فیصلہ بیلٹ سے نہیں ہوتا ہے۔

گیل مین کی 'پیش گوئی' کو پہلے ہی لوگوں کی طرف سے کچھ جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اسے ہائپربولک پارٹیشن شپ کے طور پر چلا رہے تھے، اور ہیلی مین کے اس اعلان کو کہ دسیوں لاکھوں لوگ "ہتھیار اٹھانے" کا انتظار کر رہے ہیں، کچھ آئی رولز اور ایم ایس این بی سی کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر ذمہ دارانہ صحافت

صحافی ڈریو ہولڈن نے ٹویٹ کیا، "گزشتہ چند سالوں نے پریس کو یقین دلایا ہے کہ خوف - اور صرف خوف - بکتا ہے۔"

 

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے سربراہ میجر جنرل سید عبدالرحیم  موسوی نے ایران کے خلاف اسرائيل کی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائيل نے اگر دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی  کوشش کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائےگا۔

میجر جنرل موسوی نے ایرانی فوج کی دفاعی پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی فوج موجودہ پیشرفت پر متوقف نہیں ہوگی بلکہ ملکی اور قومی دفاع کے سلسلے میں ترقی اور پیشرفت کا سفر جاری رکھےگی۔

انھوں نے کہا کہ ایران کی بری ، بحری اور فضائیہ ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر آمادہ ہیں۔ اگر اسرائيل نے کوئی حماقت کی تو اسے دنداں شکن اور منہ توڑ جوب دیا جائےگا۔ میجر جنرل موسوی نے کہا کہ دشمن کو ایران کی دفاعی طاقت کا بخوبی علم ہے ۔ ایران کی مسلح افواج دشمن کی کسی بھی حماقت کا بھر پور جواب دینے کے لئے آمادہ ہے۔

صیہونیوں کی  دھمکی خوف اور دہشت سے تعلق رکھتی ہے، کیونکہ اس منحوس حکومت کے قائدین جانتے ہیں کہ اگر وہ اس طرح کے اقدام کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں، تو انہیں متناسب جواب ملے گا جو ان کے وجود کو جلد ختم کر دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران مخالف پابندیاں "ایک طویل عرصہ پہلے اپنی کارکردگی کھو چکی ہیں"، یہ بتاتے ہوئے کہ مسلح افواج کی طرف سے حاصل ہونے والی پیشرفت "ملکی صلاحیتوں" سے منسوب ہے۔
 
http://

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے متحدہ عرب امارات کے عہدیداروں کی طرف سے صیہونی وزیر اعظم نفتالی بنت کے استقبال کی سخت مذمت کرتے ہوئے صیہونی دشمن سے تعلقات کی بحالی اور اسکے ساتھ ہر طرح کے اتحاد کو فلسطین سے غداری قرار دیا۔

تحریکِ اسلامی جہاد نے ایک بیان میں پیر کے روز نفتانی بنِت کے متحدہ عرب امارات یواے ای کے دورے پر رد عمل میں کہا: ”بنِت کا استقبال، مجرم صیہونی حکومت کی سکورٹی کو مضبوط کرنے اور اس حکومت کے ناجائز وجود کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش ہے۔“

صیہونی وزیر اعظم نفتالی بنِت متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے تعلقات کی بحالی کے ایک سال اور کچھ مہینے کے بعد، خلیج فارس کے اس ساحلی ملک کے دورے پر وہاں پہنچے اور وزیر خارجہ عبد اللہ بن زائد نے ان کا استقبال کیا۔

صیہونی وزیر اعظم ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زاید سے بھی ملاقات کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا 5 جمادی الاولی سن 5 یا 6 ہجری کو مدینہ منورہ میں خاندان نبوت و ولایت اور عصمت کے گھر پیدا ہوئیں ۔ آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کی نواسی، حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی بیٹی ہیں۔

پیغمبر اسلام (ص) سفر پر تھے واپسی پر حسب معمول سب سے پہلے فاطمہ (س) کے گھر تشریف فرما ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی (ع) نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا ۔ بچی کو دیکھ کررسول خدا نے گریہ کرنا شروع کردیا ۔ کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ: جبرائیل امین نے مجھے  بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہو گی۔

 اس کے بعد آپ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ: یہ میری بچی خدیجہ کبری کی ہوبہو تصویر ہے۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا :خدا نے اس بچی کا نام " زینب" منتخب کیا ہے۔

اس لیے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں " زین " معنی زینت اور "اب"معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں ۔ رسول خدا (ص) حضرت زینب کو اپنے سینہ اقدس سے لگایا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی کے رخسار پر رکھ کر اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسو چہرہ مبارک پر جاری ہوگئے  کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) حضرت زینب (س) پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے ۔

حضرت زینب (س) کے مشہور القاب درج ذیل ہیں:

۱- عالمہ غیر معلمہ، ۲- نائبۃ الزھراء ۳- عقیلہ بنی ہاشم، ۴- نائبۃ الحسین، ۵- صدیقہ صغری، ۶- محدثہ، ۷- زاہدہ، ۸- فاضلہ، ۹- شریکۃ الحسین، ۱۰- راضیہ بالقدر والقضاء

حضرت  زینب (س) کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گزرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔

نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبری فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گیئں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز توجہ کا شرف بخشا جو  زینب کی پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلی کا عہد طفولیت تکمیل انسانی کی ایک مثال بن گیا۔

امام سجاد (ع) کی زبانی حضرت زینب (س)کا علمی مقام :

اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَة

اے پھوپھی اماں، آپ الحمد للہ ایسی خاتون ہیں کہ جسکو کسی نے پڑھایا نہیں ہے، اور آپ ایسی عاقل خاتون ہیں کہ کسی نے آپ کو عقل و شعور نہیں دیا۔

فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام اور علی  و فاطمہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب کا وجود تاریخ بشریت کا ایک ‏غیر معمولی کردار بن گیا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ ‏غیر معلمہ اور فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات بکھیرتا چراغ بن گئیں ۔

حضرت زینب نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے دربار میں فرمایا تھا:

اے یزید، دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے اور تیری دولت اور عیش و عشرت کی زندگی اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح ہماری دنیوی مصیبتیں اور مشکلیں ختم ہو جاتی ہیں مگر کامیابی و کامرانی ہمارے ساتھ ہے کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

امام حسین کی شہادت کے بعد دراصل حضرت زینب نے حسینی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانا ایک دینی و الہی فریضہ تصور کیا اور اپنی خداداد فصاحت و بلاغت اور بے نظیر شجاعت و شہامت کے ذریعے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ حضرت زینب (س) نے اپنی پاک و پاکیزہ زندگی کے دوران اہل بیت پیغمبر کے حقوق کا دفاع کیا اور کبھی اس بات کی اجازت نہ دی کہ دشمن، واقعہ کربلا سے ذاتی فائدہ اٹھا سکے ، جناب زینب کے خطبوں کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیاں نے لوگوں کو آپ کے بابا علی مرتضی کی یادیں تازہ کر دیں تھیں۔

اس عظیم خاتون نے الہی حقائق ایسے فصیح و بلیغ الفاظ میں بیان کیے جو ان کے عالمہ غیر معلمہ ہونے اور قرآن و سنت پر کامل دسترس پیدا کر لینے کو ظاہر کرتے تھے۔

پاکستان کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے زیر اہتمام میں اسلامی جمہوریہ ایران سمیت مختلف ممالک کے فوجی اتاشیوں کے تعاون سے ثقافت، خوراک اور دستکاری کا بین الاقوامی فیسٹیول اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، ثقافت اور دستکاری کا بین الاقوامی فیسٹیول اتوار کے روز پاکستان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں انعقاد کیا گیا جس میں مختلف ممالک کے دفاعی اتاشیوں اور فوجی طلباء سمیت ایرانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کے دفتر اور اس یونیورسٹی کے ایک ایرانی فوجی طالب علم بھی شامل تھے۔

اس سال کے فیسٹیول میں اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی عرب، آسٹریلیا، انڈونیشیا، مصر، اردن، بنگلہ دیش، امریکہ اور برطانیہ سمیت 20 ممالک نے شرکت کی۔

اس فیسٹیول کا افتتاح نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی آف پاکستان کے صدر جنرل "نعمان محمود" اور ان کی اہلیہ کی موجودگی میں کیا گیا۔