سلیمانی
داعش کی شکست کا راز
10 دسمبر 2025ء کے دن عراقی قوم اور حکومت نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش پر فتح کی آٹھویں سالگرہ منائی ہے۔ یہ دن عراق کے قومی کیلنڈر میں مسلح افواج، حشد الشعبی (پاپولر موبیلائزیشن فورسز) اور عراقی عوام کی قربانیوں کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی سرزمین کو تکفیری دہشت گردی سے بچانے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کی۔ مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نیز حشد الشعبی کے کمانڈروں نے مبارک باد پر مبنی اپنے پیغامات میں اس فتح کو ایک تاریک خواب کا خاتمہ اور استحکام کے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی نے اس دن کو عراقیوں کے شجاعانہ موقف کی یاد تازہ کر دینے والا دن قرار دیا اور کامیابیوں کے تحفظ پر زور دیا۔ عراقی صدر عبداللطیف رشید نے بھی عوام اور مسلح افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے باہمی اتحاد پر زور دیا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمود المشہدانی نے مسلح افواج کے اقدامات کو تاریخ کا ایک روشن صفحہ قرار دیا۔ سپریم اسلامی کونسل کے صدر شیخ ہمام حمودی نے شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے اور اتحاد کو مضبوط بنانے پر توجہ دی۔ پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر محسن المندلاوی نے اس شجاعانہ جنگ کی تعریف کی جو ملک کی خودمختاری اور وقار بحال ہو جانے کا باعث بنی۔ حشد الشعبی کے سربراہ فلاح الفیاض نے عوامی رضاکار فورس کی تشکیل میں مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کے فتوے کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس فتح کو عوام کی قربانیوں کا نتیجہ قرار دیا۔ عصائب اہل الحق کے سیکرٹری جنرل شیخ قیس خز علی نے ایران کی برادرانہ حمایت کو سراہا۔ قومی حکمت پارٹی (نیشنل وزڈم موومنٹ) کے سربراہ سید عمار حکیم نے مرجع عالی قدر اور ان کے فتوے پر لبیک کہنے والوں کو مبارکباد پیش کی۔شیعہ، سنی اور کرد رہنماؤں کے یہ پیغامات عراق میں سلامتی اور ترقی برقرار رکھنے کے اجتماعی عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
دہشت گردی کا خطرہ ظاہر ہونے کی کہانی
عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش 2011ء میں امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد اور سیاسی عدم استحکام اور فوج کی کمزوری کے سائے میں تیزی سے پروان چڑھا۔ اس گروہ نے 2013ء شام کی داعش سے الحاق کا اعلان کر دیا اور یوں "اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا" (ISIS) کا نام اختیار کرگیا۔ 2014ء میں سعودی عرب، قطر، اور سلفی وہابی تحریکوں کی مالی اور عسکری مدد سے نیز امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے واضح طور پر آنکھیں بند کر لینے کے ساتھ داعش نے عراق پر ایک بڑے حملے کا آغاز کر دیا جس کا عروج 10 جون 2014ء کے دن موصل پر اس کے قبضے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ قبضہ محض چند سو دہشت گردوں کے مقابلے میں عراقی فوج کے دسیوں ہزار سپاہیوں کے فرار ہو جانے کا نتیجہ تھا۔
موصل پر قبضے کے بعد داعش نے مرکزی بینک سے 1.5 ارب ڈالر سے زائد رقم بھی لوٹ لی اور اسلحے کے ذخائر پر قبضہ کر کے دنیا کا امیر ترین دہشت گرد گروہ بن گیا۔ موصل کے بعد تکریت، رمادی، فلوجہ اور صوبہ الانبار کے وسیع علاقے نیز صلاح الدین اور نینویٰ ایک ایک کر کے داعش کے قبضے میں جاتے چلے گئے۔ 2015ء کے وسط تک داعش نے عراق کے تقریباً 40 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور بغداد کے اندر بھی کئی کلومیٹر تک پیش قدمی کر لی تھی۔ یہ وحشیانہ پیشقدمی منظم قتل و غارت، اسپائیکر واقعے سمیت وسیع قتل عام کے واقعات، مزارات اور مساجد کی تباہی، یزیدی خواتین کو غلام بنانا اور دہشت کی فضا پیدا کرنے کے ہمراہ تھی۔ نوری المالکی حکومت کی کمزوری، فوج میں بدعنوانی اور بعض سنی قبائل کی ناراضگی نے بھی دہشت گردوں کو عراق کو مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچانے اور خطے کو معصوم لوگوں کی قتل گاہ میں تبدیل کرنے میں مدد فراہم کی۔ ایک ایسی سازش جو امریکہ، مغرب اور غاصب صیہونی رژیم کی پس پردہ حمایت سے آگے بڑھ رہی تھی۔
تاریخی فتوا اور عوامی دفاع کا آغاز
تکفیری دہشت گردی سے درپیش بحران کے عروج پر، آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کی طرف سے 13 جون 2014ء کے دن ایک تاریخی فتوا جاری کیا گیا جس میں داعش کے خلاف جہاد کو واجب کفائی قرار دیا گیا۔ نجف سے جاری ہونے والی اس فتوے میں عراقی شہریوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وطن کے دفاع کی خاطر سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیں اور نہ صرف شیعہ بلکہ سنی، کرد اور عیسائیوں کو بھی متحرک کریں۔ اس فتوے کی اہمیت فوجی پہلو سے بھی آگے نکل گئی اور وہ عراق کی قومی تاریخ میں ایک ایسا اہم موڑ ثابت ہوا جس نے میدان جنگ کا توازن دفاع سے حملے کی طرف موڑ دیا اور عوام میں قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا۔ اس فتوے نے دسیوں ہزار رضاکاروں کو متحرک کیا اور فرقہ وارانہ اتحاد کی لہر پیدا کی جس کے باعث سقوط بغداد کا خطرہ ٹل گیا۔ اس فتوے نے ایک وسیع عوامی جدوجہد کو جنم دیا اور جنگ کا رخ تبدل کر دیا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر عراقی پارلیمنٹ نے 13 جون کو قومی دن قرار دے دیا۔
داعش کے خاتمے میں ایران کا نمایاں کردار
اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے واضح حکم پر عراق پر داعش کے حملے کے آغاز سے ہی اس ملک کو بچانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانا شروع کر دی تھیں۔ یہ اسٹریٹجک حکم عراقی قوم اور حکومت کے لیے ایران کی غیر مشروط، تیز رفتار اور جامع حمایت کی بنیاد بن گیا۔ میدان جنگ میں بھی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر شہید لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی نے ایک بے مثال اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ وہ خود کو "مرجع عالی قدر کا سپاہی" کہتے ہوئے آیت اللہ العظمی سیستانی کے فتوے کے فوراً بعد عراق میں داخل ہوئے اور داعش کے خلاف حتمی فتح کے دن تک عملی طور پر پورے مزاحمتی محاذ کے مرکزی کمانڈر کا کردار ادا کرتے رہے۔ آمرلی اور سامرا کا محاصرہ توڑنے سے لے کر جرف النصر، تکریت، بیجی، فلوجہ، رمادی اور موصل کو آزاد کرانے تک تمام فوجی آپریشنز کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد شہید قاسم سلیمانی کی براہ راست، چوبیس گھنٹے کی نگرانی سے انجام پاتا رہا۔
تحریر: مہدی سیف تبریزی
مقبوضہ فلسطین میں سیلاب، دسیوں ہلاک، زخمی اور لاپتہ، متعدد علاقے خالی کرا دیے گئے
مقبوضہ فلسطین میں سیلاب کے نتیجے میں دسیوں افراد ہلاک، زخمی اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سیلابی بارشوں نے مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا دی ہے۔
جنوبی مقبوضہ علاقوں میں امدادی ٹیمیں سڑکوں پر کشتیوں اور ناؤ کے ذریعے کارروائی کر رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگ اپنا گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
عبری میڈیا کے مطابق، ایک شخص کی لاش بھی ایک گڑھے سے برآمد ہوئی ہے۔
عسقلان میں دسیوں افراد سیلاب میں پھنس چکے ہیں جن میں سے 16 زخمی ہیں۔
ادھر سیلابی بارشوں کے باوجود طبریہ جھیل میں پانی کی سطح بری طرح نیچے چلی گئی ہے جس کے نتیجے میں پانی کی قلت کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ طبریہ جھیل کی صیہونیوں کے قریب مذہبی اہمیت بھی ہے اور اس جھیل میں پانی کی قلت کے نتیجے میں ان کا نام نہاد اعتقاد بھی خشک پڑ رہا ہے۔
مشترکہ تعاون کو مضبوط اور معاہدوں پر عملدرامد کی رفتار تیز کی جائے گی، ایران اور پاکستان کی قیادت پرعزم
ترکمانستان میں امن اور اعتماد کانفرنس کے موقع پر صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر دونوں فریقوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات کی آخری صورتحال کا جائزہ لیا اور موجودہ باہمی معاہدوں پر عملدرامد کی رفتار تیز کرنے پر زور دیا۔
صدر مسعود پزشکیان اور پاکستان کے وزیر اعظم نے ایران اور پاکستان کی وسیع گنجائشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تہران اور اسلام آباد نقل و حمل اور راہداری منصوبوں، سرحدی تنصیبات میں فروغ اور صدر ایران کے دورہ اسلام آباد میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرامد کے لیے پرعزم ہیں۔
دونوں فریقوں نے معاشی، تجارتی اور مواصلاتی تعلقات میں اضافے نیز مشترکہ کاوشوں پر بھی زور دیا۔
صدر پزشکیان نے ایران اور پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور سرحدی مشترکات کو توانائی، تجارت، باہمی سلامتی، سرحدی مارکیٹوں میں فروغ اور عوامی رابطے کی بنیاد قرار دیا جس کے ذریعے پورے علاقے میں استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
"انا اعطینٰک الکوثر” بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
کلامِ الٰہی اور تفاسیر میں شان حضرت زہراء (ع)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سردار انبیاء و رحمۃ للعالمین کی دختر، سید الاوصیاء امام علی ؑ کی زوجہ اور امام حسن و امام حسین علیہما السّلام کی مادر گرامی ہیں۔ آپ اصحابِ کساء، پنجتن پاک میں سے اور معصومہ ہیں۔ زہراء، بتول، سیدۃ النساء، عذراء، محدثہ، معظمہ اور ام ابیہ وغیرہ آپ کے مشہور القابات ہیں۔
حضرت فاطمہ(س) واحد خاتون اسلام ہیں جو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ تھیں اس کے علاوہ سورہ کوثر ، آیت تطہیر،آیت مودت، آیت اطعام اورحدیث بضعۃ آپؑ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؑ نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے۔اسی کے ضمن میں ہم قرآن کی بعض آیات کے زریعے آپ کی شان بیان کریں گئے۔
قرآن کی آیات کی روشنی میں :
آیت تطہیر
"انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت لیطھرکم تطھیرا” ( احزاب :33)
"اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔”
یہاں اہل بیت سے مراد امام علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور امام حسن وحسین علیھما السلام ہیں۔ اس حدیث کو شیعہ اور اہلسنت دونوں نے نقل کیا ہے۔ مثال کےطور ایک حدیث میں جناب ام سلمہ ؒ بیان فرماتی ہیں۔
یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا اور ان پر چادر ڈال دی پھر فرمایا:
اللھم ھولاء اھل بیتی
اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
آپ ہی کی ایک روایت ہےکہ جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!
انک علی خیر،انک من ازواج النبی.
تم خیر پر ہو اور تم ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہو۔
اس کے علاوہ ابو سعید خدری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت کےساتھ فرمایا
ھذہ الایۃ فی خمسۃ فی و فی علی وحسن و حسین و فاطمہ۔
یہ آیت پنجتن کی شان میں ہے، یعنی میرے ، علی اور حسن و حسین و فاطمہ سلام اللہ علیھم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(الکوثر فی تفسیر القرآن ، سورہ احزا ب: ۳۳)
آیت مباہلہ:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ“ “(آل عمران،)61
"آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
شیعہ اور اہلسنت مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجران کےنصاری کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کو اقنوم ثلاثہ میں سے ایک مانتے ہوئے انکو معبود کے درجے تک لے جاتے تھے اورعیسیٰؑ کےبارے میں قرآن کریم کی توصیف سے متفق نہیں تھے جس میں انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی قرار دیا گیا تھا۔ جب پیغمبر اکرم(ص) کی گفتگو اور دلائل عیسائیوں پر مؤثر ثابت نہ ہوئے تو آپؐ نے ان کو مباہلے کی دعوت دی۔
محدثین، مفسرین،مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور(ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین ، فاطمہ اور علی علیھم السلام کو ساتھ لیا۔
سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن ، حسین ، فاطمہ اور علی علیھم السلام کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔(الکوثر فی تفسیر القرآن ، آل عمران: ۶۱)
آیت مودت
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى” (سورہ شوریٰ ۲۳)
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے صاحبان قرابت کی محبت کے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت مدینہ اور اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے بعدانصار نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلامی نظام کے انتظام کے لیے کہا کہ ” اپنے نئے معاشرے کی تشکیل کے لئے اگر آپ کو مالی اور معاشی ضرورت ہے تو ہماری پوری دولت اور تمام وسائل آپ کے اختیار میں ہیں، جس طرح آپ خرچ کریں اور ہمارے اموال میں جس طرح بھی تصرف کریں، ہمارے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہوگا تو فرشتہ وحی آیت مودت لے کر نازل ہوا۔
سعید بن جبیر سے روایت ہےکہ جب آیت مودت نازل ہوئی تو ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے وہ قریبی کون سے ہیں؟ کہ جن کی مودت ہم پر واجب ہے تو آپ (ص) نے ارشاد فرمایا اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے ہیں۔ (تفسیر نمونہ، سورہ شوریٰ:۲۳)
سورۂ کوثر
"انا اعطینٰک الکوثر” ( کوثر:1)
بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
مفسرین نے لفظ کوثر کی تفسیر میں بہت سارے مطالب بیان کئے ہیں۔ اس سلسلے میں لفظ کوثر کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ شیعہ علماء "کوثر” کے مصداق کو حضرت فاطمہؑ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس سورت میں ان اشخاص کا تذکرہ ہے جو پیغمبر اکرمؐ کو بے اولاد اور ابتر سمجھتے تھے حالنکہ آنحضرت ؐ کی اولاد آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہؑ کی نسل سے آگے بڑھی جنہوں نے امامت جیسے عظیم عہدے کو سنبھال کر دین اسلام کی آبیاری کی جس کی بنا پر آج اسلام کا یہ تنومند درخت پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔(تفسیر نمونہ، سورہ کوثر)
آیت قربیٰ
واٰت ذاالقربیٰ حقہ.
اور قریب ترین رشتہ دار کو اس کا حق دیا کرو۔
"ذَا الْقُرْبَىٰ” کے بارے میں مفسرین کے درمیان یہ سوال ایجاد ہوتے ہیں کہ آیا اس سے مراد ہر رشتہ دار ہیں یا صرف پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار مراد ہیں؟ تفسیر نمونہ کے مطابق شیعہ آئمہ معصومین سے نقل شدہ احادیث کے مطابق "ذَا الْقُرْبَىٰ” سے صرف اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لیکن یہ احادیث آیت کے مصادیق کو صرف اہل بیت میں منحصر نہیں کرتیں بلکہ اہل بیت کو اس کا کامل مصداق قرار دیتی ہیں لہٰذا ہر شخص سے اپنے رشتہ داروں سے متعلق پوچھا جائے گا۔
شیعہ اور اہلسنت احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے فدک بطور ہدیہ عطا فرمایا۔ حدیث میں ہے۔
جب آیت واٰت ذاالقربیٰ حقہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بلایا اور انہیں فدک عنایت فرمایا۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن، الاسراء :۲۶ )
آیت اطعام
وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسْكِينًۭا وَيَتِيمًۭا وَأَسِيرًاإِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءًۭ وَلَا شُكُورًا" (دھر)
یہ آیت اس مشہور واقعہ کے بعد نازل ہوئی ۔جب امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار ہوئے تو گھر میں تما م افراد نے ان کی صحتیابی کےلیے تین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ۔ جب آپ دونوں تندرست ہوگئے تو سب گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کے وقت دروازے پر سائل نے صدا دی اے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !کوئی ہے جوبھوکے کو کھانا کھلائے۔ انہوں نےاپنا مکمل کھانا سوالی کو عطا کردیا یہی واقعہ تین دن پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی۔
بعض اہلسنت مفسرین کی نگاہ میں آیت اطعام اہل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہلسنت کے 34 علماء کا نام لکھا ہے جنہوں نے متواتر طور پر تائید کی ہےکہ یہ آیات اہل بیتؑ کی شان اورامام علی، فاطمہ حسن اور حسین علیھم السلام کے فضائل بیان کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کی نگاہ میں اس سورہ کی اٹھارہ آیات مکمل سورہ انسان اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور تفسیر یا حدیث کی کتابوں میں اس واقعہ سے مربوط روایت کو علیؑ، فاطمہ ؑ اور ان کے فرزندان کے افتخارات اور اہم فضائل میں سے ایک قرار دیا ہے۔(تفسیر نمونہ، سورہ انسان 9،۸)
بے نمازی کو نماز کی طرف مائل کرنے کا سنہری نسخہ
حجتالاسلام والمسلمین علیرضا پناہیان نے اپنی ایک تقریر میں لوگوں کو نماز کی جانب راغب کرنے کے عملی طریقے بیان کرتے ہوئے کہا: "بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ بے نمازی افراد کو کیسے قائل کریں کہ وہ نماز پڑھیں؟"
اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ نماز کیوں ضروری ہے؛ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ خود نماز گزار نے نماز سے کیا فائدہ حاصل کیا ہے؟
نماز پڑھنے والا شخص اپنی نماز کا اثر اپنے کردار اور رویّے میں ظاہر کرے۔ جو سکون، لذت اور برکتیں اسے نماز سے ملی ہیں، وہ دنیا کے سامنے اپنے اخلاق اور عمل سے نمایاں کرے تاکہ دوسرے بھی نماز کے شوق میں آگے آئیں۔ اکثر بے نماز لوگ نماز پڑھنے والوں کو دیکھ کر کہتے ہیں: "تم جو نماز پڑھتے ہو، تمہاری زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟"
نماز گزار کا اخلاق، برتاؤ اور شخصیت یہ بتائے کہ نماز نے اس کی زندگی کے کس حصے کو سنوارا اور کیسے اس کی روحانی کیفیت دوسروں کے لیے باعثِ کشش بنی۔
ہمیشہ ایک سنہری اصول یاد رکھیں: "جب تک اچھے لوگ مزید بہتر نہیں بنتے، بُرے لوگ اچھے نہیں بنیں گے۔"
صہیونی حکومت سے تعلقات منافقت اور امت مسلمہ سے غداری ہے، یمنی رہنما کی الجولانی پر شدید تنقید
یمنی مقاومتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے تحریر الشام کی جانب سے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے امریکہ نوازی، منافقت اور امت مسلمہ کے مفادات سے صریح انحراف قرار دیا ہے۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کی ولادت باسعادت اور یوم مادر و یوم خواتین کے موقع پر ٹی وی خطاب میں عبدالملک الحوثی نے کہا کہ شام پر قابض تکفیری ایک ایسے ذلت آمیز اور پسپائی پر مبنی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں جو واشنگٹن کی خوشنودی اور صیہونی حکومت کے قریب جانے پر قائم ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کے باوجود تل ابیب سے قربت بڑھا رہے ہیں کہ اسرائیل مسلسل شامی سرزمین پر حملے کررہا ہے اور اس کے بعض حصوں پر قابض بھی ہے۔
یمنی رہنما نے صیہونی حکومت کی جارحانہ فطرت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عالمی طاقتوں کی ضمانت سے طے پانے والے بین الاقوامی معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی کرچکا ہے، جس کی واضح مثالیں آج غزہ اور لبنان میں جاری قتل و غارت گری کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ یہ اقدامات اسرائیل کی مجرمانہ ذہنیت اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
عبدالملک الحوثی نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ ظالم اور استکباری قوتوں پر انحصار کے بجائے اپنے حقیقی مشن کی جانب لوٹے، جس میں عدل کا قیام، مظلوموں کا دفاع اور طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانا شامل ہے۔ امت کو اپنی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط بناتے ہوئے عزت، وقار اور عالمی کردار کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
یمنی رہنما نے صیہونی مظالم کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں ہزاروں مسلمان خواتین، جن میں حاملہ عورتیں، کم سن بچیاں، نوجوان اور معمر خواتین شامل ہیں، صیہونی جارحیت کا نشانہ بن چکی ہیں۔
انہوں نے اس صورتحال کو انسانی اقدار اور عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان قرار دیا۔
بکھرتا سوڈان سونے کی ہوس اور ہتھیاروں کی فروخت، سوڈان میں امارات کی خونزیری
گزشتہ دو برسوں سے متعدد میڈیا رپورٹس، تحقیقی دستاویزات اور فریقین کے بیانات سے اس امکان کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ امارات نے تیزرفتار (Rapid Support Forces ) فورسز کو مالی یا لاجسٹک مدد فراہم کی ہے، اگرچہ ابوظبی بارہا ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ تسنیم نیوز کے مطابق، سوڈان کی جنگ جو اب اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے، دنیا کے پیچیدہ ترین اور سب سے نظرانداز شدہ انسانی بحرانوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ 2023 کے اپریل سے شروع ہونے والی اس لڑائی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور دارالحکومت خرطوم سمیت کئی بڑے شہر عملاً تباہ ہو چکے ہیں۔ اس بحران کو مزید پیچیدہ بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ بیرونی ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات پر جنگ کو شدید تر کرنے یا طول دینے کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں، اگرچہ امارات ان کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
جنگ کیسے شروع ہوئی؟:
موجودہ لڑائی کی وجہ سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور تیزرفتار فورسز (RSF) کے کمانڈر محمد حمدان دقلو (حمیدتی) کے درمیان پرانی رقابت ہے۔ یہ دونوں عسکری ڈھانچے 2019 کی بغاوت کے بعد طاقتور ہوئے، اور بالآخر ان کے اختلافات ایک وسیع شہری جنگ میں بدل گئے۔ سعودی عرب اور مصر سوڈانی فوج کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ امارات کو RSF کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ آج خرطوم، ام درمان اور الفاشر جیسے شہر جنگ کے میدان بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 1 سے 1.2 کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جس سے یہ بحران حالیہ برسوں کی سب سے بڑی انسانی تباہی بن گیا ہے۔
امارات کا نام کیوں بار بار آ رہا ہے؟:
1. سونے کے ذخائر پر کنٹرول: آر ایس ایف اور اماراتی تجارتی نیٹ ورکس کے درمیان گہرے معاشی روابط موجود رہے ہیں۔ حمیدتی کی فورسز برسوں تک سوڈان کی سونے کی کانوں، خصوصاً جبل عامر پر قابض رہی ہیں۔ اس سونے کا بڑا حصہ امارات کے ذریعے عالمی منڈی میں فروخت ہوتا تھا۔ اسی معاشی مفاد کی بنیاد پر بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ امارات کی ممکنہ حمایت کا مقصد سوڈان کے سونے تک مسلسل رسائی کو یقینی بنانا ہے۔
2۔ اسلحے کی ترسیل اور تجارت: سوڈان کی حکومت نے 2025 میں امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ آر ایس ایف کو اماراتی ہوائی راستوں سے اسلحہ ملتا ہے۔ اگرچہ کسی سرکاری سطح پر اسلحہ فراہم کرنے کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا، لیکن مشکوک کارگو پروازوں اور چینی ساختہ آلات کی بعض معلومات نے شبہات کو تقویت دی ہے کہ امارات پس پردہ لاجسٹک نیٹ ورک سے مدد فراہم کر سکتا ہے۔
3. جیوپولیٹیکل اہداف: گزشتہ دہائی سے امارات افریقہ اور بحیرۂ احمر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ سوڈان کے بحری راستے اور بندرگاہیں اور اس کی جغرافیائی اہمیت، امارات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ بعض ماہرین امارات، مصر اور حتیٰ کہ چین کے درمیان خاموش مقابلے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
امارات کا دھندلاتا سافٹ امیج:
اس پورے سیاق میں "اسپورٹس واشنگ" (Sportwashing) بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ یورپ کی مشہور ٹیموں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، مثلاً شیخ منصور کی ملکیت میں مانچسٹر سٹی کلب، امارات کے جدید، محفوظ اور پرکشش چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی بلاگرز اور مشہور شخصیات سوشل میڈیا پر امارات کی دلکش تصویریں پیش کرتے ہیں، لیکن ناقدین کے مطابق یہ خوبصورت تاثر سوڈان جیسے ممالک میں امارات کے ممکنہ عسکری کردار سے متصادم ہے۔
کیا سوڈان واپسی کے راستے سے آگے نکل چکا ہے؟:
سوڈان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر علاقائی طاقتوں کی حمایت جاری رہی، اور آر ایس ایف کو سونے سے ہونے والی آمدنی میسر رہی، تو جنگ کے طول پکڑنے اور ملک کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ممکن ہے مغربی حصّہ آر ایس ایف کے ہاتھ میں رہے اور مشرقی و شمالی علاقے فوج کے زیرِانتظام چلے جائیں، بالکل اسی طرح جیسے پہلے سوڈان جنوبی حصے سے محروم ہو چکا ہے۔
اگر عالمی اور علاقائی طاقتیں، خصوصاً امارات، سعودی عرب، مصر اور امریکا، مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو ایک سیاسی معاہدہ ممکن ہے، لیکن یہ راستہ نہایت مشکل اور طویل ہے۔ سب سے خطرناک امکان انسانی بحران کا شدید تر ہونا ہے۔ اگر امدادی راستے بند رہے اور الفاشر جیسے شہر محاصرے میں رہے، تو سوڈان یمن کے بعد دنیا کی سب سے بدترین انسانی تباہی والا ملک بن سکتا ہے، جس کی علامات پہلے ہی ظاہر ہو چکی ہیں۔
سوڈان کا بحران صرف دو فوجی لیڈروں کی جنگ نہیں، بلکہ سونے، اسلحے، علاقائی اثر و رسوخ، جیوپولیٹکس، اور میڈیا بیانیوں کا ایک مرکب ہے۔ امارات کا کردار، خواہ اسلحہ بھیجنے کے الزامات ہوں، سونے کے ذریعے معاشی نفوذ ہو، یا اسپورٹس واشنگ، اس سارے تجزیے کا مرکزی حصہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف مصر اور سعودی عرب، سوڈانی فوج کی پشت پر ہیں، جس سے جنگ مزید پیچیدہ اور طویل ہوتی جا رہی ہے۔ آخری حقیقت یہ ہے کہ سوڈان بکھر رہا ہے، اور اس بکھراؤ کی قیمت صرف عوام ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی اتفاقِ رائے اور بین الاقوامی نگرانی کے بغیر امن کا کوئی روشن امکان قریب نظر نہیں آتا۔
استغفار کا معنی و مفہوم قرآن و حديث کے رو سے
ایکنا نیوز- مادّہ "غفر" کے مشتقات قرآن میں مختلف صرفی صورتوں کے ساتھ 234 بار آئے ہیں۔ ان میں سے صرف سات مقامات پر مغفرت طلب کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو 91 مرتبہ صفت "غفور"، پانچ مرتبہ صفت "غفّار" اور ایک مرتبہ وصف "غافر" کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ خطاکاروں کے ساتھ معاملے میں مغفرت کی اتنی کثرت، اللہ کی بے پایاں شفقت اور رحمت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگرچہ مغفرت کے معنی ڈھانپنے اور چھپانے کے ہیں، لیکن اللہ کی طرف سے گناہوں کا ڈھانپ دینا، انسانی درگزر سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ اس سے کسی طور پر قابلِ قیاس بھی نہیں۔ انسان جب کسی کو معاف کرتا ہے تو صرف اس کی غلطی سے چشمپوشی کرتا ہے، لیکن گناہ کی حقیقت باقی رہتی ہے اور دل و جان پر ناپاکی اور میل کچیل کی طرح جم جاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: "رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ" (مطففین: 14) یعنی "ان کے دلوں پر ان کے اعمال نے زنگ چڑھا دیا۔
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی، گناہ کے اثرات اور اس کے نتائج کو بالکل مٹا دینے کے معنی میں ہے۔
الہٰی پردہپوشی اور غفران، مغفرت کی سب سے اعلیٰ شکل ہے جو ہمارے تصور سے بھی بڑھ کر ہے اور صرف خالقِ کائنات ہی کے شایانِ شان ہے۔ بعض حالات میں یہ پردہپوشی اس درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ گناہ بھی نیکیوں میں بدل دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں، جنہوں نے بڑے بڑے گناہ کیے اور جو دوزخ میں دوگنے عذاب کے مستحق تھے، قرآن ارشاد فرماتا ہے کہ...
: «إِلَّا مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَ كَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا» (فرقان: ۷۰).
ایران واحد ملک ہے جس نے صہیونی حکومت کو دندان شکن جواب دیا، وزیر دفاع
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر دفاع جنرل عزیز نصیرزاده نے کہا ہے کہ ایران واحد ملک ہے جس نے 12 روزہ جنگ میں صہیونی حکومت کو دندان شکن جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ یوم طلباء در حقیقت عالمی استکبار کے خلاف مبارزہ کا دن ہے اور آج استکبار کی سب سے واضح مثال امریکہ ہے۔ امریکہ نے عالمی حالات اور جغرافیائی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاکر جاگیر دارانہ نظام قائم کیا اور اپنی طاقت کے ذریعے دنیا کے تمام اقیانوسوں میں تسلط قائم کرنے کا دعوی کیا، جس سے استکبار کی اصل فطرت آشکار ہوئی۔
انہوں نے ایران کی دفاعی اور نظامی طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ 12 روزہ میں ایران کی مسلح افواج نے صہیونی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا اور اسے جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کیا، جس سے ایران کی دفاعی صلاحیت اور اقتدار کا واضح مظاہرہ ہوا۔
جنرل نصیر زاده نے ایران کی تاریخ اور حریت پسندانہ فطرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور ایران کی فطرت ایک دوسرے سے متصادم ہے؛ امریکہ مستکبر اور ایران خودمختار ہے۔ تاریخ میں ایرانی قوم نے کبھی بھی سر نہیں جھکایا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
وزیر دفاع نے طلباء کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں طلباء کو چاہئے کہ وہ علمی اور فکری شناخت برقرار رکھیں، کلاس رومز، تدریسی طریقے اور نصاب کو ایسے استعمال کریں کہ نئے علمی افق کھلیں اور تحقیق و جستجو کی راہیں ہموار ہوں۔ طلباء کی حقیقی شناخت جستجو، نئے سائنسی دروازے کھولنے اور نامعلوم حقائق کو سمجھنے میں ہے۔ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں علم کی روشنی پھیلائیں اور دوسروں کو حقائق سے آگاہ کریں۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
