
Super User
فلسطين کي مخالفت اور اسرائيل کي حمايت
امريکہ نے ايک بار پھر اقوام ميں متحدہ ميں فلسطين کي رکنيت کي سخت مخالفت کي ہے-
ہمارے نمائندے کے مطابق اقوام متحدہ ميں امريکي نمائندہ سوزن رائس نے کہا ہے کہ انکا ملک بدستور اقوام متحدہ ميں فلسطين کا اسٹيٹس تبديل کئے جانے کا مخالف ہے-
انہوں نے حماس اور اسرائيل کے درميان جنگ بندي کا خير مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ ميں فلسطين کے اسٹيٹس کي تبديلي بقول ان کے تباہ کن نتائج کي حامل ہوگي اور اسي لئے امريکہ اس کي سختي کے ساتھ مخالفت کر رہا ہے-
امريکي عہديدار کا يہ موقف ايسے وقت ميں سامنے آيا ہے جب دنيا کے ايک سو تينتس ملکوں نے اقوام متحدہ ميں فلسطين کي رکنيت کي حمايت کا اعلان کرديا ہے-
ماہرين کا کہنا ہے کہ اسرائيل اور امريکہ کي مخالفت کے باوجود فلسطين کو يونيسکو کي رکنيت دے دي گئي ہے اور اقوام متحدہ ميں باضابطہ رکنيت ملنے کي صورت ميں يہ ملک اپنےبہت سے کھوئے ہوئے حقوق پھر سے حاصل کرنے ميں کامياب ہوجائے گا-
حزب اللہ کا واحد دشمن صیہونی حکومت
لبنان میں عاشورا کے مرکزی جلوس سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے خطاب کیا۔ انہوں نے لاکھوں عزاداروں سے خطاب میں حزب اللہ پر لگائے جانے والے الزامات کو ظالمانہ قراردیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ کا واحد دشمن صیہونی حکومت ہے اور داخلی اختلافات سے ہمیں دشمن کو خوش نہیں کرنا چاہیے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عرب اور اسلامی ملکوں کا دوست اور حامی ہے اور یہ بات عرب اور اسلامی قوموں پر روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے ایران ان کی حمایت کرنے والا اور ان کا دوست ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات غزہ پر صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت اور اس سے پہلے لبنان پر جارحیت میں ثابت ہوچکی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میں ان لوگوں کو جو صیہونی حکومت کے بجائے ایران کو خطرہ قراردیتے ہیں خبردار کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ شعوری یا لاشعوری طورپر صیہونی حکومت کے مفادات کی راہ میں قدم اٹھارہے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران صیہونی حکومت کے خلاف استقامتی تنظیموں کی حمایت کرنا اپنا دینی اور ایمانی فرض سمجھتا ہے اور صلے میں کچھ نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا فلسطین حزب اللہ کے ایمان و ذمہ داری کا حصہ ہے اور یہ ذمہ داری فلسطین کو صیہونی چنگل سے آزاد کرانے تک باقی رہے گي۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ بعض حلقے غزہ میں استقامت کی کامیابی کو خدشہ دار کرنا چاہتے ہیں لیکن غزہ پرصیہونی حکومت کی آٹھ روزہ جارحیت میں استقامت کو اسی طرح کامیابی ملی ہے جس طرح سے دوہزار چھے میں تینتیس روزہ جنگ میں اور دوہزار آٹھ میں بائيس روزہ جنگ میں ملی تھی۔
سید حسن نصراللہ نے غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ صیہونی حکومت جب غزہ میں فلسطینی استقامت کے میزائیلوں سے لڑکھڑا جاتی ہے تو وہ اس وقت کیا کرے گي جب اس پر چاروں طرف سے ہزاروں میزائيل برسیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت حقیقی معنی میں مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔
ايران کے اسپیکر اور حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی ملاقات
ایران کی مجلس شوراۓ اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی اور حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے صہیونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمہ اور علاقے کی قوموں کے اہداف کے حصول کی واحد راہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نےآج لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں غزہ کے خلاف صہیونی حکومت کی 8 روزہ جنگ میں فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حالیہ کامیابی کو سراہتے ہوۓ کہا کہ یہ کامیابی ملت فلسطین کے بلند حوصلہ ، استقامت اور فلسطینی گروہوں کی دلیرانہ جدوجہد کی مرہون منت تھی
ڈاکٹر لاریجانی نے کہا کہ غزہ کی دوسری جنگ میں فلسطینیوں کی حالیہ کامیابی کو جوجنوبی لبنان کی 33 روزہ اور غزہ کی 22 روزہ جنگ کے سلسلے کی ایک کڑی ہےاسں نے علاقے میں استقامت کی طاقت و توانائی اور صہیونی حکومت کی ناتوانی کو آشکارا کر دیا ہے ، حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایرانی حکام اور ملت ایران کو صیونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم اور مزاحمتی گروہوں کی کامیابی کی مبارکباد پیش کرتے ہۓ کہا کہ یہ غاصب صہیونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم اور مزاحمتی گروہوں کا دوسرا غیر معمولی کارنامہ ہے
اسلام آباد ميں ہندوستاني سفارتخانے کي سيکورٹي بڑھانے کا مطالبہ
ہندوستان نے پاکستان سے مطالبہ کيا ہے کہ اس کے سفارتخانے کي سيکورٹي بڑھا دي جائے-
فرانس پريس کے مطابق ہندوستان نے پاکستان سے يہ درخواست اجمل قصاب کو پھانسي کي سزا ديئے جانے پر طالبان پاکستان کي جانب سے انتقامي کاروائي کي دھمکي کے بعد کي ہے -
روئٹرز نے اسلام آباد سے رپورٹ دي ہے کہ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے جمعرات کو دھمکي دي ہے کہ اجمل قصاب کي سزائے موت کا بدلہ لينے کے لئے ہندوستان کے مختلف مراکز پر حملے کئے جائيں گے -
اس دھمکي کے بعد ہندوستان کے وزير خارجہ سلمان خورشيد نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کيا ہے کہ ہندوستاني سفارتخانے اور سفارتي عملے کي سيکورٹي بڑھادي جائے -
دو ہزار آٹھ کے ممبئي دہشتگردانہ حملوں کے دوران گرفتار کئے جانے والے واحد دہشتگرد اجمل قصاب کو، صدر ہند کي جانب سے اس کي رحم کي اپيل مسترد ہونے کے بعد، بدھ کي صبح پھانسي دے دي گئي
رہبر معظم انقلاب اسلامی کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حج کے عظیم موقع پراپنے پیغام میں حج کی پر اسرار و رموز تقریب کو عالم اسلام کے اہممسائل کے بارے میں غور و فکر اور امت مسلمہ کی اصلاح کی راہوں کا جائزہلینے کے لئے بہت ہی اہم موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا: زخم خوردہ طاقتوں کی طرف سےعلاقائی انقلابات کومنحرف کرنے کی کوششیں ، مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و اختلاف ڈالنے کی خائنانہ تلاش ، مغربی ممالک کا اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ، بعض اسلامی ممالک میں اندرونی جنگ کو شعلہ ورکرنے کی کوششیں اور انقلابی قوموں اور حکومتوں کو تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے خوفزدہ کرنے کی سامراجی طاقتوں کی کوششیں عالم اسلام کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کےپیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمين و صلوات الله و سلامه علي الرسول الاعظم الأمين و علي آله المطهّرين المنتجبين و صحبه الميامين.
رحمت و برکت سے سرشار حج کی بہار پہنچ گئی ہے ایک بار پھر سعادتمند افراد اس نورانی مقام پر اللہ تعالی کا فیض حاصل کرنے کے لئے پہنچ گئے ہیں یہاں کا زمان ومکان تمام حجاج کرام کو معنوی اور مادی ارتقاء کی دعوت دیتا ہے، اللہ تعالی کی فلاح و صلاح کےبارے میں عظیم دعوت پر یہاں ہر مسلمان مرد و عورت دل و زبان سے لبیک کہتا ہے یہاں سب کو اتحاد و یکجہتی ،اخوت و برادری اور پرہیزگاری کی مشق و تمرین کاموقع ملتا ہے، یہاں تعلیم و تربیت کا کیمپ ہے یہ امت مسلمہ کے تنوع، اتحاد و عظمت کی عظیم نمائشگاہ ہے یہ شیطان اور طاغوت کے ساتھ مقابلہ کی اہم جگہ ہے، خداوند حکیم وقدیرنے اس جگہ کو ایسی جگہ قراردیا ہےجہاں مؤمنین اپنے مفادات اور منافع کو مشاہدہ کرسکتے ہیں جب بھی ہم اپنی عقل و خرد کی آنکھوں کو باز کریں گے تو یہ آسمانی وعدہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگي کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوجائےگا، حج کے شعائرکی خصوصیات دنیا و آخرت کے باہمی تعلق اور فرد واجتماع کےباہمی رابطہ کاشاندار مظہر ہیں، باعظمت و با شکوہ کعبہ، ایک ابدی واستوار محورپر دلوں اور جسموں کا طواف، ایک مبداء و منتہی کے درمیان منظم و مسلسل سعی و تلاش؛ تمام حاجیوں کاباہم عرفات و مشعر کےفلاح و رستگار میدانوں کی جانب اجتماعی کوچ، اوروہ حالت و طراوت جو یہاں دلوں کو نصیب ہوتی ہے سب کا اجتماعی شکل میں شیطانی علامتوں پر حملہ،اوراس پر رمز وراز تقریب میں ہدایت اور معنویت کے حصول کےلئے دنیا کے مختلف گوشوں اور مختلف رنگوں کے لوگوں کا حضور، در حقیقت اس فریضہ کی پرمعنی اور خاص خصوصیات ہیں۔
یہ ایسی تقریب ہے جو دلوں کو یاد خدا سے جلوہ گربناتی ہے اور انسان کے دل کی خلوت و تنہائی کو ایمان وتقوی کے نور سے منور کرتی ہے،اورانسان کو فردی و انفرادی حیثیت سے نکال کر امت مسلمہ کے مجموعہ کے حصہ بنادیتی ہے؛ اسے تقوی کا لباس پہناتی ہے جو اسےگناہ کےزہرآلودہ تیروں سے محفوظ رکھتاہے، انسان کے اندر شیطانوں اورطاغوتوں کا مقابلہ کرنے کا جوش و جذبہ اجاگر کرتی ہے؛ یہاں حج گزار امت اسلامی کی عظیم عظمت کے ایک نمونے کومشاہدہ کرتا ہےاوراس کی توانائی اور ظرفیت کا اسے علم ہوجاتا ہےاوروہ مستقبل کےبارے میں پر امیدہوجاتاہے؛ اس میں نقش آفرینی کےلئے آمادگی کا احساس پیدا ہوجاتاہے،نیزاگر اللہ تعالی کی توفیق اور مدد شامل حال ہو جائے تو پیغمبر اسلام (ص) کی دوبارہ بیعت اور اسلام کےساتھ دوبارہ عہد وپیمان کو مضبوط اور مستحکم کرلیتا ہے۔اوراپنی اصلاح ، امت اسلامی کی اصلاح اور کلمہ اسلام کی سر افرازی اور سربلندی کے لئے اپنا عزم پختہ و راسخ کرلیتا ہے۔
اپنی اصلاح اور امت اسلامی کی اصلاح کےدونوں فریضے معطل نہیں ہوسکتے اوراہل تدبر و تفکر کے لئے عقل و خرد وبصیرت ، دینی ذمہ داریوں اور وظائف میں گہری سوج کے ساتھ اس کی حکمت عملی کوئی دشوارکام نہیں ہے۔
اپنی اصلاح ، شیطانی وسوسوں کا مقابلہ کرنے اور گناہ سے دوری اختیار کرنے کے ذریعہ حاصل ہوجاتی ہے،اورامت کی اصلاح، دشمن کی شناخت، اس کے منصوبوں کی پہچان، اس کی عداوتوں اور منصوبوں کو غیر مؤثر و ناکام بنانے کی جد وجہد وتلاش اور مسلمان قوموں کے باہمی اتحاد و یکجہتی کے ذریعہ حاصل ہوجاتی ہے۔
موجودہ دور میں عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ شمالی افریقہ اور عرب خطے میں رونما
ہونے والے انقلابی تغیرات ہیں جس کا امت اسلامیہ کی تقدیر و سرنوشت سے گہرا تعلق ہے، جو اب تک کئی
بدعنوان، امریکہ کی فرمانبردار اور صیہونزم کی مددگار حکومتوں کے زوال ، سقوط اور اسی قسم کی دیگر
حکومتوں کے تزلزل کا باعث بنے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے اس عظیم موقع کو گنوا دیا اور اسے امت اسلامیہ کی
اصلاح کی راہ میں استعمال نہ کیا تو انھیں بہت بڑا نقصان اور خسارہ اٹھانا پڑےگا۔
اس وقت جارح و تسلط پسند سامراج ان عظیم اسلامی تحریکوں کو منحرف کر نے کے لئے پوری طرح حرکت میں آ گیا ہے۔
ان عظیم قیاموں میں مسلمان مرد و زن، امریکہ ایسے نواز ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں جو اپنی قوموں کی تحقیر و تذلیل پر کمر بستہ تھےاور جرائم پیشہ صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز کررہےتھے مسلمانوں نے موت و زندگی کی اس عظیم لڑائی میں اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نعروں کو اپنا سفینہ نجات قراردیاہے اور ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انھوں نے مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور غاصب حکومت کے خلاف جہاد کو اپنے مطالبات میں سر فہرست قرار دیا ہے۔ مسلم اقوام کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے امت اسلامیہ کے اتحاد کی دلی خواہش کا اعلان کیا ہے۔
یہ ان ملکوں میں عوامی تحریکوں کے بنیادی ستون ہیں جہاں حالیہ دو برسوں میں عوام نے آزادی و اصلاح پسندی کا پرچم لہرایا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انقلاب کے میدانوں میں قدم رکھا ہے۔ یہی چیزیں عظیم امت اسلامیہ کی اصلاح کی بنیادوں کو مضبوطی و مستحکم کر سکتی ہیں۔ ان اساسی اصولوں پر ثابت قدمی ان ملکوں میں عوامی انقلابات کی فتح کی لازمی شرط ہے۔
دشمن انہیں بنیادوں کو متزلزل کر دینے کے در پے ہے۔ امریکہ، نیٹو اور صیہونزم کے بدعنوان مہرے کچھ لوگوں کی غفلت و سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم نوجوانوں کی طوفانی تحریک کو منحرف کرنے، انہیں اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے دست و گریباں کر دینے اور سامراج مخالف اور صیہونیت مخالف جہاد کو عالم اسلام کی گلیوں اور سڑکوں پر اندھی دہشت گردی میں تبدیل کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ مسلمانوں کا خون ایک دوسرے کے ہاتھوں سے زمین پر جاری ہو، دشمنان اسلام اپنی مسدود راہوں کو کھول سکیں اور اسلام اور مجاہدین اسلام کو بدنام کریں اور ان کی چہرے کو مسخ کریں۔
اسلام اور اسلامی نعروں کے خاتمے کے سلسلے میں مایوس ہو جانے کے بعد انہوں نے اب مسلم فرقوں کے درمیان فتنہ ڈالنے کا رخ کیا ہے اور شیعہ خطرے اور سنی خطرے کی سازشی باتیں کرکے امت اسلامیہ کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹیں ایجاد کر رہے ہیں۔
وہ علاقے میں اپنے زرخرید عناصر کی مدد سے شام میں بحران پیدا کررہےہیں تا کہ قوموں کی توجہ اپنے ممالک کے حیاتی مسائل اور گھات میں بیٹھے خطرات سے ہٹا کر اس خونریز مسئلے پر مرکوز کر دیں جسے انہوں نے خود عمدا پیدا کیا ہے۔ شام میں خانہ جنگی اور مسلمان نوجوانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام وہ مجرمانہ عمل ہے جو امریکہ، صیہونزم اور ان کی فرمانبردار حکومتوں کے ہاتھوں شروع ہوا ہے اور اس آگ کو مسلسل شعلہ ور کیا جارہا ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ مصر، تیونس او لیبیا کے ڈکٹیٹروں کی حامی سامراجی حکومتیں اب شام کے عوام کی جمہوریت پسندی کی حامی بن گئی ہیں؟ شام کا قضیہ در حقیقت شامی حکومت سے انتقام لئے جانے کا قضیہ ہے جس نے تین دہائیوں تک اکیلے ہی غاصب صیہونیوں کا مقابلہ اور فلسطین و لبنان کی مزاحمتی تنظیموں کا دفاع کیا ہے۔
ہم شام کے عوام کے طرفدار اور اس ملک میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت اور اشتعال انگیزی کے خلاف ہیں۔ اس ملک میں کوئی بھی اصلاحی اقدام خود وہاں کے عوام کے ہاتھوں اور خالص ملی و قومی طریقوں سے انجام پانا چاہیے۔ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے کہ عالمی تسلط پسند طاقتیں اپنی تابع فرمان علاقائی حکومتوں کی مدد سے کسی ملک میں بحران کھڑا کر دیں اور پھر اس ملک میں بحران کے نام پر خود کو ہر مجرمانہ کارروائی کا مجازتصور کرلیں، اگر علاقے کی حکومتوں نے اس پر توجہ نہ دی تو انہیں بھی اس استکباری مکر و فریب میں اپنی نوبت آنے کا منتظر رہنا چاہیے۔
عزیزبھائیو اور بہنو! موسم حج، دنیائے اسلام کے حیاتی مسائل پر غور و فکر کا بہترین موقعہ ہے۔ علاقے کے انقلابات کا مستقبل اور ان انقلابات سے زخم کھانے والی طاقتوں کی ان انقلابوں کو منحرف کر دینے کی کوششیں، انہی مسائل میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں انقلابی ملکوں کو بدگمانی میں مبتلا کر دینے کی خائنانہ سازشیں، مسئلہ فلسطین، مجاہدین کو تنہا اور فلسطین کے جہاد کی شمع کو خاموش کر دینے کی کوششیں، مغربی حکومتوں کی اسلام دشمنی پر مبنی تبلیغاتی مہم، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکوتی بارگاہ میں گستاخانہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کی ان کی جانب سے حمایت، بعض مسلم ممالک میں خانہ جنگی اور انھیں تقسیم کردینے کے مقدمات، انقلابی قوموں اور حکومتوں پر مغربی تسلط پسند طاقتوں سے مقابلہ کا خوف بٹھانا اور اس توہم کی ترویج کہ ان کے مستقبل کا انحصار انہی جارح طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے پر ہے، اسی قسم کے دوسرے اہم ترین اور حیاتی مسائل بھی ہیں جن کے بارے میں حج کے اس موقعہ پر آپ حجاج کرام کی ہمفکری اور ہمدلی کے زیر سایہ تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
بیشک نصرت و ہدایت خداوندی، جانفشانی کرنے والے مومنین کو امن و سلامتی کی راہ سے آشنا بنا دےگی۔ «و الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ..»
والسلام عليكم و رحمة و بركاته
سيّد علي خامنهاي
30 / مهر /1391 ، مطابق پنجم ذي الحجه ۱۴۳۳
سلیمیہ مسجد - ادرنه ؛ تركي
سلیمیہ مسجد (ترکی زبان: Selimiye Camii) ترکی کے شہر ادرنہ کی ایک مسجد ہے۔ یہ مسجد عثمانی سلطان سلیم دوئم کے حکم پر تعمیر کی گئی اور اسے مشہور معمار سنان پاشا نے 1568ء سے 1574ء کے درمیان تعمیر کیا۔ اسے سنان پاشا کے فن کا عظیم ترین شاہکار اور اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔
اس مسجد کے مینار ترکی کے بلند ترین مینار ہیں جن کی بلندی 70.9 میٹر ہیں۔ یہ جامع مسجد ایک کلیہ (مسجد کے گرد شفا خانہ، مدرسہ، کتب خانہ اور حمام) کے مرکز میں قائم ہے جو ایک مدرسہ، دار الحدیث اور ایک آراستہ (دکانوں کی قطار) کے درمیان واقع ہے۔ اس میں ایک تاریخی شفا خانہ بھی واقع ہے جسے اب عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔
سنان نے مسجد کا طرز تعمیر ایسا رکھا کہ مسجد کے ہر کونے سے محراب صاف دکھائی دے۔ اس مسجد میں روایتی عثمانی طرز تعمیر کے حامل چار خوبصورت مینار بھی شامل ہیں جبکہ ایک عظیم گنبد پر اس پر موجود ہے۔
مسجد کے گرد کتب خانے، مدرسہ، حمام، لنگر خانہ، بازار، شفا خانہ اور ایک قبرستان بھی قائم کیا گیا تھا۔ 1915ء میں بلغاریہ کی جانب سے ادرنہ کے محاصرے کے موقع پر مسجد کا گنبد بلغاری توپ خانے کی زد میں آ گیا لیکن مضبوط تعمیر کے صرف اس کی بیرونی تہہ کو ہی نقصان پہنچا۔
غزہ کو ہتھيار فراہم کرنا اوجب واجبات ، نصراللہ
حزب اللہ لبنان کے سيکريٹري جنرل نے ، غزہ پٹي کو اسلحے کي فراہمي کو اوجب واجبات يا سب سے زيادہ ضروري فريضہ قرارديا ہے -
سيد حسن نصر اللہ نے پير کي رات ، ماہ محرم کي مناسبت سے اپني ايک تقرير ميں ، غزہ پر اسرائيلي حکومت کے وحشيانہ حملوں پر عرب ملکوں کے کمزور اور معذرت خواہانہ رويے پر تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ آج غزہ پٹي تک اسلحہ پہنچانا سب سے بڑا فريضہ ہے -
انہوں نے واضح کيا کہ اسرائيلي يہ سوچتے ہيں کہ فلسطيني مزاحمتي تنظيموں کے ميزائل ختم ہو گئے ہيں اور ان کي جد و جہد ختم ہو جائے گي اسي لئے اسلامي اور عرب ملکوں پر واجب ہے کہ وہ اپني سرحديں کھول ديں اور غزہ پٹي ميں مزاحمتي محاذ کے لئے زيادہ ميزائليں بھيجيں -
حزب اللہ لبنان کے سيکريٹري جنرل سيد حسن نصر اللہ نے غزہ ميں فلسطيني مجاہدين کي استقامت کي جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تک فلسطيني استقامت کي جانب سے صيہونيوں کو جرات مندانہ جواب ديا جارہا ہے اور ان کي طرف سے جنگ بندي کے لئے پيش کي گئ شرطوں پر ڈٹے رہنا بھي اہم ہے - سيد حسن نصر اللہ نے کہا کہ آج عرب ملکوں سے يہ توقع کي جا رہي ہے کہ وہ غزہ کے شہريوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے نہ يہ کہ غزہ پٹي اور اسرائيل کے درميان ثالثي کا کردار ہي ادا کرتے رہيں گے - انہوں نے واضح کيا کہ غزہ پٹي پر اسرائيلي جنگي طياروں کے حملے کے مقابلے ميں اکثر عرب ملکوں نے ، ہلال احمر کميٹي کا کردار ادا کيا ہے يعني ان کے نمائندے غزہ کا دورہ کر رہے ہيں اور دوائيں نيز مالي امداد روانہ کرنے کي باتيں کررہے ہيں
رہبر معظم سے اس سال حج کے اہلکاروں اور کارکنوں کی ملاقات
۲۰۱۲/۱۱/۱۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز پیر) اس سال حج کے حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں حج کو ایک استثنائی واجب قراردیا اور عالم اسلام میں اتحاد کے اہم مسئلہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حج کے موسم میں عالم اسلام کی کثرت، عظمت اور اتحاد حقیقت میں جلوہ گر ہوتا ہے اور اس عظیم ظرفیت سے بہترین انداز اور شائستہ طور پر استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حج کو عبادت، تضرع و زاری اور سیاسی و سماجی حضور کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی سے قبل ایرانی حجاج کی توجہ صرف اعمال حج صحیح انجام دینے پر مرکوز ہوتی تھی،جبکہ اس عظیم اور استثنائی اجتماع میں مسلمانوں کی کثرت، عظمت اور اتحاد کے پہلو بھی نمایاں ہیں جن کے ذریعہ سماجی تعمیر و ترقی ،انسان سازی اور اسلامی اتحاد کی تشکیل کے سلسلے میں استفادہ کیا جاسکتا ہے اور یہ اعلی نقطہ نظر ایرانی حجاج کے لئے بھی واضح ہونا چاہیے۔
شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد دوسرا نکتہ تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف کا مسئلہ کوئی جدید اور نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ماضی سے یہ اختلاف جاری ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان اختلافات میں غیر طبیعی طور پر اضافہ ہوگیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اختلافات کو اسلامی معاشرے پر مسلط کیا جارہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےشیعہ و سنی کے درمیان صرف اتحاد اور مفاہمت پر تاکید کو ناکافی قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض اختلافات صرف تصورات ،شبہات اور توہمات پر مبنی ہیں اور ان توہمات اور تصورات کی اصلاح ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ دیگر اختلافات اورغلط رفتار کی بھی اصلاح ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں مناسب و منطقی حل کی تلاش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حج کے اہلکاروں سے خطاب میں تیسرے نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حجاج کی ذہنی سیاسی گرہیں بھی باز کرنی چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے بحران کو ذہنی سیاسی گرہوں کا ایک نمونہ قراردیا اور شام کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مؤقف کے واضح ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام کے مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں علاقہ میں اسرائیل کی ہمسائگی میں اسلامی مقاومت کے حلقہ کو کمزور کرکے اسے نابود کرنا چاہتی ہیں۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شام میں ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی کو شام کے مسئلہ کا اصلی حل قراردیتے ہوئے فرمایا: جہاں بھی اپوزيشن کو باہر سے ہتھیار فراہم کئے جائيں اور ملک میں بحران پیدا کیا جائے تو قدرتی طور پر ہرحکومت ان کے خلاف کارروائی کرےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر شام میں اپوزیشن کے افراد ہتھیار زمین پر رکھ دیں تو ان کے نظریات کو حکومت غور سے سنی گي اور ان کے مؤقف پرغور و خوض کرےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حجاج کو مناسب خدمات فراہم کرنے پر حج کے اعلی حکام اور کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: حجاج کو پیش کی جانے والی رفاہی اور تبلیغی خدمات پرکبھی بھی قانع نہیں ہونا چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں ایرانی حجاج کے سرپرست اور نمائندہ ولی فقیہ حجۃ الاسلام والمسلمین قاضی عسکر نے بعثہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے ثقافتی، معنوی اور بین الاقوامی سطح پر انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
اسی طرح حج و زیارت ادارے کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد موسوی نے بھی اجرائی اقدامات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
ایران کے خلاف یکطرفہ پابندیاں غیرقانونی ہیں
پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یکطرفہ پابندیاں غیرقانونی اور ناقابل قبول ہیں۔
اسلام آباد سے ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق حنا ربّانی نے کل رات کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے لیکن ایران کے خلاف یکطرفہ پابندیاں یکسر غیر قانونی اور بلا جواز ہیں ۔ انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ پابندیوں کے باوجود ،حکومت پاکستان ایران سے کئے جانیوالے معاہدوں پر عمل کرے گا۔
کوجاتپہ مسجد - انقرہ،ترکی
کوجاتپہ مسجد (ترکی زبان: Kocatepe Camii، کوجاتپہ جامع) ترکی کے دارالحکومت انقرہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ 1967ءسے1987ء کے درمیان قزلے کے علاقے میں تعمیر کی گئی۔ اپنے وسیع حجم اور اہم مقام پر تعمیر کے باعث یہ وسطی انقرہ کے تقریباً تمام حصوں سے نظر آتی ہے۔
مسجد کی تاریخ
کوجاتپہ مسجد کی تعمیر کا خیال 1940ء کی دہائی میں پہلی بار آیا۔ 8 دسمبر1944ء کو ترک مذہبی امور کے نائب صدر احمد حامدی نے 72 بانی اراکین کے ہمراہ ایک انجمن تشکیل دی جو "انجمن برائے تعمیر جدید مسجد بر انقرہ" کہلائی۔ 1947ء میں اس انجمن نے مختلف ماہرین تعمیرات سے مسجد کی تعمیر کے لیے منصوبوں کا مطالبہ کیا لیکن جمع کرائے گئے کسی بھی منصوبے کو شرف قبولیت نہیں ملا۔ 1956ء میں اس وقت کے وزیر اعظم عدنان میندریس کی کوششوں سے انقرہ میں مسجد کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کر لی گئی اور 1957ء میں ایک مرتبہ پھر منصوبے طلب کیے گئے۔ اس مرتبہ 36 منصوبوں پر غور کیا گیا، جن میں سے ویدات دلوکے اور نجات تکلی اوغلو کے مشترکہ منصوبے کو منتخب کیا گیا۔
منظور شدہ منصوبہ انتہائی جدید نوعیت کا تھا۔ تعمیر کا آغاز ہوا لیکن قدامت پسندوں کی جانب سے شدید اعتراضات کے باعث بنیادیں ڈلنے کے بعد اس کی تعمیر روک دی گئی۔ ویدات دلوکے بعد ازاں کوجاتپہ مسجد ہی کے نقشے کو مزید بہتر بنا کر اسلام آباد، پاکستان میں قومی مسجد کی تعمیر کے لیے کرائے گئے ایک مقابلے میں پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔ یہ مسجد بعد ازاں "شاہ فیصل مسجد" کہلائی جو دنیا کی بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے۔ ویدات کی پاکستان میں بنی ہوئی یہ مسجد جدید اسلامی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔
1967ء میں تیسرے مقابلے کے بعد خسرو تائلا اور فاتن اولوانگن کا روایتی انداز کا نقشہ منظور کیا گیا۔ مسجد کی تعمیر 1987ء میں مکمل ہوئی اور یوں 16 ویں صدی کے عثمانی طرز تعمیر کے انداز کی ایک مسجد انقرہ کے قلب میں نمودار ہوئی، جو دیکھنے میں استنبول کی نیلی مسجد سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔